پوسٹ تلاش کریں

اسلامی دنیا کو خلافت علی منہاج النبوۃ قائم کرنا ہوگی. عتیق گیلانی

اسلامی دنیا کو خلافت علی منہاج النبوۃ قائم کرنا ہوگی. عتیق گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

عالم اسلام میں بادشاہت، جمہوریت، ڈکٹیٹر شپ اور فرقہ واریت کا دور دورہ ہے۔ القاعدہ، طالبان، داعش اور فرقہ واریت کے علاوہ ہمارے ریاستی نظام بھی عوام کیلئے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ افغانستان،عراق، لیبیا، شام کے بعد ایران، سعودیہ اور پاکستان کی باریاں بھی آسکتی ہیں، ہم سے زیادہ خوش فہمی کا شکار تباہ ہونے والے وہی ممالک تھے۔ ہم پرچاروں طرف سے دشمن کا گھیراؤ ہے۔ ایران، افغانستان اور عرب ممالک کی پاکستان سے زیادہ بھارت سے دوستی ہے۔ چین کے ترقی یافتہ علاقے سمندرکے ذریعہ سے دنیا میں ملے تھے تو دنیا میں کونسی تبدیلی آئی ہے؟۔ گوادر سی پیک کے ذریعہ چین کاپسماندہ ایریا دنیا سے مل جائیگا تب بھی دنیا میں کونسا بڑا انقلاب آئے گا؟۔ روس کے خلاف جب دنیا افغانستان میں جنگ لڑرہی تھی تو بھی راہداری پاکستان کے ذریعہ تھی اور جب نیٹو نے طالبان کیخلاف جنگ لڑی تب بھی راہداری کی یہی راہ تھی۔ البتہ پاکستان نے اب راہداری کے ذریعہ دوسروں کی جنگ لڑنے کے بجائے مثبت راستے کا سفر شروع کیا ہے اور اللہ کرے کہ خیر سے تبدیلی آئے۔
بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ چکا ہے، اسلئے تسلسل کیساتھ بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جنرل راحیل شریف کے دور میں ملک کی داخلی صورتحال بہت بہتر ہوئی۔ طالبان، بلوچستان اور کراچی کے حوالہ سے جو کامیابی ریاست کی رٹ بحال کرنے میں ملی اس کا انکار کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ پاکستان بدریج بد سے بد حال تک جیسے پہنچ چکا تھا، اس میں قوم کے کسی ایک فرد یا ادارے کا کردارنہ تھا بلکہ پوری قوم زوال کی انتہا پر پہنچ چکی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے جمہوری جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگی قیادتوں کو جبری جلاوطن کر دیاتھا، عدالتوں کو پرغمالی بنالیالیکن فوجی قیادت عوام کی اصلاح نہ کرسکی تھی۔
جمہوریت اور عدالتیں بحال ہوئیں تو عدالت نے سیاست شروع کردی اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو ٹف ٹائم دیا، اگر اصغر کیس کے ذریعہ انصاف کے تقاضے پر عمل پیرا ہوکر یوسف رضا گیلانی کی طرح نوازشریف کو بھی نااہل قرار دیا جاتا تو قوم کا عدلیہ پر بے انتہااعتماد بڑھ جاتا۔ ریاست کی رٹ صرف فوجی طاقت سے ہمیشہ کیلئے بحال نہیں رہ سکتی ہے۔ عوام کے اعتماد کیلئے زیادہ اہمیت عدل و انصاف کے نظام کی ہوتی ہے۔پختونخواہ کے طالبان، بلوچستان کے قوم پرست اور کراچی کی ایم کیوایم سے زیادہ معاشرتی ظالمانہ نظام کا پنجاب میں راج ہے۔وزیردفاع وپانی وبجلی خواجہ آصف اور اقبال کے شہرسیالکوٹ کا تازہ واقعہ ہے کہ’’ دلہن کو اجتماعی زیادتی کا شکار بنایاگیا، شور مچانے پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ پولیس مجرموں کی پشت پناہی کررہی ہے‘‘۔ شور مچانے اور تشدد کا نشانہ بننے سے ڈر کر چپ کی سادھ لینے والوں کی کتنی ان گنت کہانیاں ہوں گی؟۔ یہ اس وقت پتہ چلے گا جب مظلوموں کا ظالموں کیخلاف انقلاب آئیگا۔ سیاسی جماعتیں عوامی نہیں بلکہ آشیرباد رکھنے والوں کی داشتائیں ہیں۔
القاعدہ، طالبان داعش کے علاوہ کراچی کی ایم کیوایم، بلوچی قوم پرست اور اندرون سندھ کی پارٹیاں زمانے کے جبر سے وجود میں آئی ہیں۔ امریکہ کا مجاہدین کو استعمال کرنے کے بعد پھینک دینے سے القاعدہ بن گئی، افغانستان میں مجاہدین تنظیموں کی بدمعاشی سے مجبوری میں طالبان آگئے، امریکی حملے کی وجہ سے پاکستانی طالبان وجود میں آگئے، عراق پر حملے بعد شام میں کاروائی کی وجہ سے سنی مکتبۂ فکر کو ریلف مل گئی تو دولت اسلامیہ عراق وشام تشکیل پائی ،جو داعش کے نام سے دنیا میں پھیل گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بقول امتیاز عالم کے پنجابی اسٹیبلشمنٹ سے اردو اسپکینگ مہاجروں کو کاٹ کر سند ھیوں سے ملا دیا تو ایم کیوایم کیلئے بنیاد بن گئی۔نجم سیٹھی نے پنجاب کے ظلم کی داستان نہری نظام کی شکل میں بیان کی ہے جس سے سندھ بنجر بن گیا اور احساسِ محرومی کالا باغ ڈیم میں رکاوٹ کا سبب بنا۔ بلوچستان کے وسائل کے باوجود عوام کی غربت کا مسئلہ بغاوت تک لے گیا۔ پاکستان سے عالمی اسلامی خلافت علی منہاج النبوۃ کا آغاز ہوجائے تو دنیا بھر کے مسلمانوں کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
مدارس کے نصاب کی اصلاح سے کم عقل لوگوں کے چنگل سے اسلام کی تعبیرو تشریح پر اجنبیت کے پردے ہٹ جائیں گے۔ لونڈی بنانے کے نظام کو قرآن نے آلِ فرعون کا اختراع قرار دیاہے، امریکہ نے عافیہ صدیقی کو قید کرکے لونڈی بنانے سے بھی بڑی سزا دی ہے۔ طویل المدت قید انسانیت کی بہت بڑی تذلیل، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور شرافت پر بڑا دھبہ ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟