پوسٹ تلاش کریں

ملیر اور لیاری ندی شفاف پانی سے بہہ سکتے ہیں. ابرار صدیقی

ملیر اور لیاری ندی شفاف پانی سے بہہ سکتے ہیں. ابرار صدیقی اخبار: نوشتہ دیوار

K4منصوبے پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے حیدر آباد کے پاس ڈیم بنا کر سندھ کے دار الخلافہ کراچی کو نہری سسٹم سے آباد کیا جائے

سیلابوں، طوفانوں، بارشوں اور دریائے سندھ پر ڈیموں کے ذریعے اتنا پانی جمع ہوسکتاہے کہ کراچی میٹھے پانی سے بہت مالا مال ہوگا پاکستان میں اللہ کی بہت بڑی نعمت پانی کا بہاؤ ہے لیکن حکمرانوں کی نااہلی کے سبب عوام کبھی طوفانِ نوح میں غرق اور کبھی کربلا کی پیاس مرتے ہیں

کراچی (پ ر) نوشتۂ دیوار لانڈھی کراچی کے نمائندے ابرار صدیقی نے کہاہے کہ ہمارا ملک وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود مسائل کا شکار اسلئے ہے کہ حکمران جھوٹے، مفاد پرست اور بہت نااہل ہیں۔سندھ میں طوفانی بارشوں اور سیلابوں سے بچنے کیلئے بھی ڈیموں کا سلسلہ شروع کیا جاتا تو آج ہمارے ملک کا نقشہ ہی مختلف ہوتا۔K4 پر اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں اور بجلی کے ذریعے سے کراچی کو پانی کی سپلائی ہوگی۔ اگر سمجھدار دیہاتی ملک کے حکمران ہوتے تو حیدر آباد سے مغرب کی طرف قدرتی ڈیم کو دریائے سندھ سے مصنوعی کنکشن دیدیتے اور کراچی کو پانی کے قدرتی بہاؤ سے مالامال کردیتے۔ حکمرانوں کی ہر منصوبے میں زیادہ سے زیادہ کرپشن پر نظر ہوتی ہے۔ کالاباغ ڈیم کے علاوہ ہمارے ملک میں بہت سارے ڈیموں کا سلسلہ ہونا چاہیے تھا،پہاڑی علاقوں سے سستی بجلی پیدا کرتے تو دنیا بھر کے مارکیٹوں پر ہماری اندسٹریوں کا قبضہ ہوتا۔پانی کے ذخائر سے انواع و اقسام کے باغ سبزیاں اور اناج اگاسکتے تھے، افغانستان اور نوآزاد مسلم ممالک کی مارکیٹ بھی ہمارے پاس تھی۔
سندھ کے تھرپارکر میں انسان اور پرندوں کے بادشاہ جنگلی مور پانی نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہورہے ہیں۔ پنجاب وسندھ اور بلوچستان میں پانی کی قلت سے زمینیں بنجر ہیں اور حکمرانوں کے بچے پاکستان کو لوٹ کر اپنے بچوں کو بیرون ملک آباد کررہے ہیں۔علاج و تعلیم ، رہائش وآسائش اور بال بچے باہر ہوں تو ان کو اس ملک کے باسیوں کی کیا فکر ہوگی؟۔
ملک ریاض ایک شخص ہے اور کراچی سے دبئی بنانے میں پیسہ بھی کمارہا ہے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر بھی ڈال رہاہے۔ ہمارا حکمران طبقہ کام کا ہوتا تو کراچی سے حیدر آباد تک پورا علاقہ بحریہ ٹاؤن سے زیادہ ترقی یافتہ بن جاتا۔ کراچی کی آبادی خستہ حالی کا شکار ہے ، پانی کی قلت سے بے حال کراچی کے مکین میٹھے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حیدرآباد سے جو نوری آباد کے مغربی جانب بارش کیلئے ڈیم بنایا گیاہے ، یہ بھی بڑا کارنامہ ہے لیکن اس کو دریا کے پانی سے کنکشن دیا جاتا اور سیلاب کے پانی سے بھر دیا جاتا تو پائپ لائن اور بجلی کے ذریعہ نہیں بلکہ نہروں کے ذریعہ سے کراچی میں پانی داخل ہوتا۔ جب بہترین منصوبہ بندی سے نہر کے ذریعے پانی آتا تو لیاری اور ملیر ندی صاف اور شفاف پانی سے بھرے رہتے۔ پنجاب کے اندر زمینوں کیلئے دور دراز علاقوں میں نہروں کا سلسلہ موجود ہے تو ملک کے پرانے دارالخلافہ اور سندھ کے صدرمقام کراچی کیلئے بھی ایک نہر بنادی جاتی۔ اب بھی یہ سب کچھ ہوسکتاہے لیکن نیت اور ہمت کی ضرورت ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا
اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے