پوسٹ تلاش کریں

بھارت کی پاکستان سے ممکنہ جنگ کے خطرات و نتائج 

بھارت کی پاکستان سے ممکنہ جنگ کے خطرات و نتائج  اخبار: نوشتہ دیوار

بھارت میں جمہوری نظام ہے، سیکولر بھارت میں ہندوستان کی بقاء ہے اور فرقہ پرست، متعصبانہ ذہنیت اور ہندو ازم بھارت کیلئے تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ جب من موہن سنگھ بھارت کا وزیراعظم تھا تو کارگل کے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنیوالے بلکہ کریڈٹ لینے والے جنرل پرویزمشرف نے پاکستانی مجاہدین کا راستہ روکا تھا۔ پرویز مشرف کے دست راست وفاقی وزیرجسے بھارت نے ویزہ دینے سے انکار کیا تھا،شیخ رشید نے کہا تھا کہ ’’ مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان کے مجاہدین سے تنگ تھے، وہاں جاکر کشمیریوں سے آدمی پوچھے کہ ان مجاہدین سے لوگ کتنے تنگ ہیں اور کس قدر مصائب کا شکار ہیں، حکومت نے اچھا کیا ہے کہ مجاہدین پر وہاں سے پابندی لگادی ‘‘۔ شیخ رشید کا بیان وعدہ معاف گواہ کی طرح نہیں تھا بلکہ یہ سلطانی گواہی ہے، لیکن یہ چاپلوسی اور غلط بیانی نہ تھی۔ کشمیر کے مجاہدین جو جانوں کا نذرانہ پیش کررہے تھے تو ہندوستانی فوج بدلے میں کشمیری خواتین کی عزتوں تک کو لوٹ لیتے تھے۔ مجاہدین کی اپنی مائیں بہنیں تو وہاں نہیں ہوتی تھیں۔ شیخ رشید نے کشمیری مسلمانوں کے دکھ درد کو صحیح سمجھ لیا تھا۔ مجاہدین کی بجائے کارگل جیسی کاروائی سے کشمیر کو آزاد کرنے پر پرویزمشرف کو یقین آیا تھا۔
جب پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کا سلسلہ بالکل بند کیا تواسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیریوں نے آزادی کی تحریک تیز کردی۔ مودی سرکار نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تو کشمیریوں کی طرف سے پھولوں کے گلدستوں کی امیدکیوں کی جاسکتی ہے؟۔ کشمیری مجاہدین کو ہوسکتا ہے کہ بھارتی فوج یا خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے خود اتنا بارود فراہم کیا ہو،اسلئے کہ ایک طرف بدترین تشدد سے دنیا بھر میں اس کا چہرہ بڑا بدنام ہوا۔ دوسری طرف پاکستان پر مداخلت کے امکانات نہیں رہے ہیں۔اگر کشمیر پر ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں تو کیا کشمیری مجاہدین کو کسی اور کی ترغیب سے خود کش کرنیکی ضرورت پڑ سکتی ہے؟۔ پاکستان پر امریکن ڈرون حملے ہوتے تھے، ازبک کمانڈروں کی یلغار ہوتی تھی اور بڑے پیمانے پر قبائلی پاک فوج سے تنگ تھے تو بھی عوام نے چپ کی سادھ لی تھی جب باہر سے مداخلت کا سلسلہ بند ہوا ، تو قبائل میں پشتون تحفظ موومنٹ نے جنم لیا۔ چیک پوسٹوں پر سختی ختم کرنے کا مطالبہ ہوا۔ مائن صاف کرنے کا مطالبہ ہوا۔ دونوں مطالبے پر عمل کا آغاز ہوا۔ PTMکے بے روزگار جوانوں کو ایک شغل مل گیا۔ چندوں اور شہرت نے منہ کی مٹھاس میں اضافہ کردیا۔ بین الاقوامی قوتوں نے پذیرائی بخش دی مگر فوج نے برداشت کا مادہ ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ کشمیر میں لوگوں کو مظاہروں کا موقع دیا جاتا تو روز روز اپنے بازار بند اور کاروبار زندگی مفلوج ہونے سے آخر تنگ آجاتے، جس طرح کراچی میں عوام ایم کیوایم کے جلسے جلوس اور ہڑتالوں سے تنگ آچکے تھے۔بھارت میں مودی سرکار کی حکومت نہ ہوتی اور کشمیریوں پر مظالم کا حکم بھارتی فوج کو نہ ملتا تو حالات ایسے خراب نہیں ہوسکتے تھے۔ بھارتی آزاد میڈیا اور اپوزیشن رہنما اور ہندوستان کی خالق پارٹی کانگریس مودی سرکار پر اسلئے تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اگر وہاں آزاد میڈیا اور آزاد سیاست نہ ہوتی تو مودی سرکار فوج کو پاکستان سے جنگ کا حکم دے چکی ہوتی۔
جنگ کوئی بڑی نعمت ہوتی تو خوشحال عراق اور لیبیا بدحال نہ ہوتے۔ اب تو افغانستان کے لوگ بھی تنگ آمدبہ جنگ آمد سے تنگ آمد بہ امن آمد ہوچکے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ عالمی طاقتوں کی خواہش ہے کہ لسانیت کے نام پر ایک نئی اور تازہ جنگ شروع ہو۔ بیرون ملک سے ایجنڈے پر تیزی سے عمل دکھائی دیتاہے اور اگر اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کامیاب ہوگئی تو یہ خطہ ایک بار پھر جنگ کا سامنا کریگا۔ بیرونی لڑائی سے اتنا نقصان نہیں ہوتاجتناآپس کی خانہ جنگی سے ہوتا ہے۔ ریاست اور عوام کی لڑائی میں جو تباہی بربادی قوم کی ہوتی ہے،اس کی واضح مثال افغانی ہیں۔ دربدر خاک بہ سرافغانی اور بارود کے ڈھیر سے کھنڈر افغانستان کی سرزمین عبرت ہے جس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت نے اگر پاکستان پر جنگ مسلط کردی تو اس خطے کی آگ کو بجھانے کا اختیارحکمرانوں کے ہاتھ سے نکل جائیگا۔ امریکہ کو چین سے خطرات ہیں اور ان خطرات سے نمٹنے کا ایک علاج ہے کہ ہندوستان و پاکستان میں لڑائی ہوجائے ۔ کشمیر کا تنازعہ عالمی قوتوں نے پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رکھا تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کے اس تنازعہ کا حل ضروری ہے ، عالمی قوتوں کو موقع ملنے کی یہ واحد وجہ ہے۔برصغیر پاک وہند کے لوگ اپنے عظیم نسلی اور علاقائی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایران ، افغانستان اور عرب امارات و سعودی عرب کو بھی بھارت سے مسئلہ نہیں۔ پاکستان اور بھارت اپنے دیرینہ مسئلہ کشمیر کو حل کریں تو دونوں ملک کی عوام اور ریاستیں ڈھیر ساری خوشیوں سے مالامال ہوسکتی ہیں۔ زید حامد نے ٹھیک کہا ہے کہ’’ اگر 7لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی مداخلت کا راستہ نہیں روک سکتی تو بھارت کو چاہیے کہ اپنی افواج کو کھیتی باڑی کے کام پر لگادے‘‘۔ دنیا کی کوئی بھی فوج ہو اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔ پاکستان میں جنرل ایوب ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف کے عہدے پر قبضہ جمائے رکھا تو ایک طویل دورانیہ تک پاک فوج کی اعلیٰ قیادتیں اپنے حقوق سے بھی محروم رہیں۔ نچلا طبقہ تو صرف حکم کا پابند ہوتا ہے۔ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکا تو اس میں فوج کا کوئی قصور نہیں ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے اپنے مفادات کیلئے ملک اور قوم کو بری طرح سے استعمال کیا۔ ذو الفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور عمران خان کو اقتدار کے مواقع ملے اور اس طرح سے دیگر کئی سیاسی و غیر سیاسی رہنما وزیر اعظم اور صدر کی حیثیت سے آئے گئے۔ مشرقی و مغربی پاکستان میں جنرل ایوب خان نے اے ڈی ،بی ڈی ممبروں کے چناؤ سے عوامی جمہوریت کا ایک بہترین آغاز کیاتھامگر بھٹو کے ذریعے فاطمہ جناح کیخلاف دھاندلی سے سیاست تباہ کی اور پھر مجیب الرحمن اور ذو الفقار علی بھٹو نے ملک کو دو لخت کرنے میں کردار ادا کیا۔
سول بیورو کریسی نے انگریز کے جانے کے بعد نہ سیاسی شعور ابھرنے دیا اور نہ ہی مذہبی تصورات کیلئے کوئی بنیادی کام ہونے دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن سول و ملٹری بیوروکریسی سے زیادہ بے شعور اور اسلام سے بے بہرہ ہمارے مدارس اور علماء و مفتیان تھے۔ شعور کی دولت عام ہوجائے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے لوگ آگاہ ہوں تو سب ٹھیک ہوجائیگا۔ بھارت کا با شعور طبقہ کبھی بھارتی فوج کو جنگ آزمائی کی طرف دھکیلنے کی کوئی کوشش نہیں کریگا۔ کم عقل دونوں طرف سے موجود ہوتے ہیں لیکن ایٹمی طاقت اور غربت کے مارے ہوئے لوگوں کو جنگ کی ہولناکیوں کی طرف لے جانا بہت خطرناک ہوگا۔ بھارت ہندو ازم اور جنگی جنون کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
پاکستانی پارلیمنٹ طلاق کے مسئلہ پر قرآن کے مطابق بحث کا آغاز کرے تو بھارت سے صلح کی راہ ہموار ہوگی اسلئے کہ غیرفطری طلاق انسانی المیہ ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟