پوسٹ تلاش کریں

آج میرا موضوع دو مظلوم ہیں ایک قرآن اور دوسرا پاکستان: سید عتیق الرحمن گیلانی کا اوکاڑہ میں خطاب

آج میرا موضوع دو مظلوم ہیں ایک قرآن اور دوسرا پاکستان: سید عتیق الرحمن گیلانی کا اوکاڑہ میں خطاب اخبار: نوشتہ دیوار


اوکاڑہ ( تنویر ، ذکاء اللہ) سید عتیق الرحمن گیلانی نے خصوصی دعوت پر اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج میرا موضوع دومظلوم ہیں، ایک قرآن ، دوسرا پاکستان۔ قرآن کے بارے میں نبیﷺ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں شکایت فرمائیں گے کہ ’’ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘ اور یہ بات ظاہر ہے کہ امت میں تمام افرادہی شامل ہیں۔ علماء ، صوفیاء عظام اور عوام الناس سب سے شکایت ہوگی کہ انہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ قرآنی آیت میں وآخرین منھم لما یلحقوبھم سورۂ جمعہ سے مرادفارس کے افراد ہیں نبیﷺ نے فرمایا کہ اگرایمان ثریا پر پہنچ جائے اور علم یا دین ثریا پر پہنچ جائے تب بھی وہ ایک شخص یا چندا فراد اس کو واپس لائیں گے۔ امام ابوحنیفہؒ کے دور میں اسلام اس طرح اجنبی بھی نہ بنا تھا۔ موجودہ دور میں اسلام اجنبی بن چکا ہے۔ نبیﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو حاکم بنایا تو پوچھا کہ جب کوئی مسئلہ پوچھے گا یا کوئی فیصلہ کرنا ہوگا تو کس طرح فیصلہ کروگے؟۔ حضرت معاذؓ نے کہا کہ قرآن سے ۔ رسول ﷺ نے پوچھا کہ قرآن میں نہ ملے تو؟، کہا کہ پھر سنت سے فیصلہ کرونگا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ سنت میں نہ ملے تو؟، فرمایا کہ پھر اپنے آپ اجتہاد کرونگا، جس پر نبیﷺ بہت خوش ہوگئے۔ آج کوئی مسئلہ آتا ہے تو اس کا حل قرآن سے نہیں بلکہ اپنے مسلکوں کی روشنی میں دیا جاتاہے۔
میں حنفی مسلک کی بات نہیں کرتا ہوں بلکہ اہلحدیث کی بات لے لو۔ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک دن ایک طلاق دی، پھر اس نے تین دن بعد دوسری طلاق دی اور دس دن بعد تیسری طلاق دی تو اہلحدیث کا فتویٰ یہ ہوگا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتاہے اسلئے کہ تیسری مرتبہ طلاق بعد رجوع کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ یہ فتویٰ غلط اور قرآن و سنت کے بالکل منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ’’ انکے شوہروں کو عدت میں صلح کی شرط پر انکے لوٹانے کا حق ہے‘‘۔( البقرہ آیت:228)
اللہ تعالیٰ نے پوری عدت میں رجوع کا صلح کی شرط پر حق دیا ہے مگرامت مسلمہ نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے۔ ایک حدیث بھی ایسی نہیں ہے کہ جس میں عدت کے اندر صلح کی شرط کے باوجود بھی رجوع سے روک دیا گیا ہو۔ جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی زوجہ کو حیض میں طلاق دی اور نبیﷺ کو خبر پہنچی تو آپﷺ غضبناک ہوگئے۔ ان کو بلایا اور رجوع کا حکم دیا اور فرمایا کہ پاکی کی حالت میں پاس رکھو ، حتی کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت میں پاس رکھو یہانتک کہ حیض آجائے اور پھر پاکی کی حالت میں رکھنا چاہو تو رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے قرآن میں اس طرح طلاق کا امر کیا ہے۔ بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق۔ اس حدیث کو بخاری کی کتاب الاحکام، کتاب العدت، کتاب الطلاق میں نقل کیا گیا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی اپنی کتاب میں متضاد احکام نازل فرمائے؟۔
(تفیصلی خطاب نیٹ پر دیکھ لیجئے گا)

https://zarbehaq.tv/

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز