پوسٹ تلاش کریں

خلافت قائم ہو توعریاں لباس لونڈیوں کی بھرمار ہوگی؟ اداریہ شمارہ جنوری2019

خلافت قائم ہو توعریاں لباس لونڈیوں کی بھرمار ہوگی؟ اداریہ شمارہ جنوری2019 اخبار: نوشتہ دیوار

یہ تأثر ہے کہ اسلامی خلافت قائم ہوگی تو دنیا بھر کے کفار کو دعوت دی جائے گی کہ اسلام قبول کرو، نہیں توجزیہ دو، ورنہ جہاد کیلئے تیار ہوجاؤ۔ پھر انکے مردوں کو غلام اور خواتین کو لونڈی بنایا جائیگا۔ لونڈی کا لباس مختصر ہوگا۔ ایک طرف خواتین کیلئے پردے کی پابندی ہوگی۔ سعودیہ وایران اور افغانستان کے طالبان دور میں خواتین کیلئے جو پردہ رائج تھا، یہ اسلامی ماڈل ہے تو دوسری طرف حسین لونڈیوں کی نیم وعریاں لباس میں چہل پہل، ریل پیل اور دھوم دھام نئی دنیا کا منظر پیش کررہاہوگا۔ دنیامیں جنت نظیر حوروں کی بہتات اور واہیات سے کیا نظارے ہوں گے۔ کیا یہی مصور پاکستان شاعرمشرق اقبال کے خواب کی تعبیر ہوگی کہ
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
جب لونڈی کامختصر لباس ہوگا۔ بسوں، ریل گاڑیوں اور پبلک مقامات کے ہر منظر وگوشے پر مخلوط حضرات ولونڈیوں کا سماں ہوگا، یہ قانون ہوگا کہ شادی شدہ لونڈی کی سزا نصف ، 100 نہیں 50 کوڑے ہونگے اور اگر لونڈی شادی شدہ نہ ہوگی تو اس کی سزا کا کوئی تصور نہ ہوگا۔ اگر لونڈیاں پاکدامن رہنا چاہیں تو زناپر مجبورنہ کیا جائیگا۔ ولاتکرہوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا ’’اوراپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں‘‘۔
بڑی تعداد میں حسین وجمیل لونڈیوں کی اسلامی خلافت میں آمد کے بعد آدمی کیلئے تعداد کی بھی پابندی نہ ہوگی۔ جب سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں جواں سال لونڈیوں کی جھرمٹیں سرمایہ دار اور بااثر طبقات کی ملکیت ہونگی تو فیکٹریوں ، ملوں ، مارکیٹوں اور دفاتر میں ان سے کام لیا جائیگا اور سب کی جنسی خواہشات پوری کرنا بھی انکے بس کی بات نہ ہوگی۔ مالکان کی اجازت سے نکاح کیا جاسکے گا لیکن اس نکاح کی ثانوی حیثیت ہوگی ، اگر آزاد عورت میسر نہ ہو تو ہی ان سے نکاح ہوگا۔ جب انکے ساتھ ان کی خواہش پر بدکاری کی جائے تووہ سزا کی مستحق نہ ہونگی اور گواہی کیلئے چار افراد کی ایسی شہادت ممکن نہ ہوگی جس کا اسلامی مروجہ قانون میں تقاضہ ہے۔ یہ تو اس صورت میں ممکن ہوگا کہ جس طرح مولانا طارق جمیل نے حوروں کی تعریف کی ہے کہ ستر لباس میں بھی وہ عریاں نظر آئیں گی اور جنت کی شراب طہور پیتے ہوئے اسکے حلق میں اترتی نظر آئیگی اور اسکے بے قرار دل میں محبت کی تڑپ سے ہلتی جلتی ہوئی شریانیں بھی نظر آئیں گی۔ اس طرح سے اگر دنیا کی زمین میں انسانی جسم شفاف مادے کی طرح ہوجائیں تو سرمہ دانی اورکنویں میں سلائی اور ڈول کی رسی نظرآنی ممکن ہوسکے گی اور کسی ایک نے گواہی کا حق اس طرح سے پورا نہ کیا تو حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کیخلاف گواہی دینے والے 3 افراد کی طرح الٹی ماربھی ان گواہوں کو ہی پڑے گی۔
بہت سارے دانشور ،ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور مذہبی منطق لڑانے والے اس طرح کے اقدامات اورماحول کو جواز بخشنے کیلئے ایران ،سعودیہ اور افغانستان سے مشابہ قوانین کیلئے زیادہ بہتر عقلی اور نقلی دلائل بھی پیش کرینگے۔ روس و امریکہ اور برطانیہ بھی دوسروں کو کچل کر غلام بنادیتے تھے تو انکے خلاف اپنے کبھی بغاوت نہیں کرتے ۔ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان ، عراق اور لیبیا کو تباہ کردیا اور شام کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور یمن اپنوں کے ہاتھوں تباہ ہے۔ آنے والا وقت بتائیگا کہ ایران ، سعودیہ اور پاکستان کی باری کب لگتی ہے۔ اس جنگی مہم جوئی کے جواز کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ طاقتور ہیں جو چاہیں کرنے کا حق ہے، البتہ یہ مہربانی ہے کہ ہماری خواتین کو لونڈیاں نہیں بنایا گیا۔ ورنہ تو افغانستان وعراق اور لیبیا کی مسلم خواتین اسرائیل وامریکہ، برطانیہ و یورپ میں لونڈیوں کی صورت میں دنیا بھر کی میڈیا پر دکھائی جاتیں اور ہماری کچھ این جی اوز کی خواتین یہ دعوت دیتیں پھرتیں کہ یہاں کی آزادی سے وہاں کی لونڈی بننا بدرجہا بہتر ہے۔
جب طاقت کیساتھ مذہبی جذبہ مل جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا توڑ نہیں نکال سکتی ہے۔ افغانستان میں نیٹو کی طاقت مذہب کے مقابلے میں اس طرح سے ناکام ہوئی کہ کوئی تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ افغانیوں کو رام کرنے میں طاقت، پیسہ ، وسائل اور سازشوں کے تانے بانے استعمال کرنے کے بعد بھی اس طرح سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ایک طرف نیٹو نے بے تحاشا ظلم و جبر دکھانے کے باوجود مسلم خواتین کو لونڈی بنانے کا کام نہ کیااور دوسری طرف سعودیہ نے مغرب کی آزادی خواتین کو دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، اسلامی جذبوں اور جہادی قوتوں کے پیچھے ہمیشہ سے ریاست کارفرما رہی ہے ۔ ریاست قادیانیوں کیساتھ تھی تو عدالتوں نے قادیانی مخالف علماء کو فسادی اور قادیانیوں کو صحیح مسلمان کہا تھااور ختم نبوت کی تحریک چلانے والوں کو پھانسیوں کی سزا اور معافی مانگنے سے لیکر علماء اور عاشقانِ رسول ﷺ کو داڑھی تک منڈوانا پڑ گئی تھی۔ حکومت اسلامیہ کالج کراچی کی جگہ پر شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی کا یادگار بنانے کیلئے علامہ یوسف بنوری ؒ کو مدرسہ بنانے کیلئے دے رہی تھی مگر قادیانیوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور مولانا احتشام الحق تھانوی اس میں رکاوٹ بن گئے۔ پھر ریاست کا موڈ بدل گیا تو ایک ایسی تحریک ختم نبوت جو مجلس احرار اسلام کے قائد سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی عظیم قربانیوں کے بعد بھی کامیاب نہ ہوسکی مگر علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کی قیادت میں کامیاب ہوگئی۔ اگر ریاست نے وزیراعظم عمران خان کی قیادت طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کے ذریعے خلافت قائم کردی اور امریکہ وبرطانیہ اور یورپ و اسرائیل کو اپنا حلیف قرار دیا تو روس وچین ،بھارت، جاپان وکوریا اور کئی دیگر ممالک سے خواتین کو لونڈیاں بناکر ایک نئی مہم جوئی کا آغازبھی کرسکتے ہیں۔
ریاست مدینہ میں یہودونصاریٰ کیساتھ میثاق اور مشرکین سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ تھا۔ پاکستان کیساتھ اسرائیل میثاق مدینہ کا بڑا فریق ہوگا اور بھارت کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوگا تو بعض مسلمان مشرک بنیں گے۔پھر جب امریکی CIA مجاہدین کی طرح سے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو استعمال کرنے کے بعد پھینکے گی بلکہ مخالف کاروائیاں شروع ہونگی تو اقتدار مرزائیوں کو سونپ دیا جائیگا۔ جن کا نظریہ جہاد کی منسوخی ہوگا۔ مسلم اکثریت تھک ہار کر علماء ومفتیان کے اسلام سے بیزار ہوچکی ہوگی۔انگریز کے خود کاشتہ پودے کاتناآور درخت مرزا قادیانی کا پھل مسلم و غیرمسلم کھائیں گے اور اصلی اسلام کی جگہ جعلی اسلام لے گا توسارا قصہ ختم ہوگا ۔جہاد کے خاتمہ میں قادیانی نبوت ناکام ہوگئی مگر تبلیغی جماعت نے جہاد سے عملی طور پر لوگوں کو دور کردیا۔ مولانا مسعود اظہر نے اسلئے انہی سے گلہ کیا تھا،کرایہ کے جہاد نے جہاد کو بدنام کرکے اسکی تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟