پوسٹ تلاش کریں

قرآن نے حلالہ کا تصور قائم نہیں بلکہ قطعی طور پر ختم کیااور شرعی پہلو واضح کیا

قرآن نے حلالہ کا تصور قائم نہیں بلکہ قطعی طور پر ختم کیااور شرعی پہلو واضح کیا اخبار: نوشتہ دیوار


سورۂ بقرہ کی آیات 222تا 229 تک تفصیل سے دیکھو

قرآن کریم کی آیات کاایک دوسرے سے فطری ربط موجود ہے، اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ ’’ آپ جلد بازی سے کام نہ لیں۔ اس کا جمع کرنا( ترتیب و تدوین) ہماری ذمہ داری ہے اور پھر اس کا واضح کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے‘‘۔ تفسیر بالرائے کی انتہائی سخت مذمت ہوئی ہے مگر تفسیری آراء میں اتنا بڑا اختلاف ہے جس میں جائزو ناجائز اور حلال وحرام تک کے اختلافات آگئے ہیں۔ کوئی بھی شخص تفاسیر کی کتب سے استفادہ کرکے ایک نئی تفسیر کر ڈالتا ہے۔ غلام احمد پرویز کے پیروکاروں کی پاکستان میں بہت بڑی تعداد ہے اور اس نے ’’ تبویب القرآن‘‘ کے نام سے اپنی ایک کتاب بھی مرتب کی ہے۔ علماء کرام نے غلام احمد پرویز کی اس شکایت کا بہت برا منایا ہے کہ قرآن کے اندر بکھرے مضامین کو ایک اچھی ترتیب سے نہ مرتب کیا جائے تو یہ اللہ کی نہیں کسی اچھے مصنف کی کتاب بھی نہیں لگتی ہے۔ حقیقت ہے کہ اس سے بڑی بکواس اور کیا ہوسکتی ہے؟،مگر علماء کرام نے جس طرح فقہی مسالک کی خاطر قرآن کے اصل متن اور مفہوم کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے ، نتیجے میں قرآنی آیات کے واضح مضامین کا واضح سے واضح مفہوم بھی بالکل مسخ ہوکر رہ گیا ہے۔ مردان میں علماء کرام کو وائٹ بورڈ و بلیک مارکر سے آیات کا مفہوم سمجھایا۔ پہلے مجھے گلہ تھا کہ علماء کرام اور مفتیانِ عظام جان بوجھ کر قرآن کو نظر انداز کررہے ہیں، اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ اپنے پکے اسباق کی وجہ سے کسی قدر معذور ہیں۔
علماء کرام سے گزارش ہے کہ فجر کے وقت قرآن کی آیات کے اصل متن ، اسکے مفہوم اور مسائل کو سمجھ لیں۔
قرآن نے حلالہ کا تصور دیا نہیں بلکہ جاہلیت کے دور میں رائج حلالہ کو نہ صرف ختم کیا بلکہ شوہر کیلئے طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کی اصل صورتحال بھی سمجھادی۔ عورت کو جن اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اللہ تعالیٰ نے ان سب کا نہ صرف خاتمہ کیا بلکہ کمالِ بلاغت سے واضح بھی کیا۔
سورۂ بقرہ آیت222میں اللہ نے فرمایا:’’ تجھ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہیے کہ یہ اذیت ہے‘‘۔ علماء نے اس سے گند مراد لیا ہے، حالانکہ عربی کی کسی لغت میں بھی اذیٰ کے معنی گند کے نہیں ہیں۔ آیت میں حکم ہے کہ حیض کی حالت میں انکے قریب نہ جاؤ،یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں، جب پاک ہوجائیں تو انکے پاس آئیں اللہ پاکی رکھنے والوں اور توبہ کرنیوالوں کو پسند کرتا ہے۔
پاکی کا تعلق گند اور توبہ کا تعلق اذیت سے ہے۔ جس چیز سے بھی عورت کو اذیت ملتی ہو ، اس صورت میں اسکے ساتھ مباشرت کرنے کی آیت میں روک تھام ہے۔ جس کوترجمہ اور کتب فقہ وتفسیر میں نظرانداز کردیا گیا ہے۔
البقرہ آیت223میں ہے کہ تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں۔ انگریزی میں ایسٹ کہتے ہیں، بیویاں بچوں کی مائیں ہوتی ہیں، دنیا اور جنت کی رفیقِ حیات ہوتی ہیں۔ والدین، بہن بھائی اور بچوں کی اپنی زندگی ہوتی ہے ، بیوی جوڑی دار ہوتی ہے۔ یہ کتنا ظلم ہے کہ علماء نے اس کو کھیتی قرار دیا ہے؟ کھیتی کے حقوق تو گھرکے جانوروں جتنے نہیں اذیٰ اور حرث کا درست ترجمہ ومفہوم سامنے ہوتا تو فقہ کے ائمہ میں یہ اختلاف نہ ہوتا کہ لواطت حرام ہے یا حلال؟۔
البقرہ آیت 224میں اللہ نے فرمایا کہ’’ اپنے عہد و پیمان کیلئے اللہ کو ڈھال نہ بناؤ کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘‘۔ ایمان یمین کی جگہ ہے جو صرف حلف یا قسم کیلئے نہیں آتا بلکہ ہرقسم کے عہد اور وعدہ ، حلف، قول ، طلاق ، ظہار، ایلاء سب شامل ہیں۔ یہ طلاق کیلئے ایک بنیادی کلیہ ہے کہ میاں بیوی صلح چاہتے۔ مذہب اس میں رکاوٹ بنتا تھا۔ اللہ نے یہ فتویٰ ختم کرنے کیلئے اس آیت کو مقدمہ کے طور پر پیش کیا ہے کہ میاں اور بیوی ہی نہیں مشرک ومسلمان، یہودی، ہندو، عیسائی وغیرہ کسی کے درمیان صلح کیلئے یہ بہانہ نہ بناؤ کہ اللہ رکاوٹ ہے۔ خاص طور پر میاں بیوی کے درمیان طلاق کے بعد۔
البقرہ آیت 225 میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ ’’ اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتا ہے مگر تمہارے دلوں نے جو کمایا ہے اس پر پکڑتا ہے‘‘۔ گزشتہ سے پیوستہ آیت کا ربط یہی ہے کہ صلح نہ کرنے یا جدائی کیلئے کوئی عہد کیا جائے تو کسی لغو بات کیلئے مذہبی بہروپ کے پاس دوڑ کر جانے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ الفاظ نکل گئے ہیں اب میاں بیوی میں صلح ہوسکتی ہے یا نہیں؟۔ اللہ خود فتویٰ دیتا ہے کہ اس پر تمہاری کوئی پکڑ نہ ہوگی ، البتہ دلوں کے گناہ پر اللہ نے پکڑنا ہے۔ دلوں کا گناہ بھی آگے واضح ہے۔
البقرہ آیت226میں ہے کہ’’ جو بیویوں کے پاس نہ جانے کا عہد کرلیں تو ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے۔ پھر اگر وہ مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے‘‘۔جب عورت کو طلاق دینے کا کھل کر اظہار نہ کیا تو لامحدود مدت تک اس کو انتظار نہیں کرایا جاسکتا ہے اسلئے چار ماہ کی مدت متعین ہے۔یہ بھی عورت کو اذیت سے بچانے کا اہم معاملہ ہے۔ جمہور فقہاء کا مسلک ہے کہ جب تک طلاق کا زبانی اظہار نہ کرے تو عمر بھر بھی طلاق نہ ہوگی اور حنفی مسلک میں چار ماہ گزرتے ہی طلاق واقع ہوگی۔ دونوں کو مرد کے حق سے مطلب تھا، عورت کی اذیت سے نہیں۔ قرآن اس قدر لغو اختلاف کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی متحمل ہوسکتا ہے۔
البقرہ آیت227میں ہے کہ ’’ اگر انکا طلاق کا عزم تھا تو اللہ سنتا جانتا ہے‘‘۔یہ سمیع اور علیم کے الفاظ ڈرانے کیلئے ہیں اسلئے کہ دل میں عزم ہو اور طلاق کا اظہار نہ کیا جائے تو یہ دل کا گناہ ہے اور وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں طلاق کی عدت ایک ماہ بڑھ جاتی ہے۔ جس پر اللہ نے دل کے گناہ اور اس پر پکڑنے کا کھل کر اظہار فرمایا ہے۔
البقرہ آیت228میں طلاق کے اظہار پر تین ادوار کی عدت کو واضح کیا ہے اور اس میں اصلاح کی شرط پر ہی ان کے شوہروں کو لوٹانے کا حق دیا ہے۔ مردوں کیلئے اس آیت میں عورتوں پر ایک درجے کا ذکر کیا ہے اور دونوں کے ایکدوسرے پر مساوی معروف حقوق کو واضح کیا ہے۔ اس سے بڑا درجہ اورکیا ہوسکتا ہے کہ شوہر طلاق دیدے اور عورت عدت تک انتظار کرے؟۔ یہ بھی عورت کے مفاد میں ہے۔بچھڑنے پر عورت کو زیادہ مشکل کا سامنا ہوتاہے اسلئے اللہ نے مرد کو حق مہر کیلئے سکیورٹی کا پابند کیا ہے۔ یہ آیت بھی تمام مسائل کے حل کیلئے کافی ہے کہ عورت ایک عدت تک انتظار کی پابند ہے اور اس میں شوہر کو اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق حاصل ہے۔ اگر شوہر کو غیرمشروط حق دیا جائے تو یہ ایکدوسرے پر معروف حق کا تصور نہ ہوگا۔
البقرہ آیت 229میں اللہ تعالیٰ نے مزید وضاحت کردی ہے کہ ’’ طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روک لینا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ واپس لے لو، الا یہ دونوں کو یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکتے ہوں۔ پھر اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو ان سے تجاوز کرے توبیشک وہی ظالم ہیں‘‘۔
یہ آیت گزشتہ سے پیوستہ بھی ہے اور معاشرے کیلئے ایک بہترین گلدستہ بھی ہے اور آنے والی آیت کی تفسیرمیں برجستہ بھی ہے۔ قرآن پاک کی آیات میں دشمن کیلئے بھی چیلنج ہے کہ’’ کوئی تضاد ثابت کرکے دکھائیں۔ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے تضادات وہ پاتے‘‘۔یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ نے عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دیا ہو اور اس کو عدت میں بھی چھین لیا ہو۔ علماء وفقہاء نے فقہی موشگافیوں کے سبب قرآن میں تضادات کے انبار کھڑے کردئیے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے عدت کے تین ادوار تک انتظار کو متعین کردیا ہے تو یہ سمجھنے میں کیا دشواری ہے کہ انہی ادوار میں الگ الگ تین مرتبہ طلاق کا ذکر کیا ہے؟ جبکہ نبیﷺ نے غضبناک ہوکر یہی مفہوم اسلئے طہرو حیض کے ادوار کی وضاحت کرتے ہوئے سمجھایا ہے۔ پہلے طہرو حیض میں پہلی مرتبہ کی طلاق، دوسرے طہرو حیض میں دوسری مرتبہ کی طلاق، پھر تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ کی طلاق۔ اس آیت میں تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے جدا نہیں ہوسکتا ہے۔ عورت کیلئے عدت کا انتظار ایک اذیت ناک چیز ہے مگریہ اسکے اپنے مفاد میں بھی ہے اور جو شوہر نے اس کو سہولیات دی ہیں اس کا تقاضہ بھی ہے۔
اگر مرحلہ وار تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا فیصلہ ہوگیا تو بھی عدت میں رجوع کیلئے قرآن وحدیث میں کسی پابندی لگنے کا کوئی تصور نہیں۔ البتہ ایسی صورت میں اللہ نے واضح کردیا کہ اسکے بعد جو کچھ بھی شوہر نے دیا تھا اس میں کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے ،الا یہ کہ دونوں کو یہ خوف ہو کہ ۔۔۔‘‘ یہ وہ صورتحال ہے کہ جب میاں بیوی اور انکے درمیاں فیصلہ کرنیوالے افرادباہوش وحواس اسی نتیجے پر پہنچیں کہ اب دونوں رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہ ہونا چاہئے۔ ایسی صورت میں سوال یہ پیدا نہیں ہوتا ہے کہ اگر رجوع کرلیا جائے تو ہوجائیگا یا نہیں؟۔ بلکہ ایک دوسرے معاشرتی روگ کا مسئلہ سامنے آتا ہے کہ شوہر اسکے باوجود بھی عورت پر اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے پر پابندی لگادیتا ہے اسلئے کہ یہ اس کی عزتِ نفس کا مسئلہ ہوتا ہے۔
ریحام خان کو عمران خان نے طلاق دی تو اس کوبڑی دھمکیاں دی گئیں کہ لندن سے واپس مت آؤ۔ اس نے کہا کہ میں پٹھان ہوں اور جان پر کھیلنا آتا ہے۔ بہرحال آیت کا مفہوم آئندہ آیت کیلئے ایک بہترین مقدمہ ہے۔

پھر البقرہ آیت 230کا واضح مطلب اچھی طرح سمجھ لو۔

البقرہ آیت230 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ اگر اس نے پھر طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے، پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو دونوں کو رجوع کی اجازت ہے بشرط یہ کہ دونوں کو یقین ہو کہ اللہ کے حدود پر قائم رہ سکیں گے‘‘۔ آیت میں کوئی ابہام نہیں ہے اور اس سے پہلے والی آیت میں صورتحال بھی واضح ہے۔ جب وہ دونوں جدا ہونا چاہتے تھے اورشوہر کی طرف سے بیوی کو دی گئی چیز اسلئے واپس کی گئی کہ اس عورت کی منزل دوسری شادی تھی اور ظاہر ہے کہ جب اس کی دوسری جگہ شادی ہو اور پہلے شوہر کی دی ہوئی کوئی چیز رابطے کا ذریعہ اور حدود کو توڑنے کا باعث بن رہی ہو تو وہ فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ چونکہ شوہر ایسی صورت میں طلاق کے بعد بھی اپنی عزتِ نفس کا مسئلہ سمجھ کر اس کو اپنی مرضی سے کہیں نکاح نہیں کرنے دیتا اسلئے واضح الفاظ میں دوسری جگہ نکاح کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک زیادہ عمر والے جوڑے میں طلاق اور جدائی کی یہ نوبت پہنچ جائے تو عورت کو اپنی مرضی سے کسی اور سے نکاح کرنے کی وضاحت ہے۔ جب دوسرے شوہر سے طلاق مل جائے تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچوں سے پیار کی خاطر پہلے سے نکاح تو کرلیا جائے مگر دوسرے کی زوجیت میں رہنے کے پیشِ نظر یہ خدشہ بھی موجود ہو کہ اللہ کی حدود پائمال ہوں۔ اسلئے سب واضح کردیا ہے۔
ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوسکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے عدت کی مدت میں رجوع کی گنجائش رکھ دی اور عدت کی تکمیل کے بعد یہ گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ اور اس آیت230میں اللہ تعالیٰ نے پھر اس حلالے کو زندہ کردیا ہے جس کا تصور ایام جاہلیت میں تھا۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے ان مذہبی طبقات کی طرف سے پیدا کئے جانے والے خدشات کا قلع قمع کردیاہے۔ جس کی وضاحت آئندہ آیات میں ہے۔

پھرالبقرہ: 231،232 اگلی آیات اور سورۂ طلاق دیکھو!

البقرہ آیت 231میں اللہ نے فرمایا کہ ’’جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور ان کی عدت پوری ہوگئی تو ان کو معروف طریقے سے روکو یا معروف طریقے سے چھوڑ دو۔ اور اسلئے مت روکو تاکہ ان کو ضرر پہنچاؤ، اور جو ایسا کرتاہے تو وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے۔ تم یاد کرو جو نعمت اللہ نے تم پر کی ہیں اور جو کتاب میں سے آیات نازل کی ہیں اور حکمۃ کو، ان آیات سے ان کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرۃ کے دن پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔ قرآن میں کہیں کوئی تضاد کا شائبہ تک بھی نہیں ہے۔ پہلے یہ واضح کردیا تھا کہ عدت کی مدت میں بھی صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے۔ پھر یہ واضح کردیا کہ جب تین الگ الگ مراحل میں طلاق کا فیصلہ ہوش وحواس کیساتھ ہوجائے اور آئندہ کوئی رابطہ نہ رکھنے پر اتفاق ہو اور کوئی چیز رابطے کا ذریعہ بن کر حدود توڑنے کا باعث بنتی ہو تو اس کو واپس کرنے میں حرج نہیں۔ یہی وہ صورتحال تھی کہ جب دونوں میاں بیوی اور معاشرہ جدائی کو ناگزیز سمجھتے ہوں اور اس میں ایک معاشرتی مسئلہ یہ بھی تھا کہ اس طلاق اور جدائی کے باوجود بھی شوہر عورت کو اپنی مرضی سے دوسرے سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔ بچے سامنے گھومتے ہوں اور اس کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کیا جائے تو یہ صورتحال معاشرے کیلئے آج بھی گھمبیر ہے لیکن قرآن نے عورت کو بالکل آزادی دی ہے اور اس وجہ سے قرآن پوری دنیا کیلئے عام طور پر خواتین اور غیر مسلم معاشرے کیلئے ،خاص طور پرمغرب کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کیلئے ہدایت کا زبردست وبہترین ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ اگر بیوی راضی ہو توپھر عدت کی تکمیل کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔ معروف کی شرط باہمی رضامندی کی بنیاد پر ہے۔ ورنہ تو عدت کے اندر بھی غیرمشروط رجوع کی اجازت نہیں ہے، جس کی وجہ سے فقہ کی کتابیں منکرات سے بھری پڑی ہیں۔ احناف رجوع کو نیت کا پابند بھی نہیں سمجھتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی رجوع ہوجاتا ہے اور شوافع کے نزدیک مباشرت بھی رجوع نہیں ہوتا ہے۔ علماء ومفتیان اور مدارس والے اللہ کے عذاب سے ڈریں اور مسلمان خاندانوں پر رحم کریں۔مولانا سمیع الحق کی شہادت المیہ بھی ہے اوربہت بڑی عبرت بھی۔
البقرہ آیت 232 میں اللہ تعالیٰ نے رجوع کیلئے حد کردی ہے۔ فرمایا’’ جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور وہ اپنی عدت کو پہنچ گئیں تو ان کو اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، جب وہ معروف طریقے سے آپس میں رجوع کرنے پر رضامند ہوں،اس میں تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی اور زیادہ تزکیہ ہے‘‘۔ یہ وہ صورتحال ہے کہ جب عورت نے خلع لیا ہو۔ یہ اسلئے بتانا پڑ رہا ہے کہ ایک عالم دین علامہ تمنا عمادی نے اپنی کتاب ’’ الطلاق مرتان‘‘ میں خلع کی صورت میں حلالہ کا حکم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ حنفی مسلک کی کتاب نورالانور اور اصول فقہ کا بھی تقاضہ ہے۔ علامہ ابن قیم شاگرد ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’’ زادالمعاد‘‘ میں خلع کے باب میں ابن عباسؓ کی یہ تفسیر بھی نقل کی ہے۔ جس کو میں بار بار نقل کرچکا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے بعد یہ حکم نازل کیا کہ جو مؤمنات ہجرت کرکے آئیں تو پہلے ان کا امتحان لیں اور یہ ثابت ہوجائے کہ واقعی وہ ایمان والی ہیں تو ان کو سابقہ شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، ’’یہ ان کیلئے حلال نہیں اور وہ ان کیلئے حلال نہیں‘‘۔اس میں حلال نہ ہونے کی نسبت دونوں طرف کی گئی ہے اور حلال نہ ہونے کا تصور شریعت کی بنیاد پر نہیں بلکہ لغت کی بنیاد پر تھا۔ حضرت علیؓ نے سمجھ لیا تھا کہ یہ شرعی حلال نہ ہونے کا تصور ہے اسلئے فتح مکہ کے موقع پر اپنے بہنوئی حضرت ام ہانیؓ کے مشرک شوہر کو قتل کرنا چاہا۔ جس کوپھر نبیﷺ نے پناہ دیدی تھی۔
آیت230البقرہ میں حلال نہ ہونے کا تصور صرف شوہر کی طرف منسوب ہے اورآیت 232 میں یہ واضح کردیا کہ بیوی اپنے شوہر سے رجوع پر رضامند ہو تو اس کیلئے کوئی رکاوٹ پیدا کرنا غیر شرعی ہے۔ جسکے بعد فتوے کی گنجائش نہیں رہتی۔ البتہ بسا اوقات مصلحت اس میں سمجھ لی جاتی ہے کہ رکاوٹ پیدا کرنے میں رنجش کا معاملہ ہوتاہے۔ سورۂ طلاق کی آیات میں مزید وضاحت ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں