پوسٹ تلاش کریں

دیوبندی مدارس کے علماء و مفتیان کے نام کھلا خط : از سید عتیق الرحمن گیلانی

دیوبندی مدارس کے علماء و مفتیان کے نام کھلا خط : از سید عتیق الرحمن گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

ولقد اٰتینا موسی الکتٰب فاختلف فیہ ولولا کلمۃ سبقت من ربک لقضی بینھم و انھم لفی شکٍ منہ مریب O و ان کلا لما لیوفینھم ربک اعمالھم انہ بما یعملون خبیر O فاستقم کماامرت ومن تاب معک ولاتطغوا انہ بماتعملون بصیرًاOولاترکنوٓا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ومالکم من دون اللہ اولیاء ثم لاتنصرونO و اقم الصلوٰۃ طرفی النھار و زلفاً من الیل ان الحسنٰت یذھبن السیئات ذٰلک ذکریٰ للذٰکرین O
سورۃ الھود : آیت109سے113تک)

درج بالا قرآنی آیات کا ترجمہ:
’’اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں بھی اختلاف کیا گیااور اگر اللہ کی طرف سے پہلے لکھا نہ جاچکا ہوتا تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔ اور اب تک لوگ اس سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور بے شک ہر ایک کو اسکے عمل کا آپ کا رب پورا بدلہ دیگا۔ وہ جو کرتے تھے وہ اس کی خبر رکھتا ہے۔ لہٰذا (اے پیغمبر!) جس طرح تمہیں حکم دیا گیا اسکے مطابق چلو اور جو لوگ توبہ کرکے تمہارے ساتھ ہیں وہ بھی قائم رہیں اور حد سے آگے نہ بڑھو ۔ بے شک وہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے اور (اے مسلمانو!)ان ظالم لوگوں کی طرف ذرا بھی نہ جھکنا ورنہ تمہیں بھی آگ پکڑے گی۔ پھراللہ کے علاوہ تمہارا کوئی ساتھ نہ ہوگا اور تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ اور (اے پیغمبر!) نماز پڑھیں دن کے کناروں پر اور رات کے ٹکڑوں میں ‘‘۔
درج بالا قرآنی آیات کی تشریح:
یہود نے توراۃ میں اختلاف کا کیا، وہ عذاب کے مستحق بن چکے تھے۔اللہ چاہتا تو انکے درمیان فیصلہ کرتا پھر وہ حق وباطل کے شک میں پڑگئے تھے۔ امت مسلمہ بھی انہی کے نقش قدم پر چل قرآنی آیات میں اختلافات کا شکار ہوسکتی تھی ۔اسلئے نبیﷺ اور آپ کے ساتھیوں توبہ کرنے والوں کو حکم دیا گیا کہ قرآنی احکام میں اپنے حدود سے تجاوز مت کرو، وہ اللہ تمہارے اعمال کی خبر رکھتا ہے۔ اگر مسلمانوں نے ظالموں کی طرف جھکاؤ کر ڈالا، تو ان کو آگ پکڑلے گی۔ پھر اللہ کے علاوہ کوئی مدد کرنیوالا نہ ہوگا۔آج سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مدارس کسی تجارت کے مرکز کا منظر پیش کرتے ہیں۔ قرآنی آیات کی جگہ خیالات اور آراء کی خرافات نے لے لی ہے۔
دن کے اطراف میں نماز کا حکم ہے اور رات کے مختلف ٹکڑوں میں ۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب ، عشاء اور تہجد کا ذکر نہیں۔ جہاں 6ماہ دن اور 6 ماہ رات ہو۔ وہاں پنج وقتہ نمازاورتہجدہوسکتی ہے۔ یہ قرآن کا بڑا معجزہ ہے کہ نماز کے اوقات کا تعین ان ممالک سے نہ کیا جدھر ایک جیسے دن رات 24گھنٹے ہوتے ہیں بلکہ قرآن نے نماز کے اوقات میں دنیا بھر کی عالمگیر یت کاپتہ بھی بتادیا ہے۔

یوم ندعوا کل اناس بامامھم۔۔۔O ومن کان فی ھذہٖ اعمیٰ فھو۔۔۔O وان کادوا لیفتنوک عن الذی اوحینآ الیک لتفتری علینا غیرہ واذًا لاتخذوک خلیلًاOولو لآ ان ثبتنٰک لقد کدت ترکن الیھم۔۔۔Oاذًا لاذقنٰک ضعف الحےٰوۃ ۔۔۔ Oوان کادوا لیستفزونک من الارض لیخرجونک منھا واذًا۔۔۔O سنۃ من قد ارسلنا قبلک من ۔۔۔ O اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الیٰ غسق الیل و قرآن الفجر۔۔۔O ۔۔۔ عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محموداًO و قل رب ادخلنی مدخل صدقٍ ۔۔۔واجعل لی من لدنک سلطان نصیراًO و قل جاء الحق ۔۔۔O و ننزل من القرآن ماھوا شفاء و رحمۃ للمؤمنین ولا یزید الظالمین الا خساراًO و اذا انعمنا علی الانسان اعرض۔۔۔O قل کل یعمل علیٰ شاکلتہٖ فربکم اعلم۔۔۔O۔۔۔ قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاًO ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک۔۔۔O ۔۔۔ان فضلہ کان علیک کبیراًO ۔۔۔اجتمعت الانس و الجن علیٰ ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہٖ ۔۔۔O ۔۔۔ فی ھٰذا القرآن من کل مثل فابیٰ اکثر الناس الا کفوراًO (بنی اسرائیل:آیات71سے88تک)

ان قرآنی آیات کا سلیس ترجمہ
’’ہم اس دن سب کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے ، پھر جنہیں دائیں ہاتھ میں اعمالنامہ دیا جائے گا تو ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگااور جو شخص دنیا میں اندھا تھا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اور راستے سے بھٹکا ہوا ۔ اور (اے پیغمبر!) جو وحی ہم نے تمہارے پاس بھیجی قریب تھا کہ یہ لوگ آپ کو فتنوں میں ڈالتے تاکہ ہم پر ایسی بات گھڑتے جو ہماری طرف سے نہ ہوتی اور پھر یہ لوگ تمہیں اپنا دوست بھی بنالیتے۔ اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ بناتے تو قریب تھا کہ آپ ان کی طرف تھوڑا سا جھکاؤ رکھتے پھر ہم تمہیں زندگی کی کمزوری اور موت کی کمزوری کا ذائقہ چکھاتے۔ پھر تمہیں ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ ملتا۔اور اگر انکا بس چلتا تو زمین میں ٹکنے نہ دیتے اور اس سے نکال باہر کرتے۔ پھر وہ بھی تمہارے بعد نہ رہتے مگر کم عرصہ تک۔یہ وہ طریقہ کار ہے جو آپ سے پہلے جن رسولوں کو ہم نے بھیجا ہے ان کے ساتھ بھی رہا ہے۔ اور ہمارے طریقے میں تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (اے پیغمبر!) سورج ڈھلنے کے وقت سے لیکر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو اور فجر کے وقت کا قرآن! بیشک فجر کے وقت کے قرآن میں مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور رات کے وقت تیرے لئے تہجد کی نماز نفل ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ تیرا رب تجھ مقام محمود عطا کرے۔ اور کہہ دیجئے کہ اے میرے رب مجھے سچائی کے ساتھ داخل کردے اور سچائی کے ساتھ نکال دے اور میرے لئے اقتدار کو مددگار بنادے۔ اور کہہ دیجئے کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل مٹنے والا ہے۔ اور قرآن میں ہم نے وہ نازل کیا جو مؤمنوں کیلئے شفا ہے۔ اور ظالم لوگ اضافہ نہ پائیں گے مگر خسارے میں۔ اور جب ہم کسی کو نعمت دیتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور پہلو بدلتا ہے اور جب اس کو برائی پہنچتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے۔ کہہ دیجئے کہ ہر ایک اپنی خصلت پر عمل کرتا رہے اور تمہارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون ہدایت پر ہے۔ اور تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ یہ بھی دیگر امور کی طرح ایک امر ربی ہے۔ اور تمہیں علم نہیں دیا گیا مگر تھوڑا سا۔ اور اگر ہم چاہیں تو ہم اس کو لے جائیں جس کو تیری طرف وحی کیا ہے۔ اور پھر تجھے ہمارے اوپر کوئی مددگار نہ ملے۔ لیکن یہ تیرے رب کی طرف سے رحمت ہے اور تجھ پر اس کا بڑا فضل ہے۔ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات تمام جمع ہوجائیں تو اس قرآن کی مثال نہیں لاسکتے۔ اور نہ اس جیسا کوئی اور۔ اور اگرچہ بعض بعض کی مدد کرنے پر بھی اتریں۔ اور ہم نے الٹ پھیر کر اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں دی ہیں مگر اکثر لوگ انکار کرتے ہیں مگر یہ کہ ناشکری بھی کرتے ہیں۔ ‘‘

مفتی تقی عثمانی نے زکوٰۃ کے مسئلے پر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود ؒ کو شکست دی ، سودی بینکاری پر اپنے استاد مولانا سلیم اللہ خان ؒ اور تمام دیوبندی مدارس کو شکست دی ۔ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی عبارات کو اپنی کتابوں سے نکال دیا۔ ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘ کی تفسیر میں امام سے مراد اعمالنامہ لیا ہے، قرآنی آیت میں مقام محمود کی تفسیر سے امت کی سفارش کا غلط مقام مراد لیا۔ طلاق کے حوالے سے بھی آیات میں لفظی تحریف کا ارتکاب کیا، مفتی تقی عثمانی کے آباء نے مرزائیوں کیلئے نرم گوشہ رکھا اور اپنوں پر کفر کے فتوے لگائے۔

قرآنی آیات اور فتوے کی وضاحت
لوگوں کو انکے اماموں کیساتھ بلانے کی وضاحت ہے۔ قرآن میں ائمۃ الکفر کا ذکر بھی ہے۔ اچھے برے امام یا پیشواء ہوتے ہیں ۔ جب کفر کے اماموں کی بہتات ہو تو حق پر ثابت قدم رہنا بہت مشکل ہے۔ مفتی محمدنعیم کی دعوت پر میں جامعہ بنوریہ عالمیہ گیا اور وہاں کے رئیس دارالافتاء سے ملاقات ہوئی۔ مفتی سید سیف اللہ جمیل بہت اچھے انسان ، عالم اور مفتی ہیں۔ انہوں نے مجھے بہت مخلصانہ مشورہ دیا کہ ’’ اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کے بجائے ایک مختصر ، مدلل اور شائستہ تحریر لکھ دیں جسے مدارس کے علماء ومفتیان پڑھنا گوارا کریں۔ اس میں اپنے دلائل اور اپنی رائے لکھ دیں اور فتویٰ طلب کریں کہ علماء ومفتیان کیا رہنمائی فرماتے ہیں۔ اس سے بڑا اچھا نتیجہ سامنے آجائیگا‘‘۔ مجھے یہ تجویز بہت اچھی لگی۔ پورا ارادہ کیا کہ ’’میں یہ تحریر لکھوں گا‘‘۔ مفتی احمدالرحمنؒ کے داماد شہید صحافی موسیٰ خانیل کے بھائی نے کہا کہ ’’میری بنوری ٹاؤن میں رہائش ہے، وہاں سے فتویٰ کا جواب لینا میری اپنی ذمہ داری ہے‘‘۔ یہ ممکن تھا کہ دارالعلوم کراچی اور دیگر مدارس بھی جواب دیتے مگر مجھے یہ آیات یاد آئیں اور مجھے خوف محسوس ہوا کہ جب نبیﷺ کو اتنی بڑی وعید سنائی گئی ہے تو یہ اہل حق کیلئے بھی بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ پھر یہ بات سمجھ میں آئی کہ مفتی کا کام اپنی رائے پیش کرنا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی کتابوں اور اخبار کے مضامین میں قرآنی آیات کو پیش کیا ہے تو یہ میری اپنی رائے تو نہیں ہے اور اگر میں نے ان کو اپنی رائے قرار دیاتو علماء ومفتیان ایسا کرنے پر مجھے دوست بنائیں گے لیکن مجھے ان آیات کے وعیدوں کا سامنا کرناہوگا۔اسلئے میں نے اپنا ارادہ بدلا ۔ قرآن کو مختلف انداز سے دوہرایاگیا ہے۔ طلاق سے رجوع کیلئے بھی آیات کودوہرایا گیا۔ علماء ومفتیان قرآنی آیات پر فتویٰ دیں۔علماء دیوبند خود کو حضرت عمرؓ سے سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ تک علماء حق کا جانشین کہتے ہیں مگر حضرت عمرؓ سے بخاریؒ تک مونچھوں والے مَردوں کے جانشین یہ ہجڑے اور چٹ کیسے ہوسکتے ہیں جو حق نہ بول سکیں؟۔
مفتی محمد نعیم صاحب مدظلہ نے مفتی تقی عثمانی اور وفاق المدارس کے علماء کو طلاق کے مسئلے پر بات کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کی مگروہ کامیاب نہ ہوسکے۔یہ تحریر مدارس کے علماء و مفتیان کیلئے ایک چیلنج ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دیوبندی مدارس کے علماء و مفتیان کے نام کھلا خط

مسلک حنفی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کو بھی رد کردیا جو صراط مستقیم کیلئے میزان ہے

قرآن میں شجرہ ملعونہ کا ذکر ہے ، علماء و مفتیان نے قرآن و سنت کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے حلالہ کی لعنت اپنائی۔

قرآن میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کے بعد بار بار رجوع کی گنجائش کا ذکر ہے لیکن علماء غور نہیں کرتے

تین طلاق پر میاں بیوی کے درمیان تفریق ، صلح کے عدمِ جواز اور حلالہ کا فتویٰ دیا جاتا ہے۔ دیوبندی، بریلوی حنفی ہیں۔ شافعی، مالکی ،حنبلی کے علاوہ اہلحدیث و اہل تشیع کے مسالک بھی قرآن وسنت سے بالکل ہٹ کر ہیں۔نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا، یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائیگا، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے‘‘۔ تین طلاق کے معاملہ پر قرآن وسنت میں بالکل بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ مسلکانہ وکالتوں کی رنجشوں نے تین طلاق کے حوالہ سے مسئلہ خراب کردیا ہے۔
جامعہ بنوریہ عالمیہ کے رئیس دارالافتاء مفتی سید سیف اللہ جمیل کی نصیحت پر مختصر مدلل اور شائستہ تحریر لکھنے کا ارادہ کیا مگر

وان کادو۔۔۔لاتخذوک خلیلًاOولو لآ۔۔۔ ترکن الیھم شےءًا قلیلًاOاذًا لاذقنٰک ضعف الحےٰوۃ۔۔۔O۔۔۔ من الارض لیخرجونک منھا۔۔۔O (بنی اسرائیل:72تا 74)

کو یاد کیااور ایسی تحریر لکھنے سے اجتناب برت لی کہ محض اپنی رائے کے نام سے قرآن وسنت کے مضبوط مؤقف سے دستبردار ہوجاؤں۔
مفتی صاحب نے بہت خلوص کیساتھ فرمایا کہ ’’ اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے بجائے ایک ایسی مختصرتحریر لکھ دیں کہ قرآن وسنت کی روشنی میں میری اپنی ذاتی رائے ہے، علماء ومفتیان اپنی رائے دیں ‘‘۔ میرا ارادہ تھا کہ میں ایسا کروں تو یہ میرے لئے اچھا ہے اور مدارس کے علماء کرام اور مفتیانِ عظام کیلئے بھی سوال کا جواب دینا مناسب ہوگا۔ اگر میں ایسا کرلیتا تویہ قرآن وسنت کو دوسروں کی رحم وکرم پر چھوڑنے کے مترادف تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں بھی اللہ تعالیٰ پر کذب وافتراء میں ملوث ہوجاتا اور جن ظالموں نے اللہ تعالیٰ کے حدود سے تجاوز کرکے میاں بیوی میں جدائی ، تفریق اور حلالہ کی لعنت کا بازار گرم کررکھا ہے ، میں بھی انکی فہرست میں شامل ہوجاتا۔

فاستقم ۔۔۔Oولاترکنوٓا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ۔۔۔O

قرآنی آیات کے خوف نے مجھے ایسا کرنے سے روکا۔
فتویٰ میں ایک مفتی صاحب اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے جس کے درست اور غلط ہونے کے امکان پر آخر میں لکھا جاتا ہے کہ واللہ اعلم بالصواب ۔ فتویٰ کسی اجتہادی رائے کے بارے میں ٹھیک اور غلط ہوسکتا ہے لیکن قرآن کی واضح آیات کے بارے میں یہ نہیں لکھا جاسکتا ہے کہ ’’یہ میری ذاتی رائے، سمجھ بوجھ اور اخذکردہ فتویٰ ہے‘‘ کیونکہ ایمان اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتاہے۔
میں اپنا پسِ منظر ضرور بتا سکتا ہوں کہ میں نے دین کی تعلیم درسِ نظامی سے ہی حاصل کی ہے ۔ حنفی مسلک کا نصابِ تعلیم قرآن وسنت کو اولیت دیتا ہے اور پاکستان کے آئین میں بھی قرآن وسنت کو ترجیح حاصل ہے۔کوئی شک نہیں کہ اُمت کا اختلاف رحمت ہے اور امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوسکتی لیکن جس طرح حضرت علیؓ نے خوارج کے بارے میں فرمایا کہ’’ ان کی للہ الامر کی بات سچی ہے مگر اس سے وہ باطل مراد لیتے ہیں‘‘۔ اسی طرح امت کے اختلاف کو رحمت اور گمراہی پر اجماع نہ ہونے سے باطل مراد لیا جاتاہے۔
تین طلاق سے رجوع کے متعلق مدارس کے علماء اورمفتیان کا فتویٰ
عوام حنفی مسلک کے مدارس علماء و مفتیان دیوبندی بریلوی سے فتویٰ طلب کرتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہتے ہیں تو رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ شوہر اور زوجہ کا نام ، مکمل پتہ اور قومی شناختی کارڈ
جواب میں سورۂ بقرہ آیت:229کا ٹکڑا کہ الطلاق مرتٰن ’’طلاق دو مرتبہ ہے‘‘ اور پھر سورۂ بقرہ آیت: 230 کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ وان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ’’پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں، یہانتک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ پھر حدیث کا حوالہ دیا جاتاہے کہ ایک خاتون کا طلاق کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح ہوا۔ اور شکایت کی کہ دوسرا شوہر نامرد ہے مگر نبیﷺ نے فرمایا کہ جب تک تو اسکا ذائقہ نہ چکھ لے اور وہ تیرا نہ چکھ لے، پہلے کیلئے حلال نہیں ہوسکتی۔اکھٹی تین طلاق کے بعد صلح کی گنجائش نہیں جب تک حلالہ نہ کروایا جائے۔ مولانا نیاز محمد ناصرناطق بالحق لورا لائی بلوچستان فاضل جامعہ بنوری ٹاؤن ، سابق صدر کالعدم سپاہ صحابہ بلوچستان نے کہاکہ’’ اہلحدیث اور حنفی دونوں کا فتویٰ غلط ہے ۔ عورت کو سزا نہ دی جائے اسکا قصور نہیں طلاق دینے والا شوہر قصوروار ہے ۔ تین قندھاریوں سے اس شخص کو چدوایا جائے‘‘۔ہر دور میں حلالہ کی مخالفت کرنے والے علماء حق رہے ہیں۔ پہلے افتاء کا کورس نہیں ہوتا تھا ، جو عالم دار الافتاء میں فتویٰ کی خدمت انجام دیتا تھا اسی کو مفتی کہا جاتا تھا۔ پہلے فرضی نام پر فتویٰ دیا جاتا تھا ، اب عورت کو بلا کر اسکا شناختی کارڈ اور ایڈریس بھی لیا جاتا ہے۔
قرآن میں حضرت آدم علیہ السلام کو جس درخت کے قریب جانے سے روکا گیا تھا مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے لکھ دیا تھا کہ وہ ازدواجی تعلق کا درخت تھا ۔ قرآن میں جو شجرہ ملعونہ کا ذکر ہے ، وہ ناجائز جنسی تعلق کا شجرہ ہے، حلالہ کے نام پر قرآنی آیات کو جس طرح سے مسخ کرکے لعنت میں ملوث ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے جس کو بڑے بڑے فقہاء نے لعنت سے کارِ ثواب تک پہنچادیا ہے اس پر غور کرنا ہوگا اور کھلے لفظوں میں عوام کو قرآن کی دعوت دینی ہوگی۔
مدارس کایہ فتویٰ قرآن و سنت کے منافی، سراسر غلط، گمراہ کن ، عقل و فطرت اور مسلک حنفی کیخلاف ہے
قرآنی آیات کی اہم ترین کڑی کو چھوڑ کر سیاق و سباق کے منافی فتویٰ دیا جاتاہے۔ حدیث کا حوالہ بھی غلط اور خلافِ واقع دیا جاتا ہے۔ جس کیلئے بڑی لمبی چوڑی تحریر اور دلائل کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے عرصے سے اُمت مسلمہ قرآن سے دُور اور گمراہی کا شکار رہی ہے؟۔ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ ، ائمہ مجتہدینؒ اور سلف صالحین ؒ سب کے سب غلط تھے، قرآن و سنت کی موٹی موٹی باتیں سمجھنے سے قاصر تھے، بس اب یہ عتیق گیلانی پیدا ہوا ہے جو قرآن وسنت کو سمجھ سکا ہے؟۔
اس کو خوش قسمتی سے تعبیر کریں یا بدقسمتی سے لیکن واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن اللہ رب العزت سے شکایت فرمائیں گے کہ وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذا القراٰن مھجورًا ’’اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ!بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔( القرآن) اس آیت سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ اُمت مسلمہ کی سفارش نہیں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شکایت فرمائیں گے۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے’’ آسان ترجمہ قرآن‘‘ میں مقام محمود کے حوالے سے لکھا کہ ’’ اسکے معنی تعریف کا مقام ہے اور احادیث سے لگتا ہے کہ نبیﷺ امت کے حق میں سفارش کرینگے ، اس سے مقام محمود بھی مراد ہوسکتا ہے‘‘۔ آج اُمت نے اسلام اور قرآنی احکام کا حلیہ بگاڑ کر سودی نظام کو بھی جواز بخش دیا ۔ دنیا میں کارٹونوں سے نبیﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکے جاری ہیں۔ قرآنی احکام پر مسلمان عمل کرنا شروع کردینگے اور دنیا میں طرزِ نبوت کی خلاف قائم ہو گی تو نبیﷺ کیلئے یہی’’ مقام محمود‘‘ ہوگا۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی فوت ہوگئے ، آپ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکزپنجاب، سندھ، بلوچستان، فرنٹئیر، افغانستان اور کشمیر کو قرار دیتے ہوئے لکھا کہ یہاں جتنی قومیں بستی ہیں ،سب امامت کی حقدار ہیں۔ اتفاق سے تفسیر کا نام ’’ المقام المحمود‘‘ ہے اور سورۂ قدر کی تفسیر میں یہ لکھا ۔ پاکستان لیلۃ القدر کو بناتھا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز صاحب کو مولانا سندھیؒ کے افکار سے عقیدت بھی ہے جن کا بنیادی مقصد فقہ حنفی کی روشنی میں ’’ امت مسلمہ کا قرآن کی طرف رجوع تھا‘‘۔ فقہ حنفی کا سب سے بڑا کریڈٹ یہ ہے کہ اگر حدیث صحیحہ قرآن سے متصادم ہو تو اس کورد کرنے کی تعلیم نصاب میں شامل کی جائے۔ جب صحیح حدیث کو رد کرنے کی تعلیم دی جائے تو پھر کسی فقیہ، امام، محدث اور مفتی کی رائے کی قرآن کے مقابلے میں حیثیت کیا؟۔ درسِ نظامی کا یہ بنیادی جوہر ہی صراطِ مستقیم کیلئے ایک میزان ہے۔
حضرت مولانا بدیع الزمانؒ سے نحومیر، قرآن کا ترجمہ و تفسیر، اصولِ فقہ کی کتابیں اصول الشاشی اور نورالانوار کی تعلیم حاصل کرنے کا شرف ملا۔جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے درودیوار سے مجھے محبت ہے جس کی بنیاد مولانا بنوریؒ نے تقویٰ پر رکھی تھی۔ میرے اساتذہ کرام میں محترم ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، قاری مفتاح اللہ ، مفتی عبدالمنان ناصر اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہیدؒ وغیرہ شامل تھے۔ اگر میرے مشن کو دنیاوآخرت میں کامیابی ملی تو یہ اساتذہ کرام کیلئے شرف وعزت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی مقبولیت ہے۔
درسِ نظامی کے کھوکھلے نصاب کیخلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کرام سے ملا۔ پہلے دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا مگر وہاں سے مجھے نکالا گیا، کیونکہ میں نے قریبی ماچس فیکٹری میں کام تلاش کیا اور میں نے مدرسے کی زکوٰۃ کا کھانا منع کیا۔ میری تقدیرکا ستارہ علامہ سیدبنوریؒ کے فیضان سے چمکا۔ قاری شیر افضل نے بتایا کہ ’’ خواب میں نبیﷺ کو قرآن کا درس دیتے دیکھا ،مولانا یوسف بنوریؒ اس میں موجود تھے لیکن مفتی محمود اس میں جانے کی کوشش کے باوجود نہ پہنچ سکے۔ مفتی محمودؒ نے کہا کہ میری مولانا بنوریؒ جیسا مقام نہیں‘‘۔ میرے بھائی پیر نثار احمدنے خواب میں مفتی محمودؒ کو دیکھا اور پوچھا کہ میری لائیبریری میں کونسی کتاب اچھی ہے؟۔ مفتی محمودؒ نے قرآن اٹھایا، کہا کہ یہی کتاب اچھی ہے۔
شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے کئی دہائیوں تک مدرسے میں تدریس کی اور بڑے نامور شاگرد پیدا کئے ۔ مالٹا کی قید سے رہائی کے بعد مسلم اُمہ کو تفرقہ بازی سے ہٹانے اور قرآن کی طرف رجوع کو اپنامشن قرار دیا۔ مولانا انورشاہ کشمیریؒ نے آخر فرمایا ’’ میں نے اپنی زندگی ضائع کردی، قرآن وسنت کی خدمت نہیں کی ، فقہ کی وکالت کی ہے‘‘۔ مولانا الیاسؒ نے دعوت وتبلیغ کے ذریعہ اُمت میں مذہب کی طرف رحجان کی روح پھونکی۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تصوف کے میدان میں کام کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے قرآن کی طرف رجوع کومشن بنایا۔ دیوبند نے مدرسہ، تبلیغ،سیاست، جہاد کے میدان میں خدمت انجام دی۔ مفتی اعظم ہند مولانا مفتی کفایت اللہؒ نے ایک ضخیم کتاب لکھی کہ ’’ نماز کی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے‘‘۔ افغانی دیوبندی اس بدعت پر عمل پیراہیں۔ بلوچستان، پختونخواہ کے دیوبندی آپس میں لڑتے رہے ہیں اور اندورن سندھ وکراچی میں اس بدعت پر کھلا تضاد ہے۔
اب تو ؂ زاغوں کے تصرف میں ہے شاہیں کا نشیمن
شاہ ولی اللہؒ نے ترجمہ سے امت مسلمہ میں قرآن کی طرف رجوع کی بنیاد رکھی۔ آپکے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنے مرشد سید احمد بریلویؒ کیساتھ تحریکِ خلافت کی بنیاد رکھ دی، تقلید کو بدعت قرار دیاتھا۔ علماء دیوبند نے قرآن وسنت کی احیاء کی تحریک شروع کی تو مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے ’’ حسام الحرمین‘‘ کا فتویٰ شائع کیا، ان کو الٹے پاؤں تقلید کی طرف ہنکانے پر مجبور کردیا۔ جس کیوجہ سے اکابر دیوبند جھکنے پر مجبور ہوئے اور انکا میدان قرآن وسنت کی تحریک کے بجائے رسوم و رواج کے مقابلہ میں فقہی مسائل کی طرف رجوع بن گئی۔علماء دیوبند بھارت میں کانگریس، پاکستان میں مسلم لیگ کے تابع بن گئے۔ پھر مرکزی جمعیت علماء اسلام سے جمعیت علماء اسلام نے بغاوت اختیار کرلی۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے قائداعظم ؒ کا جنازہ پڑھایا۔ مفتی محمد شفیعؒ ، مولانا رشید احمد لدھیانویؒ ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ وغیرہ مرکزی والے تھے۔ مفتی محمودؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا لاہوریؒ کے فرزند مولانا عبیداللہ انورؒ ،مولانا درخواستی ؒ بغاوت والے تھے۔
1970ء میں جمعیت علماء اسلام کے اکابر مفتی محمودؒ ، مولانا انورؒ ، مولانا درخواستیؒ ، مولانا ہزارویؒ پر فتویٰ لگایاگیا کہ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اسلئے کہ کمیونسٹ ذوالفقار علی بھٹو کو کافر کیوں نہیں کہتے؟۔ فتویٰ لگانے والے مرکزی جمعیت والے تھے۔ بنگلہ دیش و پاکستان کے بڑے مدارس نے دستخط بھی کردئیے لیکن مولانا یوسف بنوریؒ نے ساتھ نہ دیا۔ ان لوگوں نے قادیانیوں کیلئے نرم گوشہ رکھا، ختم نبوت والوں نے احتشام الحق تھانویؒ کی جوتوں سے پٹائی بھی کی۔یہ مولانا بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ۔ انکے صاحبزادوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کر ہر نئی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
مفتی رشید لدھیانویؒ کے مرید مفتی طارق مسعود نے سوشل میڈیا پر حاجی عثمانؒ اور مفتی رشید لدھیانویؒ کا قصہ بیان کیا لیکن اس کی معلومات بالکل زیرو ہیں۔ مفتی رشید لدھیانویؒ کی حالت اسکے خلفاء چشم دید گواہ مفتی عبدالرحیم و مفتی ممتاز احمد سے پوچھ لیں۔ مفتی رشید لدھیانوی کی حالت ایسی بن گئی کہ اگر پھسکڑیاں مارنے سے سیلنڈر بھرنا کارمد ہوتا تو کسی کمپنی سے معاہدہ کر تے۔ حاجی عثمانؒ سے معافی کیلئے تیار تھے لیکن ہم نے مولانا یوسف بنوریؒ و مفتی محمودؒ کا حساب بھی چکادیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے مجھ سے اس وقت کہا تھا کہ ’’ بکرا آپ نے لٹادیا، چھرا آپکے ہاتھ میں ہے ،اگر پھیرلوگے تو پاؤں ہم پکڑلیں گے‘‘۔
مولانا فضل الرحمن پر فتوے لگے تو دفاع ہم نے کیا۔ ایک طرف دارالعلوم دیوبند میں یومِ آزادی کے موقع پر پاکستان کے جھنڈے جلائے گئے اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کی ویڈیو ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے خواب میں فون پر بات ہوئی۔ آدم علیہ السلام نے پوچھا کہ کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا کہ امن۔ حضرت آدمؑ اس پر خاموش ہوگئے۔ سوچا کہ فون کٹ نہ جائے۔اور سلام کیا تو حضرت آدم ؑ نے ڈانٹا کے صبر نہیں کرسکتے تھے؟۔
خواب سچا ہے اور تعبیر بھی مشکل نہیں!۔ پرویزمشرف اور ق لیگ کے بعد زرداری، مسلم لیگ اور کس کس گھاٹ کا دفاع کیا؟۔ جعلی مینڈیٹ سے بننے والی پارلیمنٹ کی مخالفت اور برائے نام چند نشستوں کے باوجود صدارت کیلئے بھی کھڑے ہوگئے؟۔حضرت آدم علیہ السلام نے یہ اسلئے نہیں پوچھا کہ تمہاری چاہت پوری کرنا چاہتے تھے۔ چاہتوں کو زندہ قومیں اپنی تقدیر خود نہ بدلیں تو اللہ بھی پورا نہیں کرتا ۔ حضرت آدمؑ نے حرکتوں کو دیکھ کر فرمایا کہ آخر تم چاہتے کیا ہو؟۔ تمہارے امن کے جواب کو ڈھیٹ پن سمجھ کر خاموش ہوگئے کہ یہ کیا بک رہا ہے ۔ اور جب سلام کہا تو اس جہالت پر مزید غصہ آیا ۔اسلئے کہ کلام کے ابتداء میں سلام شروع کرنے کیلئے ہوتا ہے اور آخر میں بات ختم کرنے کیلئے اور درمیان میں جاہلوں سے بات ختم کرنے کیلئے ۔ واذا خاطبھم الجاہلون قالوا سلاما
مولانا الیاسؒ کے بھتیجے مولانا زکریاؒ جن کی کتاب بھی تبلیغی نصاب کا حصہ ہے ، انہوں نے کبھی چلہ تک نہ لگایا۔ مولانا الیاسؒ کے صاحبزادے مولانا یوسفؒ نے بھی پہلے تبلیغ میں وقت نہیں لگایاجبکہ مولانا احتشام الحسنؒ جس کی کتاب ’’موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘ تبلیغی نصاب کا حصہ ہے، مولانا الیاسؒ کے خلیفہ تھے، لیکن صاحبزادہ ہونے کی وجہ سے مولانا یوسفؒ کو امیر بنایا گیا۔ مولانا یوسفؒ وفات پاگئے تو مولانا انعام الحسنؒ امیر بنائے گئے لیکن انکی امیری برائے نام تھی، قاضی جاوید اشرف جو آئی ایس آئی چیف بھی رہے ہیں جو آجکل کرپشن میں گرفتار ہیں، جاوید ناصر اور دوسرے کرتا دھرتا لوگ اندرونِ خانہ اکابرین کو کنٹرول میں رکھتے تھے، جماعت کی اندر ونی فضاء بدل گئی تو مولانا احتشام الحسنؒ نے تبلیغی جماعت کو فتنہ قرار دیا۔ مولانا انعام الحسنؒ کی وفات کے بعد شوریٰ کا غلبہ تھا۔ اب مولانا سعد جو مولانا الیاسؒ کے پوتے اور تبلیغی مرکز بستی نظام میں ہیں، رائیونڈ کے اکابرکو اپنا اور اصل کام کا باغی قرار دیتے ہیں۔ رائیونڈ کے اکابر نے پہلے مولانا طارق جمیل کو نکال باہر کیا تھا مگر اس مشکل صورتحال کو دیکھ کر اپنے ساتھ ملالیاہے۔
حاجی عثمانؒ نے مریدوں کو تبلیغی جماعت سے الگ کرنے کا اعلان کیا تو مفتی تقی عثمانی، مفتی رشیدلدھیانویؒ نے تبلیغی جماعت کے اکابرین پر فتوے لگائے اور حکیم اخترؒ نے تبلیغی جماعت پر علماء کی بے ادبی پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ حالانکہ اسی بیان میں تصوف کی بنیاد پر علماء کے دلوں کو کتے بلی کی پوٹی لگنے کے مترادف کہااور جاہل کا شعر نقل کیا کہ منافق موجود ہو تو نبی کا فیض بھی محفل پر اثر نہیں کرتاہے۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے شیخ الہندؒ کا قول نقل کیا کہ ’’اب چھوٹی موٹی روحانیت کام نہیں آئے گی۔ خراسان سے مہدی آئیں گے ، جس میں اتنی روحانیت ہوگی کہ پوری دنیا کو بدل سکیں گے‘‘۔ حالانکہ حضرت آدم ؑ سے لیکر تاجدارِ ختم نبوت ﷺ تک کوئی اس درجہ کی روحانیت لیکر نہیں آئے جو روحانی قوت کے بل بوتے پر دنیا کو بدلتے، یہ عقیدہ تو مرزاقادیانی کوماننے والوں سے زیادہ خطرناک ہے جو امت میں رچ بس گیا۔ ملاعمرؒ کو خراسان کا مہدی بنایاگیا پھر بگڑی شریعت کی وجہ سے طالبان پر مولانا فضل الرحمن نے بھی خراسان کے دجال کے لشکر کا فتویٰ لگایا مگر دوسری طرف متحارب طالبان میں صلح بھی کروادی تھی۔
شیخ الہندؒ نے مالٹا کی قید کے بعد مہدی کے انتظار کے بجائے قرآن کی طرف رجوع اور اتحاد امت کا مسئلہ اٹھایا جسکے بارے میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے لکھ دیا کہ ’’دونوں باتیں دراصل ایک ہیں اور وہ قرآن کی طرف رجوع ہے‘‘۔ مفتی طارق مسعود کی یہ بات تودرست تھی کہ مفتی تقی اورمفتی رفیع عثمانی مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کے شاگرد تھے مگر بنوری ٹاؤن کے مفتی ولی حسنؒ وغیرہ شاگرد نہ تھے، مولانا یوسف لدھیانویؒ حاجی عثمانؒ کی قبر پر جاتے اور کہتے تھے کہ سازش کی بنیاد مفتی رشید احمد لدھیانوی کی خباثت تھی۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی کی یہ نیکی تھی کہ جب مفتی شفیع ؒ نے مفتی تقی ومفتی رفیع عثمانی کیلئے دارالعلوم میں گھر خریدے تو فتویٰ دیا کہ وقف کی خریدو فروخت جائز اور نہ بائع ومشتری ایک شخص ہوسکتا ہے۔ جس پر تاریخی پٹائی لگائی گئی، مفتی رشیدا حمد لدھیانوی کی دارالعلوم کراچی چھوڑنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ شاگرد تو ضرور تھے لیکن جس طرح پروین شاکر نے اپنے شوہر کے بارے میں کہا کہ
کیسے کہہ دوں کہ اس نے چھوڑ دیا مجھے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
مولانا سرفراز خان صفدرؒ ، مولانا عبدالکریم بیرشریفؒ ، مولانا خان محمد کندیاںؒ ، ضلع ٹانک کے تمام اکابر علماء کرامؒ کے علاوہ تمام مکاتبِ فکر کے نامور اکابرؒ نے ہماری بڑی حمایت کی تھی۔ جن میں دیوبندی، بریلوی، اہل تشیع اور اہلحدیث کے علاوہ جماعتِ اسلامی والے شامل تھے۔
مفتی محمد نعیم صاحب مدظلہ میرے استاذ ہیں اور ان کی حمایت کا بھروسہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدظلہ العالی پرنسپل جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی میری کتاب پر یہ تجویز شائع ہوئی تھی کہ ’’ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی کوشش کرنیوالوں کو امام مالک ؒ کے اس قول کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اُمت کی اصلاح نہیں ہوسکتی ہے مگر جس چیز سے پہلے ہوئی تھی۔ نبیﷺ نے پہلے تعلیم وتربیت دی ، تزکیہ فرمایا اور پھر ایک انقلاب برپا کردیا‘‘۔ قرآن وسنت کی طرف رجوع مسئلہ کا حل ہے اوریہ تمام مکاتبِ فکر کیلئے قابلِ قبول بھی ہے ۔
قرآن وسنت کی ایسی تشریح جس سے کوئی انحراف نہیں کرسکتا ہو۔ مسلک حنفی اور درسِ نظامی کی بنیادی تعلیم کا ایسا دفاع کہ اہلحدیث اور اہل تشیع بھی مان جائیں۔ پھر کونسی ایسی بات رہتی ہے جوانکار کاباعث بنے؟۔ ہاں اسلام کے روشن چہرے پر کالے بادلوں کے دھبے کی صفائی کچھ اسطرح سے کہ لوگ دنگ رہ جائیں۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ ’’سنتوں کے بعد دعا‘‘نہیں، 3 طلاق پرہی قرآن وسنت کی طرف توجہ کرتے تو یہ مسئلہ حل ہوجاتا۔
اصولِ فقہ کی پہلی کتاب کا پہلا سبق ہے حتی تنکح زوجًا غیرہ آیت230البقرہ میں عورت کو آزاد قرار دیا گیا جبکہ نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تواسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے‘‘۔ قرآن سے تصادم کی بنیاد پر حنفی حدیث کو ردکرتے ہیں جبکہ جمہور مالکی، شافعی، حنبلی اور اہلحدیث کے نزدیک حدیث کی تردیدگمراہانہ حنفی ذہنیت ہے۔
اس اختلاف کا اثر تعلیمی اداروں، معاشرتی اور عدالتی معاملات اور مسلکانہ تعصبات میں بھی پایا جاتا ہے۔کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر آشنا سے مرضی کے مطابق شادی کرلیتی ہے۔مسلک حنفی اور عدالت میں یہ درست قرار دیا جاتاہے۔1991ء میں عبدالقادر روپڑی کی بیٹی کا مشہور کیس ہوا، جس پر مذہبی حلقوں سے تسلی بخش جواب بھی نہ بن سکا تھا۔ آئے روز عدالتوں میں مارکٹائی ، جگ ہنسائی اور تکلیف دہ خبروں کا میڈیا میں تماشہ لگارہتا ہے۔دنیا بھر میں شادی کا تہوار ایسی بدمزگی سے نہیں منایا جاتا ہے جسکا پاکستان میں مظاہرہ ہوتاہے ۔ اسکا ذمہ دار ہمارا تعلیمی نصاب ہے ، جہاں قرآن وحدیث کو متصادم قرار دیا گیا ۔ مدارس کا عوام سے ایک تعلق رہ گیا کہ حلالہ کے فتوے دیکر عقیدت رکھنے والی خواتین کو اپنی ہوس کانشانہ بنائیں۔ لعنت کے رسیا لوگوں کو دلائل نہیں ڈنڈے کے زور سے ہی باز رکھنے پر مجبور کیا جاسکتاہے۔
قرآن میں طلاق شدہ و بیوہ عورت کی آزادی سے نکاح کا ذکر ہے ۔ حدیث سے مراد کنواری عورت ہے۔
جمہور کا مسلک غلط اور گمراہ کن اسلئے تھا کہ بیوہ کے بارے میں ہے فاذا بلغن اجلھن فلاجناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن بالمعروف ’’ جب وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو تم پر کوئی حرج نہیں کہ وہ جو بھی اپنی جانوں کے بارے میں معروف طریقے سے فیصلہ کرلیں‘‘ اگر نبیﷺ نے عورت کو اسکے ولی کی اجازت کا پابند بنانا تھا تو بیوہ کیلئے واضح آیت کے بعد یہ پابندی ممکن نہ تھی۔ عرف عام اور شریعت میں کنواری اور بیوہ وطلاق شدہ کے احکام مختلف ہیں۔ جمہور نے حدیث کی وجہ سے آیات کے منافی غلط مسلک بنایا مگرامام ابوحنیفہؒ نے اتفاق میں خلل ڈالااسلئے کہ امت کا گمراہی پر اجماع نہ ہوسکتاتھا ۔ یہ اختلاف اسلئے رحمت کا باعث ہے کہ امت کا اختلاف قرآن وحدیث کے گرد گھوم رہاتھا۔ عورت کی شادی نہ ہو تو اسکا ولی ہوتا ہے اور شادی ہو تو اسکا سرپرست اسکا شوہر بنتا ہے۔شوہر کے مرنے یا طلاق کے بعد عورت خود مختار بنتی ہے۔ قرآنی آیات میں طلاق شدہ اور بیوہ کے خودمختار ہونے کی وضاحت ہے اور حدیث سے کنواری مراد ہے۔
صحابہ کرامؓ کاان معاملات پر اختلاف نہ تھا اور سلف صالحین ؒ نے حق پر ڈٹنے اور امت کو گمراہی پر اکٹھا ہونے سے بچانے میں حتی الوسع بھرپور کردار ادا کیا۔ کس موڑ پر کس نے کیا کردار ادا کیا؟ اور کس کی بات درست اور کس کی بات غلط تھی؟۔لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسول اللہ ﷺ شکایت فرمائیں گے کہ :

یاربّ ان قومی اتخذوا ہذاالقراٰن مھجورًا

’’اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ نے زندگی علم کلام کی گمراہی میں گزار دی اور آخرکارتوبہ کرکے اصول فقہ کی بنیاد رکھ دی۔ میری ایک بیگم سندھی اور دوسری تربت کی بلوچ ہے۔ جس کا ایک چچا مجذوب ہے، وہ موبائل پر فون کرکے اتنی بات کہتا کہ کیاحال ہے مگر خیریت کا جواب سننے سے پہلے فون کاٹتا اور یہی صورحال اصولِ فقہ کی کتابوں کا بھی ہے۔ قرآن کا ذکر ہے لیکن اسکے احکام کی کوئی وضاحت نہیں ۔ قرآن کی تعریف میں اس علم کلام کی گمراہی شامل ہے جس سے امام ابوحنیفہؒ نے توبہ کی۔قرآن کی لکھائی اللہ کا کلام نہ ہوتو پھر فتاویٰ قاضی خان، صاحب ہدایہ، علامہ شامی، مفتی تقی عثمانی اورمفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان کا قصور بھی نہیں کہ ’’ سورۂ فاتحہ کوپیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ کے بعد تاریخ کے اوراق میں امام غزالیؒ کانام ہے جس نے فقہ و اصولِ فقہ کے اندھیرے میں زندگی گزار دی لیکن آخر کارتصوف کی طرف ہجرت کرکے کتاب لکھ ڈالی ’’ من الظلمات الی النور ‘‘ اندھیروں سے روشی کی طرف کا نام اسلئے دیا کہ فقہ واصول فقہ کی تعلیم میں گمراہی کے سوا کچھ نہ ملا۔ جس طرح احناف نے توبہ کے باوجود علم کلام کی گمراہی کو اصولِ فقہ میں داخل کیا ، اس سے بھی زیادہ امام غزالی ؒ نے فقہ کی جس گمراہی سے توبہ کیا اس سے تصوف کی کتابیں لکھ کر بھرڈالیں۔جب مریدوں نے امام غزالیؒ کو خواب میں دیکھا تو امام غزالیؒ نے کہا مجھے کچھ بھی کام نہیں آیا۔ احیاء العلوم، کیمیاءِ سعادت، اندھیروں سے روشنی کی طرف ساری کتابیں کھوٹے سکّے نکلے۔ ایک مکھی کو سیاہی پینے دی تھی ، اس سے میری بخشش ہوگئی۔
مریدوں اور عقیدتمند وں نے اس خواب سے عبرت حاصل کرکے ان تعلیمات کو دریابرد کرنے یا اس پر نظرثانی کرنے کے بجائے مزید گمراہی کا ٹھیکہ اٹھالیا کہ امام غزالیؒ نے تصوف سے جس خلوص کی تعلیم دی ہے، مکھی کو سیاہی کی بوند پلانے کے علاوہ کسی عمل میں خلوص نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنابت سے غسل اور وضو کا حکم قرآن میں نماز کیلئے ہے۔ نبیﷺ جنابت کی حالت میں غسل کئے بغیر صرف وضو کرکے بھی رات کوسوجایا کرتے تھے۔ تصوف کا کارنامہ یہ تھا کہ امام غزالیؒ نے لکھ دیا کہ ’’ اگر نفس سردی کی راتوں میں نہانے سے سستی کی طرف مائل ہو تو ٹھنڈے پانی میں کپڑے سے نہاکر رات بھر اسی میں سوجاؤ، یہ نفس کو سرکشی کی سزا ہے‘‘۔ الیاس قادری بانی دعوت اسلامی نے اپنی کتاب ’’ غسل کاشرعی حنفی طریقہ‘‘ کے ابتداء میں یہ درج کیا ہے، حالانکہ امام غزالی ؒ حنفی نہیں شافعی تھے۔
یہ بڑا المیہ ہے کہ درسِ نظامی کے نصاب ’’اصول فقہ‘‘ میں یہ تعلیم دینے کے باوجود کہ مسائل کے حل کیلئے پہلا اصول قرآن، دوسرا سنت ، تیسرا اجماع اور چوتھا قیاس ہے لیکن بنیادی اصول قرآن کی واضح آیات اور احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر قیاس کے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں۔ تین طلاق کے حوالے سے جو عمارت کھڑی کی گئی ہے وہ شرمناک بھی ہے اور انسانیت سوزی کے اعتبار سے بہت کربناک بھی۔ میں نے اپنی کتابوں میں حقائق کو کھولا اور اسکے بعد نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کو وبال اور عذاب سے کم نہیں سمجھتا۔ اپنے اساتذۂ کرام سے مجھے توقع ہے کہ حق کی آواز بلند کرنے میں میرا ساتھ دینگے اور طالب علمی کے زمانے سے جاننے والے طلباء عظام سے توقع رکھتا ہوں کہ اب وہ کھل کر حمایت کرینگے۔ انشاء اللہ العزیز

وانزلنا الکتاب تبیانًا لکل شئی

’’اور ہم نے کتاب کو نازل کیاہے ، ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے‘‘۔ تین طلاق اور اس سے رجوع کا مسئلہ بھی قرآن میں ایک بار نہیں بلکہ بار بار واضح کیا گیا۔ ایک بھی ایسی حدیث صحیحہ نہیں جو قرآن کی ان آیات سے متصادم ہو۔
طلاق کے احکام کا مقدمہ یہ ہے کہ ’’اور اللہ کو مت بناؤ اپنے عہدوپیمان کیلئے ڈھال کہ نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیاں صلح کراؤ‘‘(البقرہ: 224 )
اس آیت کا تقاضہ ہے کہ قرآن میں ایسی صورت نہ ہو کہ لوگ بالعموم اور میاں بیوی بالخصوص صلح چاہتے ہوں اور کوئی لفظ، عہد وپیمان اور فتویٰ میاں بیوی کے درمیاں صلح کیلئے اللہ کے نام پر رکاوٹ بن جائے۔بالفرض محال ایسی کوئی صورت نکل آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیاں صلح پر پابندی لگائی ہو تو یہ قرآن کے احکام میں بہت بڑا تضاد ہوگا۔ علماء ومفتیان کے ذہنوں میں قرآن کریم تضادات سے بھرا ہواہے لیکن وہ اس گمراہانہ سوچ کو سمجھنے سے بالکل قاصر نظر آتے ہیں۔ ایک بڑے علامہ کی طرف سے سوال کیا گیا کہ ’’ جب انبیاء کرام معصوم ہیں تو حضرت آدم علیہ السلام اس شجرہ ممنوعہ کے پاس کیسے گئے؟ ابلیس نے کیسے پھسلایا اور جنت سے نکلوایا؟‘‘، حالانکہ کسی نبی کی عصمت کا درست مفہوم یہ ہے کہ وحی کے ذریعے ان کی رہنمائی کا سلسلہ رہتا ہے، کوئی ایسی شخصیت نہیں کہ اس کی وحی سے رہنمائی ہو۔ خلفاء راشدینؓ کی بھی رہنمائی نہ تھی۔ گناہوں سے پاک معصوم تو بچے، فرشتے اور ہجڑے بھی ہوتے ہیں اور یہ کوئی کمال کی بات بھی نہیں کیونکہ جن مخلوقات میں نافرمانی یا شہوت کی صلاحیت نہ ہو تو ان کے معصوم ہونے کا فائدہ یا کمال بھی کوئی نہیں ہے۔
قرآن نے یہ بتایا کہ اللہ کو صلح میں کسی طور پر رکاوٹ قرار دینا قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی ہے۔یہ بھی بتایا کہ طلاق کے بعد انتظار کی عدت ہے اور اس دوران اصلاح کی شرط پر شوہر ہی رجوع کا زیادہ حقدار ہے۔ اور یہ بھی بتایا کہ اگر باہوش و حواس میاں بیوی نہ صرف جدا ہونا چاہتے ہوں بلکہ آئندہ کسی قسم کا رابطہ نہ کرنے پر متفق ہوں اور فیصلہ کرنیوالے بھی اسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو ایسی صورت میں طلاق کے بعد شوہر کیلئے وہ عورت حلال نہیں یہانتک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ قرآن کو سمجھنے کیلئے عام ان پڑھ اور کمزور درجے کی عقل رکھنے والا انسان بھی کافی ہے۔ اندھوں میں کانا راجہ ہوتا ہے ،دعوت اسلامی کے کارکنوں کا امام علامہ الیاس قادری میمن مسجد کراچی کے پاس جھاڑو بیچتاتھااور اب ایک خلقِ خدا اس کی پوچا کررہی ہے۔ اگر شریعت کی حقیقت کو عوام پر نہیں کھولا گیا تو آنیوالے وقت میں علامہ الیاس قادری بھی تاریخ کے اوراق میں ایک بڑی چیز ہوگی۔
میاں بیوی باہوش وحواس جدائی پر متفق ہوں، فیصلہ کرنیوالے بھی رابطہ کی صورت باقی نہ چاہتے ہوں تو پھر آیت کا مطلب واضح ہے کہ شوہر کی غیرت اسوقت جاگ اٹھتی ہے جب عورت طلاق کے بعد کسی اور شوہر سے نکاح کرنا چاہتی ہو۔پھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ صلح یا رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ پہلا شوہر اس طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے اس کو دوسرے شوہر سے نکاح کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟۔ عورت کی آزادانہ نکاح میں طلاق کے بعد ولی نہیں بلکہ سابق شوہر کی طرف سے رکاوٹ ہوتی ہے۔ لیڈی ڈیانا کے حادثاتی قتل میں برطانوی شاہی خاندان کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ریحام کو طلاق دی تھی تو پاکستان واپس آنے پر ریحام خان کو قتل کی دھمکیوں کا سامنا ہوا۔
اللہ نے سورۂ بقرہ کی آیت230سے پہلے عدت میں رجوع کو واضح کیا اور اسکے بعد بھی عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کے جواز کی واضح الفاظ میں وضاحت کردی۔ سورۂ طلاق میں بھی اس مؤقف کی جامع وضاحت کردی لیکن علماء ومفتیان کا کمال ہے کہ قرآن کی طرف دیکھے بغیر صلح نہ کرنے، گھروں اور عزتوں کی تباہی کے فتوے ڈھٹائی سے ڈھیٹ بن کر دئیے جارہے ہیں۔
یہ تحریر اہلحدیث ،پرویزی اورشیعہ سے زیادہ اہلیت والے دیوبندی بریلوی علماء و مفتیان سمجھ سکتے ہیں۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل کرنے والی حدیث صحیحہ کو رد کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے مگر رجوع کے حوالے سے بہت سی آیات کے ہوتے ہوئے بھی قرآن کے مطابق کوئی فتویٰ نہیں دیا جاتا حالانکہ کوئی ایک حدیث صحیحہ بھی ان آیات سے متصادم نہیں۔ میرا لہجہ تحکمانہ لگتا ہے لیکن میں رائے نہیں بلکہ آیات اور احادیث پیش کررہا ہوں، اگر میں اپنی رائے پیش کررہا ہوتا تو اتنے بڑے اکابر علماء ومفتیان کے مقابلے میں اپنی عاجزانہ رائے پیش کرنے کی جسارت بھی بڑی گستاخی سمجھتا۔ اگراکابر خالص قرآنی آیات، احادیث صحیحہ ، اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ کے علاوہ تمام عقلی ونقلی دلائل سے صرف اسلئے انکار کریں کہ وہ اکابر ہیں اور میری کوئی حیثیت نہیں تو ایسا اکابر ہونا انہیں مبارک ہو اور مجھے اللہ پناہ دے۔

و کذالک جعلنا فی کل قریۃ اکابر مجرمیھالیمکروا فیھا واللہ خیر ماکرین O

’’ اور اسی طرح ہم نے تمام شہروں میں انکے مجرم اکابربنائے ہیں ، تاکہ اس میں اپنے داؤو پیج کھیلیں اور اللہ بہتر تدبیر کرنیوالا ہے‘‘۔
علامہ ابن ہمامؒ اور علامہ بدرالدین عینی ؒ کی وفات 950ھ اور 980ھ کو ہوئی تھی۔ انہوں نے لکھ دیا ہے کہ ’’حلالہ کی نیت دل میں ہو لیکن زبان سے الفاظ ادا نہ کئے جائیں تونیت کا اعتبار نہیں اور حلالہ لعنت نہیں، بعض مشائخ نے کہا ہے کہ اگر خاندان کوجوڑنے کی نیت ہو توحلالہ کارِ ثواب بھی ہے‘‘۔ یہ شیوخ ،اکابر حضرات جس طرح کی حیلہ سازی سے مجرمانہ مکر کرتے رہے ہیں ،اسکے نتیجے میں آج اسلامی اور عام بینکوں میں جلی حروف کیساتھ دیواروں پر بہت خوبصورت خطاطی کیساتھ انتہائی بے شرمی کیساتھ یہ قرآنی آیت لکھی ہوتی ہے :

واحل اللہ البیع وحرّم الربوٰ

اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مسئلے کو زبردست طریقے سے پیش کیااور فقہاء نے اس کی شکل مسخ کرکے رکھ دی ہے ، دونوں میں موازنہ کرنے کے بعد تھوڑاعلم اور سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان اندھیرے اور روشنی کو برابر نہیں کہہ سکتاہے۔دنیا کے اندھے آخرت میں بھی اندھے اُٹھیں گے۔
اگر میں قرآن وسنت کو غلط پیش کررہا ہوں تو علماء ومفتیان میں میرے اساتذہ کرام بھی ہیں ۔ مجھے کان سے پکڑ کر سیدھا کریں۔ مجھے میڈیا کے سامنے مرغا بنائیں۔ مجھے اپنے استاذوں کو نہ صرف مان دینی ہے بلکہ یہ ان کا دینی فریضہ بھی ہے جو مجھے بالکل قبول ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لاتجعل اللہ عرضۃ لایمانکم ان تبروا وتتقوا وتصلحوا بین الناس

’’ اپنے عہد و پیمان کیلئے اللہ کو ڈھال مت بناؤ، کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘‘ یمین کا لفظ عام ہے۔ حلف، عہد ، وعدہ اور طلاق وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔ اصول فقہ کی کتابوں میں یمین پر بحث اور اختلاف انتہائی لغو اور جہالت پر مبنی ہے۔ یمین لغو، یمین غموس اور یمین منعقدہ کی تقسیم اور اس پر اختلاف کی گنجائش نہیں۔ ہروہ قسم ، عہدوپیمان، وعدہ جو بلاسوچے سمجھے زبان سے ادا ہوتو وہ یمین لغو ہے۔

لاےؤاخذکم بالغو فی ایمانکم کا ذکر سورہ بقرہ آیت225اور سورہ مائدہ دونوں میں ہے۔

اس کی تشریح ہی غلط کی گئی ہے۔ تفسیر کی کتابوں میں فقہ کی تشریح سے اختلاف بھی موجود ہے۔یمین وعدہ اور عہدوپیمان بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی کہ یمین سے مراد حلف لیا جائے۔ احناف کے نزدیک یمینِ منعقدہ میں ہی کفارہ ہے یمین غموس میں نہیں اسلئے کہ سورہ مائدہ میں لفظ اذا عقدتم الایمان ہے تو کفارہ کا بھی حکم ہے جبکہ سورہ بقرہ میں بماکسبتم قلوبکم ہے لیکن اس میں کفارہ کا حکم نہیں حالانکہ یہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ سورۂ مائدہ میں واضح فرمایا :

ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم

’’ یہ تمہارے یمینوں کا کفارہ ہے اس وقت جب تم نے حلف اٹھایا ہو‘‘۔ یمین سے مراد حلف نہیں وعدہ ہو تو کفارہ نہیں ۔ نکاح سے بڑا پکا وعدہ کیاہے؟۔ میثاق غلیظ اورعقدۃ النکاح کے توڑنے پر کفارے کا حکم نہیں۔ یمین سے مراد حلف ہو تو کفارہ ہے اور وعدہ ہو توپھر کفارہ نہیں ۔
یہ نئی بات لگی ہوگی کہ یمین سے مراد قسم کے علاوہ وعدہ، نکاح، طلاق اور عہد وپیمان کیسے ہیں؟۔ آئیے! جہالت در جہالت ظلمات بعضھا فوق بعض کے قلعوں (مدارس)کے مکینو!تمہارے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب’’ تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘ میں اس متفق علیہ حدیث کو تقلید کی فرضیت میں لکھا کہ جس میں نبیﷺ نے فرمایا کہ علم کو اللہ تعالیٰ اس طرح سے نہیں اٹھائے گا کہ قرآن کو آسمان پر اٹھالے بلکہ علماء کو ایک ایک کرکے اٹھاتا رہے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہیگا تو لوگ جہلاء کو اپنا پیشواء بنالیں گے، ان سے فتویٰ پوچھیں گے اور وہ جانے بوجھے بغیر فتویٰ دینگے، تو خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرینگے۔(بخاری ومسلم)

مفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا ہے کہ یہ حدیث دلیل ہے کہ ائمہ اربعہؒ کے بعد علماء اٹھ چکے، علماء نہیں رہے تھے اسلئے تقلید ضروری ہے۔

جبکہ مولانا یوسف لدھیانویؒ نے اس کو اپنی کتاب ’’عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘ کے اندر لکھ دیا۔ ہمارے وزیرستان کے لوگ کہتے ہیں کہ’’ مورپلور میں مڑہ کے مووترانجے تہ لایکہ : میرے ماں باپ مریں اور مجھے اُچھلنے کودنے کیلئے فارغ کردے تاکہ لوفری کرتا پھروں‘‘ اجتہاد کو ناجائز قرار دینے والا سود کو جواز بخش رہا ہے۔ پہلے والے بھی کوئی قابل رشک نہیں تھے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ تو اللہ والے موجود رہتے تھے لیکن حاجی عثمانؒ کیساتھ جو کچھ ہوا ، وہ بھی میرے بالکل سامنے کا معاملہ ہے۔
یہاں یہ سمجھانا مقصد ہے کہ یمین سے مراد طلاق اور دوسرے ایسے الفاظ ہیں جس میں حلف و دیگر معاملات شامل ہیں۔ فتاویٰ قاضی خان بہت معتبر کتاب ہے ۔ فتاوی تاتارخانیہ میں قاضی خان کے حوالے لکھا ہے کہ ۷۹۱۲:

وفی الخانےۃ: رجل قال لامرأتہٖ : ان لم یکن فرجی احسن من فرجک فانت طالق، وقالت المرأۃ: ان لم یکن فرجی احسن من فرجک فجاریتی حرۃ ، قال الشیخ الامام ابوبکر بن الفضل : ان کان قائمین عندالمقالۃ برت المرأۃ و حنث الزوج ، لو کان قاعدین برالزوج و حنث المرأۃ ،لان فرجھا فی حالۃ القیام احسن من فرج الزوج، ولامر علی العکس فی حالۃ القعود ، وان کان الرجل قائماً و المرأۃ قاعدۃ قال الفقیہ ابوجعفر : لا اعلم ھذا، وقال : وینبغی ان یحنث کل واحدٍ منھما لان شرط البر فی کل یمین ان یکون فرج احدھما احسن من فرج لاٰخر وعند التعارض لایکون احدھما احسن من الاٰخر ، فیحنث کل واحد منھما ۔ الفتاوی التاتارخنیۃ، التالیف للشیخ الامام فرید الدین عالم بن العلاء الاندربی الدھلوی الھندی المتوفی ۷۸۶ ھ ، قام بترتیبہٖ وجمعہٖ و ترقیمہٖ و تعلیقہٖ بنحو عشرۃ الٰاف من الاحادیث و الاٰثار شبیر احمد قاسمی المفتی المحدث بالجامعۃ القاسمیۃ الشھیرۃ بمدرسۃ شاہی مراد آباد الھند ، المجلد الخامس بقےۃ من الطلاق ، لنفقات العتقاق، ص ۲۹۴،مکتبہ رشیدیہ سرکی روڈ کوئٹہ فون: 2662263

ترجمہ:’’ فتاویٰ خانیہ میں ہے کہ آدمی نے اپنی عورت سے کہا کہ اگر تیری شرمگاہ میری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو تجھے طلاق ۔ اورعورت نے کہا کہ اگرمیری شرمگاہ سے تیری شرمگاہ سے زیادہ خوبصورت نہ ہو تومیری لونڈی آزاد۔ الشیخ امام ابوبکر بن الفضل نے کہا کہ ’’ اگر مکالمے کے دوران دونوں کھڑے تھے تو عورت بری ہے ( لونڈی آزاد نہ ہوئی)۔اور مرد حانث ہوا( طلاق ہوگئی) اور مکالمے کے وقت دونوں بیٹھے تھے تو مرد بری ہوا(طلاق واقع نہ ہوئی) اور عورت حانث ہوئی ( لونڈی آزاد ہوگئی) اسلئے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں عورت کی شرمگاہ مرد کی شرمگاہ سے خوبصورت ہے اور معاملہ برعکس ہے بیٹھنے کی حالت میں۔اور اگر مرد کھڑا تھا اور عورت بیٹھی ہوئی تھی تو فقیہ ابوجعفر نے کہا کہ اس صورتحال کو میں نہیں جانتا کہ کیا ہوگا؟۔ اور کہا کہ چاہیے کہ ہرایک دونوں میں حانث ہو، اسلئے کہ برأت کی شرط ہر یمین میں یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ان کی شرمگاہ خوبصورت ہو اور اسکے برعکس معاملے میں دونوں میں سے ہر ایک حانث ہو۔تو دونوں کو حانث ہونا چاہیے‘‘۔ فتاویٰ تاتارخانیہ ۔ تالیف الامام فرید الدین عالم بن العلاء الاندرپی الدہلوی الہندی متوفی 786ھ۔ اس کی ترتیب وجمع اور ترقیم وتعلیق کیلئے کھڑا ہوا۔تقریباً دس ہزار احادیث اور آثار کیساتھ شبیر احمد قاسمی مفتی و شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد ، ہندوستان ۔ جلد نمبر 5، بقےۃ من الطلاق، لنفقات العتاق ، صفحہ294۔مکتبہ رشیدیہ سرکی روڈ کوئٹہ۔
فتاویٰ قاضی خان کو باقی فتوؤں کی کتابوں کیلئے ماں کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا۔ لونڈی آزاد کرنے اور طلاق کوبھی یمین سے تعبیر کیا گیا۔ حالانکہ یہ حلف نہیں ہے۔ جب مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ’’فقہی مقالات اور تکملہ فتح الملہم‘‘سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کی بات کو نکالنے کا اعلان کیا تو وزیراعظم عمران خان کے روحانی پیشوا اور نکاح خواں مفتی محمدسعید خان نے اسکے تین چار سال بعد اپنی کتاب ’’ریزہ الماس‘‘ شائع کی اور اس میں فتاویٰ قاضی خان کی اس عبارت کو ٹھیک قرار دیا کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ اصولِ فقہ میں یہ پڑھایا جائے کہ ’’ قرآن کے لکھے ہوئے الفاظ محض نقوش ہیں جو نہ لفظ ہیں اور نہ معنیٰ اور یہ اللہ کا کلام نہیں، جس پر حلف اٹھایا جائے تو حلف نہیں ہوتا۔ پھر پیشاب سے لکھنے میں کیا حرج ہوگا؟۔فقہ پر نظر ثانی کی جائے!۔
شوہربیوی شرمگاہ کی خوبصورتی کا فتویٰ علماء و مفتیان سے طلب کریں۔ ہیت بدلنے سے جلوؤں میں فرق آتا ہو اور یہ فیصلہ مفتی صاحب نے کرنا ہو۔ دوصورتوں میں معاملہ واضح ہو، ایک ہیت میں مرد کی شرمگاہ زیادہ حسین ہو اور دوسری ہیت میں عورت کی شرمگاہ کو چار چاند لگیں۔ حبشی شوہر اورگوری خاتون یا گورا شوہر اور حبشی خاتون کا حسن ہیت بدلنے سے بدلے تو حسنِ یوسف علیہ السلام کودیکھ کر قطعن ایدیھن کے علاوہ ہابیل وقابیل کے قصے سے لیکر دنیا کے بہت سے حقائق سے انحراف ہے اور تیسری صورت میں مفتی صاحب کو بھی پتہ نہ ہو کہ بیوی طلاق ہوگی یا لونڈی آزاد ہوگی؟۔ مگر وہ اپنا خیال ظاہر کرے کہ دونوں کو حانث ہونا چاہیے اسلئے کہ دونوں اپنی اپنی یمین میں بریت چاہتے ہیں، دونوں بری نہیں ہیں، خاص پوزیشن میں بیٹھنے کی وجہ سے۔ ذرا سوچئے توسہی! اور قرآن کے مقابلے میں بحرمردار میں غرق ہوجائیے۔ کس ادب ، کس نرمی، کس شائستگی سے رائے کے نام پر اپنی گردن تمہارے آگے جھکاؤں اور خود کو تباہ کردوں؟۔ یہی مذہبی طبقہ ہے جس نے پہلے ادیان کو اپنی خواہشات کیلئے تباہ کیا اور آج بھی قرآن کے پرخچے اُڑارہے ہیں۔
علامہ ابن رشد کی کتاب ’’ بدایۃ المجہد نہاےۃ المقتصد‘‘میں طلاق کے حوالے مختلف مکاتبِ فکر کے حوالے سے زبردست بحث مباحثہ کا خلاصہ دیا گیا ہے۔
اہلحدیث کے پاس کوئی فتویٰ لیکر جائے کہ ایک دن کی تین مجالس یاتین دن یا تین طہروحیض میں تین مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہے تو انکا فتویٰ ہے کہ اس صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ غلام احمد پرویز کے پیروکار کہتے ہیں کہ فقہ حنفی میں طلاقِ احسن کا جو تصور ہے کہ ایک مرتبہ میں ایک طلاق دیدی، عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کرلیا، پھر دوسری مرتبہ طلاق دی اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کرلیا تو پھر تیسری مرتبہ طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ پرویز فقہ حنفی سے چوری شدہ فکر کو قرآن کی طرف رجوع کا نام دیتا ہے۔ جبکہ علامہ عمادی نے اپنی کتاب ’’ الطلاق مرتان ‘‘ میں قرار دیا تھا کہ احادیث تو عجم کی سازش ہیں، قرآن نے تین طلاق کا تصور ختم کردیا، البتہ عورت خلع لے تو حلالہ کی سزا پھر اس کو ملے گی۔ اہل تشیع کے ہاں طلاق کیلئے تینوں مراحل میں دو دو عادل گواہ شرط ہیں اور پھر طلاق دی جائے تو قرآن کی رو سے حلالہ کا تصور قائم ہوگا۔ غرض سب نے اپنی اپنی بات کی ہے۔
قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ کا آپس میں تصادم نہیں ،طلاق کے حوالے سے جتنی آیات اور احادیث ہیں ان کی تفصیل دیکھ لی جائے توپھر راہِ ہدایت مل سکتی ہے۔
مسلک حنفی نے قرآن کے مقابلے میں احادیث کے انکار سے صراط مستقیم کا توازن قائم کردیاہے۔

ابن ماجہؒ کی حدیث ہے کہ ’’ رضاعت کبیر یعنی بڑا آدمی نا محرم عورت کا دودھ پی سکتا ہے اور اسکے بارے میں 10قرآنی آیات تھیں، رسول ﷺ کے وصال فرمانے کے بعدآپؐ کی میت جس چارپائی پر موجود تھی اسکے نیچے یہ آیات پڑی تھیں اور بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں‘‘۔

اگر مسلک حنفی میں قرآن سے متصادم احادیث کو رد نہ کیا جاتا تواُمت بدترین گمراہی کا شکار بن جاتی۔اہلبیت کی احادیث سے اہل تشیع کی طرح سب کے سب مہدئ غائب کے انتظار میں بیٹھ جاتے۔ اہل تشیع نے بھی آخر کار خمینی کی قیادت میں نظرئیے سے بغاوت کی۔ اجتہاد اور شیخ الاسلام کی جگہ ولایت فقیہ اور حجۃ الاسلام نے لے لی ہے اور اہلحدیث بھی اپنے مسلک کی یہ بکواس سرِ عام نہ کرسکے کہ ’’ بڑا آدمی عورت کا دودھ پی کر پردہ ختم کرسکتا ہے لیکن پھر اس عورت اور مرد کی آپس میں شادی بھی ہوسکتی ہے‘‘۔
حنفی مسلک کا کمال تھا کہ احادیث صحیحہ اور خلفاء کرام حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓکے اقوال سے نصاب ہی میں اپنا واضح اختلاف اسلئے نقل کیا کہ اپنے زعم کے مطابق احناف کو وہ سب کچھ قرآن کی آیات سے متصادم لگتا تھا۔ یہی اختلاف رحمت اور وحی کا نعم البدل گردانا جاسکتاہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اہل تشیع، اہلحدیث اور پرویزیوں سے نہیں بلکہ مدارس عربیہ سے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ میری تعلیم حنفی مدارس اور تربیت خانقاہی ماحول میں ہوئی ہے۔ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت حاجی محمد عثمانؒ کے تقویٰ وپرہیزگاری اور عنداللہ مقبولیت کیلئے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ میری تعلیم وتربیت کا اعزاز بھی ان کے کھاتے میں جاتا ہے۔ اختلافِ رائے سے عقیدت کی بنیاد ختم ہوسکتی تھی تو نبی کریم ﷺ سے حضرت عمرؓ کی طرف سے حدیث قرطاس کے معاملے پر ہمیں شیعہ بننا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخصیت نہیں ، قرآن سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں۔ زمانہ جاہلیت میں سب سے سخت ترین طلاق یہ تھی کہ کوئی اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا۔ ایک خاتون حضرت خولہؓ نے جب نبیﷺ سے فتویٰ طلب کیا تو نبیﷺ نے اس وقت کے رسم ورواج اوررائج الوقت شرعی قول کے مطابق یہ بتایا تھا کہ ’’ آپ اپنے شوہر کیلئے حرام ہوچکی ہو ‘‘۔ کیونکہ اس میں حلالہ کا بھی تصور نہیں تھا۔ اس خاتون نے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں جھگڑا شروع کردیا کہ حرام نہ ہوناچاہیے، یہ اسلام کا مسئلہ نہ ہونا چاہیے، میری جوانی اور میرا مال سارا ختم ہوگیا ہے، اب مجھ سے کون شادی کریگا، میرے بچے رُل جائیں گے۔ اپنے پاس رکھوں تو بھوک سے مرینگے ، شوہر کے پاس رکھوں تو ماں کے بغیر کیسے گزارہ کرینگے؟۔
اللہ نے سورۂ مجادلہ کی وحی نازل فرمائی کہ’’ بیشک اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو آپ(ﷺ) سے جھگڑ رہی تھی اور اللہ سے شکوہ کررہی تھی، اللہ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا۔ مائیں وہ ہیں جنہوں نے جنا ، منہ کے کہنے سے وہ بیویاں مائیں نہیں بن جاتیں، یہ جھوٹ و منکر قول ہے‘‘۔
سورۂ احزاب بھی مدارس کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

’’ یاایھا النبی اتق اللہ ولاتطع الکٰفرین و المنافقین ،ان اللہ کان علیما حکمیاOاتبع مایوحیٰ الیک من ربک ان اللہ کان بماتعملون خبیرا O و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلاO … . .. و اذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک زوجک علیک واتق اللہ وتخفی فی نفسک ماللہ مبدیہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشٰہ ۔۔۔آیت:37) ۔

اے نبی(ﷺ) کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کرو، بیشک اللہ علیم حکیم ہے ۔ جو وحی تیرے رب نے تیری طرف نازل کی اس کا اتباع کریں۔اور اللہ جانتا ہے جو تم لوگ عمل کرتے ہو، اور اللہ پر توکل کرو، اس کی وکالت کافی ہے۔ ( پھر منہ سے بیوی کو ماں قرار دینے اور منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیویوں کا ذکرکرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ حقیقی ماں وحقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح وہ نہیں ہوسکتی ہیں۔ دلیل یہ دی ہے کہ ایک شخص کے سینے میں دو دل نہیں ہوسکتے کہ ایک دل سے اس عورت کو اپنے بچوں کی ماں اور دوسرے سے اپنی حقیقی ماں سمجھے ، اس طرح لے پالک کی طلاق شدہ بیوی کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ اللہ نے فطری دلائل دئیے ہیں)…. پھر اللہ نے فرمایا’’ جس شخص کو آپ نے نعمت(بیوی ) سے نوازا تھا اور اللہ نے نوازا تھا، اس (حضرت زیدؓ ) کو بار بار آپ کہہ رہے تھے کہ بیوی کو طلاق نہ دے اور اللہ کا خوف کھا۔ جس چیز کو اپنے اندر چھپارہے تھے ، اللہ نے یہ ظاہر کرنا تھا۔ آپ لوگوں سے ڈرتے ہو، جبکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو‘‘۔ ان آیات کی غلط تشریح کی وجہ سے مرزا غلام قادیانی جیسے ملعون نبوت کے دعویدار پیدا ہوئے اور ہمارے اکابر اور عجیب وغریب روایات گھڑنے والوں نے اس کو بہت غلط رنگ میں پیش کیا۔ امریکہ سے ایک کتاب ’’ اسلام کے مجرم ‘‘ شائع ہوئی ہے جس پر کراچی ہی کے پوسٹ بکس کا ایڈریس لکھا ہے۔ اس میں بکواسات کی بھرمار ہے اور فقہ وتصوف کی گمراہی نے عجیب رنگ دیا۔
علماء ومفتیان کی بات مان کر اگر میں نے ہتھیار ڈال دئیے تو مذہب کے نام پر یہ عوام کے سامنے زیادہ عرصہ رہ نہیں سکیں گے ،اسلئے کہ کھوکھلے نظام کی دھجیاں بکھیرنے میں بہت لوگوں نے بہت کچھ کیا ہے اور میری طرف سے احیاءِ دین کی کوشش میں مذہبی طبقات کی بھی بقاء ہے۔
طلاق پرفقہی مسائل میں بیہودہ ، غلط اور کم عقلی کی بنیاد پرجو عمارت کھڑی کی گئی ہے اس کو سہارا دیا جاسکتا تھا تو بڑے مدارس سے میری کوئی کتاب رد کی جاتی مگر بڑے بڑوں نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ چند بنیادی باتوں کی طرف علماء ومفتیان کی توجہ ہوجائے تو قرآن ان کیلئے شفاء اور آنکھیں لوٹانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
1: قرآن میں خلع اور طلاق کا تصور ہے۔ خلع کو سورۂ النساء میں اولیت ہے ۔ آیت 19میں خلع، آیت 20 اور21میں طلاق کی وضاحت ہے۔ ہاتھ لگائے بغیر جدائی کا فیصلہ ہوجائے تو عدت نہیں، لیکن ہاتھ لگانے کے بعد یعنی ازدواجی تعلق کے بعد عدت ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں آدھا حق مہربھی ہے۔جب عورت اور اسکے شوہر میں جدائی ہو تو اصل معاملہ حقوق کا ہے۔
2: عورت دعویٰ کرے کہ اس کو شوہر نے طلاق دی تو مرد کا اقرار یا عورت کی طرف سے گواہ پیش کرنا ہوگا۔ورنہ تومرد کو حلف اٹھانا پڑیگا۔ اسلئے نہیں کہ جدائی کا معاملہ اس سے رُک جائیگا بلکہ اگر عورت معتبر گواہ پیش کرے تو حقوق کے حوالے سے اس پر طلاق کا اطلاق ہوگا اور اگر عورت اپنے دعوے میں ناکام ہو اور شوہر حلف اٹھائے تو پھر اس جدائی پر خلع کا اطلاق ہوگا۔ فقہ کی کتابوں میں بہت زیادہ غلط بیانی کی گئی ہے جس کی اسلام اور فطرت میں گنجائش نہ تھی۔ مثلاً عورت نے دعویٰ کیا کہ اسکے شوہر نے تین مرتبہ طلاق دی مگر گواہ نہ لاسکی اور شوہر نے حلف اٹھالیا ، اگرچہ غلط حلف بھی اٹھایا ہے تو بھی عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی اور خلع لینے کی کوشش فرض ہوگی لیکن شوہر خلع نہ دے تو پھر عورت کوشش کرے کہ اسکے ساتھ جماع نہ ہو لیکن مجبوری میں اگر وہ خوش نہ ہوگی تو اس بدکاری پر گناہگار نہ ہوگی۔
3: طلاق کے بعد عورت کیلئے عدت گزارنا لازم ہے جس کی میعاد حیض آنے کی صورت میں تین طہروحیض ہیں اور حیض نہ آتا ہویا اس میں ارتیاب ہو توتین ماہ عدت ہے اور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش ہے۔ طلاق کے اظہار کی صورت میں عدت3مراحل ہیں جو3ماہ کے برابر طہروحیض ہیں اور طلاق کا اظہار نہ ہو اور طلاق کا عزم بھی ہو تو شوہر گناہگار ہوگا ، یہی دل کا گناہ ہے جس پر اللہ نے پکڑ کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں انتظار کی عدت 4ماہ ہے۔ انتظار کی عدت اسلئے بیان کی گئی ہے کہ عورت کو انتظار کرنے کی زیادہ اذیت نہ ہو۔سورۂ بقرہ کی آیات 225،226 اور227میں یہ بالکل واضح ہے۔
4: سب بڑی اور بنیادی بات یہ ہے کہ طلاق کے بعد شوہر کو یک طرفہ رجوع کا حق حاصل نہیں۔ عدت میں شوہر اصلاح کی شرط پر زیادہ حقدار اسلئے ہے کہ میاں بیوی کے درمیان صلح کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ تاکہ حلالہ کی خواہش رکھنے والے درمیان میں کسی طرح بھی ٹپک نہ سکیں۔ میاں بیوی کو دنیا کی کوئی طاقت ان کی مرضی کے بغیر جدا نہ کرسکے۔مگرافسوس کہ قرآن پر عمل کے بجائے ہم نے گردنیں مذہبی طبقات کے حوالے کردیں۔
5: یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو ایک ہی عدت گزارنے کا حکم دیا ہو اور مولوی مرد کو تین عدتوں کے حق سے نواز دے، طلاق رجعی کا یہ تصور انتہائی غلط ہے کہ شوہر کو دومرتبہ عورت کی مرضی کے بغیر رجوع کا حق حاصل ہو۔ اسلئے کہ وہ ایک مرتبہ طلاق دیگا، عدت کے ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے رجوع کرلے گا، پھر طلاق دیگا اور عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلے گا، پھر طلاق دیگا تو اس کی یہ پہلی دوسری نہیں بلکہ تیسری عدت ہوگی۔ جس کا اللہ اور رسول ﷺنے کوئی حق نہیں دیا ہے۔
6: اللہ تعالیٰ کسی چوہے کی طرح کمزور حافظے والا بھی نہیں ہے کہ آیت228البقرہ میں عدت کے اندر باہمی صلح کیساتھ رجوع کا حق دے اور229میں بھول جائے اور کہہ دے کہ نہیں دوبار طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا اور اگر ایک ساتھ تین طلاق دیدئیے تو حلالہ کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ جو بات 228میں بتائی تھی کہ عدت کے تین مراحل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی مزید وضاحت کردی ۔ پہلے دومراحل میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ طلاق یا رجوع کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ ایک عورت ایک طہرو حیض میں انتظار کرے، پھر دوسرے طہرو حیض میں انتظار کرے اور پھر تیسرے طہروحیض تک بھی انتظار کرے تو اس سے بڑا شوہر کا کیا درجہ ہوسکتاہے؟۔
7: ایک طرف یہ واضح ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر عدت میں بھی رجوع نہیں کرسکتا ہے تو دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ باہمی اصلاح سے رجوع ہوسکتا ہے۔ باہمی اصلاح سے رجوع کیلئے بار بار معروف طریقے سے رجوع کا تصور دیا ہے ۔ احناف کے نزدیک شہوت کی نظر پڑنے اور نیند میں ہاتھ لگنے سے بھی رجوع ہوگا اور شوافع کے نزدیک نیت نہ ہو تو جماع کرنے سے بھی رجوع نہ ہوگا۔ ایک دوسرا اہم ترین معاشرتی مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب میاں بیوی باہمی مشاورت سے ایکدوسرے سے باہوش وحواس جدا ہوں ، تب بھی عدت وطلاق کے بعد یہ مسئلہ آتا ہے کہ پہلا شوہر اس عورت کو دوسری جگہ اس کی مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔ اس اہم معاشرتی مسئلہ کے حل کیلئے اللہ تعالیٰ نے جن الفاظ میں سابقہ شوہر کی حوصلہ شکنی کی ہے ،اس کو سیاق وسباق کے مطابق دیکھ لیاجائے تو پوری دنیا کی ہدایت کیلئے یہ آیت ذریعہ بنے۔
8: اگر سیاق سباق کے مطابق دیکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں ایک طرف معروف رجوع کو واضح کیا اور دوسری طرف رخصتی کا فیصلہ کرنے کو واضح کیا۔ اگر معروف رجوع کرلیا تو پھر رات گئی بات گئی لیکن چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو پھر جو کچھ بھی عورت کو دیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں الا یہ کہ دونوں متفق ہوں کہ اس چیز کو واپس کئے بغیر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والے بھی یہی سمجھتے ہوں تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ اس کو واپس کیا جائے۔ اللہ نے باہمی اصلاح کے حوالے سے تمام حدود کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ اللہ کی حدود ہیں، ان سے تجاوزمت کرو اور جو ان سے تجاوزکرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ ایسی صورت میں اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے‘‘۔ پھر اگلی آیات231اور232میں اللہ تعالیٰ نے عدت کی تکمیل پر معروف رجوع کو واضح اور دوٹوک انداز میں بیان کیا ہے ، سورۂ بقرہ کی ان آیات اور سورۂ طلاق کی آیات کے بعد ابہام نہیں رہتا ہے اور کوئی ایسی حدیث نہیں جو صلح کی راہ میں رکاوٹ ہو۔
مولانا سلیم اللہ خانؒ نے لکھ دیا کہ ’’ ذائقہ چکھ لینے کی حدیث خبرواحد ہے۔ جس سے قرآن میں موجود نکاح پر جماع کا اضافہ ہم احناف نہیں کرسکتے ہیں مگراحناف نکاح کا معنی جماع کے لیتے ہیں ، اس حدیث کی وجہ سے اضافہ نہیں کرتے‘‘۔( کشف الباری : مولانا سلیم اللہ خانؒ )
اصل بات یہ ہے کہ رفاعۃ القرظیؓ نے جب طلاق دی اور اس عورت نے دوسرے سے نکاح کرلیا تو پھر رجوع و حلالہ کا مسئلہ نہیں رہتا ہے بلکہ وہ خاتون کسی اور شخص سے ازدواجی تعلق قائم کرچکی تھی۔ وہ اسی کی بیوی تھی ، صلح کیلئے تو اس وقت بات ہوسکتی تھی جب اس نے دوسری شادی نہ کی ہوتی۔ اسلئے حدیث قرآن کے منافی نہیں ہے کہ کوئی صلح پر پابندی لگائی گئی ہو۔ وہ تو بیوی ہی کسی اور کی تھی۔
بے شرمی، بے غیرتی، بے حیائی ، کمینہ پن ، ذلالت، گمراہی اور اندھے پن کی بات یہ ہے کہ جب عدت میں رسول اللہ ﷺ نے کسی میاں بیوی کو کبھی یہ فتویٰ نہیں دیا تھا کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا‘‘ تو ایسی حدیث سے حلالہ کا فتویٰ کیوں دیا جارہاہے جس کے بارے میں کوئی اختلافِ رائے نہیں کہ وہ عورت دوسرے سے شادی کرچکی تھی؟۔ جب اللہ تعالیٰ نے عدت کی تکمیل تک بار بار واضح الفاظ میں صلح ورجوع کی گنجائش رکھی ہے تو نبیﷺ کیوں اس کا دروازہ بند کرتے؟۔ یہ تو حلالہ کی حرص وہوس نے فقہاء کو غلط راستے پر ڈال دیا تھا۔
حضرت عمرؓ کے پاس تنازعہ نہ آتا تو اکٹھی تین طلاق واقع ہونے کا فیصلہ کبھی نہ دیتے، تنازعہ کی صورت ہو تو پھر ایک طلاق کے بعد بھی شوہر عورت کو رجوع پر مجبور نہ کرسکتا تھا۔ طلاقِ رجعی کے غلط تصور نے جگہ پکڑلی تو تنازعات کا تقاضہ تھا کہ بات بات پر تین طلاق کو ناقابلِ رجوع قرار دیا جاتا۔ بالفرض ایک ساتھ تین طلاق واقع نہ ہونے کے فتوے دئیے جائیں اور شوہر کو یکطرفہ رجوع کا حق حاصل ہو تو خواتین بہت خسارے میں رہتیں۔ حضرت عمرؓ کا فیصلہ نہ صرف ائمہ اربعہ ؒ بلکہ دنیا کی ہر عدالت کیلئے قابلِ قبول ہے۔البتہ تنازع کی صورت نہ ہو تو رجوع کی اجازت نہ دینا قرآن وسنت ، عقل وفطرت اور شریعت وطریقت کے خلاف ہے۔ لچک کے بغیر اچھے کی امیدہے۔ عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ