پوسٹ تلاش کریں

On the Questionnaire of Raqibullah Mehsud, A detailed response submitted by Syed Atiq-Ur-Rehman Gilani that Zakat is the only solution of Economic Revival.

On the Questionnaire of Raqibullah Mehsud, A detailed response submitted by Syed Atiq-Ur-Rehman Gilani that Zakat is the only solution of Economic Revival. اخبار: نوشتہ دیوار

Raqibullah Mehsud
Shafqat Ali Mahsud
mehsud tribe
zakat committee
mufti taqi usmani
usman kakar
mehrab gul afghan

سوشل میڈیا میں ایک بے باک ابھرتا ہوا بگ سٹار رقیب اللہ محسود کا سوالنامہ: پیر صاحب سے سوالات

موجودہ دور میں علما نے دین اسلام کو صرف نماز ، داڑھی، کرتہ، پاجامہ ، خواتین کے پردے اور علما کی قدر تک کیوں محدود کردیا ہے؟۔ قرآن میں کافی جگہ نماز کیساتھ زکو کا حکم ہے لیکن پورے سال میں آپ کسی مولوی سے اس کا ذکر نہیں سنو گے۔ سوائے اس وقت جب اس کو اپنے مدرسے کیلئے ضرورت ہو۔
اگر بیس فیصد لوگوں نے زکو دینی شروع کردی تو معاشرہ خوشحال اور فلاحی بن جائیگا۔ چوریاں ختم ہوجائیں گی، پیسوں کی فراوانی ہوگی، لوگ حرام خوری چھوڑ دیں گے۔ ہمیں آئی ایم ایف(IMF) سے سود پر قرضہ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
علما کی قدر کا اب یہ اثر ہوگیا ہے کہ کوئی مولوی چاہے کتنا غلط کام کیوں نہ کرے اسکے خلاف بات کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جاتا۔ کیا ہم اس طرف نہیں بڑھ رہے جس طرح سندھ اور پنجاب(SINDH PUNJAB) میں لوگ پیروں کے پاں پکڑتے ہیں، قبروں کو سجدے کرتے ہیں، شرک کرتے ہیں۔ پشتون علاقوں میں علما کو سب سے زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آج تک کسی نے دین کی وجہ سے ان کی بے قدری نہیں کی۔ پھر بھی بار بار ہر جگہ یہ دعوت کیوں چلائی جارہی ہے؟۔
ان تمام سوالات کے جواب پیر صاب کو تفصیل سے دینا چاہیے۔ کیا ہم انگریزی اسلام اور دجال کے پیروکاروں کے نرغے میں آگئے ہیں؟ ۔ علما حق کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دین اللہ کیلئے ہوجائے؟۔
ا لجواب اور وہ بھی تفصیل سے؟۔ یہ توایک کتاب کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے …
ان سولات میںگہری فکر ہے اور اس فکر کا مقصد اس ماحول کو تبدیل کرنا ہے کہ ہم نے اسلام جیسے عالمگیر دین کو جو تمام زمان ومکان پر حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کیوں چند مخصوص معاملات تک محدود کردیا ہے؟۔
علامہ اقبال نے شیطان کی خواہش کا اپنے اشعار میں ذکر کیا ہے کہ
افغانیوں کی غیرتِ قومی کا ہے یہ علاج کہ ملا کو اس کے کوہ ودمن سے نکال دو
علامہ نے ابلیس کی مجلس شوری اور دیگر عنوانات سے شیطان کی خواہشوں کا ذکر کیا ہے۔ اس شعر کامطلب کم پڑھے لکھے قارئین کیلئے واضح کرتا ہوں کہ شیطان کی یہ خواہش ہے کہ اگر پشتون کو قومی غیرت سے محروم کردینا ہے جو شیطان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو علما کو انکے پہاڑی اور میدانی علاقوں سے نکال دو۔ کسی بھی قوم کی کوئی خاصیت ہوتی ہے۔ پشتونوں کا مشترکہ اثاثہ اس کی ملی غیرت ہے۔ اگر غیرت چھن جائے تو پھر وہ پشتون بالکل بھی نہیں رہتا ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا کہ ”اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ آپ ان سے کہدو کہ تم لوگ ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں ،اسلئے کہ ابھی تک ان لوگوں کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے”۔ (القرآن) کسی جگہ فرمایا کہ ”اسلام میں پورے پورے داخل ہوجا”۔ (القرآن)کسی جگہ فرمایا کہ” اے ایمان والو! ایمان لا” ۔(القرآن)۔ پشتون کی حیثیت سے رقیب اللہ نے جو دعوت دی، وہ فطرت کا تقاضہ اور قرآن میں موجود ہے۔
علامہ اقبال نے ”محراب گل افغان ”(MEHRAB GUL AFGHAN)کے تخیلاتی نام سے بڑا عمدہ تخیل پیش کیا ۔
افغان باقی کہسار باقی تو ہر بیماری کا علاج اے غافل افغان تو اپنی خودی پہچان
تیری بے علمی نے رکھی بے علموں کی لاج عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
فطرت کے مقاصد کرتا ہے نگہبانی
اب نام رہ گیا ہے وزیری ومحسود
تیری دعا ہے کہ یہ دنیا بدل جائے
یابندہ صحرائی یا مرد کہستانی
یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری
میری دعا ہے کہ تو بدل جائے
اگر تیرے اندر انقلاب ہو پیدا
توعجب نہیں کہ چار سو بدل جائے
مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے ایک روایت نقل کی ہے کہ پہلے دور میں قرآن کے معانی کی طرف زیادہ توجہ دی جائے گی اور الفاظ کی طرف کم ۔ آخری ادوار میں الفاظ کی زیادہ نگہداشت ہوگی اور معانی کی طرف کم توجہ دی جائے گی”۔ میں نے علامہ اقبال(ALLAMA IQBAL) کے اشعار کے الفاظ نہیں اسکے معانی سامنے لانے کی کوشش کی ہے اور جناب رقیب اللہ نے اپنے مضمون میں خول اورروح کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سوالات کے جوابات اپنی تشریح میں دیدئیے ہیں۔ اس صحرائے نورد نے خشک صحرا کو رشک گلشن بنانے کیلئے جس پیاس کا ذکر کیا ہے تو دریائے سندھ سمیت اگر پنجاب کے پنجند بھی صحرائے تھل اور صحرائے بہالپور پر لگائے جائیں تو پانی ختم ہوجائیگا ان صحراں کی پیاس نہیں بجھے گی اسلئے تو سندھی کالاباغ ڈیم بننے نہیں دیتے ہیں۔ رحمن بابا(REHMAN BABA) کہتا ہے کہ ”اللہ کاولی بھی پانی چوری کرتا ہے”۔
اسلام ظاہر ی ڈھانچہ اور ایمان دل کا عقیدہ اور کیفیت ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”ایمان کے بہت شعبے ہیں اور حیا ایمان کا خاص شعبہ ہے”۔ اور یہ فرمایا کہ ”جب تجھ سے حیا چلی جائے تو پھر جو چاہو ، کرو”۔ جس طرح مسلمانوں کیلئے اسلام ڈھانچہ ہے اور روح ایمان ہے۔ ایمان کا خاص نچوڑ حیا ہے۔ اسی طرح پشتون قوم کا ایک ظاہری ڈھانچہ اور ایک باطنی روح ہے۔ باطنی روح کا خاص نچوڑ غیرت ہے۔ علامہ اقبال نے کہا کہ اگر پشتون کو اس کی ملی غیرت سے محروم کرنا ہے تو پھر علما کو ان کے پہاڑی و میدانی علاقوں سے باہر کرنا ہوگا۔ شیطان کا سب سے بڑا ہدف علما کو ٹارگٹ کرنا ہے۔
آپ نے سندھ و پنجاب میں قبرپرستی اور پیروں کے نام پر خرافات کی مثال دی ہے تو اگر پشتون علما کا کردار نہ ہوتا تو سندھ وپنجاب اور پشتونخواہ میں فرق کیوں ہوتا؟ حالانکہ وہ بھی مسلمان اور ہم بھی مسلمان ۔ علامہ اقبال کی بات کوئی قرآن اور حدیث نہیں لیکن بعض اوقات اچھے شعرا کا کلام الہامی ہوتا ہے۔ پاکستان کو کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ کے نام پر بنایا گیا تھا مگر پاک فوج اور سول بیوروکریسی سے لیکر سیاستدانوں، علما ومشائخ اور مجاہدین تک سب کے سب افغانستان(AFGHANISTAN) کیخلاف امریکہ کی مدد کیلئے کیسے کھڑے ہوگئے؟۔ ملاعمر اور طالبان پشتون قوم سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے امریکہ اور نیٹو کی افواج کے آگے سجدہ ریز ہونے سے انکار کردیا۔ یہ پشتون ملا عمر(MULLA UMER) اور اس کی صفوں میں کھڑے ہونے والے علما کا کمال تھا کہ پوری دنیا بھی مقابلہ کرنے آئی مگر انہوں نے اپنی حکومت، وطن ، جانوں ، عزتوں اور سب کچھ کی قربانی دیدی۔ علامہ اقبال کی بات درست ثابت ہوئی۔ اگر ہوتک قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملا عمر نے اسامہ کو حوالے نہ کیا اور سید پرویز مشرف نے ڈاکٹرعافیہ صدیقی(DOCTOR AFIA SIDDIQUE) کو حوالے کیا۔تو اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہے؟۔
جناب رقیب اللہ محسود ! (RAQEEBULLAH)آپ کی تحریر سے اسلام کی ظاہرمیں بڑی شان اورباطن میں ایمان کی وہ خوشبو آرہی ہے جو ایک پشتون کی گردن اور شہ رگ میں اسلام و ایمان کا رشتہ ہوتا ہے۔ آپ کو بیس فیصد زکو (ZAKAT)پر جتنے زیادہ نفع بخش نتائج دکھائی دیتے ہیں یہ بڑا قابلِ رشک ہے۔ یہی جذبہ امریکہ کیخلاف جہاد کا جذبہ رکھنے والے مجاہدین میں تھا۔کسی کو یقین نہ تھا کہ ایک دن امریکہ کو ناکام ہوکر نکلنا ہوگا لیکن علما کے کہنے پر ڈٹ جانے والے مجاہد اور طالبان نے ناممکن کو ممکن بنادیا۔ آپ جیسے جواں نسل میں زکو اور اس کی تبلیغ کی سوچ پیدا ہوجائے تو جس طرح امریکہ کو جہاد کے میدان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو معاشی میدان میں بھی مسلمانوں کی زکو کے نظام سے سرخروئی بدرجہ اولی ہوسکتی ہے۔
علما بھی اسی ماحول کے بندے ہیں۔صدیوں سے جو روایت چلتی ہے لوگ اس ماحول کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتے ۔ امریکہ افغانستان نہ آتا تو جہاد کے ثمرات کا بھی دنیا کو پتہ نہ چلتا۔ کشمیر کے نام سے جو مجاہدین مولانا مسعود اظہر (MOLANA MASAOOD AZHAR)وغیرہ کام کر رہے تھے تو انہوں نے افغانستان میں امریکہ کے خلاف کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ امریکہ کی آمد نے ایک فرض سے علاقہ کے لوگوں کو روشناس کرایا۔ مقتدر طبقات نے امریکہ سے پیسہ لیکر اس کی حمایت کی۔ طالبان نے ایمان کی مدد سے امریکہ کا مقابلہ کیا ۔ اب پھر مقتدر طبقات نے اپنے اللے تللے کیلئے بھاری بھرکم سودی قرضے لئے اور مسلمانوں کوزکو کی طرف کو متوجہ کیا جارہاہے۔ اگر امیر لوگ اپنے علاقے کے غریبوں کو زکو دیں گے تو بہت ساری مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے اور پھر یہ ایک تحریک کی شکل میں قو م کے اندر نئی روح ڈال سکتا ہے۔ وزیرقوم نے واوا کے نام سے کتنا بڑازبردست نظام تشکیل دیا ہے؟۔ اس سے پہلے کبھی وزیر یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پھر محسود قوم کی طرف سے بھی ماوا کے نام سے چلتی کا نام گاڑی شروع ہوا۔ یہ مردہ قوموں میں زندگی کی روح ڈالنے کی ہوائیں ہیں جو ابھی چل پڑی ہیں۔
طالبان کیخلاف امریکہ نہ آتا تو وہ کنویں کے مینڈک رہتے۔ تصاویر پر پابندی ہوتی اور القاعدہ والے اپنی شادیوں کی بھی ویڈیوز بناتے۔ اب افغان طالبان نے بھی دنیا دیکھ لی ہے اور امارت اسلامی افغانستان کے نام سے پہلے کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں حکومت اور اسلام کے احکامات کی طرف توجہ کریں گے۔ افغان ایک طرف اشرف غنی کی حکومت کیساتھ کھڑے ہیں اور دوسری طرف طالبان کیساتھ کھڑے ہیں۔ ان میں اختلاف کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں اور مکالمے کی شکل میں دونوں طرف کے اہداف کی اچھی توجیہات بھی وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ جب طالبان امریکہ کی وجہ سے روپوش تھے تو افغان عوام کا حق تھا کہ مقامی حکومت تشکیل دیتے۔ طالبان نے زبردستی سے حکومت پر قبضہ کیا تھا تو جب ان کو امریکہ اور نیٹو نے زبردستی سے ہٹنے پر مجبور کردیا تو افغان عوام نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا غنیمت سمجھا تھا۔ اگر طالبان کی حکومت منتخب حکومت ہوتی تو پھر طالبان کو گلہ شکوہ کرنے کا حق بھی پہنچتا تھا۔ جس اسلام کو طالبان نے افغان عوام پر مسلط کیا تھا اس اسلام کے اب طالبان خود بھی حامی نہیں رہے ہیں بلکہ بہت ہی زیادہ بدل چکے ہیں۔جب قابض امریکہ سے مذاکرات ہوسکتے تھے تو افغان حکومت سے بھی افہام وتفہیم کیساتھ معاملات حل کرنے میںکوئی شریعت حائل نہیں ہوسکتی ہے۔اصل مسئلہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اسلام کی تشریح کا ہے۔ افغان طالبان چند مخصوص چیزوں کو اسلام سمجھتے ہیں جبکہ افغان عوام زبردستی کے اسلامی نظام سے متفق نہیں۔ اشرف غنی کی مختصر داڑھی ان طالبان کوکیسے قبول ہوسکتی ہے جو زبردستی داڑھیاں رکھواتے تھے؟۔ جن کو اشرف غنی ، عبداللہ عبداللہ قابلِ قبول ہیں اور ڈاکٹر نجیب کو آئیڈل سمجھتے ہیں وہ زبردستی داڑھی رکھوانے والوں کو کیسے حکومت سپرد کرسکتے ہیں؟۔ سعودیہ، عرب امارات اور پاکستان طالبان کے حامی تھے لیکن تینوں ممالک اپنے ہاں ملا کو ایسا رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے جو طالبان نے اپنی رعایا عوام کیساتھ اپنا یاہوا تھا۔طالبان سمجھتے ہیں کہ حکومت ہم سے چھین لی گئی تھی ،غیر ملکی افواج سے مدد لیکر ہمارا قلع قمع کیا، نیٹو افواج سے زیادہ انہوں نے انتقام کا نشانہ بنایا۔ اب جبکہ انکے سرپرست نیٹو نے ان کو چھوڑ اتو حکومت چھین لینا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ غیر ملکی اقوام نے ہم پر جارحیت کی تو انہوں نے ہماری آبادیوں کو نشانہ بنایا۔ بچے اور خواتین بھی شہید کردئیے۔ جب ہم نیٹو کی افواج سے لڑسکتے تھے تو ہمارے لئے ان کی کیا حیثیت ہے؟۔ یہ اپنے غیرملکی آقاں کیلئے اقتدار میں آئے اور ہمارا اپنا ایک مشن، عقیدہ اور نظریہ ہے۔ افغان عوام ہی کی مدد سے ہم نے نیٹو کو بھی شکست سے دوچار کردیا ۔ عوام کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ زیادہ تر علاقے ہمارے پاس ہیں اور حکومت کرنے کا حق بھی ہمارا ہے ۔ افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی تو افغانی عوام طالبان کے جبر سے تنگ تھے۔ بقیہ صفحہ3نمبر2پر
بقیہ…….. رقیب اللہ محسود کے سوالنامے کا جواب
اگر انتخابات میں مقابلہ ہوا تو طالبان اقتدار سے محروم ہوسکتے ہیں اسلئے طالبان الیکشن میں نہ جائیں گے۔ ہمارے ہاںطالبان(TALIBAN) شروع میں مسلط ہوئے تو لوگوں نے ان کو پسند کیا پھر انکے نام سے بھی نفرت ہوگئی ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”سب سے بدترین وہ لوگ ہیں جن کی عزت انکے خوف کیوجہ سے کی جائے”۔ جب بینظیر بھٹو(BENAZIR BHUTTO) کو شہید کیا گیا تو جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبارِ جہاںکراچی کے سرورق پر بینظیر بھٹو کی تصویر تھی۔ میں جرمنی جارہاتھا اور دوست کے گھر میں صبح سویرے جانے کیلئے رکا تھا۔ اس شمارے کو دیکھا تو اس میںیہ لکھاہوا تھا کہ ”افغان فوج (AFGHAN ARMY)نے نیٹو کے سپاہیوں کو طالبان کوپیسے دیتے ہوئے پکڑ لیا، افغان سپاہیوں کو تعجب بھی ہوا مگرانہوں نے ہنستے ہوئے ان کو کوئی اہمیت نہیں دی”۔
اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ نیٹو کی افواج اپنے ہدف القاعدہ(ALQAIDA) کو مارنا چاہتے تھے مگر وہ طالبان کے دشمن نہ تھے۔ دوحہ قطر اور دوسرے ممالک میں نیٹو کیساتھ طالبان کی گفتگو کا سلسلہ پہلے بھی جاری رہتا تھا۔ امریکہ نے اپنے ایک باغی القاعدہ کا خاتمہ کردیا لیکن داعش کو پیدا کردیا ہے۔ طالبان کو شروع سے امریکہ کے کہنے پر جنرل نصیر اللہ بابر(GENRAL NASEERULLAH BABAR) نے بینظیر بھٹو کے حکم سے بنایا تھا۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں یہ مضمون شائع ہوا کہ ”جب پاکستان کو افغانستان میں طالبان بنانے کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی (MOLANA FAZAL REHMAN)مدد کی ضرورت پڑی تو مولانا اپنی جان بچانے بیرون ملک کے دورے پر گئے۔ پاکستان کو ضرورت تھی مولانا نے مدد نہیں کی”۔ جرمنی میں ایک برطانوی تاجر سے امریکہ کی دوغلی پالیسی پر بات ہوئی تو اس نے کہا کہ برطانیہ کا کردار کیساہے؟۔ میں نے کہا کہ وہ بھی یہی چیز ہے ۔ غالبا اخبار جہاں میں برطانوی فوجیوں کا ذکر تھا جسکا میں نے حوالہ دیا تھا اس پر اس برطانوی تاجر کے چہرے کا رنگ بہت خراب ہوگیا۔ امریکہ نے افغانستان کے بعد عراق اور لیبیا کا تیل بھی لوٹ لیا۔ جب (1990) میں عراق پر حملہ کیا تھا تو اسکے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے۔ پھر طالبان اور القاعدہ کا ڈرامہ رچایا گیا تو نیٹو نے ساتھ دیا اور عراق و لیبیا (IRAQ&LIBYA)کے تیل کے ذخائر لے اڑے۔ علاوہ ازیں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ پشتونوں کے دل ودماغ میں طالبان کے سخت گیر کردار ، بھتہ خوری اور امریکہ کیساتھ گہرے مراسم کی وجہ سے ملاں سے نفرت بیٹھ گئی۔ شیطان نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے اس بات کی طرف راستہ ہموار کردیا ہے کہ پشتون قوم اپنے ملاں کو اپنے پہاڑی اور میدانی علاقوں سے نکال باہر کر دیں۔
میرا بیٹا ابوبکر کہہ رہاتھا کہ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ لاہور کا مفتی عزیزالرحمان(AZIZURREHMAN) پشتون نہیں لیکن پھرپتہ چلاکہ یہ حضرت سوات کا ہے ۔ ہماری تحریک کے ابتدائی سالوں میں ہمارے ساتھیوں نے سنت سمجھ کر کان کے لوتک محسودقومی بالوں کی طرح بال رکھے تھے تو ہم پر بریلویت کا الزام لگایا جارہاتھا۔ جب روس کیخلاف جہاد ہورہاتھا تو کچھ لوگ بس میں بیٹھے تھے اور ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی تھیں لیکن بال لمبے لمبے تھے۔ میرے بھائی نے ان کو دیکھ کر پوچھا کہ کونسا فرقہ ہے؟ ان میں سے ایک نے ناراضگی سے کہا کہ یہ فرقہ نہیں مجاہد ہیں۔ بھائی نے پوچھا کہ پھر یہ بال کیوں رکھے ہیں؟۔ تو اس نے آنکھیں گھمائیں اور کہا کہ ہمیں بال بنانے کا وقت جہاد میں کہاں ملتا ہے؟۔ بھائی نے کہا کہ یہ تمہاری داڑھیاں پھر روسیوں نے منڈوائی ہیں؟۔ جس پر وہ بہت شرمندہ ہواتھا۔
جہاد تو اپنی جگہ ٹھیک اور قیامت تک جہاد جاری رہے گا لیکن چوتڑ تک بال رکھنے میں کیا حکمت ہے؟۔ طالبان سوال پر ناراض ہوتے ہیں۔ وانا کے وزیروں نے پہلے طالبان کیساتھ رشتے ناطے تک کئے پھر ان سے جھگڑا ہوا تو الزام لگایا کہ ہم نے ایک ازبک کو بیٹی دی ہوتی تھی اور آٹھ آٹھ اسکے ساتھ یہ کام کرتے تھے۔ یہ وہی ازبک تھے جن کو صحابہ کرام کی طرح قرار دیا جارہا تھا۔
ہمارے ہاں ایک شخص تھا جو رمضان سے پہلے داڑھی رکھ لیتا تھا اور پھر کسی گاں میں مسجد کی امامت کرکے زکو خیرات اور تنخواہ کمالیتا، رمضان کے بعد داڑھی منڈا لیتا تھا اور اپنی محنت مزدوری کرتا تھا۔ ملا اور مجاہدکے نام پر بہت زیادہ جعل ساز لوگوں نے دھندے شروع کردئیے ہیں جن کا کوئی دین ایمان نہیں۔ بعض وہ ہیں جنکے پاس علم بھی ہے لیکن مذہب کے نام پر دھندہ بنانے کی وجہ سے کسی کو شعور نہیں دیتے ہیں۔ بہرحال علما کا کردار غنیمت ہے لیکن ایک بڑے طوفان کے ذریعے ان کو شعور کی طرف لے جانے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
جناب رقیب اللہ !آپ کا مقصد جمود کو توڑنا ہے جس کیلئے قربانیوں کی ضرورت ہے۔ محسود قوم پہلے بھی بہت قربانی دے چکی ہے ۔اب خوف وہراس نے ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ اس خوف کی فضا میں جمود کو توڑنے کی قربانی کوئی دوسری قوم نہیں دے سکتی ہے۔ اول وآخر محسود قوم کو اللہ نے شاید اس مقصد کیلئے پیدا کیا ہے اور چند اصول طے کرنے کی ضرورت ہے کہ بہادری و بزدلی کی تعریف لوگوں کے دل ودماغ میںڈالی جائے۔ بہادری یہ ہے کہ کوئی فرد باپ ، دادا، بھائیوں، قوم و شاخ کی شناخت نہ چھپائے جو اپنی شناخت چھپائے وہ دہشتگرد بزدل ہے۔
افغان حکومت اور طالبان سے لیکر عالم اسلام و کفر تک دنیا میں ایک مکالمے کی فضا پیدا کی جائے۔ قرآن(QUURAN) کے نظام میں اتنی جامعیت ہے کہ چھوٹے گھر ، محلہ، علاقہ اور خطے سے لیکر دنیا کو راہ راست پر لانے کی صلاحیت اس میں موجود ہے لیکن صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے بعد رفتہ رفتہ اسلام کا ڈھانچہ اور اس کی روح اجنبیت کا شکار ہوگئے۔ مولانا اشرف علی تھانوی(MOLANA ASHRAF ALI THANVI) نے لکھا ہے کہ ”میں ایک ایسے گاں میں گیا جہاں ہندو اور مسلمان اکٹھے تھے۔ ان کے ایکدوسرے سے رشتے ناطے بھی تھے ۔ کوئی ایسی شناخت نہیں تھی کہ کون مسلمان اور کون ہندو؟۔ پہچان کیسے ہو؟۔ آخر کار میں نے پوچھ لیا تو انہوں نے کہا کہ اور کوئی فرق نہیں ۔ بس ہولی اور دیوالی ہوتی ہے تو اس کی میزبانی ہندو کرتے ہیں اور مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں اور بزرگ کے عرس میں میزبان مسلمان بنتے ہیں اور ہندو بھی شریک ہوتے ہیں۔ مولانا تھانوی نے ان کو تلقین کردی کہ اس عرس کی میزبانی کی رسم مضبوطی سے تھام لو،جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین سے تعلق رکھنے والے مشرکینِ مکہ کیلئے صفا ومروہ کی دوڑ واحد مذہبی شعار رہ گیا تھا باقی بت شکن ابراہیم کی ساری قربانیاں بھول کر خانہ کعبہ کے بتوںکوہی شعار بنالیا تھا۔ بتوں سے اتنے خطرات نہیں ہوتے اسلئے کہ مجسمے ہوتے ہیں مگر جب علما ومشائخ کی پوجا شروع کی جائے تو وہ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اللہ نے ایک طرف اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دی کہ ان کو کہو کہ ایسی بات کی طرف آ جو ہمارے درمیان مشترک ہے تو دوسری طرف واضح کیا کہ ” یہود ونصاری آپ سے کبھی راضی نہ ہونگے جبتک آپ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں ”۔ (القرآن)۔بت میں نفسانی خواہشات، جنسی معاملات، پیٹ، بال بچے اور دولت ، شہرت ، عزت اور اقتدار کی خواہش نہیں ہوتی ۔ انسان میں دل ہوتا ہے جس کی خواہشات ختم نہیں ہوتیں اور ماحول میں ڈر وخوف کا بھی شکار ہوتا ہے۔
جب ہم بنوری ٹان(BINORI TOWN) کراچی میں پڑھتے تھے تو اس وقت روس نے مسلم ریاستوں میں آزادی سے پہلے اسلام کی تبلیغ کی اجازت دی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایسے مسلمان تھے جن کو صرف اپنے آبا واجداد سے اتنا پتہ چلا تھا کہ ”علی ہمارا خدا ہے”۔ اس پر انکے مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔
تبلیغی جماعت (TABLEGHI JAMAT)کی بدولت لوگ چند مخصوص چیزوں کو اسلام سمجھتے ہیں تو یہ غنیمت ہے لیکن اسلام کے مسائل بہت سادہ اور عام فہم ہیں جس دن عوام کو متوجہ کیا گیا تو علما اور تبلیغی جماعت والے بھی روس کی نو آزاد مسلم ریاستوںاور ہندوستان کے مسلمانوں کی طرح اپنی اس حقیر معلومات کو اسلام کیساتھ مذاق سمجھیں گے۔
غسل کے فرائض اور استنجے کے مسائل سے لیکر ایک ایک بات کو مذہبی طبقات نے اجنبیت کا شکار بنادیا۔ اصول فقہ میں نالائقی کی انتہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے درست کہا کہ اگر کسی عقل والے کی نظر اس پر پڑگئی تو سب کچھ ملیامیٹ ہوجائے گا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ”تدوین القرآن”میں بڑے حقائق ہیں جو جامعہ بنوری ٹان کراچی نے شائع کردی ۔ میرازمانہ طالب علمی کا دوست مفتی زین العابدین لسوندی بہت محتاط انسان ہے ، کبھی کھبار ان سے بات ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ ”وزیرستان کی کہاوت ہے کہ کسی مسئلے کا حل آسان مگر اس کو اپنے ذمے لینے کا دعوی کرنا مشکل کام ہے”۔
یقین جانو کہ مدارس کا حال بھی یہی ہے کہ نصاب میں کوئی جان نہیں مگر بس کسی میں ہمت نہیں ۔ مفتی حسام اللہ شریفی ،مفتی محمد نعیم، شیخ الحدیث مفتی زر ولی خان، مولانا عبدالرف ہالیجی ، مولانا قاری اللہ داد، مفتی خالد حسن مجددی، مولانا الطاف الرحمن بنوی ، علامہ زاہد الراشدی اور پروفیسراورنگزیب حافی جیسے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی دیر تھی۔مفتی زر ولی خان میں جرات تھی مگر زندگی نے وفا نہیں کی اور میری کتاب ”عورت کے حقوق”کے مسودے اور کتاب چھپنے کے بعد پڑھی تو بھی بہت اچھے تاثرات کا اظہار کیا تھا۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) نے اپنے حالیہ ایک بیان میں کہا کہ ”اللہ نے قرآن میں اپنی ذمہ داری لی ہے کہ ثم ان علینا بیانہ پھر ہمارے اوپر اس کو واضح کرنے کی ذمہ داری ہے، صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین سے آج تک قرآن جو بیان کیا گیاہے ،یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ بڑے بڑے لوگ گزرگئے اور ان کی باتوں کا کسی کے پاس جواب نہ تھا۔ غلام احمدپرویز آج کہاں ہے”۔ (ویڈیو بیان)
دنیا میں آج ڈاکٹر ذاکر نائیک کی بڑی گونج ہے۔ غلام احمد پرویز (ghulam ahmed parvaiz)نے لکھا تھا کہ طلاق احسن کا جو طریقہ حنفی فقہا نے بتایا ہے وہی قرآن کی تفسیر ہے۔ دومرتبہ طلاق احسن دینے کے بعد تیسری مرتبہ طلاق احسن دی گئی تو پھر قرآن میں حلالہ کے بغیر رجوع نہیں کرنے کا حکم ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک(doctor zakirnaik) کی مقبولیت مفتی تقی عثمانی سے زیادہ ہے اور وہ بھی غلام احمد پرویز کی پیروی کررہے ہیں۔ اپنے شاگردوں کی طرف سے سخت سکیورٹی کے حصار میں شاہانہ ٹھاٹ سے متاثر ہونے والے شیخ الاسلام کو انشا اللہ اپنی مقبولیت کا بہت جلد اندازہ لگ جائے گا۔ اب وہ یونین کونسل کے ممبر بننے کے قابل بھی نہیں ۔ اگر یہ عزت ہے کہ برائی پر پکڑ نہ ہو تو شیخ الحدیث مولانا نذیرا حمد جامعہ امدادیہ فیصل آباد اور حال میں شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کے حال سے عبرت حاصل کریں۔ اگر یہ ساری باتیں اللہ کی طرف سے تھیں تو چاراماموں میں کئی مسائل پر حلال وحرام ، جائز وناجائز اور طلاق ہوگئی یا نہیں ہوئی ؟۔یہ اختلافات کیوں ہیں؟۔ کیا اللہ کے بیان میں تضادات ہوسکتے ہیں؟۔ سارے مدارس کے علما ومفتیان بینک کے سودی نظام کی مخالفت کر تے تھے لیکن اکیلے مفتی تقی عثمانی نے معاوضہ ہڑپ کرنے کے چکر میں اس کو اسلامی قرار دینے کیلئے پرواز کیوں بھری؟۔ کیا یہ اللہ کی طرف سے ہے کہ شیخ الاسلام اور مفتی اعظم بینک کے سود کو جائز قرار دے؟ ، باقی علما ومفتیان مخالفت کریں؟۔ سیدھی بات ہے کہ دس لاکھ روپیہ کسی نے بینک میں رکھا ہو اور اس پر لاکھ سود مل جائے اور پھراٹھائیس ہزار زکو کے نام پر کٹ جائیں تو اصل رقم بھی محفوظ ہوگی اور سود بھی ملے گا تو زکو کی کٹوتی کہاں سے ہوگی؟۔ مفتی محمود (mufti mehmood)نے مخالفت کی ۔ پہلے مولانا فضل الرحمن نے شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیا مگر پھر ایک سو اسی ڈگری کے زوایے پر مسئلہ الٹ دیا گیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو نبیۖ نے زمین کو مزارعت پر دینا سود قرار دیا۔ امام ابوحنیفہ ،امام مالک اورامام شافعی(imam abu hanifa imamshafi imammalik) سب متفق تھے کہ مزارعت سود ہے لیکن پھر رفتہ رفتہ شیخ الاسلاموں نے ریاستوں کی مدد سے اسلامی احکام کا تیا پانچہ کیا۔ پھر وہ وقت آگیا کہ مزارعت سود کی بجائے جاگیردارانہ سسٹم کا حصہ بن گئی۔ جو ٹوٹل سودی نظام تھا اس سے ملاں کو زکو ملتی تھی۔ مزارع تو اپنے بچے نہیں پال سکتے تھے۔ جنکے پاس اپنی زمین ہوتی تو وہ جاگیردار کی زمین کیوں کاشت کرتے؟۔ جب جاگیردارکی دولت سود کی رہین منت ہو تو وہ زکو ادا بھی کرے تو مزارعین کو دے گا جنکا خون چوس کر دولت بنائی گئی ؟۔ سودخور کس طرح زکو ادا کرنے میں مخلص ہونگے؟۔ سود اور زکو ایک دوسرے کی بالکل ضد ہیں ۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام(Feudalism &Capitalism) سود پر مبنی ہے تو ان سے زکو کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے؟۔ اسلام نے زکو کی ادائیگی کا حکم ضرور دیا لیکن سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ سودی نظام ختم کرنے سے اس کی ابتدا کی ہے۔
پہلے پٹھان علما سودی کاروبار کیلئے بیٹھتے تھے اور سود خوروں کو حیلے بتاتے تھے۔ اسلئے علما کی توہین ، گستاخی اور بے ادبی کو بڑا کفر قرار دیا جاتا تھا اور سود خور سرمایہ داروں کی طرف سے ان کی عزت کی تشہیر ہوتی تھی اور اب شیخ الاسلاموں نے بڑی سطح پر یہ کام انجام دیا ہے اسلئے ان سے اختلاف کو بھی کفر قرار دیا جارہاہے۔ مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ قیمتی اپنے نظریات لگتے ہیں اور الحمد للہ کافی حد تک لوگوں کا جمود توڑنے میں کامیابی بھی مل گئی۔ مجھے کانیگرم کے برکی، وزیرستان کے محسود ، وزیر اور داوڑ کی سرداری نہیں چاہیے۔ پختونوں کی سرداری نہیں چاہیے اور مجھے پاکستان کی بھی حکومت نہیں چاہیے۔ سب کو اپنے اپنے قبائل اور ملکوں کی سربراہی مبارک ہو۔ عثمان کاکڑ بہت اچھا انسان لگتا تھا۔ شاہ محمود کو انگریزوں کا ٹھیک طعنہ دیا تھا۔ ہمارے دادا سیدامیر شاہ نے میرے والد کو مدرسے میں بھیجا تھا لیکن سکول کی تعلیم نہیں دلائی تھی اور میرے چاچوں نے چھپ کر سکول کی تعلیم حاصل کی تھی۔ شہید صمد خان اچکزئی(shaheed samad khan achakzai) اور عبدالغفار خان نے بیٹوں کو لندن میں پڑھایا تھا۔ اقبال نے محراب گل افغان کے اشعار میں اچھے انکشافات کئے۔
تواپنی سرگزشت اب اپنے قلم سے لکھ خالی رکھی ہے خامہ حق نے تیری جبیں
علامہ اقبال نے زبردست اشعار لکھے ہیں اور ہماراہدف دنیا ہے اور اللہ کی طرف سے عالمگیر دین کا تقاضہ یہی ہے کہ رحمت للعالمینۖ کے دین کو پوری دنیا ہی میں پھیلایا جائے۔ دین فطرت میں لوگوں سے کچھ مانگنے کا تقاضہ نہیں بلکہ لوگوں کوبہت کچھ دینے کا تقاضہ ہے۔ایک جان ہے جو گوشت پوست سے بنی ہوئی ہے جو کسی حادثے کا شکار ہوجائے تو اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ دینا۔ کسی نے بھی دنیا میں نہیں رہنا ہے۔ والسلام ۔
راہ ہدایت میں سرگردان ایک بیباک گمراہ مسافر سید عتیق الرحمن گیلانی
(syed atiq ur rehman gillani June=Special-2–page-4_raqeebullah mehsood _soodi nizam _zarbehaq.com_ulama)
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

breaking_news

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز