پوسٹ تلاش کریں

پاکستان نے اپنی عزت خود کرانی ہوگی مگر کیسے؟

پاکستان نے اپنی عزت خود کرانی ہوگی مگر کیسے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

ڈرائیور لوگ گدھے کو تھانیدار کہتے ہیں اسلئے کہ گدھا دوسرے جانوروں کی طرح سڑک چھوڑ کر راستہ نہیں دیتا بلکہ سر جھکا کر ، کان لٹکاکر ، دُم ہلاکر راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تورات کے متعلق یہودی علماء کے رویہ کو گدھے سے تعبیر کیا جنہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کردی،نبیﷺ نے فرمایا :یہ امت یہود اور نصاریٰ کے نقشِ قدم پر چلے گی، یہود نے حکومتی امور میں توراۃ کے احکام بدل ڈالے اور نصاریٰ نے اپنی کتاب میں تصوف کے احکام بدل ڈالے۔احبار و رہبان حلال و حرام کا جو فیصلہ کرتے تھے اس کو ان کی عوام مان لیتی تھی اسلئے اللہ نے فرمایا کہ انہوں نے احبار ورہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا تھا۔
آج ہماری قوم بت پرستی کے کئی شعبہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ جس بت پرپیسہ زیادہ لگے وہ بڑا بن جاتا ہے،سول اور فوجی بیوروکریسی میں اچھے برے لوگ ہوسکتے ہیں مگر انکا کام مشین کے پُرزوں کی طرح ہوتا ہے، اصل کام سیاستدان کا ہوتاہے جو سماجی معاشرے میں پروان چڑھ کر قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ سیاستدان کا کام عوام کو نظریاتی شعوراور قوم کوبلند معیار دینا ہوتا ہے۔ ہمارا مستقبل بلاول بھٹو زرداری ، مریم نواز کے علاوہ تحریک انصاف کے سلیمان عمران سے وابستہ ہے، اسلئے کہ پارٹی میں نظریہ سے زیادہ شخصیت کی اہمیت ہے ، پہلے پارٹی میں قائد اہم ہوتاہے پھر اسکے فرزند کی اہمیت ہوتی ہے، پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے۔
نبی کریمﷺ کی واحد نرینہ اولاد اللہ نے بچپن میں اُٹھالی، اپنے غلام کواپنا منہ بولا بیٹا بنایا تواللہ نے فرمایاکہ ماکان محمد آباء احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین’’ اور محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر اللہ کے رسول اور انبیاء کے سلسلہ کے آخری مہر،نگینہ یا نبی۔ جسکے بعد وحی اور نبوت کا سلسلہ نہیں‘‘ ۔ اسلام کی تاریخ کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ مقرر ہوئے اور دوسرے حضرت عمرؓ نامزد ہوئے، حضرت عثمانؓ کو چندا فرادکی نامزد شوریٰ نے چن لیا اور حضرت علیؓ بھی ہنگامی حالات میں خلافت کی مسند پر بیٹھے ۔سب کا تعلق الگ الگ خاندانوں اور قبیلوں سے تھا۔ پھر خاندانوں نے مسند پر قبضہ کرنا شروع کیا۔
قائداعظم کی اکلوتی بیٹی تواپنی مرضی سے بھاگ گئی تھی اسلئے نواسوں کو اہمیت نہ مل سکی، اکلوتی بہن فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان نے فوجی مضبوط بیگ گراؤنڈ کی وجہ سے سیاست میں ابھرنے کا موقع نہ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کی سیاسی کوکھ سے نکل کر سیاست شروع کی تو ڈکٹیٹر شپ کے مزاج سے بھی جان نہ چھوٹ سکی اور آخرکار اسی کی نذر بھی ہوئے۔ میاں شریف مرحوم برادران7بھائی تھے جو اتفاق مل کے مالک تھے، بھٹو نے سارے پاکستان میں سوشلزم کے زیراثر فیکٹریوں اور ملوں کو ضبط کرکے قومی تحویل میں لیا تو اس کی زد میں یہ لوگ بھی آئے۔ نواز شریف نے پہلے اصغر خان اور پھر جنرل ضیاء الحق کیساتھ مل کر سیاست شروع کی تو پیپلزپارٹی سے اقتدار کی رقابت اپنی جگہ مگر سیاست کاروبار میں بدل گئی۔
پاک فوج نے جو سیاسی تحفے قیادت کی شکل میں قوم کو دئیے ہیں، کسی سے محبت اور کسی سے نفرت کی تفریق کے بغیر پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس آنی چاہیے۔ اگر پاکستانی قوم کا مستقبل قائداعظم کے نواسوں کے ہاتھ میں نہیں تو بھٹو اور پھر نواز شریف یا گولڈسمتھ کے نواسوں کے پاس کیوں جائے؟۔رسول اللہﷺ کے نواسے حضرت حسنؓ نے قوم کو متحد کرکے اقتدار کی قربانی دی ۔ حضرت حسینؓ نے یزیدیت اورموروثیت کے خلاف کربلا میں قربانی دی۔ زرداری، نوازشریف اورعمران خان کا اقتدار کے سوا کیا نظریہ ہوسکتا ہے؟۔ لوٹا کریسی، کرپشن، میڈیا کی سیاسی قدآوری نہ ہو تو گلی محلہ کے لوگ ان لوگوں کے کسی نظریہ سے متأثر نہ ہوں۔ طوطا مینا کی طرح کچھ بولنے کی رٹ لگاتے ہیں جو اپنے دل ودماغ نہیں بلکہ ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں الیکشن کے ذریعہ آزاد امیدواروں کوعوام جتوائیں ، سیاسی پارٹیوں سے پہلے نجأت پائیں ، پھر کوئی عوامی جمہوری سسٹم بن سکتا ہے، امریکہ میں جمہوری سسٹم کے ذریعہ بارک حسین اوبامہ منتخب ہوسکتا ہے مگر ہمارے ہاں معین قریشی سے شوکت عزیز اور ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نوازشریف تک مختلف رنگ روپ، نسل قوم سے تعلق رکھنے والے ملک کے وزیراعظم بننے کے باوجود پاکستان کے لوگوں کو ایسا سیاسی شعور نہ دے سکے جہاں علامہ اقبال ؒ کے افکار کی ذرا بھی جھلک دکھائے، یہ ایک ہنگامہ تھا جو طالبان نے ریاست اورعوام کی بھرپور حمایت سے برپا کردیا تھاجو اسلامی و سیاسی شعور دینے کی بجائے وقت کی بے رحم موجوں کی نذر بھی ہوگیاہے۔
بے تحاشا رقم خرچ کرکے سیاسی ریلیوں اور دھرنوں سے کوئی انقلاب آتا توبڑی بات ہوتی مگر یہ تماشے عوام بہت دیکھ چکے ، فوجی انقلاب سے بھی عوام بدظن ہیں لیکن تمام سیاسی جماعتوں کے کرپٹ عناصر کو بلاامتیاز پکڑا جائے تو عوام خوش ہوں گے۔ جن لوگوں کے دل ودماغ میں عہدوں کی ہوس صرف اسلئے ہو کہ اسکی اوقات بدل جائے تو عوام ان کو بالکل مسترد کرسکتے ہیں، جو لوگ فوج کے سہارے سے خود کو آگے بڑھانے کی امید رکھتے ہوں ان کو بھی بلاامتیاز مسترد کردیا جائے۔ مایوسی کی طرف جانے سے قبل ریاست کو مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ زرداری کے جگری یار ذوالفقار مرزا، الطاف بھائی کے لے پالک مصطفی کمال، نوازشریف کا دوست ذوالفقارکھوسہ اور دوست محمد کھوسہ وغیرہ کیا تبدیلی لائیں گے؟۔
عمران خان گالیاں دیتا تھا کہ بے غیرت لوٹے جماعتیں بدل بدل کر آجاتے ہیں مگر اپنی جماعت کے جگ، گلاس کو ہٹاکر دوسروں کی لیٹرینوں سے لوٹے اٹھاکر سجالئے ہیں۔ دوسروں کو رشتہ داری کے طعنے دینے والے نے اپنی طلاق شدہ بیوی کی لندن میں بھی سیاسی رشتہ داری کا خیال رکھا۔ لوگوں کے ذہن میں ایکدوسرے سے نفرت کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اس کے نتائج بہت خطرناک ثابت ہوں گے۔ نوجوانوں اور قوم کے جذبات سے کھیلنا کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔قوم کوایسا نظریہ چاہیے جس میں کرپٹ سیاسی سسٹم اور فوج کی پشت پناہی سے آگے آنے کی بجائے لوگوں کو اپنے عمل وکردار سے قوم کی خدمت کا موقع مل جائے۔
اوبامہ انتظامیہ پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینا چاہتی تھی مگر امریکی گانگریس نے پاکستان کی فوجی امداد روک دی جس کی وجہ سے ایف سولہ نہیں خرید سکتے ہیں اور ہماری معیشت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے پاس گروی اور دفاع امریکہ پر منحصر ہوتوکشکول توڑنے والے بین الاقوامی شاہی ملنگ پاکستان کو پتہ نہیں کس ترقی کے سفرپر لے گئے ہیں؟۔مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ ’’ افغانستان کی طالبان قیادت پاکستان میں ہے‘‘۔ بھارتی لابی نے امریکی کانگرس کو قائل کیا کہ پاکستان کو فوجی مدد نہ دی جائے، امریکی کانگرس نے اعلان کردیا کہ پاکستان ہمارے ساتھ ڈبل سٹنڈر گیم کھیل رہا ہے، اسلئے دفاعی امداد روک دی۔
پاکستان دنیا کا واحد وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں قدرتی طور پر ضرورت سے زیادہ پانی میسر ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہم خشک سالی میں کربلا کی کیفیت میں ہوتے ہیں اور سیلابوں کے دور میں طوفان نوح کا سامنا کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر دریا کو چھوٹے چھوٹے ڈیموں کی طرح رکھا جائے تو زیر زمین پانی بھی میٹھا ہوگا زرخیز پاکستان کا منظر بھی دیکھنے کو ملے گا کربلا اور طوفان نوح کے عذاب سے بھی بچیں گے ماحولیاتی آلودگی کا بھی یہ قوم زبردست مقابلہ کر سکے گی۔ کراچی سے لاہور پائپ لائن بچھانے کے بجائے ایران سے سوئی تک ہنگامی بنیادوں پر گیس لائی جائے اور انڈیا کو بھی گیس اور پاکستان سے راہداری دی جائے تو اس کی گردن ہمارے ہاتھ میں ہوگی اور کشمیر کو آزاد کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ کاش کوئی کچھ تو سمجھے خدا کرے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟