پوسٹ تلاش کریں

پانامہ لیکس چھوڑئیے اسحاق ڈار کے ذریعہ ملک کو تباہ کیا گیا…

پانامہ لیکس چھوڑئیے اسحاق ڈار کے ذریعہ ملک کو تباہ کیا گیا… اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان اسلام کی بنیاد پر بناہے، اسلام پاکستان کا مستقبل ہے، پاکستان اسلام کی بنیاد پر ہی ترقی کرسکتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعداد کے مطابق 2009,2010ء میں اندرونی قرضے کا سود576.77ارب روپیہ تھا، جو صرف 5سال بعد 2015,2016میں یہ سود دگنے سے بڑھ کر.676. 1168رب روپیہ ہوا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی 63سالہ تاریخ میں مجموعی طور سے جتنے قرضہ پر جو سود دیا جارہا تھا ، صرف پانچ سالہ دور میں اس سے وہ قرض کتنا بڑھ گیا ہے جس میں اسکے دگنا سے بھی زیادہ سود دیا جارہا ہے۔ یہ وہ سود ہے جو اندرونِ ملک قرضہ پردیا جارہا ہے، بیرونی قرضہ اور اس پر سود اسکے علاوہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اندورنِ ملک سے اتنا بڑا قرضہ کیسے لیا ہے؟، اس کا اثر قوم، ملک، سلطنت زندہ بادپائندہ باد پر کیا پڑیگا؟۔ اگر عوام کو یہ بات سمجھ میں آگئی تو قومی ترانہ میں زندہ باد پائندہ باد کی بجائے قوم ملک سلطنت کامرثیہ گاگا کروزیراعظم کو مارآستین سمجھ کر کہیں گے کہ’’ گزندہ باد،شرمندہ باد‘‘۔ پرویزمشرف نے مفت میں حبیب بینک کو بیچا تھاتو بھی ہمارے اخبار کی شہ سرخی تھی، پھر اسٹیل مل کو بیچا جارہا تھا، تب بھی ہم نے شہ سرخی لگائی تھی، اسوقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سب سے بڑی نیکی اور کارنامہ یہی تھا کہ پرویزمشرف کو سپریم کورٹ نے روک دیا تھا۔ جس پی آئی اے کو نوازشریف کھڑا کرنے کی بات کررہے تھے اس کو پرائیویٹ کردیا گیا، بندے بھی مارے گئے اور پی آئی اے بھی نہ بچ سکی۔
ایک انتہائی اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس میں نوازشریف کا نہیں، انکے بچوں کا نام تھا، وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’ میرا بچوں سے کیا تعلق ہے؟، وہ بالغ اور خود جوابدہ ہیں، جو چور ہوتا ہے ، وہ اپنا نام کھل کر ظاہرنہیں کرتا‘‘۔ پھر ایک ڈرامہ رچایا گیا کہ وزیراعظم کا نام بھی ہے، نہیں ہے، پانامہ نے معافی مانگ لی، نہیں مانگی، اپوزیشن اور حکومت کی مداری پارٹی قیادت نے جھاگ کی طرح شور اٹھایا، پھر یہ ختم ہوجائیگا، سرکاری پیسہ جو عوام کی ٹیکس سے بنتا ہے، وزیراعظم کے بچوں کی صفائی کیلئے خرچ کیا گیا۔ تحریک انصاف اس پر آواز اُٹھاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ تم غریبوں کی زکوٰۃ ، خیرات، صدقات کے پیسوں سے کاروبار کرتے ہو، اپنی ماں شوکت خانم کی بجائے ہسپتال غریبوں کے نام پررکھتے، عمران خان نے شوکت خانم میں دو دفعہ علاج کیا تو بھی غلط تھا، اربوں روپے کے مالک پر تو زکوٰۃ نہیں ہوتی اور زکوٰۃ کی رقم کاروبار میں کیسے استعمال کی؟۔ بنی گالا بھی بیوی نے آف شور کمپنی سے خرید کردیا تھا تو عوام حکومت اور اپوزیشن کے ایکدوسرے پرالزامات میں خود کوبھول جاتی ہے۔
پہلے امیروں کو انکم ٹیکس دینا پڑتا تھا، جس کی کم آمدنی ہوتی تھی، وہ قانونی طور پر ٹیکس سے آزاد ہوتا تھا،پھر پرویزمشرف کے دور میں سیل ٹیکس کا آغاز کردیا گیا، جو امیر غریب سب کیلئے برابر ہے کیونکہ ضروریات کی چیزیں سب کو خریدنی پڑتی ہیں، پرویزمشرف نے پروگرام بنایا تھا کہ 15%سے اس کو5%پر لائیں گے مگر اب تو مختلف اشیاء پر بہت زیادہ بڑھادیا گیا ہے، پیٹرول پر45%ہے، پرویزمشرف کی نسبت3گنا بڑھا کر نوازشریف تقریر میں کہتا ہے کہ ’’مہنگائی کی کمر توڑ دی ہے‘‘ تو ڈھورڈنگر عوام تالیاں بجاتے ہیں،سیاسی مشیروں، وزراء اور ممبران اسمبلی میں اپوزیشن والے بھی حقائق سے بے خبر رہتے ہیں۔ پانامہ لیکس سے بڑی خبریں ملک ہی میں دیگر ہیں مگر سیاستدانوں کو خبر نہیں تو عوام بیچاروں کا کیا قصور ہوسکتا ہے؟۔
عوام کو پتہ چلتا کہ پی آئی اے اور سٹیل مل وغیرہ کی طرح ائرپورٹ اور سڑک بیچے جارہے ہیں تو حکمرانوں کو عوامی جلسوں میں جانے کی جرأت بھی نہ ہوتی۔ہمارا بے شعور معاشرہ شاہی سیاسی خانوادوں اور شخصیات کے رحم وکرم پر ہی آسرے میں بیٹھ کر خوابِ خرگوش کے مزے اڑا رہا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر اسلامی بینکاری کے نام سے کراچی ائرپورٹ کو 300ارب میں گروی رکھ چکا ہے، حکومت اور اسلامی بینکوں کے درمیان M-2لاہور تااسلام آبادموٹروے اور کراچی ائرپورٹ میں سے ایک کو گروی رکھ اس رقم کو سودی قرضہ کی مد میں لینے پر بحث کی گئی، اسلامی بینکوں کے ڈائریکٹروں نے کراچی ائرپورٹ لینے پر اتفاق کیا۔ جب حکومت بھاری بھرکم سود کی ادائیگی سے عاجز آجائیگی تو شور شرابے کی نوبت بھی نہ ہوگی اور کراچی ائرپورٹ اسلام کے نام پرسودی کاروبار کرنے والوں کے خود بخود حوالہ ہوجائیگا۔ پھر وہ اسکو مہنگے داموں ٹکڑوں میں بیچ بیچ کر سود خوری کا پیسہ پورا کریں گے۔ چیف آف آرمی جنرل راحیل شریف کورکمانڈزکانفرنس بلاکر تمام معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں ورنہ پھر سیاستدان حکمران کہیں گے کہ دفاع کیلئے ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑاتھا،جب ملک ہی نہ رہیگا تو دفاع کس چیز کا کریں گے؟۔
جس طرح نوازشریف اپنے بچوں کی بیرون ملک دولت سے لاعلمی کا اظہار کر رہا ہے، اسی طرح سے عوام اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی بے خبر ہوگی اور پورا ملک ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ شریف خاندان بڑا ’’وار داتیہ‘‘ ہے، دوسروں پر کرپشن کے الزامات لگانے والے چھپے رستم نکلے۔ اگر رینجرز اور فوج نے امتیازی سلوک یا اپنا الو سیدھا کرکے کرپشن کے خلاف ڈرامہ ہی کرنا ہے، ڈاکٹر عاصم حسین کو اندرونِ خانہ جیب کترے کی طرح لوٹ کر نظام کی ناکامی کو بنیاد قرار دینا ہے تو سوبسم اللہ۔ وقت کیساتھ ساتھ عوامی شعور بڑھے گا، پھر مخلص افسر اور سپاہی بھی قابو میں نہ رہیں گے اور باشعور طبقہ اٹھے گا اور حکمرانوں، سیاستدانوں کے علاوہ کرپٹ ریاستی عناصرکو بھی کوئی بچا نہ سکے گا۔ سپاہی جان ان کیلئے دیتے ہیں جن کے پاس اعلیٰ اخلاقی، اسلامی یا وطن پرستی کے جذبات ہوں ، بے حسی میں کوئی بھی اچھا جذبہ پنپ نہیں سکتا ہے۔
معصوم، فرشتہ اور بے گناہ تو کوئی بھی نہ ہوگامگر وزیراعظم کے شریف خاندان کو جس شرافت کیساتھ کرپشن اور چوری سینہ زوری کی سوجھی ہے، لگتا یہ ہے کہ ان سے تو قوم کو چھٹکارا مل ہی جائیگا مگر فوج میں اپنی عوام کیساتھ سیاست تو دور کی بات ہے، اچھے طریقہ سے جنگ کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی، کیونکہ ان کی تربیت دشمن سے نمٹنا ہوتا ہے اپنوں سے نہیں۔کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں بڑی قربانیوں کے باوجود وہ نتائج نہ مل سکے جس کی توقع تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے لوگ بولتے نہیں بھونکتے ہیں، نوازشریف پر 36کروڑ روپے کی گھڑی کے خریدنے کا الزام لگایاگیا، جبکہ اس کی قیمت36لاکھ ہے۔دنیا کی وکالت کا موجودہ نظام بے گناہی بھی ثابت کردیگا کہ ایک صفر بڑھانا کوئی اضافہ نہیں اور سیاستدان بجا طور سے کہہ سکتا ہے کہ صفر صفر ہوتا ہے چاہے آگے سے اضافہ ہو یا پیچھے سے۔
ایک دوسرے پر الزام تراشی، کرپشن، بداخلاقی اور بد تہذیبی کا سفر جاری رکھنے کی بجائے حقائق کی طرف آنا ہوگا۔ نوازشریف نے پاکستان کو کیا دیا؟ مگر پاکستان نے نوازشریف کو بہت کچھ دیا ۔ سیاست کی قیمت اپنے خاندان اور دوستوں کو بنانا ہو تو پیپلزپارٹی کے بھٹو خاندان نے جو قربانیاں دی ہیں ، اسکے مقابلہ میں نوازشریف کو خالی چٹکی نوچی گئی ہے۔ عمران خان نیازی شاید اتنا بھی نہ برداشت کرسکے بلکہ جنرل نیازی کی طرح اپنا ہتھیار بڑے اہتمام کیساتھ دشمن کے آگے ڈال دے، آدھا ملک گنوانے کے علاوہ فوج کو بھی تاریخی بے عزتی سے دو چار کردے۔ عزت کردار سے آتی ہے، اسلام کردار کا دین ہے اور کردار ہی سے دنیا میں عزت ملتی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنے کردار سے اپنی قوم اور اداروں کو عزت دلانی ہوگی۔ دنیا اور ہمارے اردگرد ماحول کے تیور بدل رہے ہیں، کردار نہ ہو تو خود کا خود بھی ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ ہمارے پاس وقت کم رہ گیا ہے ، پاکستان کا استحکام اچھے کردار کیساتھ اتحاد واتفاق اور یگانگت کا متقاضی ہے، ہمارا حال قابلِ رحم ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟