پوسٹ تلاش کریں

اشرف میمن پبلشر نوشتہ دیوار کا تبصرہ

اشرف میمن پبلشر نوشتہ دیوار کا تبصرہ اخبار: نوشتہ دیوار

شیعہ سنی فرقہ وارانہ اور دہشت گرد تنظیموں تحریکِ جعفریہ و سپاہ صحابہ ،سپاہِ محمداور لشکرِ جھنگوی، جہادی اور دہشت گرد تنظیموں نے پنجاب ہی سے جنم لیا تھا،
پورے پاکستان میں فوج نے دہشت گردی کیخلاف بھرپور اقدامات کئے لیکن پنجاب کوضربِ عضب (نبیﷺ کی تلوار) کی ضرورت پر بحث مباحثہ رہا
پنجاب کو قدرت نے مذہبی آزادی کی بھرپور انسانی و اسلامی فطرت ودیعت فرمائی، پنجاب کے برعکس پاکستان کے دیگر صوبے اس نعمت سے محروم ہیں،
اقبالؒ نے پنجابی مسلمان کوکہا مذہبی جدت پسند، یہ شاخ نشیمن سے اترتا بہت جلد، تحقیق کی بازی ہوتو شرکت نہیں کرتا، ہوکھیل مریدی کا توہرتابہت جلد

article_panjab

تقسیم ہند کے وقت زیادہ مظالم پنجاب کے سکھوں نے مسلمانوں پر ڈھائے۔ والدین اور اساتذہ سے مار کھانے والے کی سخت مزاجی فطری ہوتی ہے

پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان اپنی بیتی کے نتیجہ میں نظریاتی مخالفین اور اقلیتی صوبوں سے وہ سلوک نہ کریں،جو سکھوں نے انکی امی اور ابو کیساتھ کیاتھا

women-force-pml-ptiAshraf-Memon-Octob2016

پاکستان کے دیگر صوبوں اور علاقوں کی بہ نسبت پنجاب کی آبادی زیادہ ہے۔ پنجاب کی عوام محنت کش، ذہین، جذباتی، سیاسی شعوراور مذہبی لحاظ سے پاکستان میں ’پہلے نمبر‘ کی حقدار ہے۔ علامہ اقبالؒ ، پیر مہر علی شاہ ؒ گولڑہ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ،فیض احمد فیضؒ ، حبیب جالبؒ ،نوابزادہ نصراللہ خانؒ ،شاکر شجاع آبادی اور دیگر شخصیات نے جنم لیا۔ میرا مقصد ایسے بنیادی نکات کو سامنے لانا ہے جن سے پنجاب میں خاص طورسے اور پاکستان میں عام طورسے مذہبی اور سیاسی شعور بیدار ہو۔ علامہ اقبالؒ کولوگ سیاسی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو مذہبی سمجھتے ہیں ، حالانکہ علامہ اقبالؒ سیاست سے زیادہ مذہب کے علمبردار تھے اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ مذہب سے زیادہ سیاست کے علمبردار تھے، یہ حقیقت سمجھنے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ جب برطانیہ کی سلطنت پر دنیا میں سورج غروب نہ ہوتا تھااور دنیا بھر میں بالعموم اور برصغیر پاکستان میں برٹش امپائر کی غلامی کیخلاف جد وجہد جاری تھی تو علامہ اقبالؒ نے دس سال، دس مہینے، دس ہفتے، دس دن ، دس گھنٹے، دس منٹ کیا دس سیکنڈ بھی برطانیہ کیخلاف جدوجہد میں برطانیہ کی قید میں نہ گزارے مگر سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے دس سال جیل میں گزاردئیے۔ بخاریؒ نے چیخ چیخ قائداعظم ؒ محمد علی جناح کو مشرقی اور مغربی پاکستان کا نقشہ جلسۂ عام میں کلہاڑی کی مدد سے سمجھایا کہ دونوں کے درمیان بھارت حائل ہوگا، ہماری بری بحری اور فضائی افواج ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گی، بنگال پر بھارت قبضہ نہیں کرسکتا، اسے الگ آزاد ملک بننے دو، پورا پنجاب لے لو، بمبئی تک سندھ لے لواور کشمیر کا مسئلہ سب سے پہلے حل کرو، یہ برطانیہ کی سازش ہے، ’’لڑاو اور حکومت کرو‘‘ کی جس پالیسی کے تحت انگریز نے قبضہ کیا، وہ پھر دوہرایا جائیگا اور ان کی بات آج سوفیصد درست نکلی۔ ان کی بات مان لی جاتی تو آج ہمارے حالات بھی بہت مختلف ہوتے، جنرل ایوب خانؒ کے زمانہ میں پاکستان نے جرمنی کو قرضہ دیا تھا، اس ملک کو بھٹو نے دولخت کیا، جنرل ضیاء الحق نے باقی ماندہ کو بھی ذبح کردیا۔نوازشریف اور زرداری کمپنیوں نے اس کی کھال اتاری، عمران اور طاہر القادری اس کوتکہ بوٹی کرنے کے درپے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاست کو بنیاد سے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بہت بڑا المیہ تھا کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے سیاسی نظریات کو پنجاب میں دفن کیا گیا اور انکے مذہبی کردارکا روپ قوم کے سامنے رہا، نوابزادہ نصراللہ خانؒ نے بھی اپنی سیاست کا آغاز ’’مجلسِ احرار‘‘ سے کیا تھا، اسی کے تربیت یافتہ تھے،جب وہ جنرل ضیاء کی زندگی میں ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) میں بیش بہا قربانیاں دینے کے باجود پہلی مرتبہ جنرل ضیاء کے جانشین غلام اسحاق خان کے مقابلہ میں صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے تو سرکار اور اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ جماعتوں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے علاوہ اصول پسندی کی علمبردار جماعت ’’پیپلزپارٹی ‘‘ کی بے مثال قائدآنسہ بینظیر بھٹو نے بھی نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلہ میں غلام اسحاق خان کو ووٹ دئیے۔ مولانا فضل الرحمن کی ضرورت نہ ہوگی ورنہ اس کو بھی شہد چٹا دیا جاتا تو اپنے اصول بھول جاتا، یہ الگ بات ہے کہ غلام اسحاق خان نے پھر نوازشریف کی کرپشن بھی برداشت نہ کی اور اس وقت دونوں کی کرپشن کو بھانپ کر دونوں کی حکومتوں کو چلتا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وضاحت فرمائی ہے کہ’’ دین میں جبروزبردستی نہیں ہے‘‘۔ پنجاب کا یہ بہت بڑا کمال ہے کہ اللہ نے اس کو یہ حسین فطرت ودیعت کی ہے کہ دین میں زبردستی والے معاملہ کا تصور نہیں سمجھتے۔علامہ عنایت اللہ مشرقی، غلام احمد قادیانی، غلام احمد پرویز، مولانامودوی اورلاتعداد قسم کے مولوی ، پیرفقیر اور مذہب کے روپ میں رہنے والوں کو پنجاب کے وسیع دامن میں پناہ ملی۔ علامہ عنایت اللہ مشرقی سیاست اور عدم تشدد کے علمبردار تھے ،اسلئے ان کا صرف نام ہی باقی رہا۔ غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز کی ذہنیت خالص مذہبی تھی اسلئے ان کو پنپنے کا خوب موقع ملا۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی غیرسیاسی خالص مذہبی ہیں اسلئے یاجوج ماجوج کی طرح بڑھ رہے ہیں اور انتہاپسند انہ اور احمقانہ نظریات کی ترویج کررہے ہیں۔ جماعتِ اسلامی نے اپنے مذہبی روپ کو سیاست میں بدل ڈالا، تو اس کادائرہ سکڑگیا اور مخصوص حلقوں اور افراد تک محدود ہوگئی، رہی سہی جو ساکھ تھی اور قاضی حسین احمدمرحوم نے طبلے بجاکر تباہ کی۔ جن کو روس کے گورباچوف سے جماعتِ اسلامی کو تباہ کرنے کیلئے تشبیہ دی جاتی ہے۔
مذہب کیلئے پنجاب کی زمین زرخیز اور سیاست کیلئے سخت اور بنجر اسلئے ہے کہ سیاست میں مذہب کی طرح رواداری کی فضاء نہیں ،مذہبی جماعتِ اسلامی سیاسی بن گئی تو پنجاب کے کالجوں ا ور یونیورسٹیوں سے ملک بھر میں بدترین تشدد کی روایت ڈال دی۔ تحریک انصاف کے عمران خان کیساتھ ایم کیوایم اور طالبان نے کوئی ذاتی زیادتی نہیں کی لیکن کراچی یونیورسٹی میں عمران خان کیساتھ اسلامی جمعیت طلبہ نے جو کچھ کیا ، اس کا میں چشم دید گواہ ہوں، میں اپنی گاڑی میں عمران خان کو لیکر گیا تھا، وہاں سے جس طرح الٹے پاؤں بھاگنا پڑا، میری گاڑی کا شیشہ بھی توڑدیا گیا۔ پنجاب کے اندر تو عمران خان کو سنا ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ والوں نے الف ننگا کردیا تھا۔ جماعت اسلامی کے رہنما امیرالعظیم کی اپیل پر بھی نہیں چھوڑا جارہا تھا جس پر انہوں نے شرمندگی کا بھی اظہار کیاتھا۔

force-pml-ptiAshraf-Memon-Octob2016

عمران خان نے رائیونڈ جلسہ میں مذہب کا ہتھیار استعمال کیا کہ’’ میں نے ایمان سیکھ لیا، پہلے میرے اندر ایمان نہ تھا ، ایمان آنے کے بعد اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا‘‘۔ پنجاب میں تحقیق کا مادہ نہیں ورنہ اسی محفل میں کہہ دیتا کہ’’ جس پرویز مشرف کو کرسی اور پیسہ کیلئے امریکہ کی غلامی کا نام دیکر گالی دی، جب امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاکر افغانستان میں امریکہ کی حمایت کی تھی تو اس وقت تم نے پرویزمشرف کی بھرپور حمایت کی تھی، جہاں تک وزیرستان میں فوج بھیجنے کی بات ہے تو وزیرستان پاکستان ہی ہے جہاں سے معصوم بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتاتھا، اگر شمالی سے پہلے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن راہِ نجات کو سیاستدانوں کی بھرپور حمایت حاصل ہوجاتی تو شرپسند عناصر کا صفایا ہونے میں اتنی دیر نہ لگتی، عمران خان نے تو ضربِ عضب کے بعد قبائلی پناہ گزینوں کو سہارا دینے کے بجائے مہینوں دھرنے کے مجرے میں بھنگڑے ڈالے۔اور پنجاب کے گلوبٹوں اور پولیس کو طالبان کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ آرمی پبلک ا سکول کے واقعہ کے بعد دھرنے سے باعزت جان چھڑانے کیلئے ضرب عضب کی حمایت کا اعلان کیا۔
یہ احمقانہ بات ہے کہ بے ایمان پاک فوج امریکہ سے ڈرتی ہے باایمان عمران خان نہیں ڈرتا۔ اللہ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مخلوق کے ظلم سے نہ ڈرا جائے۔ نبی کریم ﷺ شبِ ہجرت اسلئے چھپ کر نکلے کہ ظالم مشرکوں کا خوف تھا۔ اگر عمران خان نے یہودی جمائما خان سے نئے طرز کا ایمان سیکھا ہے تو اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت اور معجزات دئیے ، اسکے باوجود اپنی قوم کو لیکر فرعون کا ایسا مقابلہ نہیں کیا کہ اللہ کے علاوہ ظالم کا ڈر نہیں تھا بلکہ فرعون سے بھاگے اور فرعون پیچھا کررہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسکو ڈبودیا۔ قرآن کی تعلیمات کیخلاف عوام کو بیوقوف بنانا چھوڑ دیا جائے ۔ رائیونڈ کی تبلیغی جماعت 80 سال سے محنت کررہی ہے کہ ایسے لوگ پیدا کئے جائیں جن کا اللہ پر انبیاء کرام ؑ سے بھی بڑھ کر ایمان ہو مگرآج تک وہ خود بھی ایسا ایمان پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی اپنے رنگ میں دعوت اسلامی بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔
مولانا مودودیؒ نے مذہبی معاملات سے دامن چھڑا کر سیاسی میدان کا رُخ کیا اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے مذہب کی طرف توجہ دی، مولانا مودودی نے مسئلہ لکھا کہ دوبہنیں آپس میں جڑی ہیں تو قرآن کی آیت کے منافی اس کا ایک ہی آدمی سے نکاح کردیا جائے ، بخاریؒ نے اس کو قرآن کے خلاف سازش اور من گھڑت جھوٹ قرار دیا تھا۔ ختم نبوت کی تحریک میں گرفتاری دینے پنجاب سے کراچی کارکن آتے تھے، مساجد کے آئمہ تو پولیس کو اطلاع دینے کی دھمکی دیکر بھتہ مانگتے تھے، سرکاری ٹانگے مفتی اعظم مفتی شفیع ؒ و مولانا احتشام تھانوی ؒ تحریک کے درپردہ مخالف تھے۔

force2-pml-ptiAshraf-Memon-Octob2016

پنجاب کی زرخیز سرزمین سے قرآن و سنت کی تفہیم کا معاملہ شروع ہو تو کوئی جماعت بنانے کی ضرورت نہیں پڑیگی بلکہ عوام الناس ، تمام فرقے اور جماعتیں اپنی گروہ بندیوں کو بھول کر اسلام کی نشاۃ ثانیہ پر آمادہ ہونگی اور ایک بہترین فکر کو عملی شکل دینے میں پنجاب کی طرف سے پہل ہوگی تو تمام صوبے بھی اس کو قبول کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ سیاسی لوگوں نے ایک دوسرے کیخلاف ڈنڈے اسلئے اٹھا رکھے ہیں اور کلہاڑیوں کی نمائش اس لئے ہورہی ہے کہ انکا ضمیر ، پارٹیاں اور قیادت ایکدوسرے سے مختلف نہیں۔ سب کو چند ٹکے بھی ملتے ہیں اور قیادت کیلئے وفاداری کے اظہار سے سیاسی موسم بھی گرما دیا جاتا ہے۔ دوسرے صوبے والے خوفزدہ نہ ہوں فرقہ واریت ، جہادی تنظیموں ، مذہبی انتہا پسندی ، شدت پسندی اور دہشت گردی کی طرح سیاسی شدت پسندی کی وبا نہیں پھیلے گی۔ پنجاب کی مشہور کہاوت ہے کہ ’’جنہاں دے کاردانڑے،انہاں دے کملے وی سیانڑے‘‘ یعنی امیروں کے بیوقوفوں کو سمجھدار سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان کیساتھ معراج محمد خان تھے تو عمران خان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اب جہانگیر ترین اور علیم خان کی وجہ سے عمران خان بھی ہوشیار ہوگیا ہے،ایسی سیاست اور اسکی سوچ پر لعنت بھیجنی ہوگی اور یہ بات یاد رکھی جائے کہ میرا اپنا تعلق بھی تحریک انصاف سے رہا ہے۔ میں نے قومی اسمبلی کیلئے الیکشن بھی کراچی تحریک انصاف کی ٹکٹ پر لڑا ہے ، بہت قریب سے معاملات دیکھے ہیں۔
پنجاب میں خواتین کیخلاف تشدد کا بل پیش کرکے مولانا فضل الرحمن کے احتجاج پر غائب کردیا گیا ، حالانکہ قرآن میں خواتین کے نام پرایک سورت کا نام ’’النساء‘‘ ہے، جس کی آیت 19 اور 20 کو دیکھا جائے تو کسی بل کی ضرورت بھی پیش نہیں آئیگی۔ اللہ نے پہلے عورت کو شوہر کی مملوکہ بننے کی نفی کی ہے اور اسکو شوہر کا گھر چھوڑ کر الگ ہونے کی اجازت دی ہے اور پھر مرد کو ایک بیوی چھوڑ کر دوسری سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے جس میں خواتین کے حقوق کی بھرپور وضاحت کی گئی ہے، سید عتیق الرحمن گیلانی نے عمران خان کے رہبر مولانا مفتی سعید خان صاحب کے سامنے ان آیات کی وضاحت بھی کی جن کے بارے میں غلط تفاسیر لکھ کر معاملہ بگاڑا گیا ہے۔ قرآن کا ترجمہ بالکل واضح ہے اورجو تفسیریں لکھی گئی ہیں ان میں ترجمے کو مسخ کرکے اسلام کو اجنبی بنادیا گیا ہے۔
اگر عورت شوہر کی مملوکہ نہ ہو اور اس کو شریعت نے شوہر کو چھوڑنے کی اجازت دی ہو تو کوئی شوہر اس پر بے تحاشہ مظالم تو بہت دور کی بات ہے کوئی ایسا رویہ بھی نہیں رکھے گا جو علیحدگی کا سبب بن سکے۔ پنجاب ، پاکستان اور ہندوستان و افغانستان ایران و عربستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں قرآن کی اس آیت کے ذریعے سے خواتین کو تحفظ حاصل ہوگا اور انقلاب کیلئے بہت بڑی بنیاد بنے گا۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ تمام فرقوں کے مراکز ہی بھارت میں ہیں ، جہاں سے فرقوں اور جماعتوں کی ڈوریں بندھی ہوئی ہیں ان بیچاروں کو خود بھی معلوم نہیں کہ قرآن و سنت کی موجودگی میں وہاں بندھا رہنا بالکل فضول ہے۔
مفتی شاہ حسین گردیزی نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کو پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف ؒ کا واحد مرید قرار دیا ہے جس کا تعلق علماء دیوبند سے ہے۔ انہوں نے مولانارشید احمد گنگوہیؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ’’ مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ وہ نبی اور مہدی نہیں لیکن صالح مسلمان ہے‘‘ جس پر کفر کا فتویٰ لگانے میں بنیادی کردار سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا تھا جن کے ہاتھ پر دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کشمیریؒ سمیت سب نے امیر شریعت کے نام سے بیعت کی۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں میں بہت ساری عبارات بھی یکساں ہیں، جنکے حوالے بھی مفتی سید شاہ حسین گردیزی نے دئیے ہیں۔ ویسے یہ بات درست ہے کہ علماء دیوبند نے بریلوی مکتبہ فکر کے اعلیٰ حضرت کی طرح کفر کے فتوؤں کی فیکٹریاں نہیں کھول رکھی تھیں اور اگر سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ یہ کردار ادا نہ کرتے تو شاید مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار آج خود بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت و مہدویت کے دعویٰ سے دستبردار ہوکر مسلمانوں میں شامل ہوتے۔ قائد اعظم کا جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی دیوبندی شیخ الاسلام نے پڑھایا لیکن بریلوی اور قادیانی اس سے گریزاں رہے سیاسی و مذہبی شعور وقت کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب کے ایما پر بھارت کے مولانا منظور نعمانی کے استفتاء کے جواب میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کی طرف سے اہل تشیع کیخلاف ایک تفصیلی فتویٰ لکھا گیا جسمیں قرآن کریم کی تحریف ، صحابہ کرام کو کافر اور عقیدہ امامت سے ختم نبوت کا منکر قادیانیوں سے بدترکافر قرار دینے کی وضاحت کی گئی۔ مفتی ولی حسن ؒ ایک مجذوب ٹائپ کے انسان تھے ، مولانا یوسف لدھیانویؒ نے بھی فرمایا تھا کہ حاجی عثمان صاحبؒ کیخلاف میری طرف فتویٰ منسوب کرکے لکھا گیا ہے۔ اب سعودی عرب کے علماء کی شوریٰ نے اس قسم کے فتوؤں کی مذمت کردی ہے اور اس سے پہلے ’’اتحاد تنظیمات المدارس‘‘ کے نام سے شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، اہلحدیث کے مدارس اسلام کے نام پر اکھٹے ہوئے تھے۔
پنجاب کی عوام کو فرقہ واریت کیخلاف ٹھوس ثبوت کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے اور اسلامی احکامات کے حوالے سے پنجاب کے لوگ بالکل بھی دوسروں کی طرح سے گدھے پن اور کتے پن کا مظاہرہ نہیں کرینگے۔ عتیق گیلانی کے استاد مولانا بدیع الزمان ؒ کا تعلق رائیونڈ سے تھا اور انکے صاحبزادگان نے تین طلاق کی درست تعبیر کو سراہا ہے، بہت بڑی بات یہ ہے کہ سید عتیق الرحمن گیلانی کی حمایت اسکے باوجود تمام مکتبۂ فکر والے سر عام کررہے ہیں کہ سب کی جڑوں اور بنیادوں کو ہلا دیا ہے، یہ قرآن وسنت ہی کی طاقت کا کرشمہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے پیرحاجی عثمانؒ کو اپنے خلفاء اور مرید وں سمیت اپنے مکتب کے دوست علماء ومفتیان نے نشانہ بنایا اور ٹانک کے تمام دیوبندی سرگردہ علماء کی طرف سے کھلی حمایت کے باوجود طالبان نے بریلوی سمجھ کر ان کے گھر تباہ کو کیا۔
عمران خان جب کرکٹ کھیل رہا تھا تو عتیق گیلانی نے تحریک شروع کی تھی، سال با مشقت سزا کالے قانون 40ایف سی آر کے تحت ہوئی چارماہ کی قید 1991ء میں کاٹی۔ عتیق گیلانی نے 1979 سے چیچہ وطنی،لیہ ، کوٹ ادو میں سکول کے دوران ہی ساتویں سے دسویں تک مذہبی فرقوں کے خدوخال اور سیاست کے داو پیج کی شدوبد حاصل کرلی ۔ بھٹواور مفتی محمودکے متوالے و مخالف دو بڑے بھائی تھے۔ 82ء میں میٹرک کے امتحان سے پہلے کوٹ ادو سے لیہ اور پھر رائیونڈکی بودوباش کاتجربہ کرکے چیچہ وطنی کے دوست سے ملتے ہوئے کراچی میں مذہبی تعلیم و حاجی عثمان سے تصوف کی تربیت شروع کی، اور84ء میں طالبِ علمی کے دوران سہراب گوٹھ میں وزیراور محسود طلبہ کی ذہن سازی کیلئے جمیعۃ اعلاء کلمۃ الحق کے نام سے وزیرستان سے رسوم و رواج کی جگہ اسلامی قانون سازی پر فیصلوں کیلئے تحریک کا آغاز کیا۔ قید میں اور92ء میں قید سے رہائی کے بعد کتابوں کا سلسلہ جاری رکھا، شکارپور اور ملتان سے مشکلات کے دور میں تحریک جاری رکھی۔ پھر اپنے علاقہ میں پبلک سکول اور کراچی سے اخبار ضرب حق کا اجراء کیا، پھر کچھ عرصہ تک خاموش رہنے پر مجبوری کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ یہ محنت پنجاب میں ہوتی تو تناور درخت کی صورت اپنالیتی۔ کافی عرصہ سے پنجاب میں دفتر قائم کرنے کا ارادہ تھا، ہم کسی روایتی مخصوص جماعت بنانے کی بجائے قومی سظح کی تحریک چاہتے ہیں۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟