پوسٹ تلاش کریں

منظور پشتون کی تحریک سے عوام کو ریلیف مل گیا مگر سیاسی جماعتیں خوفزدہ ہیں: امین اللہ کوئٹہ

منظور پشتون کی تحریک سے عوام کو ریلیف مل گیا مگر سیاسی جماعتیں خوفزدہ ہیں: امین اللہ کوئٹہ اخبار: نوشتہ دیوار

ptm-manzoor-pashtoor-wazeer-e-azam-imran-khan-pervaiz-bushra-manika-iddat-period-shah-naimatullah-wali-

نوشتۂ دیوار کے نمائندہ خصوصی امین اللہ کوئٹہ نے کہا کہ منظور پشتون مظلوموں کا قائد بن کر ابھرا ۔ محسود قوم کی حالت کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ قبائل بدترین غلامی کا سامنا کررہے تھے۔ بہت لوگ غلط و بے بنیاد پروپیگنڈہ کرکے منظور پشتون کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔عوام نے فوجی آپریشن کی مشکلات کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کیا تھا لیکن جب ظلم اس حد تک بڑھ گیا کہ مٹنے پر تل گیا تو منظور پشتون کو توفیق مل گئی۔ سیاسی جماعتیں اپنا وقار کھو چکی ہیں اور عوام میں کسی مقبول قیادت کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل، اے این پی و پیپلزپارٹی کے بعد پنجاب کے عمران خان کو بھی حکومت مل گئی۔
تحریک انصاف میں شمولیت سے محض دوہفتے قبل ڈاکٹر عامر لیاقت نے کہا کہ ’’ عمران خان نے عدت میں شادی کی ہے، قرآن اس نکاح کی اجازت نہیں دیتا، یہ حرامکاری اور گناہ ہے۔ عمران خان قیادت کے لائق نہیں ہے‘‘۔ پھر علامہ اقبالؒ کے بقول’’ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں‘‘۔
پنجاب کی سرزمین بڑی زرخیز بھی ہے اور مردم خیز بھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف اور عمران خان جیسے لوگوں کی پشت پناہی کرکے پنجاب اور ملک وقوم کا بیڑہ غرق کیا ۔ قائداعظم کی زبان بھی قوم نہیں سمجھ سکتی تھی مگرقوم کے اجتماعی ضمیر کا فیصلہ پاکستان بنانے کے حق میں تھا تو قراردادِ مقاصدکوکامیابی ملی۔ 23مارچ 1940 ؁ء میں برصغیر پاک وہند کی فوج ایک تھی لیکن قائدکی کامیاب سیاسی حکمت نے پاکستان کو وجود بخش دیا تھا۔
علماء ومفتیان کا حال یہ ہے کہ اگر عمران خان عدت میں شادی کا اعتراف بھی کرلیں تو ایک گروپ حرامکاری کہے گا اور دوسرا اس کو 100فیصد جائز قرار دیگا۔ ڈاکٹر عامر سے تو بعید نہیں کہ ’’ کہے کہ میرے ماں باپ عمران خان پر قربان ہوں ، انکا نکاح بھی عدت میں ہوا تھا، میں خود بھی عدت کی توپیداوار ہوں‘‘۔ پنجاب کی اس قیادت سے عوام کا بیڑہ پار ہوگا کہ ایک طرف عمران خان جعلی و اصلی علماء ومفتیان کیساتھ نمودار ہوکر الیکشن مہم چلائیں ۔ دوسری طرف مریم نواز اپنا شوہر کیپٹن صفدر کو قریب نہیں آنے دیگی اور کزن کیساتھ ساتھ گھومتی نظر آئے گی ۔ آخر ماجراء یہ ہے کیا؟۔ زمین و آسمان کی مخلوق پریشان ہے۔ کیپٹن صفدر کا حرمت مصاہرت کا مسئلہ بھی ہوسکتاہے جسکے بعد حلالہ پر بھی بیوی جائز نہیں بنتی ۔ علماء نے اسلام کو بگاڑ دیا۔
محترم رضا ربانی کی پونی پر قربان ہونا چاہیے اسلئے کہ ہر خاص وعام کی زبان پر آپ کی تعریف ہے۔ جناب رضا ربانی نے آنسو بہاتے ہوئے فوجی عدالتوں کو ووٹ دیا کہ ’’ یہ میری پارٹی کی امانت ہے‘‘ تو عوام نے پسندکیا۔ جب پارلیمنٹ سے ختم نبوت، الیکشن فارم سے جائیداد کی معلومات اور سب چیزیں غائب کردی گئیں اور پھر نااہلی کے خلاف سینٹ کی اکثریت کے نہ چاہتے ہوئے بھی بل منظور کیا گیا تو سینٹ کی نااہلی ثابت ہوگی ،رضاربانی اسکے بڑے ذمہ دار تھے۔ ن لیگ کی سینٹ میں اقلیت تھی تو بھی رضا ربانی نے خاصی رعایت دی یا مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا۔ تو جب ن لیگ والوں کو نسبتاًزیادہ تعداد مل گئی ہے پھر رضا ربانی کو چیئرمین بنادیا جاتا تو اسکے مزید بھیانک نتائج نکلتے۔ خفیہ رائے شماری کے فارم پر نام کا اندراج ہوا تو ضمیر وں کو مزید زنجیروں سے جکڑ دیا جائیگا۔ یہ قانون فوج نے نہیں بنایا بلکہ جمہوری تقاضہ ہے تاکہ روتے ہوئے وہ ووٹ پول کرنے پر مجبور ہونے کے بجائے اپنے ضمیر کیمطابق فیصلہ کرے۔ سیاسی جماعتوں کی مت ماری گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور نوازشریف بے ضمیری سے ضمیر والے ان ارکان کا فیصلہ کردیں جن کی سیاست اور نظرئیے کیلئے قربانی پر کوئی اختلاف نہیں جیسے رضاربانی صاحب وغیرہ تب بھی ضمیر والے مجبور ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی سپرٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، کارکنوں اور قائدین سے مفقود ہے۔ نوازشریف خود اداروں کے بوٹ چاٹنے کے چکر میں ہے مگر جمہوریت کے علمبردارمحمود اچکزئی، حاصل بزنجو، مولانا فضل الرحمن وغیرہ ان کی دھوتی میں چھپ رہے ہیں۔
قوم کا اجتماعی ضمیر مروجہ سیاستدانوں سے نفرت کرتاہے اور منظور پشتون جیسے نوجوان ہرقوم ، ہر صوبے ، ہر علاقے اور ہر حلقے سے اٹھیں اور یکجہتی سے ایک ایسی تحریک کا آغاز کریں کہ ہماری ریاست اور سیاست دونوں بچ جائیں۔ اب ریاست کی فکر نہیں لیکن سیاست بچانے کی فکر سیاستدان ضرور کریں۔
ہماری تجویز سے منظور پشتون وزیراعظم نہیں بن سکتالیکن پنجابی اکثریت سے کسی کو بھی وزیراعظم بناسکتے ہیں چاہے گدھا ہو ، خچر ہو یا گھوڑا۔ پہلے پنجاب میں جسے بدنام کردیا جاتا تھا وہ وزیراعظم نہ بن سکتا تھا۔ عمران اور نوازشریف نے ایکدوسرے کو جتنا بدنام کیا ، عدالت اور میڈیا پر جس طرح ایکدوسرے کے کپڑے اتارے گئے تو قوم کا اجتماعی ضمیر کسی بھی سیاستدان کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہندوستان کی سیاست تو کانگریس، جمعیت علماء ہند اور مجلس احرار کے ہاتھوں میں تھی ۔ قائداعظم تو سرآغا خان کے منشی تھے ۔ علامہ اقبال کبھی ایک دن ملک کی خاطر جیل نہ گئے تھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی عوام کیلئے قائداعظم کی شکل ، زبان اور لباس کچھ بھی مانوس نہیں تھا لیکن قوم کے اجتماعی ضمیر نے سب نامانوسی کے باوجود ایک گونگی آواز کو قبول کیا۔ مولانا فضل الرحمن نری بکواس کرے کہ جمعیت علماء اسلام نے پاکستان کیلئے قربانی دی تو اس کی مرضی ہے لیکن اس جھوٹ کی حیثیت اتنی ہے کہ’’ جیسے عمران خان اعتراف کرلے کہ اس نے بشریٰ بی بی سے نہ صرف عدت میں شادی کی بلکہ نکاح سے پہلے محترمہ کو حمل بھی تھا۔ پھر اس بچے کو حرامی قرار دیتا رہے لیکن جب یہ بچہ بڑا ہوکر پاکستان کا تاجدار بادشاہ بن جائے تو مولانا فضل الرحمن کی آنے والی نسلیں کہیں کہ اس بچے کے جواز کے فتوے ہم نے دئیے تھے، ڈاکٹر عامر لیاقت کو توعمران خان ایم کیوایم سے کھینچ کر لائے ہیں، عمران خا ن کا نکاح پڑھانے والے تو ہمارے مفتی سعید خان ہیں‘‘۔ جمعیت علماء اسلام کا وجود اتنا تھا جتنا عمران خان کا مفتی سعید خان سے تعلق ہے مگر جمعیت علماء اسلام تو یہودی سازش سے لیکر الزام کی بوچھاڑ کرنے میں پیش پیش ہے۔ حقائق کو مسخ کرنا بد دیانتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن سودی نظام سے زکوٰۃ کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کی لیبل قرار دیتا تھا اور پھر اپنوں کیلئے اس کو جنت کی شراب کو طہور کا نام دیکر پاک کردیاہے۔ یہ آدمی ہے یا پاجامہ؟۔ اسلام کیلئے کرو اسلام آباد کیلئے نہیں۔
ریاست سے عوام کو تکلیف پہنچے یا ریلف نہ ملے تو ظلم و جبر کیخلاف آواز اٹھانا جرأت و بہادری ہے۔ سیاستدانوں کے خلاف تو ہجڑے بھی آواز اٹھاسکتے ہیں لیکن فوج اور طالبان کیخلاف آواز اٹھانا بہت بہادری تھی۔ عمران خان نے طالبان اور فوج کیخلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ پرویز مشرف کے دور میں پٹھانوں کے خون بہا پر جو ڈالر کمائے۔ ان پر کراچی کی تعمیر وترقی ہوئی ۔ پختون کو گلہ نہیں، کراچی پختونوں کا بھی شہر ہے۔ پٹھان درختوں پر لٹک کر فوج کی سلیکشن کیلئے اپناقد لمبا کرنے کی کوشش کرتے تھے اسلئے پاک فوج میں زیادہ پٹھان فوج میں بھرتی ہیں۔ بلوچ قدآور سردار فوج میں جانا نہیں چاہتے تھے اور پست قد فٹ نہ ہوتے تھے۔ پنجاب کے لوگ محنت مزدوری کیلئے بلوچستان پہنچ جاتے ہیں مگر مقامی لوگ ٹف مزدوری پر آمادہ نہیں۔ ریاست سے جائز گلے شکوے سب کا حق ہے۔ مشرکین مکہ کی باقاعدہ فوج نہیں تھی، حضرت عمر فاروق اعظمؓ، حضرت امیر حمزہؓاور علی المرتضیٰؓ جیسے بہادر سپوت اسلام قبول کرچکے تھے۔ اللہ نے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیالیکن جہاد کی اجازت نہ دی۔ سیاستدان ہتھیار نہیں دماغ رکھتا ہے ۔ فوجی کے پاس ہتھیار ہوتا ہے مگر دماغ نہیں ہوتا ۔ امریکہ کے تاجرحکمران اسلحہ کی تجارت سے دنیا اور امریکہ کو تباہ کررہے ہیں۔ صدیق اکبرؓ پہلے خلیفۂ راشد بن گئے تو تجارت کو چھوڑ دیا۔ حکمران اپنی تجارت کیلئے حکومت کرتے ہیں۔ دنیا میں خلافت کیلئے جمہوری بنیادوں پر کوششوں کا آغاز کرنا ہوگا۔
پنجاب کے جس حصہ کو سب سے زیادہ ظالم اور غاصب کہا جاتاہے جو سرائیکی، پختون، سندھی، بلوچ، کشمیری ، گلگت و بلتستان اور کراچی پر حکمران تصور ہوتے ہیں انکا حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ اپنی تسکین کیلئے 100بچوں کو مارکر تیزاب میں گلا دینے والا بھی لاہوری تھا۔ قصور کے بچوں اور بچیوں کیساتھ بھی یہاں زیادتی ہوئی اور انہیں مزید ٹارچر کیا جا رہاہے جس کی تفصیل میڈیا نے عوام کو دکھادی ۔ ریاست نے قانون کا راستہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ بدمعاش بہت قتل کرتاہے لیکن راؤ انوار کو ایک نقیب اللہ محسود پر کتنے مشکلات کا سامنا ہوا ہے؟۔ سید عتیق الرحمن گیلانی کے گھر پر حملہ کرنے والے قاتلوں کو مجلس عمل کی حکومت اور فوج کے افسران نے کھلی چھوٹ دی تھی۔جو مسلح آمد ورفت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ لیکن عتیق گیلانی تو سب کی خیر خواہی چاہتے ہیں اور یہ اسلام کا کمال ہے، اسلام نام ہی خیرخواہی کا ہے۔ محسود،وزیر لشکری قوم ہیں،ا نکا رخ درست طرف مڑجائے تو پنجاب کے وہ ظالم لوگ جو بچوں اور بچیوں کیساتھ زیادتی کے باوجود مظلوم کو دھمکیاں دیتے ہیں اگر منظور پشتون کے احتجاج سے فوج کی آنکھیں کھل سکتی ہیں اور عوام سے رویہ درست ہوسکتاہے تو مینار پاکستان پر مظلوموں کیلئے ایک زبردست آواز اٹھانے پر بھی قصور کے قصور وار ظالم اپنی حرکتوں سے باز آسکتے ہیں۔محسود قوم کی سب سے بڑی اور زبردست خوبی یہی تھی کہ کسی برائی کا فیصلہ کرنے کے بعد اس کا خاتمہ قومی لشکر کے ذریعے سے کرتے تھے۔ ریاست کی رٹ کو بحال کرنے کیلئے صرف وزیرستان، قبائل ، پختونخواہ، پاکستان اور افغانستان کی سطح پر نہیں بلکہ مظلوم کشمیری عوام اور فلسطینی عوام کیلئے بھی قومی لشکر میں محسود قبائل کا طرزِ عمل دنیا کو نجات دلا سکتا ہے۔احادیث صحیحہ اور شاہ نعمت اللہ کی پیش گوئی بھی ایسی ہیں۔پنجاب کی عوام بھی پشتونوں کے لشکر کا زبردست استقبال کرے گی۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟