پوسٹ تلاش کریں

قومی ایکشن پلان سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے تشکیل دیا گیا

قومی ایکشن پلان سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے تشکیل دیا گیا اخبار: نوشتہ دیوار

مال ودولت ، اسٹیبلشمنٹ ، موروثیت کی پیداوار کی قیادت میں قومی ایکشن پلان کے ان نکات پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت ہی نہ نہیں جو حکومت سے متعلق ہیں اسلئے وقت ختم ہوگیا مگر سنجیدہ کوشش پرصرف غورہی کیا جارہاہے

قومی ایکشن پلان سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے تشکیل دیا گیا لیکن آخری وقت تک اسکے ان کو نکات کو سنجیدگی سے نہ لیاگیا جن کا تعلق سیاسی حکو مت سے تھا، کیونکہ دہشت گردی کیخلاف ذہن سازی کی مطلوبہ صلاحیت حکمرانوں میں موجودنہ تھی اور اپوزیشن رہنما بھی یکسر محروم دکھائی دیتے ہیں، اسلئے فوج کی تشویش کاخاطر خواہ جواب کسی سے نہیں بن پڑا، کور کمانڈرکے اجلاس میں جب بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تو حکومت اپنی غلطی مان لینے کی بجائے سیخ پا ہوجاتی رہی ہے۔ حکومت، جمہوریت اور نوازشریف کے زبردست وکیل جیوکے معروف صحافی نجم سیٹھی نے کہا کہ ’’ طالبان، جہادی تنظیمیں، سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی وغیرہ کی قوت 10فیصد سے بھی کم اور مدارس ،مذہبی سیاسی جماعتوں جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان اور جماعت اسلامی کی طاقت90فیصد سے زیادہ ہے، اسلئے ان پر قومی ایکشن پلان کے تحت ہاتھ ڈالنے سے اسٹیبلشمنٹ،حکومت اور عدلیہ سب ہی ڈرتے ہیں۔قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق اسلئے عمل نہیں ہوسکتاہے‘‘۔
معاشرے کے ہر طبقہ میں شریف اور بدمعاش ہوتے ہیں، محلہ کے دو، تین بدمعاش سینکڑوں شریفوں پر حاوی رہتے ہیں ، ریاست کا کام یہی ہوتا ہے کہ بدمعاشی کے کردار کا خاتمہ کرکے انسانیت، شرافت اور اخلاقی اقدار کی حکمرانی قائم کی جائے۔ پاک فوج نے کراچی میں ایم کیوایم ، پختونخواہ میں طالبان اور بلوچستان میں قوم پرستوں کی دہشت کا خاتمہ کرکے پاکستان کے کونے کونے میں ریاست کی رٹ بحال کردی لیکن پنجاب میں روایتی بدمعاشی بحال ہے۔ طالبان ، ایم کیوایم کے کارکن اور بلوچ قوم پرست ن لیگ اور تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی طرح کلہاڑی اور ڈنڈے لیکر اپنی قوت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے ۔ قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا تو بہت سے لیگی اور تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن روایتی لب ولہجے اور دہشت پسندی کے باعث پنجاب رینجرز کے حوالے ہوجاتے، پھر وہ بھی ایم کیوایم کی طرح ریاست کی رٹ مان کر عاجزانہ گفتگو پر مجبور ہوجاتے۔ جنرل راحیل شریف میں جرأت وبہادری ہے وہ پنجاب کے گلوبٹوں سے بھی طالبان، ایم کیوایم اور بلوچ قوم پرستوں کی طرح نمٹ سکتے ہیں مگر بھاری بھرکم پیسہ، جمہوریت سے زیادہ نوازشریف کی ذاتی فکر اور پاک فوج سے بدظنی کا یہ نتیجہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت قانون، اخلاق اور کردار کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتی ہے۔
ماڈل گرل ایان علی کے مقابلہ میں مریم نواز شریف زیادہ تفتیش کے قابل ہے، ڈاکٹر عاصم کے مقابلہ میں اسحاق ڈار نے اعترافی بیان ریکارڈ کرایا ہے اور یوسف رضاگیلانی کا جرم اتنا بڑا نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کو عدالت نے نااہل قرار دیا ، جتنا نوازشریف کاہے اصغر خان کیس میں جمہوریت کے خلاف سازش اور پانامہ لیکس سے راہِ فرار اختیار کرنے میں۔ 16سال بعد اصغر خان کیس میں شریک ملزموں کو باقاعدہ مجرم قرار دیا مگر اس سے رقوم کی واپسی اور نااہل ہونے کی سزا نہیں دی گئی۔ جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس اپنے وقت پر رخصت ہوجائیں اور پاکستان کی ریاست میں نوازشریف کیساتھ وہ سلوک نہ کیا جائے جو دوسروں کیساتھ ہوا ہے تو چوہدری افتخار کی طرح تعریف کرنے والے تنقید کرتے پھریں گے اور ان کی زبانوں کو روکنے کیلئے ہتک عزت کے دعوے کام نہ آئینگے۔
قوم کا اجتماعی ضمیر یہ تقاضہ کرتا ہے کہ طاقتوروں اور کمزوروں کو یکساں انصاف کے فراہم کرنے میں سب سے بڑا کردار جمہوری حکومت کا ہونا چاہیے لیکن جب جمہوریت کا اپنا سیٹ اپ غیر جمہوری ہوگا، مشاہداللہ خان، سعد رفیق، خواجہ آصف اور دیگر رہنما ؤں کو بی بی مریم نواز کے سامنے وہ اہمیت حاصل نہ ہو ، جسکے وہ مستحق ہیں اور وہ وزارتوں اور اپنے مفادات کے چکر میں اس پر راضی ہوں۔ بلاول زردای کے سامنے چودھری اعتزاز حسن، قمرزمان کائرہ، افضل چن وغیرہ سر نگوں ہوں تو عوام کو کونسی جمہوریت کا پیغام دینگے؟۔ کیا گھوڑے، گدھے اور کتے کو جعلی ڈگری کی طرح بھاری بھرکم پیسے دیکر موجودہ انتخابی نظام میں نہیں جتوایا جاسکتاہے؟، اس کا تجربہ کرکے دیکھ لیا جائے تو ضرور کامیاب ہوگا۔یقینی طورسے مارشل لاء مسائل کا حل نہیں لیکن جمہوری قوتیں عدل وانصاف کا نظام قائم کرنے میں سنجیدہ نہ ہوں تو ماضی میں بھی مارشل لاء کو روکنے کیلئے عوام نے اسلئے کوئی قربانی نہ دی کہ جمہوری حکومتیں جن جمہوری جماعتوں کی وجہ سے برسرِ اقتدار تھیں، ان میں بذات خود جمہوریت کی روح نہیں تھی۔ اب دن بدن مزید معاملہ تنزلی کی طرف ہی جارہا ہے۔
اگر جمہوری قوتوں نے قانون کی حکمرانی قائم نہ کی اور مارشل لاء کے ذریعہ سے بھی اس ملک کو سیدھی راہ پر لگانے کی کوئی کوشش نہ کی گئی تو کراچی، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں پھر دہشت پسند بھی آزاد ہوکر اپنے لئے ان جمہوری جماعتوں سے انصاف مانگ لیں گے جن کے ساتھ مل کر پاک فوج نے ان کو کنارے لگایا تھا، پھر اس ملک کی بدحالی کا ذمہ دار کون ہوگا؟۔ ن لیگ نے سوئس اکاونٹ پر جس طرح تقریریں کیں، اب پانامہ لیکس پر دوسروں کو دھمکانے اور الزام لگانے کی بجائے کھلے دل سے جرم کی سزا کھانی چاہیے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟