پوسٹ تلاش کریں

افسوس کہ وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد اسلام اجنبی بنتا چلا گیا: عتیق گیلانی

افسوس کہ وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد اسلام اجنبی بنتا چلا گیا: عتیق گیلانی اخبار: نوشتہ دیوار

افسوس ہے کہ وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد اسلام بتدریج رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق اجنبی بنتا چلاگیا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج معروف احکام تھے ۔ قتل، بہتان، زنا، چوری منکرات تھے۔ رسول ﷺ کی اللہ وحی سے رہنمائی کرتا۔ بدری قیدیوں پر فدیہ، شہداء اُحدپر انتقام کا جذبہ، سورۂ مجادلہ میں ظہار کا فتویٰ ، کل کی خبر پر انشاء اللہ کہنا، نابینا کی آمد پر چیں بہ جبیں ہونااور رئیس المنافقین کا جنازہ پڑھا دینا ایک ایک بات کے ہر ہر پہلوپر اللہ کی طرف سے وحی کا نزول بڑی نعمت تھی جس کی اللہ نے نبیﷺ پر تکمیل فرمائی۔الیوم اکملت لکم دینکم
اوّل تو کوئی ایسا سپوت اور ماں کا لعل نہیں، جس کی حیثیت رسول ﷺ سے بڑھ کر ہو کہ آپﷺ وحی کی رہنمائی کے محتاج ہوں اور کسی دوسرے کو یہ اعزاز حاصل ہو کہ رہنمائی کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسرا یہ کہ ضرورت کی بات نہیں بلکہ وحی کا سلسلہ بند ہوچکا تھا اور اللہ نے وضاحت کردی تھی کہ ’’ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی جو تم سے ہو ، اور اگر کسی بات میں تنازع ہوتو اللہ اور رسول کی طرف اس کو لوٹادو‘‘۔ آیت میں اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم اوراولی الامر سے اختلاف کی گنجائش کیساتھ اطاعت کا حکم ہے اور اگر کسی بات پر تنازع ہو تو اس کو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی طرف لوٹانے کا حکم ہے۔نبیﷺ سے بھی اولی الامرکی حیثیت سے اختلاف کی گنجائش رہی تھی۔ اہل تشیع سے ائمہ اہلبیت کا سلسلہ گم ہوا تو اس آیت کی تفسیر نہ سمجھنے کی وجہ سے گمراہی کا شکار ہوگئے ، ان کو انتظار ہے ، ہمیں ضرورت نہیں ہے۔
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے آیت کا مفہوم بدلنے کی سازش فرمائی۔ لکھا ہے کہ ’’عوام کو اندھی تقلید کا حکم ہے۔اولی الامر سے مراد علماء ہیں، تنازع سے علماء کے آپس کا اختلاف مراد ہے۔ عوام اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت براہِ راست نہیں کرسکتے بلکہ علماء کے ذریعے پابند ہیں ،اگر علماء عوام کی غلط رہنمائی کریں تو عوام کی اس پر کوئی پکڑ نہ ہوگی ۔ اب اجتہاد کا دروازہ بند ہے ۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ علم اس طرح سے نہ اٹھے گا کہ آسمان پر اٹھالیا جائے گابلکہ علماء کے اٹھ جانے سے علم اٹھ جائے گا ،یہاں تک کہ جاہلوں کو رئیس بنایاجائے گا اور ان سے پوچھا جائیگا تو علم کے بغیر فتویٰ دینگے ، پس وہ خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرینگے۔ (بخاری ومسلم)
(تقلید اور اس کی شرعی حیثیت ۔ شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، دارالعلوم کراچی)
مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ نے’’ عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں‘‘درج بالا حدیث لکھی ہے ۔ حدیث میں عوام کیلئے کسی قسم کی چھوٹ کاکوئی ذکر نہیں بلکہ جس طرح سے علماء ومفتیان خود گمراہ ہونگے، اسی طرح اپنے معتقدین کو بھی گمراہ کردینگے۔مفتی تقی عثمانی نے ائمہ مجتہدین کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند قرار دیا ہے تو اپنے والد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیعؒ کے برعکس اسلامی بینکاری کیلئے معاوضہ لیکر اجتہاد کا دروزاہ کھولا ہے یاپھریہ اس گمراہی کا فتویٰ ہے جس سے وہ خود گمراہ ہوگئے ہیں اور پوچھنے والوں کو بھی گمراہ کیا؟۔ کیا آیت اورحدیث کے مفہوم کو اس قدر بگاڑنے سے بھی بڑی گمراہی ہوسکتی ہے؟۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمودؒ کی جگہ کس نے لی ؟۔
بدر ی قیدیوں کے فدیہ پر ڈانٹ پڑی تھی تو اُحد کے شکست پر سخت ترین بدلہ لینے کی قسم کھائی مگر اللہ نے بدلہ لینے میں بے اعتدالی سے منع کیابلکہ معافی کا حکم دیا۔ قرآن نے تعلیم وتربیت اور حکمت وتزکیہ کی اس انتہا پر صحابہؓ کو پہنچا دیا کہ اللہ کی نازل کردہ آیات کی بھی اندھی تقلید کرنا مزاج میں شامل نہ تھا، اللہ نے ان کی تعریف میں فرمایا: الذین اذا ذکروا باٰیات اللہ لم یخروا علیہا صما و عمیانا ’’ وہ لوگ جنکے سامنے اللہ کی آیات کا ذکر کیا جائے تو اس پر اندھے اور بہرے ہوکر گرنہیں پڑتے ‘‘۔ فاروق اعظمؓ کا ہاتھ دامن رسالت ﷺ سے الجھاکہ رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی کا جنازہ کیسے پڑھاؤگے جس نے ناموس رسالت ؐاماں عائشہؓ پر بہتان کی افواہ سے مدینے کی فضا میں طوفان برپا کردیا؟۔دامنِ رحمت ﷺنے فاروق اعظمؓکو نظراندازکیا ،اللہ کی طرف سے بھی تائید نازل ہوئی مگرافسوس کہ ؂ زاغوں کے تصرف میں ہے شاہیں کا نشیمن
صحابہؓ کے احوال یہ تھے تو رسول اللہﷺ کس درجہ اپنی بصیرت پر عمل پیرا ہونگے؟۔ حکم تھا کہ منافق کی نمازہ جنازہ نہ پڑھ، اور نہ اسکی قبر پر کھڑے ہوں۔ اللہ کے نبیﷺ نے منافقین کی فہرست ایک صحابیؓ کے حوالہ کی اوران کو راز میں رہنے دیا۔ کوئی مولوی ہوتا تو اعلان کردیتا کہ فلاں فلاں منافق ہیں، ان کا جنازہ پڑھنے اور قبر پر کھڑے ہوکر دعا مانگنے سے پرہیز کرو۔ فاروق اعظمؓ نے اس صحابیؓ سے پوچھا: ’’میرا نام تو منافقوں کی فہرست میں نہیں ؟‘‘۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہونگے مگردنیا میں انسے وہ سلوک روا رکھاگیا جو بظاہر قرآنی آیت کے منافی تھا۔ صحابہؓ اس ٹو ہ میں بھی نہ رہے کہ وہ رازدان صحابیؓ کس کا جنازہ پڑھتے ہیں اور کس کا نہیں؟ ۔یہ قرآن میں عزت افزائی سے روکنے کیلئے نبیﷺ کو حکم تھاجس کا عام لوگوں سے تعلق بھی نہیں تھا۔ ریئس المنافقین کے بیٹے سچے صحابہؓ تھے ، جس طرح نبیﷺنے انکا دل رکھنے کیلئے اسکاجنازہ پڑھادیا۔ اسی طرح باقی لوگ اپنے عزیزواقارب اور دوسروں کی دلجوئی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔
منافق کا جنازہ پڑھنے سے اسلام پر فرق پڑنا تو دور کی بات ہے، اگر بالفرض منافق کے پیچھے نماز پڑھ لی تو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں اسلئے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ اگر امام کی نماز نہ ہوئی ہو تو صرف امام اپنی نماز لوٹائے، مقتدی کو نماز لوٹانے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ اور فرمایاﷺکہ’’ ہر نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو‘‘۔ اسلام کو جب کم عقل لوگوں کے حوالہ کرکے پیشہ بنایاگیا تو اسلام کی ساکھ بہت متأثر ہوئی ۔ بھارت میں کسی دیوبندی امام نے بریلوی میت کا جنازہ پڑھایا تو مراد آبادی مفتی نے امام کے پیچھے جنازہ پڑھنے والوں کو دوبارہ کلمہ اور نکاح کی تجدید کا فتویٰ دیدیا۔ سب کو کلمہ اوردوبارہ نکاح پڑھائے گئے۔ قائداعظم کا جنازہ دیوبندی شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی ؒ نے پڑھا دیا تھا، ان لوگوں نے کلمے اور نکاح کی تجدید نہیں کی،پھر ان کا کیا بنے گا؟۔
سوال یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کا جنازہ کس نے پڑھایا؟۔ رسول اللہﷺ کی نمازِ جنازہ کی روایت نہیں۔ صحابہؓ نے ٹولیوں میں داخل ہوکر درودپڑھا ۔ شیعہ کا صحابہؓ پر اعتراض ہے کہ خلافت کے مسئلہ پر الجھ کر جنازے کا اہتمام بھی نہ کیا۔ حالانکہ نمازِ جنازہ کی موجودہ شکل وہ نہیں جو نبیﷺ کے دور میں تھی ، ایک صحابیؓ کی میت پر نبیﷺ نے جب دعا مانگی تو صحابہؓ نے خواہش کی کہ اس کی جگہ ان کی میت ہوتی۔ درود پڑھنا نبیﷺ کیلئے مناسب تھا۔ اہل تشیع کے نزدیک نمازجنازہ کیلئے وضو ضروری نہیں اسلئے کہ یہ محض دعاہے، باقاعدہ نماز نہیں اور اہلحدیث کے نزدیک نمازِ جنازہ میں فاتحہ پڑھنا ضروری ہے اسلئے کہ نماز فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔ باقی کے ہاںیہ وہ نماز نہیں جس میں رکوع وسجودیا فاتحہ بھی پڑھی جائے۔ حدیث ہے کہ اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعا ’’جب تم میت پر صلوٰۃ پڑھو ، تو اس کیلئے دعا کو خالص کردو‘‘۔ نمازِ جنازہ دراصل دعا ہے۔ہر نماز میں نبیﷺ پر صلوٰۃ ہے۔عام میت کیلئے صلوٰۃ جنازہ میں پہلی اور آخری خصوصی دعا ہے۔
ایک صحابیؓ جنکاتیسری جنس سے تعلق تھا ، مسجد کاخدمت گار تھا، جب انتقال ہوا، تو صحابہؓ نے نبیﷺ کو بتائے بغیر اس کونمازِ جنازہ کے بغیر دفن کردیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا تو انہوں نے بتادیا جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے اطلاع کرتے،اور جنازہ کے بغیر کیوں دفن کیا؟۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’ہم نے سمجھا کہ اس کے جنازے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔ نبیﷺ نے تیسرے روزاس کی قبر پر جاکر صلوٰۃ پڑھنے کا اہتمام فرمایا۔ (بخاری شریف)
آج خواجہ سراؤں کے جنازے نظر نہیں آتے ،تو وجہ کیاہے؟۔ فقہ کی کتابوں میں خنسیٰ مشکل کا مسئلہ ہے۔ اگرخواجہ سرا کی جنس 50فی صد مرد کی 50فیصد عورت کی ہو، توجنازہ کیسے ہوگا؟۔ اگر مرد کی جنس زیادہ ہو تو مردوں اور عورت کی جنس زیادہ تو عورتوں والا جنازہ پڑھایا جائیگا۔ میں نے ایک مفتی کے سامنے حقائق کی وضاحت کرنا چاہی تو مفتی صاحب نے کہا کہ ’’شاہصاحب یہ بڑا مشکل مسئلہ ہے جس کو آج تک کوئی حل نہ کرسکا، یہ آپ ہی حل کرسکتے ہیں‘‘۔سوال اس وقت پیدا ہوتا کہ عورت اور مرد کی نمازِجنازہ کی دعا الگ ہوتی، جب دونوں کی دعاایک ہے تو خواجہ سرا کے حوالے سے سوال پیدا کرنا بھی بہت بڑی کم عقلی تھی جس کا خمیازہ خواجہ سراؤں کو بھگتنا پڑ رہاہے۔ آج تک ایسا کوئی آلہ بھی ایجاد نہیں ہواہے کہ تیسری جنس کی فیصد% پرسنٹیج نکالی جائے۔
درسِ نظامی میں خنسیٰ مشکل کی مثال ابوالاسود دوئلی سے دی جاتی ہے جو بڑا عالم تھا جس نے قرآن پر اعراب لگائے تھے۔ بتایا جاتاہے کہ اسکا شوہر بھی تھا جس سے اسکے بچے تھے اور بیوی بھی تھی جس سے اسکے بچے بھی تھے۔ اسود کا معنیٰ کالا ہے۔ نبیﷺ نے ایک شخص اسود کا نام بدل کر ابیض رکھ دیا( الاصابہ۔ طبرانی)۔ ابوالاسود کنیت سے ضروری نہیں کہ اس کی اولاد میں کسی کانام اسود ہو بلکہ پیشہ ور ملاؤں کی نسبت بھی محض مشکل خنسیٰ کے کسی تخیلاتی شخصیت کی طلسماتی اولاد کی بناپر ہوسکتی ہے۔ موجودہ دور میں جیسے خواتین وحضرات کو دینی علوم کے مدارس میں تعلیم و تربیت دی جا رہی ہے، اسی طرح خواجہ سراؤں کو بھی اس پیشے سے وابستہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ انبیاء کی وراثت درہم ودینار نہیں علم ہے‘‘۔ آج علماء میں انبیاء کرامؑ کے نام پر علم نہیں درہم ودینار کی وراثت ہے ، اگر خواجہ سراؤں کو یہ پیشہ سپرد کردیا جائے تو اہلیت کے بغیر پیشہ ور موروثی نظام کا مدارس سے خاتمہ ہوجائیگا۔ ایک طرف خواجہ سرا ؤں کو معقول عزت مل جائے گی اور دوسری طرف مذہبی مدارس جنسی بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ جب مذہبی شخصیات میں مفادپرستی کا عنصر نہ رہے گا تودین کا حلیہ بگاڑنے والے بھی اپنی غلط روش پر اصرار نہ کرینگے۔ ابوالاسود دویلی کی طرح دین کی خدمت کس نے کی؟۔ قرآن پڑھنے ،پڑھانے والے اعراب کی بدولت کس قدر مستفید ہورہے ہیں؟،یہ ایک بڑے خواجہ سرا کابڑا کارنامہ ہے۔
رسول اللہﷺ اونٹ، خچر، گدھے کی سواری پر جس طرف رخ ہوتا، نماز پڑھ لیتے۔ اسلئے کہ نبیﷺ جانتے تھے کہ اللہ نے فرمایا: ’’یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ جو اللہ سے ڈرا‘‘۔ اللہ نے دیکھا کہ نبیﷺ کا رحجان کعبہ کی طرف ہے تو بیت المقدس سے منہ موڑ کر کعبہ کو قبلہ بنانے کا حکم دیا۔ حضرت عمرؓ نے جنبی ہوکرحالت سفر میں نماز پڑھنا مناسب نہ سمجھا تو نماز نہیں پڑھی اور نبیﷺ نے تائید فرمادی ، جبکہ حضرت عمّارؓ نے غسل کا پانی نہ ہونے کی صورت میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرنا کافی تھا‘‘۔ قرآن کی آیت میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ اجازت ہے اور اجازت کی صورت میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے کی گنجائش ہے ،حدیث میں وضاحت پر مزید اختلافات کا بتنگڑ بنانے کی ضرورت نہ تھی جس نے حضرت شاہ ولی اللہؒ کو بھی تشویش میں مبتلا کئے بغیر نہ چھوڑا تھا۔
علماء کا تو کام اختلافات کے گھوڑے دوڑاکر ثابت کرنا تھا کہ قرآن سمجھنا اور سمجھانا مولویوں کا کام ہے مگر سیدمودودیؒ نے بھی قرآن وسنت کے بجائے عوام کیلئے اختلاف کا شاخسانہ لکھ دیا ۔ یہ غلط فہمی دور کرنی ہوگی کہ مولانا مودودی نے قرآن وسنت کا خلاصہ لکھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علماء کے ترجمے و تفسیر کا ہی انہوں نے سلیس انداز میں نچوڑلکھ دیاہے۔ اب ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو ملتِ واحدہ بنانے کیلئے قرآن و سنت کا خلاصہ پیش کیا جائے ۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعودؓ اور ابوموسیٰ اشعریؓ کا جنابت میں تیمم سے نماز پڑھنے، نہ پڑھنے پر مناظرہ ہے ۔حالانکہ قرآن وسنت میں حل موجود ہے۔ نظافت کا غلبہ ہو تو نماز نہ پڑھو اور ذوق عبادت ہو تو تیمم سے نماز پڑھو۔خواتین حیض میں نماز نہ پڑھیں تو انوکھامسئلہ نہیں کہ منی سے لتھڑے مردکو نماز نہ پڑھنے کی اجازت ہو۔ اسلام نے جنابت سے غسل کو فرض ،تیمم کو قائم مقام بنادیاتو مسلمان کو بھی کم ظرف نہ ہونا چاہیے۔
نکاح و طلاق ، خلافت و امامت اور عقیدہ ومسلک کے نام پر اختلاف کا متفقہ حل ہے مگر سابقہ امم کی طرح مسلم اُمہ بھی پٹری سے اترگئی ۔ قرآن وسنت کے منشور نے ہمیں امتِ واحدہ بنایا لیکن ہم افتراق وانتشار ، فتنہ وفساد اور انتہاپسندی وشدت کا شکار ہوگئے۔اگر قرآن و سنت کو منشور بنالیا تو ایک ملت بننے میں دیر نہ لگے گی۔شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی ،حنفی اہلحدیث، جماعت اسلامی تمام مذہبی و سیاسی فرقہ وارانہ تنظیمیں خواہاں ہیں کہ دنیا میں اسلام کے معاشرتی، سیاسی ، معاشی اور تمدنی نظام کو غلبہ نصیب ہو اور مسلم ممالک کی ریاستیں بھی چاہتی ہیں کہ دلدل سے نکل آئیں۔
ہم چشم تصور سے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ اسلامی خلافت قائم ہوگئی ، پاکستان کے گلی کوچوں میں نیم عریاں لباس لونڈیاں گشت کرتی پھرتی ہیں تو دنیا حیران ہوگی کہ شدت پسند وں کی غیرت گوارہ نہیں کرتی تھی کہ ہم اپنے ملکوں میں آزاد اپنے لباس میں گھوم سکیں ،یہ غیرتمند اپنی اولاد کی مائیں بناکر ہمیں اسی حال میں گھمارہے ہیں؟ تصاویر دیکھنے کا حوصلہ گھر گھر میڈیا نے پیدا کردیاہے ورنہ تو یہ بھی بڑی گستاخی لگتی۔ اسلام ایک عالمگیر دین ہے، مشرق ومغرب میں ملتِ ابراہیمی کے درست علمبردار مسلمان ہیں لیکن ملتِ اسلامیہ کو ایک اور نیک ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
حضرت ابراہیم ؑ کی ایک بیگم حضرت سارہؑ بڑے درجے کی خاتون تھیں ان کی اولاد میں بہت انبیاء کرام ؑ اور بادشاہ بھی آئے۔ ان میں اسٹیٹس کو کی روایت بھی قائم رہی ہے۔ حضرت سارہؑ کی وجہ سے حضرت حاجرہؓ نے غیر ذی زرع مکہ معظمہ کی بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزاری۔ یوسفؑ سے بھائی خار کھاتے تھے تو پھر سجدہ بھی کرنا پڑگیا۔ حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ نے بادشاہت و نبوت میں اسٹیٹس کو کی زندگی گزاری۔ لی نعجۃ و لہ تسع وتسعون نعجۃ (میرے لئے ایک دنبی اور اسکے پاس 99دنبیاں ہیں)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بغیر باپ کے پیدا کیا تو یہ بنی اسرائیل کے اسٹیٹس کو کو توڑنے اور بنی اسرائیل کے نسلی گھمنڈ کو ختم کرنے کیلئے ان کی تابوت میں آخری کیل تھا۔ ورنہ تو فراعین مصر نے بھی عرصہ تک غلام بنائے رکھاتھا۔جو اللہ کے سامنے انکے نسلی گھمنڈ کو ختم کرنے کیلئے کم حجت نہ تھی، جس کا حضرت موسیٰؑ نے مقابلہ کیا تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو آخری پیغمبر کی حیثیت سے حضرت حاجرہؓ کی اولاد میں مبعوث کر دیا۔ یوں تو خواتین کی زبوں حالی سے مغرب بھی خالی نہ تھا مگر یہاں تو انتہاء تھی زندہ دفن کیا جاتا تھا قرآن کا اسلوب سورۂ تحریم، مجادلہ ،نساء، بقرہ اور احزاب ودیگر سورتوں میں خواتین کے حقوق سے متعلق دیکھا جائے تو بہت زبردست طریقے سے معاملات سمجھ میں آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے حق کو واضح کردیا کہ ناراضگی کی مدت 4چار ماہ ہیں ،اسکے بعد جس طرح4 ماہ10دن کے بعد بیوہ دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہے اس طرح یہ بھی آزاد ہے لیکن فقہ کے ائمہ نے بحث شروع کردی کہ طلاق کا اظہار نہ ہونے کی صورت پر طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟۔ مدعا کو نہیں دیکھا بلکہ شوہر کے حق ملکیت پر اختلافات کا شاخسانہ کھڑا کردیا۔ چار ماہ انتظار کے باوجود عورت کے حق کا خیال نہ رہا بلکہ یہ بحث شروع کردی کہ زندگی بھر طلاق نہ ہوگی یا فوری ہوجائے گی؟۔ عورت کا حق ملحوظِ خاطر رہتا تو اختلاف کی گنجائش ہی نہ تھی ، عورت مرضی سے شادی کرلے یا بیوہ کی طرح بیٹھی رہے،پھر شوہر کی مرضی ہو تو معروف طریقے سے رجوع کرلے ،اس کیلئے نکاح خواں کا فیس کھری کرنا ضروری نہیں۔ جیسے دوستوں میں ناراضگی کے بعد صلح ہو تو معاشرے میں احباب کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ چھوٹی بات نہیں کہ جمہور فقہاء کے نزدیک دوسری جگہ شادی حرام ہو اورامام اعظم ؒ کے نزدیک تعلق کی بحالی حرام ہو۔ قرآن نے جو معاملہ حل کیا ، انہوں نے بگاڑدیا۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کا موضوع چھیڑنے سے پہلے مقدمہ بتایا کہ ’’لغو الفاظ سے اللہ نہیں پکڑتا مگر جو دلوں نے کمایا‘‘۔ پھر وضاحت کردی کہ ’’ ایلاء یعنی طلاق کا اظہار کئے بغیر شوہر کیلئے عورت پر چار ماہ کے انتظار کا حق ہے۔ اگر اس میں باہمی رضامندی سے رجوع کرلیا تو ٹھیک ورنہ طلاق کا عزم پہلے سے تھا تو اللہ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔ طلاق کے عزم پر اختلاف کی ضروت بالکل نہیں تھی اس میں پکڑ کی بات واضح تھی ، اسلئے کہ عزم کا اظہار نہ ہونے کی صورت میں عدت ایک ماہ زیادہ ہے۔ پھر اللہ نے وضاحت کردی کہ ’’ طلاق کے اظہار کی صورت میں انتظار کی مدت تین ادوار ہیں‘‘۔ جو حیض نہ آنے کی صورت میں تین ماہ ہیں۔اس مدت میں بھی صلح کی شرط کیساتھ شوہر کو رجوع کا حق دار قرار دیا گیا۔ مشرقی تقدیس کے علمبردار صلح کی شرط بھول گئے۔ قرآن میں وضاحت ہے کہ رجوع کیلئے اصلاح سے مراد صلح ہے وان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما ’’ اگر صلح کا ارادہ ہو تو اللہ دونوں میں موافقت پیدا کردے گا‘‘۔ قرآن میں مسلسل عورت کو تحفظ دینے کا مضمون ہے، ناراضگی میں چار ماہ کی عدت ہو، جس میں طلاق کا اظہار نہ ہوا ہو یا پھر طلاق کے اظہار کی صورت میں تین ماہ کی عدت ہو، بہرحال عورت کی عدت بیان کرکے اسکے مستقبل کی ضمانت دی گئی ہے۔
چونکہ شوہر باقاعدہ طلاق کے بعد بھی بیوی کو اپنے ماحول میں مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔ ممکن ہے عورت اسکے دوست، بھائی، رشتہ دار، پڑوسی اور حریف یا حلیف سے شادی کرنا چاہے تو کوئی بھی سوچ لے، بیوی کو اجازت دینا بہت مشکل کام ہے، ممکن ہے کہ بیوی کو طلاق کے بعدتمام احتیاطی تدابیر کے باوجود شوہر اپنی مرضی سے اجازت نہیں دے۔ عمران خان نے ریحام کو طلاق دیدی تو اس نے کہا کہ ’’ میں پٹھان ہوں ، جان پر کھیل کر پاکستان آئی ہوں‘‘۔ عمران خان کا اپنے کسی حریف یا حلیف سے شادی میں غیرت کھانا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ قرآن میں جس بھی خاص صورتحال کے بعد طلاق کی صورت میں شوہر کیلئے حلال نہ ہونے کی بات ہے، یہاں تک کہ کسی دوسرے شوہر سے وہ عورت نکاح نہ کرلے۔ یہ بھی عورت کے حقوق کے تحفظ کیلئے بات تھی۔ امام ابوحنیفہؒ نے اس آیت کے پیش نظر اس حدیث کو مسترد کیا، جس میں ولی کی اجازت کے بغیراگر شادی کرلی تو اس کے نکاح کو باطل قرار دیا گیاہے ۔ حالانکہ آیت میں طلاق کے بعد عورت کی رضا کاذکرہے اور بدقسمتی سے اب بھی مشرقی معاشرے میں اس پر عمل نہیں ہورہا ہے۔
قرآن کے مدعا کو نبی کریمﷺ نے درست سمجھ لیا تھا، نبیﷺ کی وفات کے بعد بھی قرآن میں نبیﷺ کی ازواج مطہراتؓ سے شادی نہ کرنے کی پابندی لگائی گئی کہ یہ اذیت کا باعث ہے، اور انصار کے سردار سعد بن عبادہؓ کیلئے بھی بخاری میں ہے کہ وہ طلاق کے بعد دوسری جگہ شادی نہ کرنے دیتے تھے۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں آج بھی طلاق شدہ اور بیوہ پر پابندی لگائی جاتی ہے کہ عورت کی مخصوص علاقوں، قوموں اور پڑوسیوں سے شادی نہیں ہوسکتی ہے۔ قرآن کے اصل حکم پر تو آج تک عمل نہیں ہوسکا،مگر تمام حدود وقیود کو پھلانگ کر حلالے کیلئے عجیب وغریب راستے نکال لئے گئے۔علماء ومفتیان ضد اور ہٹ دھرمی بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں،لوگوں کے گھر تباہ ہورہے ہیں اور ان کو اپنی ساکھ کی پڑی ہے۔ قرآن میں بار بار عدت کے حوالہ سے رجوع کا ذکر ہے لیکن علماء نے طلاق کو مذاق سے بڑھ کر پتہ نہیں کہاں سے کہاں تک پہنچایا تھا ، میں ثریا سے ڈھونڈ لایا ہوں۔
علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے کہاکہ ساری زندگی فقہ کی وکالت میں ضائع کردی۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ مالٹا کی جیل رہائی پر بدلے، جس پر مولانا عبیداللہ سندھیؒ کاربند ہوئے ۔ پھر مفتی شفیعؒ نے بھی مدارس کو بانجھ قرار دیا۔ ہر اکابر قبر جاتے ہوئے پشیمانی کا اظہار کریگا یا جوانی میں بھی اپنا رویہ بدلے گا؟۔ امام ابوحنیفہؒ نے جوانی علم کلام میں گزاری پھر توبہ کیا فقہ کی طرف توجہ دی، امام غزالیؒ نے فقہ میں جوانی گزار دی پھر اس کو گمراہی قرار دیکر تصوف کا رخ کیا،ہم نے فقہ و تصوف کو دیکھ کر جوانی میں اسلامی روح مسلم امہ کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی جدوجہدکی اور اللہ نے راہیں کھولیں اے دوجہاں کے والیؐ! ہم تیرے باغ کے مالی! شریعت تیری نرالی! اک ہاتھ سے بجی تالی، مشکل گھڑی بھگتالی سیکھی نہیں دلالی،کچھ مدت سستالی یہ دکھڑی بجالی، دکان اپنی جمالی روٹھی دنیا منالی رت جگے کی جگالی بروزِجمعہ آندھی کالی، سودی شریعت بنالی نہیں محترمہ سالی، زمزم جعلی گندی نالی حق بات لگتی ہے گالی، دین کی یہ رکھوالی؟ شریعت بیچ کے کھالی، زوردار ہوا نکالی دولت کمالی جھولی خالی، کس نے قسمت جگالی کس نے دُم دبالی، یہ کیاہے لااُبالی حلالہ پر نہیں ملالی؟ اپنے مرشد کی دعالی بگڑی قوم سدھالی ،علماء کی بلالی نویدِ انقلاب کی صبالی، گانانہیں قوالی تربت پہ بنکے سوالی، جان کی پڑی لالی جاہل نے خاک شفالی،رگ رگ دُکھالی تواپنی آنکھ چرالی، خطِ استوالی توصیف وشتالی، اُمت میں اعتدالی غزالی وابدالی، یہ جمالی وہ جلالی دوعالم کی جزاء لی، خونِ جگر کی ضیاء لی مردہ روح جِلالی، جذبہ خیرسگالی پاک پرچم ہلالی ،قیادت کی نقالی بہت بڑی دجالی!۔عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز