پوسٹ تلاش کریں

مغرب کیلئے قابلِ قبول اسلام کا درست معاشرتی تصور

مغرب کیلئے قابلِ قبول اسلام کا درست معاشرتی تصور اخبار: نوشتہ دیوار

rajam-sangsar-karna-women-harassment-zina-bil-jabr-minimize-jahangir-kot-lakhpat-jail-habil-qabil-shah-turab-ul-haq-qadri-phool-bari-aant-dawat-e-islami-pichkari

اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ لن ترضیٰ عنک الیہود و لا النصاریٰ حتی تتبع ملتھم’’یہود ونصاریٰ آپ سے کبھی بھی راضی نہ ہونگے یہاں تک کہ آپ ان کے دین کے تابع بن جائیں‘‘۔ قرآن رسول اللہﷺ کے دور میں نازل ہورہا تھا تو ایک ایک کرکے مسخ شدہ حکم کو اللہ تعالیٰ اپنی اصلی حالت میں زندہ کررہاتھا۔ مثلاً توراۃ میں بوڑھے اور بوڑھی کیلئے زنا پر رجم کرنے کا ذکر تھا اور یہودو نصاریٰ کی شریعت میں شادی شدہ کیلئے سنگساری اور غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انجیل میں کسی شرعی حد کا ذکر نہ تھا۔ سنگساری کے غیر فطری حکم سے بچنے کیلئے حضرت عیسیٰ نے یہ تجویز ی حکم دیا کہ ’’ جس نے خود زنانہ کیا ہو ، وہ پتھرماریگا‘‘۔ رسول ﷺ پر جب تک حکم نازل نہ ہوتا تھا تو اہل کتاب کے احکام پر عمل کرتے۔ جیسے بیت المقدس قبلہ اوّل تھا۔ یہود اپنے شرعی حدود پر عمل درآمد نہ کرتے تھے مگر اس خود ساختہ شریعت پر بضد بھی تھے۔ ایک آدمی کے بیٹے نے دوسرے کی بیوی سے زنا کیا اور بھیڑ بکریاں دینے پر فیصلہ کیا۔ پھر علماء نے اس کو بتایا کہ کنوارے بیٹے کی سزا 100کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے جبکہ اسکی بیوی کی سنگسار ہوگی۔ اسلئے رسول اللہ ﷺ کے پاس فیصلے کیلئے آگیا۔ نبیﷺ سے یہود ی عالم نے توراۃ میں رجم کا حکم چھپایا لیکن اسکی نشاندہی ہوئی تو اس پر عمل درآمد کیا گیا۔ جب مسلمان مرد اور عورت نے اپنے خلاف زنا کی گواہی دی تو آپﷺ ان کو پہلے ٹالتے رہے اور پھر سنگسار کرنے کا حکم دیدیا۔ احادیث کے واقعات یہی ہیں جبکہ مختلف روایات میں انکا مختلف انداز میں تذکرے کی وجہ سے زیادہ لگتے ہیں، ان سے ایک اہم سبق یہ ملتاہے کہ نبیﷺ نے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی فرق روا نہیں رکھا تھا اور مرد و عورت کے اوپر بھی یکساں طور پر حد نافذکی تھی۔
قرآن میں سورۂ النساء کے اندر خواتین کیساتھ نکاح کا بھی ذکر ہے اور متعہ و ایگریمنٹ کا بھی ذکر ہے۔ آیت:15 النساء میں بدکاری میں مبتلا عورت کو گھر میں نظر بند کرنے کا حکم ہے یہاں تک کہ موت سے مرجائیں یا اللہ ان کیلئے کوئی سبیل نکال دے۔ بدکار عورت پر گواہی کیلئے چار افراد کی گواہی بھی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ حکم ایسا ہے کہ دنیا کا کوئی معاشرہ بھی اسکی افادیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ ایک عورت خراب ہوجائے تو دنیا بھر کا گند وہاں جمع ہوجاتا ہے۔ مسلمان غیر مسلم اور مردو خواتین سب ہی اس برائی کو روکنے کے حق میں ہوتے ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ مرد اور عورت میں درجہ بندی کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا تو وہی لوگ یہ تحریک بھی چلاتے ہیں کہ خواتین کی ہراسمنٹ کے خلاف سخت قوانین بنائیں اور اس پرعمل بھی کرائیں۔ دونوں کا درجہ ایک ہے تو ہراسمنٹ کی چیخ وپکار کیوں؟۔
قرآن میں خواتین کو ہراساں کرنے والوں کو قتل کرنے کا حکم ہے اور حدیث میں گواہی کے بغیر جب خاتون کیساتھ جبری زیادتی کرنے کا نبیﷺ کو یقین ہوا تو زنا بالجر والے کو سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا۔ ابوداؤد شریف میں اسکا ذکر ہے لیکن بعض علماء ومفتیان نے اس میں بھی ڈنڈی ماری ۔ کتاب ’’موت کا منظر ‘‘ میں بھی زنا بالجبر کیلئے سنگساری کے حکم کا ذکر ہے۔ پرویزمشرف نے زنا بالجبر کو تعزیزات میں اسلئے شامل کرنے کی کوشش کی تھی کہ جو عورت شکایت لیکر تھانہ میں جاتی ،اسی کو چار گواہ نہ ہونے کی صورت میں قید کرلیا جاتا تھا۔ منیزے جہانگیر نے کوٹ لکھپت جیل میں ایسی خواتین سے ملاقات کی تھی جن کو شکایت کرنے پر قید کیا گیا تھا۔
زرداری کے دور میں یہ قانون بدل دیا گیا۔ سورہ النساء کی آیت16میں دو مردوں کو بدکاری پر اذیت دینے کی سزا کا حکم ہے، پھر جب وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو معاملہ رفع دفع کرنے کا ذکرہے۔ قرآن کے اس واضح حکم پر بھی فقہ کی کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ لواطت کا حکم واضح نہیں ، کسی نے آگ سے جلانا اور کسی نے پہاڑ سے گرانے کی سزا کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ مدارس اور معاشرے کا ہرطبقہ اس آسان حکم پر عمل کرسکتا ہے۔ قرآن کی طرف توجہ دینے کے بجائے ہمارا سارا زور فقہ اور علماء کے خرافات کی طرف ہوتا ہے۔ تفسیر عثمانی وغیرہ میں لکھاہے کہ ’’سورۂ بقرہ آیت:15میں بدکاری پر چار گواہ مقرر کرنے کے بعد گھر میں نظر بند کرنے کا حکم اسوقت تھا جب قرآن کی سورۂ نور میں زنا کا حکم نازل نہ ہواتھا اور غیرشادی کیلئے 100کوڑے اور سال بھر جلاوطنی اور شادی شدہ کیلئے سنگساری کا حکم نازل ہونے کے بعد گھر میں نظر بند کرنے کا حکم منسوخ ہوگیا‘‘۔ حالانکہ اس تفسیر کی کوئی گنجائش نہیں ۔1: قرآن میں سنگساری کا کوئی حکم نہیں ۔ 2: بخاری میں ہے کہ سورۂ نور کے بعد سنگساری پر عمل کرنے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیاتھا۔ 3:سورۂ النساء میں متعہ والی یا لونڈی سے شادی کے بعد کھلی فحاشی پر عام عورت کی بہ نسبت آدھی سزا کاحکم ہے جس کے ساتھ یہ وضاحت بھی ہے کہ پہلے لوگوں کیلئے بھی یہی سنت رائج رہی ہے اور یہ بھی کہ اللہ چاہتاہے کہ تم پر تخفیف کرے اسلئے کہ انسان کمزور ہے۔4:سورۂ النساء میں یہ وضاحت بھی ہے کہ اگر پہلوں کیلئے قتل انفس(سنگساری) یا جلاوطنی کی سزا کا حکم ہوتا تو اس پر عمل نہ کرتے لیکن بہت کم لوگ۔ جسکا مطلب سنگساری اور جلاوطنی کا حکم پہلے بھی اللہ نے نہیں دیا۔
سورۂ النساء کے بعد سورۂ المائدہ میں بڑی تفصیل ہے۔ 1: علماء و مشائخ کی طرف کتاب اللہ کی حفاظت کی نسبت ہے، پھر تھوڑے مول کے بدلے آیات کو بیچنے کی بات ہے اور اللہ کے حکم پر فیصلہ نہ کرنے والوں کو کافرقرار دیا گیا ہے۔ پھرجان کے بدلے جان ، آنکھ، ناک، دانت کے بدلے آنکھ، ناک، دانت اور زخموں کے بدلے کا ذکر ہے جو حکمرانوں سے متعلق ہے اور اللہ کے حکم پر فیصلہ نہ کرنے والوں کو ظالم قرار دیا گیا ہے۔ پھر اہل انجیل یعنی عوام کا ذکر ہے جن کو اللہ کے حکم پر فیصلہ نہ کرنے پر فاسق قرار دیا گیا ہے۔ علماء کے فیصلے سے شریعت بدل جاتی ہے اسلئے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے، حکمرانوں کے غلط فیصلے سے انصاف کا قتل ہوتا ہے اسلئے ان کو ظالم قرار دیا گیاہے اور عوام کوفاسق قرار دیا گیا ہے۔
2: سورۂ مائدہ میں یہ وضاحت ہے کہ یہود نے توراۃ میں تحریف کی ہے، ان کے پاس جو احکام محفوظ ہیں ان پر بھی عمل نہیں کرتے۔ محفوظ وہی احکام ہیں جن کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ توراۃ کے حوالے سے ہی حکمرانوں سے متعلق احکام کا ذکر قرآن میں کیا گیا۔ یہود نے بعض احکام میں ردوبدل سے تحریف کی ہے اور نبیﷺ سے کہاگیاہے کہ اگر آپ انکے درمیان فیصلہ نہ کریں تو یہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ہیں۔ جو قرآن میں ہے وہی محفوظ ہے اور اگر وہ فیصلہ کرانا چاہتے ہیں تو اپنی کتاب سے ہی کردیں۔ اگر وہ اپنی کتاب سے فیصلہ کرانا چاہیں تو آپ ان کی کتاب سے فیصلہ نہ کریں کیونکہ اس طرح یہ آپ کو بعض ان احکام سے فتنہ میں ڈال دینگے جو آپ پر نازل ہوئے ہیں۔ اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو اپنا سرپرست نہ بناؤ(فیصلے کااختیار مت دو)۔ جو ان کو (اپنے فیصلے کا اختیار دیکر) سرپرست بناتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ المائدہ میں مکمل تفصیل ہے، جو بہت سے حقائق سے پردہ اٹھانے کیلئے وانزلناالکتاب تبیاناً لکل شئی ہے۔
سورۂ النساء میں تفصیلی مضامین کا یہاں موقع نہیں ہے لیکن اس بات کیلئے یہ بھی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرہر آیت کا اپنی جگہ فصلت آیاتہ کہا ہے۔جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اپنی جگہ پر کوئی نقص نہیں رہ گیا ہے۔ اب آئیے ، اس بات کا ثبوت قرآن کریم کی ایک ایک آیت نے خود بھی دیا ہے۔البتہ قرآن کی بعض آیات بعض کیلئے تفسیر کی حیثیت بھی رکھتی ہیں اسلئے کہ ان میں تضاد نہیں۔
سورۂ النساء کی آیت 15 میں بدکارعورت پر چار گواہوں کی شہادت کے بعد گھر میں نظر بند کرنے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہ وہ مرجائے یا اللہ اسکے لئے کوئی سبیل پیدا کردے۔ اس حکم میں مارنے کا حکم نہیں ہے۔ البتہ خود مرجائے یا کوئی سبیل نکل آئے اللہ کی طرف سے۔ سبیل نکلنے کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ شادی ہوجائے اور دوسرا یہ کہ شادی کیلئے کوئی میسر نہ ہو تو متعہ یا ایگریمنٹ کی راہ نکل آئے۔ عورت کی نسوانی خواہش کا جائز راستہ فطری طور پر بند نہیں ہوسکتا تھا۔ کسی بدکار عورت سے مستقل نکاح کیلئے کوئی تیار نہ ہو تو قرآن وسنت میں متعہ کی راہ کا بھی ذکر ہے۔ اگلے رکوع میں محرمات کے بعد پانچویں پارہ کی ابتداء میں ہی اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے فماستمتعتم کیساتھ الی اجل مسمیٰ کا بھی اپنی تفسیر میں واضح کیا تھا۔یعنی جس نے متعہ کیا ایک مقررہ مدت تک۔ اہلسنت کی تفاسیر میں اس کو غلط طور سے قرأت کا نام دیا گیا۔ امام شافعیؒ کے نزدیک کوئی خبر واحد حدیث تو معتبر ہوسکتی ہے لیکن کسی شاذ قرأت کو ماننا قرآن میں تحریف ہے۔ احناف اس کو الگ آیت کے حکم میں لیتے ہیں جو غلط ہے۔ جسطرح جلالین وغیرہ کی تفاسیر میں اضافوں کو قرآن نہیں قرار دیاجاتا ہے ،اسی طرح سے صحابہ کرامؓ کی تفسیری اضافوں کو بھی اسی حد تک رہنا چاہیے۔
قرآن اور اسلام کا سب سے بڑا کمال یہ بھی ہے کہ غلام اور لونڈی کیلئے ایک تو مستقل نکاح کی وضاحت بھی کردی ہے اور دوسرے اس تعلق کو مالک ومملوک سے بدل کر ایگریمنٹ میں تبدیل کردیا تھا۔ ایک شخص نے ایک لاکھ روپے میں لونڈی خرید لی اور دوسرے نے کفارہ کے طور پر یا زکوٰۃ کی مد میں غلام آزاد کرنا ہو تو اس رقم میں وہ غلام یا لونڈی آزاد کرسکتا ہے۔ غلام اور لونڈی کی حیثیت معاہدہ کی رہ گئی تھی۔ غلام کا آزاد عورت اور لونڈی کا آزاد مرد سے نکاح بھی ہوسکتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر نبیﷺ نے ابوسفیانؓ وغیرہ کی بیگمات ، بیٹیوں اور بہنوں میں سے کسی کو بھی لونڈی نہیں بنایا البتہ متعہ کی اجازت دی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ یزید کے لشکر نے حضرت حسینؓ کے خانوادے کو کربلا میں شہید کیا مگر کسی کو لونڈی نہیں بنایا گیا۔ جزاء الاحسان الا الاحسان ’’ نیکی کا بدلہ صرف نیکی ہے‘‘۔
اللہ نے فرمایا’’ مشرکوں سے نکاح نہ کرو، مؤمن غلام مشرک سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں اچھا لگے، اور مؤمن لونڈی مشرکہ سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہتر لگے‘‘۔ البتہ اگر مشرک سے بھی نکاح کرلیا تو یہ حرامکاری نہیں ہوگی۔ فتح مکہ تک حضرت علیؓ کی ہمشیرہ ام ہانیؓ اپنے مشرک شوہر کیساتھ رہیں۔ اللہ و رسولﷺ نے آپؓ پر حرامکاری کا اطلاق نہیں کیا۔ کوئی بدکار عورت ہو تو اللہ نے یہ وضاحت کی کہ’’ زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا ہے مگر زانی یا مشرک سے اور مؤمنوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے‘‘۔ (سورۂ النور) جب کوئی عورت معاشرے میں بگاڑ کا ذریعہ بن رہی ہو تو اس کیلئے زانی جوڑی دار ہو یا مشرک بہرحال اسکے مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی بھی ترغیب ہے۔ یہ حکم بالکل عام طور سے فطری بھی ہے۔ معاشرے میں ایسے افراد کو ایک طرف کیا جانا چاہیے۔
اگر قرآنی احکام پر غور کیا جائے تو کوئی حکم ایسا نہیں، جس کو ناقابل عمل کہہ دیا جائے یا معاشرے میں معطل کرکے رکھا جائے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اس پر کبھی غور کیا نہیں ہے۔ اگر زنا کار مرد اور عورت کیلئے یکساں طور پر 100،100 کوڑے کی سزا مقرر ہوتی تو بدفعلی بھی رُک جاتی اور سزاؤں پر عمل بھی آسان ہوتا لیکن افسوس کہ مسلمان بھی پہلے امتوں کے نقشِ قدم پر ہوبہو چل کر بے عمل بنے ہیں۔ یہود ونصاریٰ ہمارے رسول اللہﷺ سے اسلئے راضی نہ ہوسکتے تھے کہ ان کے دین میں قرآن کے برعکس سنگساری کی سزا تھی اور ایک سال جلاوطنی کی بھی۔ قرآن نے ان کو مسترد کردیا تھا۔ آج حالات بالکل بدل گئے ہیں، اگر آج ہمارا نظام قرآن وسنت کے مطابق غیرفطری سزاؤں سے ہٹ کر بن جائے تو یہود اور نصاریٰ کیلئے قابلِ قبول ہوں گی لیکن ہم وہاں پر کھڑے ہوگئے ہیں جہاں کل وہ کھڑے تھے۔ عملی طور پر تو کچھ کرنا کرانا ہے نہیں بس کتابوں قرآن کے خلاف غیرفطری سزاؤں پر ایک غلط رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ جاہل علماء ومشائخ ہیں۔
قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا: عسیٰ ان یبعثک مقامًا محمودًا’’ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بعثت مقام محمود کردے‘‘۔ یہ دعا آذان کے بعد بھی پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نبیﷺ کو مقام محمودعطاء کرے۔ حامد کا معنی ہے تعریف کرنے والا۔ محمود کا معنی ہے جس کی تعریف کی جائے۔ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ معراج میں بھی نبیﷺ نے تمام انبیاء کرام کو نماز کی امامت کرائی تھی اور قیامت میں بھی آپﷺ کے ہی چرچے ہونگے تو اس دعا کا مقصد کیا ہے اور آیت میں کس بات کی نشاندہی ہے؟۔ جب دنیا میں وہ خلافت قائم ہوگی جس سے آسمان وزمین والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ یہ اسی دورمیں ہوگا کہ اپنے تو اپنے بلکہ دشمن اور نہ ماننے والے بھی آپﷺ کی تعریف کرینگے۔ دنیا میںیہی مقام محمود لگتا ہے اور اس کیلئے عملی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ جب اللہ نے روئے زمین پر اس خلافت کا وعدہ کیا تھا تو یہ بھی مقام محمود ہی ہے۔
ہر گلی کوچے کا ہر شخص آذان نہیں دے سکتا ہے، ایک مسجد میں ایک شخص نے ہی آذان دینی ہوتی ہے ،جس طرح حضرت سیدنا بلالؓ نے اپنے دور میں آذان دی البتہ اس آذان کیساتھ اس دعا اور تگ ودو میں ہر شخص خودکو شامل کرسکتاہے۔ قرآن میں بار بار بے حیائی، چھپی یاری اور فحاشی کی ممانعت ہے اور اس کی بہت زیادہ آبیاری بھی معاشرے میں ہورہی ہے۔ دنیا بھر میں نکاح اور کھلے عام جس ایگریمنٹ کا تصور موجود ہے اگر ایران کے متعہ اور سعودی عرب کے مسیار سے ہٹ کر ہم قرآن وسنت کی روشنی میں عالم اسلام اور عالم انسانیت کے مسائل حل کرنا شروع کریں تو دنیا اسلام کی طرف چل کر نہیں، دوڑ کر بھی نہیں اُڑ کر بھی نہیں بلکہ آن ایئر لائیو نشریات کی طرح آئے گی۔ راتوں رات ایک ایسا انقلاب برپا ہوگا جس کو دنیا کی کوئی طاقت روکنے کا سوچے گی بھی نہیں۔یہ خوشخبری بھی ہے۔
جنت بھی حضرت آدم علیہ السلام کیلئے بغیر حضرت حواء علیہا السلام کے سکون کا ذریعہ نہیں تھا۔ قابیل نے حضرت ہابیل کو قتل کرکے انسانیت میں ہوس اور قتل کا بیچ بودیا تھا۔ ایک نبی کے بیٹے سے بڑھ کر ولی اور عالم کے بیٹے بھی نہیں ہیں۔ صاحبزادگی اس وقت ٹھیک ہے جب وہ صلاحیت، کردار اور صفات کا مالک ہو۔ خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ نے خاندانی بنیادوں پر اقتدار پر قبضہ کئے رکھا۔ بادشاہوں کے علاوہ علماء اور صوفیاء کے خانوادوں نے بھی بے تاج بادشاہی کی ہے۔ قرآن اور عترت کی تلقین نبیﷺ نے حجۃ الوداع میں کی تھی۔امت مسلمہ کا صرف یہ مسئلہ نہیں رہاہے کہ عترت رسول کو چھوڑ رکھا تھا بلکہ قرآن سے بھی تمسک نہیں رہاہے۔ قرآن میں حدث اکبر کیلئے نہانے اور حدث اصغر کیلئے وضو کا ذکر ہے۔ انواع واقسام کے عجیب وغریب فرائض گھڑے گئے۔ جنکا نہ سر ہے نہ پیر۔ کراچی کے مشہور عالم دین علامہ شاہ تراب الحق قادریؒ نے روزے کیلئے مسئلہ بیان کیا تھا کہ’’ لیٹرین کرتے وقت آنت نکلتی ہے ۔ جس کو پھول کہتے ہیں۔ اس پھول کو دھویا جائے اور اندر جانے سے پہلے اس کو کپڑے سے سکھادیا جائے۔ اگر کپڑے سے سکھائے بغیر وہ پھول واپس اندر گیا تو روزہ ٹوٹ جائیگا۔ تکلف کرکے اس پھول کو باہر رکھنا ہے جب تک سکھایا نہ جائے‘‘۔ حالانکہ یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا ہے اور قرآن وسنت میں روزہ ٹوٹنے کی ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ اب دعوتِ اسلامی کے مفتیان نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے’’ کہ استنجے کیلئے کھل کر نہ بیٹھیں ورنہ مقعد کے ذریعے معدہ تک پانی پہنچ سکتا ہے اور روزہ ٹوٹ جائیگا، اسی طرح سانس لینے میں بھی احتیاط کی جائے۔ ورنہ اس سے بھی پانی معدہ میں مقعد کے راستے پہنچ کر روزہ ٹوٹ جائیگا‘‘۔
فقہ کا مسئلہ یہ تھا کہ اگر پچکاری کے پریشر سے پانی مقعد کے راستے پانی پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟۔ اگرچہ اب یہ ممکن ہوا ہے کہ الٹراساؤنڈ سے اس بات کو ثابت کرکے دکھایا جائے کہ پچکاری کے ذریعے بھی معدہ تک پانی پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جب کسی بیمار کو یہ نوبت پہنچے تو پچکاری کے ذریعے سترکھلنا بھی نہیں چاہیے، اللہ تعالیٰ نے مریض کیلئے روزہ معاف کرکے کہا ہے کہ کسی اور دنوں میں رکھا جائے ، اللہ تعالیٰ تمہارے آسانی چاہتا ہے اور مشکل نہیں چاہتاہے جو اللہ کی بات کو نہ سمجھے اور خود کو گولی کھانے کے بجائے پچکاری کیلئے مجبور کرے تو اس گدھے کو حقائق سے آگاہ کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
فقہ کی کتابوں میں کتاب الطہارت سے لیکر کتاب الصلوٰۃ، کتاب النکاح، کتاب الطلاق ، کتاب البیوع اور کتاب الحدود تک ایک ایک چیز میں اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا گیا ۔ جہری نمازوں میں سورتوں سے پہلے بسم اللہ تک نہیں پڑھی جاتی ہے۔ احادیث کی کتابوں میں رفع الیدین کی بہت کثرت کے باوجود اس پر عمل کرنے کو گمراہی سمجھا جاتا ہے۔ قرآن ، احادیث اور فقہ کسی چیز کی بھی درحقیقت کوئی سمجھ نہیں رکھتے ہیں۔ بس اندھوں کی بھیڑ چال چل رہی ہے۔
دنیا میں نکاح کا قانون موجود ہے لیکن اس میں اتنی سختی ہے کہ مغرب والے نکاح سے زیادہ گرل وبوائے فرینڈ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے برعکس نکاح و طلاق کا تصور اتنا بھیانک بنادیا گیا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک، مذہب اور معاشرہ اس گھناونے تصورات کو قبول کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ جس دن قرآن وسنت میں واضح کردہ نکاح و طلاق کے قوانین سامنے آگئے تو مسلمان ہی نہیں دنیا کا ہر مذہب اور ملک اسی کو اپنے ہاں رائج کردیگا۔
نکاح کیلئے حق مہر کا تصور ہے۔ غریب وامیر اپنی اپنی استعداد کے مطابق ہی اس کو عملی جامہ پہناسکتے ہیں۔ ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی تو مقرر کردہ حق مہر کا نصف دینا ہوگا۔ اور اگر حق مہر مقرر نہ کیا ہو تو غریب اپنی وسعت کے مطابق اور امیر اپنی وسعت کے مطابق دیگا اور باہمی رضامندی سے ایکدوسرے سے بھلائی بھی کی جاسکتی ہے بلکہ اللہ نے فرمایا کہ آپس میں بھلائی کو مت بھولو۔اس سے یہ واضح ہے کہ ہاتھ لگانے کے بعد پورے کا پورا حق مہر فرض بن جاتا ہے۔ کوئی بہت ہی کم عقل یا ڈھیٹ قسم کا مولوی اس بات کا انکار کرسکتا ہے۔ اگر اتنی سی بات کو دنیا پر واضح کردیں اور مسلمان اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو خواتین کے حقوق کو بہت بڑی بنیاد مل جائے گی جو قرآن نے بہر صورت واضح بھی کی ہے۔
حق مہر کی مقرر کردہ مقدار کا قانون متعارف ہوجائے تو دنیا میں گرل فرینڈ رکھنے کا تصور کافی حد تک ختم ہوجائیگا۔ امریکہ وغیرہ میں طلاق مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے آدھی جائیداد سے محروم ہونا پڑتا ہے اسلئے لوگ نکاح کو ترجیحات میں نہیں رکھ سکتے ہیں۔ ایک انتہاء یہ ہوتی ہے کہ نکاح کی صورت میں آدھی جائیداد جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور دوسری انتہاء یہ ہوتی ہے کہ لڑکی سے ہر قسم کے مراسم اور فائدے اُٹھانے کے باوجودکوئی چیز بھی نہ دی جائے تو اسکا حق نہیں سمجھا جاتا ہے۔ پھر نکاح کی دلدل میں کون خود کو پھنسائے گا؟۔ جبکہ اسلام نے نکاح کے علاوہ استمتاع کی صورت میں بھی معاوضہ دینے کا پابند بنایاہے۔
نکاح کی صورت میں عورت خلع لے یا مرد طلاق دے، دونوں صورتوں میں ذمہ داری مرد پر پڑتی ہے۔ حق مہر تو عورت ہی کا حق بہر صورت ہوتا ہے لیکن خلع کی صورت میں گھر بار اور جائیداد چھوڑ کر عورت کو نکلنا پڑتا ہے۔ طلاق کی صورت میں عورت کو مکان ، جائیداد اور کسی بھی چیز سے بے دخل نہیں کرسکتے ہیں چاہے اس کو حق مہر کے بہت سے خزانے کیوں نہیں دئیے ہوں۔ سورہ النساء آیت :19 میں خلع کی وضاحت ہے اور آیت:20،21میں طلاق کی وضاحت ہے۔خلع میں بھی دی ہوئی چیزوں میں سے بعض چیزوں کو بھی ساتھ لیجانے سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب پائی جائے۔ الزام تراشی سے منع کیا گیا ہے اور لُعان کے بغیر اس کو حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
الزام کی بنیاد پر بیوی کے قتل کا معاملہ پہلے بھی عام تھا۔اسلام نے توچشم دید گواہی پر بھی قتل کی اجازت روا نہیں رکھی۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ میں لعان نہیں کروں گا بلکہ قتل کروں گا۔ نبیﷺ نے انصارؓ سے کہاکہ یہ تمہارا صاحب کیا کہتاہے؟۔ انصارؓ نے عرض کیا کہ اس سے در گزر کیجئے،یہ بڑی غیرت والا ہے، اس نے طلاق شدہ و بیوہ سے کبھی شادی نہیں کی، جسے طلاق دی اس کو کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں، اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔ (بخاری) نبیﷺ نے سچ فرمایا تھا اسلئے کہ بیوی تو دور کی بات ہے ،اپنی لونڈی ماریہ قبطیہؓ کیساتھ اسکے ایک ہم زباں پر شک گزرا تھا تو حضرت علیؓ سے کہا کہ اسے قتل کردو۔حضرت علیؓؓ حکم کی تعمیل کیلئے گئے اور اس کو ایک کنویں میں نہاتا ہوا پایا، جب اس کو باہر نکالا تو وہ مقطوع الذکر تھا جس پر اس کو چھوڑ بھی دیا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم دیا کہ آپ ﷺ کی ازواج سے کبھی نکاح نہ کریں اس سے آپ کو اذیت ہوتی ہے۔
لے پالک کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کو معاشرے میں حرام سمجھا جاتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا نکاح کرادیا تاکہ آئندہ مؤمنوں کو اس میں مشکل نہ ہو کسی رسم ورایت کو توڑنا بہت بڑی قربانی ہے۔ رسول اللہﷺ کا درجہ بہت بلند ان روحانی آزمائشوں کی وجہ سے تھا۔ یو ٹیوب کی جس گستاخانہ فلم کی وجہ سے شور مچا تھا، اس میں سورۂ تحریم کے قصے کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ آج بھی انواع واقسام کی اذیتناک باتیں سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ یہ سلسلہ حمد وتعریف میں اس وقت ہی بدل سکتا ہے جب اسلام کا درست چہرہ عوام کے سامنے لایا جائے۔ دین ابراہیم ؑ سب کے نزدیک محترم ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت سارا ؑ کی وجہ سے لونڈی حضرت حاجرہ ؑ کو مکہ کے وادی غیر ذی زرع میں اللہ کے حکم سے چھوڑ دیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہؓ کے حجرے میں حضرت ماریہ قبطیہؓ کیساتھ مباشرت کی تو حضرت حفصہؓ نے شدید شورواحتجاج کیا کہ مجھے کمتر سمجھا گیا۔ جس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ چپ کرو، بس حضرت عائشہؓ سے بات چھپاؤ، میں نے اسے اپنے اوپر حرام کردیا ۔ حضرت حفصہؓ نے اس کو خوشخبری اور اپنی جیت سمجھ کر حضرت عائشہؓ کو بتادیا۔ انہوں نے مل کر ایک چال چلی اور دیگر ازواجؓ سے کہا کہ جسکے پاس نبیﷺ تشریف لائیں تو کہنا کہ منہ سے برگد کی بوآرہی ہے۔اس بات کو متعدد مرتبہ دوسری ازواجؓ نے دھرایا جسکے جواب میں نبیﷺ کہتے رہے کہ میں نے شہید کھایا ہے تو پھر وہ کہتیں کہ مکھیوں نے برگد گھایا ہوگا۔ بالآخر اس مآجرے کے نتیجے میں نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر شہد حرام ہے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ نے سمجھا کہ ہم نے اس لڑائی میں نبیﷺ کو شکست سے دوچار کردیا ہے۔ اس پر سورۂ تحریم نازل ہوئی ۔ نبیﷺ سے فرمایا گیاکہ اپنی بیگمات کی رضا کیلئے اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو اسے جسے اللہ نے آپ کیلئے حلال کیا ہے۔ یہ دونوں خواتین نبیﷺ پر غالب نہیں آسکتیں۔ اگر یہ توبہ نہ کرلیں تو اللہ ان سے بہتر ازواج بھی نبیﷺ کو دے سکتاہے جن میں کنواری و غیرکنواری کوئی بھی ہوسکتی ہے۔ حضرت لوط ؑ اورحضرت نوحؑ کی بیگمات کافر تھیں اور حضرت مریمؑ و فرعون کی بیگم مؤمنہ تھیں۔ سورۂ تحریم میں حکم ہے جاہدالکفار و المنافقین واغلظ علیھم ’’ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرو اور ان پر سختی کرو‘‘ ۔ یہ بھی معلوم ہے کہ انبیاء ؑ حضرت نوح ؑ ولوطؑ نے اپنی کافر ومنافق بیگمات پر کس قسم کی سختی کی اور فرعون کی بیگمؓ و حضرت مریمؓ نے کس قسم کا جہاد کیا تھا۔ بارود سے اڑا دیا ، گلہ گھونٹ دیا ، زہر دیا ؟۔ یہ صرف مسلمانوں کو اعتدال کی راہ دکھانی تھی۔
حضرت نوح ؑ کوساڑھے نوسوسال تک کافروں کے پتھر کھانے پڑے۔جبکہ طائف میں نبیﷺ کو بھی پتھر مارے گئے۔ طائف کے میدان سے زیادہ سخت آزمائش نبیﷺ پر حضرت عائشہؓ کے بہتان کے حوالے سے تھی۔ ایک غیرتمند انسان کو ایسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑے تو اس سے بڑا امتحان نہیں ہوسکتاہے۔ اس اذیت کی وجہ سے نبیﷺ کی شان کا اندازہ لگایا جاسکتاہے، عالم انسانیت کو قرآن وسنت کا درست ادراک ہوجائے تو خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام سے سب اتفاق کرینگے۔ حضرت ابراہیمؑ کے دور میں ممکن نہیں تھا کہ بیوی کسی لونڈی کو برابر سمجھے۔ نبیﷺ کی وجہ سے دنیا کو اللہ نے لونڈی وغلامی کے نظام سے ہی نجات دلانی تھی ،اسلئے قرآن میں وضاحت ہے کہ یہ اہل فرعون کا وظیفہ تھا جوبنی اسرائیل کو سخت آزمائش میں مبتلا کرتے تھے۔اللہ نے انسانیت کو عروج وکمال کا آخری درجہ عطاء کرنا تھا۔ معراج اس کا مشاہدہ تھا۔ عالمی خلافت اسکامنبع تھا۔
رسول اللہﷺ کو حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے والوں نے کس قدر اذیت دی تھی؟۔اس کی سزا کیا تھی؟، ایک عام غریب و بے بس خاتون پر بہتان لگانے کی سزا بھی وہی 80کوڑے ہے۔ یہ مساوات انسانی کا کمال ہے۔ اسلام کے نظام انصاف ومساوات اور شریعت کو ایسا شخص لیڈ نہیں کرسکتا ہے جسکا اپنا خمیرہی اسٹیٹس کو سے ملوث ہو۔ سیاستدانو! کروڑوں اربوں میں ہتک عزت کا دعویٰ کرو لیکن انسان کی عزت برائے فروخت ہے اور نہ اسکا کوئی مول ہوتاہے۔ سورہ نور میں چار گواہ کا ذکر فحاشی کے ثبوت کیلئے نہیں بلکہ پاکدامن خواتین پر بہتان سے روکنے اور سزا دینے کیلئے ہیں۔ کسی معاشرے میں بہتان لگانے والے کیلئے یہ ممکن نہیں کہ کسی شریف خاتون پر چار گواہ لاسکے۔علماء اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی مت ماری گئی ہے۔ اسلام کو اجنبیت میں دھکیلنے والا فقہ بیان کیا جاتاہے لیکن نظام کے حوالے سے حقائق سامنے نہیں لائے جاتے ہیں۔ سورۂ نور میں اللہ نے افواہ پھیلانے والے گروہ کو بہت اچھے انداز میں تنبیہ فرمائی اور یہاں تک کہا کہ ’’اس بہتان عظیم کو اپنے لئے شر نہ سمجھو بلکہ اس میں تمہارے خیر ہے‘‘۔ ان قرآنی آیات پر قربان ہوجائیے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے بہتان میں شریک مسطحؓ پر احسان نہ کرنے کی قسم کھائی تواللہ نے فرمایا کہ ’’مؤمنوں کیلئے مناسب نہیں جب وہ مالدار ہوں کہ کسی پر احسان نہ کرنے کی قسم کھائیں‘‘۔ اسلام جس سپرٹ سے دنیا میں نازل ہوا تھا ،قرآن نبی ﷺ کااسوۂ حسنہ ہے۔
دنیا کو پتہ چلے کہ اسلام کا نظام معاشرت، نظام معیشت اورنظام حکومت ہی سب سے بہترین ہے تو قابل ترین لوگ قرآن وسنت کی طرف توجہ کرینگے۔ جس مذہبی طبقہ نے اسلام کو صرف اپنے کاروبار اور پیشے تک اسلام کو محدود کرکے رکھا ہے اس کی بھی آنکھیں کھل جائیں گی۔جن علماء ومشائخ میں خلوص ہے مگر سمجھ کی نعمت سے محروم ہیں جب ان کو نظر آئیگاکہ سورۂ جمعہ کی پیش گوئی کے مطابق آخر ی جماعت اہل فارس کی امامت میں حقائق سے پردہ اٹھارہی ہے۔ علم،ایمان اور دین کو ثریا سے واپس لایا جارہاہے تو وہ بلاامتیاز مسلک وفرقہ حق کی حمایت کریں گے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع کے علماء اور دانشور عرصہ سے اس جماعت کی حمایت کررہے ہیں۔ ٹانک کے تمام معروف دیوبندی علماء کرام نے تحریری اور تقریری حمایت سے نوازا تھا جن میں مولانا فتح خانؒ نائب صوبائی امیر وضلعی سرپرست جمعیت علماء اسلام (ف) ، مولانا عبدالرؤفؒ گل امام ضلعی امیر جے یو آئی (ف) مولانا عصام الدین محسودؒ ضلعی جنرل سیکرٹری جے یوآئی (ف) مولانا غلام محمدؒ ضلعی امیر ختم نبوت،مولانا قاری محمد حسن شکوی شہیدؒ خطیب گودام مسجد، مولانا شیخ محمد شفیع ضلعی امیر جمعیت علماء اسلام (س) وغیرہ شامل تھے۔
اسکے باوجود طالبان دہشت گردوں نے علماء کرام کی حمایت کا خیال بھی نہیں رکھا تھا۔ پروفیسرغفور، ڈاکٹر اسرار ، مولانا نورانی ،علامہ طالب جوہری، مولاناشاہ فریدالحق،مولانا عبدالرحمن سلفی کے علاوہ ملک بھر سے تمام مذہبی فرقوں ومسالک اور شخصیات کی طرف سے تائیدات کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا۔ اتحادالعلماء کراچی کے صدر مولانا عبدالرؤف،جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا عبد الکریم بیرشریف، تربت کے مولانا عبدالحق بلوچ امیر جماعت اسلامی بلوچستان اور کشمیر سے کوئٹہ اور پشاور سے کراچی تک ہرمکتبۂ فکر کے افراد اس میں شامل تھے لیکن اسکے باوجود مسلکوں اور فرقوں کے خوگروں نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا، ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ فرقہ واریت کو ختم کرنے میں بنیادی کردار اسی جماعت کا ہے اور اب بھی امید کی یہ ایک ایسی کرن ہے جس سے جاہلیت کے تمام اندھیروں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ مساجد ومدارس کے ارباب اہتمام ومساجد کو توجہ دینی ہوگی۔
حضرت مولانا حسام اللہ شریفی مدظلہ دارلعلوم دیوبند کے مولانا رسول خانؒ و علامہ سید سلیمان ندویؒ کے بھی شاگرد رہے ہیں۔ مولانا رسول خان کا تعلق ہزارہ سے تھا اور وہ مولانا قاری طیب ؒ دارلعلوم دیوبند کے مہتمم کے بھی استاذ رہے ہیں ، مولانا احمد علی لاہوریؒ نے مولانا حسام اللہ شریفی کو سوالات کے جواب دینے کی اجازت دی تھی۔برصغیر میں دار العلوم دیوبند کے سب سے بڑے اور مستند عالم دین کا اعزاز اس دور میں حضرت شریفی صاحب مدظلہ العالی کو حاصل ہے۔ آپ شریعت کورٹ و سپریم کورٹ کے مشیراور رابطہ عالم اسلامی کے رکن ہیں۔ عتیق

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز