پوسٹ تلاش کریں

مولانا سمیع الحق اور ایس پی طاہر خان داوڑ کی شہادت

مولانا سمیع الحق اور ایس پی طاہر خان داوڑ کی شہادت اخبار: نوشتہ دیوار

فرعون کی قبطی قوم نے حضرت موسیٰؑ کی قوم کو غلام بنایا۔ حضرت موسیٰؑ کا قوم کیلئے ہمدردی اور محبت کا جذبہ فطری تھا مگر اپنی قوم کے جھگڑالو کا ناجائز ساتھ اور مخالف کو قتل کردیا تواس سانحہ سے نبوت اور معجزات ملنے کے بعدبھی وہ خوف کو دل سے نہ نکال سکے ۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ میرے رسولوں میں سے کوئی نہیں ڈرتا مگر جوظلم کا مرتکب ہوا ہو‘‘۔ حضرت موسیٰؑ علم لدنی کی تلاش میں حضرت خضر کے پاس اللہ کی رہنمائی سے پہنچے ۔ حضرت خضر نے اپنی صحبت کیلئے شرط رکھ دی کہ وہ کسی معاملے پر سوال نہیں اٹھائیں گے جو حضرت موسیٰ نے قبول کرلی۔ پھر یکے بعد دیگرے واقعات ہوئے اور جب ایک معصوم کی جان لے لی تو اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خاموشی اختیار کرنے کے بجائے جدائی کے یقین کے باوجود سوال اٹھادیا۔ جسکے بعد ظاہری وباطنی خلافت کی راہیں جدا جدا ہوگئیں اور قرآن کے یہ واقعات ہمارے لئے بڑے سبق آموز ہیں۔اقبال نے کہا کہ
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہشیارباش
ابوبکرؓ و علیؓ میں مسئلہ خلافت پر اختلاف تھا۔علامہ اقبالؒ نے اُمت کو خبردار کیا کہ تم ظاہری وباطنی خلافت کا راز نہیں سمجھتے، اکابرصحابہؓ کے نام پر فرقہ واریت کا شکار ہونے کے بجائے حقائق سمجھو، ابوبکرؓ اور علیؓ دونوں ظاہری وباطنی خلیفہ تھے۔
عثمانؓ ظاہری وباطنی خلافت، ذی النورین 2نوروں والے تھے جو فتنہ وفساد میں شہیدہوگئے ۔ انصارؓ کے سردارسعدبن عبادہؓ کا خلافت کے مسئلے پر مہاجر صحابہؓ سے شدید اختلاف تھا،یہانتک کہ ابوبکرؓ و عمرؓ کے پیچھے نماز بھی نہ پڑھتے۔ جنات کے ہاتھوں قتل ہوئے، عدم اعتماد نے فساد کی آگ پکڑلی، جنگ صفین و جمل میں ہزاروں موت کے گھاٹ اُترگئے۔ عشرہ مبشرہ میں شامل طلحہؓ و زبیرؓ نے بھی ان جنگوں میں حصہ لیا ۔نبیﷺ کے تربیت یافتہ صحابہؓ سے نبیﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ ’ ’ مجھ سے پہلے تمام انبیاءؓ نے دجال کے فتنے سے اپنی قوموں کو ڈرایا، اسکی ایک آنکھ کانی اور دوسری انگور کے دانے کی طرح ہوگی، اگر تم اسے نہ پہچان سکو تو اللہ تعالیٰ اس دجال کو جانتا ہے۔ خبردار!، مسلمانوں کا خون ، مسلمانوں کی عزتیں اور مسلمانوں کا مال ایک دوسرے کیلئے ایسی حرمت والے ہیں ،جیسے حج کے اس مہینے میں اس شہر مکہ کے اندر اس دن ’’یومِ عرفہ‘‘ کی حرمت ہے۔ خبردار میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ (بخاری)
ایک قتل ناحق کا ارتکاب اس وقت کے خفیہ والوں یا جنات نے کیا ، بہرحال پھر تختِ خلافت پر حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ شہید کردئیے گئے۔ تربیت یافتہ صحابہؓ نے آخری خطبے کا پاس نہ رکھا اور ایکدوسرے سے فتنہ وفساد میں مبتلا ہوگئے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ خراسان سے دجال نکلے گا، اسکا اتباع وہ اقوام کرینگی جنکے چہرے ڈھال کی طرح گول اور ہتھوڑے کی طرح لمبوترے ہونگے‘‘۔ طالبان کی شکل میں پٹھان و ازبک نے دجالی لشکر کا کردار ادا کیا۔ جس طرح ہتھوڑے جیسے لمبوترے اور ڈھال جیسے گول چہرے بطور مذمت بیان ہوئے ہیں اسی طرح سے انگور جیسے ابھری ہوئی آنکھ بھی بطور مذمت ہی بیان ہوئی ہے۔ حدیث میں سب سے بڑی اور بنیادی بات یہ ہے کہ لوگ دجال کے اس واضح کردار کے باوجود کہ مسلمانوں کی جان ومال اور عزتوں کی حرمتوں کو ختم کردیا گیا لیکن مسلمان قوم دجال سے بالکل بے خبر اور لاعلم رہے گی۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ افغانستان کا جہاد امریکی سی آئی اے کا کرشمہ تھا۔ طالبان بھی ملاعمرمجاہدؒ کی قیادت میں امریکہ نے بنائے، طالبان کی قیادت جنگ کے بعد سے آج تک امریکہ کیساتھ رابطے میں ہے۔امریکہ نے اسامہ اور ملاعمر کے نام پر مسلم دنیا کو تباہ کیا، ہرملک وقوم اور فرقے کے نام پر مسلمانوں نے مسلمانوں کی جانوں کی حرمت ختم کردی لیکن اللہ تعالیٰ ہی دجال کو جانتاہے ، ہم بے خبر رہے۔
ظاہری وباطنی خلافت کے سزاوار ہم ہیں؟۔ روز روز قتلِ ناحق پر قوم کی سٹی گم ہوجاتی ہے۔ پاکستان نے عرصہ تک قتل وغارتگری کا تماشا دیکھا اور اب بھی ضروری نہیں کہ حالات پر قابو پاسکے۔ لسانیت کے بھڑکتے شعلوں نے کراچی کو تباہ کیا، طالبان کی دہشتگردی نے ناکامی کا ٹھپہ لگایا، ڈرون حملوں نے ریاست کی ناک کاٹی۔ تباہی وبربادی اورقتل و غارتگری کے گرم بازار میں ریاستی عناصر کو بری الذمہ کہنا غلط ہے لیکن اللہ کے فضل اور جنرل راحیل کی جرأت سے ممکن ہوسکا کہ عوام بالعموم اور قبائلی بالخصوص چین وسکون سے زندگی گزارنے کے قابل بنے۔ مولانا سمیع الحق اور ایس پی داوڑ کے اسلام آباد سے اغواء کے بعد شہادت نے ایک نیا واویلہ کھڑا کیا ،جس پر مختلف رنگ وروغن چڑھائے جارہے ہیں۔
ایس پی طاہر خان داوڑ پر پہلے بھی خود کش حملے ہوچکے ۔دارالخلافہ اسلام آباد سے اغواء کے بعد حکومت اور ریاست کی بے حسی،غفلت اور نااہلی کو سازش کانام دینا غلط ہے تو اسکی ذمہ داری افغانستان و PTMپر ڈالنے کی کوشش بھی بھونڈی حرکت ہے۔ افغانستان نے لاش سپرد کرنے میں دیر اسلئے لگادی کہ پوسٹ مارٹم اور شناخت اس کی ذمہ داری تھی مگر حکومت کے بجائے اس کی لاش کو پی ٹی ایم کے محسن داوڑ کے حوالے کرنے کے پیچھے امریکی مشاورت کا شاخسانہ ہوسکتا ہے لیکن چلو شمالی وزیرستان سے محسن داوڑ نہ صرف عوام کا نمائندہ تھا بلکہ قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے پارلیمنٹ کا بھی نمائندہ تھا۔سازش ناکام بنائی جائے۔
عمران خان نے طاہر داوڑکے اغواء کے بعد ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا اسلئے اگر وزیرداخلہ کے عہدے سے استعفیٰ دیتا تو اچھا تھا۔ وزیراعظم کے ترجمان افتخار درانی نے انتہائی بے حسی اور غیر ذمہ داری کی مثال قائم کی۔ اغواء کے بعد وائس آف امریکہ سے کہا کہ میں ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ اغواء کی خبر میں کوئی صداقت نہیں ، محسن داوڑ پشاور میں بحفاظت موجود ہیں۔ جس کی شاہ زیب خانزادہ نے اپنے پروگرام میں خوب خبر لی۔ لیکن اس بے حس مخلوق کی بے حسی کا یہ نتیجہ نکالنا بھی درست نہیں کہ اسکے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ تاہم جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ یہ ظاہر ہے کہ اس قتل کے پاکستان اور افغانستان میں سہولت کار موجود ہیں۔ امجد شعیب نے اسکا تعلق امریکہ اور پی ٹی ایم کیساتھ جوڑ دیا۔ جبکہ زید حامد نے جذباتی انداز میں کہا کہ’’ اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور پی ٹی ایم کے منظور پشتین، محسن داوڑ، علی وزیر اور افغانستان کو سبق سکھایا جائے لیکن چین سے ہم نے بھیک مانگنا ہے اسلئے چین کو اسکے مظالم کا بدلہ نہ دیاجائے‘‘۔ گویا میڈیاکے خلوص یا کم عقلی نے پختون قوم اور پاکستانی ریاست کے درمیان طبلِ جنگ کا پورا اہتمام کرنے کی کوشش کی اور افغانستان کی طرح پاکستان کا حال خراب کرنا چاہا، جو امریکی خواہش ہے۔
اگر PTMکی قیادت ہماری بات مان لیتی اور اس کو مظلوم تحفظ موومنٹ کا نام دیتی تو جعلی مینڈیٹ کے ذریعے تحریک انصاف نہیں اصلی مینڈیٹ سے منظور پشتین اقتدار میں آتا۔ بلوچ، سندھی، پنجابی، سرائیکی اور ہزارے وال سب ہی قومی دھارے میں ایک نئی روح پھونکنے کیلئے اس تحریک کا حصہ بنتے مگر……۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟