پوسٹ تلاش کریں

حسینؓ کو شہید کرنے پر اسلام کو اتنا نقصان نہ پہنچا جتنا شافعی و مالک بے نمازی کو قتل پر پہنچاتے۔

حسینؓ کو شہید کرنے پر اسلام کو اتنا نقصان نہ پہنچا جتنا شافعی و مالک بے نمازی کو قتل پر پہنچاتے۔ اخبار: نوشتہ دیوار

اُمت مسلمہ کو امام مالکؒ اور امام شافعیؒ سے بڑی عقیدت ہے جنہوں نے اسلام کی خاطر بر سر اقتدار طبقے کے ہاتھوں بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔ یزید سے کسی کو عقیدت نہیں جس نے اقتدار کے مزے اڑا کر کربلا کے میدان میں امام حسینؓ اور انکے ساتھیوں پر مظالم ڈھائے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک بے نمازی کو واجب القتل قرار دیا گیا ۔ اگر وہ اللہ والے لوگ برسر اقتدار ہوتے اور بے نمازی کو قتل کی سزا دیتے تو آج دنیا میں اسلام کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے حکمران جیسے بھی تھے لیکن شکر ہے کہ مولوی نہ تھے۔ سقوط بغداد کے وقت شدت پسند مذہبی طبقے سے اگر اقتدار چھین لیا جاتا تو ترک حکمران کبھی مسلمان بن کر خلافت عثمانیہ کے نام سے مسلمانوں کا اقتدار قائم نہ کرتے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے مذہبی طبقات علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر قرار دیتے تھے یا ان کی قیادت میں ہی پاکستان کے قیام کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔ علماء و مفتیان کے خلوص اور ایمانی جدوجہد میں کوئی شک نہیں۔ فقہ کے ائمہ مجتہدینؒ سے لیکر موجودہ دور کے علماء تک سے ہمیں بہت ہمدردی اور عقیدت و محبت ہے۔ان کی وجہ سے دین کاڈھانچہ محفوظ ہے۔ دوسرے طبقوں سے مذہبی لوگوں کا کردار بہترہے۔ اہل کتاب دوسروں کے مقابلہ میں بہترہیں اللہ نے عیسائیوں کو مذہبی طبقہ کی وجہ سے محبت میں اہل ایمان کے قریب قرار دیاتھا۔

عقیدت اورشعور سے امت کو عروج کی منزل ملے گی

اُمت کو شعور اور عقیدت سے مالامال کرنا ضروری ہے۔ مسلم امہ کے دلوں کو اسلاف کی عقیدت سے اور ذہنوں کو شعور کی روشنی سے جلا بخشیں گے تو اُمت زوال سے عروج کی منزل پر جا پہنچے گی۔ شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہلحدیث، جماعت اسلامی پرویزی ، حزب اللہ ، جماعت المسلمین ، اسماعیلی آغا خانی ، داؤدی بوہرہ ، ذکری اور انواع و اقسام کے فرقے ، جماعتیں اور تنظیمیں ہیں۔ انکے اختلاف ختم کرنے میں وقت نہ لگے گا۔ اسلام ایک بڑی شاہراہ صراط مستقیم ہے۔ پگڈنڈیوں اور بھول بھلیوں میں پھنسے لوگ اسلام کے دعویدار ہیں اور سورۂ فاتحہ میں اللہ نے صراط مستقیم پر چلنے کی دعا سکھائی ہے اور قرآن کی سورۂ فاتحہ کے بعد اللہ نے فرمایا : المOذٰلک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقینO ’’یہ وہ کتاب ہے ، جس میں شک نہیں ، رہنمائی کا ذریعہ ہے پرہیزگاروں کیلئے۔ ‘‘
مسلم امہ کا بڑا المیہ یہ ہے کہ جو پرہیزگار ہیں وہ قرآن کی طرف نہیں دیکھتے اور جو قرآن کی طرف دیکھتے ہیں وہ پرہیزگار نہیں ۔ عقیدہ انسان کے قلبی وجدان کی عقیدت سے بنتا ہے اور نظریہ ذہنی کاوش اور فکر و شعور سے بنتا ہے۔ قرآن قلبی وجدان کو عقیدت سے مالامال کرنے کا ذریعہ ہے اور ذہنی نشو و نما اور فکر و شعور کو جلا بخشنے کا بہت بڑا خزانہ ہے۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاسؒ نے فرمایا: ’’اس کام کی پرواز کے دو پر ہیں ، علم اور ذکر‘‘۔ علم فکر کی درستگی اور ذکر قلبی وجدان ہے۔ علماء و صوفیاء اپنے علم و ذکر کی محفل میں مست کہتے تھے کہ ’’ہماری مثال کنویں کی مانند ہے، پیاسے کو مدرسے اور خانقاہ میں چل کر آنا پڑیگا۔‘‘ تو مولانا الیاسؒ نے فرمایا:’’ ہم اس انتظار میں رہنے کے بجائے تبلیغی کام کے ذریعے سے بادل کی طرح برس جائیں تو دنیا نبوت والے اس کام کی وجہ سے روشن ہوجائے گی‘‘۔
مولانا الیاسؒ نے جس درد ، محنت اور کڑھن سے اللہ کے دین کو پہنچایا ، بڑی تعداد میں جماعتیں نکل کر دنیا کے کونے کونے میں اس پیغام کو عام کررہی ہیں اس کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ چھ نمبر سے عوام اپنی عقیدت اور فکر کو درست کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں۔ اپنا وقت اپنی جان اور اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرکے بہت کچھ دین کی نعمتیں پالیتے ہیں۔ اس محنت اور جذبے کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین کیلئے یہی فکر و عقیدت ، یہی جذبہ و عمل اور یہی عقیدہ و شعور بہت اور کافی ہے؟۔
مدارس کے علماء کے سرخیل علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کے علم و تقویٰ سے مشکل ہے کہ کوئی عقیدت نہ رکھتا ہو، جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی، مدرسے اور نیو ٹاؤن کی مسجد سے نور کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ اساتذہ کرام اور طلباء حضرات تقویٰ و عمل کے پیکر نظر آتے ہیں۔ مولانا بنوریؒ کے پاس ایک سرمایہ دار مال کا انبار لیکر آیا اور عرض کیا کہ یہ تجھے ہدیہ کرتا ہوں، مولانا نے فرمایا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس نے درس کے دوران جوتوں میں وہ رقم رکھ دی ، مولانا نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ میں نے خود پر ہدیہ کو بھی حرام کردیاہے، کیوں تنگ کررہے ہو؟ ، اس نے عرض کیا کہ اگر آپ کو ضرورت نہیں تو ضرورتمندوں میں بانٹ دیں۔ مولانا بنوریؒ نے فرمایا کہ ایسی کم عقلی کیوں کروں کہ ثواب تجھے ملے اور حساب مجھ سے لیا جائے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا :’’اولاد کیلئے مال و دولت کا ترکہ مت چھوڑو، اگروہ نیک ہونگے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرینگے تو ثواب ان کو ملے گا اور حساب تجھے دینا پڑیگا اور اگر فاسق فاجر ہوں اور مال غلط استعمال کریں تو ڈبل وبال ہوگا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کی گھر والی نے میٹھا کھانے کیلئے روزانہ کے خرچے سے کچھ بچایا ، جس سے پکا کر حضرت ابوبکرؓ کے سامنے پیش کیا اور داستان سنادی۔ حضرت ابوبکرؓ نے وہ میٹھا مساکین میں تقسیم کردیا اور بیت المال سے اتنا وظیفہ کم کردیا۔ حضرت عمرؓ اتنا ہی وظیفہ لیتے تھے جتنا ایک درمیانے درجے کے انسان کے گزر بسر کیلئے ہوتا تھا۔اپنے وزیراعظم نوازشریف کی بات درست ہے کہ ہیلی کاپٹروں میں گھومنے والے سڑک کی قدر نہیں جانتے۔ جن کے بچے لندن میں رہتے ہوں اور علاج معالجہ باہر کریں تو وہ غریب عوام کی بھوک ، تعلیم اور علاج کا معاملہ کیا جانیں؟۔
علما ء اور صوفیاء کی زندگیاں عظمت اور عزیمت کی داستانیں ہیں۔ مجاہدین اسلام کی قربانیوں سے تاریخ کے اوراق بھرے ہیں۔ میں نے خود تجربہ سے تبلیغی جماعت ، مجاہدین، علماء کرام اور صوفیاء عظام کے خلوص کو بہت قریب سے دیکھا ۔ان میں کچھ لوگ بہت غلط اور بد فطرت ہوسکتے ہیں مگرانبیاء کرامؑ ، خلفاء راشدینؓ، صحابہ کرامؓ ، ائمہ مجتہدینؒ ، محدثینؒ ، علماء کرام اور صوفیاء عظام سے گہری نسبت رکھنے والے یہ اکثر اللہ والے لوگ ہوتے ہیں۔
کسی فکر و عمل میں اختلاف کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ عقیدت و توقیر بھی ہم نہیں رکھتے۔ حضرت مولانا یوسف بنوریؒ نماز کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ جو طالب علم صبح کی نماز پڑھنے میں بھی سستی کرتا تھا تو اس کی خوب پٹائی لگاتے تھے۔ یہ دین سے عقیدت و محبت اور طبیعت میں سختی کے لازمی اثرات تھے۔ اگر کوئی نماز نہ پڑھتا تو کونسے مولانا بنوریؒ کے بچے بھوکے مرتے۔ ایک حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ اگر مجھے بچوں اور عورتوں کا اندیشہ نہ ہوتا تو جماعت میں نماز نہ پڑھنے والوں کو گھروں میں آگ لگا کر جلا دیتا۔ ‘‘ جس کا اس حدیث پر ایمان ہو تو وہ نماز کے سلسلے میں بڑی شدت سے عمل درآمد کرانا اپنے دین کا حصہ سمجھتا ہے اور مولانا یوسف بنوریؒ کو احادیث سے بڑی رغبت تھی۔ ایک مرتبہ ایک طالب علم کو نماز پر بہت سخت سخت مارا ، مگر وہ طالب علم خاموشی سے مار کھا کر برداشت کرتا رہا اور کسی ردِ عمل کا اظہار بھی نہیں کیا۔ مولانا بنوریؒ نے سوچا کہ طالب علم بڑا شریف الطبع ہے ، پھر کیوں خاموش ہوکر مار کھارہا ہے اور کچھ کہہ نہیں رہا ۔ طالب علم سے پوچھا تو اس نے عرض کیا کہ ایک نماز ہی تو ہے جس کو ہم اللہ کیلئے پڑھتے ہیں اگر یہ بھی آپ کیلئے پڑھیں تو ہمیں کس چیز کا ثواب ملے گا؟۔ مولانا بنوریؒ نے اس کا جواب سن کر بات کو معقول جانا اور اسکے بعد نمازکیلئے طالب علموں سے سختی برتنا بھی چھوڑ دی۔ ترغیب و ڈرانے کیلئے بہت سی احادیث گھڑی گئیں ہیں۔ نبیﷺ کے دور میں خواتین اور بچے نماز میں شریک ہوتے تھے، اسلئے وہ حدیث محلِ نظر ہے۔ قرآن کی کسی آیت میں نماز کے حوالہ سے بڑی بشارت یا ڈرانے کی ایسی دھمکی نہیں، جس طرح سے احادیث میں فضائل اور ڈرانے کی باتیں ہیں۔ آذان کے بعد کی دعا فضیلت کیلئے اورایک نماز کی قضاء سے بیڑہ غرق کیلئے کافی ہے ۔ البتہ قرآن میں ان نماز پڑھنے والوں کیلئے ہلاکت کی خبر ہے جو مال گن کر جمع کرتے ہیں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے پرنہیں اُکساتے۔ پشتو کے عظیم شاعررحمان بابا کا شعر ہے ترجمہ:
ہر سخی خدا کا دوست ہے اگرچہ فاسق ہو ہر بخیل خدا کا دشمن ہے اگرچہ زاہد ہو
اگر یہ تصور درست تسلیم کرلیا جائے کہ تبلیغی جماعت کے رائیونڈاور دعوت اسلامی کے مرکز فیضانِ مدینہ اور ان کے تمام ذیلی شاخوں اور مراکز میں ایک نماز کا بدلہ49 کروڑ گنا ہے اور کعبہ کی مسجد میں صرف ایک لاکھ اور مدینے کی مسجد نبویﷺ اورقبلہ اول کی مسجداقصیٰ میں صرف50ہزار ہے تو یہ منہ اور مسور کی دال والی بات نہیں؟،کچھ تو اقدار کا پاس کریں!
مساجد کو عبادات کیساتھ شعور دیا جائے تو دنیا میں اسلامی خلافت کا آغاز ہوسکے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات سے انکار کفر ہے، ان سے عقیدت رکھے بغیر ایمان کا تصور بھی غلط ہے لیکن یہودی علماء کے ہاتھوں آپؑ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عقیدت و شعور کیلئے یہ ایک لازمی نصاب تھا ، عیسائیوں نے خدا بناکر غلطی کی ، اسلئے کہ جو اپنی مشکل دور نہ کرسکے وہ مشکل کشا کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اہل تشیع بھلے صحابہؓ سے حسن ظن کو فروغ نہ دیں ، صحابہؓ نے ایکدوسرے کو قتل کیا تو کوئی فرق عقیدت سے نہ پڑیگا، البتہ علیؓ کی کرامات سے عقیدت رکھنے والوں کے دماغ میں شعور آئیگا کہ علی خدا و مشکل کشا ہوتے تو اپنی اور اپنی اولاد کی مشکل دورکرتے۔
قرآن عقیدت اور شعور پیدا کرتاہے ، اگرشعور نہ ہو تو معجزات دیکھ کر آج بھی لوگ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا مان لیں گے اور عقیدت نہ ہو تو پھر قرآن میں بیان کردہ معجزات سے بھی ہمارا ایمان بالکل اٹھ جائیگا۔قرآنی علم سے مسلم اُمہ کو زندہ کریں۔
عقیدت ، ذکر اور قلبی وجدان سے انسان کا نفس شفاف آئینے کی طرح عمل کے قابل بنتاہے اور جو سنتاہے اس یقین کرکے عمل کرنا بھی شروع کردیتاہے اور شعور کی بلندی سے انسان فکر کی غلطی سے محفوظ ہوتاہے۔ علماء کرام اور مشائخ عظام میں اسی کا اختلاف تھا۔ عبدالقادر جیلانیؒ نے امام ابوحنیفہؒ پر فتویٰ لگایا، امام بخاری کی نہ بنتی تھی فقہاء نے صوفیاء کو فکر کے حوالہ سے راہ راست پر رکھا اور فقہاء نے عمل کی راہ ان کو سکھادی، یہ اختلاف رحمت تھا۔ اب فکر وشعور اوروجدان و ذکرسے عروج ملے گا۔

اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا اور یہ پھر …..

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بدء الاسلام غریباً فسیعود غریباً فطوبیٰ للغرباء ’’اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا ، عنقریب یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا ، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے۔ ‘‘ یہ پیشگوئی اس وقت سے اب تک حرف بہ حرف پوری ہوئی ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد خلفاء ہونگے ، پھر امیر ہونگے ، پھر بادشاہ ، پھر جابر بادشاہ ہونگے اور پھر دوبارہ طرز نبوت کی خلافت قائم ہو گی ‘‘ نبی کریم ﷺ نے 30 سال تک خلافت کی بشارت دی تھی، حضرت ابوبکرؓ ، عمرؓ، عثمانؓ ، علیؓ اور حسنؓ کے 6 ماہ تک 30 سال۔ اسکے بعد بنو اُمیہ اور بنو عباس کے ادوار میں امارت کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ پھر خلافت عثمانیہ کی بادشاہت کی بات پوری ہوئی اور اسکے بعد آج تک جابر حکمرانوں کا سلسلہ چل رہا ہے۔ یہانتک کہ پھر سے طرز نبوت کی خلافت کے قیام کی پیشگوئی پوری ہوجائے۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ مسلمانوں ہی کیلئے نہیں بلکہ عالم انسانیت کیلئے بھی جو اعلیٰ اور ارفع مقام رکھتی ہے اس کی نشاندہی نہ ہونے کیوجہ سے اسلام اجنبیت کے پردوں میں چھپ گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی ’’کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح کا ہی ایک بشر ہوں میری طرف وحی ہوتی ہے ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے عام لوگوں کی طرح شادیاں کیں، عزیز و اقارب سے تعلق رکھا ، اپنے رفقاء و اصحاب بنائے، اولی الامر کی حیثیت سے دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیا اور اللہ تعالیٰ نے مختلف مواقع پر وحی کے ذریعے سے رہنمائی فراہم کی۔قرآن و احادیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل ہے۔
ہماری مت ماری گئی کہ نبی ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو کو سمجھنے کا ڈھنگ ہی کھودیا ۔ جب قرآن کے علاوہ انواع و اقسام کی احادیث سے اُمت کا پالا پڑا ، تو امام ابو حنیفہؒ میدان میں اترے اور اسلام کے بگڑے تیور کو سدھارنے کی کوشش فرمائی۔ پھر فقہاء نے حیلہ سازی کے ذریعے سے اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں بدترین کردار ادا کیا تو امام غزالیؒ میدان میں اترے اور معاملات کو سدھارنے کی زبردست کوشش کی۔ پھر مغلیہ دور میں اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کی بات آئی تو شیخ احمد سرہندیؒ المعروف مجدد الف ثانیؒ نے تجدیدی کارنامہ انجام دیا، پھر سلسلہ حق کی رہنمائی کیلئے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے اللہ نے کام لیا۔
اکبر کے دینِ الٰہی کامقابلہ کانیگرم وزیرستان کے بایزید انصاریؒ نے بھی کیا تھا جو 1601 ؁ء میں بیٹوں سمیت شہید کئے گئے۔شاہ ولی اللہؒ کے والدِ محترم شاہ عبدالرحیمؒ ان 500علماء میں شامل تھے جنہوں نے فتاوی عالمگیری پر دستخط کئے ۔ جس میں بادشاہ کیلئے قتل ، چوری، زنا اور سب حدود معاف ہیں۔ اورنگزیب بادشاہ نے اپنے سارے بھائیوں کو قتل کیا تھا۔ درباری علماء بنوامیہ اوربنوعباس کے ا دوار کی پیداواررہے ہیں۔ ان کی فقہ اور بصیرت پر قوم اعتماد کرلے تو حیلہ سازی سے سودی نظام بھی جائز ہے۔ بس ایک سجدے والا کام کرے ، باقی مسئلہ نہیں، یہ توشکرہے کہ مجدد الف ثانی جیسے لوگوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا کہ اکبر بادشاہ کو سجدہ کرنا ناجائز قرار دیا، ورنہ آپ دیکھتے کہ درباریوں کی اولاد موجودہ حکمرانوں کو حلف اٹھاتے وقت سورۂ یوسف کی تلاوت کرکے سجدے کرتے اور ہم پر فتوے لگاتے کہ شیطان نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا اور یہ ابلیس خلیفہ کو سجدہ نہیں کرتا۔
قرآن میں حضرت آدمؑ اور حضرت یوسفؑ کو سجدے کی آیات ہیں اور سجدوں کی ایسی مخالفت نہیں جیسے اللہ نے سود کے نظام کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا ہے۔ موجودہ دور کے درباریوں سے اکبر بادشاہ کے درباری علماء اچھے تھے۔ اورنگزیب کے دور کے درباری بھی نیک اور اللہ والے لوگ تھے لیکن علمی حقائق اور شعور سے بے بہرہ تھے۔حضرت ہارونؑ نے بنی اسرائیل کو وقتی طورپر شرک کیلئے بھی اسلئے چھوڑ دیا کہ امت میں تفریق نہ ہو اور موسیٰ علیہ السلام نے داڑھی اور سر سے پکڑا تو یہی حکمت بیان کردی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وقتی طور سے کبھی نظریے اور عقیدے کی قربانی دی جاتی ہے مگر اس کے پیچھے کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا، لیکن اس قربانی کی وجہ سے سختی بھی برداشت کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ سے ایک نو مسلم حضرت الجونؓ نے کہا کہ کیا میں عرب کی حسین ترین دوشیزہ سے آپ کا نکاح کراؤں؟ ۔ نبی کریم ﷺ نے حامی بھری۔ اس نے بتایا کہ میری صاحبزادی ہے اور وہ آپ سے شادی کیلئے راضی ہے۔ حق مہر مقرر ہوا۔ رخصتی کے بعد ازواج مطہراتؓ نے اس کا بناؤ سنگھار کرکے نبی ﷺ کے پاس بھیجا۔تو ساتھ میں یہ بھی سمجھایا کہ جتنی بے رغبتی برتو گی اس قدر نبی ﷺ خوش ہونگے، اللہ کی پناہ مانگ لینا وغیرہ۔ عورت اور مرد میں جنسی رغبت اور خواہش فطری طور پر ہوتی ہے اور اگر دلہن کو یہ سمجھایا جائے کہ عصمت کیلئے بے رغبتی کے مظاہرے سے عزت میں اضافہ ہوگا اور شوہر کیلئے زیادہ محبوبیت کا ذریعہ ہوگا تو یہ بالکل غیر معقول بات بھی معلوم نہیں ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اپنا نفس ہبہ کردو۔ تو ابنت الجونؓ نے کہا کہ کیا ایک ملکہ خود کو کسی بازاری کے حوالے کرسکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے معمول سمجھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ فقد عذت بمعاذ ’’جس کی پناہ مانگی جاتی ہے اسکی آپ نے پناہ مانگ لی‘‘۔ اور اس کو دو چادریں دیکر اسکے گھر بھیج دیا۔ (صحیح بخاری) بعد میں جب وہ گھر پہنچی تو گھر والوں سے کہا کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، انہوں نے کہاکہ تو بڑی کمبخت ہے۔ نبی ﷺ کو پتہ چلا کہ ازواج مطہراتؓ نے اس کو ورغلایا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیچاری کیساتھ سوکناہٹ کی وجہ سے یہ ہوا۔
یہ واقعہ دنیا کیلئے بہترین نمونہ ہے کہ جہاں لڑکی اپنے رشتے کیلئے زبان کھولنے کو بھی معیوب سمجھتی تھی اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ بکر کنواری اگر خاموش رہے ، مسکرائے یا روئے تو اس کی طرف سے ہاں ہے۔ ایم طلاق شدہ یا بیوہ کیلئے زبان سے اقرار ضروری ہے۔ وہاں اس معاشرے میں نکاح اور رخصتی کے بعد عورت سے اس کی رضامندی پوچھنا اور جب گمان ہو کہ وہ راضی نہیں تو اس کو ہاتھ لگائے بغیر رخصت کرنا وہ عظیم اسوۂ حسنہ ہے جسکے سامنے قرآن کا احسن القصص حضرت یوسف ؑ کا قصہ بھی اس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ حضرت یوسف ؑ نے اپنے مالک کی شادی شدہ بیوی سے دامن چھڑایا تھا اور نبی ﷺ نے باقاعدہ طور سے شادی اور ازواج مطہراتؓ کی طرف سے بناؤ سنگھار کے بعد بھی بھرپور طریقے سے اسکے راضی ہونے کو یقینی بنانے کی کوشش فرمائی تھی، یہ عظیم اسوۂ حسنہ ہی تھا۔
اگرنبیﷺ کا یہ قصہ تمام زبانوں میں عام کرکے عوام تک پہنچے تو دنیا آپ ﷺ کی انسانیت کو سلام کریگی۔ وہ بھی ہیں جس نے اپنی ناسمجھی کی وجہ سے نبی ﷺ کی سیرت کو بہت بڑا داغ لگایا۔ علامہ ابن حجر نے بخاری کی معروف شرح میں لکھا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے نکاح کے بغیر خلوت میں کیسے بلایا؟۔ نفس ہبہ کرنے اور ہاتھ بڑھانے کی کوشش کیسے کی؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی ﷺ کا صرف رغبت ظاہر کرنا ہی نکاح کیلئے کافی تھا۔ چاہے وہ راضی نہ ہو اور نہ اسکا ولی راضی ہو، نبی ﷺ کا پوچھنا تو صرف تطیب خاطر کیلئے تھا۔ اس سوال جواب کو دیوبندی مکتبہ فکر وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان اور بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں نقل کیا، ان خرافات کی کھلے لفظوں میں تردید ہی دراصل دین اسلام کا تجدیدی کارنامہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے غزوہ بدر کے قیدیوں ، غزوہ اُحد شہر سے باہر نکل کر لڑنے اور صلح حدیبیہ کے معاہدے پر صحابہ کرامؓ نے اولی الامر کی حیثیت سے اختلاف کیا۔ قیدیوں پر مشاورت سے رسول اللہ ﷺ نے فدیہ لینے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے حکمت اور تزکیہ کرتے ہوئے وحی اتاری کہ ’’نبی کیلئے یہ مناسب نہ تھا…… ‘‘۔ پھر اُحد میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچی اور بدلہ لینے کا اظہار فرمایا تو اللہ نے منع کیا ، معاف کرنے کا حکم دیا ۔ پھر صحابہؓ کی رائے کیخلاف صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فتح کی بشارت دے دی انا فتحنا لک فتحاً مبیناً لیغفراللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تأخر منہ ’’ہم نے روشن فتح عطا کی تاکہ تیرے اگلے پچھلے گناہ اللہ معاف کردے‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے ہر چیز کووضاحت سے بیان کیا تو اس آیت میں فتح سے گناہ کی معافی کا کیا تعلق ؟، فتح سے معصیت کا جوڑ نہیں بنتا؟۔ جملے میں گناہ سے معصیت مراد ہو ہی نہیں سکتا بلکہ مشکل ، تکلیف اور بوجھ مراد ہے، اللہ نے فرمایا کہ ’’ ہم نے وہ بوجھ اتار دیا، جس نے تیری کمر توڑ رکھی تھی‘‘، عربی میں ذنب کا معنی معصیت کے بھی ہیں اور اضافی بوجھ کے بھی۔ ایک آدمی اپنے مخلص خدمتگار کو ڈانٹ رہا تھا ، ایک بار خدمتگار نے آہ بھری، تو پوچھا کیا ہوا؟ ۔ وہ کہنے لگا کہ بس کبھی تواللہ میرے گناہ معاف کردے۔ اللہ نے فتح کیساتھ ذنب تکالیف کے ازالے کا فرمایا اور لوگوں نے اس پر فرقے ، گروہ اور مسلک بنالئے ۔فتح سے تکلیف کابوجھ جاتاہے۔

خلفاء راشدینؓ اور ائمہ مجتہدین ؒ کے ادوار کی اجنبیت

رسول اللہ ﷺ کے وصال سے وحی کا سلسلہ بند ہوا ۔ صحابہ کرامؓمشاورت کے انداز میں رسول اللہ ﷺ سے اولی الامر کے طور پر اختلاف کرتے تھے، آخری فیصلہ نبی ﷺ کا ہوتا تھا جیسے بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور صلح حدیبیہ میں ہوا۔ پھر اللہ کی طرف سے رہنمائی وحی کے ذریعے سے نازل ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں بند ہوا تو اختلاف رائے کے باوجود یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کیلئے ضروری تھا کہ سب اولی الامر خلیفہ راشد کی بات حتمی سمجھ کر اجتماعی طور پر قبول کرلیں۔ اسکے علاوہ کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا۔ یہاں سے خلافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلام بھی پھر مسلسل اجنبی بنتا چلا گیا۔
رسول اللہ ﷺ کی چاہت یہ تھی کہ مالدار صحابہؓ اپنی زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے خود ہی مستحق افراد میں تقسیم کریں مگر صحابہؓ کی چاہت تھی کہ نبی ﷺ زکوٰۃ کولیکر اپنے دست مبارک سے ان مستحق افراد میں تقسیم کریں جو آپ ﷺ کے گرد منڈلاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی اور نبی ﷺ سے فرمایا کہ آپ ان سے زکوٰۃ لیں یہ ان کیلئے تسکین کا ذریعہ ہے۔ نبی ﷺ نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کیا لیکن ساتھ میں یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ میرے اہل بیت اور اقارب پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ سمجھا کہ اللہ کی طرف سے نبی ﷺ کو زکوٰۃ لینے کا حکم تھا تو ایک خلیفہ کی حیثیت سے مجھ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ امیروں سے زکوٰۃ لیکر غریب مستحقین میں تقسیم کروں۔ اس کیلئے قتال پر بھی کمر کس لی۔ حضرت عمرؓ نے شروع میں ان سے اختلاف کیا جب ان کو پر عزم دیکھا تو بھرپور ساتھ دیا۔ پھر اپنے دور میں حضرت عمرؓ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ’’کاش !ہم رسول ﷺ سے یہ حکم پوچھ لیتے کہ جو زکوٰۃ نہ دے انکے خلاف قتال کرنا درست ہے یا نہیں۔ ‘‘۔
ایک آدمی نے نبیﷺ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو اسکے خلاف قتال نہ ہوابلکہ خلفاء نے بعد میں اس کی زکوٰۃ لینے سے بھی انکار کردیا۔حضرت ابوبکرؓ نے جو فیصلہ کیا تھا وہ اپنے وقت کے لحاظ سے ٹھیک ہوسکتا تھا مگر یہ کوئی مستقل اللہ کا حکم نہیں تھا اسلئے کہ نبی کریم ﷺ سے اللہ نے فرمایا تھا کہ ان سے زکوٰۃ کا لینا ان کیلئے سکون کا ذریعہ ہے قتال کی صورت میں یہ اضطراب کا ذریعہ تھا ۔ اہل سنت کے چاروں فقہی ائمہ حضرت امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ میں سے کوئی بھی اسکا قائل نہیں کہ زکوٰۃ نہ دینے پر قتال کیا جائے۔ اس کو حکومت اور حکمران کا حق نہیں سمجھاجاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں زکوٰۃ کی بینکوں سے کٹوتی شروع ہوئی تو ایسے سنی علماء بھی تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کے نام سے اپنے اکاؤنٹ اہل تشیع کے مسلک میں درج کئے۔ پھر حکومت نے فیصلہ واپس لیا اور اب کوئی بینک کو لکھ کر دے تواسکے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ کی کٹوتی نہیں ہوتی ۔
حضرت ابوبکرؓ کا اقدام علماء و مفتیان کے مفاد میں بھی نہیں لیکن حضرت عمرؓ کی طرف یہ منسوب ہے کہ انہوں نے قرآن میں موجود مؤلفۃ القلوب کی زکوٰۃ کو منسوخ کیا ۔ حالانکہ قرآن میں اس کو فریضۃ من اللہ اللہ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ان آٹھ اقسام میں سے کوئی قسم منسوخ نہیں ہوسکتی ، یہ اللہ کی طرف سے ہے ان میں نبی اور غیر نبی مداخلت نہیں کرسکتا ہے۔‘‘ تفسیر عثمانی میں یہ حدیث درج ہونے کے باوجود لکھا گیا ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کی زکوٰۃ منسوخ ہے۔ افسوس کہ امریکی US ایڈ لی جاتی ہے اور بے نظیر انکم سپورٹ کے نام سے اربوں روپے برطانیہ سے لئے جاتے ہیں مگر زکوٰۃ کے دروازے غیر مسلم مستحق مؤلفۃ القلوب پر بند کردئیے گئے ہیں۔
پہلے زکوٰۃ کی رقم غریب غرباء تک تھوڑی بہت پہنچ جاتی تھی اب اس کو بھی ہمارا پیشہ ور طبقہ مختلف ناموں اور کاموں سے ہتھیا کر مستحقین کو محروم کررہا ہے۔ قرآن کی آیات سے رہنمائی لی جاتی تو بلبلاتے ہوئے مستحقین کیلئے زکوٰۃ مانگنے پر شرم آتی۔ ایک سال پاکستان کے مسلمانوں کی تمام زکوٰۃ مستحق غریبوں تک پہنچ جائے تو اللہ ہماری تقدیر بدل دے گا۔ شریف فیملی پانامہ لیکس کی زکوٰۃ بھی غریب عیسائیوں تک پہنچانے کا اہتمام کرتی تو تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے مقابلے میں زیادہ لوگ اس امداد سے اسلام قبول کرلیتے۔ مریم نواز نے جیو ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ میرے اور میرے بھائیوں کے پاس کچھ بھی نہیں ۔ مشعل اوبامہ سے USایڈ لینے کی بات تعلیم کیلئے ہوئی تھی اور اب USایڈ کی اصل رقم سے شاید زکوٰۃ اسلام آباد کے اسکولوں کیلئے بسیں خریدنے پر خرچ کی جارہی ہے اس میں بھی کرپشن ہوگی اور حکومت کے مخالف سیاستدان عدالتوں میں رلتے ہی رہیں گے۔
امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے زکوٰۃ نہ دینے پر قتال کرنے کو تو درست نہیں قرار دیا ، البتہ اسی سے استدلال لے کر بے نمازی کو قتل کرنا فرض قرار دیا۔ ان لوگوں نے اسلام کی خاطر اہل اقتدار سے بڑی مشکلات اٹھائیں لیکن اگر بنو اُمیہ اور بنو عباس کے فاسق فاجر حکمرانوں کے بجائے مسند اقتدار پر ان کو بٹھایا جاتا اور بے نمازیوں کو قتل کرنا شروع کردیتے تو آج اسلام کا نام و نشان نہ ہوتا اور یزید نے کربلا کے واقعہ سے اسلام کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا انکے برسر اقتدار آنے سے اسلام کو نقصان پہنچتا۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بہت بڑے کارنامے ہیں اور انکی وجہ سے اسلام کے خلاف ایک بہت بڑا طوفان رکا تھا۔ احادیث کی بھرمار سے قرآن کے احکام کو بہت بڑا خطرہ لاحق تھا۔ امام ابو حنیفہؒ اور باقی تینوں اماموں نے جو کارنامے انجام دئیے ہیں وہ بہت ہی قابل ستائش ہیں۔ البتہ جس طرح حضرات خلفاء راشدینؓ نے اہم کارناموں کے باوجود کچھ ایسے معاملات متعارف کرائے ہیں جن سے اسلام بتدریج اجنبیت کا شکار ہوتا چلا گیا ۔ اسی طرح ائمہ مجتہدینؒ سے بھی بعض معاملات میں بہت زیادہ بڑی غلطیاں سرزد ہوئیں۔
امام ابو حنیفہؒ نے اپنی بیشتر زندگی علم کلام (عقائد کا فلسفیانہ علم) میں گزاری اور پھر تائب ہوکر فقہ کی طرف توجہ دی۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علم کلام کی گمراہی کو اصول فقہ میں داخل کیا گیا۔ فقہ حنفی کی درس نظامی میں پڑھایا جاتا ہے کہ کتابی شکل میں قرآن اللہ کی کتاب نہیں اور نہ اس پر حلف ہوتا ہے کیونکہ تحریر اللہ کا کلام نہیں بلکہ محض نقوش ہیں جو نہ لفظ ہے اور نہ معنی۔ جب تحریری شکل میں سورۂ فاتحہ اللہ کا کلام نہیں تو حنفی مسلک کے معتبر لوگوں صاحب ہدایہ ، فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامی میں علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو خون اور پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا گیا۔ جب تک یہ گمراہانہ اصول فقہ کا نصاب درست کرنے کی ہمت علماء و مفتیان نہیں کرسکتے تو پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کیا لڑینگے؟۔ دہشت گردوں نے کتنا ڈرایا تھا ؟ ۔ امام ابوحنیفہؒ علم الکلام و علم العقائد کے نئے گمراہانہ عقائد سے تائب ہوئے تو ان کو اصولِ فقہ میں پڑھانے سے گمراہی کے سوا فائدہ کیا ہے؟ ۔
امام ابوحنیفہؒ سے شیخ الاسلام قاضی القضاۃ ابویوسف بڑے آدمی نہ تھے مگر امام ابوحنیفہؒ نے جیل میں زہر سے شہادت پائی اور امام ابویوسف وقت کے بادشاہوں کیلئے حیلہ سازی کا کام کرتے تھے۔ امام غزالیؒ نے ان فقہاء کی حیلہ سازی پر گرفت کی تو مصر کے بازار میں ان کی مقبول ہونے والی کتابیں احیاء العلوم وغیرہ جلائی گئیں۔ امام غزالیؒ نے آخر کارفقہ کو گمراہی قرار دیکر تصوف کا رخ کیا۔ من الظلمات الی النور ’’ اندھیرے سے روشنی کی طرف‘‘ نامی کتاب لکھ دی۔ مگر ہوا یہ کہ جس فقہ کے علم کو اندھیرے سے تشبیہ دی تھی، اس کو تصوف میں داخل کردیا۔ جس کو نور علی نور نہیں بلکہ ظلمات بعضہا فوق بعض قرار دیا جاسکتاہے۔ دعوتِ اسلامی کے بانی علامہ الیاس قادری نے اپنی کتاب ’’ غسل کا طریقہ‘‘ میں امام غزالیؒ کی کتاب سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ’’ ایک صوفی کو نفس نے کہا کہ رات جنابت کی حالت میں سوجاؤ، تو اس نے اپنے نفس کو یہ سزا دی کہ کپڑے سمیت نہایا ۔ پوری رات سخت سردی میں رات گزاری ، نفس انسان کا دشمن ہے‘‘۔جبکہ رسولﷺ صرف وضو کرکے حالت جنابت میں سوتے تھے۔ایک صحابیؓ کو دوسروں نے ٹھنڈے پانی سے نماز کیلئے غسل پر مجبور کیا،جس سے وہ بیمار ہوکر فوت ہوا، تونبیﷺ نے فرمایا کہ ’’تمہیں اللہ مار ڈالے اس کو ہلاک کردیا‘‘۔ علماء اور صوفیاء اپنی جگہ پر بیٹھتے تھے ،اب گھر گھرفتنہ پھیلتاہے۔
کوئی کم عقل دعا سے عرش ہلادے، یہانتک کہ فرشتہ پوچھ لے، کیا چاہیے؟۔ اللہ کا بندہ کہے کہ مجھے بیٹا چاہیے اور پھر فرشتہ کہے کہ بیوقوف پہلے شادی تو کرلو ۔ یہی صورتحال خلافت کیلئے رونے دھونے والے علماء و مفتیان کرام اور صوفیاء عظام اور خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیاہے؟والے شاعرعلامہ اقبال کی تھی۔ جب تک ہم خود کو نہ بدلیں اللہ نے بھی ہماری حالت نہیں بدلنی اور ہماری حالت اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک درست علم کے ذریعے سیدھی راہ کی نشاندہی نہ ہو ۔ مدارس کا نصاب درست کرنا پڑے گا۔
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ

قرآن و سنت کی روشنی میں حقائق کی زبردست نشاندہی

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اقتدار ملا تھا اسلئے حدود و تعزیرات کے مذہبی احکام یہود کے ہاں موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اقتدار نہیں ملا تھا اسلئے انجیل اور نصاریٰ کے ہاں حدود و تعزیرات کے احکام نہیں ہیں۔ حدود کا تعلق اللہ کے براہ راست احکام سے ہے اور تعزیرات حکمرانوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اسرائیل یہودیوں کی مذہبی ریاست ہے اور پاکستان دنیا میں واحد وہ ریاست ہے جو مسلمانوں نے مذہب کی بنیاد ہی بنائی تھی۔
قرآن کی آیات اورسنت سے حدود اور تعزیرات کا مسئلہ سمجھنا ضروری ہے۔ خواتین کو ستانے اور زنا بالجبر کی قرآن میں تعزیر قتل ہے۔ فاینما ثقفوا فقتلوا تقتیلاجب عادلانہ معاشرے کا قیام عمل میں آیا تو ایسے لوگ جہاں پائے گئے وہ قتل کئے گئے۔ مدینہ میں زیادہ عرصہ تک یہ لوگ نہیں رہیں گے۔ وائل ابن حجرؓ کی روایت میں ہے کہ خاتون کی اس شکایت پرکہ فلاں نے زبردستی مجھ سے زنا کیا، نبیﷺ نے اس کو پکڑ کر لانے کا حکم دیا اور سنگسار کروا دیا۔ ( ابوداؤد ، موت کا منظر)۔ قرآن میں مرد وعورت کیلئے زناکی حد100 کوڑے ہیں۔ دو مرد آپس میں برائی کریں تو قرآن میں ان کو اذیت دینے کا حکم ہے،اسلئے لواطت پر مختلف آراء ہیں۔ جلانے، پہاڑ سے گرانے، اس پردیوار گرانے کی مختلف آراء ہیں۔ نئی تحقیق میں یہ بیماری ہے اسکا علاج بھی عادی مجرموں کیلئے اذیت کا باعث بن سکتاہے۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے لکھا: ’’ سنگسار کرنے کا حکم توراۃ میں تعزیر تھا‘‘۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے لکھا:’’ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما : بوڑھا اور بوڑھی زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو۔ یہ اللہ کا کلام کسی طور سے نہیں ہوسکتا۔ غیر شادی شدہ بوڑھا بھی زنا کرے تو ا س کی زد سے نہیں بچتاہے اور جواں شادی شدہ بھی زنا کرے تو زد میں نہیں آتا۔ اسلئے یہ یہود ی علماء کاتحریف شدہ جملہ ہے‘‘۔( تدوین القرآن: مولانا گیلانی) یہودی علماء نے یہ حکم توراۃ میں کیوں داخل کیا؟۔ نبیﷺ نے اللہ کے ہاں ناپسندیدہ افراد میں بوڑھے زنا کار اور غریب متکبر کا ذکرکیا، تو موسیٰ ؑ نے یہی کہاہوگا اور یہودی علماء نے اس کو تعزیز کے طور پر توراۃ میں ڈال دیا ہوگا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ اگریہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمرؓ نے اللہ کی کتاب پر اضافہ کیا تو سنگساری کا حکم قرآن میں لکھ دیتا‘‘۔
نبیﷺ جب تک اللہ کی طرف سے حکم نازل نہ ہوتا تھا تو اہل کتاب کے مطابق عمل کرتے تھے(بخاری)۔ قبلہ اول کی طرح فیصلہ بھی ان کی کتاب کے مطابق ہوتاتھا۔ ایک آدمی نے کہا کہ ’’ میرے غیرشادی شدہ لڑکے نے فلاں کی بیوی سے زنا کیا، میں نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کیلئے بکریوں کا جرمانہ دیکر فیصلہ کیا، اب علماء (یہودی) نے بتایا کہ اس کی بیگم سنگسار ہوگی اور تمہارے بیٹے کو100کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہوگی، نبیﷺ نے توراۃ دیکھ کر وہی فیصلہ کردیا، پھر مسلمان خاتون اور مرد نے اپنے خلاف گواہی دی تو نبیﷺ نے سنگساری سے بچانے کیلئے معاملہ بہت ٹال دیا لیکن آخرکا ر سزادی۔ کسی ایک واقعہ کو روایات میں باربار نقل کرکے انبار لگادیاگیاہے۔ صحابیؓ سے پوچھا گیا کہ سورۂ نور نازل ہونے کے بعد نبیﷺ نے کسی کو سنگسار کیا تو جواب دیا کہ پتہ نہیں۔ (بخاری)
اللہ نے واضح فرمایا کہ پہلے لوگوں میں بھی یہ حکم تھا کہ شادی شدہ لونڈی زنا کی مرتکب ہو تو اسکو آزاد عورت کی آدھی سزا دی جائے (50کوڑے) ۔ نبی ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کو دوگنی سزا( 200 کوڑے) کی وضاحت ہے۔ سنگسار ہونا دوگنا اور نصف نہیں ہوسکتا۔ اللہ نے واضح کیا کہ پہلوں کو قتل و جلاوطنی کا حکم اللہ نے نہ دیا۔ (یہ ان کی اپنی کارستانی ہے) اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ اے نبی ﷺ! اگر اہل کتاب آپ سے فیصلے کیلئے کہیں اور آپ فیصلہ کرنے سے انکار کردیں تو یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان کی کتابوں میں تحریف ہے اور آپ کے پاس اللہ کے احکام محفوظ ہیں۔ اگر اپنی کتاب سے یہ آپ سے فیصلہ کروانا چاہیں تو آپ انکار کردیں۔ اسلئے کہ اس کی وجہ سے یہ آپ کو اپنی کتاب سے بھی فتنہ میں ڈال دیں گے۔ پھر اسی پس منظر میں اللہ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنے اولیاء نہ بناؤ، جو ان کو اپنا اولیاء بنائے وہ انہی میں سے ہے، یہ بعض بعض کے اولیاء ہیں‘‘۔ پہلے لوگ مختلف اولیاء سے اپنے فیصلے کیلئے رجوع کرتے تھے۔ جرگہ اورپنچائیت کا سسٹم آج بھی موجود ہے۔ ولایت حکومت اور جرگے کے باختیار آقاؤں کو اپنا اختیار سپرد کرنے کو بھی کہتے ہیں۔جب توراۃ اور قرآن کے احکام میں فرق آگیا تو بعد میں یہ حکم نازل ہوا۔
عورت کا ولی اس کا باپ ، چاچا اور سرپرست ہوتا ہے۔ اہل کتاب کی خواتین سے اللہ نے شادی کی اجازت دی تو اس سے بڑھ کر دوستی کیا ہے؟ ۔جب قرآن کی وضاحت ہے کہ نبی ﷺ کو اللہ نے اہل کتاب کی ولایت سے اس بنیاد پر منع فرمایا کہ اگر وہ اپنی کتاب سے فیصلہ کروانا چاہیں اور مسلمانوں کو بھی ان کو ولی بنانے سے روکا ہے، تو یہ کس قدر اسلام کو اجنبیت میں دھکیل دیا گیا ہے کہ یہود کے توراۃ کو اپنے نصاب کا حصہ بناڈالا ہے، جب توراۃ اور قرآن کے حکم میں فرق نہیں تو پھر سنگسار کرنے کیلئے یہود سے کروائیں یا مسلمان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر یہود نے سنگسار کرنا ہو اور مسلمان نے قرآن کے مطابق 100کوڑے کی سزا دینی ہو تو یہود کو اپنے حال پر چھوڑ دیں البتہ اگر وہ ہم سے قرآن کے مطابق اپنا فیصلہ کروانا چاہیں تو ہم قرآن کے مطابق ان پر حکم جاری کرسکتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو 100کوڑے لگوائے۔بیگمؓ کا مشورہ سننے سے انکار کیا تو اس نے کہا کہ خالی بات سن لو۔ یہ مشورہ دیتی ہوں کہ کوڑے مارنیوالے کو بدلتے رہو تا کہ سخت سزا ہو۔ چنانچہ کوڑوں سے اس کی جان بھی نکال دی۔جس کی وجہ سے جلاوطنی کی سزا کا معاملہ زیرِ بحث بھی نہیں آیا۔ عقیدت و اختلافِ رائے میں کوئی تفریق بالکل بھی نہیں۔
صحابہؓ کے اندر زنا کا تصور معمولاتِ زندگی کا معاملہ نہ تھا۔ ایک روایت ہے کہ عورت نے زنا کا اقرار کیا تو نبیﷺ نے سنگسار کردیا، فقہ کے تین ائمہ امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ اس پر متفق ہیں کہ عورت ایک بار بھی گواہی دے تو سنگسار کیا جائیگا، جبکہ مرد کیلئے چار مرتبہ اپنے خلاف گواہی ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ ’’اس واقعہ کی پوری تفصیلات موجود ہیں، عورت کیلئے بھی چارمرتبہ گواہی ہے‘‘۔ امام ابوحنیفہؒ کی تقلید نہ کریں تو بھی مخالفین کہیں گے کہ ’’اندھوں میں وہ کانا راجہ ضرور تھا‘‘۔ابنت الجونؓ پر جواب والاعلامہ ابن حجر بھی حنفی نہیں تھا۔اگر صحابیؓ وائل ابن حجرؓ یہ بات دیکھ لیتے تو کتنا افسوس کرتے؟۔
کاروباری معاملہ میں قرآن نے دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی اور علماء نے حدود میں عورت کی گواہی ناقابلِ قبول قرار دی، پھر جمہور فقہاء نے حد کیلئے مرد کے مقابلہ میں چار مرتبہ کے بجائے عورت کی ایک مرتبہ گواہی کو کافی قرار دیا،کیا اس سے بڑا اندھا پن ہوسکتاہے جس میں یہ تیر رہے ہیں؟۔ پہلے دور نہیں اب بھی پرویز مشرف نے زنا بالجبر کو حدود سے نکال کر تعزیرات میں شامل کیا تاکہ جو متأثرہ خاتون ہو، اس کو انصاف مل سکے۔ مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ جاری کیا کہ’’ دین میں ہم مداخلت برداشت نہ کرینگے‘‘ ۔ جماعتِ اسلامی نے اس پمفلٹ کا پرچار کیا۔ حالانکہ اس میں بڑے اندھے پن کا ثبوت دیا گیا، جس حدیث کا حوالہ دیاتھا اس میں نبی ﷺ نے زنا بالجبر میں فقہی شرائط کے مطابق چار گواہوں کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ متأثرہ خاتون کی اکیلی گواہی قبول فرمالی۔ جس پر میں نے جواب بھی لکھ کر شائع کیا تھا۔ اگر اسلام کے آئین کو دنیا میں نافذ کرنے کیلئے شائع کیا گیا تو دنیا اس کو قبول کرنے سے انکار نہیں کریگی۔ علامہ اقبال نے اسلئے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کے عنوان سے ابلیس کی طرف سے یہ تجویز پیش کی ہے کہ ’’مومن کو قیامت تک غلام رکھنے میں خیر ہے، تاکہ دنیا کی نظر سے آئین پیغمبر پوشیدہ رہے‘‘۔ بدکارشادی شدہ مرد یا عورت کے جینے کی اجازت نہ ہوتوالطیبات للطیبین اورالخبیثات للخبیثین اورالزانی لا ینکح الا الزاانےۃ ….کی آیات کا محل باقی نہ رہتا۔ فحاشی پر بیوی کو نکالنے کی بات ہے،قتل کی نہیں۔ سورۂ الطلاق میں ہے۔ قرآن مسلمان کیلئے بہت بڑے انقلاب کا ذریعہ ہے۔جو مغرب سے آنیوالے سازش کو روک سکتاہے ورنہ کوئی پابندی لگائے گا اور کوئی ہمارے لئے احتجاج کریگا ۔علماء کرام، صوفیاء عظام، تبلیغی جماعت،دعوت اسلامی، جمعیت علماء اسلام ، سنی تحریک، سپاہ صحابہ، فقہ جعفریہ ، اہلحدیث اس کاوش کا فائدہ اٹھائیں نہیں تو! تاریخ نے قوموں کے وہ دور بھی دیکھے لمحوں نے خطاء کی صدیوں نے سزاپائی
عالمی سطح پر قرآن وسنت کے ٹھوس خاکے کو اٹھایا جائے تو یہود ونصاریٰ بھی اس خلافت کے نظام کی خوش ہوکر تائید کرینگے۔ قرآن میں توراۃ و انجیل کے احکام کا ذکر اور یہود کی تحریف اور نصاریٰ کی خود ساختہ رہبانیت کا ذکرہے۔ ہم بھی انکے نقش پر چل پڑے اور حقائق کی طرف آئے تو مسلم اُمہ بہت خوش ہوجائے گی۔ عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ