پوسٹ تلاش کریں

ڈان نیوز کی خبر کے پیچھے پسِ دیوار محرکات کیا لگتے ہیں؟… اداریہ نوشتہ دیوار

ڈان نیوز کی خبر نے پاکستان میں پاک فوج اور ن لیگ کے درمیان تناؤ کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ PTVکے چیئرمین عطاء الحق قاسمی کے سامنے یہ صورتحال بنے کہ فوج ن لیگ کے ہاتھوں ذلیل ہوگئی تو اپنے کالم میں لکھ دے گا کہ ’’نوازشریف اور شہباز شریف سے زیادہ شرافت کا معیار کسی میں بھی نہیں، ڈاکٹر طاہر القادری کے جوتے کے تسمے باندھے اور غارحراء کے بلندپہاڑ پر چڑھا دیا‘‘۔ اور اگر پتہ چلے کہ فوج نے ن لیگ کی حکومت ختم کرکے99ء کی پھر تاریخ دھرادی تو عطاء الحق قاسمی اپنے کالم میں ایک دوسرا مزاحیہ جملہ لکھ دے گا کہ ’’پہلے شریف برادران نے اسلئے اچھائی کی تھی کہ وہ گنجے نہ تھے، مصنوعی بالوں کے باوجود گنجا پن کی خاصیت تو ختم نہیں ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ اللہ گنجے کو ناخن نہ دے۔ شریف برادران گنجے بن گئے اور حکومت کے ناخن بھی مل گئے،تو کم بختوں نے اسی علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے 14بندے پھڑکادئیے۔جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ جب حکومت پر ڈاکٹر طاہرالقادری کا زور پر پڑا، تو مشاہداللہ خان وغیرہ نے دبے الفاظ میں نہیں کھلے لفظوں میں بندے مارنے کا الزام بھی خفیہ والوں پر لگادیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیر الاسلام کو جیو ٹی وی چینل نے پہلے سے بدنام کردیا تھا، اسلئے پاک فوج نے ن لیگ کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا۔ اصل شریف تو جنرل راحیل ہیں جو شرافت سے اپنی مدت مکمل کرکے جارہے تھے لیکن وقت سے پہلے آئی ایس آئی کے ڈی جی رضوان اختر کو ذلیل کرنا ضروری سمجھا گیا،تاکہ آنے والا نامزد جنرل چیف آف آرمی سٹاف پہلے سے بھیگی بلی بن کر رہے کہ جب جنرل راحیل جیسے مقبول اور دبنگ جرنیل کے سامنے آئی ایس آئی کے سربراہ کی بے عزتی کرکے جوتے کی نوک پر رکھا جن کی ضرب عضب کی خدمات میں پوری قوم ہی نہیں دنیا بھی معترف ہے تو آنے والے کی حیثیت سرحدوں کی چوکیداری کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوگی اور قوم کے سامنے یہ کریڈٹ جائیگا کہ شہبازشریف نے فوج سے قوم کی جان چھڑادی ہے۔ سیاستدان اچھے ہوں تو اس میں برائی بھی نہ تھی مگر شریفوں نے خود تو پانامہ لیکس کی دولت اور لندن کے فلیٹ کی کرپشن کی تھی ، زرداری کے کرپشن پر شہباز شریف میں حبیب جالب کی روح جاگ جاتی تھی اور پانامہ لیکس پر اس کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ پہلے سعودیہ میں دس سال کیلئے معاہدہ کرکے جانے دیا گیامگر اس دفعہ کم ازکم بغیر ثبوت کے بھی زرداری کی طرح گیارہ سال جیل کی ہوا توکھائے وہ زرداری تو سرائیکی اسپکنگ بقول نثار کے’’ نسلی بلوچ بڑا پکا ہے‘‘۔ یہ تو چند مہینے کی قید میں پوری دنیا سے اپنی خفیہ دولت کو لاکررکھ دینگے۔ اور بیوروکریٹ ، میڈیا ہاؤسز اور جرنیلوں سے کرپشن پر سودابازی کی تھی، انکے راز بھی اگل دینگے، ڈاکٹر عاصم نے تو عدالت کے سامنے اعتراف نہیں کیا اور شاہ زیب خانزادہ نے انکشاف کیا کہ وہ جھوٹے مقدموں کی سزا بھگت رہا ہے، اسحاق ڈار نے تو 21صفحات پر مشتمل بیان دیکرعدالت میں اعتراف جرم کیاہے، بقول چوہدری اعتزاز احسن کے اگر زبردستی سے غلط بیانی ہو، تب بھی عدالت کے ذریعہ سے اعداد وشمار چیک کرکے درست نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے۔ چوہدری نثار نے ڈاکٹر عاصم کے ویڈیو اعتراف کی بات کی تھی، اب میڈیا کے سامنے چوہدری نثار کو بھی نوازشریف کی جائیداد سے متعلق ان تضادات کے اعتراف پر مجبور کیا جائے جو میڈیا پر دکھائے جاتے ہیں‘‘۔
ڈان کے آرٹیکل پر حامد میر نے ن لیگ کے وزیر محمد زبیر، صحافی ضیاء الدین اور معروف وکیل حامد خان کو پروگرام میں بٹھایا تھا۔ جب نوازشریف اس بات پر سیخ پا تھا کہ پانامہ لیکس کے معاملہ پر جنرل راحیل کرپشن کے خلاف بیان کیوں دے رہا ہے ، اس بات کا حساب کون دیگا کہ ’’ مجھے ہتھکڑی لگائی گئی، میری حکومت ختم کی گئی‘‘ حالانکہ دونوں باتوں میں اس سے زیادہ جوڑ نہ تھا کہ گدھے سے کہا جائے کہ ’’تجھے کہاں پڑ رہی ہے اور آواز کہاں سے نکل رہی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ گدھے کا جسم ایک ہوتاہے ، مار جہاں بھی پڑے ، آواز تو جہاں سے نکلنی ہو وہاں سے ہی نکلے گی۔ فوج کو 12اکتوبر 99کے اقدام پر محصور ججوں نے عدالت سے استفعے دیدئیے تھے ، توثیق کرنے والے خود بھی سزا کھاتے، اسلئے پرویزمشرف دوسرے اقدام پر غداری کے مقدمے کا سامنا کررہے تھے، جو انسانی کے فطری ضمیر کے بھی منافی تھا۔ جبکہ اب تو چیف جسٹس نے پہلے خودہی اعلان کردیا ہے کہ ’’جمہوریت کے نام بادشاہت ہے‘‘ جسکے بعد عدلیہ کو بھی قید کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔صحافی ضیاء الدین کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو اس بات پر یاد رہے کہ جنرل راحیل کے خلاف نوازشریف کا بیان درست ہے، نوازشریف کے باپ نے نوازشریف کے بچوں کو رقم دیدی ہے تو اس میں نوازشریف کا کیا واسطہ ہے؟۔ یہی بیان نوازشریف قومی اسمبلی میں پیش کرتے اور عدالت کو مطلوبہ اختیارات دیتے تو بات ختم ہوجاتی لیکن شاید صحافی ضیاء الدین کی بات نوازشریف کو بھی اتنی اچھی نہیں لگی، نوازشریف سے جنرل ضیاء ، جنرل ضیاء بٹ اور صحافی ضیاء کی محبت قدرت کا تحفہ ہے لیکن ایک طرف حامد میر کے پروگرام میں صحافی ضیاء الدین کی باتوں پر قہقہے لگ رہے تھے تو دوسری طرف بدین کا گدھا میلہ دکھایا جارہا تھاجس میں گدھوں کو مکھن کھلانے اور گیارہ لاکھ تک قیمت لگانے پر بات ہورہی تھی۔ گدھوں کے ڈھینچوں ڈھینچوں ، مکھن کھلانے اور زیادہ قیمت لگانے اور حامد میر کے پروگرام میں مکھن لگانے ، قہقہے لگانے اور بے قیمتوں کو قیمتی ظاہر کرنا انسانون اور جانوروں میں مسابقت کی خاصی مماثلت لگتی تھی۔
شاہ زیب خانزادہ نے پروگرام کیامگر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں انسان کی عزت خراب ہوتی ہے، چینل بدل سکتا ہے مگر عزت مشکل سے واپس آسکتی ہے۔ جب ڈان کی خبر درست ہے، جرم بھی نہیں، معمول کی بات ہے تو حکومت کیوں ایسا غلط اقدام اُٹھارہی ہے؟۔ جنرل کیانی کی ٹانگوں میں مرغا بن کر دہشتگردوں کاحامی شہباز شریف اتنا جرأتمند ہوجائے کہ جنرل راحیل شریف کے سامنے آئی ایس آئی کے چیف رضوان اختر کو ذلیل کردے تو اعلان کردے کہ یہ وہ شہبازشریف ہے جو صدر زرداری کو چوکوں میں لٹکانے اور سڑکوں پر لاش گھسیٹنے کی کھلی دہائی دیتا تھا ،اس با اختیار صدر سے آئی ایس آئی کے چیف کی بھی عزت زیادہ تو نہیں۔ عسکری ذرائع اگر خبر کو توڑ مروڑ کرکے پیش کرنے میں غلط بیانی سے کی بات کرتے ہیں تو شہباز شریف خود ہیرو کیوں نہیں بنتا کہ سابقہ ریکارڈ بھی درست ہوجائے؟۔ مگر لگتا یہ ہے کہ جھوٹ سے ہیرو بننے کی کوشش نے مشکل میں ڈالا ۔ یہ فوج اس سے مختلف ہے جس کی چاکری قریب کے دور میں شریف برادران کرتی رہی ہے۔ شریف برادری پاکستان کیلئے سچ مچ سیکورٹی رسک اسلئے ہے کہ ایٹمی پروگرام اور فوج کو بھی نام نہاد اسلامی بینکاری کے ذریعہ عالمی اداروں کے پاس گروی رکھنا ہوگا، اوریا مقبول جان کے اعصاب پر کیا سوار ہے کہ حرف راز میں جہاد ہند کی پیشگوئی کا کہا ’’ کراچی سے لاہور تک سندھ ہے ،ہندبھارت اس کو تباہ کردیگا اور پھر چین ہند کو تباہ کردیگا‘‘۔ محمد بن قاسمؒ نے سندھ خاتون کی عزت کے تحفظ کیلئے فتح کیا، چند دن پہلے نرسری کراچی سے عمران نامی24سالہ جوان کی خبر میڈیا پر چلی۔ جوبیگم کویکبار تین طلاق دے چکا تھا۔ ایک بچہ اپنے پاس رکھا، ایک بیگم کو دیا، حلالے کی بات پر خودکشی کرلی۔’’ اخبار جہاں‘‘ میں طلاق کے مسائل لکھنے والے مفتی حسام اللہ شریفیؒ جیو اور جنگ میں بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے چالیس سے زیادہ عرصہ کے بعد یکبارگی تین طلاق واقع کے فتویٰ سے رجوع کرلیا، جنگ اور جیو حلالہ کی بے غیرتی میں شریک مجرم ہے، عوام کی عزت کا پاس نہیں تو قوم کے مقتدر طبقے کی عزت خراب ہونے پر فرشتے ہنستے ہونگے۔

اکتوبر99نے ہمیں سی پیک دیا اور شریفوں کو مالدار بنایا… اداریہ نوشتہ دیوار

جنرل ضیاء نے مذہبی طبقہ کی کرایہ کے جہاد سے آبیاری کی۔ بینظیر کے آخری دور میں نصیراللہ بابر نے افغانستان میں طالبان کو تشکیل دیا۔ جنرل ضیاء کو محسن کہنے والے نوازشریف پر اسامہ لادن سے بھی پیسہ لینے کا الزام ہے، طالبان کے حامی شہباز شریف کی زبان سے دہشتگردوں کا قلع قمع کرنیوالے جرنیل پر بھی دہشتگردی کو پھیلانے کا الزم بڑا لغو ہے۔اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر 16سال بعد سپریم کورٹ نے ISIسے رقم لینا ثابت کیا ، حمیدگل مرحوم اقرارجرم اور سزا کی تمنا لیکر دنیا سے گئے۔ اگر ملوث اہلکاروں اور جماعتِ اسلامی وغیرہ کو عدالت مقدس گائے سمجھ کر ذبح کرنے کا حکم جاری نہیں کرسکتی ہے تو ن لیگ سامری کا بچھڑا بن کر ایسی آواز زر خریدمیڈیا کے چینلوں سے نکالنے میں کامیاب رہیگی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی موجودگی میں بھی قوم کو گمراہ کیا جاسکے گا۔ جتنے سوال جواب کرنے ہوں عدالت عظمیٰ سورۂ بقرہ کے واقعہ کی طرح آخر مقدس گائے کو ذبح کرنے اور سامری کے بچھڑے کو سزا دیدے۔ پھر جمہوریت کے نام پر شاہی نظام کا خاتمہ کرنے میں بالکل ہی دیر نہ لگے گی۔
چیئرمین سینٹ رضا ربانی ،خورشید شاہ و دیگر اپوزیشن جماعتوں، حکومتی اتحاداور میڈیا کے اینکرپرسن حضرات کو اگر واقعی جمہوری نظام کا چلتے رہنے سے پیار ہو تو پھر ایک نکاتی ایجنڈہ لیکر کھڑے ہوجاؤ، عمران خان کا رونا دھونا بھاڑ میں جائے، سب یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ جنرل کیانی کیساتھ نوازشریف کالا کوٹ پہن کر عدالت میں گیاتھا، کیا قانون کی حکمرانی کیلئے چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہونا جمہوری سسٹم بچانے کا ذریعہ نہ ہوگا۔ اصغر خان کیس کا فیصلہ 16سال بعد ہوا، عمل درآمد کی دیر ہے، ن لیگ سمیت ساری آمریت کی پروردہ جماعتوں کے قائدین نہ صرف سزا سے نااہل ہوجائیں گے بلکہ جمہوری نظام کو بھی زبردست استحکام ملے گا۔
جنرل راحیل سیاسی آدمی نہیں لگتے اور نہ سیاسی عزائم رکھتے ہیں، اگر وہ بعض دوسروں کی طرح دُم ہلانے والے ہوتے تو یومِ دفاع کے موقع پر جمہوری علمدار چیئرمین سینٹ رضا ربانی اور قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کو تقریب میں اپنے ساتھ کیوں بٹھاتے؟۔ جس سے برسر اقتدار حکمران بھیگی بلی بن کر رہ گئے تھے۔ جن دہشت گردوں کی آبیاری امریکہ نے اپنے مقاصد کی خاطر کی تھی ، وہ اپنے عزائم پر تاحال قائم ہے۔ ڈرون حملوں کے ذریعہ دہشت گردوں کو امریکہ ختم نہیں کرنا چاہتا بلکہ ان کو گرمائے رکھنا چاہتا ہے۔ القاعدہ، طالبان اور داعش میں پسند و نا پسندکے سلسلے کو جاری رکھنے والا امریکہ اور شیطانی قوتیں اس اسلامی آئین سے خائف ہیں جس کا ذکر علامہ اقبالؒ نے ’’شیطان کی مجلسِ شوریٰ‘‘ کے حوالے سے کیا تھا۔
وزیراعظم نوازشریف ! لوگوں نے مان لیا کہ ’’ کراچی آپریشن اور امن کی فضا ‘‘ اور ضرب عضب آپ کی حکومت کا تحفہ ہے۔سی پیک آپ کا کارنامہ تھا اور آپ نے لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور دہشتگردی کا خاتمہ کیا۔قرضے کے انبار نہیں اقتصادی ترقی کرلی لیکن سوئس اکاونٹ کیخلاف آسمان کو سر پہ اٹھانے والے! لوگوں کو کرپشن کیخلاف ایک کرنے، سوئس اکاونٹ اورپانامہ لیکس پر تضادات کو دور کرنے میں آخر قباحت کیاہے؟۔باقی سارے ایشوز کیساتھ یہ ایک ایشو بھی اطمینان بخش ہوجاتا۔
آپ نے دو دفعہ حکومت کی مگرگوادر کو چین سے ملانے کا خیال نہ آیا، 1999ء میں آپ کی حکومت گئی، آپ غریب و بے بس نے چوہدری اعتزاز احسن سے بھی کم ٹیکس دیا تھاپھر اللہ تجھ پر مہربان ہوا، پرویزمشرف نے تیری حکومت کیا ختم کی، ایک طرف پاکستان کی تقدیر بدلی ۔2002ء میں چائنہ کو گوادر دیاگیا۔ دوسری طرف تیری تقدیر بدلی اور بچے پانامہ لیکس اور لندن کے قیمتی فلیٹوں کے مالک بن گئے۔ پرویز مشرف کے دور میں جنرل راحیل جیسا جنرل ہوتا، جو گوادر چین کے سڑک پر صدر یا وزیراعظم کو جیپ میں بٹھاکر ڈرائیونگ کرتا تو گوادر اور چین کے درمیان روڈ بھی بن چکا ہوتا۔جنرل پرویز مشرف کو امریکہ کا غم نہ تھا،وہ قطر سے مہنگا ترین گیس کا معاہدہ کرنے کے بجائے ایران سے گیس پائپ لائن لاکرانڈسٹریوں اور گھروں کو سستے دام گیس کی سپلائی بھی شروع کردیتا۔اور کالا باغ ڈیم بناکرزیر زمین اور سطح زمیں پانی کے ذخائر سے پاکستان کوزراعت و سستی بجلی کی نعمت سے مالامال کردیتا۔
سندھ میں راجہ داہر ہو یا پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ۔ اچکزئی ،اسفندیار، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق وغیرہ نے نواب، سردار اور خان بننے کیلئے اپنی لنگوٹ کس رکھی ہے۔ الیکشن عوام کی رائے نہیں پیسے کا کھیل ضمیر کی سوداگری ہے۔ جمہوریت کا دم بھرنے والوں کی اگلی منزل بلاول بھٹوزداری اور مریم نواز صفدر عباسی کی آل اولاد ہے لیکن نوابوں ، سرداروں اور خانوں کواس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ شہنشائے معظم کے تخت پر گھوڑا ہو یا گھوڑی، گدھا ہو گدھی اور خچر ہو یا خچری؟۔ ان کو تو اپنی مراعات ملنے سے کام ہے۔ آزادی کے متوالوں غفار خان،صمد خان اچکزئی اور فقیر اے پی کو جرمنی کی مراعات نہ رہیں تو آزادی بھی بری لگی۔پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کاروبار ہے ، جس کمپنی کے شیمپو والے اس دوشیزہ کو اشتہار کیلئے زیادہ سے زیادہ پیسے دے وہ جعلی بالوں ، زیبائش وآرائش کے نسوانی حسن اور ناز ونخرے سے مالامال چال چلن کا مظاہرہ کریگی۔ میڈیا ہاؤسز کو اپنے کاروبار کیساتھ قوم کی بھی فکر کرنا چاہیے۔
’’جب جلانے کیلئے کچھ نہ ملا تو ماں نے اپنے لعل کی تختی جلادی‘‘ ۔ جنگلات کا تحفظ کیجئے ، محکمہ جنگلات ۔میڈیا کو لڑانے کیلئے کچھ نہ ملا تو جیو نیوز کی رابعہ انعم نے آفریدی و میانداد کو لڑایا، شعیب اخترنے صلح کو خیرکہہ کر ترجیح دی۔ سندھ حکومت نے ہیلمٹ ، ون ویلنگ پر جتنا خرچہ اشتہارات پر لگایا ،اگر تھوڑا سا خرچہ روڈوں پر بھی کردیتے تو وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ سے کراچی کی عوام بھی محبت کرنے لگ جاتی۔ پہاڑی علاقوں میں پانی سڑکیں بہا لے جاتاہے، روزانہ نہیں تو چند دن بعد بڑے سیلابی فلڈ آتے ہیں۔لوگ رضاکاربن کر سڑک بنالیتے ہیں۔ قائد آباد کے پاس تھوڑی جگہ حکومت کی اپنی نااہلی کے باعث خراب ہوگئی ، دن رات گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ کاش وزیراعلیٰ اپنے والد کی روح کے ایصال ثواب کیلئے مرحوم کی نیک کمائی میں سے اس پر تھوڑی رقم خرچ کردیتا۔ یا میڈیااشتہار مفت میں چلائے اور یہ رقم حکومت کو کھڈوں پر خرچ کرنے کا کہے۔ گلشن حدید لنک روڈ کا پل عارضی بنایا جائے تو بھی عوام اور ٹرالرمالکان کو مصیبت سے چھٹکارا ملے۔ ٹرالروں کو بے وقت چھوڑدیاجاتاہے پھررینجرز اہلکار ائرپورٹ سے ماڈل ٹاؤن کی طرف جانیوالے مختصر رانگ وے پر عوام کو تنگ کرتے ہیں جس پرٹریفک پولیس بھی کچھ نہیں کہتی ۔ ریاستی اداروں کو عوام سے اپنا رویہ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، پولیس اہلکار کتوں کی طرح لالچ کا رویہ رکھتے ہیں جس کی وجہ اپنے بچوں و افسروں کو پالناہے۔ رینجرز اہلکار عوام سے سرِ عام رقم ہتھیالینے کا رویہ نہیں رکھتے لیکن کینٹ سے گزرنے والے بے وقت غیرقانونی ٹرالے اور بڑے ٹرک نظر نہ آتے ہوں اور چھوٹی گاڑیوں اور موٹر سائیکل والے سے قانون کی پاسداری کیلئے غیر اخلاقی رویہ پر گدھے لگتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ ہماری بدتمیز عوام کیلئے زیادہ سے زیادہ سخت رویہ کی بھی ضرورت ہے اور یہ بھی غنیمت ہے کہ پولیس والے بچوں کے پیٹ کیلئے ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ تو قانون کی پاسداری کرواتے ہیں اور اس سے بڑھ کر کرائم پر قابو کیلئے ہی بڑی قربانیاں دیتے ہیں ۔ عدالتوں میں قوانین کے ذرئع مجرموں کو تحفظ نہ ملتا تھا تو ہمارے اداروں میں اچھے افسروں، سپائیوں اور اہلکاروں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوتا۔ جب محنت کے نتائج نہیں نکلتے تو اچھے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

درسِ نظامی کی اصلاح وقت کی اشدضرورت ہے… اداریہ نوشتہ دیوار

مجھے علماء سے عقیدت ومحبت ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ میں زیادہ عقیدت و محبت مولانابدیع الزمانؒ سے ہے ۔ آپؒ کی تلقین مسلم اُمہ کے تمام مسائل کا حل ہے کہ ’’روزانہ قرآن کے ایک ایک رکوع کا ترجمہ وتفسیر سمجھنے کی کوشش کرو‘‘۔ ایک مرتبہ کسی آیت پر اشکال کے حل کا طلبہ کو ایک ہفتے کا وقت دیا کہ کتب تفاسیر میں تلاش کرو، جس سے پوچھنا ہوپوچھ لو،اور اسکا جواب لادو، سوال کا منہ سے نکلنا تھا کہ میں نے بے ساختہ جواب دیدیا۔ میری برجستہ اور خلافِ توقع بے صبری سے قدرِ ناگواری کا اثر بھی چہرے پر نمایاں ہوا پھر حسبِ معمول ہلکاسا تبسم فرمایا۔ اگر کسی نیک طینت بڑے سے بڑے عالمِ دین یا چھوٹے طلبہ پر درسِ نظامی کے حوالہ سے میری گزارشات پر اچانک ناگواری یا سوچنے سمجھنے کے بعد اطمینان کا اظہار ہو تو یہ ایک فطری بات ہے۔ میری تعلیم و تربیت عقیدت ومحبت کے ماحول میں ہوئی۔ فقہ کی کتاب کنزالدقائق میں100فیصد نمبر اورمولانا عبدالمنان ناصر نے میرے اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’عتیق کی بات درست ہے ، کنز والے کی غلط‘‘ تو مجھے کتنا بڑا حوصلہ ملا ہوگا؟۔ درسِ نظامی کی آخری تفسیر ’’بیضاوی شریف‘‘پر اشکال اٹھادیا تو مولانا شبیراحمد (رحیم یارخان والے) نے فرمایا کہ ’’ عتیق کی بات درست ہے اور بیضاوی نے غلط لکھا ہے‘‘ ۔ میں نے جاوید غامدی کے شاگرد ڈاکٹر زبیر سے اساتذہ کاذکر کردیاتو حیران ہوگئے۔ وہ اپنے استاذ کی طرف سے اختلاف کوشائستہ انداز میں برداشت کرنے تعلیم وتربیت کو باعثِ افتخار قرار دے رہے تھے۔
اصول فقہ کی تعلیم ہے کہ قرآن و سنت میں تطبیق (موافقت) ممکن ہو تو تطبیق پیدا کی جائے،پہلا سبق قرآن حتی تنکح زوجا غیرہ کاحدیث سے تضاد ہے کہ ’’ اللہ نے خاتون کی طرف نکاح کی نسبت کی‘‘۔یعنی ولی سے اجازت کی پابند نہیں، حدیث میں بغیر اجازت ولی اسکا نکاح باطل ہے۔(اصول الشاشی)۔ زنا بالجبر اور غیرت کے نام پرقتل کیخلاف پارلیمنٹ میں قانون بنا ، اس پر نیوز 1 چینل میں ڈاکٹر فرید پراچہ نے ’’فساد فی الارض‘‘ کا حوالہ دیکر اختلاف کیا۔ جاہل کو معلوم نہیں کہ دیوبندی بریلوی مدارس حنفی ہیں ، جماعتِ اسلامی اسی کی مقلد ہے، خواتین کا ولی کی اجازت کے بغیر شادی میں درسِ نظامی کا کردارہے۔قرآن نے یہودو نصاریٰ کو ولی بنانا منع کیا ، مذہبی طبقہ امریکہ کو سرپرست بنانا جائز اور دوست بنانا جائز نہیں سمجھتا۔ بکرکنواری اَیم طلاق شدہ و بیوہ ہے،قرآن و حدیث میں تضاد نہیں بلکہ توازن ہے۔ قرآن میں طلاق شدہ کو نکاح کی اجازت دی ہے ،تو نکاح کرانے کا حکم بھی ہے وانکحوالایامیٰ منکم (طلاق شدہ وبیواؤں کا نکاح کراؤ) اور حدیث میں کنواری ہی کیلئے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ،تو حدیث میں بیٹی کی اجازت کے بغیر باپ کا نکاح کرانا باطل ہے۔ دارالعلوم کراچی کے فاضل نے بتایا کہ ’’مفتی تقی عثمانی کی بیٹی کا ٹیوشن پڑھتے ہوئے استاذ سے معاشقہ ہوگیا تھا مگر مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیٹی کا نکاح زبردستی سے اسکی مرضی کے بغیرکسی اورسے کردیاتھا‘‘۔
حنفی فقہ سے قرآن کے مقابلہ میں من گھڑت حدیثوں کا راستہ رک گیاتھا،باقی حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ ’’ حدیث صحیحہ کے مقابلہ میں میری رائے کو دیوار پر دے مارا جائے‘‘۔ علم وکردار کے لحاظ سے بہت سے علماء ومفتیان نے حق وصداقت کی راہ اپنانے کی بجائے مذہب کو پیشہ بنالیا ہے،اسلئے قرآن وسنت کے فطری دین کو ہردور میں اجنبیت کی منزلیں طے کرکے کہاں سے کہاں پہنچادیا گیاہے۔
نکاح و طلاق پر قرآن وسنت میں تضادو ابہام نہیں۔ قرآنی آیات اور احادیث کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا کرنے کے بجائے مسلکوں کی وکالت کی گئی ۔ صراطِ مستقیم نہیں پگڈنڈیوں کی بھول بھلیوں سے نصاب مکڑی کاجالا ہے۔ مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن کے جیب اور پیٹ بھرنے کا وسیلہ ہویا سیاسی حکومت کہدے، تو یہ لوگ امت پر رحم کھاکر درسِ نظامی کی تعلیم کو درست کرنے پر نہ صرف آمادہ ہونگے بلکہ عوام کے ایمان اور اسلام کیلئے اپنی خدمات بھی پیش کرینگے، اب تو یہ خانہ خراب سودی نظام کے جواز اور سیاسی خدمات کیلئے مرمٹ رہے ہیں۔
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک طلاق کے بعد عدت میں نکاح قائم رہتاہے، اسلئے ہر فعل وقول رجوع کیلئے معتبر ہے، پھر فقہاء نے غلطی سے شہوت کی نظر پڑنے ، نیند کی حالت میں میاں یا بیوی کا شہوت سے ہاتھ لگنے کو بھی رجوع قرار دیا جو غلو ہے ، شافعی مسلک والوں نے اسکے برعکس نیت نہ ہو تومباشرت سے بھی رجوع کو معتبر قرار نہیں دیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لاتغلوا فی دینکم ’’اپنے دین میں غلو مت کرو‘‘۔ اس سے بڑھ کر غلو (حدود سے تجاوز) کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟ ۔
قرآن وسنت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ ہے، اللہ نے ناراضگی وطلاق کی عدت بھی بیان کی ہے اور اس میں صلح و رضامندی سے مشروط رجوع کی اجازت کو بھی واضح کیا ہے، دونوں میں جدائی کا خوف ہو تو ایک ایک رشتہ دار دونوں جانب سے تشکیل دینے کی بھی ہدایت فرمائی ہے ، تاکہ ان دونوں کا ارادہ صلح کرنے کا ہو تو معاملہ سلجھ جائے اور اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے۔اللہ نے باربار معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے رخصت کرنے کا حکم دیا ہے۔ عربی میں معروف اور احسان کی ضد منکر ہے۔ نکاح، طلاق اور رجوع میں باربار احسان اور معروف طریقے کی تلقین کی گئی ہے۔ دورِ جاہلیت میں جو منکر صورتیں طلاق ورجوع کے حوالہ سے رائج تھیں اسلام نے ان سب کا خاتمہ کردیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کے غیرمشروط رجوع کو ختم کیا تھا۔ اسلام نے محض طلاق کے بعد بھی شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا ، حضرت عمرؓ کے اقدام کی اسلئے صحابہؓ نے توثیق کردی، اگرطلاق واقع نہ ہو تو عورت شادی نہ کرسکے،جیسے بہشتی زیور و بہارشریعت میں امت کے اس اجماع سے انحراف کیاگیا ہے ۔کسے یہ کیامعلوم تھا کہ باہمی رضامندی سے بھی رجوع کا راستہ بنداور حلالہ کا دروازہ کھول دیا جائیگا۔
حضرت عمرؓ کے کارناموں میں سرِ فہرست ہوگا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد شوہر سے رجوع کا حق چھین لیا،مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہ تھا کہ اللہ نے بار بار باہمی رضا سے عدت کا حوالہ دیکر رجوع کی گنجائش رکھ دی اور حضرت عمرؓ نے ان آیات کو منسوخ یا انکے احکام کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا،بلکہ قرآن وسنت کی روح اور الفاظ کا یہ تقاضہ تھا کہ شوہر طلاق دے تو صلح کے بغیر اس کو رجوع کا حق حاصل نہیں۔ عورت کو اس حق سے محروم سمجھا گیا تو حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق کی صورت میں شوہر کو رجوع کے حق سے محروم کیاتھالیکن یہ محرومی صرف اس صورت میں تھی جب عورت صلح کیلئے رضامند نہ ہو۔ حضرت عمرؓ کی طرف سے یکطرفہ رجوع کا حق نہ دینا اور طلاق واقع ہونے کا متفقہ فتویٰ تاکہ عدت کے بعد دوسری شادی ہوسکے دیگر بات ہے اور اس بنیاد پر باہمی صلح اور رجوع کا راستہ روکنا اور حلالہ پر مجبور کرنا قرآن اور انسانیت کو مسخ کرنا ہے۔ حضرت عمرؓ پر قرآنی آیات کو مسخ کرنے کے اقدام اور حلالہ کی لعنت کو جواز فراہم کرنے کا الزام لگاکر سنی مکتبۂ فکر نے اہل تشیع کو صحابہؓ سے بدظنی پرمجبور کیا اور اپنوں کاحلالہ کی لعنت سے کباڑا کردیاہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ جماعتِ اہلسنت اور کالعدم فقہ جعفریہ وحدت المسلمین کوایک ہی اسٹیج سے کھڑے ہوکر قرآنی آیات ، احادیث صحیحہ اور فاروق اعظمؓ کے اقدام کی درست توجیہ سے پاکستان کو ایران و سعودیہ عرب اور عالم اسلام کا امام بنانا ہوگا۔اور طلاق کے متعلق قرآن وسنت کیخلاف غیرفطری تصور کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ شوہرایک طلاق دے تو عورت کی دوسری جگہ شادی کے بعد بھی پہلا شوہر دو طلاق کا مالک ہو۔

میرامختصرخاندانی پسِ منظر اور میری جدوجہد

میرا تعلق کانیگرم جنوبی وزیرستان و علاقہ گومل ٹانک سے ہے۔ محسود، وزیراور بیٹنی قبائل میں ہمارا خاندان عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ کانیگرم سے تحریک کا آغاز کیا تو ڈاکوؤں کا بڑا زور تھا۔ ایک مرتبہ کراچی سے آنیوالے ساتھیوں کو ٹانک سے کانیگرم کرایہ کی گاڑی پک اپ میں ڈاکوؤں نے روک لیا، ڈرائیور نے میرے والد پیر مقیم شاہ کا نام لیا کہ انکے مہمان ہیں تو ڈاکوؤں نے چھوڑ دیا۔ ہمارا خاندان ڈاکوؤں سے لین دین اور سرپرستی کی ساکھ والا نہ تھا۔ میرے پردادا سیدحسن عرف بابو ؒ کو محسود شمن خیل نے بروند وزیرستان میں اعزازی زمین دی تھی۔ جب انگریز نے برصغیر کو آزاد کرنے کا اعلان کیا تو افغانستان کے امیر امان اللہ خان کا بیٹا مدراس کی جیل سے فرار ہوکر آیا، عبدالرزاق بھٹی مرحوم اس وقت کیمونسٹ تھے۔ جسکا تعلق شیخ اوتار ڈبرہ علاقہ گومل سے تھا، وہ امیرامان اللہ کے بیٹے کو بیٹنی خلیفہ دین فقیرکے پاس لیکر گئے،دین فقیر نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں کو امیرامان اللہ کا بیٹا مطلوب ہے، صرف محسودقبائل کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ پناہ دیکر دونوں سے بچا سکتے ہیں۔ چنانچہ شمل خیل قبیلے کے سردار رمضان خان نے پناہ دی پھر ایک مرتبہ چھپ کر سفر کررہے تھے کہ حکومت کی مخبری سے ان کو گرفتار کرکے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں قید کیا گیا، اسی دوران عبدالرزاق بھٹی مولانا مودودی ؒ کی کتابوں کا مطالعہ کرکے مسلمان ہوئے۔1913ء میں اسلامیہ کالج پشاور بنا تھا 1914ء میں والد مرحوم کے چچازاد پیرایوب شاہ ؒ اور دیگر عزیز اسمیں BAکے سٹودنٹ تھے۔
امیرامان اللہ خان نے 1919ء سے 1929ء تک افغانستان پر حکومت کی۔ حکومت کے قیام کیلئے جنوبی وزیرستان کانیگرم میں میرے دادا سیدامیرشاہ باباؒ کے گھر سے تحریک کا آغاز کرنے شام سے ایک عرب پیر سید سعدی شاہ گیلانی آئے، تو اس وقت اس کی داڑھی اور مونچھیں بھی نہ آئی تھیں۔ کانیگرم کے علماء نے ڈھول کی تھاپ پر جلوس نکالا، کہ پیر وں کے پاس انگریز میم آئی ہے، پھر علماء سے کہا گیا کہ طاقت کے زور کو چھوڑو، بیٹھو ، اطمینان کرلو کہ مسئلہ کیاہے؟۔ جب علماء سے عربی ، فارسی میں قرآن وسنت کے علوم پر بات ہوئی توپھر اپنے سگریٹ کے دھویں کو علماء کے چہروں پر سجی داڑھی کی طرف چھوڑ رہا تھا۔ امان اللہ خان کا رشتہ داریہ شامی پیر جرمنی سے رقم لیکر آیا تاکہ افغانستان میں حکومت قائم کی جائے۔پھر علماء اور مشائخ کی قیادت میں ایک بڑا لشکر تشکیل دیا گیا، جس نے افغانستان میں امیر امان اللہ کی حکومت قائم کی۔ افغانستان کا پہلا اخبار پیرایوب شاہ عرف آغاجانؒ کی ادارت میں جاری ہوا۔ انگریز کی سازش سے امیر امان اللہ کا تختہ الٹا گیا،وہ علماء جنہوں نے جانوروں کی طرح سوات میں خواتین فروخت ہونے کی منڈیوں کو کبھی اسلام کے منافی نہیں کہا، انہیں امیرامان خان کی بیوی کا لباس خلاف اسلام لگتا تھا۔ دوسری بار شامی پیر آیا تو راہ میں بمباری کرکے لشکر کو منتشر کیا گیا۔ سید ایوب شاہؒ کو امیرامان اللہ کی بیٹی سے شادی اور مال ودولت کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے انکار کردیا،البتہ اپنے اخبار میں حمایت جاری رکھی اسی وجہ سے افغانستان میں قید کی سزا بھگت لی۔ شامی پیر نے میرے داد کو جانشین و بڑا خلیفہ بنانے کی پیشکش کی مگر انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اپنے گناہوں کو معاف کرادوں تو یہ بہت ہے، آپ کی خلافت کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا‘‘۔ پیرایوب شاہؒ نے جماعتِ اسلامی کا لٹریچر پڑھا تھا اور بہتوں کو جماعت میں شامل کیا، بچپن کے الیکشن میں مَیں نے سب سے پہلے ’’ترازو‘‘ کا نشان اٹھایا۔آزادی کے لیڈرز جرمن امدادسے مالامال تھے۔ محمود اچکزئی کو ہمارے عزیزپیریونس نے یونیورسٹی میں شکست دی تھی۔
جرمنی، فرانس، ناروے، سویڈن، عرب امارات اور چین جانے کا موقع ملا ہے مگرکہیں خواتین و حضرات کو اس قدر ایک دوسرے سے ہڈی پسلی ایک ہونے کی حد تک میل ملاپ نہ دیکھا جیسے خانہ کعبہ میں حجراسود چومنے کے دوران ایکدوسرے سے ملنے کا منظر ہوتا ہے۔ سعودیہ میں جنسی جرائم کی شرح خطرناک ہے، بیرون سے لائی جانے والی خدامہ کیساتھ باپ، بیٹے اور بھائیوں کی مشترکہ جنسی زیادتی حدِ تواتر کو پہنچی ہے اسلئے مسیار کے نام پر متعہ کی قانونی اجازت دی گئی ۔ مفتی عبدالقوی جیسے حلالہ کی لعنت کے خوگر آخرکارسرِ عام رنگ رلیوں سے جنسی تسکین کا فتوی ٰ دینگے۔
1983ء میں بنوری ٹاؤن ، دارالعلوم کراچی اور جامعہ فاروقیہ سے طلبہ کو سکول کا امتحان دینے کیلئے جمعہ کے دن فاروق اعظم مسجد ناظم آباد میں ٹیوشن پڑھنے کے جرم میں نکالا گیا، جبکہ1923ء میں پیرمبارک شاہ گیلانیؒ فاضل دارالعلوم دیوبند نے کانیگرم وزیرستان میں ’’نوراسلام‘‘ کے نام سے پبلک سکول کھولا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے بڑے معروف استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے مالٹا سے رہائی پانے کے بعد 1920ء میں حکیم اجمل خانؒ کی پرائیوٹ یونیورسٹی کا افتتاح کیا تھا۔ شیخ الہندؒ نے مالٹاکی قید میں تجزیہ کرلیا تھا کہ ’’ مسلم اُمہ کو فرقہ وارانہ درسِ نظامی سے نکالنے اور قرآن کی طرف توجہ میں نجات ہے‘‘۔ اپنے مشن کیلئے علماء ومدارس سے مایوسی اور کالج کے طلبہ کوقرآن کی طرف متوجہ ہونے کی امید کا اظہار کیاتھا۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے مذہبی طبقات سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے جابجا لکھاہے کہ ’’ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں، انہوں نے مذہب کو تجارت بنالیا ہے‘‘۔
میں نے بریلوی دیوبندی،جماعت اسلامی ،اہلحدیث اور شیعہ تضادکولیہ سکول کے دورمیں سمجھا، بغاوت کرکے مدارس کا علم حاصل کیا، دارالعلوم کراچی کورنگی میں چند دن کے بعدداخلہ کینسل ہوا، بنوری ٹاؤن پہنچالیکن وہاں داخلے بند تھے، دارالعلوم الاسلامیہ واٹرپمپFBایریامیں داخلہ میں لیا،مولانا یوسف لدھیانویؒ کے درس سے استفادہ کرنے الفلاح مسجد نصیرآباد جاتا،ایک مرتبہ پروفیسر غفور احمدؒ نے بھی وہاں تقریر کی تھی ،حالانکہ مولانا یوسف لدھیانویؒ کی کتاب’’ اختلاف امت اور صراط مستقیم‘‘ میں مولانا مودودیؒ کے بارے میں غلام احمد پرویز و غلام احمدقادیانی کا قلم چھین لینے ، انبیاء کرامؑ اور حضرت عائشہؓ سے متعلق گستاخانہ لہجے کے ریمارکس بھی مجھے یاد تھے۔ مولانا لدھیانویؒ سے سنا کہ ’’ قرآن پر حلف نہیں ہوتا، اسلئے کہ یہ نقشِ کلام ہے، اللہ کی کتاب نہیں‘‘ تو مجھے احساس ہواکہ ہم عوام اور علماء کرام کے علم وسمجھ میں بڑا فرق بلکہ کھلا تضاد ہے، جامعہ بنوری ٹاؤن کے پہلے سال میں ایک قابل سمجھنے جانے مولانا عبدالسمیعؒ سے سرِ راہ بحث کا سلسلہ بڑھااور اس نے قرآن منگوایا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے؟، مجھے مولانا لدھیانویؒ کی بات یادآئی اور برجستہ کہا کہ ’’یہ اللہ کی کتاب نہیں بلکہ اس کا نقش ہے!‘‘، مولانا نے مجھے کافر کہا تو میں نے مولانا لدھیانویؒ کا حوالہ دیا، جس پر مجھے الزام دیا کہ’’ تمہارا مقصد دین کی تعلیم نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہے، سب کچھ پڑھ کر آئے ہو‘‘۔ اس مباحثہ کو کافی سارے طلبہ نے سنا اور اسکے بعد علامہ تفتازانی کا نامانوس لقب میں نے اپنے لئے طلبہ سے سن لیا۔ حقیقت میں علماء ومفتیان درسِ نظامی کو سمجھنے سے قاصر ہیں صاحبِ ہدایہ نے اللہ کی کتاب کا نقش سمجھ کر ہی سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز قرار دیا، مفتی تقی عثمانی نے جانے بوجھے بغیر اپنی کتابوں میں نقل کیا اور پھردباؤ پر نکالا تھا۔ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء کے اجتماع کے اہتمام پر مولانا فضل الرحمن نے میرے سامنے مولانا عطاء اللہ شاہ کو شرکت کا کہا، مگرخفیہ طورپر مولانا عصام الدین محسود کو بھی روکنے کاکہا، یہی وجہ تھی کہ ڈیرہ کے علماء وعدے کے باوجود نہ آئے ۔ٹانک کے علماء سے مولانا فتح خانؒ نے میری وضاحت پر فرمایاکہ ’’میری داڑھی سفید ہوچکی، عتیق کی کیا عمر ہے؟، مگر آج اس جوان نے میری آنکھوں سے پٹیاں کھول دیں ہیں‘‘۔

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

مسلمانوں میں ایک عرصہ سے یہ رویہ رہا ہے کہ میاں کی طرف سے بیوی کوکسی لفظ کے استعمال پر علماء ومفتیان کی طرف بھاگنا پڑتا ہے کہ ’’ طلاق ہوئی یا نہیں اور اس میں حلالہ کی ضرورت ہے یا نہیں؟‘‘۔ عوام نے شروع سے اقتدار پر خود قبضہ کیا، بنی امیہ اور بنوعباس کے ادوار سے مذہبی طبقہ بھوسی ٹکڑیوں پر گزارا کررہا تھا، حکمران کی آنکھیں پھرنے سے فقہاء کی دنیا تاریک ہوجاتی تھی۔ حکمران تو اپنے لئے اپنے باپ کی لونڈیوں پر دل آنے کی صورت میں بھی فقہاء سے حلال کروالیتے تھے۔ جن علماء حق کے اپنے وسائل ہوتے تھے، ان کو کسی نہ کسی بہانے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور جودرباری حکمرانوں کے رحم وکرم پر ہوتے تھے وہ عیش اڑانے کیساتھ ساتھ دین کا حلیہ بگاڑنے میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مزارعت کے بارے میں احادیث صحیحہ ہیں کہ زمین کو بٹائی، کرایہ اور ٹھیکے پر دینا سود اور ناجائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اورامام شافعیؒ اس بات پر متفق تھے کہ احادیث صحیحہ کے مطابق زمین کو مزارعت پر دینا سود اور ناجائز ہے لیکن جاگیرداروں اور درباری علماء و فقہاء نے حقائق کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا۔ آج احادیث اور ائمہ مجتہدینؒ کے متفقہ مسلک پر عمل ہوجائے تو پاکستان کی تقدیر بدل جائیگی۔ غریب کیلئے سیاستدان اور حکمران کچھ بھی نہ کریں صرف زمین میں محنت کا ان کو مالک بنادیں تو ایک بڑا انقلاب بھرپا ہوجائیگا۔ کامریڈ لال خان کے پندرہ روزہ’’ جدوجہد ‘‘ میں کمیونسٹوں کا جومنشور لکھا گیا ہے وہ بھی ایک بڑا فراڈ ہے ، ایک شق میں مزارعہ کو زمینوں کا مالک بنانے کالکھا ہے اور دوسری شق میں زمینوں کی اجتماعی ملکیت اور اجتماعی مزارعت کا لکھاہے، یعنی مزارعین زمینداروں کی بجائے سرکارکے ملازم ہونگے۔روس اور چین میں جو نظام ناکام ہواہے ،اس کا تجربہ پاکستان میں کرنے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔
چلو مزارع کمزور ہے اور زمیندار طاقتور مگر اپنی عورت کی عزت تو اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ہمارا ایک برگشتہ پیربھائی تھا، مسجد الٰہیہ سوکواٹر کورنگی کراچی میں خادم تھا، مولانا نورالحق، اس نے حلالے کو دھندہ بنارکھا ہے، ہمارے ساتھیوں کی موجودگی کا بھی لحاظ نہ کیا، ایک غریب آیا کہ بیوی کو طلاق کیلئے یہ الفاظ استعمال کئے، اس سے پوچھا کہ تیری کتنی تنخواہ ہے؟، اس نے کہا کہ تیس ہزار، اچھا ہوجائیگا، بیس ہزار روپے لاؤ اور بیوی کو میرے پاس رات کو چھوڑ جاؤ۔ دوسرے سے ہاں تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا یہ الفاظ استعمال کئے ہیں ، کیا کام کرتے ہو؟، فلاں کام، اچھا تم دس ہزار لاؤ اور پرسوں رات اپنی بیوی کو یہاں چھوڑ جاؤ، حلال کردوں گا۔ یہ دھندے کتنے لوگوں نے جاری رکھے ہونگے؟۔
ایران میں ایک دوست مولانا عبداللطیف بلوچ ہیں جو دارالعلوم کراچی سے فاضل ہیں، خیرالمدارس ملتان میں پڑھتے تھے تو ملتان میں ہمارا دفتر تھا اسلئے ملاقات ہوجاتی تھی ایک مرتبہ وہ میرے ساتھ ٹانک اور وانا بھی گئے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کا ہمارے ہاں جلسہ تھا ، پھر مولانا نور محمد سے بھی ہم وانا میں مل کر آگئے۔ کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی تو طلاق کے مسئلہ پر بات چیت کا یہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نے بتایا کہ ’’ہمارے ہاں ایک مولوی نے عورت کا حلالہ کیا، چند دن بعد اس عورت کو دیکھا اور پوچھا کہ تمہیں مزہ آیا تھا یا نہیں؟۔ اس نے کہا کہ مزہ تو نہیں آیاتھا۔ مولوی نے کہا کہ پھر تم حلال نہیں ہوئی ہو،اسلئے کہ حدیث کے الفاظ میں ایکدوسرے کامزہ چکھ لینے کی شرط ہے۔ پھر دوبارہ اس کے ساتھ معاملہ کیا اور پوچھا کہ اب مزہ آیا تو اس عورت نے کہا کہ ہاں، تو اس کے حلالہ کو درست قرار دیا۔ جب ہمیں پتہ چلا تو اس مولوی کو پکڑا کہ خبیث تم نے یہ کیا کیا ہے؟۔ مولوی نے بتایا کہ عدت تو میں بھولا تھا، جب اس سے کہا کہ تم اس عورت کو حق مہر دو، تو اس نے کہا کہ میرے پاس ایک تمن (روپیہ)بھی نہیں ہے‘‘۔
جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا اللہ داد صاحب ژوب کے صاحبزادے مولانا عزیزاللہ نے ہمارے ساتھیوں عبدالعزیز اور امین اللہ کو بتایا کہ ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ کتابچے سے میری ایک دیرینہ تشویش کا مسئلہ حل ہوگیا ہے، ہماری قوم بات بات پر طلاق کا لفظ استعمال کرتی ہے چائے اور کرائے کے پیسے دینے پر بھی دونوں طرف سے طلاق ڈالی جاتی ہے، ظاہر ہے کہ کسی ایک کو طلاق پڑجاتی ہوگی ۔ ایسے میں ہماری قوم کے نکاحوں کی پوزیشن کیا ہوگی؟۔ تعلق اور پیداوار جائز یا ناجائز ہونگے؟۔ اس کتاب نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔ یہ صرف کاکڑ قوم کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پٹھان زیادہ تر اس معاملے میں یہی روش اختیار کرتے ہیں۔
قرآن میں صلح ومصالحت اور نیکی وتقویٰ کے کاموں میں کیلئے رکاوٹ ڈالنے اللہ نے اپنی ذات کے استعمال سے روکنے کے بعد بڑے مفصل انداز میں طلاق کا مسئلہ واضح کردیا ہے، سب سے پہلے یہ وضاحت کی ہے کہ لغو قسموں پر اللہ نہیں پکڑتا مگر دلوں کی کمائی پر پکڑتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی عورتوں سے نہ ملنے کی قسم کھائی ہو ان کیلئے چار کا انتظار ہے۔ اگر پھر آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ سنتا اور جانتا ہے۔ آیت میں خواتین کے حق کی وضاحت ہوئی ہے کہ چارماہ سے زیادہ انتظار کی زحمت نہیں دی جاسکتی ہے، طلاق دینے اور پڑنے کی چیزنہیں بلکہ علیحدگی کا عمل ہے۔ چار ماہ سے زیادہ انتظار تو بہت دور کی بات ہے اگر اس ناراضگی میں بھی پہلے سے طلاق (چھوڑنے ) کا عزم تھا تو اس دل کے گناہ پر اللہ کی گرفت ہوگی۔ اسلئے کہ طلاق کے اظہارکی صورت میں انتظار کی مدت کم ہے۔
پھر اللہ نے طلاق والی عورتوں کیلئے تین مرحلوں تک انتظار کا حکم دیا ہے، جسمیں شوہر ہی کو صلح کی شرط پر بیوی کو لوٹانے کا حقدار قرار دیا ہے۔ حدیث میں یہ مرحلے پاکی کے ایام اور حیض کے حوالہ سے واضح کئے گئے ہیں، میڈیکل سائنس کے علاوہ انسانی فطرت وعقل بھی ان مرحلوں کے ادراک سے آگاہ ہے۔ اللہ نے میاں بیوی کے یکساں حقوق اور شوہر ایک درجہ فضیلت دینے کو واضح کیا ہے اور اس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہوگی کہ شوہر چھوڑنے کا اعلان کردے اور بیوی عدت کا انتظار کرے؟، ان تین مراحل کے پسِ منظر میں تین مرتبہ طلاق کا تصور واضح ہے جس میں اللہ نے بار بار رجوع کی گنجائش کو عدت کی تکمیل سے واضح کیا ہے، سورۂ طلاق میں رجوع نہ کرنے کی صورت میں دوعادل گواہوں کا بھی ذکرہے، تاکہ عورت کے مالی معاملہ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کو نکاح کا پیغام بھی دینا چاہے تو دے سکے۔ قرآن نے بیوہ اور طلاق شدہ کے علاوہ اپنی صالح لونڈیوں اور غلاموں کے نکاح کرانے کا بھی حکم دیا ہے۔ ان احکام پر عمل اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب معاشرے میں عدت کے بعد عورت کا باقاعدہ دوسرے شوہر سے فارغ ہونا واضح ہو۔
قرآن میں اللہ نے جہاں ایک خاص صورتحال میں میاں بیوی کے درمیان باہوش وحواس علیحدگی جس میں فیصلے کرنے والوں کا بھی کردار ہو اور سب متفق ہوں کہ شوہر کی طرف سے دی گئی اشیاء میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں مگر جب سب کو یہ خدشہ ہو کہ کسی خاص چیز کو واپس کئے بغیر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو بیوی کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے اور شوہر کی طرف سے لینے میں دونوں پر حرج نہ ہوگا، یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرتا ہے تووہی لوگ ظالم ہیں اس مخصوص صورتحال میں علیحدگی یعنی طلاق کے بعد اس عورت کا پہلے سے نکاح اس وقت تک درست نہیں جب تک دوسرے سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ کاش علماء ومفتیان آیات پر غور کرکے اپنے فتوؤں پر نظر ثانی کردیں تو بات بن جائے۔

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

ہندو کے بارے میں مشہور تھا کہ ’’ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام‘‘، مودی سرکار نے اس کا بالکل الٹا نقشہ پیش کرتے ہوئے ایک ایسے موقع پر جب وزیراعظم نوازشریف نے کشمیر میں مظالم اور بھارتی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانی تھی، اس عین موقع پر مودی نے سر پر دوپٹہ باندھ کر دھوتی سے باہر آنے کی دھمکیاں دینی شروع کردیں۔ جب پاکستان کے دفاعی بجٹ کے برابر پاکستان سے بھارت پیسہ منتقل ہورہا ہے تو افواج پاکستان کے برابر مودی سرکار کو نوازحکومت کی فکر ضرور ہوگی اور جو کبوتر نوازشریف کی طرف سے مودی سرکار کے پاس پیغام لے کر گیا ہے یہ وہ منافقت کا کبوتر ہوسکتا ہے جو مودی سرکار نوازشریف کی نواسی کی شادی کے موقع پر ہی چھوڑ کر گیاہو، کچھ دن پہلے دبئی سے پاکستان لائے جانے والے جن کبوتروں کی خبر میڈیا کی زینت بنی تھی ان بھی بھارتی کبوتروں کی اسمگلنگ کا معاملہ ہوسکتاہے۔

Molana_Fazluپچھلے دنوں سندھ میں جمعیت علماء اسلام نے ڈاکٹر خالد سومرو شہید کے قاتلوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں کے سپرد کرنے کا مطالبہ کرنے کیلئے کراچی میں مظاہرہ کیا تو اس میں پچاس بسیں تھرپارکر جیسے قحط زدہ علاقے سے لانے کی بات جے یوآئی ف کورنگی کے ذمہ داروں مولانا سیدعالم انصاری وغیرہ نے دارالعلوم کراچی کے پاس اجلاس میں کیا، یہ سب نوازشریف ہی کی طرف سے خرچے کا اہتمام لگتاہے،یہ تو ہوسکتاہے کہ بلوچستان کے وزراء اپنی حرام کی کمائی سے جمعیت علماء اسلام ف کے جلسوں کو کامیاب کریں لیکن سندھ والوں کے پاس اتنی رقم نہیں ہے۔ یہ فوج کو اپنی قوت دکھانے کا مظاہرہ ہے، مفتی تقی عثمانی نے ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ کاساتھ دیا مگر اب اسحاق ڈار کیساتھ روابط کے نتیجے میں ترکی میں فوج کی ناکامی پر یکجہتی کا پیغام دیا گیا، مولانا فضل الرحمن نے دیر میں جلسہ کیا تو سعودیہ کی رقم کھا جانے اور قبائلی عوام کوان کی مرضی کے مطابق نظام دینے کی بات کی۔ جس نوازشریف سے پیسہ لیکر جلسہ کیا گیا اسی کیخلاف غلطی سے ’’گونواز گو‘‘ کے نعرے لگے تو جیو ٹی وی چینل نے دکھائے لیکن صحافیوں نے مولانا فضل الرحمن سے یہ سوال نہیں کیا کہ
قبائلی علاقوں کے کسی نمائندے کو حکومت نے اپنی کمیٹی میں شامل نہیں کیاہے تو اس سے بڑھ کر حکومت کا قبائل کیساتھ ظلم کیا ہوسکتاہے؟۔ مولانا فضل الرحمن اس کا یہی جواب دیتا کہ یہ سوال قبائلیوں کا حق بنتا ہے کہ اٹھائیں، میں تو قبائلی نہیں ہوں، سلیم صافی قبائلی ہیں وہ یہ سوال اٹھارہے ہیں یہ ان کا حق بنتاہے، البتہ یہ صحافیوں کا کام نہیں سیاستدانوں کا کام ہے، مسلم لیگ کے قبائلی رہنما تو یہ سوال اٹھانہیں رہے اور ہم ان کے اتحادی ہیں اسلئے ہم بھی نہیں اٹھارہے ہیں۔ تحریک انصاف والوں کو بات کرنے کاحق ہے لیکن حکومت سنے یا نہ سنے یہ حکومت کا حق ہے۔ میراکام تواپنی جیب بھرنا ہے ، باقی قبائلی بھاڑ میں جائیں، میں صرف شرارت کرکے اپنا پیسہ حلال کرسکتاہوں جو نوازشریف نے عنایت فرمایا ہے، اسکے بدلہ میں کہہ سکتا ہوں کہ فوج نے دہشت گردوں کیخلاف آپریشن نہیں کیا ہے بلکہ قبائلی عوام کیخلاف کیا ہے، جس سے قبائل اور نوازشریف دونوں خوش ہونگے اور فوج پر دباؤ بڑھ جائے گا۔
مولانافضل الرحمن سے سوال کیا جاتا کہ وزیراعظم نوازشریف نے عیدالفطر کو لندن میں پاکستان سے ایک دن پہلے سعودی عرب کیساتھ منایا اور عیدالاضحی کو اسکے بالکل برعکس امریکہ میں سعودیہ کے ایک دن پاکستان کیساتھ منایا، اس کی وجہ کیا تھی؟ مولانا فضل الرحمن فی البدیہ کہہ دیگا کہ مجھے نوازشریف کی وکالت کرنی ہے، اسلئے یہ راستے بنانے کیلئے مدلل شرعی مسائل بتانے پڑیں گے۔ جاویداحمد غامدی سے بھی یہ پوچھ لیا جائے تو وہ کہہ دینگے کہ یہ عوام اور علماء کی صوابدید کا مسئلہ نہیں ہے، یہ فیصلہ تو حکومت نے کرنا ہوتا ہے، لندن اور امریکہ میں جن کی حکمرانی ہے، اوباما وغیرہ ، عید کا فیصلہ وہاں انہوں نے ہی کرنا ہوتا ہے، لہٰذا نوازشریف نے عیدالفطر پاکستان سے ایک دن پہلے سعودیہ اور عیدالاضحی ایک دن بعد سعودیہ کے بعد پاکستان کیساتھ ٹھیک منائی۔ مفتی اعظم پاکستان بریلوی اور چیئرمین ہلال کمیٹی پاکستان مفتی منیب الرحمن اور مفتی اعظم پاکستان دیوبندی مفتی رفیع عثمانی بھی یہ فتویٰ دیں گے کہ مسئلہ یہی ہے اور پھر کسی اور کا فتویٰ نہیں چلے گا۔ اگر عمران خان بک بک کرے تو اس نے بھی اپنی صوبائی رویت کے مسئلہ میں حکومت کا جبر قبول کرلیا، پاکستان میں اتحاد سے عیدیں منائی گئیں۔ جب تک اقوام متحدہ کسی ملک کو تسلیم نہ کرے ، اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اقوام متحدہ میں مغربی ممالک خاص طور سے امریکہ کا بنیادی کردار ہے، ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ عالمی سطح پر امریکہ و برطانیہ نے ہماری عیدوں میں بھی دلچسپی لینی شروع کردی ہے، سودی نظام کو اسلامی بنانے میں بھی انہی کی مہربانی ہے اور اسلامی خلافت کے قیام کی کوشش بھی انہی کی مرہونِ منت ہوگی۔
پاکستان کے سابق صدرپرویزمشرف نے کہا کہ ’’ امریکہ نے ہمیں استعمال کیا اور ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے‘‘۔ یہ غلط بات ہے، پاکستان نے اپنی مجبوری اور مفاد کی خاطر امریکہ کا ساتھ دیاتھا، اب امریکہ کا مفاد بھارت کیساتھ ہے تو بھارت ہی کا ساتھ دے گا۔ ہمارے حکمرانوں میں سیاسی حکمت عملی کا فقدان ہے، کل توشریف براداران کو زرداری کے سوئس اکاونٹ کیخلاف آواز اٹھانے میں کوئی جمہوریت کے خلاف سازش نظر نہیں آتی تھی مگر آج پانامہ لیکس میں نوازشریف کی کمپنیوں پر سازش نظر آتی ہے۔ عدالت نے تو زرداری کو بھی گیارہ سال تک قید میں رکھنے کے باوجود کوئی سزا نہیں دی تھی۔ اگر شریف برادری کو پاکستان سے محبت ہے تو دنیا کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے پہلے اپنے بچوں کو دولت سمیت پاکستان لائیں۔
پاکستان کی میڈیا کو اگر جمہوریت کی حمایت ،اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت اور قانون کی حکمرانی کا خیال ہو تو 16سال بعد سپریم کورٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد کا جرم عدالت میں ثابت کردیا، یوسف رضاگیلانی کی طرح نوازشریف کو بھی نااہلی کی سزا دی جائے۔ عدلیہ بحالی تحریک سے زیادہ قانون کی حکمرانی کیلئے اس تحریک کی جان ہوگی،اسلئے افتخار چوہدری نے پہلے خود بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ عدالت کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر لاہور سے جی ٹی روڈ اور ساہیوال سے فیصل آبادکے راستے موٹروے، کوئٹہ سے ڈیرہ غازی خان کے راستے کراچی سے ملتان کے راستے اورپشاور سے اسلام آباد کیطرف ہلکا پھلکا مارچ کریں تو حکومت قانون کے سامنے گھٹنے ٹیکنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ لوڈشیڈنگ کاوعدہ حکومت نے پورانہ کیا۔ عمران خان کی تقریرپر کیبل آپریٹر کی کارستانیاں بھی رہیں۔

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

جیوٹی چینل پر سلیم صافی نے مشرق وسطیٰ کے مسائل کے ماہر سے انٹرویو کیا تو اس نے بتایا کہ القاعدہ اور داعش میں شدید اختلافات ہیں۔ القاعدہ کا نظریہ ہے کہ فی الحال عالمی خلافت کے قیام کیلئے عملی اقدام درست نہیں، افغانستان میں امارت اسلامی کے بعد جہادی سر گرمیاں جاری رکھی جاتیں تو عالمی قوتوں کو مشکلات سے دور چار کیا جاسکتا تھا، داعش مفاد پرست ہے جبکہ داعش کا مؤقف یہ ہے کہ’’ اسلامی خلافت کا قیام ایک شرعی فریضہ ہے، جس کیلئے قریش ہونا اور جسم کے اعضاء کا سالم ہونا بنیادی شرط ہے اور یہ دونوں شرائط امیرالمؤمنین ملا عمر میں نہیں پائی جاتی ہیں‘‘۔ القاعدہ، طالبان اور داعش کے آپس سمیت امت مسلمہ کے اختلافات کو سلجھانے کیلئے اغیار کی طرف دیکھنے کی بجائے اندرون خانہ مسلم علماء، دانشور اور ہماری ریاستوں کو باہمی طور سے مل بیٹھ کر حقائق کی طرف آنا ہوگا۔
اسماعیلی آغا خانی اور داؤدی بوہرہ کے اہل تشیع فرقوں نے اپنی جماعتوں اور ان کے سربراہوں کو امام زمانہ قرار دے رکھا ہے، اسلئے وہ تمام ممالک میں بہت خاموشی کیساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور کسی سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔ اہلحدیث سے کٹ جانی والی جماعت المسلین نے بھی اپنی جماعت اور اسکے امیر کا ایک تصور بنالیا ہے جو کراچی سے پاکستان بھرمیں اپنی سرگرمیاں جاری ہوئے ہیں، اہل تشیع کے امامیہ فرقے کے نزدیک احادیث میں بارہ خلفاءِ قریش کا ذکر ہے اور وہ انکے نزدیک حضرت علیؓ سے مہدی غائب تک بارہ ائمہ اہلبیت ہیں۔ جب تک ان کے نزدیک مہدی غائب کا ظہور نہیں ہوجاتا ، وہ اسلامی امارتوں کے قیام اور اجتہاد سے کام لیکر اپنے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں، ایران میں انکی جمہوری حکومت اور شام میں خاندانی بادشاہت ہے۔ دنیا بھر میں اہل تشیع کا یہ معروف فرقہ نہ صرف اپنے عقائد ومسلک بلکہ سیاسی اور جہادی جدوجہد میں بھی مصروفِ عمل ہے۔ صدام حسین عراق میں سنی حکمران تھے جس کا تختہ الٹ کر امریکہ نے وہاں شیعہ کوحکومت بنانے کا موقع فراہم کیا، اب امریکہ شام کے شیعہ حکمران حافظ بشار الاسد کو ہٹانے اور وہاں کسی سنی حکمران کو لانے کی تگ ودو میں ہے۔ حال ہی میں داعش کے نام پر امریکہ نے 60شامی فوجیوں کو بمباری کا نشانہ بناکر شہید کردیا اور پھر وضاحت کی کہ غلط فہمی میں یہ ہوا ہے۔ روس امریکہ کیخلاف تھوڑی بیان بازی کرلیتا ہے اور یہ بھی مسلم ریاستوں کے بھیگی بلی بن جانے کے مقابلہ میں غنیمت سے کم نہیں۔
روس کی فوجیں پاکستان میں پہلی بار ایسے موقع پر مشقیں کرنے آئی ہیں جب بھارت اور دنیا کشمیر کے مظالم سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پر دباؤ بڑھارہے ہیں۔ امریکہ سے کھربوں کی خریداری کا معاہدہ من موہن سنگھ نے کیا تھا، اسلحہ کی خریداری اور اس کا استعمال ہو یا پاکستان اور خطے سے کمائی کرکے بھارت کو اپنی قسطیں ادا کرنے ہوں، لگتا ہے کہ امریکہ نے بھارت کو مانیٹری کا فریضہ سونپ دیا ہے۔چین اور سعودی عرب سے دشمنی ایران ، افغانستان اور بھارت سے امریکہ کی دوستی بنے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟۔ باتوں سے بات نہیں بنے گی بلکہ ایک مضبوط اور مربوط لائحۂ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ تب پاکستان کی سلامتی خطرے سے باہر ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے ان معاشرتی مسائل کو پاکستان اٹھائے جن پر عالمِ اسلام میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔ افغانستان، ایران ، سعودی عرب، عرب امارات، کویت ،قطر عمان، مصر،سوڈان، لیبیا، شام، عراق ، یمن، ملائشیاء، انڈونیشاء،ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ اور تمام مسلم ممالک اور غیرمسلم ممالک بھارت ، امریکہ،لندن، فرانس، جرمنی ،روس وغیرہ سے علماء ومفتیان کے وفود کو پاکستان طلب کرکے خواتین کے حقوق اور خلع وطلاق کا مسئلہ سامنے رکھا جائے تو ایک یکجہتی کا انقلاب پیدا کرنے میں بالکل بھی کوئی مشکل نہ ہوگی۔پاکستان کے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان اور دانشوروں کو حکومت اور ریاست بلاکر اس کا تجربہ کرکے بھی دیکھ لے۔
نماز کے اوقات میں فرق اسلئے ہوتا ہے کہ کہیں دن تو کہیں رات ہوتی ہے لیکن پوری دنیا میں چاند ایک ہی ہے، اگر امریکہ اور پاکستان میں ایک دن میں روزہ اور عید کا تصور درست ہے تو پاکستان ، ایران اور سعودی عرب میں بھی ایک دن کا ہونا کوئی غلط، غیرشرعی اور غیرفطری بات نہیں۔ ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کو دن دھاڑے کچھ فاصلے پر بھینس نظر نہیں آتی تو ہلال کہاں سے نظر آئیگا۔ اگر یہی ہلال شرعی ہو، جو پاکستان میں دکھتا ہے ، ٹی وی چینلوں کی زینت بنتاہے ، کوئی نہیں بھی دیکھنا چاہے تو آسانی سے نظر آنے کیلئے تیار ہوتا ہے، بس خالی آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کی دیر ہوتی ہے تو پھر ایسے ہلال کو دیکھے کیلئے کمیٹی کا بوجھ سرکار کو اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ایک مرتبہ محکمہ موسمیات پاکستان نے اعلان کیا کہ کراچی میں چاند نظر آنے کا امکان ہے، اسلام آباد میں ابرآلود موسم کی وجہ سے بالکل نہیں تو میڈیا پر دکھایا جارہا تھا کہ مفتی منیب الرحمن کراچی سے اسلام آباد چاند دیکھنے پہنچے۔ وہاں بادلوں میں چاند تلاش کرنے کے مناظر دکھائے جارہے تھے۔
اتفاق سے مجھے اور اشرف میمن کو اسلام آباد کسی کام جانا پڑا تھا، ائرپورٹ پر یہ ہلال کمیٹی والے حضرات بھی مل گئے، ایک ہی جہاز میں ہماری ٹکٹیں تھیں۔اشرف میمن نے مفتی منیب الرحمن سے سوال جواب کئے۔ اشرف میمن نے کہا کہ اگر چاند یہاں اور سعودی عرب کا اوقات کی وجہ سے ایک دن کافرق ہے تو یہاں اور امریکہ میں اوقات کا زیادہ فرق ہے، پھر زیادہ دنوں کا فرق ہونا چاہیے ۔ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ’’یہ پاکستان ہے انجوائے کرو‘‘۔ یہ پرویزمشرف کے دور کی بات ہے۔ جب پوری دنیا میں چاند ایک ہے تو عالمی اسلامی خلافت ہو تو بھی ایک دن میں عید ہوگی ، پھر عالمی اسلامی خلافت کے قیام سے پہلے کیا عالم اسلام کی ریاستیں ایک دن کے روزے، عیدالفطر اور عیدالاضحی پر متفق نہیں ہوسکتے ہیں یا تمام ریاستوں کو مرغے پالنے کی شرعی نہیں سیاسی ضرورت ہے؟۔ صرف اقدام کی ضرورت ہے ورنہ یہ کوئی مشکل کام نہیں، جس سے عالم اسلام میں اتحاد کی ایک نئی روح دوڑے گی۔
احادیث میں مسلمانوں کی جماعت ، خلافت کے قیام اور امام زمانہ کو پہچاننے پر زور دیا گیا ہے، ایک وقت تک کا مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت پر احادیث کو فٹ کرتا تھا، جمعیت علماء اسلام کی ایک بڑی مرکزی علماء کانفرنس میں ان کا یہ خطاب بھی سینٹر مولانا صالح شاہ قریشی کے کزن مولانا نیاز محمد قریشی نے ’’آذان انقلاب‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا، میرے بھائی جمعیت علماء اسلام کے سابقہ مرکزی شوریٰ کے رکن اور مولانا مفتی محمودؒ و مولانا فضل الرحمن کے عقیدتمند پیر نثار شاہ نے کہا تھا کہ ’’میرا پندرہ سالہ مطالعہ ایک طرف اور مولانا فضل الرحمن کی یہ تقریر دوسری طرف تو اس کا وزن زیادہ ہے‘‘۔ جب میں اپنی کتاب ’’ اسلام اور اقتدار‘‘ میں ان احادیث کی وضاحت اور مولانا فضل الرحمن کی تردید کرتے ہوئے لکھا کہ’’ عاقل کیلئے اشارہ کافی ہے ‘‘ تو مولانا نے پھر اپنی جماعت کوان احادیث کا مصداق نہیں ٹھہرایا۔
ویسے تو علامہ اقبالؒ نے امامت کا مسئلہ بالکل حل کردیا ہے، تاہم امامت کے شرعی مسئلے پر عالمی کانفرنس بلائی جائے تو ہلال سے بڑھ کر سورج کی طرح سب ایک امام پر نہ صرف اتفاق ہوسکتا ہے بلکہ امت مسلمہ فتنوں اور فرقہ واریت کی زد سے بھی نکل سکتی ہے اور انسانیت کا بھی بھلا ہوسکتا ہے۔ شیعہ سنی خلفاء وائمہ پر اختلاف تاریخ میں ایسی حیثیت رکھتا ہے جیسے دن گزرنے کے بعد رات کو سایہ کی لیکروں پر جھگڑے کی فضاء کھڑی کی جائے لیکن اتحادواتفاق اور وحدت آج بھی ہوسکتی ہے۔

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

درباری ملاؤں اور علماءِ حق کے درمیان ہمیشہ سے بہت بڑا فاصلہ رہا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک طرف علماءِ حق نے اپنی استعداداورصلاحیت کے مطابق کسی بھی مصلحت کا لحاظ رکھتے ہوئے کلمۂ حق بلند کیا ہے، حق کی آواز اُٹھائی ہے ، دین اور ایمان کی پاسداری کی ہے تو دوسری طرف علماءِ سوء نے ہر دور میں باطل کا ساتھ دیکر اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں تاریخ کے ہر دور میں اپنا بدترین کردار ادا کیا ہے۔ اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں ہمیشہ مسلمان ریاستوں اور حکمرانوں نے ہی اپنے مفادات کے تحت اپنا کردار ادا کیا ہے اور علماءِ سوء نے درباری بن کر چند ٹکوں کی خاطر انکا ساتھ دیا ہے، علماء حق نے مزاحمت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ہر دور میں عتاب میں رہے ہیں لیکن جیت علماءِ سوء کی اسلئے رہی ہے کہ ریاست اور حکمران ان کیساتھ تھے اور یوں اسلام بتدریج ہردور میں نبیﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اجنبی بنتا گیا ہے۔
مسلکی اختلاف حق اور باطل کی بنیاد پر نہیں رہے ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ،حضرت امام شافعیؒ ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ ، حضرت امام جعفر صادقؒ ، امام اوزاعیؒ ، محدثینؒ ، امام ابن تیمیہؒ اور دیگر ائمہ مجتہدینؒ کے درمیان مسلکی اختلاف حق وباطل اورعلماء حق وعلماء سوء کا اختلاف ہرگز نہیں تھا۔آج مملکت خداداد پاکستان میں فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلاف میں عقائد ومسالک کو ماحول کے تناظر میں جس طرح دیکھا جاتا ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک حقائق کو نہ سمجھا جائے ،عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا اور اختلافات کے دلدل اور بیرونی سازشوں بدترین بھنور سے ہم نکل نہیں سکتے۔
اس مرتبہ عیدالاضحی کے موقع پر تین عیدیں منائی گئیں، اہل تشیع کے بوہری فرقہ نے سعودیہ عرب سے ایک دن پہلے عید کے اجتماعات منعقد کئے۔ دوسرے دن عالمِ اسلام کے سب سے بڑے اجتماع ’’حج‘‘ کے دوران سعودیہ اور عرب ممالک کی عید تھی اور تیسرے دن پاکستان اور دنیا بھر میں پاکستان کے مطابق امریکی صدر اوباما وغیرہ نے مسلمانوں کو عید منانے پر مبارکباد دی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایران، پاکستان اور امریکہ ، برطانیہ اور یورپ میں ایک عیدالاضحی ایک دن میں شرعی طور سے منائی جاتی ہے تو کیا عرب کیساتھ ایک دن میں عیدمنانا شریعت اور مسلک کیخلاف ہے یا اسکے پیچھے کوئی دوسرے عوامل ہیں؟۔ وزیراعظم نوازشریف نے عیدالفظرتو پاکستان سے ایک دن پہلے لندن میں سعودیہ کیساتھ منائی تھی اور عید الاضحی امریکہ میں سعودیہ کی بجائے ایک دن بعد پاکستان کیساتھ منائی۔آخر ایسا کیوں ہے؟۔
دوماہ دس دن بعد وزیراعظم نوازشریف کا عقیدہ و مسلک بدل گیا؟۔ یا یہ ایک اتفاق تھا اور یا پھر اسکے پیچھے معروضی حقائق کچھ اور ہیں؟۔ امریکی پارلیمنٹ نے بل منظور کیا کہ ’’ 9/11کا مقدمہ ورثاء کے مطالبہ پر سعودی حکومت پر چلایا جائے ‘‘۔ جس کو اوباما نے ویٹو کردیا، امریکی صدارتی امیداوار ڈونلڈ ٹرمپ کا تو ایجنڈہ ہی مسلمانوں کیخلاف ہے لیکن ہیلری کلنٹن نے بھی بالکل واضح کردیا کہ’’ اگر میں صدر ہوتی تو اس بل کو ویٹو نہ کرتی‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’’ اسامہ بن لادن کی طرح ابوبکر البغدادی کا پیچھا کرکے ہمیں ماردینا چاہیے تھا‘‘۔ اسامہ بن لادن پر سب سے پہلا حملہ بھی کروز میزائل کے ذریعہ سے صدرکلنٹن کے زمانے میں ہوا تھا، سعودی حکومت ، داعش اور دیگر معاملات کے حوالہ سے امریکہ کا متوقع لائحۂ عمل کیا ہے؟۔ اس کا اندازہ سعودیہ کے علماء کونسل کی طرف سے یہ فیصلہ کہ ’’ کسی مسلمان فرقے کو کافر قرار دینا جائز نہیں اور تکفیری لوگوں کی بھرپور مذمت ہے‘‘۔ اگرکہہ دیا جائے ’’دیر آید درست آید‘‘ تو بھی ٹھیک ہے مگر ایک عمر گزاردی انتظار انتظار کرتے۔
سعودیہ کی ریاست چاہتی تو یہ اقدام بہت پہلے ہوسکتا تھا۔ پہلے شیعہ سنی اور دیگر اختلافات کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ بھی کارفرما تھا، آج مسلم ریاستوں کے ڈھانچوں کو تباہ کرکے مسلمانوں کے بچے، بوڑھے، جوان، خواتین وحضرات کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ افغانستان، عراق ، لیبیا، سوڈان اور شام وغیرہ سے جو لوگ پناہ گزین بن کر تباہ وبرباد ہورہے ہیں، اس کا سب سے بڑا ذمہ دار امریکہ اور مسلمانوں کے داخلی مسلکانہ، فرقہ وارنہ اور نظریاتی اختلافات ہیں۔ شیعہ سنی،حنفی اہلحدیث اور دیوبندی بریلوی اختلافات کے علاوہ القاعدہ اور داعش کے اختلاف کو ختم کرنا وقت کا تقاضہ اور مسلمانوں اور انسانیت کے بہترین مفاد میں ہے۔موجودہ دور میں مسلم ریاستوں کے اصحابِ حل و عقد کا سب بڑا فرض یہ بنتا ہے کہ گماشتہ علماء سوء کو استعمال کرکے جتنا اب مزید اسلام کا حلیہ بگاڑنے کیلئے علماء سوء کو ٹشو پیپر کی طرح سے استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ علماء حق اور علماء سوء کے کردار کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے بجائے حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دیا جائے۔
موجودہ اسلامی بینکاری کو مفتی تقی عثمانی، مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اسلامی قرار دیا اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی ، احسن المدارس گلشن اقبال کراچی کے علماء و مفتیان سمیت دیگر علماء ومفتیان نے اس کو سود اور ناجائز قرار دیا ہے۔ پاکستان اور دیگر ملکوں کی ریاستی پالیسی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح آج کے دور میں بھی درباری علماء سوء کو سپورٹ کررہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی بڑی خبر اخبارات میں شہ سرخی بن کر عیدالاضحی کے دن سامنے آئی کہ ’’ اسٹیٹ بینک نے اسلامی بینکاری کو سود سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ درباری علماء سوء کے چہرے پر لگتا ہے کہ’’ ناک نہیں ہے، ورنہ کٹ جاتی، یہ اسٹیٹ بینک نے ان کی ناک پر مکا رسید کیا ہے ‘‘۔ وہ صرف اپنے معاوضہ کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ان کو عزت بھی کوئی چیز نہیں لگتی ہے۔
پہلے اسلامی بینکنگ نے حکومت سے اسلام آباد،لاہور موٹروےM”2 کی بجائے جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ کراچی سودی قرضہ پر لیا تھا، اب موٹروےM”2 کے بدلے امریکہ میں ایک ارب ڈالر اسلامی بانڈز کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سودی نظام کو اسلام کا نام دینے کی آخر ضرورت کیا ہے؟، جب انمیں کوئی فرق بھی نہیں ہے۔ ہماری شرعی عدالت سپریم کورٹ کے تابع ہے اور سودی نظام کو عالمی سطح پر اسلام کے نام سے سودی نظام کے تابع کرنے کی ضرورت کیا تھی،جبکہ یہ کسی بحران کے نتیجے میں بھی نہیں ہے، پھر کیوں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسلام کا حلیہ بگاڑا جارہاہے۔ یہ شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث کے مسائل نہیں بلکہ نام نہاد شیوخ الاسلام اور مفتیان اعظم اپنے مکروہ چہروں کو مسلکوں کا سہارا لیکر چھپانے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔
دارالعلوم کراچی سے شائع ہونے والی کتابوں میں شادی کے رسوم میں لفافہ کو سود، احادیث کے مطابق 70گناہ،70وبال اور70وعیدوں کے معاملات گنوا دئیے گئے ہیں ، جن میں کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ پورے کراچی کا ستیاناس ہے جو شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی سے یہ نہیں پوچھتا ہے کہ عوام پر شادی کے رسم میں لفافہ لینے دینے کے معاملہ پر اپنی ماں سے زنا کا فتویٰ لگانے والو! تم نے دنیا بھر میں سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیکر عوام سے بڑا گناہ نہیں کیا ؟۔ کیا کراچی کے دیگر دیوبندی مدارس کی کوئی اوقات نہیں ہے؟۔ جو سب مل کر تمہارے خلاف یک زباں و سربکف ہیں؟۔فرقہ پرستی کا نقاب کب تک اور کس طرح سے چلتا رہے گا، یہ سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔پہلے درباری مفتیان ہوا کرتے تھے اب مولانافضل الرحمن بھی درباری بن گئے ہیں۔

سیاسی جماعتوں سے کتوں کے ریلوں کی طرح عوام کیوں نفرت کرتی ہے؟

اگر ہماری سیاسی قیادت عوام سے ہوتی تو عوام کی حالت بھی بدل جاتی، عوام کی حالت بدلتی نہیں لیکن سیاسی قیادتوں، رہنماؤں اور انکے بچوں کی حالت ہی بدلتی رہی ہے۔ نوزشریف ، بھٹواور زرداری کے دوسرے بھی رشتہ دار ہیں کیا انکے بھی کاروبار ایسے چمک رہے ہیں،بچے ایسے دمک رہے ہیں یا یہ سیاست کا کرشمہ ہے کہ دونوں کا احوال ایکدوسرے سے بہت مختلف ہے؟۔نوازشریف کے بچوں میںآخر ایسی کونسی صلاحیت ہے کہ اپنے عزیز واقارب سے اتنا بڑا فاصلہ پیدا ہوا ؟ ،خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، دوسرے سیاسی رہنماؤں نے بھی سیاست کو تجارت سمجھ کر اسی جانب رخ کردیاہے۔ عمران خان نے سوچا کہ مولویوں کی طرح شریف برادران کا دروازہ کھٹکھٹاکر ہسپتال کیلئے بھیک مانگنے اور کنگلا رہنے سے بہتر سیاسی جماعت بنانا ہے۔ پہلے کوئی پوچھتا نہ تھا مگر جب اقتدار کی خوشبو آنے لگی تو وہ لوگ جو موقع کی تلاش میں سیاستدانوں کا جتھایا کتوں کا ریلا بننے پر آمادہ رہتے ہیں وہی پیچھے میدان میں کود جاتے ہیں۔
قرآن نے انسان کو راہ پر لگانے کیلئے گدھے اور کتے کی ٹھیک مثالیں دیں۔
شاہ محمود قریشی ، مخدوم جاوید ہاشمی وغیرہ کی اپنی حیثیت ، شخصیت ، قد کاٹھ، صلاحیت ،سیاسی خدمت اور نمایاں مقام بلاشبہ عمران خان کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کے حامل رہے مگر سیاسی جتھے میں شخصیت میں کمال کی بات نہیں ہوتی ، بس قیادت سے دلہنِ اقتدار کی خوشبو آنی چاہیے ، کتیا جو اورجیسی ہو، بڑے بڑے کتوں کو ریلے میں شامل ہونے کیلئے صرف مطلوبہ قیادت کا احساس ہوتا ہے۔وہ قد کاٹھ، رنگ نسل ،بوڑھی جوان، خصلت وکردار کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنے وقتی نفسانی خواہشات کے پیچھے چل کر ثابت کرتے ہیں کہ کتا آخربہت ہی کتا ہوتا ہے، دنیا کے ایسے طلبگار شخص کیلئے کتوں کی مثال قرآن میں زبردست ہے جن کو چھوڑ دیا جائے، تب بھی ہانپے اور بوجھ لاددیا جائے تب بھی ہانپے۔
ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف، آصف زرداری، جنرل ضیاء ، پرویزمشر ف سب کے دورِ اقتدار میں قیادتوں کے گرد اسلئے لوگ اکٹھے ہوجاتے تھے کہ لیلائے قیادت سے اقتدار کی خوشبو آجاتی تھی، چوہدری شجاعت، شیخ رشید اور چوہدری نثار نے کونسی اہلیت نوازشریف میں دیکھی ؟۔ جو کٹ کر دوسری قیادت کے ریلے میں شامل ہوا ،یا وقتی طور سے حالات برداشت کرکے بیٹھا رہا، اس کی بنیاد قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا بلکہ اپنے اپنے مفاد کا خیال تھا، شاہ محمود قریشی نے واضح طور سے ن لیگ کی قیادت اور عمران خان کے سامنے اپنے تقاضے رکھ لئے۔ شاہ محمود قریشی کو نوازشریف اپنے قریب رکھ لیتاتو ن لیگ میں ہی جاتا، وہ پہلے بھی مسلم لیگ میں تھا، مخدوم ہاشمی نے کہا تھا کہ ’’بے نظیر بھٹو کیخلاف جتنی گندی زباں وہ استعمال کرتا تھا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘۔ شاید شیخ رشید سے بھی بڑھ کر گالیاں دیتا ہوگا، پھر وہی جاویدہاشمی اور شاہ محمود قریشی جب عمران خان کی قیادت کے پیچھے اکٹھے ہوئے تو شاہ محمود قریشی نے نعرہ لگایا کہ ’’ اوپر اللہ نیچے بلا‘‘ جسکی جاوید ہاشمی نے تائید کردی پھر جاویدہاشمی نے جب تحریکِ انصاف سے راستہ جدا کیا تو اس بات کا اظہار کردیا کہ’’ روزِ اول سے یہ احساس تھا کہ کہاں پھنس گیا ہوں؟‘‘۔ جب شاہ محمود قریشی نے نعرے لگوائے کہ ’’باغی ہے یا داغی ہے‘‘ تو ہم نے لکھ دیا تھا کہ تحریکِ انصاف شاہ محمودقریشی سے عہد لکھوا دے کہ اگر تحریک انصاف کو اس نے چھوڑا تو یہ نعرہ نہ لگوائے گا کہ ’’ اوپر اللہ ، نیچے دلا‘‘۔پارٹی بدلنے پر کتوں کیلئے قیادت کی اہمیت کتیا جیسی رہتی ہے۔ نوازشریف اور ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ریلے میں تھے،آج بھی کندھے پر غارِ حرا چڑھانے کیلئے ایک تنومند خرم نواز گنڈہ پور آمادہ نہ ہوگا۔ نوازشریف نے طاہر القادری کو چڑھایا تھا، وجہ صلاحیت تھی یا ضعف الطالب والمطلوب؟ عاشق و معشوقہ آج ایکدوسرے کو بہت نیچ اور کھوٹی نظروں سے دیکھتے ہیں؟۔ عامر فرید کوریجہ کو ڈاکٹر طاہر القادری کو چھوڑنے پر گالیاں اور قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں؟۔ عامر کوریجہ ہی نہیں ڈاکٹر دلدار قادری مرکزی جنرل سیکرٹری منہاج القرآن، مفتی عبدالمجید اشرفی اور مولانا غلام دستگیر افغانی بھی چھوڑ گئے تھے۔کارکن نہ بدلنے کا دعویدار ڈاکٹرطاہرالقادری رہنماؤں کے بدل جانے کی کہانی کیوں بھول گیا؟۔
قائدانہ صلاحیت کی بات نہیں ہوتی بلکہ بڑے بڑے قد آور رہنما اقتدار کی بُو سونگھ کر ساتھ رہتے ہیں ، کتوں کے ریلے کا نام لینا بار بار اچھا نہیں لگتا لیکن قرآن کی آیت کا ورد کرنے سے ایمان کو تازگی ملتی ہے، مخصوص قسم کے لوگ سیاسی جماعتوں میں شامل ہوکر کسی نظریاتی اہمیت کیوجہ سے قیادتوں کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اقتدار کی خوشبو کتیا قیادت کے پیچھے لگنے کیلئے اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ نوازشریف کیساتھ اقتدار میں شامل لوگ ایکدوسرے سے بہ تکلف بول چال بھی نہیں رکھتے ۔ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ ایکدوسرے پر غرانے سے بھی نہیں کتراتے مگر ایک ریلے کا حصہ ہیں، میں نے لیہ میں تعلیم حاصل کی ہے ، وہاں رہنے کیوجہ سے رؤف کلاسرا مجھے کچھ زیادہ اچھے لگتے ہیں یا وہ باکردار اور نظریاتی صحافی ہیں ، بہرحال ان کو سننے سے دلچسپی ہے، وہ حق بات کہنے میں نتائج کی پرواہ نہیں کرتے، برے وقتوں میں لوگوں کی اچھائیاں سامنے لاتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کیخلاف چوہدری نثار نے کچھ بولا، تو جناب رؤف کلاسرا نے یاد دلادیا کہ ’’چوہدری نثار سے میں نے پوچھا تھا کہ کس سیاسی قائد کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہو؟، چوہدری نثار نے کہا کہ میں دو شخصیات کے کردار سے متاثر ہوں، ایک خان عبدالولی خان اور دوسرے محمود خان اچکزئی‘‘۔
چوہدری نثار نے کہا کہ’’ رؤف کلاسرا نے مجھ سے زبردستی سے انٹرویو لیا تھا یعنی میں انٹرویو دینا نہیں چاہتا تھا‘‘۔ یہ ممکن ہے کہ گاڑی یا سواری میں آدمی بیٹھنے پر آمادہ نہ ہومگر کوئی زبردستی کرکے بٹھا دے یا اصرار کرکے بیٹھنے پر مجبور کرے ،یہ ممکن نہیں کہ چوہدری نثار کے منہ میں رؤف کلاسرا نے عبدالولی خان اور محمود خان اچکزئی کو زبردستی ٹھونس دیا ہو۔ اوریہ حیرانگی کی بات بھی نہیں اسلئے کہ مسلم لیگ جنرل ضیاء کی آمریت کا پاجامہ ہے ،جمہوریت پسند چوہدری اعتزازاحسن کا نام تو نہیں لے سکتے تھے، پھر سوال کا جواب دیا جاتا کہ قمر الزمان کائرہ اور منظور وٹو کیساتھ مل کر سیاست کیسے کی جاتی؟۔زرداری نے ق لیگ کو قاتل لیگ قرار کہا اور چوہدری شجاعت و چوہدری پرویز الٰہی نے پیپلزپارٹی کی دشمنی میں نواز شریف کے ریلے میں شامل ہونا گوارا کیا تھا، مگر پھر چوہدری پرویزالٰہی راجہ پرویز اشرف کا نائب وزیراعظم بن گیا۔ شیخ رشید کو ن لیگ والے قبول نہیں کرتے تو وہ برملا کہتاہے کہ’’ کوئی بھی آئے مگر نواز شریف کااقتدارختم ہو‘‘۔بھلے عمران خان، طاہرالقادری، چوہدری شجاعت، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن ، بلاول یا کوئی بھی ہو، ریلے میں شامل ہونے کیلئے قیادت کی خوشبو اہم ہوتی ہے، قیادت کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔یہ حال اکثر سیاسی رہنماؤں اور خاندانوں کا ہے، دو سگے بھائی اسد عمراپوزیشن اور وفاقی وزیر زبیرحکومت کے ریلوں کا حصہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمن بدلتے حکومتی ریلے میں شامل رہتا ہے، افتخارچوہدری نے بھی اپنی جماعت بنالی ہے۔دوسری ادلتی بدلتی قیادتوں کا معاملہ تو کسی سے مخفی نہیں رہا ہے لیکن جب سے الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے اپنے رہنماؤں کی کُٹ لگوائی ہے اور پھر آہستہ آہستہ فضا بدل رہی ہے تو انکی حالت بھی دوسروں سے مختلف نہیں ، عوام کو اگر سب سے نجات ملے تو سب خوش ہونگے۔ فیصل واوڈا نے جماعت بدلنے پر سوال کاجواب دیا کہ ’’ سیاسی کارکن رہونگا‘‘۔ ایس ایس پی راؤ انوار نے پکڑ کر اچھا کیا۔ایسے لوگوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے جنہوں نے اقتدار کی دلہن بننے سے پہلے مایوں اور مہندی جتنی قربانی بھی نہ دی ہو،نظریہ نہ ہو،نوازشریف ، عمران خان، طاہر القادری اور مصطفی کمال جیسوں کو نچایا جاتا ہے اگراسٹیبلشمنٹ نے اس کھیل کو بند کردیا تو قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ سیاسی جماعتوں سے کتوں کے ریلوں کی طرح عوام کیوں نفرت کرتی ہے؟
اگر ہماری سیاسی قیادت عوام سے ہوتی تو عوام کی حالت بھی بدل جاتی، عوام کی حالت بدلتی نہیں لیکن سیاسی قیادتوں، رہنماؤں اور انکے بچوں کی حالت ہی بدلتی رہی ہے۔ نوزشریف ، بھٹواور زرداری کے دوسرے بھی رشتہ دار ہیں کیا انکے بھی کاروبار ایسے چمک رہے ہیں،بچے ایسے دمک رہے ہیں یا یہ سیاست کا کرشمہ ہے کہ دونوں کا احوال ایکدوسرے سے بہت مختلف ہے؟۔نوازشریف کے بچوں میںآخر ایسی کونسی صلاحیت ہے کہ اپنے عزیز واقارب سے اتنا بڑا فاصلہ پیدا ہوا ؟ ،خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، دوسرے سیاسی رہنماؤں نے بھی سیاست کو تجارت سمجھ کر اسی جانب رخ کردیاہے۔ عمران خان نے سوچا کہ مولویوں کی طرح شریف برادران کا دروازہ کھٹکھٹاکر ہسپتال کیلئے بھیک مانگنے اور کنگلا رہنے سے بہتر سیاسی جماعت بنانا ہے۔ پہلے کوئی پوچھتا نہ تھا مگر جب اقتدار کی خوشبو آنے لگی تو وہ لوگ جو موقع کی تلاش میں سیاستدانوں کا جتھایا کتوں کا ریلا بننے پر آمادہ رہتے ہیں وہی پیچھے میدان میں کود جاتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی ، مخدوم جاوید ہاشمی وغیرہ کی اپنی حیثیت ، شخصیت ، قد کاٹھ، صلاحیت ،سیاسی خدمت اور نمایاں مقام بلاشبہ عمران خان کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کے حامل رہے مگر سیاسی جتھے میں شخصیت میں کمال کی بات نہیں ہوتی ، بس قیادت سے دلہنِ اقتدار کی خوشبو آنی چاہیے ، کتیا جو اورجیسی ہو، بڑے بڑے کتوں کو ریلے میں شامل ہونے کیلئے صرف مطلوبہ قیادت کا احساس ہوتا ہے۔وہ قد کاٹھ، رنگ نسل ،بوڑھی جوان، خصلت وکردار کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنے وقتی نفسانی خواہشات کے پیچھے چل کر ثابت کرتے ہیں کہ کتا آخربہت ہی کتا ہوتا ہے، دنیا کے ایسے طلبگار شخص کیلئے کتوں کی مثال قرآن میں زبردست ہے جن کو چھوڑ دیا جائے، تب بھی ہانپے اور بوجھ لاددیا جائے تب بھی ہانپے۔
ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف، آصف زرداری، جنرل ضیاء ، پرویزمشر ف سب کے دورِ اقتدار میں قیادتوں کے گرد اسلئے لوگ اکٹھے ہوجاتے تھے کہ لیلائے قیادت سے اقتدار کی خوشبو آجاتی تھی، چوہدری شجاعت، شیخ رشید اور چوہدری نثار نے کونسی اہلیت نوازشریف میں دیکھی ؟۔ جو کٹ کر دوسری قیادت کے ریلے میں شامل ہوا ،یا وقتی طور سے حالات برداشت کرکے بیٹھا رہا، اس کی بنیاد قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا بلکہ اپنے اپنے مفاد کا خیال تھا، شاہ محمود قریشی نے واضح طور سے ن لیگ کی قیادت اور عمران خان کے سامنے اپنے تقاضے رکھ لئے۔ شاہ محمود قریشی کو نوازشریف اپنے قریب رکھ لیتاتو ن لیگ میں ہی جاتا، وہ پہلے بھی مسلم لیگ میں تھا، مخدوم ہاشمی نے کہا تھا کہ ’’بے نظیر بھٹو کیخلاف جتنی گندی زباں وہ استعمال کرتا تھا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘۔ شاید شیخ رشید سے بھی بڑھ کر گالیاں دیتا ہوگا، پھر وہی جاویدہاشمی اور شاہ محمود قریشی جب عمران خان کی قیادت کے پیچھے اکٹھے ہوئے تو شاہ محمود قریشی نے نعرہ لگایا کہ ’’ اوپر اللہ نیچے بلا‘‘ جسکی جاوید ہاشمی نے تائید کردی پھر جاویدہاشمی نے جب تحریکِ انصاف سے راستہ جدا کیا تو اس بات کا اظہار کردیا کہ’’ روزِ اول سے یہ احساس تھا کہ کہاں پھنس گیا ہوں؟‘‘۔ جب شاہ محمود قریشی نے نعرے لگوائے کہ ’’باغی ہے یا داغی ہے‘‘ تو ہم نے لکھ دیا تھا کہ تحریکِ انصاف شاہ محمودقریشی سے عہد لکھوا دے کہ اگر تحریک انصاف کو اس نے چھوڑا تو یہ نعرہ نہ لگوائے گا کہ ’’ اوپر اللہ ، نیچے دلا‘‘۔پارٹی بدلنے پر کتوں کیلئے قیادت کی اہمیت کتیا جیسی رہتی ہے۔ نوازشریف اور ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ریلے میں تھے،آج بھی کندھے پر غارِ حرا چڑھانے کیلئے ایک تنومند خرم نواز گنڈہ پور آمادہ نہ ہوگا۔ نوازشریف نے طاہر القادری کو چڑھایا تھا، وجہ صلاحیت تھی یا ضعف الطالب والمطلوب؟ عاشق و معشوقہ آج ایکدوسرے کو بہت نیچ اور کھوٹی نظروں سے دیکھتے ہیں؟۔ عامر فرید کوریجہ کو ڈاکٹر طاہر القادری کو چھوڑنے پر گالیاں اور قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں؟۔ عامر کوریجہ ہی نہیں ڈاکٹر دلدار قادری مرکزی جنرل سیکرٹری منہاج القرآن، مفتی عبدالمجید اشرفی اور مولانا غلام دستگیر افغانی بھی چھوڑ گئے تھے۔کارکن نہ بدلنے کا دعویدار ڈاکٹرطاہرالقادری رہنماؤں کے بدل جانے کی کہانی کیوں بھول گیا؟۔
قائدانہ صلاحیت کی بات نہیں ہوتی بلکہ بڑے بڑے قد آور رہنما اقتدار کی بُو سونگھ کر ساتھ رہتے ہیں ، کتوں کے ریلے کا نام لینا بار بار اچھا نہیں لگتا لیکن قرآن کی آیت کا ورد کرنے سے ایمان کو تازگی ملتی ہے، مخصوص قسم کے لوگ سیاسی جماعتوں میں شامل ہوکر کسی نظریاتی اہمیت کیوجہ سے قیادتوں کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اقتدار کی خوشبو کتیا قیادت کے پیچھے لگنے کیلئے اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ نوازشریف کیساتھ اقتدار میں شامل لوگ ایکدوسرے سے بہ تکلف بول چال بھی نہیں رکھتے ۔ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ ایکدوسرے پر غرانے سے بھی نہیں کتراتے مگر ایک ریلے کا حصہ ہیں، میں نے لیہ میں تعلیم حاصل کی ہے ، وہاں رہنے کیوجہ سے رؤف کلاسرا مجھے کچھ زیادہ اچھے لگتے ہیں یا وہ باکردار اور نظریاتی صحافی ہیں ، بہرحال ان کو سننے سے دلچسپی ہے، وہ حق بات کہنے میں نتائج کی پرواہ نہیں کرتے، برے وقتوں میں لوگوں کی اچھائیاں سامنے لاتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کیخلاف چوہدری نثار نے کچھ بولا، تو جناب رؤف کلاسرا نے یاد دلادیا کہ ’’چوہدری نثار سے میں نے پوچھا تھا کہ کس سیاسی قائد کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہو؟، چوہدری نثار نے کہا کہ میں دو شخصیات کے کردار سے متاثر ہوں، ایک خان عبدالولی خان اور دوسرے محمود خان اچکزئی‘‘۔
چوہدری نثار نے کہا کہ’’ رؤف کلاسرا نے مجھ سے زبردستی سے انٹرویو لیا تھا یعنی میں انٹرویو دینا نہیں چاہتا تھا‘‘۔ یہ ممکن ہے کہ گاڑی یا سواری میں آدمی بیٹھنے پر آمادہ نہ ہومگر کوئی زبردستی کرکے بٹھا دے یا اصرار کرکے بیٹھنے پر مجبور کرے ،یہ ممکن نہیں کہ چوہدری نثار کے منہ میں رؤف کلاسرا نے عبدالولی خان اور محمود خان اچکزئی کو زبردستی ٹھونس دیا ہو۔ اوریہ حیرانگی کی بات بھی نہیں اسلئے کہ مسلم لیگ جنرل ضیاء کی آمریت کا پاجامہ ہے ،جمہوریت پسند چوہدری اعتزازاحسن کا نام تو نہیں لے سکتے تھے، پھر سوال کا جواب دیا جاتا کہ قمر الزمان کائرہ اور منظور وٹو کیساتھ مل کر سیاست کیسے کی جاتی؟۔زرداری نے ق لیگ کو قاتل لیگ قرار کہا اور چوہدری شجاعت و چوہدری پرویز الٰہی نے پیپلزپارٹی کی دشمنی میں نواز شریف کے ریلے میں شامل ہونا گوارا کیا تھا، مگر پھر چوہدری پرویزالٰہی راجہ پرویز اشرف کا نائب وزیراعظم بن گیا۔ شیخ رشید کو ن لیگ والے قبول نہیں کرتے تو وہ برملا کہتاہے کہ’’ کوئی بھی آئے مگر نواز شریف کااقتدارختم ہو‘‘۔بھلے عمران خان، طاہرالقادری، چوہدری شجاعت، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن ، بلاول یا کوئی بھی ہو، ریلے میں شامل ہونے کیلئے قیادت کی خوشبو اہم ہوتی ہے، قیادت کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔یہ حال اکثر سیاسی رہنماؤں اور خاندانوں کا ہے، دو سگے بھائی اسد عمراپوزیشن اور وفاقی وزیر زبیرحکومت کے ریلوں کا حصہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمن بدلتے حکومتی ریلے میں شامل رہتا ہے، افتخارچوہدری نے بھی اپنی جماعت بنالی ہے۔دوسری ادلتی بدلتی قیادتوں کا معاملہ تو کسی سے مخفی نہیں رہا ہے لیکن جب سے الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے اپنے رہنماؤں کی کُٹ لگوائی ہے اور پھر آہستہ آہستہ فضا بدل رہی ہے تو انکی حالت بھی دوسروں سے مختلف نہیں ، عوام کو اگر سب سے نجات ملے تو سب خوش ہونگے۔ فیصل واوڈا نے جماعت بدلنے پر سوال کاجواب دیا کہ ’’ سیاسی کارکن رہونگا‘‘۔ ایس ایس پی راؤ انوار نے پکڑ کر اچھا کیا۔ایسے لوگوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے جنہوں نے اقتدار کی دلہن بننے سے پہلے مایوں اور مہندی جتنی قربانی بھی نہ دی ہو،نظریہ نہ ہو،نوازشریف ، عمران خان، طاہر القادری اور مصطفی کمال جیسوں کو نچایا جاتا ہے اگراسٹیبلشمنٹ نے اس کھیل کو بند کردیا تو قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔

بگڑے الطاف حسین کے سدھرنے کا راستہ کیا ہے؟

الطاف حسین کی جو باغیانہ ویڈیو دکھائی جارہی ہے اس میں وہ کہتا ہے کہ اللہ اور اسکے نبیﷺ کے نام پر یہ ملک انگریز نے دھوکے سے بنوایاتھا۔ پھر وہ پاکستان توڑنے کیلئے اسرائیل، بھارت اور امریکہ وغیرہ سے مدد لینے کی باتیں کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن لوگوں نے برصغیر کی آزادی کیلئے قربانیاں دی تھیں وہ تو تقسیم ہند اور آزادی کے بعد غدار ٹھہرے مگر ان کے وفادار سردار، نواب ، وڈیرے ، بیروکریٹ اور فوج اس ملک کے محبِ وطن قرار دئیے گئے۔ برطانیہ آج بھی ہمارا منہ چڑا رہا ہے کہ 70سال کی آزادی کے بعد بھی ہمارے بنائے گئے ادارے اور ان کی اولادیں تم پر حکمرانی کررہی ہیں۔ یہ مشہور بات ہے کہ گورے چلے گئے اور ان کی جگہ نااہل کالوں نے اقتدار سنبھالا ہے۔
الطاف حسین سیاستدانوں کیخلاف اس قسم کے درس وتدریس دیتا رہتا ہے اور اس میں وزن بھی ہے۔ یہ باتیں دوسرے بھی کرتے ہیں،البتہ یہ بہت ہوچکی ہیں، انگریز گیا، اب یہ ہمارا اپنا ملک ہے، اپنا نظام ہے، اسلام کو نافذ کرنے میں بھی بالکل دیر نہ لگتی مگراسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی طبقہ ہے، اس نے اسلام نہیں خود ساختہ غیرفطری فرقہ کا نام اسلام رکھ دیاہے جو کوئی اور بلاہے، جس دن علماء نے اسلام قبول کیا اور عوام کو فرقہ واریت کی لعنت سے نکالا تو اسلام رائج ہونے میں دیر نہ لگے گی۔ جب علماء اور مذہبی طبقہ اسلام نہیں چاہتا تو ریاستی اداروں کا یہ کام ہی نہیں ہے۔ اسلام معاشرے کے ہر چول کو سیدھا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
الطاف بھائی جان اور بہت لوگوں کے دل ودماغ میںیہ بات بیٹھی کہ مہاجرین بانیانِ پاکستان کی اولاد ہیں۔ ہوں گے مگر حقائق دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم قرار دیاہے توساتھ میں یہ بھی یاد دلایا کہ ’’ انسان کو منی کے قطرے سے پیدا کیا ہے‘‘۔ انسان اس حقیقت کا ادراک کرلے تو وہ احسن تقویم پر اترائے گانہیں،اپنی اوقات مشکل میں نہیں سہولت میں بھی یاد رہے گی۔
اصل بات یہ ہے کہ مہاجرین ہجرت نہ کرتے تو پاکستان کا ادھورا رہ جانا غلط فہمی ہے۔ جن علاقوں کی اکثریت نے پاکستان کو ووٹ دیا، ان کی وجہ سے پاکستان بنا، پاکستان پہلے بنا اور ہجرت بعد میں ہوئی، اسلئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مہاجروں کے آبا واجداد نے ہجرت کرکے پاکستان بنایا ہے۔پاکستان مہاجرین کیلئے بہترین پناہ گاہ تھا، پاکستان کے مہاجرین پر احسانات ہیں، جنرل راحیل شریف اور نوازشریف بھی مہاجر کی اولاد ہیں، عزت ، دولت ، شہرت اور اقتدار پاکستان کا کمال ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان بننے پر قربانیوں کا سامنا موجودہ مہاجرین کے آبا واجداد کو کرنا پڑا، خاندان تقسیم ہوگئے، راستے میں قافلے لٹ گئے، آبادیوں پر حملوں سے عوام کو نقصان پہنچا۔ تاہم اگر وہ اپنے پڑوسیوں کیساتھ بناکر رکھتے، اچھے انداز میں طرزِ زندگی گزارتے تو ان کیلئے اس طرح کی مشکلات کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا، بٹ کے رہے گا ہندوستان ، لے کے رہیں گے پاکستان کا نعرہ لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اب یہ غلطی دوبارہ دہرائی جائے کہ بٹ کے رہے گا پاکستان لے کے رہیں گے ۔۔۔ تو یہ غلطی کا ازالہ نہ ہوگابلکہ غلطی پر غلطی اسلئے ہوگی کہ کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا، اب سندھ کا دارالخلافہ ہے ، اسکو کاندھے پر اٹھاکے تو نہیں لائے تھے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں غریب مسلمان مہاجرین کو بڑے امیرقسم کے ہندؤں کی جائیدادوں کا مالک بنایا گیا، متحدہ ہندوستان میں بیوروکریسی اور دیگر شعبوں میں اتنی آسانی کیساتھ نوکریاں نہیں مل سکتی تھیں جتنی پاکستان میں ملی تھیں۔
میرا ایک دوست ہے جنکے والد صاحب ؒ سے بھی زبردست تعلق تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ ہندوستان میں شکار کرکے پرندوں کا کچا گوشت کھاتے تھے۔ آج بھارت کے مقابلہ میں مسلمان مہاجرین کی حالت ماشاء اللہ بہت بہتر ہے۔ ناسمجھ عوام کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کوئی بستر نہیں جو اٹھاکر لایا گیا ،کچھ کھویا نہیں پایاتھا، پاکستان پر نہیں پاکستان کا احسان ہے۔ بنگالی اردو کی وجہ سے دور ہوئے، مہاجرین نے بنگالیوں پر ریاست کیساتھ مل کر ظلم کیا۔ایم کیوایم کیساتھ ریاست نہ ملی ہوتی تو مسلمانوں کا سب سے بڑا شہر سب سے بڑی قتل گاہ نہ بنتا،ریاست نے اپنا خفیہ ہاتھ ہٹالیا تو سرِ عام کھلی بدمعاشی کرنے والوں کی عاجزی سب کو قابل رحم نظر آتی ہے۔محمودالرحمن کمیشن میں آرمی چیف یحییٰ خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کی علیحدگی کا ذمہ دار ٹھہرا یا گیا ہے۔
پاکستان آج اردو زباں سے جڑا ہوا ہے، اردو کو سرکاری اور دفتری زباں بنانے کیلئے سب سے پہلے متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے پختونخواہ میں اعلان کیا مگر پرویز مشرف کے سابقہ جگری یار چوہدری افتخار نے اس میں رکاوٹ ڈالی حالانکہ بیچارے کو خود بھی انگریزی لگتاہے کہ بالکل نہ آتی تھی۔ اگر یہ ملک اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے نام پر بنا ، الطاف بھائی جان کے آباو اجداد نے اسی وجہ سے یہاں ہجرت کی تھی تو کم ازکم موٹی موٹی باتوں کا خیال رکھنا پڑیگا۔ اللہ نے زمین میں خلیفہ پیدا کرنے کی بات فرمائی تو فرشتوں نے اعتراض کیا کہ کیا ان کو پیدا کروگے جو زمین میں فساد پھیلائیں اور خون بہائیں؟۔ اللہ نے فرمایا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ اللہ نے غصہ نہیں کیا کہ تم کون ہوتے ہو؟۔ بابر غوری نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تو الطاف بھائی نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو، جب میں نے مردہ باد کا نعرہ لگایا ہے۔ یہ طرز عمل اسلام اور مسلمانیت کے منافی ہے اور جب غزوہ احد میں بعض لوگوں نے سمجھا کہ رسول اللہﷺ کو شہید کیا گیا تو وہ بھاگے ، اللہ نے فرمایا: ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ رسل أفان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم ’’ اور محمد کیا ہیں؟ ، مگر ایک رسول ، بیشک آپؐ سے پہلے بھی رسول گزرچکے ہیں، اگر آپ فوت ہو جائیں یا شہید کردئیے جائیں تو تم کیا الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟‘‘۔
ایم کیوایم کا یہ نعرہ کہ منزل نہیں رہنما چاہیے، ایک انتہائی لغو بات ہے، نبیﷺ سے ایک خاتونؓ کے بارے میں سورۂ مجادلہ کے اندر اختلاف کا ذکر ہے۔ حضرت عمرؓ نے بدر کے قیدیوں اور دوسرے معاملات پر اختلاف کیا تھا، حدیث قرطاس کا واقعہ بھی مشہور ہے۔ الطاف بھائی جان کو کھل کر اعلان کرنا چاہیے کہ بابر غوری، فیصل سبز واری اور جن خواتین نے میری وجہ سے طیش میں آکر پولیس اور میڈیا پر حملہ کیا ان سب سے اور اپنے تمام عقیدتمندوں سے معافی مانگتا ہوں۔ پاکستان کے تمام وہ افراد جن کو جسمانی، ذہنی اور روحانی تکلیف پہنچی ہو، وہ معاف کردیں، مجھے پکایقین ہے کہ الطاف بھائی مصطفی کمال سے بڑھ کر روئیں گے ۔الطاف بھائی کامعاملہ بڑا نہیں ،قرآن وسنت سامنے ہو تو توبہ کرنے میں دیر نہ لگے ، بغاوت کرنے والے بھی جی حضوری کی سزا کھا رہے ہیں۔ جبراورکبر نہیں پیار محبت سے ہی اصلاح ممکن ہے۔
نوازشریف نے جلاوطنی میں الزام لگایا کہ زرداری کیخلاف مقدمات پر ISI نے مجبور کیا تھا۔ جس کا ذکر سہیل وڑائچ کی کتاب میں ہے۔ نوازشریف جسکے بھی مجرم ہوں وہ آسانی سے معافی مانگنے والے نہیں لگتے ہیں۔ کراچی کی اکثریت فوجی سپاہیوں کی طرح ہیں، ان کو آرڈر پر ہی لبیک کہنا آتا ہے۔ غریب آبادیاں قربانی کے عید میں بھی گوشت سے محروم ہوتی ہیں اور کھالیں جمع کرنے والے اگر غریبوں کو گوشت پہنچانے پر بھی لگادئیے جاتے اور کھالیں انہی کو دیدی جاتیں تو شاید زمین والوں پر رحم کرنے سے آسمان والا ہم پر بھی رحم کرتا۔ جنرل نیازی کے پیچھے انڈیا میں لوگ اتنے نہ پڑے ، جتنے ڈاکٹر فاروق ستار کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑگئے ہیں ۔ بعض صحافی توصحافت نہیں گدھوں کے سلوتری ہونے کے قابل لگتے ہیں۔ عتیق گیلانی