پوسٹ تلاش کریں

عبرت آموزتاریخی اور معروضی حقائق کو نظرا نداز نہ کریں

صلح حدیبیہ کے معاہدے پر صحابہ کرامؓ جذباتی ہورہے تھے لیکن رسول اللہﷺ نے اپنی صوابدید پر فراخ دلی کا مظاہرہ کرکے عالم انسانیت کو حوصلے کا زبردست سبق سکھایا، فتح مکہ کے موقع پر دشمن زیردست تھے مگر رسول اللہﷺ نے دشمن سردار ابوسفیانؓ کو عزت بخشی، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کاش ! نبی ﷺ کے پاس پہنچنے سے پہلے میرے ہاتھ لگ جاتا تو اسکی گردن اڑا دیتا، جب حضرت ابوبکرؓ کی خلافت قائم ہوئی تو حضرت ابوسفیانؓ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ ’’ ابوبکرؓ ایک کمزور قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے، اسکو مل کرہٹاتے ہیں، آپ خلیفہ بن جائیں، میں تمہاری مدد کرتا ہوں‘‘۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’ابھی تک تمہارے دل سے اسلام کی دشمنی نہیں نکلی ہے؟‘‘۔ حضرت عمرؓ نے امیرمعاویہؓ کی صلاحیت کی وجہ سے وہ ذمہ داری سپرد کردی ،جس پر پہلے سے ایک مکی صحابیؓ مأمور تھے، جن کو رسول اللہﷺ نے مقرر کیا تھا۔
حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل نے اسلام قبول کیا تو دل میں بھی باپ کی شکست پر خفا نہ ہوئے اور نہ اپنی اولاد میں دشمنی کا کوئی خواب چھوڑا، اسلئے کہ ابوجہل مردانہ وار لڑا اور بدر میں قتل ہوا، لڑنے میں کوئی مارا جائے یا دوسرے کو مار دے، اس میں عزت کی خرابی کا مسئلہ نہیں ہوتا ہے، اسکے برعکس ابوسفیانؓ کے قصے روایات کا حصہ ہیں، یزید نے بھی ضرور سنے ہونگے، اسلئے کربلا کے واقعہ کے باوجود اس کا دل ٹھنڈا نہ ہوا، اس کے علاوہ روایات میں اہلبیت کے مقابلے میں بھی سفیانی کا ذکر ہے ایک روایت میں تین سفیانی کے مقابلے میں تین مہدیوں کا ذکرہے۔
جنرل ایوب نے میر جعفر کے پوتے سکندر مرزاکو صدارت سے ہٹاکر بنگال کو علیحدہ کرنے کی بنیاد ڈالی، ذوالفقار علی بھٹو نے لسانیت کو ہوا دینے کی بنیاد رکھ دی ۔ جنرل ضیاء نے فرقہ واریت و لسانیت کی آبیاری کی، پرویزمشرف نے تناور درختوں کے پھل کھائے، دنیا نیوز کے اینکرکامران شاہدنے ایک پروگرام میں دکھایا کہ ISI ذوالفقار علی بھٹو کے مرنے پر اس کے ختنہ کی تصویر لے رہے تھے تاکہ اس کو ہندو اور کافر ثابت کیا جاسکے۔ یہ بھونڈی حرکت اس قائد عوام سے روا رکھی گئی جس نے بڑی تعداد میں انڈیا سے گرفتار فوج کو آزادی دلائی تھی اور کراچی میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی کا شاندار استقبال کروایا تھا۔ جنرل ضیاء کے سیاسی فرزند اور پاک فوج کے خود ساختہ رہبر صحافی ہارون الرشید میں قربانی کااتنا جذبہ تھا کہ کامران شاہد کو کہہ سکتے تھے کہ کیمرہ مین نے اصل میں انکے دماغ کا ایکسرے کیا ہے ، یہ ا سکے سر کی تصویر تھی، ہارون الرشید تو اب بھی کہے گا کہ’’ ختنہ سے کیا ہوتا ہے ،بھٹو تو ہندو تھا‘‘۔
کامران شاہد کے پروگرام میں جوابدہ کے افتخاراحمد نے جنرل راحیل شریف کی تعریف شروع کی تو ہارون الرشید کا فق چہرہ دیکھنے کے قابل تھا، عجیب قسم کی آہ بھی نکلی مگر جب افتخاراحمد نے کہا کہ جنرل راحیل کو توسیع نہیں لینی چاہیے تو ہارون کی جان میں جان آئی۔ شہبازشریف کامران کیانی کے ساتھ کرپشن کرپشن کھیلتا تھالیکن ہارون الرشید اور شریف برادران کو صرف زرداری کی کرپشن کا وایلا مچانا آتاتھا۔ اگر عوام کو شعور نہیں دیا گیا تو کینسر کی حیثیت رکھنے والے سیاستدان اور چاپلوس صحافی پاکستان کو ہر محاذ پرکافی اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائیں گے۔ جو صحافی ہیجڑوں کی طرح حرکات کرتے ہیں ان کی وجہ سے عوام میں کبھی شعور بیدار نہ ہوگا۔
جب جنرل نیازی مرحوم نے ہتھیار ڈال کرانڈیا کے سامنے پاکستان کی ناک کاٹ دی تو حکومت اور ریاست اس کو اپنے ملک میں لانے کی بجائے بھارت سے سیدھا کسی دوسرے ملک میں بھیج دیتے، کراچی میں استقبال کی بجائے چند ٹماٹر کے وار بچوں سے بھی کروادئیے جاتے تو عوام کا شعور اجاگر ہوتا۔جنرل نیازی کے استقبال کیلئے کراچی کے جو بے شعور عوام نکلے تھے ،یہی تو الطاف حسین کے مرید ہیں؟۔ آدھا ملک ڈبونے سے زیادہ کیا نشہ کے نعروں کا حساب ہوسکتا ہے؟۔جب ریاست شعور بڑھانے کا اہتمام کریگی پھر پیروں، فقیروں اور لیڈروں کے جھانسے میں بھی لوگ نہیں آئیں گے۔ صحافیوں نے پیسہ نہیں کھایا ہے تو کچھ اس طرح کا سوالنامہ مرتب کریں کہ ایم کیوایم کے لوگوں کو عدل واعتدال نظر آئے۔
طالبان نے پورے پاکستان میں قتل وغارتگری کا بازار گرم کرکے جی ایچ کیو، آئی ایس آئی ملتان، مہران کراچی سے لیکر کیا کچھ نہیں کیا؟۔ اس وقت پاکستان کا درد رکھنے والے وہ رہنما کہاں تھے جو ہاتھ میں تسبیح لیکراداکارہ کی طرح میک اپ کرکے سج دھج کر ٹاک شوز میں بیٹھتے ہیں؟۔ ڈاکٹر عامر لیاقت پر رحم آرہا تھاجب یہ منظر دکھایا جاتا تھا کہ صحافی اس کا چھلکا اتار رہے ہیں، اسی سے مجبور ہوکر اعلان کردیا کہ ’’میں نے سیاست چھوڑ دی ہے‘‘۔ اگر وہ اتنی بات کرتا کہ میں فوج اور ایم کیوایم کے درمیان دوریاں ختم کرنا چاہتا تھا لیکن یہ میرے بس میں نہیں،یہ میری اوقات نہیں کہ کردار ادا کرسکوں تو بہتر ہوتا۔ اس نے ایک آنکھ ایم کیوایم کے کارکنوں کو ماری کہ ’’ میں غدار ہوں، اپنی اوقات دیکھ لی، تمہارے لئے کام نہیں کرسکتا‘‘تو دوسری اسٹیبلشمنٹ کو ماری کہ ’’بول نہیں سکتا لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، ایم کیوایم الطاف کے بغیر چل نہیں سکتی اور رابطہ نہ رکھنا بس میں نہیں‘‘۔
اب تو لوگوں کو یقین ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت پر دباؤ پڑجائے کہ تم مذہب کا نام کیوں لیتے ہو؟۔ عالم آن لائن پروگرام کیوں کیا؟۔ تو بیگم نواز ش علی کی طرح خاتون کا کردار ادا کر کے بہترین ڈانس بھی دکھائے گا اور کہے گا کہ میں تو مذہب کو بھی اسی پیشے کی طرف ہی لارہا تھا۔ اگر صحافی اسکے پیچھے نہ پڑتے تو ایم کیوایم میں رہ کر اچھا کردار ادا کرسکتا تھا۔ خواجہ اظہار سے ترجمانی کی اس میں زیادہ صلاحیت ہے مگر صحافیوں نے اس کو نہ ادھر کا چھوڑا نہ ادھرکا، حالانکہ دونوں کو ضرورت تھی۔
نوازشریف نے بھارت میں جاکر کھلے عام اپنے فوج کی مخالفت کی تھی، کیا یہ رویہ الطاف حسین کی طرف سے اپنے کارکنوں میں نشہ سے دھت ہوکر بکواس کرنے سے کم ہے؟۔ عمران خان نے اسوقت جب ضرب عضب آپریشن ابتدائی مرحلہ میں تھا، دھرنے کے دوران کہا کہ ’’پنجاب پولیس کو ہم طالبان کے حوالہ کردینگے‘‘۔ حکیم اللہ محسود کی ویڈیو کلپ ’’سلیم صافی‘‘ نے جرگہ میں دکھائی تھی جب وہ قاضی حسین کو مسلمان نہیں قوم پرست قرار دے رہا تھا، اسلئے کہ امریکہ کے اتحادی افغان فوج اور پاک فوج میں تفریق کرنا اسلام نہیں قوم پرستی ہے لیکن طالبان قیادت سے شہباز اور چوہدری نثار کی ہمدردیاں کسی تعارف کی محتاج نہ تھیں۔ چوہدری نثار نے بار بار میڈیا پر اس بات کو دہرایا کہ پرویزمشرف چیف آف آرمی سٹاف تھے تو لندن میں الطاف بھائی کو مروانے کا منصوبہ بنارہے تھے مگر میں نے روکا کہ ریاست بدنام ہوگی۔
کراچی میں پولیس اور میڈیا پر ایم کیوایم کے کارکنوں نے حملہ کیا اور اسلام آباد میں دھرنے کے دوران پولیس کے افسر اور پی ٹی وی پر بھی حملہ کروایا گیا لیکن عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری پر انگلیاں نہیں اٹھائی گئیں۔ الطاف حسین کا دماغ بہت خراب ہے اسلئے اپنوں نے بھی اس سے دستبرداری کا اعلان کیا لیکن وہ سیاست میں نوازشریف ، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرح نہیں ۔ ڈاکٹر فاروق ستار کو دیکھ لیں ، جس کا شمار ایم کیوایم کے بانیوں میں ہوتا ہے، مشکل حالات میں متوازن فیصلے کرکے پاکستان میں سیاست کی نئی بنیاد رکھ دی ہے۔
اگر جنرل راحیل شریف الطاف حسین کو پیار سے پاکستان لائیں تو اس کو ایسا ہی ماحول مل جائیگا جس سے نہ صرف سندھ کے شہری علاقوں بلکہ پاکستان میں بھی نئے انداز کی سیاست کا آغاز ہوجائیگا۔ جب طالبان کو موقع دیا گیا تو ایم کیوایم کے قائد کو بھی ضرور یہ موقع ملنا چاہیے۔ امید ہے کہ مثبت تبدیلیاں اسکے ذریعہ آئیں گی۔عتیق گیلانی

ڈاکٹر فاروق ستار کا اظہار لاتعلقی ایم کیوایم کا سقوطِ ڈھاکہ

میری اس سقوطِ ڈھاکہ سے 2،3 دن پہلے ڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقات ہوئی اور ان کو مشورہ دیاکہ اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت کا فائدہ نہیں، بھوک ہڑتالی کیمپ ختم کرکے بڑے جلسے میں اعلان کریں کہ’’ جتنے ہمارے کارکنوں کو پکڑ لیا ہے، اتنے اور بھی گرفتار کرلیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں البتہ پورے ملک میں یہ تأثر ہے کہ پنجاب کا مخصوص علاقہ ،ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ ہے جس میں دوسروں کی نسبت امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔یوسف رضا گیلانی کا تعلق پیپلز پارٹی اور سرائیکی مرکز ملتان سے تھا تو اس کو صدر کیخلاف خط نہ لکھنے پر عدالت کی طرف سے سزا ہوئی اور نااہل قرار دئیے گئے مگر اصغر خان کیس میں نواز شریف مجرم ہے لیکن عدالت اس کو باقاعدہ سزا نہیں سناتی ہے کیا یہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی ، لاہور اور ملتان میں تفریق نہیں؟۔ سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کرینگے کہ نوازشریف اگر لاڈلہ نہیں اور تختِ لاہور امتیاز نہیں رکھتا ہے تو دونوں میں اتنا بڑا اور واضح فرق کیسا؟‘‘۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس ایم کیوایم جتنی طاقت نہیں، اس احتجاج سے بلوچستان، پختونخواہ، سندھ، سرائیکی بیلٹ کی ہمدردی ساتھ ہونگی۔ ایم کیوایم کی سیاست، کارکنوں اور ہمدردوں کا رُخ پلٹے گا، اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت کا ماحول بھی نہ رہیگا، کراچی کی عوام میں پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت ہے ، لیکن ڈاکٹر فاروق ستار نے بتایا کہ نوازشریف تسلی کراچکے ہیں کہ ہم آپ کیخلاف نہیں، فوج تمہیں نہیں چھوڑرہی ۔ 12مئی کے واقعہ میں پرویز مشرف کی ہم نے حمایت کی لیکن پتہ نہیں پھر قتل وغارت کا بازار گرم ہوا، ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہوا؟۔ پھر ساری سیاسی جماعتوں نے ہمارے خلاف متفقہ فیصلہ کیا کہ ہم سے وہ اتحاد نہیں کریں گے۔ اب پھر ہم استعمال ہوجائیں تو پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ بن جائیں۔ فرحت اللہ بابر نے سینٹ میں ہمارے حق میں آواز اُٹھائی، شاہ زیب خان زادہ نے بھی اس پر پروگرام کیا، نوازشریف میڈیا پر بھی خرچہ کررہا ہے اور فوج کی اکثریت کو بھی ہمنوا بنالیا ۔ ہماری بھی تسلی کرائی ہے تو ہم کیوں استعمال ہوں؟۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ بھی کہا کہ اگر ایک مرتبہ جنرل احسان کو الطاف بھائی کے پاس بھیج دیا جائے تو وہ بالکل بدل جائیں گے، پوری قوم نے دیکھا کہ وہ بار بار بدل جاتے ہیں، بس ذرا سی عزت اور پیار سے ہاتھ پھیرنے کی دیر ہے، میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ الطاف بھائی سب کچھ بھول جائیں گے، جو کریمنل ہیں انکی ہم خود بھی حمایت نہیں کررہے ہیں ، پرامن کراچی ہماری بھی چاہت ہے، جو بے گناہ ہیں انکے ساتھ زیادتی نہ ہو، ایسے مجرم جنہوں نے وہ جرم نہ بھی کیا جس میں سزا ہوئی لیکن دوسرے جرائم کئے ہوں تو بھی انکی سزا پر ہم احتجاج نہیں کررہے ہیں ہم صرف بے قصور لوگوں کیلئے آواز بلند کررہے ہیں، جن کو پہلے مارا جاچکا ہے پتہ ہے کہ میرے کواڈینیٹر کے قاتل کو سزا نہیں ہوسکتی، ہم آئندہ بے گناہوں کو بچانے کی فکر کررہے ہیں۔ یہ لڑائی ہماری خواہش پر نہیں ہے اور نہ ہمارے حق میں ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لڑائی ہمارے مفاد میں نہیں اور دوسرے اس کا فائدہ اٹھارہے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر فاروق ستار اچھے ہیں یا بُرے؟ ، وہ تو اسکے اعمال لکھنے والے فرشتوں کو معلوم ہوگا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے بہت دباؤ کے باوجود خود کوبڑی شخصیت ثابت کیاہے، بہتوں کواس دباؤکا سامنا کرنا پڑتاجسکا ڈاکٹر فاروق ستار نے سامنا کیا تو ان کی شلوار یں ایک لیٹر پیشاب،ایک کلو پوٹی اور ایک کلو گیس کی بدبو سے ٹاک شوز کی محفلوں کو کشت زعفران بنا دیتیں، مہاجرقوم اور ایم کیوایم کے حقیقی قائد ، رہبر اور رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے خود کو ثابت کیا۔ ایک مشکل ترین وقت کے کٹھن لمحات میں جس جرأت، بہادری، ثابت قدمی، تحمل وبربادی کا مظاہرہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کیا ہے، انکے حوصلے پر رشک آتا ہے، اگر دنیا کا بڑا انعام ’’نوبل‘‘ ہے جو ملالہ یوسف زئی کو آدھا ملا ہے تو ڈاکٹر فاروق ستار پورے انعام کے مستحق ہیں ۔
طالبان دہشت گردوں کا دور تھا تو میاں افتخار حسین نے اس سے زیادہ بہادری کا مظاہرہ کیا مگراسوقت کی اسٹیبلشمنٹ اور اسکے ہیجڑے چہیتے وطن وقوم سے محبت رکھنے والوں پر امریکی ایجنٹ کا الزام لگارہے تھے، جیوٹی وی چینل پر کیا کیا الزامات لگتے تھے، ہاتھ میں تسبیح لیکر صلواتین سناکرغلیل سے خواتین صحافیوں کو کنچے مارتے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف،وزیراعظم نوازشریف، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین ، میڈیا کے صحافیوں کو چاہیے کہ وہ سب مل کر ڈاکٹر فاروق ستار کیلئے نوبل انعام کا مطالبہ کریں۔ اس شخصیت نے ایک ساتھ ایم کیوایم کے کارکنوں کے سامنے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر الطاف حسین سے جو اعلانِ لاتعلقی کیا، الطاف حسین کی ناراضگی مول لی، کارکنوں کے اشتعال کو بالائے طاق رکھا، مغلظات بک کر بھونڈے پن سے اپنی جان کی امان نہ لی، بدترین میڈیا ٹرائیل کا بہترین انداز میں اپنے اعصاب پر قابو رکھ کرعدل وتوازن سے سامنا کیا، یہ قدرت کی بہت بڑی عطاء اور نوازش ہے۔اس موقع پر میں ڈاکٹر فاروق ستار کو دل کی اتاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، ان لوگوں کی بھرپور مذمت کرتا ہوں جو گیدڑ اور گدھ کی طرح موقع کا فائدہ اٹھاکر بزدلی سے اپنا شکار کھیلتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : الدین النصیحۃ ’’دین خیر خواہی کا نام ہے‘‘ ۔
دینِ اسلام انسانیت کا علمبردار ہے، جب حضرت سیدا لشہداء امیرحمزہؓ کو شہید کرکے کلیجا نکال کرچبایا گیا تو سرکارِ دوعالمﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں انکے 70 افراد سے یہی سلوک کروں گا‘‘۔صحابہؓ انتقام کے جذبے سے سرشار تھے ،اللہ نے فرمایا کہ ’’ کسی قوم کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ لے جائے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ‘‘ اور فرمایا کہ ’’ جتنا انہوں نے کیا ہے، اتنا تم بھی کرو،اور اگر معاف کردو، تویہ تمہارے لئے بہتر ہے، اور معاف ہی کردو، اور ان کو معاف کرنا بھی تمہارے بس میں نہیں، ہماری توفیق سے یہ ممکن ہے‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ حضرت امیرحمزہؓ کو شہید کرنے والے وحشیؓ کو ہدایت سے نوازا، کلیجہ چبانے والی ہندؓ کو بھی ہدایت کا تمغہ دیا، اس نے نبیﷺ سے عرض کیا کہ پہلے مجھے دنیا میں آپ سے زیادہ کسی سے نفرت نہ تھی اور آج آپ سے بڑھ کر محبوب چہرہ کسی کا بھی نہیں ۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ’’ سامنے کی طرف مت بیٹھو، تجھے دیکھ کر اپنے چچا امیر حمزہؓ شہید کا چہرہ یاد آتا ہے اور مجھے اذیت ملتی ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کی سیرت کو اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔
پیار اور انتقام کے جذبات کے پیچھے کار فرما عوامل کچھ بھی ہوسکتے ہیں، وحی کے نزول کا امکان نہیں، ہم نے قرآن و سنت کو مشعلِ راہ بناکر پاکستان سے مسلم اُمہ اور عالمِ انسانیت کی رہنمائی کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے، باصلاحیت قائدین، عوام ، فوج اور وسائل کی ہمارے پاس بالکل بھی کمی نہیں ۔الطاف بھائی کی باتوں کونظر انداز کریں، کل وہ پھر رو رو کر کشمیریوں کے حق میں دعائیں، بھارتی فوج کو بد دعائیں دیگا، پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے میں دیر نہ لگے گی۔ پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ لڑکر کشمیر کی آزادی اور دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے خود بنفسِ نفیس پاکستان آجائیگا۔ایم کیوایم سے لاتعلقی کا اعلان کرنیوالی ارم عظیم فاروقی نے خوب کہا کہ ’’ مجھے مصطفی کمال کو بھائی کہنے پر ایم کیوایم نے معطل کیا مگر میں ایک سیدزادی ہوں، خاندانی بیک گراؤنڈ رکھتی ہوں، بدتمیزی سے بات کرنے کی میری تربیت نہیں ہوئی ہے، میں ایم کیوایم چھوڑ چکی ہوں، دوبارہ واپس نہ آؤں گی، الطاف کو بھی بھائی ہی کہونگی، دوسری پارٹی میں شامل ہوکر خودکو پارٹیاں بدلنے والوں کی فہرست میں شا مل نہ کروں گی،میرے لئے پاکستان سب پر مقدم ہے‘‘۔ عتیق گیلانی

ایم کیوایم کو بحران سے نکالنے میں مدد کی ضرورت

ایک بہت بڑا طبقہ اسٹیبلشمنٹ اور ایم کیوایم کی مخاصمت سے فائدہ اٹھاکر بہت بڑی سازش میں مصروف ہے، پاکستان برطانیہ سے الطاف حسین کیخلاف کاروائی کا مطالبہ کرتا ہے تو برطانیہ کے کرتا دھرتا حکام کو ہنسی آتی ہوگی کہ جب ایم کیوایم کے کارکن کراچی میں خون کی ہولی کھیلتے تھے، اس وقت تو تمہاری اسٹیبلشمنٹ، حکمرانوں اور صحافیوں نے کچھ دباؤ ڈالنے کی بات نہیں کی، اب خالی مردہ باد کے نعرے لگانے پر اتنا طیش آگیاہے؟ اگر بالفرض برطانیہ نے الطاف حسین کو ملک بدر کرکے امریکہ بھیج دیا اور وہ امریکی شہری بن گئے تو جس طرح ریمنڈ ڈیوس نے عدلیہ ، اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی ومرکزی حکومتوں کے چہرے پر کالک مَل دی اور قتل کرکے امریکہ جانے میں کامیاب ہوا، اسی طرح امریکہ الطاف حسین کو کراچی میں کھڑا کردے ،چیلنج سے کہہ دے کہ یہ میرا شہری ہے اور اس کیساتھ زیادتی ہوئی تو میں فوجی اور USایڈ بند کردوں گا ، تو لوگ دیکھیں گے کہ ہمارا وہ غیرتمند طبقہ جو آج اس کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں کل یہی لوگ دُم اٹھا اُٹھاکر کہیں گے کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں الطاف بھائی آپ بہت اچھے ہیں، یہاں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں اور صحافیوں کو رویہ بدلنے کا زبردست تجربہ ہے۔ ایم کیوایم کے منحرف رہنماایک زندہ اور تابندہ مثال ہیں۔
جنرل راحیل شریف اور اسکی موجودہ ٹیم نے پاکستان کو بدلنے میں بڑی قربانی دی۔ طالبان، بلوچ قوم پرست، پنجابی فرقہ پرست اور کراچی لسانیت پرست دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور یقینااوندھی پڑی ریاست کی ٹوٹی ریڑھ کی ہڈی کو جوڑ کر کھڑا کیا ہے۔ پختونخواہ میں لوگ طالبان کے خلاف،بلوچستان میں قوم پرستوں، پنجاب میں فرقہ پرستوں اور کراچی میں الطاف حسین کے خلاف بول نہیں سکتے تھے۔ اپنے کرپٹ فوجی افسران کے خلاف بھی کاروائی کی ہے اسلئے کہ وہ خود کرپٹ نہیں ہیں۔ نواز شریف اور زرداری خود کرپٹ ہیں اور عمران خان بھی اپنے کرپٹ ساتھیوں کی بدولت وہ اسٹیٹس کو بنارہا ہے جس کو توڑنے کا دعویٰ کررہا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی اُٹھان نوازشریف کی بغل میں ہوئی اور پاک سر زمین پارٹی کی قیادت جس کی پروردہ ہے اسی کو گالیاں دے رہے ہیں۔
جنرل راحیل شریف سیاسی ذہنیت نہیں رکھتے ، وہ خالص پیشہ وارانہ خدمات پر توجہ دیکر قوم کی کشتی کو پار لگانے کی مخلصانہ کوشش کررہے ہیں، ان کو سیاسی حکمت عملی کا بھی مظاہرہ کرنا ہوگا، نوازشریف نے بے تحاشہ قرضے لیکر میڈیا کو اشتہارات کے ذریعہ رام کیا ہوا ہے، جب کوئی تابعدار جرنیل آئیگا تو میڈیا کو پیسہ نہیں طاقت کے ذریعہ رام کریگا۔ محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی میں شروع سے طالبان اور ایجنسیوں کیخلاف یہی بات کررہا ہے جو اس نے وکلاء کے سانحہ پر کی ، مولانا محمد خان شیرانی کا بھی شروع سے جو مؤقف تھا اس کود ہرایا ہے، جیواور جنگ نے اپنا مفاد سمجھ کر اس خبر کی ایسی تشہیر کی جیسے حامد میر کے زخمی کیے جانے پر ڈی جی ISI ظہیر الاسلام کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ یہی نہیں بلکہ ایبٹ آباد میں اسامہ کیخلاف امریکی آپریشن کے بعد جیو نیوز اور باقی چینلوں پر امریکہ کے سوال کو بہت اچھالا گیا کہ ’’پاکستان کی ایجنسیاں جرم میں ملوث ہیں یا نااہل ہیں؟۔‘‘ جسکے جواب میں ہم نے جیو سمیت تمام ٹی وی چینلوں کو مسیج کردیا کہ ’’ 9/11کاواقعہ امریکہ کے ملوث ہونے کی وجہ سے تھا، یا اس کی نااہلی تھی؟۔‘‘ جو بیشتر چینلوں نے اٹھایا اور اس کی وجہ سے امریکہ کا توپخانہ بند ہوا، دیکھا جائے کہ کس نے پاکستان کے دفاع کو کیوں ترجیح نہ دی تھی؟۔
ایم کیوایم نے اپوزیشن کے ٹی او آرز کمیٹی سے علیحدگی اختیار کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ واقعی نوازشریف نے ان کو کھڈے لائن لگانے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔ میں نے ڈاکٹر فاروق ستار سے یہ بھی کہا کہ’’ سیاسی جماعتیں آپکی ہمدرد نہیں‘‘ لیکن انہوں نے مجھے فوج کا نمائندہ سمجھ کر اپنے کام کو جاری رکھنے کو ترجیح دی، پھر وہ ہوا، جس کی میں نے پیش گوئی کردی تھی، اے آر وائی کے ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا تھا کہ ’’پانی نکالنے سے کنواں صاف نہ ہوگا جب تک کتا نہیں نکالا جائے‘‘۔ پھر پیمرا کے ذریعے ڈاکٹر شاہد مسعود کو ہی 45دن کی پابندی لگاکر نکالا گیا۔ ایم کیوایم نے بھی حکومت کی طرح اے آر وائی کو ہی نشانہ بنایا۔ پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر کو اپنے بھائی نصیراللہ بابر کی طرف سے کاروائیاں کراچی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں لگ رہی تھی اور اب انسانی حقوق پر آواز اٹھاکر ایم کیوایم کو کھڈے لائن لگایا۔
ایم کیوایم کیساتھ 1992ء کے آپریشن کے مقابلہ میں رینجرز کا رویہ کافی بہتر ہے،آج ایم کیوایم میں پہلے جیسی صلاحیت نہ رہی، اس کا بڑا کریڈٹ زرداری کو بھی جاتا ہے جس نے ایم کیوایم کو حکومت میں بار بار شامل کرکے اسکی ساکھ کوزبردست نقصان پہنچایا، جانثاروں میں وہ جان نہ رہی جو ایم کیو ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں کا خاصہ تھا۔ جیوو جنگ کا نامور صحافی حسن نثارکہتا تھا کہ ’’ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین واحد سیاسی قائد ہیں جو اپنے کارکنوں کو ٹیچر کی طرح تربیت دیتے ہیں، باقی تو ساری سیاسی قیادت اور کارکن کچرہ ہیں‘‘۔ کیا حسن نثار مؤقف بدلے تو ایم کیوایم کے کارکن عظیم دانشور قرار دیکر یقین کرینگے کہ حسن نثار زبردست تجزیہ نگارہیں؟۔ اسٹیبلشمنٹ نے ڈاکٹر فاروق ستار اور اسکی ٹیم کو موقع دیکر بہت اچھا کیا ہے، صحافیوں اور سیاستدانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ رینجرز کے جذبات کو ابھار کر ایم کیوایم کیخلاف اپنا ذاتی عناد نکال لیں، فوج کو بھڑکانے کی بجائے ایم کیوایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کی اصلاح کریں۔ ایم کیوایم کے بانی کو دھکیلنے کی بجائے علم ودانش کی نکیل ڈالیں۔
کراچی کے نومنتخب ناظم وسیم اختر نے بالکل درست کہا کہ ’’ مرد کے بچے ہو توپھر 12مئی کا مقدمہ پرویز مشرف پر چلاؤ‘‘۔ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز بلال اکبر کو بڑھکانے کیلئے میڈیا پر یہ بیان بار بار چلایا گیا، پرویزمشرف پر مقدمہ ہو یا نہ ہو لیکن ایم کیوایم کے دفاتر مسمار کردئیے گئے۔ وسیم اختر نے طعنہ اور طیش دلانے سے کام نہ لیا ہوتا تو وہ خود کو کیسے مرد کا بچہ سمجھتا؟۔ وسیم اختر کی بات درست ہے کہ یہ لوگ مرد کے بچے نہیں جو پرویز مشرف پر مقدمہ نہیں چلاتے۔ یہ حقیقت ہے کہ فوج کے جرنیل مرد نہیں ریاست کے بچے ہوتے ہیں ، ریاست مرد یا باپ نہیں ماں ہوتی ہے۔اس میں بھی شک نہیں کہ ایم کیوایم کے علاوہ کسی نے یہ نعرہ نہیں لگایا کہ ’’جس نے قائد کو بدلا ، اس نے باپ کو بدلا‘‘۔ اسلئے کوئی ایسی جماعت نہیں جسکے رہنما اور کارکن ویسے باپ اور مرد کے بچے ہوں مگر باپ کام سے ریٹارڈ ہوسکتا ہے۔
البتہ سوال یہ ہے کہ کیا مرد کا بچہ ایسا ہوتا ہے کہ پرویزمشرف اور لندن میں بیٹھے اپنے قائد کے کہنے پر12مئی کے واقعہ میں کردار ادا کرے اور پھر کہہ دے کہ مجھ پر سیاسی مقدمہ ہے؟ کیا ایسے مرد کے بچے سے ریاست ماں کا بچہ ہونا بہتر نہیں ہے؟۔ کیا مرد ایسا ہوتا ہے کہ خود لندن میں بیٹھ کر اپنے چاہنے والوں کی جان ، مال، عزت، سیاست اور سب کچھ کو داؤ پر لگادے؟۔ ایم کیوایم کے جذباتی کارکنوں کو میں تہہ دل سے سلام پیش کرتا ہوں جو یہ بات سوچنے پر بھی اس وقت تیار نہیں کہ الطاف بھائی کو بُرا کہیں۔یہ بڑے بے غیرت قسم کے لوگوں کی عادت ہوتی ہے جو کسی پر برا وقت آنے پر گرگٹ کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ویسے تو قرآن میں زبردستی سے کلمہ کفر کہنے پر بھی اللہ نے معافی کی گنجائش کا ذکر کیا ہے لیکن ڈاکٹر فاروق ستار نے ڈر سے نہیں بلکہ اپنی جان پر کھیل کر الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے ، کیونکہ جو جذباتی کارکن ہوتے ہیں ان میں سمجھ نہیں ہوتی ، اس کا کچھ بھی ردِ عمل آ سکتاتھا۔ اسلئے جذباتی کارکن ، ریاست اور صحافی ڈاکٹر فاروق ستار کو بہت رعایت دیں۔اتنا ان کو الطاف حسین کیخلاف مجبور کرنے سے ان کی اپنی بھی کوئی حیثیت نہ رہے گی۔ عتیق گیلانی

اسلام اور کمیونزم کے درمیان فاصلہ کیسے کم ہوسکتا ہے؟۔محترم لال خان ایک مؤثراور باکرادار شخصیت لگتے ہیں

معراج محمدخان نے پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کے علاوہ اپنی پارٹی بھی بنائی تھی لیکن وہ ایک کامیاب لیڈر اور ناکام سیاستدان تھے۔ محترم لال خان زیادہ بڑے اور قدآور شخصیت لگتے ہیں جو اپنے مضبوط نظریات کا بیباک انداز میں پرچار کرتے ہیں۔ میری بلوچ رہنمایوسف نسکندی مرحوم سے ملاقات ہوئی تھی جو پہلے تبلیغی جماعت سے والہانہ انداز میں وابستہ تھے اور پھر برگشتہ ہوکر کمیونسٹ بن گئے اور ہماری حمایت میں ایک بیان بھی دیا تھا۔ میں نے مذہب کے حوالہ سے اتنی بات سامنے رکھی کہ ایک آدمی پنج وقتہ نماز کسی لالچ کے بغیر پڑھ لے، زکوٰۃ دے اور دیگر عبادات روزے رکھے،حج وعمرہ کرے توکیا کسی جماعت ، کسی نظریے اور کسی تحریک کوایسے کارکن مل سکتے ہیں؟۔ ایک بلوچ یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ تازہ وضو کرکے نماز پڑھارہا ہو، اس کی ریح خارج ہوجائے اور پھر سب کے سامنے وضو ٹوٹ جانے میں انتہائی شرم محسوس کرکے بھی نماز چھوڑ دے؟ ، یہ مذہب کا کمال ہے کہ وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر نماز چھوڑ کر چلاجاتا ہے۔ میری باتوں سے یوسف نسکندی ؒ نے بھی اتفاق کیا اور پھر مجھے اپنے شاگرد سلیم اختر سے ملنے کا حوالہ دیا۔
سلیم اختر سے ملاقاتیں رہیں ان کا کہنا تھا کہ پہلے آپ سے ملاقات ہوجاتی تو میں اسلام چھوڑ کر کمیونسٹ نہ بنتا۔ ان کے ذریعہ امداد قاضی سے ملاقات کا پروگرام عاصم جمال کے ہاں بنا۔ پھر وہاں سے ایک چھوٹا سا کتابچہ ملا،جو کمیونزم سمجھنے کا ایک بنیادی قاعدہ تھا۔ اس کتابچے کا خلاصہ اور اس کی تردید پر میں نے ماہنامہ ضرب حق میں ایک مضمون لکھا۔ کتاب کا مصنف بیمار ہوگیا،اسلئے جواب نہیں لکھ سکتا تھا۔ سلیم اختر نے کہا کہ تمہاری باتوں کا جواب دینے کی صلاحیت صرف جنگ کے صحافی نجم الحسن عطاء میں ہے، چناچہ نجم الحسن عطاء نے تفصیل سے گھما پھرا کر تحریر لکھ دی، جسکے جواب میں ہم نے بھی کچھ لکھ دیا، آخر کار ان کہنا تھا کہ میرا دماغ بھی گھوم گیا۔ کمیونسٹوں کیساتھ مکالمے کی ضرورت ہے اور علماء ومفتیان کیساتھ بھی مکالمے کی ضرورت ہے، کمیونسٹوں نے معاشی نظام اور علماء ومفتیان نے اسلام کا بیڑا غرق کیا ہے، دونوں میں مخلص افرادکے خلوص پر شک نہیں مگر غلط بات پر اڑنابیکار ہے۔
شیخ الاسلام، مفتی اعظم اور بڑے القاب والوں نے سودی نظام کو اسلام کا نام دیا ہے تو پھر غیراسلامی آخر کیا ہے؟۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرامؑ کو مبعوث فرمایا، قرآن میں ان کی زبانی بار بار یہ کہلوایا : قل الاسئلکم علیہ اجرا ’’کہہ دو، اس پر میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا‘‘۔جب صوفیاء کرام نے اللہ اللہ کے ورد پر کوئی اجر نہیں مانگا تو عوام میں دین کی برکت سے خلوص آگیا۔ متقدمین علماء کی اجماعی رائے تھی کہ قرآن پڑھانے، نماز پڑھانے ، تبلیغِ دین پر معاوضہ جائز نہیں، اسلئے کہ حدیث میں منع کیا گیا تھا۔ پھر متأخرین علماء نے رائے قائم کرلی کہ دین کی تبلیغ، قرآن پڑھانے اور نماز پڑھانے وغیرہ پر معاوضہ جائز ہے۔
بعد ازآں مذہب نے پیشہ کی صورت اختیار کرلی۔اب آج اگر دین کو بطور پیشہ کے استعمال نہ کیا جائے تو دین کے نام پر مدارس اور بہت سی رونقیں ختم ہوجائیں گی اوراس میں شک کی گنجائش نہیں کہ مدارس کو پیشہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، حد تو یہ ہے کہ حلالہ کی لعنت بھی پیشہ بن گئی، سود کامعاوضہ بھی پیشہ ہے، طلاق کا فتویٰ بھی پیشہ ہے،قرآن خوانی بھی پیشہ ہے، طلبہ کی تعداد،مدرسہ کی رونق بھی پیشہ،اہتمام بھی پیشہ، تدریس بھی پیشہ اور چندہ بھی پیشہ۔ کوئی سکول و کالج اشتہار اسلئے شائع کرتاہے کہ وہ تعلیم کوبطورِ پیشہ استعمال کرتا ہے اس کا مالک خوب کماتا ہے مگر مدرسہ کا بھی یہی حال ہوتا ہے، اشتہارات کی ضرورت ہوتی ہے تو لکھا جاتا ہے کہ ’’داخلہ جاری ہے، قیام ، طعام، ماہانہ مفت معقول وظیفہ، مفت علاج معالجہ اور قابل مدرسین کی خدمات فلاں درجہ تعلیم کی سہولت موجود ہے‘‘ ،دوسری طرف طلبہ کی تعداد،مدرسین کی تنخواہیں اور اخراجات پورا کرنے کیلئے چندے کی ضرورت پر ایسازور دیا جاتا ہے،جیسا اللہ کہیں لٹ گیا ہو،طلبہ بھوک سے مرر رہے ہوں،اساتذہ نڈھال اورمہتمم بدحال ہو۔
پہلے سکول کالج میں امیرزادے پڑھتے تھے اور مدارس میں غریب غرباء لیکن اب مدارس کے منافع بخش کاروبارنے غریبوں کو بھی امیر بنانا شروع کردیا اور پیسے والے لوگ بھی بچوں کے اچھے مستقبل کیلئے مدارس کارُخ کررہے ہیں اور مدارس کے مہتمم کے بچے اچھے اچھے سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاسؒ نے تبلیغ کے کام کی بنیاد اس بات پر رکھی کہ چندہ نہ ہو،لوگ اپنی جان، اپنامال اور وقت اللہ کی راہ میں خرچ کریں لیکن جماعت پر سود خور قسم کے لوگ قابض ہوگئے جو پہلے دیسی طریقے سے حیلے کرکے سودی کاروبار میں ملوث تھے اور اب مفتی محمد تقی عثمانی کے فتوے کے سہارے پر سودی کاروبار کی ترویج کررہے ہیں ، مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے بھائی مولاناصوفی عبدالحمیدصاحب نے اپنی کتاب ’’مو لانا عبیداللہ سندھیؒ کے علوم وافکار‘‘ میں بہت پہلے ان کا یہ نقشہ کھینچا تھاکہ ’’منافع خور سمگلر قسم کی ذہنیت کے لوگوں کااس جماعت پرقبضہ ہوگیا ہے‘‘۔
جنرل راحیل شریف ضربِ عضب میں دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے ہیں مگر یہ معلوم ہے کہ تبلیغی جماعت دہشت گردوں کی سب سے بڑی سہولت کار ہے، جب آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ ہوا تھا تب بھی جماعت کے افراد اس ذہن سازی میں مشغول تھے کہ ’’ دہشت گردوں نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے‘‘۔ جماعت کے لوگوں کو باقاعدہ منافقت کی زبردست ٹریننگ دی جاتی ہے کہ کس کس طرح پینترے بدلتے رہنے کا نام حکمت ہے، علماء کے خلاف یہ زہر اگلتے ہیں لیکن علماء کے اکرام کی بھی تعلیم دیتے ہیں، بدترین قسم کی فرقہ وارانہ اور متعصبانہ ذہنیت کی آبیاری کرتے ہیں اور بات اتفاق واتحاد اور عدمِ منافرت اور فرقہ واریت کی مخالفت کی کرتے ہیں۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ بہت لوگوں میں اچھا جذبہ اور اخلاص بھی ہے لیکن اچھا جذبہ اور خلوص خوارج میں بھی تھا اور موجودہ دور کی خارجیت کی تمام نشانیاں بدرجہ اتم ان میں موجود ہیں۔
بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگ صوفیت کے علمبردار تھے،وہابی اور دیوبندی مکتبۂ فکر کی تجدیدِ دین کیخلاف ردِ عمل کے طور پر ان میں تعصب اور منافرت کی کیفیت پیدا ہوئی ہے، تبلیغی جماعت میں لگے ہوئے پنجاب کے 80%سے لوگ بریلوی مکتب سے تعلق رکھتے تھے۔ وزیرستان کے پہاڑوں میں محسود اوردامان(دامن) میں بیٹنی قوم تبلیغی جماعت کوپہلے نئے دین کے علمبردار سمجھتے اور سخت مخالفت کرتے تھے۔ پھر یہ سلسلہ اتنا بڑھ گیا کہ عوام نے سمجھا کہ ہم اور ہمارے آبا واجداد پہلے دین سے عاری تھے اور تبلیغی جماعت نے نماز، وضو، غسل اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا ہے، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ مذہبی لبادے، حلیے اور مذہب کی زبان میں گفتگو تبلیغی جماعت ہی کی مرہونِ منت ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ حقیقت میں ہم خلوص سے بھی گئے اور غسل، نماز وغیرہ کے فرائض و مسائل کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
لطیفہ ہے کہ گاؤں والوں کو کچھوا مل گیااور وہ اس کو پہچانتے نہ تھے، اپنے سردار کے پاس لائے کہ یہ کیا ہے؟،سردار جی اسے دیکھ کر پہلے روئے ، پھر ہنسے ،پوچھاگیا کہ روئے اور ہنسے کیوں؟، سردارجی نے کہا کہ ہنسا تو اسلئے کہ تم لوگ کتنے نالائق ہو، اس کا پتہ نہیں، رویا اسلئے کہ مجھے خود بھی پتہ نہیں کہ یہ کیا ہے۔ اب یہ ہے کہ اس کے آگے گندم کے دانے ڈالو، اگر اس نے کھالیا تو یہ کبوتر ہے اور نہیں کھائے تو پھر جو بلا بھی ہے سو ہے۔اللہ کی قسم ! کہ مذہبی طبقات نے دین کا وہ حشر کیا ہے جسکا عکس اس لطیفے میں موجود ہے۔ شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی اور حنفی اہلحدیث دوسروں کے حال پر ہنسنا شروع کردیں گے اور اپنے حال پررونا شروع کردیں گے۔انکے ہوشیار اور بڑے علماء کا حال اس لطیفے میں مذکور اس سردار جی سے مختلف نہ پائیں گے جو دین کا تصور شناخت کیلئے اتنا رکھتے ہیں کہ جیسے سردار جی نے کہا کہ کچھوا کے سامنے گندم کا دانہ ڈال دو ، کھالیا تو کبوتر ہے اور نہیں کھایا تو جو بلا بھی ہے سو ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا شیرانی کے بارے میں مفتی کفایت اللہ نے ایک میڈیاچینل پر کہا کہ’’ اس وقت روئے زمین پر شیرانی صاحب جتنا بڑا عالم کوئی نہیں ہے‘‘۔ ایک مرتبہ مولانا شیرانی صاحب کے پاس پہنچا تو وہاں مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن بھی بیٹھے ہوئے تھے، پاکستان کے بارے میں مولانا صاحبان ایسی گفتگو کررہے تھے جیسے کچھوا سے ناواقف سردارجی کی روح ان میں بول رہی ہو کہ ’’پاکستان ایک عجب الخلقت ریاست ہے‘‘۔نووارد کی طرح مجھے دیکھ کر پوچھنے لگے کہ تمہارا پاکستان کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔
موقع کو غنیمت سمجھ کر میں نے پہلے قرآن سے کتاب کی تعریف بتائی کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ الذین یکتبون الکتاب بایدیھم ’’وہ لوگ جو کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں‘‘۔ یعنی کتاب ہاتھ سے تحریر کی جانے والی چیز کا نام ہے۔ پھر کتاب کی تقدیس کا ذکر کیا: والقلم ومایسطرون’’ قسم ہے قلم کی اور جوسطروں میں ہے‘‘ ۔ ذٰلک الکتاب لاریبہ فیہ ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شائبہ تک نہیں ہے‘‘۔اللہ کی پہلی وحی میں علّم بالقلم’’قلم کے ذریعہ سکھایا‘‘ کا ذکر ہے، مگر علماء درسِ نظامی کی تعلیم میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ مصحف ( کتابی شکل میں) قرآن اللہ کی کتاب نہیں۔اس پر حلف بھی نہیں ہوتا، اس کی ابتداء بسم اللہ بھی مشکوک ہے، جب تم لوگ اللہ کی کتاب کی تعریف میں اس قدر کھلی بددیانتی اور غلط فہمی میں مبتلا ہو تو پاکستان پر کیا بحث کروگے؟، مولانا عطاء الرحمن نے پشتو کی کہاوت سنائی کہ ’’بھوکا روٹی کیلئے بدحال تھا توکسی نے کہا کہ پھر وہ پراٹھے کیوں نہیں کھاتا‘‘۔ ہم پاکستان کی بات کر رہے تھے اور یہ اپنے مطلب کی بات کرگیا۔
یہ اس جماعت کا حال ہے جو ’’کتاب کے نشان پرالیکشن میں حصہ لیتی ہے اور الیکشن میں آیت کا حوالہ دیتی ہے کہ یایحیےٰ خذ الکتاب بقوۃ ’’اے یحیےٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑلو‘‘۔جو ریاست میں حصہ دار بننے کیلئے ہمہ وقت بیتاب اور کوشاں رہتی ہے۔ کتاب کو پکڑنے کی بجائے کتاب کے ذریعہ سے ریاست سے قوت حاصل کرتی ہے۔ عمران خان کے رہبر مفتی محمد سعیدخان نے بھی اپنی کتاب ’’ریزہ الماس‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ جس طرح قرآن میں ضرورت کے طور سے خنزیر کا گوشت کھانا جائز ہے، اسطرح کچھ شرائط کیساتھ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ خنزیر کا گوشت جسم کا حصہ بن جاتا ہے جبکہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھا جائے تو جسم کا حصہ نہیں بنتا‘‘ ( یعنی قرآن کی بات فقہ حنفی سے زیادہ بدتر ہے نعوذ باللہ) جن فقہاء صاحبِ ھدایہ کی کتاب تجنیس، فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ شامیہ میں لکھا ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘۔ تو وہ تحریری شکل میں اس کو اللہ کا کلام بھی نہیں مانتے تھے اور موجودہ دور کے اُلو کے پٹھے تو یہ بھی نہیں سمجھتے کہ یہ جو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ ’’ مصحف تحریری شکل میں اللہ کی کتاب نہیں، یہ محض نقوش ہیں جولفظ ہیں اور نہ معنیٰ‘‘۔ (نورالانوار: ملاجیونؒ )۔ اس کا معنیٰ کیا ہے، کچھوے والے لطیفے میں جو معقولیت ہے ان میں اتنی بھی ہوتی تو کسی نتیجے پر پہنچتے۔ یہ تو پڑھتے ، پڑھاتے جارہے ہیں اور اتنی خبر بھی نہیں کہ اس سے وہ بالکل جاہل ہیں مگر انہوں نے توپیٹ پوچا کرنی ہے، بیوی بچے یا اپنی عزت پالنی ہے اور کیا کرنا ہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ سے قرآن میں فرمایا: ولاتنکحوا مانکح اٰباکم من النساء الا ما قد سلف ’’اور تم نکاح مت کرو جن عورتوں سے تمہارے آبا نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے ہوچکا‘‘۔ حنفی مکتبۂ فکر یہ تعلیم دیتے ہیں کہ حقیقی معنیٰ موجود ہو تو مجاز پر عمل نہیں ہوسکتا ۔ ابا کے اصل معنی باپ ہیں اور مجازی طور پر اسکا اطلاق دادا پر بھی ہوتاہے۔قرآن کی اس آیت میں دادا کی منکوحہ عورتیں مراد نہیں ہوسکتیں، ان کی حرمت ہم اجماع سے ثابت کرتے ہیں۔ نکاح کے اصل معنی ملنے کے ہیں اور یہاں شرعی عقد نکاح مراد نہیں بلکہ زنا بھی نکاح ہے۔ اگر غلطی سے نیند میں شہوت کا ہاتھ کسی محرم پر لگ گیا تو یہ بھی نکاح ہے ،اس کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت ہوگی اور بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گی اور اگر ساس کی شرم گاہ کو باہر سے شہوت کیساتھ دیکھا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی اسلئے کہ وہ معذور ہوگا لیکن اگر ساس کی شرم گاہ کو اندر سے شہوت کیساتھ دیکھا تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگی اور بیوی کو شوہر پر حرام ہونے کا فتویٰ دیا جائیگا۔(نورالانوار: ملاجیونؒ )۔
اگر کچھواگندم کھائے اور اس کو کبوتر کہا جائے توبات اتنی غلط نہ ہوگی جتنا علماء نے درسِ نظامی کے نصاب میں اسلام کا حال کیاہے ۔اللہ نے باربار قرآن میں طلاق کے بعد معروف طریقہ سے رجوع کی وضاحت کی ہے۔ شافیوں کے نزدیک نیت رجوع کیلئے شرط ہے،نیت کے بغیر مباشرت کرنا بھی رجوع نہیں۔ حنفی مسلک میں نیت شرط نہیں، شہوت سے نظر لگ جائے تو بھی طوعاً وکرھاً رجوع ہے اور نیند میں شہوت سے لگ جائے تو بھی رجوع ہے اور شہوت کا اعتبار شوہر کا بھی ہے اور بیوی کا بھی ہے۔ معروف رجوع کو مذہبی طبقات نے منکر بناکر رکھ دیا ہے۔ غسل اور وضو کے مسائل سے لیکر ایک ایک مسئلہ معروف کی جگہ منکرات کا آئینہ ہے۔
مولانا شیرانی سے میں نے پوچھا کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ’’ اور انکے شوہر ہی عدت کے دوران رجوع کاحق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ صلح کرنا چاہیں ‘‘ تو کیا کوئی ایسی حدیث یا آیت ہے جو عدت کے دوران اسکے برعکس رجوع کا حق منسوخ کردے؟، مولانا شیرانی صاحب نے کہا کہ طلاق آپ کا موضوع ہے ہم کسی اور موضوع پر بات کرلیتے ہیں، نماز پر گفتگو کرلیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس سے اور اچھی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ آپ کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے، کل آپ کو حکومت مل جائے تو بے نمازی کو کیا سزا دوگے؟۔ دوفقہی اماموں کے نزدیک بے نمازی کو قتل کیا جائیگا، ایک کے نزدیک قیداور زودوکوب کیا جائیگا، تو جب نماز کی سزا کا ذکر قرآن وسنت میں نہیں تو اپنی طرف سے اس کا جواز ہے؟، خوف سے نماز پڑھی جائے تو ایسی نماز کا اعتبار ہوگا؟، کوئی بے وضو اور حالتِ جنابت میں نماز پڑھ لے تو؟، مولانا شیرانی نے کہا کہ نماز کے فضائل پربات کرنا مقصد تھا ،میں نے کہا کہ تبلیغی جماعت میں کسی کو چلہ یا چارماہ کیلئے بھیجو، میں یہ گارنٹی دیتا ہوں کہ وہ اتنا پکا نمازی بن جائیگا کہ نبیﷺ اور صحابہ کرامؓسے غزوۂ خندق میں نمازیں قضاء ہوئیں مگر اس سے اس حال میں بھی نہ ہوگی۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ میں اس بات کی تائید کرتا ہوں ۔
مولانا شیرانی نے پھر معیشت کو موضوع بناکر ایک لمبی چوڑی داستان سناڈالی، میں نے کہا کہ اخروٹ یا کوئی چیز گنتی کے حساب سے درجن کے مقابلہ میں دو درجن سود نہ ہو لیکن وزن کے حساب سے کلو کے مقابلہ میں دو کلو سود ہو، تو اس کا دنیا کے سامنے کیا حل پیش کریں گے؟۔ ظاہر تھا کہ جواب نہ دارد۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کا یہ حال ہے تو دوسروں کا بھی بہت آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے جہاد کرکے مسلم مالک کے ڈھانچے تباہ کئے لیکن انکے مقابلہ میں دہشت گردوں نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا،تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی۔علماء کی بجائے بہادرکیمونسٹ رہنما اسلام سمجھ کر اسکی تبلیغ کرتے تو طالبان ایسے ہیرو ہوتے کہ پوری انسانیت ان کی شانہ بشانہ ہوتی لیکن علماء نے اسلام کا بیڑہ غرق کرکے ان بہترین اصل مجاہدین کوحقیقی دہشت گرداور خارجی بنادیا ہے۔ سید عتیق الرحمٰن گیلانی

معراج محمد خانؒ کی شخصیت سے سیاست بے نقاب ہوتی ہے ذوالفقار علی بھٹوؒ ، جنرل ضیاءؒ اور عمران خان کا پتہ چلتا ہے

معراج محمد خان بائیں بازو کے ،جاویدہاشمی دائیں بازوکے اچھے کردار وں کی علامت ہیں، تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ دونوں کی فکر ونظر میں اختلاف ہوسکتا تھا لیکن خلوص وکردار پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ معراج محمد خان خود کو علماء حق کے پاؤں کی خاک کہنے پرفخر محسوس کرتے تھے اور جاوید ہاشمی نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی سے معذرت کرلی تھی کہ میں جماعتِ اسلامی جیسی مذہبی جماعت نہیں مسلم لیگ جیسی سیکولر جماعت کے ساتھ ہی چل سکتا ہوں۔ معراج محمد خان کمیونسٹ مسلمان تھے اور جاویدہاشمی سیکولر مسلمان ہیں، ایک کادائیں اور دوسرے کا بائیں باز وسے تعلق اس بات کا ثبوت نہیں کہ انہوں نے اسلام سے رو گردانی کا ارتکاب کیا۔
یہ معراج محمد خان کا قصور نہ تھا جو کیمونسٹوں کی صفوں میں کھڑا ہوا، بلکہ یہ علماء سوء کا قصور تھا جنہوں نے مذہب کو پیشہ بنالیا۔ جس دن اسلام کا حقیقی تصور قائم کرلیاگیا اور اس پر عمل کیا گیا تو کمیونسٹ اور سیکولر لوگ اسلام کی آغوش میں ہی پناہ لیں گے۔ اسلام خلوص کا نام ہے، اسلام پیشہ نہیں دین ہے اور اسلام نے ہی دین میں جبر کومنع کیا ہے۔ جس دن مذہبی طبقات نے یہ تأثر ختم کردیا کہ اسلام کوئی پیشہ ہے تو دنیا کی ساری کمیونسٹ پارٹیاں اسلام کے دامن میں پناہ لیں گی اور جس دن مذہبی طبقات نے یہ تأثر قائم کرلیا کہ دین میں جبر نہیں تو دنیا کی ساری سیکولر قوتیں اسلام کی آغوش میں پناہ لیں گی۔ معراج محمد خان ؒ کے نام پر آرٹ کونسل میں ایک پروگرام رکھا گیاجو تقریروں اور اچھے جذبات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سینٹر کامریڈ تاج حیدر نے کہا کہ ’’معراج محمد خان کے حوالہ سے میں نے جومضمون لکھا ، کسی بھی نامور اخبار نے اس کو شائع کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ جب کسی کا نام آجائے تو ادارہ اس کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجاتا ہے‘‘۔
سنیٹر تاج حیدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مذہبی طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جوگٹھ جوڑ تھا اس کا خاتمہ ہوا ہے ، اس صورتحال سے کمیونسٹ نظریات رکھنے والوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مولا بخش چانڈیو نے ایک بڑا اچھا شعر بھی سنادیا کہ ’’حسینؓ کی عزاداری کاعشرہ ضرور مناؤ مگر وقت کے یزید کی طرفداری بھی مت کرو‘‘ اور سب مقررین نے اپنے خیالات اور جذبات کا اپنے اپنے انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ معراج محمد خان ؒ کے نام کیساتھ ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کے لفظ کا اشارہ نا مانوس لگتاہے لیکن اللہ کی رحمت کی دعا کی اجاراداری ان لوگوں سے ختم کرنے کی ضرورت ہے جو صرف مذہبی ماحول سے تعلق رکھتے ہوں۔ مذہبی طبقات صرف اپنے اپنے اکابر کے ساتھ یہ علامت لگاتے ہیں، ان کی یہ بھی مہربانی ہے کہ مخالفین کیساتھ زحمت اللہ علیہ (زح) نہیں لگاتے۔ عوام کو ان مذہبی جہالتوں سے نکالنا بھی بہت بڑی جدوجہد اور جہاد ہے جن میں نامعقول مذہبی طبقات کی وجہ سے جاہل عوام مبتلا ہیں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولاناشاہ احمدنورانیؒ بڑے اور اچھے لوگ تھے لیکن معراج محمد خانؒ بھی کسی سے کم تر نہ تھے۔ جنرل ایوب خانؒ کے دور میں ذوالفقار علی بھٹوؒ جب جنرل صاحب کیساتھ تھے تو معراج محمد خانؒ نے ان کا مقابلہ کیا، جب بھٹو نے جنرل ایوب کا ساتھ چھوڑدیا تو اپنے سخت ترین مخالف بھٹو کا استقبال کیا اور اپنے کارکن بھٹو کے حوالہ کردئیے کہ اب ہمارا اختلاف نہ رہا ، راستہ درست چن لیا ہے تو ہم آپکے ساتھی ہیں۔ بھٹو کے دورِ حکومت میں معراج محمد خان کو وزارت ملی لیکن حکومت اور اپنی وزارت کے خلاف عوام کے حقوق کیلئے احتجاج میں شامل ہوگئے۔ بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ جو راہ ورسم بنالی تھی اس کو نباہ رہے تھے مگر معراج محمد خان نے اپنے اصولوں سے وفا کی۔ پھر جب بھٹو نے سیاسی قائدین پر جیلوں میں بغاوت کے مقدمات چلائے تو معراج محمد خان بھی حکومت کی صف میں نہ تھا بلکہ اپوزیشن جماعتوں کیساتھ جیل میں بندتھے۔
جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگا تو معراج محمد خان نے بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ ہونے کے بعد بھٹو کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولا۔ معراج محمد خان کو جعلی سیاستدان بننے کی پیشکش ہوئی مگر معراج محمد خان نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اگر معراج جنرل ضیاء کی پیشکش کو قبول کرلیتا تو جنرل ضیاء کو مذہبی طبقے اور اسلام کاسہارہ لینے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ جب ایم آر ڈی کی تحریک چلی تو معراج محمد خان بھی اس جدوجہد کا حصہ تھے بلکہ ساری جماعتوں نے معراج محمد خان کا نظریہ قبول کرکے ہی ایک مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کیا تھاجس میں جنرل ضیاء اتفاقی حادثے کا شکار نہ ہوتے توزیادہ عرصہ تک صرف تحریک ہی چلانی پڑتی۔ بھٹو نے بھی ایک آمر جنرل ایوب کی صحبت اُٹھائی تھی اسلئے آمرانہ سیاست ان کے دل ودماغ پر چھائی تھی جس کا ساتھ معراج محمد خان نہیں دے سکتے تھے، نوازشریف اصغرخان کی تحریک استقلال کا فائدہ اٹھاکر سیاست میں ڈالے گئے اور امیرالمؤمنین جنرل ضیاء الحق کے سپاہی بن گئے، جنرل ضیاء کی برسیوں پر بھی جنرل ضیاء کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے حلف اٹھایا کرتے تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے ذریعہ سے برسرِ اقتدار آنے والا نوازشریف اصغر خان کیس میں ملزم نہیں بلکہ مجرم ہے، جس طرح کالا کوٹ پہن کر سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کیخلاف جنرل اشفاق کیانی کے ہمراہ کورٹ میں گئے، اسکے بعد وزیراعظم ایک ناکردہ گناہ کی وجہ سے مجرم بن کر نااہل قرار دئیے گئے یہ ہمارے اصحاب حل وعقد ، ریاستی اداروں، عدالتوں اور جمہوری نظام پر ایک بدنما داغ ہے کہ نوازشریف کو سزا کیوں نہیں سنائی جارہی ہے۔
معراج محمد خان کو پہلی مرتبہ ایم آر ڈی کے جلسہ میں ’’نشتر پارک کراچی‘‘ میں دیکھا تھا، مدرسہ جامعہ بنوری ٹاؤن کا طالب علم تھا، مولانا فضل الرحمن کی وجہ سے ہم نے جمعہ کی نماز بھی نشتر پارک میں قبضہ کی نیت سے پڑھی، زیادہ تر مقررین کو بولنے تک نہ دیا، شاید معراج محمد خان کو مولانا فضل الرحمن سے کہنا پڑا، کہ اپنے ورکروں کو خاموش کردو۔ جب کسی کا بولنا گوارہ نہ ہو تو اس کا سننا بھی کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے۔ البتہ مولانا فضل الرحمن پر کفر کے فتوے لگانے والے مخلص نہ تھے اسلئے انکے فتوؤں کو کبھی اہمیت نہ دی، پیپلزپارٹی سے اتحاد پر جو مذہبی طبقات مولانا فضل الرحمن سے ناراض تھے ،انہوں نے پیپلزپارٹی کی طرف سے ایم آر ڈی کی قیادت کرنے والے غلام مصطفی جتوئی کو پھر اسلامی اتحاد کا سربراہ بنایا۔ چونکہ مذہبی طبقے اور موسم لیگیوں کا اتنا بڑا دم نہ تھا کہ وہ جنرل ضیاء کے باقیات کا حق ادا کرلیتے، اسلئے عوام کو دھوکہ دینا ناگزیر سمجھا گیا اور غلام مصطفی جتوئی کو قیادت سونپ دی گئی مگر جتوئی مرحوم پرا عتماد نہ تھا اسلئے اسٹیبلشمنٹ نے ان کو ناکام بناکرہٹایا اور نوازشریف کو وزیراعظم بنایا گیا۔
نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے خلاف صدر غلام اسحاق خان کا ساتھ دیا تھااور پھر اسی صدر کی وجہ سے خود بھی جانا پڑا،محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ نے صدارتی امیدوار کیلئے ایم آر ڈی (تحریک بحالئ جمہوریت) کے دیرینہ ساتھی بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خانؒ کے مقابلہ میں غلام اسحاق خان کا ساتھ دیا تھا۔ فضل الرحمن کو ایک اصولی سیاست کا امین سمجھا جاتا تھا۔ اب تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان کا مقابلہ کرنے کیلئے نوازشریف کی اوٹ میں پناہ لینا شاید ایک مجبوری ہو ، بڑے لوگوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں، معراج محمد خان تنہائی کے شکار تھے اور تحریک انصاف کو ایک جماعت بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ میری پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی تو عرض کیا کہ کہاں آپ اور کہاں عمران خان؟، یہ جوڑ بنتا نہیں ہے۔ معراج محمد خان نے اعتراف کیا کہ واقعی یہ اتفاق وقت کا بہت بڑا جبر ہے۔ عمران خان جب پرویز مشرف کے ریفرینڈم کا ساتھ دے رہا تھا تو معراج محمد خان پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہونے کے باوجود مخالفت کررہے تھے۔ عمران خان نے معراج محمد خان کو برطرف کیا اور پھر قوم سے معافی مانگ لی کہ ریفرینڈم کی حمایت میری غلطی ہے۔
جس طرح عمران خان نے کھل کر قوم سے معافی مانگی لیکن معراج محمد خان سے راستہ الگ کرنے پر اپنے کارکنوں کو آگاہ نہ کیا کہ اتنی بڑی غلطی میں نے کی تھی اور سزا شریف انسان کو دی تھی اور یہ بڑی خیانت ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی اگر اپنے غلطیوں کا اعتراف کرکے معراج محمد خان کو منالیتی توپھر پیپلزپارٹی کی قیادت معراج محمد خان کے ہاتھ میں ہوتی اور قائدین کی وفات کے بعد پیپلزپارٹی کے نظریاتی بڑے قدآور رہنماؤں کا اجلاس ہوتا کہ کون سا نیا قائد منتخب کیا جائے؟۔ آج عمران خان کے چاہنے والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ بھٹو کے بعد عمران خان عوامی قیادت کا حق اداکررہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ معراج محمد خان بھٹو اور عمران خان سے بذاتِ خود بڑے اور حقیقی قائد تھے، جب اہل قائد کو کارکن اور نااہل کوقائد بنایا جائے تو ایسی پارٹی کبھی اعتماد کے قابل نہیں ہوتی ۔ معراج قائدتھے مگر ان کوقائد کا درجہ نہ دیا گیا۔
معراج محمد خان کی یاد میں ہونیوالے پروگرام میں کامریڈوں کا غلبہ تھا،جناب میرحاصل بزنجو اور دیگر رہنماؤں نے معراج محمد خان کو خراج تحسین پیش کیا مگر اتنی بات وہ بھول گئے کہ روس کے نظام کی تعریف کرنے اور امریکہ کی مزاحمت کرنے والے معراج محمد خان نے طالبان کو سراہا تھا جنہوں نے ایک واحد قوت کے طور پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو چیلنج کیا۔ جماعتِ اسلامی کے سابقہ امیر سید منور حسن پہلے کمیونسٹ کی بیج بونے والی تنظیم این ایس ایف میں تھے، جب سلیم صافی کو انٹریو دیا کہ ’’ امریکہ کے فوجی اگر طالبان کے خلاف لڑنے پر شہید نہیں ہوتے تو ان کے اتحادی پاکستانی فوج کو کیسے شہید کہا جاسکتا ہے؟‘‘۔ جس پر انکو جماعتِ اسلامی کی امارت سے ہاتھ دھونے پڑ گئے۔ اگر معراج محمد خان نے طالبان کی حمایت کی تھی تو جماعتِ اسلامی کے امیر نے ایک ہاتھ بڑھ کر حمایت کی تھی۔
سید منور حسن اور معراج پرانے ساتھی اور پھر حریف رہے لیکن اس بات پر متفق ہوگئے کہ طالبان نے سامراج کو چیلنج کرکے بڑا کارنامہ انجام دیا ۔ جماعتِ اسلامی سے میرحاصل بزنجو نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ تاج محل مکھن کا بناہوا نہیں ہوسکتا، یہ درست ہے لیکن غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے تو حقوقِ انسانی کے حوالہ سے متضاد و متفرق قوتوں کے درمیان مفاہمت کی راہ بنائی جائے۔ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ مولوی اور طالب سرمایہ دار کا مکھن کھاکر کمیونسٹوں پر فتوے لگارہے ہیں ، اب تو پتہ چلا ہے کہ مکھن کھانے کی وجہ سے نمک حلال کرنے کا الزام غلط ہے، سرمایہ دارانہ نظام پر لرزہ طاری ہے، مرنے مارنے سے سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ یورپ و امریکہ اور مغرب ومشرق میں ایک خوف کی فضا ء گنتی کے چند افراد نے طاری کر رکھی ہے۔
روس کے خاتمہ سے کمیونسٹوں میں وہ دم خم نہیں رہا ہے اور یہ بات درست ہے کہ مذہبی طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غیرفطری اتحاد ختم ہوگیا ہے، کہاوت ہے پشتو کی کہ ’’بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے میری رات ہوگئی‘‘۔ معراج محمد خان اگر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنے میں پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کے بجائے جماعتِ اسلامی یا جمعیت علماء اسلام میں جاتے تو شاید وہ بھی ان جماعتوں کا قائد بنتے اور خلوص وکردار کے مرقع معراج محمد خان کے جنازے میں مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی طرح تمام فرقوں اور جماعتوں کے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی۔ کمیونسٹوں سے معذرت کیساتھ وہ مذہب کو نشہ قرار دیتے ہیں لیکن چرس کا نشہ کرنے والے پھر بھی کچھ کام کاج کے قابل رہتے ہیں کمیونسٹ تو ہیروئن پینے والوں کی طرح بالکل ہی ناکارہ بن جاتے ہیں اور کسی کام کاج کے قابل نہیں رہتے۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری یورپ و مغربی ممالک کے انصاف کی بات کرتے ہیں حالانکہ یہ لعنت تو مغرب سے ہی آئی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو سزا نہ ہونے دی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو80سال قید کی سزا دی۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام ، سوڈان اور کتنے سارے مسلم ممالک تباہ کردئیے گئے اور پھر صرف اعتراف جرم کیا حالانکہ سزا بھی ہونی چاہیے۔ پرویزمشرف کے ریفرینڈم کی حمایت پر معذرت کافی نہ تھی، برطانیہ کی طرح عراق کے معاملہ پر اعترافِ جرم کوکافی نہ سمجھنا چاہیے تھا بلکہ معراج محمد خان کو قیادت سونپ دینی چاہیے تھی۔ برطانیہ کو بھی چاہیے کہ اپنے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کو باقاعدہ سزا بھی دے، ورنہ عراق میں تباہ ہونیوالے خاندان نسل درنسل اپنا انتقام لینے کیلئے برطانیہ کی عوام کو نہ چھوڑیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جس طرح اسلام آباد میں ایک پولیس افسرایس ایس پی کو پٹوایا تھا ،اسی طرح دھرنے کے دوران خود کو سزا کیلئے پیش کردیں اور اسلام آبادایئرپورٹ پر جس طرح کارکنوں نے پولیس والوں کی ناک وغیرہ توڑ کر پٹائی لگائی تھی، اسی طرح ان کے رہنماؤں سے بھی ان زخموں کا بدلہ لینے کیلئے پیش کیا جائے تو شاید انکے برگشتہ مرید شریف برادران کا ضمیر بھی جاگ جائے اور وہ خود کو قصاص کیلئے پیش کریں۔
قوم طبقاتی تقسیم کو مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی ہے، کراچی میں اگر معراج محمد خان کیخلاف مذہبی طبقات اور اسٹیبلشمنٹ مل کر میدان نہ مارتے تو آج قوم پرستی کی بنیاد پر کراچی میں خون خرابے کے بعد شریف لوگوں کی بجائے گھٹیا قسم کا ماحول نہ بنتا۔ اسلامی جمعیت طلبہ، پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن، پنجابی سٹوڈنٹ فیدریشن، سندھی سٹودنٹ فیڈریشن اور بلوچ سٹوڈنٹ فیڈریشن ایک تعصب کے ماحول میں نہ پلتے تو مہاجر سٹوڈنٹ فیڈریشن کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔قوم پرستی کی سیاست نے انسانیت اور اسلام دونوں کو نقصان پہنچایا، آرٹ کونسل میں ایک مقرر نے کہا کہ ’’ معراج محمدخان کی وجہ سے قوم پرستی کی طلبہ تنظیمیں بنی تھیں، وہ ہر قوم سے محبت رکھتے تھے، جئے سندھ، پختون،بلوچ اور پنجابی طلبہ تنظیموں کیلئے NSFبنیاد تھی‘‘۔ ترقی پسند تحریکوں کے رہنما کو ایک شکایت یہ بھی تھی کہ موجودہ نوجوان طبقہ بڑا اچھا ہے لیکن ہمارے اندر ایسی صلاحیت نہیں جو ان کو پیغام پہنچاسکیں۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے روس اور امریکہ سے فنڈز آتے تھے، باصلاحیت لوگ اپنا حصہ وصول کرکے سادہ لوح لوگوں کو قربانیوں کا بکرا بنادیتے تھے، اب وہ فنڈز تو بند ہوگئے ہیں،ایک سوکھا سا نظریہ رہ گیا ہے، وہ سویت یونین جو ان لوگوں کو ترنوالہ دیتا تھا،اب خود اپنا وجود بھی کھو گیا ہے۔ اگر وہ ایندھن ملنا شروع ہوجائے تو پھر سے افراد، قربانی کے بکرے اور بہت کچھ مل جائیگا،خان عبدالغفار خان ؒ اور عبدالصمدخان شہید اچکزئیؒ پاکستان بننے سے پہلے کے قوم پرست تھے، عاصم جمال مرحوم پنجاب سے تعلق رکھتے تھے ،ایک مخلص کمیونسٹ تھے، آخری عمر میں نماز پڑھنے پر بھی آگئے۔ ولی خان ؒ کی پارٹی میں رہ چکے تھے، حبیب جالبؒ کے ساتھی تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ ’’غوث بخش بزنجوؒ کے پاس پیسہ نہیں تھا اسلئے ان کو قیادت نہیں کرنے دی جاتی تھی، جبکہ ولی خانؒ کے پاس پیسہ تھا اگر وہ یہ قربانی دیدیتے کہ مہمانوں پر پیسہ خرچ کرتے اور قیادت غوث بخش بزنجوؒ کو سونپ دیتے، تو مشرقی پاکستان بھی نہ ٹوٹتا‘‘۔
قوم پرستی کا شوشہ تو معراج محمد خان سے پہلے کا تھا، متحدہ ہندوستان کی قومیت کا علمبردار طبقہ قوم پرست تھا۔ مولانا آزادؒ اور مولانا مدنیؒ نے اسلئے گالیوں اور اسلام سے خارج ہونے کا سامنا کیا کہ وہ مسلمان ہندی قوم پرست تھے، علامہ اقبالؒ نے بھی ہندی قومیت پر نظمیں لکھیں، خود کو سومناتی کہاہے۔ صحابہؓ کے انصارؓ و مہاجرینؓ ، قریش وغیرقریش، اہلبیت وقریش،کالا گورا، عرب وعجم، عرب وموالی اور اسرائیلی واسماعیلی کا شوشہ پرانا ہے۔ معراج کمیونسٹ اچھے انسان، پاکستانی اور مسلمان تھے۔ اچھا نظریہ اور حب الوطنی مختلف العقائد مسلمانوں کو آج بھی ایک کرسکتا ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان اپنے سفرکے اہم ترین چوراہے پر

14اگست 1947ء تاریخ کا آخری سیاہ ترین دن تھا جسکے گزرتے ہی یہ وطن عزیز آزاد ہوا، لیکن ہم نے رٹ لگائی ہے کہ رات 12بجکر1منٹ پر پاکستان آزاد ہوا، ٹی وی چینلوں پر روزانہ رات 12بجتے ہی تاریخ بدل جاتی ہے۔ یوں ہم ہر سال 13اگست کو 12بجتے ہی یومِ آزادی مناتے ہیں جسمیں غلامی کا آخری سورج طلوع وغروب ہوا۔ جب ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی تقریرو تصویر پر پابندی نہ تھی تو جلسۂ عام میں کہا کہ’’ پاکستان 15اگست کو آزاد ہوا تھا‘‘۔ جسکے جواب میں حامد میر نے وضاحت کی کہ’’ پاکستان رات 12بجکر1منٹ پر آزاد ہوا، برطانیہ کی چاہت یہ تھی کہ آزادی کی خوشی اس دن منائی جائے جب امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے لیکن قائداعظم نے اسکی خواہش کیخلاف آزادی کو 14اگست کو منانے کا اعلان کیا‘‘ ۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر وتصویر پر پابندی لگی اور حامد میر کو اپنی منافقہ وکالت کے صلہ میں گولیاں ماری گئیں۔
مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی بھارت کی قید سے آزاد ہوئے تو کراچی میں شاندار استقبال ہوا تھا ۔ اب باقی ماندہ پاکستان بھی اس اہم چوراہے پر کھڑا ہے جس میں جھوٹ کے سہارے چلنے والی قوم ، ریاست اور حکومت کو معروضی حقائق سمجھ کر اپنی اصلاح کی طرف آنا ہوگا ، یا خاکم بدہن دوسرے ممالک اور قوموں کی طرح ہمارا بھی حشر نشر ہوگا، ہمارا ہوش ٹھکانے نہ آیا توبہت بُرا ہوگا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ریاستی دہشت گردی کی تھی اسکے نتیجے میں بھٹو کے ڈیرے پر زرداریوں کا بسیرا ہے۔اصل بھٹو خاندان تنہائیوں کا شکار ہے جو مرتضیٰ بھٹو کی اولاد ہے، ذولفقار علی بھٹو کے والدشاہنوازبھٹو کے وارث ذوالفقار جونئیرو فاطمہ بھٹو کا گھر 70کلفٹن ہے، آصف زرداری نے اپنے بیٹے بلاول کا نام اپنے دادا کے نام پر رکھا اسلئے بلاول ہاؤس پر بھٹو کی چھاپ درست نہیں، گڑھی خدابخش لاڑکانہ میں بھٹو کے ڈیرے پر زرداریوں کا بسیرا بھٹو کی یتیم اولاد کیساتھ بڑی زیادتی ہے جو شہیدوں کی قربانیوں کا نہیں بلکہ جن کیساتھ بھٹو نے زیادتی کی تھی ان کی بددعاؤں کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں پیپلزپارٹی کے رہنما ذوالفقارکھوسہ نے کہا کہ ’’ قدرت نے جنرل ضیاء الحق سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا انتقام لیا، جسکے جسم کے ٹکڑے بھی نہ ملے اور جھوٹ سے قبر بھی بنادی‘‘۔ معروف ٹی وی چینلوں نے یہ سچ قوم کو دکھانے کے بجائے نشریات کا رخ موڑ دیا۔ قوم کے سامنے سچ بولنے والا کوئی نہ تھا جو اتنا کہہ دیتا کہ بھٹو نے بھی کم مظالم نہیں کئے ہیں حبیب جالب نے اس پر شاعری بھی کی تھی اسلئے بھٹو اپنے انجام کو مکافات عمل کی وجہ سے پہنچے ، البتہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہتھوڑا گروپ جیسے واقعات ہوئے تھے تو گمنام قاتل اور مقتول کا انتقام قدرت نے جنرل ضیاء اورجنرل اختر وغیرہ سے لیا تھا۔فوج اورسیاستدان کی طبقاتی کشمکش کا آئینہ خناس بن کر میڈیا پر دکھایا جاتا ہے ، عوام الجھ جاتی ہے کہ کس کا قصور ہے اور کس کا نہیں؟۔ مگر عوام کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کا انتقام تو گویا خدا بھی نہیں لیتا، بس اللہ سیاستدانوں کا ہے یا فوجیوں کا ہے، دونوں عوام کی ہمدردیاں بھی سمیٹتے ہیں اور عوام کو پتلی تماشہ بھی دکھاتے ہیں، مشرقی پاکستان ہاتھوں سے گیا لیکن جنرل نیازی اور بھٹو قوم کے ہیرو یا زیرو ٹھہرے ، عوام تماشہ دیکھتی رہ گئی۔
وزیردفاع وبجلی خواجہ آصف نے کہا کہ ’’ افغانیوں کو ہم نے پناہ دی ، اب آنکھ دکھا رہے ہیں‘‘۔ خواجہ آصف کاباپ جنرل ضیاء کی شوریٰ کا چیئرمین تھا،امریکہ کے ایجنٹوں نے افغانی دلے گل بدین حکمت یار اور پاکستانی دلے ہارون الرشید جیسے لوگوں کے ذریعہ اپنے مفاد کیلئے خطہ کو تباہ کیا،کرایہ کے جہاد کی قیادت اور حمایت کی سعادت حاصل کرنے والوں نے دوسروں کے بچے مروا نے کی قیمت پر اپنے بچوں کیلئے جائیدادیں بنادیں ہیں۔ فتنوں کی آگ سلگانے اور پھونکیں مارنے والوں کے چہروں سے نقاب اٹھ جائے تو عوام کو پتہ چل جائیگا کہ حبیب جالب اور ڈاکٹر نجیب اللہ پاکستان اور افغانستان کے ہیرو تھے جو اپنی قوم اور مٹی سے محبت کا دم بھرتے تھے اور سفید چمڑی کے گلبدین حکمت یار اور کالی دمڑی کے ہارون الرشید اس خطے میں اپنی قوم، وطن، ریاست ، ملک کے دشمن اور اغیار کے ایجنڈہ پر چلنے کے مجرم اور ایجنٹ ہیں،بہت نقصان اٹھاچکے ،اب مزید اس کردار وافکار سے بچیں۔
تحریک انصاف کے شہریار آفریدی نے کہا کہ ’’ پشاور میں کوئی مکان بکتا ہے تو افغانی مہنگے دام خریدنے کیلئے کھڑا ہوتا ہے‘‘۔ تاجر برادری نے افغانستان کیخلاف جلوس نکالے لیکن جب ہمارے فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے دنیا بھر میں اثاثے خریدے، تو افغانی بیرون ملک محنت مزدوری کرکے اپنا سرمایہ پاکستان میں لگائیں تو اس میں کونسی برائی ہے؟۔ مسلم لیگ(ن) کی وہ حکومت جس نے بھارتی جاسوس کلب (کتا) ہوش (پکڑو) ن (لیگ) پر چپ کا روزہ رکھا تھا، جب بھارت نے مسلسل پاکستان کی سرحدوں پر گولہ باری کرکے بے گناہ لوگ شہید کیے تو کوئی خاص ردِ عمل سامنے نہیں آتا۔ دنیا کودکھایاکہ افغانستان و پاکستان کی جنگ کتنی آسانی سے ہوسکتی ہے؟،مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا’’ افغان طالبان رہنما پاکستان میں ہیں‘‘ افغانستان نے واضح کیا کہ ’’پاکستان مخالف طالبان پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے‘‘۔
امریکہ پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کیخلاف مؤثر کاروائی کا مطالبہ کر رہا ہے اور پاکستان اپنے مخالف طالبان کو ٹھکانے نہ لگانے پر امریکہ سے خفا ہے مگر ہماری حیثیت پشتو کی کہاوت کیمطابق’’ گاؤں کے میراثیوں کی طرح ہے جن سے گاؤں والے ناراض ہوجائیں تب بھی میراثیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میراثی ناراض ہوجائیں تب بھی میراثیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘۔امریکہ کی ہمدردیاں بھارت کیساتھ ہیں، ایران سے بھی لڑائی نہیں رہی ، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں بھارت، افغانستان اور ایران کا سہہ فریقی اتحاد کھل کر قائم ہوگیا ہے، پاکستان چین کیساتھ ساتھ روس سے بھی تعلق استوار کررہا ہے اور اس نئی صف بندی میں پاکستان وافغانستان کو ڈیورنڈ لائن پر لڑانے کی کوشش ہوگی تو پاکستان کے مقابلہ میں افغانستان کو ایران اور عالمی قوتوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ اٹک سے میانوالی تک کے علاقہ پر افغانستان کا دعویٰ ہے۔ تیسری بار وزیراعظم پر پابندی کے خاتمہ کیلئے (ن) لیگ’’سرحد‘‘کا نام بدلنے پر راضی ہوئی، سرحد تنازعہ کا نشان تھا۔اگر نیٹو نے اس جنگ میں افغانستان کا ساتھ دیا تو پاک فوج کو حکم دیا جائیگا کہ متنازعہ علاقہ خالی کرو اور وہ اقوام متحدہ جو 1948سے مقبوضہ کشمیر میں استصوابِ رائے نہ کراسکا مگر سوڈان میں اپنی فوج بھیج دی، جسمیں پاکستانیوں نے بھی حصہ لیا۔ یہاں بھی اقوام متحدہ کی فوج آئے تواس میں اسلامی ممالک کے علاوہ بھارت کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی ہماری فوج اور پولیس کو پاکستان کا بٹوارہ کرنے کیلئے زیادہ تنخواہ ملے تو ہماری ریاست بھی حصہ دارہو گی۔
امریکہ کی ریاست اسلحہ سے چلتی ہے، دنیا بھر میں جہاں لوگوں کو مرغے، کتے، بٹیر، تیتر،اونٹ ، بیل،دنبے، بھینسے اور دیگرجانور اور پرندے لڑانے کا شوق بلکہ کمائی کا ذریعہ اور پیشہ بھی ہوتا ہے ،امریکہ ریاستوں کو لڑانے، ڈھانچے تباہ کرنے اور قوموں کو لڑانے کاخوگر و پیشہ ور ہے۔پاکستان میں فرقے و لسانی لڑائی کے علاوہ سیاسی تعصب اور میڈیا کے ذریعہ خناس کا کردار ادا کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ اگرہم نے قوم کے سامنے سچ کو واضح کیا تو جھوٹوں کے منہ کالے اور عوام قومی مفاد ، پاکستان کی تعمیر اوردنیا میں سرخروئی کے متوالے ہونگے۔ پاکستان واقعی عظیم ملک، پاکستانی عظیم قوم ہے اورآئندہ اپنی عظمت منوانے کے دن آرہے ہیں۔ انشاء اللہ ، سید عتیق الرحمن گیلانی

پاک فوج سے بدگمانی کے عوامل اور اسکے نتائج

پاکستان میں مختلف ادوار کے اندر فوج نے اقتدار سنبھالا ہے، ایوب خان کے دور سے پہلے بھی عوامی قیادت نہیں تھی، بیوروکریسی کے سکندر مرزا سے حکومت چھین لی گئی تو عوام کا مسئلہ نہیں تھابلکہ انگریز کے تیار کردہ سول اور فوجی قیادت کی لڑائی تھی، ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی جنرل ایوب خان کی ٹیم سے نکل کر بعد میں عوام کا رخ کیا تھا اور بھٹو جب فوج کے ہاتھ سے تختہ دار تک پہنچے تو جنرل ضیاء الحق کے آغوش میں نواز شریف نے پرورش پائی، بھٹو نے فوج اور قوم پر قابو پانے کی کوشش کی ، نوازشریف بھی آنکھیں دکھا رہا ہے، اسلئے نوازشریف کامتبادل تلاش کیاجارہا ہے۔ نوازشریف کی خواہش ہے کہ باقی فوج جو کچھ کرتی پھرے خیر ہے مگر فوج اسکے برے وقت میں کام آئے، مخالف تحریکوں کو دبائے، پانامہ لیکس پرمٹی ڈال دے اور حکومت کے خلاف بولنے والوں کو لگام دے، نہیں تو فوج کی یہ نوازشریف سے بے وفائی ہے۔
پاک فوج ضربِ عضب میں تنہائی کا شکار تھی، حکومت کسی کام میں مشورہ بھی نہ دیتی تھی، سول لوگوں کیساتھ سیاسی طور سے نمٹ لینا فوج نہیں سیاستدان کا کام ہے، وزیرستان میں فوج کو کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو وہ ان کیساتھ ویساہی سلوک کرتی ہے جیسے فوج کی ڈسپلن، تربیت اور جو خودپر بیت چکی ہوتی ہے، مشہور ہے کہ گدھے کی محبت لات مارنا ہوتا ہے۔ فوجی طرز کی سزا ؤں میں پاک فوج کے جوان اپنائیت محسوس کرتے ہیں لیکن عوام میں ان سے نفرت بڑھ جاتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جان بوجھ کر ہماری توہین کی جاری ہے۔ حالانکہ یہ سزائیں فوجی خود بھی بھگتے ہیں اور دوسروں کو دینے کا مقصد بھی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ ڈسپلن اورتربیت ہوتی ہے۔
وزیرستان میں گھروں کے چھتوں سے برف نہ ہٹائی جائے توخراب ہوجاتے ہیں، کئی سالوں سے عوام کو جانے نہیں دیا جارہا تھا تو شہروں اور گاؤں کا ملبہ ٹھیکہ پر بیچاگیا، عوام نے گھروں کا حال دیکھا تو بہت پریشان ہوگئے کہ فوجی بھوکے ہوتے ہیں ، ہمارے گھروں، دکانوں اور بڑے بڑے درختوں کو کاٹ کر کھا گئے ہیں لیکن ان کو یہ کام کرتے ہوئے ذرا بھی شرم نہ آئی کہ ایک تو پناہ گزین بنایا گیا ، دوسرا ٹھیکوں پر سب کچھ بیچ ڈالا گیا۔ پرویزمشرف کے دور سے ایسا لگتا تھا کہ فوج کو ایک مہم کے تحت بدنام کرنے کیلئے ایسا کردار دیا گیا ہے تاکہ عوام ان سے نفرت کریں۔ سرکاری محکموں ، روڈ کے ٹھیکوں اور بدترین سلوک کی ان گنت کہانیاں عوام کے دل و دماغ پر نقش ہیں، فوج پرکوئی آفت آئے تو لوگ اس کو خدا کی طرف سے پکڑ اور قہر سے تشبیہ دیں گے۔ عوام کے دل ودماغ کو مثبت انداز میں سوچنے کیلئے مؤثر قیادت ہوتی تو پھر مشکلات حل کرنے میں بہت آسانی ہوسکتی ہے ورنہ عالمی منصوبہ سازوں نے یہ کسر نہیں چھوڑی ہے کہ کسی بڑی سازش کا مقابلہ ہوسکے۔
جس طرح ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے کہ دوسرے کی عزت کوئی عزت نہیں لگتی، دوسرے کا نقصان کوئی نقصان محسوس نہیں ہوتا، قتل وغارتگری، مال ودولت کی پوجاو پاٹ ،اخلاقی بے راروی اور ہرقسم کی گراوٹوں کی آماجگاہ ہیں، فوج بھی اسی قوم وملت کا حصہ ہے، بس فرق جنگلی اور شہری انسانوں میں ضرور ہوتا ہے۔ قیادت اگر درست ہاتھوں میں رہے تواسکو ٹھیک ہونے میں زیادہ عرصہ بھی نہ لگے ۔ قبائل کو اس نے سدھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو اس پر گلہ کرنے کی بجائے خوش ہونا چاہیے۔ گاؤں ٹھیکے پر دئیے ہیں تو یہ نسبتًا سلجھا ہوا طریقہ ہے ورنہ تو ہمارے ہاں جس کو سزا دی جاتی تھی اسکے گھر کی لوٹ مار کی جاتی تھی، اب آئندہ قبائل کسی کو بھی سزا دینگے تو لشکرکشی کے ذریعہ لوٹ مار کی بجائے معروف طریقہ سے اشتہار دیکر ٹھیکہ پر گھر دینگے۔ امریکہ نے چاہا تھا کہ ہماری قوم کو بالکل خصی بنادے لیکن اب ہم بہت سلجھ گئے ہیں ، انشاء اللہ آنے والے وقت میں ہماری قوم امریکیوں کی امامت اسلئے کرے گی کہ وہ سلجھے ہوئے نہ ہونگے ایک دوسرے سے رنگ، نسل ،قوم اور مذہب کی بنیاد پر لڑیں گے اور ہم انکے درمیان بھی مصالحت کا کردار ادا کرینگے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہم یکیدون کیدًا واکیدکیدًا ’’بیشک وہ اپنی چال چلتے ہیں اور میں اپنی چال چلتا ہوں‘‘۔ مہدئ سوڈانی نے انگریز کوشکست دی تو اب سوڈان سے مغرب نے اپنا بدلہ لیا ہے، پختونخواہ کے لوگوں نے انگریز سے لڑائیاں لڑی تھیں تو انکے خلاف بھی بہت سازشیں کی گئیں۔ پختون قوم کو منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا گیا لیکن اس سے ان میں بین الاقوامی معیار کا شعور بھی آیا ہے، اب پھر افغانستان اور پاکستان کو لڑانے اور پختونوں کو مزید کچلنے کی سازش تیار ہورہی ہے۔ ہماری افغانوں سے کوئی لڑائی نہیں مگر جہاں تک ڈیورنڈ لائن کا تعلق ہے تو اگر ہمیں یہ اختیار دیا جائے کہ افغانستان یا پاکستان میں کس کیساتھ رہنا پسند کرینگے تو اب ہمیں افغان پر حکمرانی بھی نہیں چاہیے لیکن پاکستان کی رعایابن کر رہنا ہی پسند ہوگا۔ پنجابی، سندھی، بلوچ اور کشمیری سے جو انسیت ہے وہ افغانوں سے نہیں، اگر بالفرض پاکستانی اسلام کا نام چھوڑ دیں تب بھی راجہ رنجیت سنگھ کی اولاد کے نام پر بھی انگریز نے پنجاب کو نہیں چھوڑنا ،ہم انکے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے، علامہ اقبال کی بکواس ؂کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کسی کام کی نہیں ، قرآن کیمطابق اپنی استطاعت سے دفاع کی طاقت حاصل کرکے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن پر رعب طاری کرنا ہے، بھارت کی حد تک ایٹم بم اور میزائل پروگرام تشکیل دیا لیکن اپنی استطاعت سے بڑھ کر دفاع کا بجٹ بنانے کے باوجود امریکہ کے دست نگر رہتے ہیں۔ ایسے اقدامات کرنے ہونگے جن میں امریکہ کی چبائے ہوئے چیونگم کی طرح امداد کے نشے کا انتظار نہ رہے۔کوئی امداد روکنے کا بل پیش کرتا ہے اور کوئی مسترد کرتا ہے تو ہماری روح ہی تڑپ جاتی ہے کہ جان نکلے گی یا جان بچے گی، ایسی دفاعی امداد پر لعنت بھیجو۔
پاک فوج نے کم عقل سیاستدانوں کو استعمال کرکے بہت مشکلات پیدا کی ہیں، اگر وہ شہروں سے باہر اپنے ٹھکانے بنالیں تو شاید بیرونی دشمنوں سے خطرہ لگتا ہے اور اگر عوام کیلئے راہیں کھول دیں تو اندرونی دشمن کا خوف مسلط ہے۔ جب تک اس طرز زندگی کو تبدیل نہیں کرینگے تو عوام اور پاک فوج میں محبت کی جگہ نفرت پیدا ہوتی رہے گی۔ فوج کی ٹریننگ دشمن سے نمٹنے کیلئے ہے۔ خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور کراچی میں ایسے حالات بنائے گئے کہ دشمن بھی اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا،موجودہ فوجی قیادت نے اس چیلنج کو قبول کرکے کافی حد تک معاملات کو حل کردیا ، فوجی سپاہیوں اور افسران سے پولیس کی طرح توقع رکھنا بھی ایک غلطی ہے۔ اب تو فوج کو اتنا عرصہ قبائلی علاقوں ، بلوچستان اور کراچی میں ہواکہ ان کو پولیس کی طرح ٹریننگ دی جائے اور بطور پولیس بھرتی کرنے میں بھی حرج نہ ہونا چاہیے۔ اسلئے کہ اب یہ جنگلوں میں نہیں رہ سکتے ، البتہ شہروں میں جنگلی بن کر نہ رہنا چاہیے۔ یہی فوج ،قوم، ملک، سلطنت کے مفاد میں ہوگا۔قبائل کالے قانون کے عادی تھے اسلئے کہ پولیٹیکل انتظامیہ کرپشن کرکے قوم کو ناکردہ گناہوں کی اجتماعی سزا دیتے تھے۔
پاک فوج کامطلب پاکیزہ نہیں بلکہ پاکستان کا مخفف پاک ہے، فوج دوسروں کی طرح خود کو بھی پاکیزہ نہ سمجھے اور نہ دوسروں کو یہ حق ہے کہ فوج پاکیزہ نہیں اور وہ خود پاک ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لاتزکوا انفسکم اپنی جانوں کو پاک مت قرار دو۔ ہماری سیاست قیادتیں پاکی کے دعوے کرکے منتخب ہوتی ہیں حالانکہ ان کا کردار درست ہوتا تو قوم بھی ٹھیک ہوجاتی۔وزیرستان، بلوچستان اور کراچی والے بھی خود کو پاک نہ سمجھیں ،اندرون سندھ اور پنجاب کوپاک ہونے کی ضرورت ہے، جہاں خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہیں، پاک فوج اپنی غلطیوں کو وہاں نہ دھرائے مگر وہاں بھی بدمعاشی کے نظام کو ختم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔سید عتیق گیلانی

جنرل راحیل شریف کا کردار اور پختون قوم کی شکایت

پختون قوم کی اکثریت اپنے گناہوں کی سزا کھا رہی ہے ظھرالفساد فی البر والبحر بماکسبت ایدی الناس ’’ فساد ظاہر ہوا خشکی اور سمندر میں بوجہ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے ‘‘۔ مگر اسکو گلہ پاک فوج کے جوانوں سے ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پوری پاکستانی قوم کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں اور پختون من حیث القوم طالبان بن گئے۔طالبان کے شدت پسند حامی کہتے تھے کہ ’’ اللہ کرے کہ انڈیا ہماری فوج کو پکڑلے‘‘۔ فوج کی طرف سے طالبان کیخلاف کوئی موثر کاروائی ہوتی تو بغاوت بھی پھیل سکتی تھی۔پوری قوم کی طرح پاک فوج بھی طالبان کیخلاف نہ تھی، امریکہ بھی القاعدہ کا مخالف تھااور طالبان رہنماؤں کو دنیا بھر میں آزادی سے نقل وحمل کی اجازت تھی ،امریکہ و طالبان کی مشترکہ منڈی کامرکزقطر تھا،اس اندھی لڑائی میں دوست دشمن کی تفریق ممکن نہ تھی، پاکستان اور امریکہ بھی ایک دوسرے کے برابر دشمن بھی رہے اور دوست بھی۔
جنرل راحیل شریف سے پہلے پرویزمشرف کے دور میں پاک فوج کو عوام نے بہت قریب سے دیکھا، جنرل کیانی کے چھ سالہ دورِ اقتدار میں پاک فوج نے عوام کو اپنا چہرہ اورقریب سے دکھایا، فوج کے اہلکار بوتلوں میں پیٹرول اور ڈرموں میں ڈیزل سڑکوں پر بیچتے تھے، پولیس کی طرح جرائم پیشہ عناصر سے تانے بانے بھی کھل کر ملتے تھے، ریاست کی رٹ بالکل ختم ہوگئی تھی۔ ایک نابینا مولوی کا لطیفہ تھا کہ اپنے شاگرد سے کہا کہ جب لوگ کھانے کے مشترکہ تھال میں کھانا شروع کریں اگردوسرے تیز کھائیں تومجھے بھی ہلکا سا اشارہ کردیں، پسلی پر ہاتھ مار دیں ،پھر میں بھی تیز کھانا شروع کرونگا۔ شاگرد طالب کو اس کی بات ناگوار لگی اور اسکے ذہن سے بات بھی نکل گئی، جب کھانا شروع ہوا تو نابینا نے پہلے سے بڑے بڑے نوالے لینا شروع کردئیے، شاگرد نے سوچا کہ اشارے سے سمجھا دیتا ہوں کہ بُرے لگتے ہو اور ہلکا سا ہاتھ مار کر اشارہ کردیا، مولوی نے سمجھا کہ تیز کھانے کیلئے کہہ رہا ہے۔ اس طرح شاگرد اس کو منع کرنے کیلئے اپنا ہاتھ مارتا رہا اور مولوی مزید تیز ی سے کھاتا رہا اور آخر شاگرد نے زور دار طریقہ سے مکا مارا،کہ بس کرے اور اس نے کھانا اپنے دامن میں دونوں ہاتھوں سے ڈالنا شروع کیا اور گالیاں بھی دے رہا تھا کہ میں رہ گیا اور سب نے لوٹ کر کھانا کھایا ہے جبکہ لوگ اس حریص ہی کا تماشہ دیکھتے رہ گئے۔
جنرل اشفاق کیانی کی قیادت میں بس یہی جملہ کراچی کے رینجرز سے فوج کے تمام اداروں میں مشہور تھا کہ اگرملک زرداری اور اسکے ساتھی کھالیں، لوٹ مار کریں تو ہم کیوں کر مستحق نہیں ہیں، جنرل راحیل شریف کی قیادت میں سب سے پہلے جو ہاتھ ڈالا گیا وہ اپنے ادارے اور اسکے لواحقین پر ڈالا گیا۔ ایگزیکٹ کی طرح دنیا بھر میں جعلی تعلیمی ادارے اسناد بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں اور بڑے کھل کر کرتے ہیں مگر جنرل راحیل شریف کی ٹیم نے سارے مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر ان تمام افراد پر پہلے ہاتھ ڈالا،جنکے تانے بانے اپنوں سے ملتے ہوں۔ اس انتھک محنت، جدو جہد اور مؤثر کاروائیوں کے نتیجے میں ملک تاریکی سے اجالے، دہشت گردی سے امن وامان اور کرپشن سے دیانت وامانت کی طرف گامزن ہوا ہے۔
ایک شخص جنرل راحیل شریف اپنی ٹیم کیساتھ بہت کچھ کر گیا اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، چیف جسٹس انور ظہیرجمالی بھی بذاتِ خود ایک بہت اچھے انسان ہیں، جن سیاستدانوں کو کرپشن کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا، ان پر ہاتھ ڈالے بغیر قوم کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے، سازشوں کی لہریں اٹھ رہی ہیں، موجودہ حکمرانوں میں اہلیت نہیں ، قوم کو صرف اس طرف لگایا گیا ہے کہ زیادہ کرپٹ، بدمعاش، بداخلاق اور بدکردار سیاستدان ہیں یا پاک فوج ہے؟۔ دونوں اسی دھرتی کے باسی اور ماشاء اللہ وسبحان اللہ ہیں۔دونوں میں اچھے برے ہیں، دونوں نے غلطیاں کی ہیں،دونوں کو قربانیاں دینی پڑیں گی اور پاکستان کی ترقی کیلئے ایک نئے سرے سے لوگوں میں انسانیت، اخلاقیات، صداقت، عفو و درگزر ، شجاعت ، دیانت ،امانت اور ایمانیات کا احساس اجاگر کرنا ہوگا۔
یہ قوم مردہ ، ضمیر فروش، اخلاق باختہ ، انسانیت کُش اور تمام طرح کی روحانی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوچکی ہے۔ تہذیبِ اخلاق کیلئے صرف جذبہ سے نہیں بلکہ مؤثر قانون سازی اور کردار سے اس میں اعلیٰ انسانیت کی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ یہ کس کی سازش ہے کہ ہم سڑکوں پر انسانیت کے تمام معیارات بھول جاتے ہیں؟۔ یہ ہمارے رول ماڈلز کا تحفہ ہے جن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں عوام کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں سڑک کشادہ ہونی چاہیے تھی، وہاں بااثر طبقہ کی طرف سے اپنی جان کی امان کیلئے رکاوٹیں کھڑی کرکے عوام کا جینا دوبھر کرنے کا سامان کیا گیا ۔رائے ونڈ محل کی سیکیورٹی سے عوام کو مشکلات کا سامنا نہیں لیکن تحریک انصاف کی جہاں حکومت ہے وہاں کے صدر مقام پشاور میں کورکمانڈر ہاؤس کے سامنے ایک طرف کی سڑک رات کو بند کی جاتی ہے، ہمارے دفاعی ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہیں یا اپنے تحفظ کیلئے عوام کا جینا دوبھر کرنے کیلئے؟۔
ایسے سیاسی حکمران بھٹو، نواز شریف اور عمران خان تک کسی کام کے نہیں جو فوجی افسران کا دم چھلہ ہوں، فوج کا کام عوام پر حکمرانی کرنا نہیں اپنی ڈیوٹی انجام دینا ہے اور سیاسی حکمران اگر عوام کے درست معنیٰ میں خادم اور نوکر ہوں تو فوج عوام کی غلام ہونی چاہیے۔ انگریز نے اپنی غلامی کیلئے جن کو بنایا ہے ، یہ اپنی عوام پر حکمرانی کرینگے تو گدھوں کی دولتی سے عوام کی ناک بھی ٹوٹے گی، ناک نہ رہے تو عزت کیا رہے گی؟۔ حکمران غلاموں کے غلام ہونگے تو ان میں اخلاقیات کا کیا معیار ہوگا؟۔ پاک فوج کا سربراہ اپنے غلام حکمران کو کیا سلام کریگا؟۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان جیسے لوگ شرم ، حیاء، اخلاقیات، انسانیت اور اسلام کے کسی اصول کو نہیں مانتے۔جسطرح نوازشریف نے کاروبار سیاست سے فائدہ اٹھاکر اخلاقیات کیلئے کوئی رول ماڈل کا کردار ادا نہ کیا، اسی طرح فلاحی اداروں کے بل بوتے پر اپنا مفاد حاصل کرنے والا کوئی ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتاہے۔ پاکستان میں شریف اور اچھے لوگوں کی کسی بھی ادارے میں کمی نہیں مگر اہل لوگوں کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے اور بک بک کرنے والوں اور بے شرمی سے گھناؤنا کردار ادا کرنے والوں کو ہی آگے لایا جاتا ہے۔
سوات میں افضل خان لالا مرحوم نے دہشت گردی کے خلاف جو کردار ادا کیا، اگر حکومت ،میڈیا،سیاستدان اور عوام ان کو پذیرائی بخشتے تو ملالہ یوسف زئی کو آدھا نوبل انعام ملا، اس سے پہلے افضل خان لالا پورے نوبل انعام کے مستحق تھے، اس طرح میاں افتخار حسین نے جن مشکلات کے دور میں جو کردار ادا کیا ، تحریک انصاف کے کارکنوں نے اسکے گھر پر تماشہ لگاکر کتنا مضحکہ خیز کردار ادا کیا؟۔ اس پر قتل کا پرچہ کٹوایا گیا۔ کوئی شریف آدمی تحریک انصاف کے بداخلاق رہنماؤں کیساتھ کسی ذمہ دار عہدے پر کام کرنے کیلئے بھی آمادہ نہیں ہوتا ۔ مولانا فضل الرحمن کا حال تو اتنا بُرا ہوا کہ ہمارے ہاں ایک ریٹائرڈفوجی حوالدارہے جس کو بالآخر یہ تک شرارتی بچہ پارٹی کہتی تھی کہ دو روپیہ میں اپنا چوتڑ دیوار سے ٹکراؤ، وہ رقم کی خاطر ریورس گیر لگاکر چوتڑ کو دیوار سے ٹکرا دیتا تھا، مسلم (ن) کا ایک گھٹیا کارکن بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح نہ کہتا کہ ’’پنجاب کے شیروں کو پختونخواہ کے چوہوں نے للکارا ہے‘‘۔ فوج تبدیلی کی خواہش رکھتی ہو تو خود بھی حکمرانی کی کوشش نہ کرے اور گھٹیا سیاستدانوں کو بھی نہ لائے، شریف لوگوں کے ذریعہ نظام کو درست کرنے کیلئے قومی حکومت ہو تو اچھے نتائج نکلیں گے۔عوام چہروں کی نہیں نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

ڈاکٹر طاہرالقادری کا دھرنااورکچھ معروضی حقائق

یوں تو پتہ نہیں چلتا کہ خودکش حملوں اور پلانٹ کردہ بموں کے اصل کردار کون ہیں مگرماڈل ٹاؤن کے 14 شہداء کی انکوائری مشکل نہیں ، البتہ لاہورکے تازہ واقعہ میں شہید ہونے والے70افراد حرفِ غلط کی طرح بھُلادئیے گئے جن کی چپقلش بھی نہ تھی بس تاریک راتوں میں مارے گئے۔اسلام آباد دھرنے میںPAT کے کارکنوں نے ایس ایس پی کی جس طرح ٹھکائی کردی، اسلام آباد ائرپورٹ پر جس طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کے جیالوں نے پولیس کو مارا، وہ کسی سے مخفی نہیں، ماڈل ٹاؤن میں پہلی مرتبہ ڈنڈے مارنے اور جوش کا مظاہرہ کیا ہوگا تو پولیس نے گولیاں چلائی ہونگی۔ اس سانحہ کی ذمہ دار صرف ریاست نہیں بلکہ PAT بھی ہے جس نے غریبوں کو ڈنڈے مارنے اور گولیاں کھانے کیلئے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔
پہلی مرتبہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد دھرنے کا اعلان کیا تو کراچی آئے اور ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین گویا اسکے فسٹ کزن تھے جبکہ دوسرے دھرنے کے دوران عمران خان فسٹ کزن قرار پائے جو الطاف حسین کو ہزاروں افراد کا قاتل ، ظالم اور جابر کہتا ہے۔ اب اس سوال کا جواب چاہیے کہ 14افراد کے قتل پر آسمان و زمین کی قلابیں ملانے اور انقلابیں برپا کرنے والے کو اس وقت ہزاروں افراد کا قاتل الطاف اپنی طرح ایک مسیحا اور بھائی لگتے تھے اور نظام کی تبدیلی کیلئے اسی کا ساتھ چاہیے تھا ؟۔ اگر یہ سب جھوٹ اور غلط پروپیگنڈہ ہے تو اپنے بھائی کے حق میں آواز کیوں نہیں اُٹھائی جارہی ہے؟۔ تقریر و تصویر پر پابندی تو دنیا کے بڑے بڑے دہشت گردوں کی بھی نہیں لگی تو کیا اس پابندی نے الطاف حسین کو دنیا کا واحد مقبول لیڈر نہ بنایا؟۔ کراچی کی عوام لکھی پڑھی ہے، اگر ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح الطاف حسین کا متضادرویہ اور تقریروں کا عجب انداز سامنے لایا جاتا تو عقیدت و محبت میں کیا اضافہ ہوتا؟۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ویڈیو دکھائی جاتی ہے جسمیں سینہ کھول کر وہ کہتے ہیں کہ گولی مار دو میں نہیں ڈرتا، اور پھر لوڈسپیکر پھٹنے پر حواسہ باختہ دکھایا جاتا ہے،حالانکہ قوتِ مدافعت سے اچانک لرز جانا کوئی بزدلی بھی نہیں ۔
البتہ جب ڈاکٹر طاہرالقادری امارات کے جہاز میں چپک کر بیٹھ گئے اور کہاکہ ’’میں اتروں گا نہیں ورنہ ماردیا جاؤں گا‘‘۔ تو اتنا کہہ دیا جاتا کہ تم نے اس وقت خوف کا مظاہرہ کیا ،اپنے عقیدتمندوں کے سامنے بھونڈی حرکت کی ضرورت نہ تھی کہ کوٹ کھول کر سینہ دکھایا اور کہا کہ میں گولی سے ڈرنے والا نہیں۔ یہ کہنا اسوقت ججتا ہے جب کوئی بزدل دشمن بندوق لیکر نشانہ بنانے سے ڈراتا ہے کہ میں بزدلوں کے ڈرانے سے نہیں ڈرتا ۔ قوم کا درد رکھنے اور خاندانی سیاست نہ کرنے کی بات وہ کرے جو خود ملوث نہ ہو۔ جب اسلام آباد کی سردی میں دودھ پیتے بچے ٹھنڈ سے بدحال تھے تو ڈاکٹر طاہرالقادری کے جوان بیٹے ، بیٹی محفوظ کنٹینر میں دندناتے تھے۔ ابھی تک قوم کو پتہ نہیں کہ حکومت کو ڈھیل اسلئے دی کہ ڈاکٹر طاہر القادری بیمار تھے یا حکومت کو وقت دینا چاہتے تھے؟ اور تیسرا دھرنا اسلئے ملتوی کیا کہ خرم نواز گنڈہ پور کی زبان کی پاسداری کی، یاپھر رمضان میں لوگوں کوتکلیف نہ دینا چاہتے تھے؟۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ’’میرے لئے کرسی پر بیٹھ کر تقریر کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن میں نے کھڑے ہوکر تقریر اسلئے کی کہ یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ میں بالکل فٹ ہوں، میں بیٹھ کر تقریر محض اپنے سہولت کیلئے کرتا ہوں، یہ میری مجبوری نہیں‘‘۔ جب ڈاکٹر صاحب نے فجر کی نماز پڑھائی تو سجدے میں جانے کی بجائے کرسی ہی پر بیٹھ جاتے تھے، یہ انکا عذر اور مجبوری ہے یا ان کی کرسی سے محبت اللہ کے سامنے سجدہ کرنے سے بھی روکتی ہے؟۔جنرل راحیل شریف اپنی چھڑی سے نوازشریف کو سبق سکھائیں تو ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی اللہ کے سامنے سجدے کا اشارہ کریں ، اللہ کیلئے نہیں تو جنرل کیلئے ضرور مصلے پر سجدہ کریں گے۔ڈاکٹر طاہرالقادری مصلہ پر بیٹھ کر سجدہ نہیں کرسکتے توکیسے کہا کہ ’’میں نے مصلہ پر گڑگڑا کر بہت دعائیں مانگ لیں کہ اے اللہ! میری عزت کا پاس رکھنا، اگر 14غریب شہداء کے لواحقین میں سے کوئی ایک بھی بک گیا تو میری عزت خاکستر ہوجائیگی، شکر ہے اللہ نے میری عزت رکھ لی ، حکومت نے بہت پیشکش کی کہ دیت لے لو لیکن کوئی ایک بھی نہ بکا‘‘۔
کارکنوں کی کیا حیثیت ،رہنماؤں کے بدل جانے سے بھی قائدین پر کوئی اثر نہیں پڑتا، یہ بات ہوتی تو پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ،تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی کیا عزت رہتی؟،کتوں کے ریلوں کی طرح سیاسی رہنما پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔ اور جب رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ مرتد ہوگئے تو اس پر بھی نبیﷺ کی عزت پر کیوں کر اثر پڑتا؟۔ البتہ جب نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ شہر میں جنگ لڑیں تو اچھا رہیگا اور نوجوان صحابہؓ نے ضد کی کہ ہم باہر نکل کر مقابلہ کرینگے تو نبیﷺ کا ارادہ بدل گیا اور شہر سے نکلنے کیلئے زرہ زیبِ تن فرمایا، نوجوانوں کو بڑوں نے ڈانٹا کہ اپنی رائے پر اصرار کیوں کیا تو وہ عرض کرنے لگے کہ ہماری رائے بدلی ہے، شہر میں جنگ لڑیں گے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ جب نبی ایک دفعہ زرہ پہن لے ،پھر مناسب نہیں کہ اس کو اتاردے۔ اب شہر سے باہر ہی جنگ لڑیں گے۔ پھر گھمسان کی جنگ میں بعض صحابہؓ کے پیر اُکھڑ گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا انا نبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب ’’ میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ،میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے قوم کے سامنے کفن لہرایا کہ ’’ اس کو میں پہنوں گا یا اس کو نوازشریف کی حکومت پہنے گی‘‘۔ دونوں باتیں نہیں ہوئیں بلکہ جسکو فسٹ کزن قرار دیا تھا اسکو بھی چھوڑ کر بھاگا، کیونکہ بھکر میں انتخابات کانتیجہ دیکھ لیا تھا۔ عزت رکھنے کی بات ہوتی تو اپنی بات پر قائم رہ کر خود اپنی عزت رکھ لیتے۔ کارکن دیت لیتے بھی تھے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کی اجازت اسلئے نہ دی تھی کہ غریب کے عمل سے باتوں کے سکندروں کی عزت پامال ہوتی۔البتہ جب ریمن ڈیوس نے صرف شہریوں کو قتل نہیں بلکہ ریاست کی بھی خلاف ورزی کی تو اس وقت صوبائی ومرکزی حکومت اور فوج وعدلیہ کے کردار نے اپنی عزت داؤ پر لگادی۔ عمران خان اگرچہ نیازی ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کی طرح باپ سے زیادہ ماں اور ماں کے خاندان کا نام لیتے ہیں، جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا نسب قادری نہیں تو کس اعتبار سے فسٹ کزن ہیں؟۔ کیا امپائر کی انگلی اٹھنے یا توقعات کے حوالہ سے فسٹ کزن ہیں؟۔
خرم گنڈہ پور نے میڈیا پر مسلسل کہا ’’ اگر ہمارے پاس اسلحہ ہوتا تو انکو بھی نشانہ بنادیتے، میں تربیت یافتہ فوجی ہوں، میری نااہلی پاکستان آرمی کی نااہلی ہے‘‘۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے خرم نواز گنڈہ پور کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا اور کہا کہ ’’ہمارے پاس پاک آرمی کے ریٹائرڈ تربیت یافتہ کمانڈوز تھے میرے بیٹے حسن اور حسین نے منتیں کرکے ان کو کمروں میں بند کیا کہ ہمارے ابا کا حکم ہے، سب کو بھی مار دیا جائے تو پُر امن رہنا۔ اگر اس وقت ان کی اجازت ملتی تو 14لاشیں ان کی بھی گرجاتیں‘‘۔ اگر ایک بیٹا گارڈز کو روکتا اور دوسرا گولی کھانے والوں کیساتھ گولی کھا لیتا تو شاید پروفیسر طاہرالقادری کو اسی وقت پاکستان آنے کی توفیق مل جاتی لیکن جو غریب مرتے ہیں ان کی کیا اوقات ہوتی ہیں، اگر حکمرانوں میں عقل ہوتی تو وہ یہی کہتے کہ اسلام آباد کی بجائے لاہور ہم زبردستی سے اسلئے لائے ہیں کہ دعا اور تعزیت کا خیال تو رکھو۔ عمران خان اسپیشل جہاز سے کراچی آئے تو ایم کیوایم کیخلاف ایک لفظ بھی نہ کہا اور اپنی جماعت کی خاتون رہنما زہرہ شاہد کی تعزیت بھی نہیں کی۔ ہمارا مستقبل ان لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے جن کا اپنا کوئی حال نہیں ۔
جمہوریت کی بساط لپیٹی جائے توتمام سیاسی مقاصد و فوائد حاصل کرنے والے طبقے کو ایک ہی چھڑی سے سیدھا کیا جائے تاکہ ماضی کی غلطیاں نہ دھرائی جائیں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

اسلام دین فطرت کو مذہبی طبقوں نے غیرفطری بنا ڈالا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ اسلام اجنیت کی حالت میں شروع ہوا تھا، اور عنقریب یہ پھر اجنبی بن جائیگا، پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لئے‘‘۔
پاکستان میں سنی، شیعہ، دیوبندی ، بریلوی ،اہلحدیث اور دوسری صدی ہجری میں مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی، جعفری،اہل ظواہر،محدثین اور دوسرے فقہاء تھے، فقہ و حدیث کی بنیاد پر محدثین اور فقہاء میں سخت اختلاف اور کشمکش کی فضاء تھی لیکن فقہاء ایک دوسرے سے بھی شدید اختلاف رکھتے تھے، اس طرح محدثین کی بھی آپس میں بھی نہ بنتی تھی، ایک دوسرے کو کذاب اور کتے کے بچے کہنے سے بھی دریغ نہ کرتے، جس کی نشاندہی حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق کی روایت کرنے والے ایک روای کو دوسرے نے ’’جرو کلبیعنی کتے کا بچہ‘‘ قرار دیا ۔
محدثین فقہاء کو ’’ أ ریتون کیا تو نے دیکھا والا طبقہ یا ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟‘‘کا نام دیتے ، حدیث جسمیں اسلام کا صرف نام باقی رہنے، قرآن کے صرف الفاظ باقی رہنے ، مساجد لوگوں سے بھری مگر ہدایت سے خالی اور انکے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیاگیا کہ فتنے انہی سے نکلیں گے اور انہی میں لوٹیں گے، محدثین ؒ اس حدیث کی پیشین گوئی کو اپنے زمانے پر فقہاء کی وجہ سے پورا سمجھتے تھے، جبکہ فقہاء سمجھتے تھے کہ ان کی وجہ سے اسلامی احکام کی تشریح اور حفاظت ہورہی ہے۔
ہمیں ان دونوں طبقے کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں لیکن من گھڑت روایات اور حیلہ سازی کے کرشموں کو بھی درست قرار دینا ایمان کا زوال اور اسلام کی بیخ کنی ہوگی۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ پہلے لوگوں نے اس سے غفلت کا مظاہرہ کیا ۔امام غزالیؒ ، مجدد الف ثانیؒ ، شاہ ولی اللہؒ اور بے شمار علماء حق نے اپنے ضمیر، صلاحیت اور ہمت کیمطابق ہدایت کی شمعوں کو جلائے رکھا، اپنے دور کے درخشندہ ستاروں کو گلہائے عقیدت کا پیش کرنا اور ان سے بدظنی کا شکار نہ ہونا ایک بالکل الگ بات ہے مگر انہوں نے کبھی بھی نہ یہ دعویٰ کیا کہ ان سے اختلاف جائز نہیں اور اگر وہ یہ دعویٰ کرتے تو ہمارا فرض بنتا تھا کہ ان کو چمکتے ستاروں کی مانند سمجھنے کی بجائے ان کو زمین میں دفن کرکے قبروں کے نشان بھی زمین پر نہ چھوڑتے، کیونکہ کوئی بت بنائے تو قصور بنانے والوں کا ہوتا ہے لیکن کوئی فرعون کی طرح دعویٰ کرے تو دین میں اس کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔
رسول اللہ ﷺ رحمۃ للعالمین آخری نبی کی وحی کے ذریعہ رہنمائی ہوئی،پھر یہ سلسلہ قیامت تک کیلئے بند ہے۔ یہودو نصاریٰ اور مشرکینِ مکہ کا دعویٰ تھا کہ ابراہیمؑ کی ملت پر ہیں مگر وہ دینِ فطرت کی شکل بگاڑ چکے تھے۔جب تک وحی سے رہنمائی نہ ملتی تھی تو نبیﷺ پہلے مشرکینِ مکہ یا یہود ونصاریٰ کے مذہبی فتوؤں کو بعض معاملوں میں درست سمجھتے تھے۔سورۂ مجادلہ ، سورۂ احزاب اور دیگر قرآنی سورتوں اور احادیث صحیحہ میں اسکے بھرپور شواہد موجود ہیں۔دورِ جاہلیت میں معروف منکر اور منکر معروف بن چکا تھا۔رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک خاتون نے عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھ سے ظہار کیا ہے، بیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینا ظہار کہلاتا تھا ، سخت ترین طلاق کی صورت یہی تھی۔نبیﷺ نے فرمایا کہ آپ حرام ہوچکی ہیں، اب کوئی راستہ نہیں رہا ہے، وہ بحث وتکرار، مجادلہ و جھگڑاکررہی تھی کہ میرے شوہر کی نیت نہیں تھی، میری زندگی اور میرے بچوں کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔ اللہ نے وحی اتاری۔
قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجہا۔۔۔ بیشک اللہ نے بات سن لی اس عورت کی جو آپ سے جھگڑ رہی تھی اپنے شوہر کے معاملہ میں۔۔۔ ان کی مائیں نہیں مگر جنہوں نے ان کو جنا ہے۔۔۔ یہ (مذہبی فتویٰ) جھوٹ اور منکر ہے۔۔۔ سورۂ مجادلہ کی ان آیات سے علماء و مفتیان کو یہ سبق لینا چاہیے کہ معاشرہ میں اگر منکر معروف کی جگہ لے لے تو بڑے سے بڑا آدمی بھی مغالطہ کھا جاتا ہے،شیعہ مکتب کی رائے اپنے ائمہ اہلبیتؑ کے بارے میں مختلف ہے ، صحیح بخاری میں انکے ائمہ کا ذکر ’’علیہ السلام‘‘ کیساتھ کیا گیا ہے،احادیث میں اہلبیت کی خاص اہمیت بیان کی گئی ہے لیکن اہلبیتؑ زیادہ سے زیادہ ان کے عقیدے کے مطابق بھی نبیﷺ کے واحد جانشین بن سکتے ہیں، قرآن و سنت سے بڑا درجہ تو ان کا نہیں ہوسکتا ہے۔
اہل تشیع کے معروف عالم دین علامہ طالب جوہری سے میری ملاقات ہوئی تھی علامہ علی کرار نقوی بھی موجود تھے، میں نے کہا کہ نبیﷺ سے اختلاف جائز تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، سورۂ مجادلہ کا واقع بتانے پر قرآن منگوایا، دیکھنے پر کہا کہ ’’ یہ متشابہات میں سے ہے، محکمات یہ ہیں کہ نبیﷺ سے اختلاف جائز نہ تھا‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت اعلیٰ نمونہ تھا ، جس میں جبر نہ تھا، کوئی بھی اختلاف کا مجاز ہوتا تھا، بدر کے قیدیوں پر فدیہ اور حدیبیہ کے معاہدہ میں اختلاف کا اظہار ہوا تھا ، بدر کے قیدیوں پر نبیﷺ کی رائے کونامناسب اور حدیبیہ کے معاہدے میں نبیﷺ کی رائے کو فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔سورۂ احزاب کی آیات پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معروف منکر اور منکر معروف بن چکا ہو،تواسوقت دین پر عمل کتنا مشکل ہے؟۔
سورۂ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے دور میں معروف مذہبی فتویٰ کو جھوٹ اور منکر قرار دیالیکن جب فضاؤں میں منکر معروف بن کر انسانی رگ وریشہ میں خون کی طرح دوڑ رہا ہو تو قبولِ حق سے آدمی مقدور بھر اعراض کرتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کمال ہے کہ نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو اعلیٰ نمونہ بناکر پیش فرمایا۔ وحی نازل ہونے سے قبل آپﷺ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے کوئی کالی چیز نکالی گئی ، وحی کی رہنمائی کسی اور کی نصیب میں نہ تھی۔اللہ کو معلوم تھا کہ دین قیامت تک چلے گا لیکن معروف کو منکر اور منکر کو معروف بنادیا جائیگا۔ اس وقت قرآن کے الفاظ اور نبیﷺ کی سیرت سے رہنمائی ہدایت کا اہم ترین ذریعہ بن جائیں گے۔اسلئے قرآن میں بار بار اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم ہے اور رسول ﷺکی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا ۔علماء قرآن و سنت کو چھوڑ کر اجماع کا طبلہ بجارہے ہیں ۔
یا ایھا النبی اتق اللہ ۔۔۔ اے نبی! اللہ سے خوف کھا، اور کافروں و منافقوں کی اتباع نہ کر۔۔۔ اور اتباع کر جو تیرے رب نے تجھ پر نازل کیاہے اور اللہ پر توکل کر، اللہ کی وکالت کافی ہے، اللہ نے کسی آدمی کے سینہ میں دو(2)دل نہیں رکھے ہیں اور نہ تمہارے لئے مائیں بنایا ہے جن سے تم ظہار کرتے ہو،اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹے بنایا ہے ، یہ باتیں ہیں تمہارے منہ کی ‘‘۔آگے یہ بھی فرمایا کہ ’’ آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو‘‘۔الاحزاب
مولوی بیچارا تو لوگوں سے نہیں اپنے سایہ سے بھی ڈرتا ہے، معاشرے میں اس رسم کو توڑنا اسکے بس کی بات نہیں جب منکر نے معروف کی جگہ لی ہو۔ قرآن کی یہ آیات عام لوگ پڑھ لیں اور پھر بند حجروں میں علماء ومفتیان کو ایک ایک کرکے ماحول فراہم کریں جس میں ان کیلئے حق پر چلنا مشکل نہ رہے۔سنی مکتب سے زیادہ شیعہ مکتب کے علماء ومفتیان کیلئے رسم کے خلاف حق کی راہ اپنانا مشکل ہے ، دیوبندی اور بریلوی کے مقابلہ میں اہلحدیث کیلئے رسم کے خلاف چلنا مشکل ہے اور دیوبندی کے مقابلہ میں بریلوی کیلئے رسم کے خلاف حق پر چلنا زیادہ مشکل ہے۔
بریلوی حضرت ابوبکرؓ ، دیوبندی حضرت عمرؓ ، اہلحدیث حضرت عثمانؓ، شیعہ حضرت علیؓ کے مزاج سے مناسبت رکھتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے زندگی بھر نبی ﷺ کی اطاعت کی لیکن جب اپنے دور میں زکوٰۃ نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا فیصلہ کیا تو کسی کی سنی اور نہ مانی۔ حضرت عمرؓ نے حدیث قرطاس میں نبیﷺ سے عرض کیا، ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے،حضرت عثمانؓ نے روایات کو ترجیح دی، حضرت علیؓ نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ دیوبندی مجبوراً اور بریلوی برضا مقلد حنفی ہیں۔ فاروق اعظمؓ، امام اعظمؒ اور دیوبندی اکابرؒ کی اپوزیشن بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔