پوسٹ تلاش کریں

ایک انسان کو بچانا انسانیت کو بچانا ہے

بھارت کی معروف شاعرہ لتا حیا اور ریٹائرڈ چیف جسٹس مرکنڈے ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کی خاطرگائے کے خلاف انسانیت کیلئے آواز بلند کررہے ہیں ، یہ جذبہ اور قربانی اس قابل ہے کہ پاکستان یہ اعلان کردے کہ ان دونوں کی حق گوئی کے جواب میں آئندہ یہاں کوئی گائے ذبح نہیں ہوگی۔ ایک مباح کام کی وجہ سے ہم ڈیڑھ ارب انسانوں کے دل جیت سکتے ہیں ۔ ایک انسان کو بچانا انسانیت کو بچانا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں گائے کے دودھ اور پیشاب پر صلح کا معاہدہ کیا جائے: اشرف میمن

نوشتۂ دیوار کے پبلیشر اشرف میمن نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کابازار گرم ہے، بھارت کو عوام کی بد دعائیں لے ڈوبیں گی۔ پاک فوج مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے اب راست اقدام اٹھائے۔ عوام شانہ بشانہ لڑیگی۔ لتا حیا کی شاعری وبھارتی ریٹائرڈ چیف جسٹس مرکنڈے کی سوچ برصغیر پاک وہند میں پھیلائی جائے اور ساتھ ساتھ اس پر صلح ہو کہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کیا جائے اور برصغیر پاک وہند میں گائے ذبیح کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ گاؤ ماتا ہندوؤں کا مقدس دیوتا ہے۔ اسکا دودھ مسلمانوں، پیشاب مودی جیسے متعصب ہندوؤں کو پلایا جائے۔ پاکستان اور بھارت میں صلح کیلئے ہر ممکن معاہدہ کیا جائے ، مقبوضہ کشمیر میں انسانوں اور گائے کا خون نہ بہانے سے امن قائم ہو تو بہتر رہے گا۔ پاک بھارت میں انشاء اللہ ایٹمی جنگ نہیں ہوگی بلکہ یہ ناچاقی دونوں ملکوں میں دوستی کا ذریعہ بنے گی۔ بھارت کو منانے کیلئے وزیر اعظم عمران خان کو اس حد تک گرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس سے مودی کے اندر غرور اور تکبر و جہالت کا جذبہ مزید بڑھے گا۔

ایٹمی جنگ ہوگی تو کیوں اور نہیں ہوگی تو کیوں نہیں ہوگی؟ ایڈیٹر نوشتہ دیوار اجمل ملک

برصغیر پاک و ہند پر ایٹمی جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں۔ اگر ایٹمی جنگ ہوگئی تو اس کا سبب کیا ہوگا؟۔ اور اگر جنگ کے خطرات ٹل گئے تو وجوہات کیا ہوں گی؟۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اگر عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی تو مقرر کردہ نصف حق مہر دینا ہوگا اور اگر حق مہر مقرر نہ ہو تو امیر پر اپنی وسعت کے مطابق اور غریب پر اپنی وسعت کے مطابق حق مہر دینا ہوگا۔ اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے ماہنامہ ’’اشاعۃ التوحید و السنۃ‘‘ پنج پیر صوابی نے انفاق فی سبیل اللہ کے حوالے سے مدرسے کیلئے چندے کی رقم طلب کرنے کی ترغیب دی تھی۔ یہ میجر عامر کے بھائی شیخ القرآن مولانا طیب صاحب کے زیر سرپرستی نکلتا ہے۔ جب ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں نصف حق مہر ہے تورخصتی اور کئی سالوں کے بعد طلاق دینے پر پورا حق مہر کیسے فرض نہ ہوگا؟۔ ایک بہت بدھو شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق کی صورت میں حق مہر کے علاوہ تمام دی ہوئی چیزوں کی بھی وضاحت کی ہے کہ کوئی چیز واپس نہیں لی جاسکتی۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ’’دی ہوئی چیزوں سے مراد حق مہر ہے‘‘۔ اس نے یہ تفسیر لتا حیاء کو بھی بھیج دی تھی۔ سورہ نساء آیت 20، 21میں واضح طورپر اللہ نے فرمایا کہ ’’طلاق کی صورت میں دی ہوئی چیز نہیں لی جاسکتی ‘‘۔ اور سورہ بقرہ آیت 229میں یہ بھی واضح ہے کہ ’’جو کچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لینا حلال نہیں الا یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اسکے بغیر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اوراگرتمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اسکے بغیر اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ یہ بھی طلاق کی صورت ہے۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خانؒ اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو مرتبہ طلاق کے بعد آیت 229 تسریح بالاحسان ہی قرآن میں تیسری طلاق ہے۔ خلع کی صورت سورہ نساء آیت 19میں واضح ہے۔ جہاں عورت کو نہ صرف خاوند چھوڑنے کا حق دیا گیا ہے بلکہ منقولہ اشیاء کو ساتھ لے جانے کی وضاحت بھی ہے۔ لتا حیا کو قرآن کی صحیح تفسیر پیش کی جاتی تو تمام کٹر ہندو بھی اسلام قبول کرنے میں باک نہیں سمجھتے۔ حلالہ کی لعنت اور گائے کی وجہ سے جب انسانوں کا قتل ہوتا ہے تو بر صغیر پاک و ہند ایٹمی عذاب کے مستحق بنتے ہیں اور اگر ان کی اس لعنت سے جان چھڑائی جائے تو ایٹمی جنگ کا عذاب اللہ تعالیٰ ٹال دے گا۔

تم نے صدیوں سے اسلام کو یرغمال بنا کے رکھا ہے: سید عتیق الرحمن گیلانی

71 سال سے منے کے ابا نے غلام بنا کے رکھا ہے۔مولانا فضل الرحمن

مولانا فضل الرحمن کا سوشلل میڈیا کنونشن سے خطاب کراچی( فیس بک) مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ رسول اللہﷺ نے مسجد کی امامت اور سیاست کی وراثت بھی چھوڑی۔ یہ غلط ہے کہ سیاست کو برا سمجھا جائے۔ اللہ نے آدمؑ کو خلیفہ بنایا۔ حضرت آدم ؑ کوعلم کی بنیاد پر فضلیت دی۔ علم میں دنیا اور آخرت کی تقسیم غلط ہے۔ علی گڑھ اور دارالعلوم دیوبند کو غلط تقسیم کیا گیا۔ مسجد کی امامت کیلئے مخصوص حلیہ ضروری ہے، جب تک داڑھی، پگڑی ، ٹوپی اور لبادہ نہ ہو تو کوئی مسجد کے مصلحے پر کھڑا نہیں ہوسکتا، نہیں تو نذیرلغاری مسجد کی امامت کرکے دکھا دے۔ اور مقبول جان کا بڑاعلم ہے، انیق احمد کا بہت اچھا علم ہے لیکن امامت نہیں کرسکتا۔ایک معمولی درجہ کا ناظرہ قرآن پڑھنے والا جب داڑھی رکھ لیتا ہے، مخصوص حلیہ بنالیتا ہے تو مسجد کی امامت کا حقدار بن جاتا ہے۔ اسلام پہلے عبودیت سکھاتا ہے اور جو اس عبودیت میں پختہ ہوجاتا ہے تو پھر وہ خلافت کے قابل بن جاتا ہے۔ جب خلافت کی ذمہ داری مل جاتی ہے تو اسکے فرائض منصبی بدلتے ہیں۔ پھر مخلوق کی خدمت اسکی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے ووٹ تو اسلام کیلئے دیا تھا اور اب مجھ سے خدمت نہیں مانگو۔ کورٹ کچہری اور تھانہ جانا میرا کام نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ بعض لوگ آج مغرب کے پروپیگنڈے کا شکار ہیں کہ اسلام میں موروثی نظام نہیں، مغرب کا حسب نسب نہیں ہوتا، اسلام میں حسب نسب ہے۔ پیغمبر اپنے دور کے شریف نسب میں مبعوث ہوتے تھے۔ حضرت سلمان ؑ حضرت داؤودؑ کا بیٹا تھا۔ جنکا کوئی اپنا حسب نسب نہ ہو،وہ لوگ موروثی نظام کی مخالفت کرتے ہیں۔ البتہ اعمال صالحہ ضروری ہیں، حضرت نوحؑ نے کہا کہ ’’ میرے بیٹے کو بچالو، تو اللہ نے فرمایا کہ یہ تمہارا بیٹا نہیں ،اسکا عمل صالح نہیں ‘‘۔ حضرت ابراہیم ؑ نے عبودیت کی تکمیل کی۔ایک اللہ کی طرف لوگوں کو بلایا۔ بتوں کو توڑا، آگ میں ڈالے گئے ۔اللہ کے سامنے چند کلمات کہے اور پھر اس میں پورے اترے تو اللہ نے امام بنادیا۔ آپ ؑ نے عرض کیا کہ میری اولاد میں بھی ،فرمایا: میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا‘‘۔ جب تک فوج کا اقتدار ختم نہیں ہوتا تو ہم یومِ آزادی نہیں منائیں گے، دھاندلی بھی کروائی جاتی ہے اور پھر دھاندلی والے کا نام لینے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ ایک عورت کو سمجھایا گیا کہ شوہر کانام نہیں لیتے، وہ نماز میں سلام پھیرتی تو رحمۃ اللہ کی جگہ منے کا ابا بولتی۔ جس پر سب نے دل کھول کر قہقہ لگایا۔ مولانا نے کہا کہ ’’جب الیکشن میں بھی دھاندلی سے ہرا دیا جائے تو ہم اپنا مقابلہ جاری رکھیں گے‘‘۔ پوری تفصیل کیلئے سوشل میڈیا پر دیکھ لیں ، ہم نے خلاصہ پیش کردیا ہے تاکہ تبصرہ ہوسکے۔

مولانا فضل الرحمن کے بیان

71سال سے منے کے ابا نے یرغمال بنا کے رکھا ہے

پر تبصرہ

تم نے صدیوں سے اسلام کو یرغمال بنا کے رکھا ہے

مولانا فضل الرحمن کی سیاست اسمبلی کی رکنیت کی مار ہے، پہلی بار نہ ہارے ،اگر ٹانک سے بیٹے کو کھڑا نہ کرتے تو سیٹ جیت لیتے۔ پچھلی بار بیٹا اسمبلی میں نہیں پہنچ سکا تو شاید بیگم نے ڈانٹ دیا ہوگا کہ مفتی محمود کے دوسرے بھی فرزند اور پوتے ہیں ، اگر بیٹے کو اسمبلی میں نہیں پہنچایا تو یہ وراثت گھمبیر ہوسکتی ہے۔ بڑے چھوٹوں کیساتھ زیادتی کا مرتکب کرتے ہیں۔ شیطان نے حضرت آدمؑ کو سجدہ اسلئے نہ کیا کہ ابلیس نے عبادت ، حلیہ، بڑائی اور خدمات کو پیشِ نظر رکھا۔ قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا، حضرت یوسف ؑ سے بھائیوں نے کیا سلوک کیا؟۔ اکابر چھوٹوں کے ساتھ یہ سلوک رکھتے ہیں۔ 1970ء میں شیخ الاسلام اور مفتی اعظم پاکستان کو مفتی محمودؒ اور اسکے ساتھی چھوٹے اور بے نسب لگتے تھے اسلئے ان پر کفر کا فتوی داغا گیا؟۔ مولانا فضل الرحمن نے سوشل میڈیا پر مولانا محمد امیر بجلی گھر کی تقریر سنی ہے جسمیں وہ کہتا ہے کہ ’’ مسجد کے امام کا بیٹا اہلیت رکھتا ہو تو اسی کو امام بنایا جائے۔ مولانا فضل الرحمن جانشینی کی اہلیت رکھتا ہے تو مفتی محمود ؒ کی جگہ پراسی کو بیٹھنا چاہیے‘‘۔ حالانکہ جے یوآئی کوئی موروثی جماعت تو نہیں تھی، مفتی محمود کے باپ دادا نے تو نہیں بنائی تھی۔ مولانا بجلی گھر جے یو آئی کے رہنما تھے۔ بنوری ٹاؤن کے طالب علم مولانا عبدالرزاق ژوبی نے کہا کہ یہ خطیب بکواس میں وقت ضائع کرینگے تو میں چٹ لکھ دیتا ہوں تو مولانا فضل الرحمن کی تعریف کریں۔ اسوقت مولانا پر دوسرے علماء و مفتیان نے کفر کا فتویٰ لگایا۔ مجھے بذاتِ خود مولانا بجلی گھر نے کہا کہ اتحاد امت بہت اچھا خواب ہے لیکن مولانا سمیع الحق اور فضل الرحمن بھی ایک نہ ہونگے۔ ٹانک میں JUI کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن مفتی محمود ؒ اور مولانا فضل الرحمن نے ہمیشہ بارگیننگ کی ۔ رسول اللہﷺ کے جانشین ابوبکرؓ اور خلافت راشدہؓ میں موروثی نظام نہ تھا، بنو امیہ و بنوعباس نے موروثیت سے خلافت کو برباد کیا ۔بلوچستان میں جے یوآئی جیتی مگر قوم پرستوں کو اقتدار دیا گیا، سرحد میں جے یوآئی کی نمائندگی نہ تھی تو وزیراعلی مفتی محمود ؒ کو بنوایا۔ MMA کے اقتدار میں علماء کی بھرمار تھی مگر چھوٹی داڑھی رکھواکر اکرم خان درانی کو وزیر اعلیٰ بنوایا گیا۔ جمعیت علماء اسلام نے فیصلہ کیا کہ انتخابی سیاست نہیں کرینگے ، بندوق اٹھانے کی بات مختلف اوقات میں اٹھائی تھی۔ پاک فوج نے ڈر محسوس کیا کہ یہ خطرناک ہوگا۔ اسلئے جب مولانا فضل الرحمن نے لاہور مینار پاکستان کی دہلیز پر اہم اعلان کرنا تھا تو اس کو روک دیا گیا حالانکہ یہ فیصلہ اجتماعی مشاورت سے ہوا تھا۔ جے یوآئی نے ماہنامہ میں لکھاتھا کہ ’’ احمد شاہ مسعود ایشاء کا سب سے بڑا کمانڈر ہے‘‘۔ جب افغانستان میں امریکہ نے خانہ جنگی کاپروگرام بنایا تو مولانا فضل الرحمن کے کارکن شمس محسود نے احتجاجی جلسے میں لہو گرمایا کہ ’’ احمد شاہ مسعود اتنا عیاش تھا کہ اس نے کہا کہ عیاشی کی کوئی صورت میں نے نہیں چھوڑی ، بس یہ رہ گیاکہ کوئی عورت میرے سامنے بچہ جننے کی کیفیت سے گزر جائے اور پھر اس نے وہ نظارہ دیکھ لیا تھا‘‘۔ جاہل عوام کو اس طرح ورغلانے سے بھی نہیں شرماتے تھے۔ مسجد کی امامت کوئی منصب نہیں رہا بلکہ پیشہ بن گیا ہے، پہلے عزت اور وقار کی نگاہ سے لوگ دیکھتے ، اب تومسجد کی امامت ہی نہیں مذہبی لبادے کی لیڈر شپ کو بھی نکمے قسم کے لوگوں نے اتنا بدنام کردیاہے کہ اس لبادہ میں لیڈری کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ امام الہندمولاناآزادؒ کی داڑھی چھوٹی تھی مگر علم تھا، اب بڑے ریش والے کیاجاہل ہیں؟۔مولانا کی پوری تقریر تضادات کا مظاہرہ ہے مگر لٹو کی طرح گھومنے والے کی کسی نے پکڑ نہیں کی، علی گڑھ اور دارالعلوم دیوبند پڑھے لکھے جاہلوں کی بہتات ہے مگرکوئی ان پر گرفت نہیں کرتا۔ عمران خان کو اسلامی جمعیت طلبہ کے جاہلوں نے پنجاب یونیورسٹی میں گریبان سے پکڑا۔

عمران خان کے برگشتہ ساتھی بیت اللہ بیٹنی کا تہلکہ خیز ویڈیو بیان

بیت اللہ بیٹنی کا ویڈیو پیغام، عمران خان کے برگشتہ ساتھی کا تہلکہ خیز بیان پہلے پی ٹی آئی کا دوپٹہ اپنے گلے میں ڈالا تھا

السلام علیکم خوش آباد رہو۔ پی ٹی ایم کے ساتھیو! موجودہ پروپیگنڈہ میں آپ کو بیدار ہونا چاہیے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ علماء خاموش ہیں، فتویٰ نہیں دے رہے۔ مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید کو فتویٰ جاری کرنا چاہیے کہ جہاد ہوگا۔ Retreat (پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے) نہ کرنا چاہیے، اسلام میں Retreat نہیں، انکے فتوے افغانستان کے جہاد میں پشتونوں کو لیجانے ہیں۔ انکا فتویٰ ہے کہ تورخم کو بند کرنا جائز ہے۔ یہ فتویٰ نہیں ہوتا کہ انڈیا سے ہم لڑینگے۔ فتویٰ ہوتا ہے کہ وزیرستان کے معصوموں کیلئے دعا ناجائز ہے اور یہ ذکر کہ وہاں مائن لگے ہیں یہ ناجائز ہے۔ مولانا مسعود اظہر نے سخت زبان استعمال کی ہمارے عظیم لیڈر منظور، پشتونوں، ولی خان ،ہم کامریڈز کے بارے میں۔ ہم نے خود کو بیچنا نہیں ۔ پشتونو! خود کو نہ بیچو!۔ اس دور میں آپ کو پھر کوئی ایندھن نہ بنائے۔ ہم ضرور ساتھ دینگے مگر دیکھیں گے یہ لڑتے یا نہیں؟۔ اربوں روپے دفاع پر خرچ مگرآؤٹ پٹ نہیں۔ وہ ہمیں یا ہم ان کو قبضہ کریں لیکن ضرور کریں۔ اتنا بڑا بجٹ، ٹینک، میزائل، توپیں ، طالبان اور مجاہدین بنانا،اُ دھر سے انہوں نے بھی بنائے، آخر ان کا استعمال ہونا چاہیے۔ ہم امن کی بات کریں تو ہمارا امن ان کو پسند نہیں آتا۔ خیبر ٹی وی پر ہمارے مشر بولتے ہیں تو امن والوں کو یہ چھوڑتے نہیں تو جنگ میں جاؤ ۔ جتنا غصہ افغان باونڈری پر آتا ہے اتنا غصہ ادھر بھی دکھانا پڑیگا ورنہ ہم کہیں گے کہ تم ادھر بھی پشتون اور اُدھر بھی پشتون کو مروا رہے ہو۔ دیکھو اُدھر سے انکا پنجابی بھائی پیدا ہوا، جنہوں نے سب سے زیادہ پاکستان کی مخالفت کی، مسلمانوں کو قتل کیا لیکن یہ پھر بھائی بنتے ہیں۔ واہگہ بند نہ کیا مگر طورخم ، چمن کو بند کرتے ہیں۔ وزیرستان کی راہ بند کردیتے ہیں۔ یہاں کارڈ تھا وہ دیکھتے تھے تاکہ لگے کہ ہم فلسطینی اسرائیل میں جاتے ہیں، اپنے ملک میں۔ ان کو تو آزادی ہم نے دلوائی تھی۔ ان مولویوں کی آواز آنی چاہیے فیس بک میں میری آنکھیں ترس گئی ہیں۔ جتنے بھی پشتون ہیں پھر نہ کہیں ہم میں لیڈر نہ تھے یا خبردار نہ کیا، لڑائی ضرور ہوگی، میری Prediction (پیشگوئی) کبھی غلط نہیں ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ پوری دنیا اس میں کوشش کریگی۔ یہ لڑائی کوئی نہیں روک سکتا۔ ابھی غزوہ ہند کا موقع آگیا۔ آگے بڑھنا چاہے مگر چھپ رہے ہیں، مولانا مسعود اظہر کو فرنٹ لائن پر بھیجنا چاہیے، انکے بچوں کو بھی لیجانا چاہیے، اگریہ چلے گئے تو میں آؤں گا کیونکہ ابھی شوق پیدا ہوگیا۔ اگر یہ نہیں جاتے تو ہم سمجھیں گے کہ پشتونوں کو مروانے کیلئے اسلام کا استعمال ہے، یہ لبادہ ہے اور ہم کو چکی میں پسوارہے ہیں۔ ہماری ترقی، معیشت ، ہر چیز پر ۔۔۔ اور ہم اتنا بڑا بجٹ تیار کرتے ہیں۔ روز روز کا معاملہ لازم فائنل ہونا چاہیے۔ ہم نے تو بال سفید کئے، آنیوالی نسلیں اچھی رہ سکیں ،پشتونوں کا خون اتنا ارذاں نہیں کہ پی ٹی ایم کو نیچے کردیگا اور پی ٹی ایم ختم ہو گی۔ پی ٹی ایم ہی مستقبل ہے۔ ہم وہ نہیں کہ لیٹ جائیں۔ چند جرنیل پالیسی بنائیں اور ہم پر مسلط کریں؟۔ پارلیمنٹ میں بحث ہو ،پالیسی بنے تو ٹھیک ہے۔پورے پاکستان کا دماغ پارلیمنٹ میں بیٹھا ہے، بارہویں پاس یا نالائق جرنیلوں کی پالیسی سے گھٹن ہو رہی ہے۔اُدھرمشرف بیٹھا ہے اور جنرل راحیل اِدھر سلام نہیں دیتا، عربوں کوسیلیوٹ مارتا ہے۔ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں انہی کا ہاتھ ہے۔ جرنیلوں کا ہاتھ ہے۔ جنرل ضیاء ، جنرل ایوب کا ہاتھ ہے، سویلین کو ہمیشہ نظر انداز کرتے ہیں، دعویٰ ہے کہ اگر ہم نہ ہوں تو سیاستدان پاکستان توڑ دینگے۔ اگر اتنی فکر ہے تو ملک کو سیاستدانوں نے بنایا، جرنیلوں نے نہیں بنایا، ابھی باری آئی تو یہ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا، لڑائی میں تو نقصان ہوتا ہے۔ جہاد کا فلسفہ یہی ہے کہ مرینگے یا مار ینگے۔ یہ جو فلسفہ آپ نے تیار کیا، پشتونوں کیخلاف 70سال استعمال کرکے استحصال کیا اور ابھی آپ کرانا چاہتے ہو۔ ابھی ادھر پتہ نہیں کس کس کو اسلحہ دیا اور کس کس معصوم پشتون کو ذلیل کروارہے ہو۔ کل تو ایک ترکستان بیٹنی تھا وہ مسلمان ہوگیا۔ الحمد للہ اللہ تعالیٰ سب کو یہ دن دکھائے۔ ترکستان بیٹنی! میں آپ کو کہتا ہوں کہ اگر آپ نے مجھے بھی مارا ہوتا اور مجھ سے پوچھتے کہ آپ ابھی مسلمان ہوگئے تو میں کہتا ٹھیک کیا آپ نے۔ انسان غلطی کرتا ہے۔ ابھی وقت ہے صحیح راہ پر آنے کیلئے۔ تمام گل خانوں کو کہتا ہوں کہ صحیح راہ پر آجاؤ، اپنی حیثیت منواؤ کہ تم پشتون ہو، تمہارے ساتھ پراکسی کھیلی جاتی ہے اور آئین ہے، آئین کو مسخ کرکے قبائل پر ظلم کرتے ہیں ۔ یہ انتہا ئی ظالم ہیں۔ چند کو FC میں بھرتی کرکے پشتونوں کا سارا مال اُدھر خرچ کرتے ہیں۔ پوری زندگی پڑھایا کہ ادھر جہاد ہوگا، غزوہ ہند ہوگا اور موقع آتا ہے تو فتویٰ نہیں جاری کرتے۔ عجیب تماشہ ہے ڈھول بجا بجا کر شادی کا ٹائم آتا ہے تو نکاح نہیں پڑھاتے۔ فتویٰ دیا کہ افغانستان میں جہاد ہے اور دنیا کے مسلمانوں نے کہا کہ نہیں بھائی بھائی قتل ہورہے ہیں اور ملک کے سارے چیدہ چیدہ علماء نے کہا، حالانکہ محمد خان شیرانی اور بہرام خان بھی ہے اس طرح کے علماء کو ہم نہیں کہتے۔۔۔ اچھے بہت اعلیٰ، نمبر ون علماء کو جانتا ہوں۔ وہ دیکھو کوئی ہسپتال میں داخل، کوئی ادھر بیمار ہے، کوئی ادھر چھپ رہا ہے، جس نے دعوے کئے، اب آگے بڑھیں۔ یہ ادھر منظور کی آئی ڈی کو ہیک کرتے ہیں کہ منظور کو خیبر ٹی وی پر نہیں بولنا چاہیے، کیونکہ انہوں نے ہمیں زندگی دی۔ یہ ہمارے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ گل خانوں کو تھوڑا سوچنا چاہیے۔ ہم ان کیلئے کام کررہے ہیں بنگلہ دیش کدھر پہنچ گیا دیکھ لو۔ اس کی معیشت کتنی مضبوط ہے۔ فوج نے ہمیں ہر لحاظ ، ہر سوچ کیساتھ دلدل میں پھنسایا۔ آپ کو سمجھ نہیں آرہی ہے بیوقوف کی طرح ہم انکے پیچھے جائیں۔ یہ ہمیں پالیسی بناکر دیں۔ ہمارے ذہین شخص بھٹو کو نہ چھوڑا، فاطمہ جناح کو نہ چھوڑا، قائد اعظم کو 1935کے قانون پر عمل نہ کرنے دیا، شیخ مجیب کو حکومت کرنے نہ دی، پانچ فٹ چھ انچ کا قد رکھ کر بنگالیوں کو فوج سے آؤٹ کیا، 1947سے لیکر1971 تک انتخابات نہ کرائے۔ انڈیا کو تین دریا دئیے۔ کشمیر میں 1948میں لڑنے سے انکار کیا ۔ امریکہ سے پیسے لیکرافغانستان میں روس کیخلاف نقلی جہاد لڑا ۔ یہ کرایہ دارہیں۔ ابھی موقع ہے یہ Retreat کررہے ہیں۔ مجھے بتائیں کیا کروں بٹن نہیں دبا سکتے؟ میں دباتا ہوں ٹریگر، مجھے لیجاؤ۔ مار دونگا فائر مگر اسٹارٹ کرنا ہے۔ آپ کو سب دیکھ رہے ہیں، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ زیادہ ہیں وہ طاقتور ہیں ہم کم ہیں۔ حضور ﷺ کے جہاد 3 سو ہوتے، وہ3 ہزار ہوتے۔ کبھی اکیلے حضرت علی ؓ ہوتے۔ سبحان اللہ۔ قربان ہوں ان ناموں پر۔ یہ نام نہاد جو داڑھی رکھ کر اسلام کو غلط استعمال کرتے ہیں، وزیرستان آتے ہیں، شیعہ سنی کو لڑاتے ہیں ان کو ہم نے دیکھنا ہے۔ مجھے اگر کوئی پاور ملی نا انشاء اللہ تعالیٰ یہ راہ حق ہے تو پھر سب کے سامنے احتساب ہوگا۔ مقدمہ بھی سب کے سامنے ہوگا۔ جیسے درانی کے گھر سے کل سونا اور نوٹ نکلے تو کسی جرنیل کے گھر سے کوئی سونا اور نوٹ کیوں نہیں نکلتا؟ وہ فرشتے ہیں؟۔ انہوں نے اس ملک کو نہیں لوٹا؟۔ جب لڑنے کا ٹائم آتا ہے تو ہم امن کی آشا کرتے ہیں۔ وہ دھمکیاں دیتے ہیں تو تم کہہ رہے ہو وت مار وت مار۔ افغانستان والے ایک سپاہی کو ماردیتے ہیں تو آپ کہتے ہو ہم بدلہ لیں گے۔ اُدھر آپ کو بہت زیادہ غصہ آتا ہے اِدھر آپ کو بہت کم غصہ آتا ہے۔ دونوں طرف پشتون اور مسلمان ہیں، کیا پشتون مسلمان نہیں ؟۔ پتہ ہے یہ سب۔۔۔ پالیسی والے ہیں۔ انکے پاس دلائل نہیں، یہ کہتے ہیں ہم تمہیں مار دینگے ہم نے بہت ساروں کو مارا۔ پتہ ہے بہت ساروں کو مارا، بنگالیوں کو بھی مارا، تم نے سب کو مارا لیکن تم نے حاصل بھی بہت کچھ کیا ۔ تم نے وزیرستان میں 70ہزار گھر گرائے لیکن تم نے بہت محلات بنائے ،تم بنگلہ دیش سے Economically آگے بڑھ گئے۔ تم نے ہمیں طعنے دئیے، 33بلین ڈالر امریکہ سے لئے ، نام نہاد جہادسٹ پیدا کئے ۔ کچھ کر نہیں سکتے تو آرام سے بیٹھ جاؤ۔شریفوں والی زندگی گزارو۔ کرنا ہے تو پھر کرو۔ ایٹم بم ہے آپکے پاس۔ یہ نہ بتانا کہ دنیا غرق ہو جائے گی ہم غرق ہوجائیں گے وہ غرق ہوجائیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ اسٹارٹ کرینگے تو کون ختم کریگا؟ ۔ یہ سوچ پھر نہیں چلے گی۔ اگر ملک کو آگے بڑھانا ہے تو پھر لازماً نان اسٹیک ہولڈر جتنے ہیں آرام سے بٹھانا ہوگاکہ ادھر بیٹھ جاؤ۔ 18 بلین ڈالرلیتے ہو، نان اسٹیک ہولڈر بھی پیدا کرتے ہو۔ پھر انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے جواب بھی نہیں۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے۔ پھر تگڑا جواب بھی نہیں دے سکتے۔ ہم حیران کرینگے، کیسے حیران کرینگے؟۔ میرا ذہن ہے کہ جتنی پالیسی بنائی یہ صرف بجٹ کاچکر ہے یہ اٹھارویں ترمیم ختم کراتے ہیں تاکہ مرکز میں پیسہ آئے اور خیبر پختونخواہ ، سندھ اور بلوچستان مٹی کھائیں اور ہم پیسہ اٹھالیں، اور سوشل اکنامک نہ ہو۔ سیکورٹی زون بنایا ہے ہمیں۔ تگڑے ہیں کہ بیت اللہ خان کو پکڑ لو جیل میں ڈالو، عالم زیب کو ڈالو، منظور کی آئی ڈی بند کرو، عارف وزیر کو ڈالو، ولایت خان کو ڈالو، ان کو مارو، پشتونوں کے گھر گراؤ، بڑے تگڑے تھے، اسوقت تو دلائل نہ دئیے ۔ یہ نہ کہا کہ امن کی آشا ہوگی۔ اب امن یاد آیا۔ ہمیں تو برباد کردیا ابھی بربادی کرو، تاکہ نئی دنیا بنے، ویسے بھی تبدیلی ہوتی ہے، اگر ہم بیس کروڑ نہ رہیں تو نہ رہیں دنیا میں لوگ ہیں، مسلمان بھی زیادہ بنیں گے۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں اگر لیڈ کرتا تو انشاء اللہ آپ کو پتہ چل جاتا کہ پشتون واقعی میں ایسے ہیں، لیڈر شپ ایسی ہوتی ہے۔ ابھی ہم کچھ کر نہیں کر سکتے۔ آپکے ہاتھ میں ہتھیار ہے، آپ آگے بڑھو۔ لڑائی ہوگی، وہ لڑائی نہ روکیں گے، یاد رکھنا چاہیے، کسی کو دو نمبر بات نہ کرنی چاہیے۔ سٹیک والی بات ہے انہوں نے سٹیک کیا ہے وہ لڑینگے۔ پتہ ہے مودی لڑیگا، مودی بہت بڑا حرامی ہے، اس کی سوچ لڑاکو ہے وہ چاہتا ہے کہ میں ہسٹری میں رہوں اس کو تھوڑا غرور ہے مگر علماء ابھی فتویٰ نہیں دیتے، ہماری سوئی اٹک گئی کہ ادھر جہاد اناؤنس کرینگے، ہم سب جائیں گے کیونکہ میری ماں کو بھی بڑا مرنے کا اور شہادت کا شوق ہے، یہ شہادت صرف خیبر پختونخواہ میں ہونا چاہیے۔ ادھر پشتون ہو تو شہادت ملے۔ ان کو نہیں شہادتیں چاہئیں۔ مجھے سننے کا حوصلہ رکھیں، جانتا ہوں کہ یہ لڑائی نہیں کرسکتے۔ خواہ مخواہ غزوہ ہند کا ڈھنڈورا کرتے ہیں، یہ سوچ ہے کہ لوگوں کو پھنسا کر رکھیں۔ کاش! آج یہ آگے بڑھتے اور فتویٰ آتا کہ جہاد اناؤنس ہوگیا، انڈیا کیخلاف جہاد ہے۔ تمام علماء پاکستان فتویٰ دیتے کہ انڈیا کیخلاف جہاد فرض ہوچکا ہے۔ تو پھر ہم بھی تیاری پکڑ لیتے کیونکہ سال میں کبھی کبھار تو ہم بھی وضو کرتے ہیں۔ علماء جیسے مولانا مسعود اظہر ہے، مولانا حافظ سعید ہے، زید حامد ہیں جو غزوہ ہند کا ڈھنڈورا لئے پھرتے ہیں، مولانا طاہر اشرفی کی طرف سے کوئی خاص پیغام نہیں ملا ورنہ ہم بھی چلتے۔ کم از کم بہت نالائق پٹھان ہوں تھوڑا مجھ میں بھی حوصلہ آجاتا لیکن یہ خود چھپے ہیں ہم کیسے چلے جائیں۔ امن کی آشا کی بات لاکھ کریں مگروہ اٹیک کرینگے۔ مجھے انکے دما غ کا پتہ ہے انڈیا کا ماحول جانتا ہوں۔ انڈین کیا سوچتے ہیں پتہ ہے مگر ہمارے علماء چپ ہیں یہ فتویٰ دیں اور شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں تو بات بنے۔ بہت شکریہ سب کا، ناراض نہیں ہونا۔ زندگی خراب ہے ورنہ موت نے تو کسی کو دھوکہ نہیں دیا ۔ یہ زندگی انسان کو دھوکہ دیتی ہے۔ موت کسی کو بھی دھوکہ نہیں دیتی جیسے جاؤ، موت مل جائے گی۔ اللہ آپ کو خوش اور امان میں رکھے۔ پھر بھی میں کہتا ہوں لڑائی ہوگی ،حالات ٹھیک نہیں۔ بڑی بڑی طاقتیں آئیں گی ، مودی چاہتا ہے کہ لڑائی ہو۔ وہ تاریخ میں زندہ رہناچاہتاہے۔ ان کو بھیجا احسان اللہ احسان کو، راؤ انوار کو، کم از کم ادھر سے تو یہ لوگ اعلان کردیں کیونکہ یہ تو ہیرو ہیں ۔ احسان اللہ احسان اعلان کردے کہ بھئی جہاد ہوگا۔ مگر کہیں چھپا ہوگا بیچارہ۔ راؤ انوار بھی چھپا ہوگا، یہ اصل میں کیا کرتے ہیں؟، کہیں غریب پشتون ملا تو اس کو گریبان سے پکڑا، آپ نے اس کو پکڑ لیا توبس؟، پھر آپ ان بیچاروں کو قتل کراتے ہیں اور آپ کی کوشش بس یہ ہوتی ہے کہ کسی کو قتل کرواور بالخصوص وہ پشتون ہو تو اس کو مارنے میں بھی آپکو بڑا مزا آتا ہے۔ اور یہ آپ کو پتہ ہے کہ کتنے بے گناہ پشتون لوگوں کو آپ نے مارا ہے۔

***2016 میں بیت اللہ بیٹنی پی ٹی آئی کیلئے اڈیالہ جیل گیا جہاں دل کا دورہ پڑا جس پر اسد عمر نے عیادت کی***

بیت اللہ بیٹنی نے کل عمران خان کے حق میں اور سیاستدانوں کیخلاف کیا کہا تھا؟ کیا فصلی بٹیر ہر تحریک کے اُفق پر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے بدلتے آئیں گے اور لوگوں میں اپنی بولتی کا جادو جگائیں گے؟

دوستو! سلام! جو مجھے سنتے ہیں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ لازمی سنیں۔ ضرور شیئر کریں۔ آج میں آپ کو وہ حقیقتیں بتاؤں گا کہ پاکستان کی سیاست میں کیا ہوا تھا؟۔ میں شروع کرتا ہوں ڈی آئی خان سے جہاں پر 40لوگ مارے گئے۔ بذات خود فائرنگ وزیر اعلیٰ سرحد عنایت اللہ خان گنڈہ پور نے کی۔ وہ ایسے ہی گھومتا تھا بھٹو کی حکومت تھی۔ جناب اکبر خان ڈی ایسی پی نے استعفیٰ دیا اور اس کو پکڑا نہیں۔ اور اس کو جسٹس سسٹم میں گھسیٹا نہیں گیا تھا۔ اسکو بلٹ پروف گاڑی پیپلز پارٹی نے Provide کی تھی۔ دوسرا 12اکتوبر کو ایم کیو ایم ، جنرل پرویز مشرف نے جو قتل عام کیا اور پھر اے این پی والوں نے پختونوں کے سر پر پیسہ لیکر ان کو معاف کیا۔ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں انسان قتل ہوتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، جس طرح آپ نے ماڈل ٹاؤن میں دیکھا ایسے کیس اس سے پہلے بھی ہوئے ہیں۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وہ جو کہتے تھے کہ ہم ڈرنے والے نہیں وہ باہر بیٹھے ہیں۔ میں ان ظالموں سے پوچھتا ہوں کہ یہ مولانا فضل الرحمن کے والد بھی اس وقت حیات تھے ان سب کو یہ واقعات معلوم تھے لیکن انہوں نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ یہ آج عمران خان کے بارے میں بات کرتے ہیں، مجھے لگتا ہے انہوں نے آج تک کوئی ایماندار شخص زندگی میں دیکھا ہی نہیں۔ ان سے اُن کا واسطہ ہی نہیں پڑا۔ لہٰذا سب سے درخواست ہے آپ پہچانیں۔ شاہی سید آپ نے پیسے لئے ہیں، پختونوں کے سر کی قیمت اور سودے بازی آپ نے کی ۔ سب سے درخواست ہے ان ظالموں سے بچو۔ یہ ہمیں بیچنا چاہتے ہیں ،مختلف برادریوں میں مختلف فرقوں میں بانٹ کر یہ ہم پر حکومت کرینگے لیکن کتنے قتل عام ہوئے آج تک اس پر مقدمہ چلا؟۔ عنایت اللہ خان گنڈہ پور پر؟۔ کس پر چلا تھا؟۔ یہ مانتا ہوں کہ اسکے بیٹے نہایت معزز ہیں۔ اللہ جنت نصیب کرے۔ اسرار اللہ خان کو سب کو بڑے معزز ہیں۔ انہوں نے سارے صلحے کئے لیکن حکومت نے اور اس وقت کی لیڈر شپ نے اس پر کوئی ری ایکشن نہیں دکھایا۔ خدا حافظ۔ سنئے بیت اللہ خان کو، آپ کو میں بتاؤں گا سیاست کیا ہوتی ہے۔

شاعرہ لتا حیا کی نعتیں :ریٹائرڈچیف جسٹس مرکنڈے (اداریہ نوشتہ دیوار، شمارہ مارچ 2019)

بھارت میں اردو کی معروف شاعرہ لتا حیا کی غزلیں ، نعتیں ، انقلابی شاعری اور انسانیت کا درد ایسا ہے کہ جیسے اسلام کی روح یہ ہندو خاتون عوام کے دلوں کو گھول گھول کر پلارہی ہو۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس مرکنڈے کی حق گوئی سے ایک نیا ولولہ بیدار ہوا چاہتا ہے۔خالد خواجہ اور کرنل امام کو طالبان نے کیوں قتل کیاتھا، اسکے کیا عوامل تھے؟مگر لتا حیا کی شاعری ، انسانیت دوستی اور مسلمانوں سے محبت اور اچھوت نسل سے ہمدردی دیکھ کر دل میں تمنا پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے جو اسلام اور پاکستان کی معروف شخصیات ہیں۔ اوریا مقبول جان، رستم شاہ مہمند، زید حامد،عمران خان ،نوازشریف، لونڈے لپاڑے، مولانا فضل الرحمن، معروف سیاستدان اور علماء ومفتیان بھی خالد خواجہ اور کرنل امام کی طرح طالبان کے ہتھے چڑھتے تو زیادہ برا نہ ہوتا۔ لتا حیا ایک بھارتی ہندو خاتون ہے اور اُس شدت پسند ہندوانہ ماحول میں اسلام ، مسلمانوں اور انسانیت کی جو خدمت کررہی ہیں، ہمارے ہاں یہ لوگ اسلام کے نام پر اپنی فالتو قسم کی پھکیاں بیچ رہے ہیں۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس مرکنڈے کو آسمان کے فرشتے بھی شاباش دیتے ہونگے جو بھارتی معاشرے میں شدت پسند ہندو، تعلیم یافتہ طبقے اور میڈیا کی ایسی خبرلیتا ہے کہ انسان کا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے کہ یہ بھی اس دور کا انسان ہے؟ ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو برصغیرپاک وہند کو تعصبات ، جہالت اور تمام بھونڈے ہتھکنڈوں کی گرفت سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے ہی بحروبر کے طوفانوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ ظھرالفساد فی البروالبحر بما کسبت ایدی الناس’’خشکی وسمندر میں فساد برپا ہوا،انسانوں کے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی کے سبب‘‘۔ مودی اور شدت پسندانہ تعصب کا زہر اگلنے والوں کو لتاحیا و قابل احترام چیف جسٹس مرکنڈے شعور کی شعاعوں کے ذریعے جہالت کی اندھیر نگری سے نکال رہے ہیں۔ جب جہالت، اندھیرا اور موت معاشرے پر طاری ہوجاتی ہے تو اس کیلئے جن مسیحاؤں کی ضرورت ہوتی ہے انکا کردار روشنی، علم اور حیات کی آبیاری ہوتی ہے۔ جسم کی طرح انسانوں کی روحوں اور دلوں پر بھی موت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے تو اس کو زندہ کرنا بہت مشکل کام ہوتاہے اور ہر معاشرے اور قوم میں مسیحاؤں کا اصل کام مردہ روحوں اور دلوں میں حیات پیدا کرنی ہوتی ہے۔عسکری قوتیں جانیں لے سکتی ہیں مگر مُردوں میں جان نہیں ڈال سکتی ہیں،البتہ جانیں بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ پاک فوج نے بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرکے تشدد سے بچایا۔ یہ انسانیت ہی اصل کام کی چیز ہے۔ قوت مدافعت کے بغیر قومیں زندہ نہیں رہ سکتی ہیں۔ لوگوں کی زندگی بچانے کیلئے شرپسندوں سے قوتِ مدافعت کا استعمال بھی بہت ضروری ہے، پاک فوج نے حملے کے بدلے میں حملہ کرکے شاطر دشمن کو مناسب سبق سکھا دیا ہے۔ بھڑکیں مارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ،شرافت سے کام ہونا چاہیے۔ جنگ کا جنون مسائل کا حل نہیں لیکن جب چیف جسٹس مرکنڈے اور لتا حیا جیسی شخصیات اپنی عقل وفکر، علم وعمل اور شعوروآگہی سے اتمامِ حجت کا بہت واضح کردار ادا کرتے ہیں اور ملک کے سربراہان اور اصحابِ اختیار اس پر کان دھرنے سے گریز کرتے ہیں تو ذلت ورسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو چاہیے کہ صورتحال معمول پر آتے ہی لتاحیا اور چیف جسٹس مرکنڈے کو پاک سرزمین پر آنے کی دعوت دیں۔ ان سے گزارش کریں کہ علم وآگہی ، درد ومحبت اور دل وروح کی غذاء یہاں بھی لوگوں کی بہت سخت ضرورت ہے۔یہاں بھی ہندوؤں کی طرح اسلام کے نام پر ایمان کا جعلی چورن بیچا جارہاہے جس میں شفاء نہیں زہر ہے، علم نہیں جہالت ہے، روشنی نہیں اندھیرا ہے ،اسلام نہیں ابہام ہے اور ایمان نہیں کفران ہے۔ اوریا مقبول جان کا تصور افسانوی کوئل کی طرح ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ کوّؤں کے گھونسلے میں اپنے انڈے دیتی ہے۔مولانا فضل الرحمن نے طالبان والقاعدہ کے لشکر کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا تھا۔ جس میں ہتھوڑے جیسے لمبوترے چہروں والے پٹھان اور ڈھال جیسے گول چہرے والے ازبک وغیرہ تھے۔ اوریا مقبول جان اور مولانا فضل الرحمن سوشل میڈیا کے کنونشن سے ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے بھی ایکدوسرے کیساتھ دجل وفریب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر یاجوج ماجوج کے لشکر کو میڈیا قرار دیا جائے تو پھر یہی دجال میڈیا میں کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر اس سے مراد دجالی لشکر ہے جو خراسان کی طرف سے بلندی سے آکر میدانی علاقوں میں ہر گھاٹی سے حملہ آور تھے تو بھی حقائق کو سمجھنا مشکل نہ تھا۔ دارالعلوم دیوبند و جمعیت علماء ہند کے وقت سے طالبان کے کردار تک اوریا مقبول جان اور مولانافضل الرحمن کا نظریاتی اختلاف ایکدوسرے کی عقیدتوں کی بالکل نفی کرتا ہے اورپھر بھی ایک اسٹیج سے عوام کو دجل وفریب کا پیغام دیتے ہیں۔ امریکہ نے شکست کھائی یا نہیں کھائی ؟ ہمیں اس سے کیا؟،لیکن افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور پاکستان کی عوام کی جان ومال اور عزتوں کا دنیا میں جنازہ نکال دیا ہے۔ اوریامقبول جان اس وقت بیوروکریسی میں اینکر پرسن کا کردار ادا کررہا تھا، اس کی ذات پر آنچ اسلئے نہیں آئی کہ یہ بک بک مسلسل تسبیح ومناجات کررہا تھا یا سبّ وشتم کے بینڈ باجے بجارہا تھا کہ بیوروکریسی نے پاکستان کا بیڑہ غرق کیا ہے ، فوجی بیچاروں کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ یہ خوارج کا وہ کلمہ ہے جسکے بارے میں حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’ بات حق ہے مگر یہ اس سے باطل مراد لیتے ہیں‘‘۔ اس وقت بھی جس بیوروکریسی نے ریاست اور عوام کو گمراہ کیا تھا تو اوریا مقبول جان خود بھی بہت منافقت کیساتھ اسی کا حصہ رہے ہیں۔ ملاعمر کو تو کرنل امام اپنے شاگرد کہتے تھے اور پٹھان کی تعریف کرتے تھے تو پٹھان کے دل سے دعانکلتی تھی کہ ’’ایک دفعہ تم بھی انکے ہاتھوں میں پڑجاؤ اور پھر ایک دن شکار ہوگئے‘‘۔ اوریا مقبول بھی انکے ہاتھوں لگ جاتے اور پھر وہی کہلواتے کہ بولو کہ یاجوج ماجوج تو وہی دجالی لشکر ہے جسکا یہ پتہ نہیں چل رہاہے کہ امریکہ اور پاکستان مخالف ہیں یا انکے حامی ہیں؟۔ہمیں طالبان کی حمایت یا مخالفت سے کوئی غرض نہیں لیکن اس بات کا احساس ہے کہ یہ لوگ مفت کی منافقت کررہے ہیں۔ پہلے قوم کو گمراہ کیا تو اب اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ بخاری میں آخری خطبے کے حوالے سے ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا ہے جس نے دجال سے قوم کو تنبیہ نہیں کی ہو۔ خبردار ! میں بھی تمہیں دجال کے فتنے سے آگاہ کررہا ہوں۔ اگر تم یہ نہیں سمجھ سکو کہ دجال کون ہے؟تو اللہ دجال کو جانتاہے، دجال ایک آنکھ کا کانا اور اس کی دوسری آنکھ انگور کی طرح ہے۔ تمہاری جان کی حرمت ایسی ہے جیسے اس شہر (مکہ ) میں، اس ماہ (ذی الحج)اور اس دن(عرفہ) کی حرمت ہے، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردن مارنے لگو‘‘۔ لتاحیا اور مرکنڈے بھی ان لوگوں سے ہزار درجہ بہتر انسان ہیں جو مسلمان کی حیثیت سے دجالیت، فریب اور خون خرابے کی حمایت کررہے تھے۔

شپیزمائی خان اور منظور پشتین اپنی سوچ اور فکر کو بدلیں! (اداریہ نوشتہ دیوار، شمارہ مارچ 2019)

کانیگرم جنوبی وزیرستان کے پیرمبارک شاہ نے 1920ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پبلک سکول بنایا جو آج بھی موجود ہے۔ قبائلی علاقہ جات کو تعلیم کے نام سے جتنے فنڈز ملتے ہیں وہ قبائل عوام پر خرچ کرنے کے بجائے کھا لئے جاتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد اسکے احتساب کی بات کی جائے تو پختون ہی گلٹی ہونگے، اسی طرح سندھ و بلوچستان کی کیفیت ہے۔ ریاست دشمن نہیں بلکہ قوم کے بڑے اپنی قوم سے دشمنی کے مرتکب ہیں۔ علی وزیر اور محسن داوڑ نے ایک میڈیا بیان میں وضاحت کی کہ ’’ہم عدمِ تشدد کی پالیسی پر آخری دم تک گامزن رہیں گے‘‘۔جبکہ منظور پشتین نے کہا کہ ’’میں اس مٹی کا بیٹا ہوں، مٹی عدم تشدد کی بات کریگی تو عدم تشدد کرینگے اور مٹی تشدد کی بات کریگی تو تشدد کرینگے‘‘۔حضرت علیؓ ابن تراب نہیں ابوتراب تھے۔ مٹی کے بیٹے اور مٹی کے باپ میں اتنانظریاتی فرق ہے جتناہندواور مسلم میں ہوتا ہے۔ ہندو پر جس کی حکومت بھی آئی وہ اپنی جگہ پر غلام کی طرح کھڑا رہاتھا۔ ابوجہل وابولہب مٹی کے بیٹے تھے ،وہ اپنا سر کٹا گئے لیکن اسلام قبول نہیں کیا۔ مسلمانوں نے مکہ سے حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت کی۔ حضرت علیؓ نے مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا تھا۔ انگریز نے لکھ دیا کہ’’ محسود بھیڑیے، وزیر چیتے اور بیٹنی قبائل گیڈر کی طرح ہیں‘‘۔ ادریس شہید کی شہادت پر اور وانا میں ایک جھڑپ کے دوران وزیروں نے ثابت کردیا کہ وہ چیتے ہیں۔ بیت اللہ بیٹنی نے PTM سے پہلے PTIکے پلیٹ فارم سے جو بیان ریکارڈ کرایا ہے اور PTI میں ایک معمولی احتجاج پر جیل میں دل کا دورہ پڑا تھا تو اپنے تضادات سے گیدڑ کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ بھیڑیے کی صفت یہ ہے کہ جب تک تحفظ کا یقین نہیں ہوتا تو وہ شکار پر حملے کی جرأت نہیں کرتا ۔ اسلئے لوگ شیر اور چیتے کہلانا چاہتے ہیں۔ محسودقبائل کی تین شاخوں میں بہلول زئی اور منزئی کی بہادری اور شمن خیل کی سیاسی صلاحیت تھی۔ سردار امان الدین نے قومی لشکر بنایا تو پہلے اپنے چچازاد کاگھر گرایا، پھر دوسری قوموں سے لڑائی مول لی تو اپناقومی لشکر بھی گرفتار کرادیا۔ اگر منظور پشتین مٹی کا بیٹا ہے تو وزیرستان کی مٹی پر زیادہ عرصے کی بات نہیں ماضی قریب کا قصہ ہے ۔ پہلے پوری قوم ایک ڈاکوگو خان کی قیادت پر اکٹھی ہوگئی۔ رضا گو خان اور TTFکا آج نام لینے والا بھی کوئی نہیں ۔ پھر قوم میں بدمعاشی عروج پر پہنچ گئی تو گلساخان کی قیادت میں بدمعاشوں کیخلاف لشکر تشکیل دیاگیا۔ گلسا خان امریکہ اور بیٹنی قبائل کو چیلنج کررہاتھا۔ پھر طالبان آگئے تو مٹی کی اولاد طالبان بنی۔ محسود نے طالبان کی قوت سے فائدہ اٹھاکر بیٹنی کا ستیاناس کردیا۔ پھر قاری زین الدین کی قیادت میں شمن خیل اوربیٹنی نے دوسرے محسودوں اور طالبان گروپ کیخلاف ترکستان کی قیادت میں قتل وغارتگری کا بازار گرم کردیا۔ آج پھر ترکستان بیٹنی گیدڑ کی آواز نکال رہاہے کہ پاکستان اور اسلام کے نام پر 186افراد کو اپنے ہاتھوں سے شہید کیا ۔ مٹی کا بیٹا ہر دور میں ہواؤں کے رخ پر چلتا ہے تو مختلف انداز میں استنجوں کے ڈھیلے کی طرح استعمال ہوجاتا ہے۔ ژوب اور وانہ سے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان آنے والی گاڑیاں شمن خیل کے علاقہ میں بارشوں کے فلڈ سے راستے میں کئی گھنٹوں تک رُک جاتی تھیں تویہ ایک دو دن یا مہینہ دو مہینے کی بات نہیں ہوتی تھی۔ بھوکے مسافروں کیلئے ہوٹل بھی نہیں تھے، آس پاس کے گھر والے اتنے مہمانوں کو پہنچ نہیں سکتے تھے، بچوں نے وہاں مسافروں کو روٹیاں بیچنی شروع کردیں تو ایکدوسرے کی ضرورت تھی۔ اس وجہ سے وہاں کے شمن خیل برادری پر کوئی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ محسود کی روایات سے ہٹ گئے لیکن جن محسودوں کے گھر سڑک سے میلوں دور تھے ،ان کو اس حرکت پر یہ لوگ اچھے نہ لگتے تھے۔ شمن خیل لدھا و مکین کی طرف بھی رہتے ہیں۔ ایک پاگل محسود جام دین سے کسی نے پوچھا کہ ’’ محسود قوم میں مرد زیادہ ہیں یا خواتین؟‘‘۔ جام دین نے کہا کہ ’’ شاعر کے شمن خیلوں کو مردوں میں شمار کریں تو مرد زیادہ ہیں اور عورتوں میں شمار کریں تو عورتیں زیادہ ہیں‘‘۔اقبال سے محمد علی جوہر نے کہا کہ تم میدان میں قربانی کیوں نہیں دیتے؟۔ اقبال نے کہا کہ ’’اگر قوال وجد میں آگیا تو قوالی کون گائے گا‘‘ ۔عقلمندوں کیلئے اشارہ کافی ہوتاہے۔ شپیزمائی خان نے میرے ویڈیو بیان پر واضح کیا کہ ’’ اس نے افغانستان کو امریکہ سے فائدہ اٹھانے کی بات کی تھی جسطرح آئی ایس آئی نے افغان وار سے فائدہ اٹھایا‘‘۔ یہ بات PTMکے جوانوں سے نہیں افغانستان کے حکمران سے کرنی چاہیے تھی تو بات واضح ہوتی۔ شپزمائی خان نے کہا کہ ہمارا اصل مقابلہ امریکہ سے ہے ، استعمار کیخلاف افغانستان کے وہ علاقے زیادہ مفید ہیں جہاں نیٹ کام نہیں کرتا۔ ایک طرف امریکہ سے مدد اور دوسری طرف اس کا نیٹ سے مقابلہ اپنے اندر بڑا تضاد رکھتا ہے۔ شپیزمائی خان نے کہا کہ چاند میاں لاہور اور کراچی میں تنقید کا نشانہ بنتا ہے ۔ ہم شپیزمائی کہتے ہیں جو مذکر ہے ،دوسرے اس کو شپیزمئی کہتے ہیں جو مؤنث ہے۔ میںیہ واضح کردیتا ہوں کہ اگر شپیزمائی خان کو میری بات سے دکھ پہنچا ہے تو میں دل کی گہرائی سے معافی مانگتا ہوں۔ توہین کی غرض سے نہیں محبت سے میں نے چاند میاں لکھا تھا، بولٹن مارکیٹ کراچی کے صدر کا نام بھی چاند میاں ہے، گوجرانوالہ میں ایک بہت معزز ، معتبر اور پیارے شخص کا نام خالد ہے لیکن چاند میاں سے مشہور ہے۔ عربی میں سورج اور چاند کو شمس وقمر کہتے ہیں۔ یہ نام ہر زبان میں ہوتے ہیں۔ شمس عربی مؤنث اور قمر مذکر ہے۔ لفظی مذکر ومؤنث کوئی مسئلہ نہیں ۔ طلحہ، موسیٰ ، عیسیٰ کے آخر میں مؤنث ہی کی علامت ہے۔ امامہ مؤنث ہے اور مردو عورت دونوں کیلئے نام ہے۔ ایک صحابیؓ کا نام بھی امامہ تھا۔ شپیزمائی خان کا بہت اچھا ذہن ، مطالعہ اور فطرت ہے لیکن ایک ماحول کے ذریعے سے ایکدوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں۔ اگر شپیزمائی خان PTMاور افغانستان کی بجائے پاکستان اور بھارت کوہی مخاطب کریں تو ان کو بہت سے فالورز مل سکتے ہیں۔ آئی ایس آئی کو گالی دینے کا اس سے زیادہ کچھ فائدہ نہیں کہ PTMوالے آپ کی بات سنیں۔ مجھ پر شک کیا گیا ہے کہ میرے رابطے جرنیلوں سے تو نہیں؟۔ میراشپیزمائی خان پر کوئی الزام نہیں کہ وہ امریکہ یا یورپ کیلئے کام کرتے ہیں۔ وہ اچھے انسان ہیں اور اپنے ہی دائرہ کار میں اچھائی کی کوشش کرتے ہیں۔ زبردستی سے شادی کا تصور صرف ہمارا کلچر نہیں بلکہ سندھی، بلوچ، پنجابی اور کراچی کے مہاجروں کے علاوہ ہندوستان کا بھی یہ مسئلہ ہے۔ پختونوں کی جن خامیوں کا ذکر شپیزمائی خان کرتے ہیں تو اسے پتہ ہونا چاہیے کہ تبلیغی جماعت اور علماء کرام کی بدولت ان میں بڑی تبدیلی کے اثرات بھی نمایاں ہوئے ہیں۔ پشتون ایریا میں دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی بنائی جائے اور دنیا بھر سے ماہرین بلاکر اس میں تعینات کئے جائیں تو ہماری ہی نہیں بلکہ عالم اسلام اور انسانیت کی دنیا بھی بدل جائے گی۔علامہ اقبالؒ نے لکھ دیا ہے کہ پشتون فطرت کا ترجمان ہے اور افغان کو کرائے کا قاتل بھی کہا ہے۔

آج کامران کیساتھ اور برصغیرمیں مسئلہ طلاق پر بات (اداریہ نوشتہ دیوار، شمارہ مارچ 2019)

نیٹ پر ’’آج کامران خان کیساتھ‘‘ میں طلاق کے مسئلے پر افسوسناک گفتگو دیکھ لی ، جس کا خاتمہ معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کی بات پر ہوا۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ جاوید غامدی بھی اس مسئلے میں قرآن وسنت کی نہیں تقلید ہی کی ترویج کررہے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے جدید تعلیم یافتہ جاہل ہیں۔ تمام نام نہاد مذہبی قدیم وجدید اسکالر قرآن کریم کی واضح آیات اور سنت کی تعلیم سے انحراف کے مرتکب ہورہے ہیں۔ قرآن وسنت میں طلاق کا مسئلہ جتنی وضاحت کیساتھ بیان ہوا ہے ،ایک کم عقل ، کند ذہن اور جاہل کو بھی اس کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی ہے۔ اتنی موٹی بات قرآن میں واضح کی گئی ہے کہ طلاق سے رجوع کا تعلق باہمی صلح اور عدت کیساتھ منسلک ہے۔ قرآن وسنت کی کسی آیت یا حدیث سے قطعی طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد باہمی اصلاح و صلح کیلئے بھی رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات بھی اسکا واضح اور فیصلہ کن ثبوت ہیں کہ عدت میں اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے معروف طریقے سے رجوع کا دروازہ بالکل کھلا ہے۔ سورۂ بقرہ کی جس آیت 230 کاحوالہ دیا جاتا ہے ،اس سے پہلے کی دو آیات 228 اور 229 میں یہ واضح ہے کہ طلاق کے تین مراحل تک خواتین کو انتظار کرنے کا حکم ہے اور تین طہرو حیض میں مرحلہ وار طلاقوں کے علاوہ عدت کے اندر باہمی اصلاح اور صلح سے رجوع کی گنجائش ہے اور پھر اسکے بعد آیت231 اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی حلالہ کے بغیر رجوع کی وضاحت ہے۔ طلاق کی زیادہ سے زیادہ تین صورتیں ہوسکتی ہیں نمبر1: دونوں کا پروگرام ہوکہ ایکدوسرے سے علیحدہ ہوجائیں۔ مرحلہ وار دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں بھی طلاق کا فیصلہ کیا جائے ۔ جس کے بعد میاں بیوی دونوں اور فیصلہ کرنیوالے اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ آئندہ بھی رابطے کی کوئی صورت باقی نہیں رہے اور اگر یہ خدشہ ہوکہ رابطے کی صورت ایسی چیز بن سکتی ہے کہ اگر واپس نہیں کی گئی تو دونوں ایکدوسرے کے جاندادیدہ ہونے کی بناء پر اللہ کے حدود پر قائم نہ ر ہ سکیں گے تو باوجود یہ کہ شوہر کی طرف سے کوئی دی ہوئی چیز واپس لینے کا کوئی جواز نہیں مگر اس صورت میں دونوں پر وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ۔ یہی وہ صورت ہے کہ جس میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوسکتا ہے یا نہیں ؟، بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلا شوہر اس طلاق کے بعد بھی اس عورت کو اپنی مرضی سے دوسرے کیساتھ نکاح کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟۔ اللہ تعالیٰ نے آیت229کے آخر میں اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے آیت230 میں واضح کیا ہے کہ ’’ اگر پھر اس نے اس کو طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے ،یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ اس آیت میں یہ واضح ہے کہ پہلا شوہر نکاح میں رکاوٹ بن سکتاہے تو اسکا راستہ روکا گیا ہے، جبکہ ہماری اصول فقہ کی کتابوں میں اس آیت سے اس حدیث کو متصادم قرار دیا گیا ہے کہ ’’ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے‘‘۔ حالانکہ طلاق کی یہ صورت بھی قرآن میں واضح ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ اللہ کی منشاء میں رکاوٹ عورت کا ولی نہیں بلکہ اس کا سابقہ شوہر دوسرے سے نکاح میں رکاوٹ بنتا ہے۔ نبیﷺ کیلئے بھی اللہ نے فرمایا کہ ’’ آپ کی ازواج سے کبھی نکاح نہ کریں ، اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے‘‘۔ بخاری شریف میں انصار کے سردارحضرت سعد بن عبادہ ؓ کے بارے میں بھی واضح ہے کہ ’’ عورت کو طلاق دینے کے بعد کسی اور سے نکاح کی اجازت نہیں دیتے تھے‘‘۔برطانوی شہزادہ چارلس نے بھی طلاق دی تو لیڈی ڈیانا کو فرانس میں مروادیا تھا ، جس کا مقدمہ عدالت میں چل رہاہے۔ ہمارا وزیراعظم عمران خان مشرقی غیرت کا دلدادہ نہیں بلکہ مغرب کی انسانیت پر یقین رکھتا ہے۔ جمائماخان نے عدت میں ہی بوائے فرینڈز سے پینگیں بڑھادی تھیں اور ریحام خان بھی دودھ کی دھلی ہوئی نہ تھی، جب عمران نے ریحام خان کو طلاق دی تو ریحام خان کو پاکستان آمد پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ طلاق کی اس پہلی صورت میں اللہ نے انسانیت کا عظیم درس دیا ہے کہ اس طرح سے جدائی کا معاملہ طے ہوگیا تو شوہر دوسرے شوہرسے نکاح میں رکاوٹ کھڑی نہ کرے۔ بخاری میں یہ واضح ہے کہ رفاعہ القرظی ؓ نے اپنی بیگم کو مرحلہ وار تین طلاقیں دیں۔ پھر اس کی بیگم نے دوسرے شخص سے نکاح کیا اور اس شخص کا نبیﷺ کو بتایا کہ ’’اسکے پاس دوپٹے کے پلو کی طرح چیز ہے‘‘۔ نبیﷺ نے یہ فرمایا کہ ’’ آپ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو، تو نہیں جاسکتی ہو یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی تیرا شہد نہ چکھ لے اور تو اس کا شہد نہ چکھ لے‘‘۔ اس حدیث کو بنیاد بناکر قرآن کی آیات سے انحراف کیا گیاہے۔ حالانکہ حدیث میں واضح ہے کہ اب وہ عورت دوسرے شوہر کے نکاح میں آگئی تھی۔ حدیث میں نامردی کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے ،اس میں فقہ کے بیان کردہ شرائط کے مطابق حلالہ کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ وفاق المدارس کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خانؒ نے لکھ دیاہے کہ ’’ یہ حدیث خبر واحد ہے اور اس وجہ سے قرآن کی آیت میں نکاح پر جماع کا اضافہ بھی حنفی مسلک کے مطابق نہیں ہوسکتا ہے‘‘(کشف الباری شرح بخاری) قرآن وسنت کے منافی خواتین کے حلالے کیلئے ہردم اپنی مٹھی گرم رکھنے والا طبقہ تمام حدود وقیود کو پامال کرتے ہوئے حلالے کا فتویٰ دیتا ہے تو اس نے ایک لذت بھی دیکھی ہوتی ہے اور اس حرامکاری کی لعنت سے اسکو دلائل نہیں بلکہ اس پر زنا کی حد جاری کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زناکار کیلئے سزا سے روکنے کی حکمت واضح کردی ہے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ نمبر2:طلاق کی صورت یہ ہے کہ شوہر نے طلاق دی اور عورت جدائی نہیں چاہتی ہو تو عدت کی تکمیل پر بھی شوہر کو معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش ہے اور اس کا حکم سورہ البقرہ کی آیت231میں سورۂ طلاق کی آیت2میں واضح ہے لیکن اگر عورت راضی نہ ہو تو عدت میں بھی رجوع کی گنجائش اللہ نے نہیں دی ہے جو آیت228البقرہ میں واضح ہے۔ صلح سے مشروط رجوع اور معروف رجوع کا ایک ہی مطلب ہے۔ علماء ومفتیان نے مسلم امہ کو تباہ کردیا ہے۔ یہ علماء نہیں بلکہ ہٹ دھرم جاہل ہیں، قرآن کی وضاحتوں کے بعداس کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔ نمبر3: طلاق کی صورت یہ ہے کہ عورت نے خلع سے طلاق لی ہو۔ علامہ تمنا عمادی نے اپنی کتاب ’’ الطلاق مرتان ‘‘ میں لکھ دیا ہے کہ’’ خلع کی صورت میں ہی عورت غلط کرتی ہے اور اس کو اس کی سزا حلالہ کی صورت میں ملنی چاہیے‘‘۔ جبکہ یہ بھی سراسر بکواس ہے۔ حلالہ کی لعنت ایک عورت کو سزا نہیں بلکہ نجیب الطرفین خاندانوں، معاشرے ، عالم اسلام اور انسانیت کی بھی یہ سزا ہے، ایک عورت کی عزت دری انسانیت کی عزت دری ہے۔ آیت232البقرہ میں خلع کی صورت میں بھی باہمی رضامندی سے صلح کی گنجائش واضح ہے۔اللہ سبھی کو ہدایت دے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

فاروق اعظم ؓ کے فیصلے یاائمہ اربعہ ؒ کے فتوے اختلاف؟ (اداریہ نوشتہ دیوار، شمارہ مارچ 2019)

اگر حضرت عمر فاروق اعظم ؓ کے فیصلے اور ائمہ اربعہ ؒ کے فتوے سے قرآن کی کوئی آیت یا نبیﷺ کی کوئی حدیث ٹکرائے تو ہم ایسے فیصلے اور فتوے کو جوتوں کی نوک پر رکھنے کے قائل نہیں بلکہ بفضل تعالیٰ تاریخ کے اوّلین علمبردار ہیں۔ ہم نے نہ تو حضرت عمر ؓ پر ایمان لانے کا کلمہ پڑھا ہے اور نہ ائمہ اربعہ ؒ ہمارے کسی ایمانِ مفصل کا حصہ ہیں۔ شیعوں نے حضرت علی ؓ کا کلمہ پڑھا ہے تو ہمارے اور ان کے درمیان پھر کوئی فرق بھی باقی نہیں رہے گا۔ شیعہ بھی قرآن وسنت سے اپنے متصادم عقائد ومسالک سے دستبردار ہونے کیلئے کوئی دیر نہیں لگائیں گے۔ میاں بیوی میں تنازعہ چل رہا ہو تو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ طلاق کے بعد عدت کے اندر ہی اندر باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کرلیں۔ قرآن نے عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر بار بار معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش واضح کردی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عزیز واقارب سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں جدائی کے نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں تو ایک ایک حکم دونوں خاندان سے تشکیل دیا جائے اور اگر ان کا ارادہ ہو کہ اصلاح ہوجائے تو اللہ تعالیٰ موافقت کی راہ پیدا کردے گا۔ میاں بیوی کا یہ مسئلہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور اگر وہ آپس میں صلح کرنے یا جدائی کی بات پر پہنچتے ہیں تو اس میں حکومت یا مفتی کی مداخلت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جب یہ دونوں ناکام ہوں۔ تنازعہ بڑھ جائے تو پھر حکومت سے فیصلہ لینے اور مفتی سے فتویٰ لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ صلح کیلئے تو میاں بیوی خود معروف طریقے سے راضی ہوں یا ایک ایک رشتہ دار دونوں طرف سے کردار ادا کرلے تو بہت ہے۔ تنازعہ کی صورت میں حکمران کے پاس فیصلہ لیجانے یا مفتی سے فتویٰ مانگنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ حضرت عمر ؓ کے پاس بھی شوہر کی طرف سے متنازعہ مسئلہ پہنچا تھا۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ تنازعہ کی صورت میں شوہر کو رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں۔ یہ ممکن نہ تھا کہ حضرت عمر ؓ قرآن کے منافی فیصلہ دیتے اور صحابہ کرام ؓ اس پر اپنا ردِ عمل ظاہر نہ کرتے۔ صحابہ کرام ؓ کے اجتماعی شعور میں یہ بات واضح تھی کہ اگر میاں بیوی راضی ہوں تو کسی سے فیصلہ یا فتوی لینے کی ضرورت نہیں ۔ البتہ اگر تنازعہ چل رہا ہو تو یہی فیصلہ کیا جائیگا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ یہی فتوی دیا جائیگا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ قرآن وسنت کا بھی یہی تقاضا ہے اور انسانوں کی کوئی جماعت اور کوئی عدالت اس فطری قانون سے انحراف کی جرأت نہیں کرسکتی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے بالکل ٹھیک فیصلہ دیا تھا اور عورت کی جان چھڑائی تھی کہ مرد کو رجوع کا حق حاصل نہیں۔ ائمہ اربعہ ؒ نے بالکل ٹھیک فتویٰ دیا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں۔ لیکن یہ سب بھول گئے کہ یہ فیصلہ اور فتویٰ تنازع کی حالت میں تھا۔ ان غریبوں کو کیا پتہ تھا کہ بعد میں لوگ قرآن وسنت کی واضح تعلیمات سے بالکل عاری ہوجائیں گے اور باہمی صلح کیلئے بھی قرآن سے رہنمائی لینے کے بجائے ان علماء وفقہاء کے دروازے پر دستک دیں گے کہ ہماری صلح ہوسکتی ہے یا اس کیلئے ایک مرتبہ بیوی کی فرج کا خراج پیش کرنا پڑیگا؟۔ جس نے دیکھا کہ ’’ہم خرما وہم ثواب کا کام ہے‘‘ تو اللہ کے واضح احکام کو اس طرح وہ پسِ پشت ڈال گیا جس طرح حضرت آدم ؑ نے واضح طورپرمنع ہونے کے باوجود شجرۃ الخلد کا ذائقہ چکھ لیا تھا۔ انسان کھانے پینے میں بے بس نہیں ہوتا لیکن بیوی سے مباشرت کرتے ہوئے ایک صحابی رسول نے اپنا روزہ بھی توڑ دیا تھا۔ کراچی میں علماء ومفتیان کے پاس زیادہ تر اپنے گھر اور بیوی بچے نہیں ہوتے ہیں اور وہ حلالہ کے اتنے خوگر بن چکے ہیں کہ مدارس کے ارباب اہتمام بھی انکی خونخواری سے گھبراتے ہیں۔ حلالہ کی لعنت پر ان کی آنکھیں چڑھ جاتی ہیں لیکن ملعون اور دلّے اپنے مؤقف پر نظر ثانی کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں اگر ایٹمی جنگ سے انسانیت دھوان بن گئی تو اس میں بڑا کردار حلالہ کی لعنت میں ملوث لوگوں کا گھناؤنا کردار ہوگا۔ پاک فوج اپنی ذمہ داری سرحدات پر پوری کرسکتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی معصوم افواج کا کوئی قصور نہیں ہے۔ پاک فوج نے حملہ آور پائلٹ کو زندہ گرفتار کرکے واپس کیا اور انسانیت کی تاریخ میں مثالی کردار ادا کیا۔ یہ مولوی اور مفتی ہیں جواس درجے گر چکے ہیں کہ قرآن کے منافی اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے اپنے عقیدتمندوں کی عزتوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ عقیدت مند ہیں جو نہ صرف اپنی ہی بیگمات کو انکے سامنے حلالہ کی لعنت کیلئے پیش کرتے ہیں بلکہ اگر یہ علماء ومفتیان حکم دیں تو حق کی آواز کو بلند کرنے والوں کو شہید بھی کرڈالیں۔ ہم نے مارچ، اپریل اور مئی 2007ء کے ماہنامہ ضربِ حق کراچی میں اپنی آوازحلالہ کی لعنت کے خلاف اُٹھائی تھی۔مئی2007ء کو ہمارا اخبار بھی بند کیا گیا تھا اور 30مئی 2007ء کو میری موجودگی کی اطلاع پر ہمارے گھر پر اٹیک کیا گیا اور13 افراد کو شہید کردیا۔ حملہ آور وہی لوگ تھے جن کی اعتقاد ،مسلک یہ تھا کہ اگر وہ اپنی بیگمات یا انکے باپ انکی ماؤں کو یا بھائی انکی بھابیوں کو اکٹھی تین طلاق دیدیں تو حلالہ کی لعنت سے گزرنا پڑیگا۔ ہم آج بھی ان دونوں ہی طبقات کو خیرخواہی کی بنیاد پر سمجھار ہے ہیں کہ قرآن کے احکام کی بیخ کنی کی گئی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اللہ نے سچ فرمایا’’ ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو برا سمجھو اور اس میں خیر ہو،تمہارے لئے‘‘۔ جب تک یہ جاہل طبقے ایکدوسرے کو حلالہ کی لعنت پر آخری حد تک نہیں پہنچائیں گے انہوں نے اہل حق کی بات نہیں سننی ہے اسلئے بہتریہی ہے کہ اس لعنتی عمل سے گزر کر زیادہ سے زیادہ بے غیرت بن جائیں اور پھر کبھی حق کی بات سننے کیلئے بھی تیار ہوجائیں گے۔ ہم نے محسود قوم کو بھی طالبان کے حوالے سے کافی متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن جب تک وہ اپنے گھر بار اور جان ، مال اور عزتوں کی قربانی تک نہ پہنچے تو ہماری باتیں ان کو ٹھیک نہیں لگتی تھیں۔میرے اپنے بھائی صاحبان بھی طالبان کی حمایت میں ہم سے لڑتے تھے تو انہوں نے اس کا مزہ چکھ لیا۔ میرے رشتہ دار بھی طالبان کے بڑے حامی تھے اور اب ان کو غبار ہٹنے کے بعد پتہ چل گیاہے کہ وہ کتنے پانی میں تھے۔ طالبان کی وجہ سے جاہلانہ غیرت ہماری قوم سے نکل گئی ہے لیکن حلالہ کی لعنت سے قوم کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی والے ویسے بھی کم بے غیرت نہیں ہیں، زیادہ تر علماء ومفتیان ان کو ہی شکار بنالیتے ہیں۔ یہ غریب اس کو اللہ کا حکم سمجھ رہے ہیں۔ جاوید احمد غامدی کی مثال بھی ان یہودی علماء کی طرح ہے جن پر گدھے کی طرح کتابیں لادی گئیں ۔ قرآن کا حکم حضرت عمرؓ اور ائمہ اربعہؒ نے منسوخ کیا اور نہ کرسکتے تھے بلکہ تنازعہ میں ان کی بات قرآن کے مطابق تھی۔ اکٹھی100 طلاق کے بعدباہمی صلح پر قرآن میں رجوع کی گنجائش واضح ہے۔ رجوع کا تعلق عدت اور اسکی تکمیل سے ہے۔ اللہ نے اسلئے رجوع کا تعلق عدت کی تکمیل سے رکھا ہے تاکہ یہ مذہبی گوپال لوگوں کو گمراہ نہ کرسکیں۔سید عتیق الرحمٰن گیلانی

12 سال سے حلالہ کی لعنت کو قوم نہیں سمجھ رہی تو ملٹری کا کیا قصور ہے؟ سید عتیق الرحمن گیلانی

شبیزمائی خان (چاند خان) کے بیان پر تبصرہ
نفرتوں کی بنیاد پر جنم لینے والی تحریکیں جھاگ کی طرح اٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں ، اپنی قوم سے محبت ایمان مگر تعصبات کفر ہیں ۔ اداریہ صفحہ نمبر2ضرور پڑھئے
پاکستان سے پہلے انگریز کے دور میں اور انگریز کے دور سے پہلے مسلم دنیا کی حالت بہتر کیوں نہیں تھی؟ ۔ نیٹو نے افغانستان میں امن قائم نہیں کیا لیکن پاکستان میں امن ہے!
منظورپشتین نے اچھے موقع پر واضح کیا کہ ’’ افغانستان سے الحاق کے نعروں سے PTMکا تعلق نہیں، ہمارا یہ نعرہ ہے کہ ہمارے جوان قتل اور گھر برباد ہورہے ہیں‘‘اور بس!
فیس بک پر چاندمیاں کی گہری فکر و نظر، سنجیدگی ایمانداری سے فرض پورا کرنا اچھی بات ہے۔ کھلے دل و دماغ سے خیر مقدم کرنا چاہیے۔ علماء و فوج کے اعلیٰ افسران اس لمبی چوڑی ویڈیو کو ضرور سنیں، یہ فرد نہیں زمانے کے تاثرات ہیں۔ معروضی حقائق سے منہ نہیں موڑا جاسکتا ہے۔ ایک ایک بات کا تفصیل سے جواب دینا ہوگا۔ حضرت عثمانؓ شہید کئے گئے تو مُلا ملٹری کاتصور نہ تھا۔ عشرہ مبشرہ کے صحابہؓ کی جنگوں میں حضرت علیؓ و عمارؓاور حضرت طلحہؓ و زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ نے لڑائی لڑی اور ہزاروں افراد اس کی نذر ہوگئے۔ حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’خبردار ! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔ جب 9/11کے بعد امریکہ نے افغانستان پر جنگ مسلط کی تو پاکستان کا بچہ بچہ امریکہ کیخلاف تھا۔ امریکہ نے عراق و لیبیا کو بھی تباہ کیا جو خوشحال ممالک تھے، جہاں ملٹری اور علماء کا وہ تصور نہ تھا جو شپیزمئی کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے۔ وزیرستان میں وزیر اور محسودنے جنگیں لڑیں اور محسودومحسود اور محسود و بیٹنی ، محسود اور برکی قبائل نے بھی جنگیں لڑی ہیں۔
امریکہ نے روس کیخلاف مجاہدین کو تیار کیا پھر افغانستان ، عراق اور لیبیا کو تباہ کیا، اسکے پیچھے آرمی یا علماء کا فتویٰ نہیں تھا ؟۔ معراج محمد خان جیسے باشعور، ملٹری مخالف سیاسی قائد امریکہ کیخلاف طالبان کو داد دے رہا تھا تو آرمی طالبان سے کس طرح وہ نفرت کرتی جو بہت بعد میں سبھی کے دل و دماغ پرچھاگئی؟۔ طالبان ختم اسلئے نہیں کیے گئے کہ پختونوں کو موت کے گھاٹ اتارنا پڑتا۔ اس ناگہانی حادثے نے فوجی جوانوں کو بڑی تعداد میں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہونے پر مجبور کیا۔گاؤں ملازئی ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان کے قلعے میں راتوں رات 40سیکورٹی اہلکاروں کے گلے کاٹے گئے۔ بڑی تعداد فوجی جوان و آفیسرز کی جانوں سے گئی۔ خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی تو پختون طالبان تھے۔ اسکے پیچھے ملٹری تھی اور نہ علماء کرام تھے۔
امیر امان اللہ خان جدید تعلیم یافتہ تھے۔ پختون خواتین کی سوات میں منڈی لگتی ۔ گائے ، بھینس، بھیڑ، بکری کی طرح بیچنے کیلئے ملٹری سازش یا مُلا نے فتویٰ دیا؟۔ کانیگرم میں بھی دوخواتین کاتعلق سوات سے تھا۔پیر زبیراحمدشاہ امریکی صحافی بھی اسکا پوتا ہے۔ ملٹری یا مفتی مجبور کرتے ہیں کہ بہنوں، بیٹیوں کو حق مہر سے محروم کرکے فروخت کرو؟۔ کمالیہ پنجاب میں آج بھی لڑکیوں کی قیمت بھینسوں سے کم رپورٹ کی گئی ، ARYنیوز کی سرعام میں دیکھ سکتے ہیں۔ سب سے آسان کام کسی کو موردِ الزام ٹھہرانا ہے ۔ تعصبات اُبھارنے سے ہدف آسانی سے مل سکتاہے۔شپیزمئی نے نسلی تعصبات کی نفی کی جویہ بڑااچھاتھا، اسلام نے غلام اور لونڈی کی اولاد کا فرق بھی مٹادیا تھا۔ عزت وذلت کی بنیاد کردار نہ کہ نسلی امتیازکی بنیاد پر۔سیدنا بلالؓ اور ابولہب وابوجہل میں کتنا بڑا فرق ہے ؟۔ یہ بالکل مناسب نہیں کہ کارکن کی حیثیت سے PTM کی لیڈر شپ پرکوئی اپنا وہ ایجنڈا مسلط کرتاپھرے جس کی خود ہمت نہ رکھتا ہو؟۔منظورپشتین نے اچھا کیا کہ ’’افغانستان سے الحاق کا نعرہ مسترد کیااور کہا کہ ہمارا نعرہ صرف یہ ہے کہ ہمارے جوان قتل ہورہے ہیں اور گھربرباد ہورہے ہیں۔ باقی نعرے لوگ اپنی طرف سے لگا رہے ہیںPTMکا ان سے تعلق نہیں‘‘۔
منظور پشتین نے اصلیت ثابت کردی کہ بھارتی جنگ کی گیدڑ بھبکی کے پیشِ نظر پاکستان سے مکمل یکجہتی کا اظہار کردیاہے۔
12سال سے حلالہ کی لعنت کیخلاف 3 کتابیں، مضامین، ویڈیوزمیں قرآن کے دلائل دئیے کہ عدت میں و عدت کی تکمیل پرباہمی اصلاح سے رجوع ہے مگر اسکے باوجود یہ بے غیرت قوم کھڑی نہیں ہوتی ۔ پہاڑی ہونا قابلِ فخرتھا، حالانکہ کافی عرصہ سے میں وزیرستان نہ جاسکا۔ وزیرستان بچپن میں جاتا تو گرمی کے چند ماہ گزارتا۔ پہاڑی کو میدانی ،میدانی کو پہاڑی کہنا برا لگتا ہے۔ قرآن نے جہالت سے نکالا۔ قرآن کی گستاخی کرنیوالاشخص ہالینڈ میں مسلمان ہوگیا۔ ہم جہالت سے نکل گئے تو آرمی اورمُلا سیدھے ہوجائیں گے۔
بھارت متحدہ ہندوستان کا متمنی تھا لیکن مشرقی و مغربی پاکستان جدا ہوگئے ۔ وطن بھی ان کی گاؤ ماتا کی طرح ماں ہے۔ اب بنگلہ دیش پاکستان سے جدا ہے۔ پاکستان کی پاک سرزمین کو ہندو اگر گاؤ ماتا سمجھتے ہیں تو اس کے بچھڑے کشمیر سے بھی ان کو دستبردار ہونا ہوگا۔ کشمیر پر گرفت کے چکر میں بھارتی بنگال ، پنجاب کے سکھ وغیرہ کو بھی کھودیگا۔ پاگل کتے نے نہیں کاٹا ہے کہ وہ پاکستان پر حملے کی ہمت کرے۔