پوسٹ تلاش کریں

جانِ استقبال ارضِ پاکستان ہے مگر کیسے؟

یہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز، پوری دنیا میں خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام یہاں سے ہوگا۔
جیو ٹی چینل نے طلاق کے مسئلہ پر پاکستان کی سپریم کورٹ کا اہم ترین فیصلہ کیوں نہ اٹھایا؟
بھارت کے موذی سرکار سے جیو کی کیا دوستی ہے کہ جو سازش وہاں تیار ہوئی یہاں اٹھائی گئی
اس خلافت کی خوشخبری نبیﷺ نے دی ہے جس سے آسمان و زمین والے خوش ہونگے

پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنا ہے اور اسلام کے نفاذ میں ہی اس کی بقاء ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات نکاح و طلاق سے لیکر بین الاقوامی دنیا کے ساتھ معاملات کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ اسلام کی ریاست مدینہ منورہ میں پہلی مرتبہ قائم ہوئی تھی جس میں وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے انمٹ دستور واضح ہیں، یہود و منافقین اور مشرکین مکہ سے بڑھ کر اسلام دشمن کون ہوسکتے ہیں؟۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے ریاست کے داخلی اور خارجی اُمور پوری دنیا کے سامنے اُسوۂ حسنہ کا بہترین نمونہ پیش کرکے رکھ دئیے۔ کوئی گمراہ فرقہ یا منافقت کرنے والا کتنا بھی اپنے حدود سے تجاوز کرے لیکن رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی اور اسکے ساتھیوں تک نہیں پہنچ سکتا اور مشرکین مکہ و یہود مدینہ سے بڑھ کر کسی ریاست میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺسے دشمنی کا تصور نہیں ہوسکتا ہے۔
جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حالات اس قدر بگڑے کہ عشرہ مبشرہ کے صحابہ کرامؓ حضرت علیؓ ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے بھی ایکدوسرے کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا اور ہزاروں مسلمانوں سمیت ان کو بھی ان فتنوں کی وجہ سے شہید ہونا پڑا ، تو حضرت امام حسنؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خوشخبری کے مطابق کردار ادا کیا اور مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کروائی۔ آ ج ہمارے پاس قرآن کے الفاظ کے علاوہ ایسا کچھ بھی نہیں کہ اس دور میں اُمت مسلمہ کے اندر بے پناہ منافرتوں کو ختم کرسکیں۔ پاک فوج کا کام سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے لیکن پوری قوم امریکہ کے بدترین کردار کے سبب آپس میں تقسیم ہوکر قتل و غارت گری کا شکار ہوئی۔ جب پاک فوج کی موجودہ قیادت نے کمان سنبھالی تو طاقت کے زور سے مختلف قسم کے دہشت گردوں کی لگائی آگ کو بجھانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جنرل راحیل شریف نے کشمیر کو تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا قرار دیا تو اللہ نے کشمیر کی آزادی کیلئے مقبوضہ کشمیر کی عوام کو اٹھایا۔ مودی نے موذی بن کر مختلف طریقے سے حملے شروع کردئیے۔ اب یہ وار کردیا کہ ’’سرکار کی مدعیت میں تین طلاق اور حلالہ ‘‘ کے حوالے سے ایشو اٹھایا تاکہ پاکستان میں اس حوالے سے بیداری کی لہر کو دبانے میں اپنے دوستوں کی مدد ہوسکے۔ یاد رہے کہ تین طلاق کے مسئلے پر بھارت میں بہت پہلے دیوبندی ، بریلوی، جماعت اسلامی اور اہل حدیث کے بڑے اکابر نے 70 کی دہائی میں بڑا سیمینار منعقد کیا تھاجس کی روداد تین طلاق کے حوالے سے پاکستان میں بھی ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔
پاکستان کے بڑے مدارس میں بڑے علماء کرام اور مفتیان عظام کی طرف سے تین طلاق کے مسئلے کو حل کرنے پر مثبت ردِ عمل ملا ہے۔ سورۂ طلاق میں نبی ﷺ کو مخاطب کرکے عوام کو طلاق کے احکام بتائے گئے ۔ اس طرح سورۂ احزاب میں نبی ﷺ کو مخاطب کرکے علماء کو سمجھایا گیا ہے کہ اللہ کے مقابلہ میں کافروں ،منافقوں کی اتباع نہ کرو۔ جو حکم اللہ نے تیری طرف نازل کیا ہے اسی کا اتباع کریں۔ مدارس کا نصاب مغلیہ دور سے پہلے نہ تھا۔ درس نظامی کسی مولوی نظام کی طرف منسوب ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے صاحبزادوں کے شاگرد حضرت مولانا فضل حق خیر آبادیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ میں علمی اختلاف تھا جس کی وجہ سے بریلوی دیوبندی اختلافات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے۔ مولانا فضل حق خیر آبادی ؒ نے انگریز کے سامنے بہت جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرکے کالے پانی کی سزا میں اپنی جان کی بازی جیتی اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے بھی خلافت کے قیام کی کوشش میں راجا رنجیت سنگھ کے جابر سپاہیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کی۔ آج یہ دونوں طبقے عالمی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مقامی طور پر درست کردار ادا کرتے ہوئے ایک اور نیک ہوسکتے ہیں، دونوں مکتبہ فکر کے مدارس کا نصاب ایک ہے اور اس نصاب کو درست کرنے میں زیادہ وقت بھی نہ لگے گا۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان بھی افغانستان ، عراق ، لیبیا ، یمن، شام اور دیگر ممالک کی طرح فتنوں کا شکار ہوں۔ذیل کے نقشہ میں اہلسنت کا موقف ہے ،اہل تشیع کے علامہ طالب جوہری نے بھی سید گیلانی کا ذکر پیشگوئی میں کیا ہے۔

قرون اولیٰ کی تاریخ دہرانے کا یہ دور ہے

شاہ اسماعیل شہیدؒ ، مولاناآزادؒ ، مولانا مودودیؒ ،ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوانؒ وغیرہ کا اتفاق تھا
موجودہ دور میں پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی، حدیث کی روشنی میں پاکستان مرکز!
دنیا بھر کے مسلم ممالک میں اتنی مذہبی اور سیاسی آزادی نہیں جتنی پاک سرزمین شاد باد میں!
قوم ملک سلطنت ،پائندہ تابندہ باد،مرکزیقین ،نشانِ عزم عالیشان،سایہ خدائے ذوالجلال

قرآن و احادیث صحیحہ پر امت مسلمہ کا آج بھی پاکستان کی سرزمین سے اتفاق ہوسکتا ہے۔ قرآن میں اللہ کا حکم ہے کہ مسلمانوں میں لڑائی ہو تو ان بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ۔روس اور امریکہ شام میں مسلمانوں کو بمباریوں کا نشانہ بنارہے ہیں لیکن مسلمان خود انکے درمیان صلح کرنے سے قاصر ہیں۔ ہیلری کلنٹن کے دور میں کیا کچھ نہ ہوگا، امریکی بش نے افغانستان و عراق کو نشانہ بنایا، اوبامہ نے لیبیا اور شام میںیہ مشن آگے بڑھادیا۔ ’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟‘‘ کا انتظار کئے بغیر پاکستان کو چاہیے کہ ایران اور سعودیہ کو قریب کرکے یمن اور شام سمیت دنیا بھر میں تفریق وانتشار کا شکار ہونے والے مسلمانوں کومزید تباہی وبربادی سے بچائے۔
اہل تشیع کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے بھرپور اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اسلام صرف محرم کے عاشور میں ماتمی جلوسوں کا نام نہیں، ایک چھوٹی سی کربلا سے ہم بھی گزرے اور اب بھی کربلائے عصر کی تنہائیوں میں اگر کسی کو حق کی خاطر جینے اور باطل کو چیلنج کرنے کا منظر دیکھنا ہو تو اہلبیت میں سید عتیق گیلانی کو دیکھ سکتے ہو۔ یہ فخر نہیں اللہ کا فضل ہے۔ یہ اللہ کا محض کرم ہے ورنہ مجھ میں ایسی بات ہے اور نہ میری یہ اوقات ہے۔ امام حسینؓ سے پہلے امام حسنؓ اور حضرت علیؓ بھی تھے اور حضرت حسینؓ کے بعد بھی اہل تشیع کے 9اماموں کا کردار ہے۔ اہل تشیع نے خود کو دور کرتے کرتے اتنامحدود کردیاکہ اہلسنت بخاری شریف کو کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب قرار دیتے ہیں اس میں ائمہ اہلبیت کیساتھ ’’علیہ السلام‘‘ اور حضرت فاطمہ کیساتھ ’’ علیہا لسلام ‘‘ لکھاہے۔ اگر دوری نہ ہوتی تو بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی نہ بنتی کہ ’’شیعہ علیہ السلام کہنے لکھنے کی وجہ سے گمراہ ہیں‘‘۔
نہج البلاغہ میں حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ کی وفات پر جتنی تعریف کی ہے اس سے زیادہ کے سنی بھی قائل نہیں ہیں، اہل تشیع کو جرأت سے کام لیکر یہ تشہیر کرنا ہوگی کہ حضرت علیؓ نے یہ تقیہ نہیں کیا تھا۔ یزید کیخلاف اگر ممکن ہوتا تو حضرت حسینؓ کربلا سے واپسی کی راہ لیتے۔ حضرت حسینؓ نے یزید کیخلاف بعد میں آواز اٹھائی ، پہلے جب حسنؓ و حسینؓ حضرت عثمانؓ کے دروازے پر پہرہ دے رہے تھے، حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے نے پیچھے سے پھلانگ کر حضرت عثمانؓ کی داڑھی میں ہاتھ ڈالا، یہ شیعہ سنی کی لڑائی پہلے بھی نہ تھی اور آج بھی اس کو فرقہ واریت کا رنگ دینا غلط ہے۔ نبی ﷺ نے آخری خطبہ میں فرمایا:مجھ سے پہلے انبیاء نے دجال کے فتنے سے اپنی اُمتوں کو خبردار کیا۔ اگر تم دجال کو نہ پہچان سکو تو اللہ اس کو جانتاہے، اس کی آنکھ انگور کے دانے کی طرح ہوگی، خبردار! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ مسلمانوں کی عزتیں، ان کی جانیں اور انکے مال حرمت والے ہیں۔ جس طرح آج کا دن (یوم عرفہ)، اس مہینے ( ذی الحج)، اس شہر(مکہ) کی حرمت ہے۔ (بخاری شریف)
اس حدیث صحیحہ میں دجال کا تعارف یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ اس کی شناخت کرنا بھی مشکل ہوگا، جب ایک کانا برا لگتا ہو تو اس کی سیدھی آنکھ کو بھی انگور کے دانے سے مذمت کیلئے تشبیہ دی جائے گی۔ دجال کی معرفت آسان ہو ،تو اسکے بنیادی معنیٰ سے انحراف کے مترادف ہے۔ اس کی شناخت اس حدیث میں اللہ کے علاوہ انسانوں یا مسلمانوں کیلئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بتائی گئی ہے۔ البتہ اس دجال کی بڑی علامت اور واضح نشانی یہ بتائی کہ وہ اور اس کا لشکر مسلمانوں کی جان، مال اور عزت کی حرمت ختم کردینگے۔ پہلے زمانے میں بھی خوارج نے حضرت علیؓ اور اماں عائشہ صدیقہؓ کے درمیان جنگیں برپا کرنے کی خدمت انجام دی، نبیﷺ نے فرمایا کہ یہ مختلف ادوار میں نکلتے رہیں گے، ان کا آخری لشکر دجال سے ملے گا، احادیث میں ان کی بہت سی نشانیوں کا ذکر ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے بھی ایک روایت ہے کہ خراسان کی طرف سے دجال نکلے گا جس کے پیروکار ایسی قومیں ہوں گی، جنکے چہرے ڈھال کی طرح گول اور ہتھوڑے کی طرح لمبوترے ہونگے۔ (ابن ماجہ) مولانا فضل الرحمن نے جمعہ کی تقریر میں خراسان کی حدیث میں دجال کو موجودہ دہشت گردوں کا لشکر بتا کر فٹ کیا تھا۔

قرون اولیٰ سے عقیدت ہمارا ایمان ہے

سورۂ واقعہ، سورۂ جمعہ، سورۂ محمداور دیگر سورتوں میں صحابہ کرامؓ اور آخری جماعت کا ذکر ہے۔

السٰبقون السٰبقون اولئک المقربون.. ثلۃ من الاوّلین و قلیل من الآخرین

سبقت لے جانے والے…مقرب ہیں…پہلوں میں سے بڑی جماعت ، آخر میں تھوڑے

سبقت لے جانے میں اولین مہاجر و انصار میں سے اور جو ان کی اتباع احسان کیساتھ کریں

نبی کریم ﷺ نے تعلیم وتربیت اور تزکیہ و حکمت سکھاتے ہوئے صحابہ کرامؓ کی جو جماعت تیار کی، اس کا ذکرقرآن کریم میں ہے ، سورۂ جمعہ میں ان کا بھی ذکر ہے کہ جو آخر میں ہیں اور پہلے والوں سے مل جائیں گے۔ احادیث میں وضاحت ہے کہ سلمان فارسیؓ کی قوم مراد ہے، مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے پارہ عم کی تفسیر میں سورۃ القدر کے ذیل میں لکھا کہ ’’سندھ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر، فرنٹئیراورافغانستان کی قومیں سب امامت کی حقدار ہیں، اسلام کی نشاۃ ثانیہ یہیں سے ہوگی، اگر ہندو پوری دنیا کو بھی ہمارے مقابلہ میں لائیں تو اس سے ہم دستبردار نہیں ہوسکتے، حنفی مسلک کے مطابق قرآن سے رجوع ہوگا، اہل تشیع بھی قبول کرینگے‘‘۔ مولانا سندھیؒ قرآنی انقلاب کے داعی تھے، آپؒ نے فرمایا کہ’’ قرآن کا اصل معجزہ اللہ کی آیات کا وہ مفہوم ہے جس کا کسی بھی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اس کے ذریعہ سے کوئی بھی پستی اور زوال کی شکار قوم عروج وترقی کی منزل پائے، عربوں کو اسی معجزے نے عروج وکمال تک پہنچایا تھا، اسکے اولین مخاطب بھی عرب ہی تھے لیکن قرآن کا ایک خطاب عالمگیر انقلاب اور پوری انسانیت کیلئے بھی ہے، جب اسلام کی نشاۃ اول کا آغاز ہوا تو عربوں کی اچھائیوں کو برقرار رکھا گیا اور ان کے اندر موجود برائیوں کا خاتمہ کیا گیا، پھر نشاۃ ثانیہ ہوگی تو قرآن کا خطاب پوری انسانیت سے ہوگا، پھر دنیا بھر کے انسانوں کی اچھائی برقرار اور برائی کا خاتمہ کیا جائیگا۔یہ قرآن کا عالمگیر انقلاب دنیا تسلیم کریگی‘‘۔
صحابہ کرامؓ سے حسنِ عقیدت کے بغیر قرآن کی بنیاد پر انقلاب کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔ جب اس بات کی نفی ہوگی کہ صحابہؓ کی بڑی جما عت ثلۃ من اولینکی کوئی حیثیت نہ تھی تو قلیل من الاٰخرین کی جماعت کیسے بن سکے گی؟۔ السابقون اولون من المہاجرین و الانصار کو نہ ماننارسول اللہﷺ کی قیادت اور قرآن پر عدمِ اعتماد کا اظہار ہے توپھر والذین اتبعوھم باحسان کے مصداق بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عربوں نے اسلام کی خدمت کی تو نبوت، خلافت، امارت کے ادوار میں دنیا پر چھاگئے۔ ترک کی خلافت عثمانیہ کے بادشاہ غیر عرب تھے، وہ اگر اسلام قبول نہ کرتے تو حکومت چل نہیں سکتی تھی۔ پھر ترکی خلافت کے خلاف بغاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ، اور امت مسلمہ برطانوی سامراج کے زیرنگیں ٹکڑیوں میں بٹ گئی۔ اقوام متحدہ میں قطرہ قطرہ دریا بنا مگر ہم سمندر ہوکر بھی چلو چلو بن گئے ہیں۔عرب وعجم مسلمانوں کو متحد کرنا ہوگا۔
ایک غلط فہمی کو دور کرنا ہوگا جو شیعہ سنی ،بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث میں موجود ہے۔ قرآن و سنت پر سب کی غلط فہمیاں دور کئے بغیر اتحاد واتفاق اور وحدت کا راستہ مصنوعی طور سے خلائی ستارے کی طرح ممکن نہ ہوگا لیکن حقیقی ستاروں تک پہنچنے کیلئے مصنوعی ستاروں کا سہارا لینا ضروری نہیں توبھی برا نہیں ہے۔ معراج کا سفر ہمیں امت مسلمہ کو عروج تک پہنچانے کا درس دیتا ہے۔ پاکستان میں دوسرے اسلامی ممالک کی طرح کسی ایک مسلک و فرقے کا ریاست پر قبضہ نہیں اور یہاں دوسرے ممالک کی طرح فرقہ وارانہ ریاستی دہشت گردی نہیں ہوسکتی ہے۔ ریاست اور عوام کا فرض ہے کہ اتحاد واتفاق اور وحدت کی فضاء پیدا کریں۔شاہ زیب خانزادہ نے تو اتنا بڑا الزام لگادیا ہے کہ’’ اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف کی حکومت کو اسلئے ختم کیا تھا کہ وہ فرقہ وارانہ اور جہادیوں کو ختم کرنا چاہتے تھے ‘‘۔ اگر اس الزام میں کچھ نہ کچھ صداقت ہو ،تب بھی جنرل راحیل اور جنرل رضوان اختر پر یہ بھونڈا الزام لگاناغلط ہے کہ’’ ان کی لڑائی شریف برادران سے دہشتگردوں کو تحفظ دینے کی خاطر ہے ‘‘۔ شاہ زیب کو یہ وضاحت بھی زیب دیتی اگر جیوکے مالکان کی طرف سے اجازت ہو کہ ’’پھر شریف برادران بذات خود جن کے سپوٹر رہے ہیں ، وہ کسی سے ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے اور اگر موجودہ پاک فوج کا کردار نہ ہوتا تو یہ دہشتگردوں کی کاروائیوں پر بھنگڑے ڈال کر دہشت گردوں کے ساتھی بنے رہتے۔آرمی پبلک سکول میں بچے مارے جانے پر بھی نوازشریف کا چہرہ اسلئے خوشی سے دھمک رہا تھا کہ عمران خان نے دھرنے کا بھنگڑہ چھوڑ دیا تھا اور جب باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تو بھی سارے میڈیا چینل اسی کی موقع پر کوریج کررہے تھے اور شہباز شریف پی ٹی وی پر قوم سے نہیں کاروباری معاملے پر خطاب کررہے تھے،جس میں قومی جذبہ مفقود تھا‘‘۔

ڈان نیوز کی خبر کے پیچھے پسِ دیوار محرکات کیا لگتے ہیں؟… اداریہ نوشتہ دیوار

ڈان نیوز کی خبر نے پاکستان میں پاک فوج اور ن لیگ کے درمیان تناؤ کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ PTVکے چیئرمین عطاء الحق قاسمی کے سامنے یہ صورتحال بنے کہ فوج ن لیگ کے ہاتھوں ذلیل ہوگئی تو اپنے کالم میں لکھ دے گا کہ ’’نوازشریف اور شہباز شریف سے زیادہ شرافت کا معیار کسی میں بھی نہیں، ڈاکٹر طاہر القادری کے جوتے کے تسمے باندھے اور غارحراء کے بلندپہاڑ پر چڑھا دیا‘‘۔ اور اگر پتہ چلے کہ فوج نے ن لیگ کی حکومت ختم کرکے99ء کی پھر تاریخ دھرادی تو عطاء الحق قاسمی اپنے کالم میں ایک دوسرا مزاحیہ جملہ لکھ دے گا کہ ’’پہلے شریف برادران نے اسلئے اچھائی کی تھی کہ وہ گنجے نہ تھے، مصنوعی بالوں کے باوجود گنجا پن کی خاصیت تو ختم نہیں ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ اللہ گنجے کو ناخن نہ دے۔ شریف برادران گنجے بن گئے اور حکومت کے ناخن بھی مل گئے،تو کم بختوں نے اسی علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے 14بندے پھڑکادئیے۔جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ جب حکومت پر ڈاکٹر طاہرالقادری کا زور پر پڑا، تو مشاہداللہ خان وغیرہ نے دبے الفاظ میں نہیں کھلے لفظوں میں بندے مارنے کا الزام بھی خفیہ والوں پر لگادیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیر الاسلام کو جیو ٹی وی چینل نے پہلے سے بدنام کردیا تھا، اسلئے پاک فوج نے ن لیگ کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا۔ اصل شریف تو جنرل راحیل ہیں جو شرافت سے اپنی مدت مکمل کرکے جارہے تھے لیکن وقت سے پہلے آئی ایس آئی کے ڈی جی رضوان اختر کو ذلیل کرنا ضروری سمجھا گیا،تاکہ آنے والا نامزد جنرل چیف آف آرمی سٹاف پہلے سے بھیگی بلی بن کر رہے کہ جب جنرل راحیل جیسے مقبول اور دبنگ جرنیل کے سامنے آئی ایس آئی کے سربراہ کی بے عزتی کرکے جوتے کی نوک پر رکھا جن کی ضرب عضب کی خدمات میں پوری قوم ہی نہیں دنیا بھی معترف ہے تو آنے والے کی حیثیت سرحدوں کی چوکیداری کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوگی اور قوم کے سامنے یہ کریڈٹ جائیگا کہ شہبازشریف نے فوج سے قوم کی جان چھڑادی ہے۔ سیاستدان اچھے ہوں تو اس میں برائی بھی نہ تھی مگر شریفوں نے خود تو پانامہ لیکس کی دولت اور لندن کے فلیٹ کی کرپشن کی تھی ، زرداری کے کرپشن پر شہباز شریف میں حبیب جالب کی روح جاگ جاتی تھی اور پانامہ لیکس پر اس کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ پہلے سعودیہ میں دس سال کیلئے معاہدہ کرکے جانے دیا گیامگر اس دفعہ کم ازکم بغیر ثبوت کے بھی زرداری کی طرح گیارہ سال جیل کی ہوا توکھائے وہ زرداری تو سرائیکی اسپکنگ بقول نثار کے’’ نسلی بلوچ بڑا پکا ہے‘‘۔ یہ تو چند مہینے کی قید میں پوری دنیا سے اپنی خفیہ دولت کو لاکررکھ دینگے۔ اور بیوروکریٹ ، میڈیا ہاؤسز اور جرنیلوں سے کرپشن پر سودابازی کی تھی، انکے راز بھی اگل دینگے، ڈاکٹر عاصم نے تو عدالت کے سامنے اعتراف نہیں کیا اور شاہ زیب خانزادہ نے انکشاف کیا کہ وہ جھوٹے مقدموں کی سزا بھگت رہا ہے، اسحاق ڈار نے تو 21صفحات پر مشتمل بیان دیکرعدالت میں اعتراف جرم کیاہے، بقول چوہدری اعتزاز احسن کے اگر زبردستی سے غلط بیانی ہو، تب بھی عدالت کے ذریعہ سے اعداد وشمار چیک کرکے درست نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے۔ چوہدری نثار نے ڈاکٹر عاصم کے ویڈیو اعتراف کی بات کی تھی، اب میڈیا کے سامنے چوہدری نثار کو بھی نوازشریف کی جائیداد سے متعلق ان تضادات کے اعتراف پر مجبور کیا جائے جو میڈیا پر دکھائے جاتے ہیں‘‘۔
ڈان کے آرٹیکل پر حامد میر نے ن لیگ کے وزیر محمد زبیر، صحافی ضیاء الدین اور معروف وکیل حامد خان کو پروگرام میں بٹھایا تھا۔ جب نوازشریف اس بات پر سیخ پا تھا کہ پانامہ لیکس کے معاملہ پر جنرل راحیل کرپشن کے خلاف بیان کیوں دے رہا ہے ، اس بات کا حساب کون دیگا کہ ’’ مجھے ہتھکڑی لگائی گئی، میری حکومت ختم کی گئی‘‘ حالانکہ دونوں باتوں میں اس سے زیادہ جوڑ نہ تھا کہ گدھے سے کہا جائے کہ ’’تجھے کہاں پڑ رہی ہے اور آواز کہاں سے نکل رہی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ گدھے کا جسم ایک ہوتاہے ، مار جہاں بھی پڑے ، آواز تو جہاں سے نکلنی ہو وہاں سے ہی نکلے گی۔ فوج کو 12اکتوبر 99کے اقدام پر محصور ججوں نے عدالت سے استفعے دیدئیے تھے ، توثیق کرنے والے خود بھی سزا کھاتے، اسلئے پرویزمشرف دوسرے اقدام پر غداری کے مقدمے کا سامنا کررہے تھے، جو انسانی کے فطری ضمیر کے بھی منافی تھا۔ جبکہ اب تو چیف جسٹس نے پہلے خودہی اعلان کردیا ہے کہ ’’جمہوریت کے نام بادشاہت ہے‘‘ جسکے بعد عدلیہ کو بھی قید کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔صحافی ضیاء الدین کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو اس بات پر یاد رہے کہ جنرل راحیل کے خلاف نوازشریف کا بیان درست ہے، نوازشریف کے باپ نے نوازشریف کے بچوں کو رقم دیدی ہے تو اس میں نوازشریف کا کیا واسطہ ہے؟۔ یہی بیان نوازشریف قومی اسمبلی میں پیش کرتے اور عدالت کو مطلوبہ اختیارات دیتے تو بات ختم ہوجاتی لیکن شاید صحافی ضیاء الدین کی بات نوازشریف کو بھی اتنی اچھی نہیں لگی، نوازشریف سے جنرل ضیاء ، جنرل ضیاء بٹ اور صحافی ضیاء کی محبت قدرت کا تحفہ ہے لیکن ایک طرف حامد میر کے پروگرام میں صحافی ضیاء الدین کی باتوں پر قہقہے لگ رہے تھے تو دوسری طرف بدین کا گدھا میلہ دکھایا جارہا تھاجس میں گدھوں کو مکھن کھلانے اور گیارہ لاکھ تک قیمت لگانے پر بات ہورہی تھی۔ گدھوں کے ڈھینچوں ڈھینچوں ، مکھن کھلانے اور زیادہ قیمت لگانے اور حامد میر کے پروگرام میں مکھن لگانے ، قہقہے لگانے اور بے قیمتوں کو قیمتی ظاہر کرنا انسانون اور جانوروں میں مسابقت کی خاصی مماثلت لگتی تھی۔
شاہ زیب خانزادہ نے پروگرام کیامگر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں انسان کی عزت خراب ہوتی ہے، چینل بدل سکتا ہے مگر عزت مشکل سے واپس آسکتی ہے۔ جب ڈان کی خبر درست ہے، جرم بھی نہیں، معمول کی بات ہے تو حکومت کیوں ایسا غلط اقدام اُٹھارہی ہے؟۔ جنرل کیانی کی ٹانگوں میں مرغا بن کر دہشتگردوں کاحامی شہباز شریف اتنا جرأتمند ہوجائے کہ جنرل راحیل شریف کے سامنے آئی ایس آئی کے چیف رضوان اختر کو ذلیل کردے تو اعلان کردے کہ یہ وہ شہبازشریف ہے جو صدر زرداری کو چوکوں میں لٹکانے اور سڑکوں پر لاش گھسیٹنے کی کھلی دہائی دیتا تھا ،اس با اختیار صدر سے آئی ایس آئی کے چیف کی بھی عزت زیادہ تو نہیں۔ عسکری ذرائع اگر خبر کو توڑ مروڑ کرکے پیش کرنے میں غلط بیانی سے کی بات کرتے ہیں تو شہباز شریف خود ہیرو کیوں نہیں بنتا کہ سابقہ ریکارڈ بھی درست ہوجائے؟۔ مگر لگتا یہ ہے کہ جھوٹ سے ہیرو بننے کی کوشش نے مشکل میں ڈالا ۔ یہ فوج اس سے مختلف ہے جس کی چاکری قریب کے دور میں شریف برادران کرتی رہی ہے۔ شریف برادری پاکستان کیلئے سچ مچ سیکورٹی رسک اسلئے ہے کہ ایٹمی پروگرام اور فوج کو بھی نام نہاد اسلامی بینکاری کے ذریعہ عالمی اداروں کے پاس گروی رکھنا ہوگا، اوریا مقبول جان کے اعصاب پر کیا سوار ہے کہ حرف راز میں جہاد ہند کی پیشگوئی کا کہا ’’ کراچی سے لاہور تک سندھ ہے ،ہندبھارت اس کو تباہ کردیگا اور پھر چین ہند کو تباہ کردیگا‘‘۔ محمد بن قاسمؒ نے سندھ خاتون کی عزت کے تحفظ کیلئے فتح کیا، چند دن پہلے نرسری کراچی سے عمران نامی24سالہ جوان کی خبر میڈیا پر چلی۔ جوبیگم کویکبار تین طلاق دے چکا تھا۔ ایک بچہ اپنے پاس رکھا، ایک بیگم کو دیا، حلالے کی بات پر خودکشی کرلی۔’’ اخبار جہاں‘‘ میں طلاق کے مسائل لکھنے والے مفتی حسام اللہ شریفیؒ جیو اور جنگ میں بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے چالیس سے زیادہ عرصہ کے بعد یکبارگی تین طلاق واقع کے فتویٰ سے رجوع کرلیا، جنگ اور جیو حلالہ کی بے غیرتی میں شریک مجرم ہے، عوام کی عزت کا پاس نہیں تو قوم کے مقتدر طبقے کی عزت خراب ہونے پر فرشتے ہنستے ہونگے۔

اکتوبر99نے ہمیں سی پیک دیا اور شریفوں کو مالدار بنایا… اداریہ نوشتہ دیوار

جنرل ضیاء نے مذہبی طبقہ کی کرایہ کے جہاد سے آبیاری کی۔ بینظیر کے آخری دور میں نصیراللہ بابر نے افغانستان میں طالبان کو تشکیل دیا۔ جنرل ضیاء کو محسن کہنے والے نوازشریف پر اسامہ لادن سے بھی پیسہ لینے کا الزام ہے، طالبان کے حامی شہباز شریف کی زبان سے دہشتگردوں کا قلع قمع کرنیوالے جرنیل پر بھی دہشتگردی کو پھیلانے کا الزم بڑا لغو ہے۔اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر 16سال بعد سپریم کورٹ نے ISIسے رقم لینا ثابت کیا ، حمیدگل مرحوم اقرارجرم اور سزا کی تمنا لیکر دنیا سے گئے۔ اگر ملوث اہلکاروں اور جماعتِ اسلامی وغیرہ کو عدالت مقدس گائے سمجھ کر ذبح کرنے کا حکم جاری نہیں کرسکتی ہے تو ن لیگ سامری کا بچھڑا بن کر ایسی آواز زر خریدمیڈیا کے چینلوں سے نکالنے میں کامیاب رہیگی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی موجودگی میں بھی قوم کو گمراہ کیا جاسکے گا۔ جتنے سوال جواب کرنے ہوں عدالت عظمیٰ سورۂ بقرہ کے واقعہ کی طرح آخر مقدس گائے کو ذبح کرنے اور سامری کے بچھڑے کو سزا دیدے۔ پھر جمہوریت کے نام پر شاہی نظام کا خاتمہ کرنے میں بالکل ہی دیر نہ لگے گی۔
چیئرمین سینٹ رضا ربانی ،خورشید شاہ و دیگر اپوزیشن جماعتوں، حکومتی اتحاداور میڈیا کے اینکرپرسن حضرات کو اگر واقعی جمہوری نظام کا چلتے رہنے سے پیار ہو تو پھر ایک نکاتی ایجنڈہ لیکر کھڑے ہوجاؤ، عمران خان کا رونا دھونا بھاڑ میں جائے، سب یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ جنرل کیانی کیساتھ نوازشریف کالا کوٹ پہن کر عدالت میں گیاتھا، کیا قانون کی حکمرانی کیلئے چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہونا جمہوری سسٹم بچانے کا ذریعہ نہ ہوگا۔ اصغر خان کیس کا فیصلہ 16سال بعد ہوا، عمل درآمد کی دیر ہے، ن لیگ سمیت ساری آمریت کی پروردہ جماعتوں کے قائدین نہ صرف سزا سے نااہل ہوجائیں گے بلکہ جمہوری نظام کو بھی زبردست استحکام ملے گا۔
جنرل راحیل سیاسی آدمی نہیں لگتے اور نہ سیاسی عزائم رکھتے ہیں، اگر وہ بعض دوسروں کی طرح دُم ہلانے والے ہوتے تو یومِ دفاع کے موقع پر جمہوری علمدار چیئرمین سینٹ رضا ربانی اور قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کو تقریب میں اپنے ساتھ کیوں بٹھاتے؟۔ جس سے برسر اقتدار حکمران بھیگی بلی بن کر رہ گئے تھے۔ جن دہشت گردوں کی آبیاری امریکہ نے اپنے مقاصد کی خاطر کی تھی ، وہ اپنے عزائم پر تاحال قائم ہے۔ ڈرون حملوں کے ذریعہ دہشت گردوں کو امریکہ ختم نہیں کرنا چاہتا بلکہ ان کو گرمائے رکھنا چاہتا ہے۔ القاعدہ، طالبان اور داعش میں پسند و نا پسندکے سلسلے کو جاری رکھنے والا امریکہ اور شیطانی قوتیں اس اسلامی آئین سے خائف ہیں جس کا ذکر علامہ اقبالؒ نے ’’شیطان کی مجلسِ شوریٰ‘‘ کے حوالے سے کیا تھا۔
وزیراعظم نوازشریف ! لوگوں نے مان لیا کہ ’’ کراچی آپریشن اور امن کی فضا ‘‘ اور ضرب عضب آپ کی حکومت کا تحفہ ہے۔سی پیک آپ کا کارنامہ تھا اور آپ نے لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور دہشتگردی کا خاتمہ کیا۔قرضے کے انبار نہیں اقتصادی ترقی کرلی لیکن سوئس اکاونٹ کیخلاف آسمان کو سر پہ اٹھانے والے! لوگوں کو کرپشن کیخلاف ایک کرنے، سوئس اکاونٹ اورپانامہ لیکس پر تضادات کو دور کرنے میں آخر قباحت کیاہے؟۔باقی سارے ایشوز کیساتھ یہ ایک ایشو بھی اطمینان بخش ہوجاتا۔
آپ نے دو دفعہ حکومت کی مگرگوادر کو چین سے ملانے کا خیال نہ آیا، 1999ء میں آپ کی حکومت گئی، آپ غریب و بے بس نے چوہدری اعتزاز احسن سے بھی کم ٹیکس دیا تھاپھر اللہ تجھ پر مہربان ہوا، پرویزمشرف نے تیری حکومت کیا ختم کی، ایک طرف پاکستان کی تقدیر بدلی ۔2002ء میں چائنہ کو گوادر دیاگیا۔ دوسری طرف تیری تقدیر بدلی اور بچے پانامہ لیکس اور لندن کے قیمتی فلیٹوں کے مالک بن گئے۔ پرویز مشرف کے دور میں جنرل راحیل جیسا جنرل ہوتا، جو گوادر چین کے سڑک پر صدر یا وزیراعظم کو جیپ میں بٹھاکر ڈرائیونگ کرتا تو گوادر اور چین کے درمیان روڈ بھی بن چکا ہوتا۔جنرل پرویز مشرف کو امریکہ کا غم نہ تھا،وہ قطر سے مہنگا ترین گیس کا معاہدہ کرنے کے بجائے ایران سے گیس پائپ لائن لاکرانڈسٹریوں اور گھروں کو سستے دام گیس کی سپلائی بھی شروع کردیتا۔اور کالا باغ ڈیم بناکرزیر زمین اور سطح زمیں پانی کے ذخائر سے پاکستان کوزراعت و سستی بجلی کی نعمت سے مالامال کردیتا۔
سندھ میں راجہ داہر ہو یا پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ۔ اچکزئی ،اسفندیار، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق وغیرہ نے نواب، سردار اور خان بننے کیلئے اپنی لنگوٹ کس رکھی ہے۔ الیکشن عوام کی رائے نہیں پیسے کا کھیل ضمیر کی سوداگری ہے۔ جمہوریت کا دم بھرنے والوں کی اگلی منزل بلاول بھٹوزداری اور مریم نواز صفدر عباسی کی آل اولاد ہے لیکن نوابوں ، سرداروں اور خانوں کواس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ شہنشائے معظم کے تخت پر گھوڑا ہو یا گھوڑی، گدھا ہو گدھی اور خچر ہو یا خچری؟۔ ان کو تو اپنی مراعات ملنے سے کام ہے۔ آزادی کے متوالوں غفار خان،صمد خان اچکزئی اور فقیر اے پی کو جرمنی کی مراعات نہ رہیں تو آزادی بھی بری لگی۔پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کاروبار ہے ، جس کمپنی کے شیمپو والے اس دوشیزہ کو اشتہار کیلئے زیادہ سے زیادہ پیسے دے وہ جعلی بالوں ، زیبائش وآرائش کے نسوانی حسن اور ناز ونخرے سے مالامال چال چلن کا مظاہرہ کریگی۔ میڈیا ہاؤسز کو اپنے کاروبار کیساتھ قوم کی بھی فکر کرنا چاہیے۔
’’جب جلانے کیلئے کچھ نہ ملا تو ماں نے اپنے لعل کی تختی جلادی‘‘ ۔ جنگلات کا تحفظ کیجئے ، محکمہ جنگلات ۔میڈیا کو لڑانے کیلئے کچھ نہ ملا تو جیو نیوز کی رابعہ انعم نے آفریدی و میانداد کو لڑایا، شعیب اخترنے صلح کو خیرکہہ کر ترجیح دی۔ سندھ حکومت نے ہیلمٹ ، ون ویلنگ پر جتنا خرچہ اشتہارات پر لگایا ،اگر تھوڑا سا خرچہ روڈوں پر بھی کردیتے تو وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ سے کراچی کی عوام بھی محبت کرنے لگ جاتی۔ پہاڑی علاقوں میں پانی سڑکیں بہا لے جاتاہے، روزانہ نہیں تو چند دن بعد بڑے سیلابی فلڈ آتے ہیں۔لوگ رضاکاربن کر سڑک بنالیتے ہیں۔ قائد آباد کے پاس تھوڑی جگہ حکومت کی اپنی نااہلی کے باعث خراب ہوگئی ، دن رات گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ کاش وزیراعلیٰ اپنے والد کی روح کے ایصال ثواب کیلئے مرحوم کی نیک کمائی میں سے اس پر تھوڑی رقم خرچ کردیتا۔ یا میڈیااشتہار مفت میں چلائے اور یہ رقم حکومت کو کھڈوں پر خرچ کرنے کا کہے۔ گلشن حدید لنک روڈ کا پل عارضی بنایا جائے تو بھی عوام اور ٹرالرمالکان کو مصیبت سے چھٹکارا ملے۔ ٹرالروں کو بے وقت چھوڑدیاجاتاہے پھررینجرز اہلکار ائرپورٹ سے ماڈل ٹاؤن کی طرف جانیوالے مختصر رانگ وے پر عوام کو تنگ کرتے ہیں جس پرٹریفک پولیس بھی کچھ نہیں کہتی ۔ ریاستی اداروں کو عوام سے اپنا رویہ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، پولیس اہلکار کتوں کی طرح لالچ کا رویہ رکھتے ہیں جس کی وجہ اپنے بچوں و افسروں کو پالناہے۔ رینجرز اہلکار عوام سے سرِ عام رقم ہتھیالینے کا رویہ نہیں رکھتے لیکن کینٹ سے گزرنے والے بے وقت غیرقانونی ٹرالے اور بڑے ٹرک نظر نہ آتے ہوں اور چھوٹی گاڑیوں اور موٹر سائیکل والے سے قانون کی پاسداری کیلئے غیر اخلاقی رویہ پر گدھے لگتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ ہماری بدتمیز عوام کیلئے زیادہ سے زیادہ سخت رویہ کی بھی ضرورت ہے اور یہ بھی غنیمت ہے کہ پولیس والے بچوں کے پیٹ کیلئے ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ تو قانون کی پاسداری کرواتے ہیں اور اس سے بڑھ کر کرائم پر قابو کیلئے ہی بڑی قربانیاں دیتے ہیں ۔ عدالتوں میں قوانین کے ذرئع مجرموں کو تحفظ نہ ملتا تھا تو ہمارے اداروں میں اچھے افسروں، سپائیوں اور اہلکاروں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوتا۔ جب محنت کے نتائج نہیں نکلتے تو اچھے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

درسِ نظامی کی اصلاح وقت کی اشدضرورت ہے… اداریہ نوشتہ دیوار

مجھے علماء سے عقیدت ومحبت ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ میں زیادہ عقیدت و محبت مولانابدیع الزمانؒ سے ہے ۔ آپؒ کی تلقین مسلم اُمہ کے تمام مسائل کا حل ہے کہ ’’روزانہ قرآن کے ایک ایک رکوع کا ترجمہ وتفسیر سمجھنے کی کوشش کرو‘‘۔ ایک مرتبہ کسی آیت پر اشکال کے حل کا طلبہ کو ایک ہفتے کا وقت دیا کہ کتب تفاسیر میں تلاش کرو، جس سے پوچھنا ہوپوچھ لو،اور اسکا جواب لادو، سوال کا منہ سے نکلنا تھا کہ میں نے بے ساختہ جواب دیدیا۔ میری برجستہ اور خلافِ توقع بے صبری سے قدرِ ناگواری کا اثر بھی چہرے پر نمایاں ہوا پھر حسبِ معمول ہلکاسا تبسم فرمایا۔ اگر کسی نیک طینت بڑے سے بڑے عالمِ دین یا چھوٹے طلبہ پر درسِ نظامی کے حوالہ سے میری گزارشات پر اچانک ناگواری یا سوچنے سمجھنے کے بعد اطمینان کا اظہار ہو تو یہ ایک فطری بات ہے۔ میری تعلیم و تربیت عقیدت ومحبت کے ماحول میں ہوئی۔ فقہ کی کتاب کنزالدقائق میں100فیصد نمبر اورمولانا عبدالمنان ناصر نے میرے اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’عتیق کی بات درست ہے ، کنز والے کی غلط‘‘ تو مجھے کتنا بڑا حوصلہ ملا ہوگا؟۔ درسِ نظامی کی آخری تفسیر ’’بیضاوی شریف‘‘پر اشکال اٹھادیا تو مولانا شبیراحمد (رحیم یارخان والے) نے فرمایا کہ ’’ عتیق کی بات درست ہے اور بیضاوی نے غلط لکھا ہے‘‘ ۔ میں نے جاوید غامدی کے شاگرد ڈاکٹر زبیر سے اساتذہ کاذکر کردیاتو حیران ہوگئے۔ وہ اپنے استاذ کی طرف سے اختلاف کوشائستہ انداز میں برداشت کرنے تعلیم وتربیت کو باعثِ افتخار قرار دے رہے تھے۔
اصول فقہ کی تعلیم ہے کہ قرآن و سنت میں تطبیق (موافقت) ممکن ہو تو تطبیق پیدا کی جائے،پہلا سبق قرآن حتی تنکح زوجا غیرہ کاحدیث سے تضاد ہے کہ ’’ اللہ نے خاتون کی طرف نکاح کی نسبت کی‘‘۔یعنی ولی سے اجازت کی پابند نہیں، حدیث میں بغیر اجازت ولی اسکا نکاح باطل ہے۔(اصول الشاشی)۔ زنا بالجبر اور غیرت کے نام پرقتل کیخلاف پارلیمنٹ میں قانون بنا ، اس پر نیوز 1 چینل میں ڈاکٹر فرید پراچہ نے ’’فساد فی الارض‘‘ کا حوالہ دیکر اختلاف کیا۔ جاہل کو معلوم نہیں کہ دیوبندی بریلوی مدارس حنفی ہیں ، جماعتِ اسلامی اسی کی مقلد ہے، خواتین کا ولی کی اجازت کے بغیر شادی میں درسِ نظامی کا کردارہے۔قرآن نے یہودو نصاریٰ کو ولی بنانا منع کیا ، مذہبی طبقہ امریکہ کو سرپرست بنانا جائز اور دوست بنانا جائز نہیں سمجھتا۔ بکرکنواری اَیم طلاق شدہ و بیوہ ہے،قرآن و حدیث میں تضاد نہیں بلکہ توازن ہے۔ قرآن میں طلاق شدہ کو نکاح کی اجازت دی ہے ،تو نکاح کرانے کا حکم بھی ہے وانکحوالایامیٰ منکم (طلاق شدہ وبیواؤں کا نکاح کراؤ) اور حدیث میں کنواری ہی کیلئے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ،تو حدیث میں بیٹی کی اجازت کے بغیر باپ کا نکاح کرانا باطل ہے۔ دارالعلوم کراچی کے فاضل نے بتایا کہ ’’مفتی تقی عثمانی کی بیٹی کا ٹیوشن پڑھتے ہوئے استاذ سے معاشقہ ہوگیا تھا مگر مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیٹی کا نکاح زبردستی سے اسکی مرضی کے بغیرکسی اورسے کردیاتھا‘‘۔
حنفی فقہ سے قرآن کے مقابلہ میں من گھڑت حدیثوں کا راستہ رک گیاتھا،باقی حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ ’’ حدیث صحیحہ کے مقابلہ میں میری رائے کو دیوار پر دے مارا جائے‘‘۔ علم وکردار کے لحاظ سے بہت سے علماء ومفتیان نے حق وصداقت کی راہ اپنانے کی بجائے مذہب کو پیشہ بنالیا ہے،اسلئے قرآن وسنت کے فطری دین کو ہردور میں اجنبیت کی منزلیں طے کرکے کہاں سے کہاں پہنچادیا گیاہے۔
نکاح و طلاق پر قرآن وسنت میں تضادو ابہام نہیں۔ قرآنی آیات اور احادیث کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا کرنے کے بجائے مسلکوں کی وکالت کی گئی ۔ صراطِ مستقیم نہیں پگڈنڈیوں کی بھول بھلیوں سے نصاب مکڑی کاجالا ہے۔ مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن کے جیب اور پیٹ بھرنے کا وسیلہ ہویا سیاسی حکومت کہدے، تو یہ لوگ امت پر رحم کھاکر درسِ نظامی کی تعلیم کو درست کرنے پر نہ صرف آمادہ ہونگے بلکہ عوام کے ایمان اور اسلام کیلئے اپنی خدمات بھی پیش کرینگے، اب تو یہ خانہ خراب سودی نظام کے جواز اور سیاسی خدمات کیلئے مرمٹ رہے ہیں۔
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک طلاق کے بعد عدت میں نکاح قائم رہتاہے، اسلئے ہر فعل وقول رجوع کیلئے معتبر ہے، پھر فقہاء نے غلطی سے شہوت کی نظر پڑنے ، نیند کی حالت میں میاں یا بیوی کا شہوت سے ہاتھ لگنے کو بھی رجوع قرار دیا جو غلو ہے ، شافعی مسلک والوں نے اسکے برعکس نیت نہ ہو تومباشرت سے بھی رجوع کو معتبر قرار نہیں دیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لاتغلوا فی دینکم ’’اپنے دین میں غلو مت کرو‘‘۔ اس سے بڑھ کر غلو (حدود سے تجاوز) کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟ ۔
قرآن وسنت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ ہے، اللہ نے ناراضگی وطلاق کی عدت بھی بیان کی ہے اور اس میں صلح و رضامندی سے مشروط رجوع کی اجازت کو بھی واضح کیا ہے، دونوں میں جدائی کا خوف ہو تو ایک ایک رشتہ دار دونوں جانب سے تشکیل دینے کی بھی ہدایت فرمائی ہے ، تاکہ ان دونوں کا ارادہ صلح کرنے کا ہو تو معاملہ سلجھ جائے اور اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے۔اللہ نے باربار معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے رخصت کرنے کا حکم دیا ہے۔ عربی میں معروف اور احسان کی ضد منکر ہے۔ نکاح، طلاق اور رجوع میں باربار احسان اور معروف طریقے کی تلقین کی گئی ہے۔ دورِ جاہلیت میں جو منکر صورتیں طلاق ورجوع کے حوالہ سے رائج تھیں اسلام نے ان سب کا خاتمہ کردیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کے غیرمشروط رجوع کو ختم کیا تھا۔ اسلام نے محض طلاق کے بعد بھی شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا ، حضرت عمرؓ کے اقدام کی اسلئے صحابہؓ نے توثیق کردی، اگرطلاق واقع نہ ہو تو عورت شادی نہ کرسکے،جیسے بہشتی زیور و بہارشریعت میں امت کے اس اجماع سے انحراف کیاگیا ہے ۔کسے یہ کیامعلوم تھا کہ باہمی رضامندی سے بھی رجوع کا راستہ بنداور حلالہ کا دروازہ کھول دیا جائیگا۔
حضرت عمرؓ کے کارناموں میں سرِ فہرست ہوگا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد شوہر سے رجوع کا حق چھین لیا،مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہ تھا کہ اللہ نے بار بار باہمی رضا سے عدت کا حوالہ دیکر رجوع کی گنجائش رکھ دی اور حضرت عمرؓ نے ان آیات کو منسوخ یا انکے احکام کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا،بلکہ قرآن وسنت کی روح اور الفاظ کا یہ تقاضہ تھا کہ شوہر طلاق دے تو صلح کے بغیر اس کو رجوع کا حق حاصل نہیں۔ عورت کو اس حق سے محروم سمجھا گیا تو حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق کی صورت میں شوہر کو رجوع کے حق سے محروم کیاتھالیکن یہ محرومی صرف اس صورت میں تھی جب عورت صلح کیلئے رضامند نہ ہو۔ حضرت عمرؓ کی طرف سے یکطرفہ رجوع کا حق نہ دینا اور طلاق واقع ہونے کا متفقہ فتویٰ تاکہ عدت کے بعد دوسری شادی ہوسکے دیگر بات ہے اور اس بنیاد پر باہمی صلح اور رجوع کا راستہ روکنا اور حلالہ پر مجبور کرنا قرآن اور انسانیت کو مسخ کرنا ہے۔ حضرت عمرؓ پر قرآنی آیات کو مسخ کرنے کے اقدام اور حلالہ کی لعنت کو جواز فراہم کرنے کا الزام لگاکر سنی مکتبۂ فکر نے اہل تشیع کو صحابہؓ سے بدظنی پرمجبور کیا اور اپنوں کاحلالہ کی لعنت سے کباڑا کردیاہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ جماعتِ اہلسنت اور کالعدم فقہ جعفریہ وحدت المسلمین کوایک ہی اسٹیج سے کھڑے ہوکر قرآنی آیات ، احادیث صحیحہ اور فاروق اعظمؓ کے اقدام کی درست توجیہ سے پاکستان کو ایران و سعودیہ عرب اور عالم اسلام کا امام بنانا ہوگا۔اور طلاق کے متعلق قرآن وسنت کیخلاف غیرفطری تصور کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ شوہرایک طلاق دے تو عورت کی دوسری جگہ شادی کے بعد بھی پہلا شوہر دو طلاق کا مالک ہو۔

میرامختصرخاندانی پسِ منظر اور میری جدوجہد

میرا تعلق کانیگرم جنوبی وزیرستان و علاقہ گومل ٹانک سے ہے۔ محسود، وزیراور بیٹنی قبائل میں ہمارا خاندان عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ کانیگرم سے تحریک کا آغاز کیا تو ڈاکوؤں کا بڑا زور تھا۔ ایک مرتبہ کراچی سے آنیوالے ساتھیوں کو ٹانک سے کانیگرم کرایہ کی گاڑی پک اپ میں ڈاکوؤں نے روک لیا، ڈرائیور نے میرے والد پیر مقیم شاہ کا نام لیا کہ انکے مہمان ہیں تو ڈاکوؤں نے چھوڑ دیا۔ ہمارا خاندان ڈاکوؤں سے لین دین اور سرپرستی کی ساکھ والا نہ تھا۔ میرے پردادا سیدحسن عرف بابو ؒ کو محسود شمن خیل نے بروند وزیرستان میں اعزازی زمین دی تھی۔ جب انگریز نے برصغیر کو آزاد کرنے کا اعلان کیا تو افغانستان کے امیر امان اللہ خان کا بیٹا مدراس کی جیل سے فرار ہوکر آیا، عبدالرزاق بھٹی مرحوم اس وقت کیمونسٹ تھے۔ جسکا تعلق شیخ اوتار ڈبرہ علاقہ گومل سے تھا، وہ امیرامان اللہ کے بیٹے کو بیٹنی خلیفہ دین فقیرکے پاس لیکر گئے،دین فقیر نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں کو امیرامان اللہ کا بیٹا مطلوب ہے، صرف محسودقبائل کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ پناہ دیکر دونوں سے بچا سکتے ہیں۔ چنانچہ شمل خیل قبیلے کے سردار رمضان خان نے پناہ دی پھر ایک مرتبہ چھپ کر سفر کررہے تھے کہ حکومت کی مخبری سے ان کو گرفتار کرکے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں قید کیا گیا، اسی دوران عبدالرزاق بھٹی مولانا مودودی ؒ کی کتابوں کا مطالعہ کرکے مسلمان ہوئے۔1913ء میں اسلامیہ کالج پشاور بنا تھا 1914ء میں والد مرحوم کے چچازاد پیرایوب شاہ ؒ اور دیگر عزیز اسمیں BAکے سٹودنٹ تھے۔
امیرامان اللہ خان نے 1919ء سے 1929ء تک افغانستان پر حکومت کی۔ حکومت کے قیام کیلئے جنوبی وزیرستان کانیگرم میں میرے دادا سیدامیرشاہ باباؒ کے گھر سے تحریک کا آغاز کرنے شام سے ایک عرب پیر سید سعدی شاہ گیلانی آئے، تو اس وقت اس کی داڑھی اور مونچھیں بھی نہ آئی تھیں۔ کانیگرم کے علماء نے ڈھول کی تھاپ پر جلوس نکالا، کہ پیر وں کے پاس انگریز میم آئی ہے، پھر علماء سے کہا گیا کہ طاقت کے زور کو چھوڑو، بیٹھو ، اطمینان کرلو کہ مسئلہ کیاہے؟۔ جب علماء سے عربی ، فارسی میں قرآن وسنت کے علوم پر بات ہوئی توپھر اپنے سگریٹ کے دھویں کو علماء کے چہروں پر سجی داڑھی کی طرف چھوڑ رہا تھا۔ امان اللہ خان کا رشتہ داریہ شامی پیر جرمنی سے رقم لیکر آیا تاکہ افغانستان میں حکومت قائم کی جائے۔پھر علماء اور مشائخ کی قیادت میں ایک بڑا لشکر تشکیل دیا گیا، جس نے افغانستان میں امیر امان اللہ کی حکومت قائم کی۔ افغانستان کا پہلا اخبار پیرایوب شاہ عرف آغاجانؒ کی ادارت میں جاری ہوا۔ انگریز کی سازش سے امیر امان اللہ کا تختہ الٹا گیا،وہ علماء جنہوں نے جانوروں کی طرح سوات میں خواتین فروخت ہونے کی منڈیوں کو کبھی اسلام کے منافی نہیں کہا، انہیں امیرامان خان کی بیوی کا لباس خلاف اسلام لگتا تھا۔ دوسری بار شامی پیر آیا تو راہ میں بمباری کرکے لشکر کو منتشر کیا گیا۔ سید ایوب شاہؒ کو امیرامان اللہ کی بیٹی سے شادی اور مال ودولت کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے انکار کردیا،البتہ اپنے اخبار میں حمایت جاری رکھی اسی وجہ سے افغانستان میں قید کی سزا بھگت لی۔ شامی پیر نے میرے داد کو جانشین و بڑا خلیفہ بنانے کی پیشکش کی مگر انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اپنے گناہوں کو معاف کرادوں تو یہ بہت ہے، آپ کی خلافت کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا‘‘۔ پیرایوب شاہؒ نے جماعتِ اسلامی کا لٹریچر پڑھا تھا اور بہتوں کو جماعت میں شامل کیا، بچپن کے الیکشن میں مَیں نے سب سے پہلے ’’ترازو‘‘ کا نشان اٹھایا۔آزادی کے لیڈرز جرمن امدادسے مالامال تھے۔ محمود اچکزئی کو ہمارے عزیزپیریونس نے یونیورسٹی میں شکست دی تھی۔
جرمنی، فرانس، ناروے، سویڈن، عرب امارات اور چین جانے کا موقع ملا ہے مگرکہیں خواتین و حضرات کو اس قدر ایک دوسرے سے ہڈی پسلی ایک ہونے کی حد تک میل ملاپ نہ دیکھا جیسے خانہ کعبہ میں حجراسود چومنے کے دوران ایکدوسرے سے ملنے کا منظر ہوتا ہے۔ سعودیہ میں جنسی جرائم کی شرح خطرناک ہے، بیرون سے لائی جانے والی خدامہ کیساتھ باپ، بیٹے اور بھائیوں کی مشترکہ جنسی زیادتی حدِ تواتر کو پہنچی ہے اسلئے مسیار کے نام پر متعہ کی قانونی اجازت دی گئی ۔ مفتی عبدالقوی جیسے حلالہ کی لعنت کے خوگر آخرکارسرِ عام رنگ رلیوں سے جنسی تسکین کا فتوی ٰ دینگے۔
1983ء میں بنوری ٹاؤن ، دارالعلوم کراچی اور جامعہ فاروقیہ سے طلبہ کو سکول کا امتحان دینے کیلئے جمعہ کے دن فاروق اعظم مسجد ناظم آباد میں ٹیوشن پڑھنے کے جرم میں نکالا گیا، جبکہ1923ء میں پیرمبارک شاہ گیلانیؒ فاضل دارالعلوم دیوبند نے کانیگرم وزیرستان میں ’’نوراسلام‘‘ کے نام سے پبلک سکول کھولا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے بڑے معروف استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے مالٹا سے رہائی پانے کے بعد 1920ء میں حکیم اجمل خانؒ کی پرائیوٹ یونیورسٹی کا افتتاح کیا تھا۔ شیخ الہندؒ نے مالٹاکی قید میں تجزیہ کرلیا تھا کہ ’’ مسلم اُمہ کو فرقہ وارانہ درسِ نظامی سے نکالنے اور قرآن کی طرف توجہ میں نجات ہے‘‘۔ اپنے مشن کیلئے علماء ومدارس سے مایوسی اور کالج کے طلبہ کوقرآن کی طرف متوجہ ہونے کی امید کا اظہار کیاتھا۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے مذہبی طبقات سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے جابجا لکھاہے کہ ’’ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں، انہوں نے مذہب کو تجارت بنالیا ہے‘‘۔
میں نے بریلوی دیوبندی،جماعت اسلامی ،اہلحدیث اور شیعہ تضادکولیہ سکول کے دورمیں سمجھا، بغاوت کرکے مدارس کا علم حاصل کیا، دارالعلوم کراچی کورنگی میں چند دن کے بعدداخلہ کینسل ہوا، بنوری ٹاؤن پہنچالیکن وہاں داخلے بند تھے، دارالعلوم الاسلامیہ واٹرپمپFBایریامیں داخلہ میں لیا،مولانا یوسف لدھیانویؒ کے درس سے استفادہ کرنے الفلاح مسجد نصیرآباد جاتا،ایک مرتبہ پروفیسر غفور احمدؒ نے بھی وہاں تقریر کی تھی ،حالانکہ مولانا یوسف لدھیانویؒ کی کتاب’’ اختلاف امت اور صراط مستقیم‘‘ میں مولانا مودودیؒ کے بارے میں غلام احمد پرویز و غلام احمدقادیانی کا قلم چھین لینے ، انبیاء کرامؑ اور حضرت عائشہؓ سے متعلق گستاخانہ لہجے کے ریمارکس بھی مجھے یاد تھے۔ مولانا لدھیانویؒ سے سنا کہ ’’ قرآن پر حلف نہیں ہوتا، اسلئے کہ یہ نقشِ کلام ہے، اللہ کی کتاب نہیں‘‘ تو مجھے احساس ہواکہ ہم عوام اور علماء کرام کے علم وسمجھ میں بڑا فرق بلکہ کھلا تضاد ہے، جامعہ بنوری ٹاؤن کے پہلے سال میں ایک قابل سمجھنے جانے مولانا عبدالسمیعؒ سے سرِ راہ بحث کا سلسلہ بڑھااور اس نے قرآن منگوایا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے؟، مجھے مولانا لدھیانویؒ کی بات یادآئی اور برجستہ کہا کہ ’’یہ اللہ کی کتاب نہیں بلکہ اس کا نقش ہے!‘‘، مولانا نے مجھے کافر کہا تو میں نے مولانا لدھیانویؒ کا حوالہ دیا، جس پر مجھے الزام دیا کہ’’ تمہارا مقصد دین کی تعلیم نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہے، سب کچھ پڑھ کر آئے ہو‘‘۔ اس مباحثہ کو کافی سارے طلبہ نے سنا اور اسکے بعد علامہ تفتازانی کا نامانوس لقب میں نے اپنے لئے طلبہ سے سن لیا۔ حقیقت میں علماء ومفتیان درسِ نظامی کو سمجھنے سے قاصر ہیں صاحبِ ہدایہ نے اللہ کی کتاب کا نقش سمجھ کر ہی سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز قرار دیا، مفتی تقی عثمانی نے جانے بوجھے بغیر اپنی کتابوں میں نقل کیا اور پھردباؤ پر نکالا تھا۔ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء کے اجتماع کے اہتمام پر مولانا فضل الرحمن نے میرے سامنے مولانا عطاء اللہ شاہ کو شرکت کا کہا، مگرخفیہ طورپر مولانا عصام الدین محسود کو بھی روکنے کاکہا، یہی وجہ تھی کہ ڈیرہ کے علماء وعدے کے باوجود نہ آئے ۔ٹانک کے علماء سے مولانا فتح خانؒ نے میری وضاحت پر فرمایاکہ ’’میری داڑھی سفید ہوچکی، عتیق کی کیا عمر ہے؟، مگر آج اس جوان نے میری آنکھوں سے پٹیاں کھول دیں ہیں‘‘۔

اسلام دین فطرت ہے غیرفطری اختلاف سے جان چھڑانی چاہیے

وضووغسل سے معاشرتی نکاح و طلاق triple talaq اور معاشی احکام تک اسلامی شعائر رائج ہیں جو قرآن وسنت میں موجودہیں مگران احکام کے غیرفطری تضادات سے علماء بھی آگاہ نہیں،بوقتِ ضرورت مطالعہ کرکے دیکھ لیتے ہیں، حالانکہ اسلام میں انکی بھی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی مگر مذہبی طبقات کے ذاتی مفادات ہیں جس سے ان پیچھا چھڑانے کی ضرورتہے۔عربی میں غسل نہانے کو کہتے ہیں، انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کو بھی نہانا آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے سے پہلے نہانے کا حکم دیا ہے اور دوسری جگہ وضو کا حکم دیتے ہوئے حالتِ جنابت میں اچھی طرح سے پاکی کا حکم دیا ، جس سے نہانا ہی مراد ہے لیکن کم عقل مذہبی طبقات نے اس پر انواع واقسام کے اختلافات کا بیج بودیا، جو مدارس کے علاوہ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی کی مجالس میں عوام کو رٹانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بے نمازی کیلئے قرآن و سنت میں کسی سزا کا حکم نہیں، فقہی مسالک میں قتل، قید اور کوڑوں کی سزاؤں کے احکام پر اختلافات پڑھائے جاتے ہیں، نوجوان طبقہ ان احکام کی وجہ سے داعش، طالبان ، حزب التحریر اور دیگر تنظیموں میں شامل ہوکر اسلام کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر ان نوجوانوں کو پتہ چل جائے کہ ان بکواسات کا اسلام محض علماء ومفتیان کی تجارت اور فقہاء کے پیٹ کا غبار ہے تو یہی نوجوان طبقہ محنت کا رخ موڑ کر اپنے اپنے ممالک میں ظلم و جبر کے خلاف عدل وانصاف کا نظام قائم کرنے کی کوشش میں لگ جائے گا ۔ میرے دوست مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید مذہب کے نام بغاوت کے علمبردار نہیں بلکہ ریاست کے آلۂ کار ہیں۔ ریاست ان باغیوں کیخلاف اقدامات اٹھاتی ہے جن میں اسلامی نظام کیلئے بغاوت کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ مذہب کے قدرِ مشترک میں باغی گروہوں اور ان گروہوں میں جو ریاست کے وفادار ہیں ، باہمی طور سے ہمدردیاں ہیں۔ غسل اور وضو فطری ہیں، نماز فطری ہے مگر ان پر اختلاف اور سزاؤں کا نفاذ غیرفطری ہے۔ ہماری ریاست ، حکومت اور سیاستدانوں کا سب سے بڑا فرض تھا کہ مدارس کے نصاب پر سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مثبت اقدامات اٹھاتے اور کور کمانڈز کانفرنس ، عدلیہ اور حکومت اس پر بہتر تجاویز اور احکام جاری کرتے۔
ایک بچہ بھی کتاب، قلم ، غسل، وضو، نماز، ماں باپ اور رشتہ داروں کے مضبوط تعلق نکاح اور طلاق triple talaq، علیحدگی اور ناراضگی سے لیکر زکوٰۃ، حج اور عمدہ حکومت کے معاملات کو سمجھتا ہے۔ اسلام کے دینِ فطرت ہونے کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ جس معاملہ کو بھی اس کی حقیقی صورت میں پیش کیا جائے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دنیا میں کسی معقول انسان کو اسکے قبول کرنے میں تھوڑا بھی تأمل ہو۔ نکاح وطلاق کے اسلامی احکام بالکل فطری تھے لیکن مذہبی طبقات نے اس کا وہ حلیہ بگاڑ دیا ہے کہ غیرمسلم تو درکنار، دوسرے فرقوں کے لوگوں کا معاملہ بھی چھوڑدو، اپنے مسلک اور خود پڑھنے پڑھانے والا طبقہ بھی اس کو سمجھنے کی کوشش کرے تو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے میں ہرگز تھوڑی دیر بھی نہ لگائے۔ اسلام ہرقوم، ملک اور مذہب کے قانونی جوڑ ے کا نکاح قبول کرتاہے، قانونی علیحدگی کو طلاق قرار دیتا ہے اور اپنے نکاح و طلاق کیلئے ایسے قوانین پیش کرتاہے کہ دنیا کے کسی قوم ومذہب، ملک وملت اور رسم ورواج کے اندر اس کا درست تصور پیش کیا جائے تو پوری دنیا اسی بنیاد پر بھی اسلامی نظام کو سمجھنے اور اس کو نافذ کرنے اور رائج کرنے پر برضا ورغبت آمادہ ہوجائے گی، اور اسلام نہ بھی قبول کریں لیکن نہ صرف عالمی اسلامی خلافت کی تمنا کرنا شروع ہوجائیں گے بلکہ عملی طور پر اپنے اپنے ممالک میں اس کی جدوجہد کا بھی آغاز کردینگے۔
کتاب’’ابر رحمت‘‘ میں نہ صرف طلاق triple talaq کا مسئلہ ہے بلکہ درسِ نظامی کی بنیادی خامی کو بھی اُجاگر کیا گیاہے، اختصار کیساتھ عدالتی معاملات، فرقہ وارانہ مسائل کا حل اور نظریاتی اور سیاسی معاملات کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ triple talaq کے مختصر سے کتابچہ میں فرقوں اور مسالک سے بالاتر قرآن وسنت کا ایسا نقشہ پیش کیا گیاہے جس کے اعتراف میں سب یک زباں ہیں لیکن بہت سی مقتدر شخصیات اپنی عزت بچانے کی خاطر اپنے ارادتمندوں اور عقیدتمندوں کی عزتوں سے کھیلنے کا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جن لوگوں کو خود کش حملہ آوروں، سرعام دہشت گردانہ کاروائیوں ،فتنہ وفساد ، کشت و خون کی ہولی کھیلنے اور پرتشدد کاروائیوں میں ملک وقوم کی تباہی سے مسئلہ نہ تھا اور نہ کبھی وہ اپنی زباں پر حرفِ شکایت لائے ہیں ، ان کو مسلمانوں کے گھر برباد ہونے اور عزتیں لٹنے سے بچانے میں ہمارے الفاظ کا لہجہ سخت لگتا ہے، تب بھی ہم اپنے رویہ پر نظر ثانی کرسکتے ہیں جس کا ہم نے بار بار اس شرط پر اعلان بھی کیا ہے کہ علماء و مفتیان قرآن و سنت اور عقل وشریعت کے منافی اپنی طرف سے جاری وساری گھروں کو تباہ کرنے اور حلالہ کی لعنتوں کا فتویٰ ترک کردیں۔ نصاب میں غیرفطری اختلافات کو چھوڑ کر اسلام کی درست تعلیمات سے مدارس کے طلبہ کو روشناس کرائیں جس سے مسلم قوم کا رخ فرقہ واریت، دہشگردی اور منفی رحجانات کی بجائے اسلام دینِ فطرت کی طرف ہوجانے میں کوئی دیر نہ لگے۔
triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq
triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq
triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq

نا اہل موروثی قیادتیں؟

bilaval-maryam-bachakhan1--OctobSpecial2016

ہماری قوم بدترین زوال وپستی کا شکار اسلئے ہے کہ سیاسی ومذہبی قیادتیں موروثی بنیادوں پر اپنی نااہلیت کے باجود سب پر مسلط ہیں، اسفندیاراوربلاول زرداری کا کوئی اپنی پارٹی میں ثانی نہ ہو، تو مریم نواز کو بھی ن لیگ کی قیادت سونپ دی جائیگی جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور نواسے کے سلسلوں کی کیفیت رہی ہے، پاکستان کے آئین میں ترمیم ہونی چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتیں ملکی انتخابات میں نااہل ہیں جن کے ہاں موروثی قیادت کا نظام ہے، نوازشریف پرویز مشرف کے ساتھ معاہدہ کرکے سعودی عرب چلا جائے اور پاکستان میں بغاوت ، جیل اور بدترین تشدد کا سامنا مخدوم جاوید ہاشمی کر رہا ہو مگر جب نواز شریف کو اقتدار مل جائے توجانشین مریم نوازبن جائے۔ مسلم لیگ ن میں اخلاقی، سیاسی اور انسانی اقدار کا فقدان نہ ہوتا تو یہ ن نہ ہوتی بلکہ اصل مسلم لیگ کا سربراہ جاویدہاشمی بن جاتا۔ جس نے تحریک انصاف میں جاتے ہوئے بھی اعلان کیا تھا کہ میری لاش لیگ کے جھنڈے میں دفن کی جائے۔ کشمیر کے مسئلہ پر پارلیمنٹ کے اجلاس کا تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا تو بھی حکومت اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں میں صرف 75ارکان اسمبلی تھے ۔ 380ارکان میں سے اتنی کم تعداد کی شرکت کرنا اور ان کی بھی آپس میں مڈ بھیڑ یہ پتہ دیتی ہے کہ ہمارے سیاسی جماعتوں کی قومی معاملات سے کتنی دلچسپی ہے؟۔
بلاول بھٹو زرداری ٹی او آرکے مسئلہ پر اپوزیشن کی حمایت کیلئے مولانا فضل الرحمن سے مدد لینے گئے لیکن الٹا شکار کرنے کے بجائے خود ہی شکار ہوگئے۔ جس طرح اسکے والد آصف علی زرداری پاک فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی کے بعد بیان کے متن کی غلط تشریحات کرتے رہے اسی طرح بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم نوازشریف اور انکل الطاف کے بارے میں اپنے بیانات کی غلط تشریحات کی اور شیر ڈیزل سے نہیں چلتا ، کی بھی تلافی کرنے کی کوشش کی ۔ ہواؤں کے رخ کو دیکھ کر جو بلاول اپنے باپ کے خلاف شیخ رشید سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا تھا، ایک ملاقات اور ہواؤں کے رخ نے اس کی منزل اور قبلہ وکعبہ کو بدل دیا۔ بلاول بھٹو کی پارٹی میں پھر بھی کچھ تو سیاسی پختگی رکھنے والے رہنما ہیں لیکن پپا جانی کی اسیر مریم نواز کی پارٹی میں چند حاشیہ برداروں کے تسلط کے سوا کیا ہے؟۔ سید ظفر علی شاہ وغیرہ بھی کارنر کردئیے گئے ہیں۔ پاکستان کی قیادت کیا آئندہ بلاول زرداری اور مریم نواز کے ہاتھوں میں اسلئے ہوگی کہ انکے باپوں کے بڑے کارنامے ہیں؟ بڑی سیاسی بصیرت کے مالک ہیں یا پانامہ لیکس اور سوئس اکاونٹ کے؟۔
جنرل راحیل شریف اور پاک فوج کے دل ودماغ میں جو بات بیٹھ جائے ، اس کو نکالنا آسان نہیں مگر نوازشریف کے بیٹے بیٹیاں ، نواسے پوتے ہیں، نواسی کی شادی ہوئی ، اسکے بھی بچے آجائیں گے لیکن اگر ملک وقوم ، اسلام اور ملت کیلئے قربانی کی بات آجائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس نے نواسے اور نواسی کو سیاسی قیادت کیلئے تیار کرنا ہے مگر اس کی قربانی نہیں دے سکتا۔ الطاف حسین پر کتنے بھی غداری کے الزامات لگائے جائیں ، پھر بھی وہ اپنی اکلوتی بچی کی قربانی اسلام، وقوم وملت اور اپنے ملک کیلئے دے دیگا۔ اسکے پروردہ سید مصطفی کمال اینڈ کمپنی نے بھی قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور ایم کیوایم پاکستان کے رہنما ؤں اور قائد ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی جانوں پر کھیلنے کیلئے میدان میں آئے۔ کراچی کے باسی روزانہ نہ جانے کتنے بڑے پیمانے پر مٹی اور آلودگی کھانے کا شکار ہوتے ہیں اور یہ سب کرپٹ مافیا کی کارستانی ہے۔ الطاف حسین اور اسکے تربیت یافتہ برگشتہ گروہوں کو کراچی کا مہاجر طبقہ اسلئے بھگت رہا ہے کہ اس کو سانس لینے کی بھی کھلی فضا میں فرصت نہیں اور پانی ، بجلی، روڈوں کی خستہ حالی، ابلتے ہوئے گٹر کے سیلاب ، مہنگائی، بے روزگاری اور مسائل ہی مسائل نے ان کا جینا مرنا دوبھر کردیا ہے۔ دن میں پچاس مرتبہ الطاف قیادت چھوڑنے کی بات کرتا تھا تو ایک مرتبہ ایم کیوایم نے بھی اس کو فارغ ہی کردیا مگر اس سے کراچی کے عوام کے مسائل تو حل نہ ہوئے اور نہ ہونگے۔
کراچی کی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی اور دہشت گردی تھا جس میں ایم کیوایم کا بھی پورا پورا حصہ تھا۔ رینجرز گذشتہ تیس سال سے کراچی کے مسائل حل نہیں کرپارہی تھی اور موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر پہلے ڈی رینجرز سندھ تھے ، فوج کے خلوص پر پہلے بھی شک نہ تھا لیکن باصلاحیت قیادت کے بغیر خلوص زیادہ کام نہیں آتا۔ پورے ملک اور کراچی میں پرامن فضا پاک فوج کی باصلاحیت قیادت اور خلوص کے نتیجے میں قائم ہے اور اس کو جاری رہنا چاہیے۔ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے کہا ہے کہ ’’ بجلی پر کسی ایک کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ درست بات ہے لیکن جو سوچ سیاسی قیادت کی ہونی چاہیے ، اس کا اظہار پاک فوج کے ذمہ دار کی زبان سے ہورہا ہے۔ سیاستدان کو ملک وقوم کی فلاح وبہبود سے دلچسپی ہوتی تو آج پاکستان میں بجلی سستی ، سڑکوں کی حالت بہتر، تعلیم و صحت کے شعبوں میں ترقی اور داخلی و خارجہ پالیسی مثالی ہوتی، آئی ایم ایف کا اسحاق ڈار کو ایوارڈ دینا قابلِ شرم ہے کہ جس سے جان چھڑانے کا دعویٰ کیا وہی گلے پڑگیا

جنرل راحیل شریف ایک زبردست جرنیل؟

میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سے یہ تأثر مل رہاہے کہ جنرل راحیل کے جانے کا وقت بالکل قریب میں ٹھہرگیاہے لیکن پاک فوج نے ان کی قیادت میں جو مثالی کردار اداکیا ہے، پوری قوم پر احسان کا فرض چکانے کا وقت آگیاہے،جنرل راحیل شریف نہ ہوتے تو نوازشریف کیا عمران خان کے وزیراعظم کی باری لگتی تب بھی دہشت گردی سیچھٹکارا نہ ملتا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت محترمہ بے نظیربھٹو شہید اور اے این پی کے رہنماؤں کی قربانیوں کو خراج تحسین نہ پیش کرنا بڑی زیادتی ہے، ایم کیوایم نے بھی طالبان کیخلاف جو جاندارآواز اٹھائی تھی وہ بھی قابلِ ستائش تھی مگر کراچی میں ایم کیوایم کا ٹارگٹ کلر ونگ اور پیپلز پارٹی کی امن کمیٹی نے طالبان سے زیادہ بدامنی پھیلانے کا ارتکاب کیا، کورٹ نے سارے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگ اور بھتہ خور مافیہ کی ٹھیک نشاندہی کی ۔
بلوچستان میں دہشت گردی کو عالمی اور بھارتی سپورٹ کے علاوہ مسلم لیگ ن سمیت سیاسی جماعتوں اور سول سوساٹیز کے نام پر این جی اوز کی حمایت بھی حاصل رہی، حالانکہ وہاں آزادی کے نام پر سیاسی جدوجہدکے بجائے بدترین قسم کی دہشت گردی ہورہی تھی۔ پورے ملک میں ہرقسم کی دہشت گردی کو پاک فوج نے جنرل راحیل کی قیادت میں بہت جرأت، بہادری اور حکمت کیساتھ سے ختم کرکے سیاستدانوں کیلئے ایک بہترین فضاء بنائی ہے لیکن دہشت گردوں نے وقتی طور سے چپ کی سادھ لی ہے، فوج کی طرف سے باگ ڈھیلی ہونے کی دیر ہے، یہ پھر اسی زور وشور سے پاکستان کو دیمک زدہ بناکر ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے چکر میں ہیں، نوازشریف اور مودی عالمی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوکر پاکستان اور بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ آج اعلان ہوجائے کہ کشمیر الگ ملک ہے، پختون ، بلوچ ، سندھ، کراچی اور پنجاب الگ الگ ممالک ہیں تو نوازشریف کو اور نوازشریف کے کھلم کھلا اور درپردہ یاروں کو بڑی خوشی ہوگی۔ مودی بھارتی پنجاب کے سکھوں سے عالمی ایجنڈے کے تحت جان چھڑانے کی کوشش میں ہے اور نوازشریف نے مغل بادشاہوں اور راجہ رنجیت سنگھ کے طرز پر گریٹر پنجاب کا خوب دیکھ رکھا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سیاستدانوں نے پاک فوج کو بھی کرپشن کا شہد چٹا دیاہے ، سیاستدانوں کی طرح فوج بھی کرپشن سے پاک نہیں لیکن فوج کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالاتر ہے، فوج کی تربیت پاکستانی سرحدات کی حفاظت اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہوکر کی گئی ہے، پنجاب کے لوگوں میں سب سے بڑی خوبی جمود کا شکار نہ ہوناہے مگر ان کی سب سے بڑی خامی پیسیوں کی ریل پیل کا انکے سر پر سوار ہوناہے۔ ہر وقت ایک ہی دھن کہ پیسہ کیسے کمایا جائے؟۔ یہ لالچ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کو ایک کرکے عالمی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ مودی انتہاپسند ہندو ہے وہ پنجاب کے کم عقل سکھوں اور پاکستانی فوج سے جان چھڑانے کیلئے یہ قربانی دینے کا جذبہ رکھتاہے۔ محب وطن بھارتی رہنما لالوپرشادیو نے بیان دیا کہ ’’ کشمیر ہاتھ سے نکل رہا ہے‘‘۔ تو میڈیا پر ایک جھلک کے بعد یہ خبر غائب کردی گئی۔ میڈیا زرخرید لونڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے جس کی کھائے اس کی گائے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات اب نہ رہی۔ میڈیا کا مالک سودابازی یا اپنے عزائم کی تکمیل کی پالیسی بنالیتاہے، ملازمین کو اس کی خواہش کے مطابق چلنا پڑتاہے۔ سیاسی جماعتیں بھی سیاست نہیں تجارت کرتی ہیں۔
جب پاک فوج کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کسی میں نہیں ہوتی تھی، تب بھی ہم نے بفضل تعالیٰ اپنا فرض پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، اخبار کے ادارئیے ، بڑی شہ سرخیاں اورآرٹیکل اسکے گواہ ہیں، طاقت کے حصول کیلئے دم ہلانے والے سیاستدان کتوں سے زیادہ برے لگتے ہیں لیکن اب حب الوطنی کا یہ تقاضہ ہے کہ کرپٹ، تاجر، ضمیر فروش ، اخلاقی دیوالیہ پن کے شکار اور اسلام و ملک سے بے وفائی کرنے والے حکمرانوں کو بے نقاب کیا جائے۔ عمران خان نے جو الفاظ شیخ رشید کیلئے استعمال کئے تھے ، اس سے زیادہ عمران خان خود بھی برے ہیں مگر اس وقت ان کی آواز سب سیاستدانوں کے مقابلہ زبردست ہے، کراچی وسندھ سے ایم کیوایم و پیپلزپارٹی ، بلوچستان سے بلوچ رہنماؤں محمود خان اچکزئی اور مولانا محمد خان شیرانی کی صوبائی جمعیت اور پختونخواہ سے مولانا فضل الرحمن و اے این پی کے رہنما قومی سطح کے معاملات کرپشن اور بے انصافی پراگر اس اہم وقت میں نوازشریف پر دباؤ بڑھانے کیلئے اٹھ جاتے تو دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب کو بھی غنڈہ گردی سے پاک کردیا جاتا، اصغر خان کیس کے جرم میں مجرموں کو سزا ہوجاتی، جنرل پرویز اشفاق کیانی کی طرح جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہوتی تو اس ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہوجاتی ۔ نوازشریف نے پہلے بھی دھوکے دئیے ہیں اور مؤمن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاسکتا ہے۔مسلم لیگ(ن) کیلئے بھی جنرل راحیل ایک بہترین جرنیل ہیں جو حکومت کیخلاف سازش نہیں کرتے لیکن نوازشریف کو اپنے لئے ایک تابعدار جنرل کی ضرورت ہے گر یہ خواہش پوری ہوئی تو بہت برا ہوگا۔