پوسٹ تلاش کریں

مدارس کے نصاب کی درستگی پر بہادر قیادت توجہ دے

مدارس کے نصاب کی اصلاح وقت کی اہم ضرورت ہے۔ قرآن وسنت میں کوئی ابہام نہیں مگر قرآن کریم کی آیات کا حلیہ بگاڑنے کو علوم میں مہارت کانام دیا گیا۔ اگرہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے توبرا ہوگا اللہ تعالیٰ نے میں فرمایا کہ لاتقربوا الصلوٰۃ وانتم سکریٰ حتی تعلموا ماتقولون ولا جنبا الاعابری السبیل حتی تغتسلوا ’’نماز کے قریب نہ جاؤجب تم نشے کی حالت میں ہو، یہاں تک کہ تم سمجھو ،جوتم کہہ رہے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو،یہاں تک کہ تم نہالو‘‘۔ قرآن کی آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ نشہ کی حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتے ، یہاں تک کہ نشہ اتر جائے اور جو کچھ نماز میں پڑھا جائے اس کو سمجھا بھی جائے۔ دوسرا یہ کہ جنابت کی حالت میں بھی نماز پڑھنا جائز نہیں مگر مسافر پڑھ سکتا ہے ،یہاں تک کہ تم نہالو۔ یعنی مسافر کیلئے نہائے بغیر تیمم سے بھی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ آیت عام لوگوں کو سمجھا دی جاتی جس سے عوام اپنے بچوں کو نماز کا مفہوم سمجھانے کو فرض قرار دیتے۔ اسلئے کہ نشہ کی حالت کے بغیر نشہ میں ہونے کی طرح نماز سمجھے بغیر پڑھنے کو بہت معیوب قرار دیا جاتا۔ دورانِ سفر جہاز یا پانی کی قلت وغیرہ کی وجہ سے کوئی نماز پڑھنا چاہتا تو اس کو بھی نماز پڑھنے میں مشکل نہ ہوتی اور کوئی نماز نہ پڑھنا چاھتا تو بھی اسکے لئے یہ مشکل نہ ہوتی کہ ہرحالت میں نماز پڑھنا ضروری ہے۔ سفر میں جنابت ہوجائے تو تیمم سے نماز پڑھ بھی سکتے ہیں اور نہ پڑھنا چاہیں تو پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ آیت میں محض اجازت ہے ۔
آیت کی وضاحت میں بخاری شریف کی روایت نقل کردی جاتی کہ حضرت عمرؓ نے سفر کی حالت میں جنابت کی وجہ سے تیمم سے نماز نہ پڑھی اور حضرت عمارؓ نے پڑھ لی۔اور نبی کریم ﷺ نے دونوں کی توثیق کردی۔ بعض لوگ عبادت کی طرف زیادہ رحجان رکھتے ہیں تو ان کو تیمم سے غسل کئے بغیر بھی اللہ نے نماز سے روکا نہیں ہے اور بعض صفائی پسندطبع کے ہوتے ہیں اور وہ جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے کو سفر میں تیمم سے نہیں پڑھنا چاہتے تو ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی دونوں کی توثیق فرمائی ہے۔
علماء ومفسرین کا فرض بنتا تھا کہ عوام کو قرآن وسنت کا مفہوم سمجھاکر اپنے فرضِ منصبی کا حق ادا کرلیتے مگر یہ حضرات دوسروں کی کیا رہنمائی کرتے، خود بھی منطق کی شراب پی کر وہ ہچکولے کھارہے ہیں کہ الحفیظ والامان۔ ایک طرف کہیں سے روایت نکال کر لائے ہیں کہ حضرت علیؓ شراب کے نشہ میں دھت تھے، جس کی وجہ سے نماز پڑھاتے ہوئے آیات غلط سلط اور خلط ملط ہوگئیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پھرخودساختہ و عقل باختہ منطق نے ان کو للکارا کہ ’’ جنابت کی حالت میں غسل کے بغیر نماز کے قریب نہ جانے اور مسافر کو اجازت دینے کا بھلا کیا معنیٰ ہوسکتاہے؟،اس کیلئے سوچ وبچار کے گھوڑے دوڑائے اور جواب دیا کہ لامحالہ صلوٰۃ سے مراد نماز نہیں بلکہ مسجد ہے‘‘۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟جبکہ آیت میں صلوٰۃ کا ذکر تو ایک ہی مرتبہ کیا گیا ہے کہ مرضی ہو تونماز مراد لی جائے اور مرضی ہو تو پھر اس سے مسجد مراد لی جائے؟۔ اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ ایک دوسری روایت تلاش کرکے دم لیا، چنانچہ حضرت علیؓ کے متعلق لکھا کہ یہ آپؓ کے بارے میں ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں آنے کی اجازت دی گئی‘‘۔ اہل تشیع نے پہلی روایت پر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کو بھی کافر ومرتد قرار دیا اور دوسری روایت کو خصوصی اعجاز سمجھ کر حضرت علیؓ کے بارے میں عام قانون وقواعد سے بالاتر عقیدے کی تبلیغ شروع کردی۔
برصغیر پاک وہند کے مشہور عالم حضرت شاہ ولی اللہؒ نے حضرت عمرؓ اور حضرت عمارؓ کا واقعہ نقل کرتے ہوئے بڑے تعجب کا اظہار کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب حضرت عمارؓ کے بارے میں سنا تو اپنا مؤقف بدلا کیوں نہیں؟۔ اور اس سے بڑا تعجب یہ کیا کہ نبیﷺ نے حضرت عمرؓ کے سامنے وضاحت کیوں نہ فرمائی؟۔ پھر اپنے خیال کا اظہار کیاکہ نبیﷺ یہ چاہتے تھے کہ قرآن کی تفسیر کو مقید کرنے کی بجائے زمانہ پر چھوڑ دیا جائے تاکہ مفہوم محدود نہ ہوجائے۔ علامہ مناظر احسن گیلانیؒ نے بھی تدوین فقہ، تدوین حدیث اور تدوین قرآن کتابیں لکھ کر حضرت شاہ ولی اللہؒ کے اس حوالہ کو آخری حل کے طور پر پیش کیا ہے۔ میرے اساتذۂ کرام میں حضرت مولانا بدیع الزمانؒ استاذ تفسیروحدیث واصول فقہ والنحو وغیرہ اگر آج حیات ہوتے تو یقیناًمجھے بڑی تھپکی دیتے کیونکہ ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ پر فتویٰ کے دفاع میں بھی میری جدوجہد کو انہوں سراہا تھا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ان سے اکثر اساتذہ اور طلبہ بہت عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ وہ طلبہ سے یہ تلقین ضرور کرتے کہ روزانہ ایک ایک رکوع کا ترجمہ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں، مولانا بدیع الزمانؒ نے ہی اصول فقہ کی کتابیں ہمیں پڑھائی تھیں، تفسیرکی ابتداء بھی انہی سے کی تھی۔ جب ان سے مجھے آج بھی عقیدت ومحبت ہے، ان سے علم و فیضِ صحبت کو تبرک سمجھتا ہوں تو تاریخ کے ادوار کا بھی شکر گزار ہوں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ حق وباطل میں تمیز کا واضح راستہ بھی نظر انداز کردوں،ابوطالب ، علیؓ ، حسنؓ ، حسینؓ ، زیدؒ کے خانوادے سے تعلق کا حق ادا کرناہے۔

اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے

یہود ونصاریٰ کے مذہبی طبقہ نے اپنے دین کا حلیہ بگاڑ دیا ، قرآن نے انکی مثال کتے اور گدھے سے دی، حدیث میں مسلم امہ کی بھی پیشگوئی ہوئی ہے کہ وہ بھی انکے نقشِ قدم پر چلیں گے، حدیث کی پشین گوئی پوری ہوئی ہے، مذہبی طبقے نے اسلام کا حلیہ بگاڑ دیاہے، کافر اُمت پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں کافر ممالک یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کررہے ہیں۔ دہشت گردوں کی آبیاری بھی انہوں نے کی تھی اور اپنے گماشتہ ممالک کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب اس میں پیش پیش تھے، افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام وغیرہ کی تباہی کا سہرا ہمارے سرپرست اعلیٰ امریکہ اور اسکے سی آئی اے کے سر پر ہے، ہمارے حکمران سمجھ رہے تھے کہ امریکہ ان کو دل سے لگاکر اپنی چھاتیوں سے دودھ پلارہا ہے ، حالانکہ وہ کم بخت اپنا پیشاب فیڈ کررہا تھا۔ یہ ہمارے حکمران طبقہ کی نااہلی تھی کہ پیشاب کی جگہ دودھ سمجھ رہا تھا، اور اب شراب کی طرح یہ خراب عادت ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘۔
ہم اسلام کے برگشتہ فرقوں اور پگڈنڈیوں کی بات نہیں کررہے ہیں اور نہ ایسے قدیم لائبریریوں کے قصے سناتے ہیں جو کالعدم اور مفقود ہیں۔بوہری ، آغاخانی، ذکری وغیرہ کی بات بھی نہیں کررہے، شیعہ واہلحدیث کی بات بھی نہیں ہورہی ہے بلکہ پاکستان میں اسلام کیلئے صراطِ مستقیم اور مینارۂ نور سمجھے جانے والے حنفی دیوبندی بریلوی بڑے مدارس کا شاخسانہ رکھتے ہیں کہ وہ اپنے نصاب میں اسلام کے حوالہ سے کتنی غیر فطری سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اپنے اصولِ فقہ کی کتابوں میں قرآن پاک اللہ کی کتاب کے بارے میں یہ پڑھاتے ہیں کہ ’’ کتابی شکل میں یہ کتاب نہیں، قلم سے لکھی جانے والی کتاب ایک نقش ہوتاہے جو لفظ ہوتا ہے اور نہ معنیٰ‘‘المکتوب فی المصاحف سے مراد قرآن کے عام نسخے نہیں بلکہ سات قاریوں کے الگ الگ قرآن ہیں، نقل متواتر سے مراد یہ ہے کہ بعض ایسی آیات بھی مشہور اور خبر احاد ہیں جو اصل میں قرآن ہیں لیکن متواتر نقل نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کی کتاب میں شامل نہیں، بلاشبہ سے مراد یہ ہے کہ مشکوک آیات بھی اس تعریف سے خارج ہیں، جیسے بسملہ جو صحیح بات یہ ہے کہ وہ قرآن ہے لیکن اس میں شبہ ہے اور شبہ اتنا قوی ہے کہ اس کا منکر کافر نہیں بنتا‘‘۔ حالانکہ قرآن کی پہلی وحی میں قلم کے ذریعہ تعلیم اور مقدمۃ الکتاب سورۂ فاتحہ اوراسکے بعد سورۂ بقرہ کی ابتداء بھی بسم اللہ سے کی گئی ہے اور یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ذلک الکتاب لاریبہ فیہ ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ سورۂ بقرہ میں ہی وضاحت ہے کہ الذین یکتبون الکتاب بایدیہم ’’جو کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں‘‘۔ یہ کتاب کو بھی کتاب نہیں مانتے۔
اصول فقہ میں حقیقت اور مجاز کی تعریف اور استخراجی مسائل کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ جہاں حقیقی معنی مراد ہوسکتا ہے وہاں مجازی معنی مراد نہیں لیا جاسکتا۔ نکاح کے حقیقی معنیٰ لغت میں ضم ہونے کے ہیں، عقد کیلئے نکاح مجازی معنی ہے۔ جس آیت میں باپ کی منکوحہ سے نکاح نہ کرنے کا حکم ہے، اس میں جائز اور ناجائز مباشرت دونوں شامل ہیں۔ اگر باپ نے صرف عقدِ نکاح کیا ہو، مباشرت نہ کی ہو تو احناف کے نزدیک یہ قرآن سے نہیں اجماع کی وجہ سے ناجائز ہے‘‘۔ (نورالانوار کی اردو شرح قوت الاخیار)۔
حالانکہ یہ سراسر بکواس ہے، نکاح لغت میں بھی جائز تعلق ہی کا نام ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل کے وقت سے نکاح اور زنا میں فرق ہے، لغت میں وہ معنیٰ ہی مراد لیا جاتا ہے جو معاشرے کی بول چال کا حصہ ہوتاہے۔ قرآن میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق والی صورت کو بھی واضح الفاظ میں نکاح کہا گیاہے،زنا کو نکاح قرار دینا اور نکاح کو زنا قرار دینا اور عقدِ نکاح سے اس کی نفی کرنا وہ منطق ہے جو علماء ومفتیان کیلئے عقل، فطرت، انسانیت اور اسلام سے دور ہونے کا فطری اورمنطقی نتیجہ ہے۔ اصولِ فقہ کا اسلوب پڑھنے اور پڑھانے والے بیچاروں کو خود بھی سمجھ میں نہیں آتا اور آئیگا بھی کیسے؟۔ لکھا ہے کہ ’’ امر تکرار کا تقاضہ کرتا ہے، شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ اپنے کو طلاق دے، تویہ ایک طلاق بھی ہوسکتا ہے اور عدد کا مجموعہ تین طلاق بھی لیکن دو طلاق مراد نہیں ہوسکتے‘‘۔ استاذ نے پڑھانا ہوتا ہے اور طلبہ نے رٹا لگانا ہوتا ہے باقی اس کا افہام وتفہیم سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا۔ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ ’’بیوی سے اولاد پیدا ہونے کے بعد بیوی شوہر کیلئے بعضیت یا جزئیت کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہے لیکن ضرورت کی وجہ سے جائز قرار دی گئی کیونکہ اس میں حرج ہے‘‘۔ حالانکہ پھر کم زاکم حلالہ کے بعد بھی اس کو حلال نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس سے بڑھ کر نصابِ تعلیم میں یہ بکواس بھی پڑھائی جاتی ہے کہ ’’ ساس کی شرمگاہ کے باہر والے حصہ کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنے میں عذر ہے،اسلئے یہ حرمتِ مصاہرت کا ذریعہ نہیں لیکن ساس کی شرمگاہ کے اندورونی حصہ کو شہوت سے دیکھنے پر حرمت مصاہرت لازم ہوگی یعنی بیوی حرام ہوجائیگی‘‘۔ اگر ہمارا مقتدر طبقہ امریکہ سے ڈرتاہے توکیا اس نصابِ تعلیم پر بھی بازپرس کرنے سے گھبراتاہے؟ پھر تف ہے ان پر!۔

اسلام دین فطرت ہے غیرفطری اختلاف سے جان چھڑانی چاہیے

وضووغسل سے معاشرتی نکاح و طلاق triple talaq اور معاشی احکام تک اسلامی شعائر رائج ہیں جو قرآن وسنت میں موجودہیں مگران احکام کے غیرفطری تضادات سے علماء بھی آگاہ نہیں،بوقتِ ضرورت مطالعہ کرکے دیکھ لیتے ہیں، حالانکہ اسلام میں انکی بھی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی مگر مذہبی طبقات کے ذاتی مفادات ہیں جس سے ان پیچھا چھڑانے کی ضرورتہے۔عربی میں غسل نہانے کو کہتے ہیں، انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں کو بھی نہانا آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے سے پہلے نہانے کا حکم دیا ہے اور دوسری جگہ وضو کا حکم دیتے ہوئے حالتِ جنابت میں اچھی طرح سے پاکی کا حکم دیا ، جس سے نہانا ہی مراد ہے لیکن کم عقل مذہبی طبقات نے اس پر انواع واقسام کے اختلافات کا بیج بودیا، جو مدارس کے علاوہ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی کی مجالس میں عوام کو رٹانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بے نمازی کیلئے قرآن و سنت میں کسی سزا کا حکم نہیں، فقہی مسالک میں قتل، قید اور کوڑوں کی سزاؤں کے احکام پر اختلافات پڑھائے جاتے ہیں، نوجوان طبقہ ان احکام کی وجہ سے داعش، طالبان ، حزب التحریر اور دیگر تنظیموں میں شامل ہوکر اسلام کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر ان نوجوانوں کو پتہ چل جائے کہ ان بکواسات کا اسلام محض علماء ومفتیان کی تجارت اور فقہاء کے پیٹ کا غبار ہے تو یہی نوجوان طبقہ محنت کا رخ موڑ کر اپنے اپنے ممالک میں ظلم و جبر کے خلاف عدل وانصاف کا نظام قائم کرنے کی کوشش میں لگ جائے گا ۔ میرے دوست مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید مذہب کے نام بغاوت کے علمبردار نہیں بلکہ ریاست کے آلۂ کار ہیں۔ ریاست ان باغیوں کیخلاف اقدامات اٹھاتی ہے جن میں اسلامی نظام کیلئے بغاوت کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ مذہب کے قدرِ مشترک میں باغی گروہوں اور ان گروہوں میں جو ریاست کے وفادار ہیں ، باہمی طور سے ہمدردیاں ہیں۔ غسل اور وضو فطری ہیں، نماز فطری ہے مگر ان پر اختلاف اور سزاؤں کا نفاذ غیرفطری ہے۔ ہماری ریاست ، حکومت اور سیاستدانوں کا سب سے بڑا فرض تھا کہ مدارس کے نصاب پر سینٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مثبت اقدامات اٹھاتے اور کور کمانڈز کانفرنس ، عدلیہ اور حکومت اس پر بہتر تجاویز اور احکام جاری کرتے۔
ایک بچہ بھی کتاب، قلم ، غسل، وضو، نماز، ماں باپ اور رشتہ داروں کے مضبوط تعلق نکاح اور طلاق triple talaq، علیحدگی اور ناراضگی سے لیکر زکوٰۃ، حج اور عمدہ حکومت کے معاملات کو سمجھتا ہے۔ اسلام کے دینِ فطرت ہونے کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ جس معاملہ کو بھی اس کی حقیقی صورت میں پیش کیا جائے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دنیا میں کسی معقول انسان کو اسکے قبول کرنے میں تھوڑا بھی تأمل ہو۔ نکاح وطلاق کے اسلامی احکام بالکل فطری تھے لیکن مذہبی طبقات نے اس کا وہ حلیہ بگاڑ دیا ہے کہ غیرمسلم تو درکنار، دوسرے فرقوں کے لوگوں کا معاملہ بھی چھوڑدو، اپنے مسلک اور خود پڑھنے پڑھانے والا طبقہ بھی اس کو سمجھنے کی کوشش کرے تو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے میں ہرگز تھوڑی دیر بھی نہ لگائے۔ اسلام ہرقوم، ملک اور مذہب کے قانونی جوڑ ے کا نکاح قبول کرتاہے، قانونی علیحدگی کو طلاق قرار دیتا ہے اور اپنے نکاح و طلاق کیلئے ایسے قوانین پیش کرتاہے کہ دنیا کے کسی قوم ومذہب، ملک وملت اور رسم ورواج کے اندر اس کا درست تصور پیش کیا جائے تو پوری دنیا اسی بنیاد پر بھی اسلامی نظام کو سمجھنے اور اس کو نافذ کرنے اور رائج کرنے پر برضا ورغبت آمادہ ہوجائے گی، اور اسلام نہ بھی قبول کریں لیکن نہ صرف عالمی اسلامی خلافت کی تمنا کرنا شروع ہوجائیں گے بلکہ عملی طور پر اپنے اپنے ممالک میں اس کی جدوجہد کا بھی آغاز کردینگے۔
کتاب’’ابر رحمت‘‘ میں نہ صرف طلاق triple talaq کا مسئلہ ہے بلکہ درسِ نظامی کی بنیادی خامی کو بھی اُجاگر کیا گیاہے، اختصار کیساتھ عدالتی معاملات، فرقہ وارانہ مسائل کا حل اور نظریاتی اور سیاسی معاملات کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ triple talaq کے مختصر سے کتابچہ میں فرقوں اور مسالک سے بالاتر قرآن وسنت کا ایسا نقشہ پیش کیا گیاہے جس کے اعتراف میں سب یک زباں ہیں لیکن بہت سی مقتدر شخصیات اپنی عزت بچانے کی خاطر اپنے ارادتمندوں اور عقیدتمندوں کی عزتوں سے کھیلنے کا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جن لوگوں کو خود کش حملہ آوروں، سرعام دہشت گردانہ کاروائیوں ،فتنہ وفساد ، کشت و خون کی ہولی کھیلنے اور پرتشدد کاروائیوں میں ملک وقوم کی تباہی سے مسئلہ نہ تھا اور نہ کبھی وہ اپنی زباں پر حرفِ شکایت لائے ہیں ، ان کو مسلمانوں کے گھر برباد ہونے اور عزتیں لٹنے سے بچانے میں ہمارے الفاظ کا لہجہ سخت لگتا ہے، تب بھی ہم اپنے رویہ پر نظر ثانی کرسکتے ہیں جس کا ہم نے بار بار اس شرط پر اعلان بھی کیا ہے کہ علماء و مفتیان قرآن و سنت اور عقل وشریعت کے منافی اپنی طرف سے جاری وساری گھروں کو تباہ کرنے اور حلالہ کی لعنتوں کا فتویٰ ترک کردیں۔ نصاب میں غیرفطری اختلافات کو چھوڑ کر اسلام کی درست تعلیمات سے مدارس کے طلبہ کو روشناس کرائیں جس سے مسلم قوم کا رخ فرقہ واریت، دہشگردی اور منفی رحجانات کی بجائے اسلام دینِ فطرت کی طرف ہوجانے میں کوئی دیر نہ لگے۔
triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq
triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq
triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq، triple talaq

نا اہل موروثی قیادتیں؟

bilaval-maryam-bachakhan1--OctobSpecial2016

ہماری قوم بدترین زوال وپستی کا شکار اسلئے ہے کہ سیاسی ومذہبی قیادتیں موروثی بنیادوں پر اپنی نااہلیت کے باجود سب پر مسلط ہیں، اسفندیاراوربلاول زرداری کا کوئی اپنی پارٹی میں ثانی نہ ہو، تو مریم نواز کو بھی ن لیگ کی قیادت سونپ دی جائیگی جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور نواسے کے سلسلوں کی کیفیت رہی ہے، پاکستان کے آئین میں ترمیم ہونی چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتیں ملکی انتخابات میں نااہل ہیں جن کے ہاں موروثی قیادت کا نظام ہے، نوازشریف پرویز مشرف کے ساتھ معاہدہ کرکے سعودی عرب چلا جائے اور پاکستان میں بغاوت ، جیل اور بدترین تشدد کا سامنا مخدوم جاوید ہاشمی کر رہا ہو مگر جب نواز شریف کو اقتدار مل جائے توجانشین مریم نوازبن جائے۔ مسلم لیگ ن میں اخلاقی، سیاسی اور انسانی اقدار کا فقدان نہ ہوتا تو یہ ن نہ ہوتی بلکہ اصل مسلم لیگ کا سربراہ جاویدہاشمی بن جاتا۔ جس نے تحریک انصاف میں جاتے ہوئے بھی اعلان کیا تھا کہ میری لاش لیگ کے جھنڈے میں دفن کی جائے۔ کشمیر کے مسئلہ پر پارلیمنٹ کے اجلاس کا تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا تو بھی حکومت اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں میں صرف 75ارکان اسمبلی تھے ۔ 380ارکان میں سے اتنی کم تعداد کی شرکت کرنا اور ان کی بھی آپس میں مڈ بھیڑ یہ پتہ دیتی ہے کہ ہمارے سیاسی جماعتوں کی قومی معاملات سے کتنی دلچسپی ہے؟۔
بلاول بھٹو زرداری ٹی او آرکے مسئلہ پر اپوزیشن کی حمایت کیلئے مولانا فضل الرحمن سے مدد لینے گئے لیکن الٹا شکار کرنے کے بجائے خود ہی شکار ہوگئے۔ جس طرح اسکے والد آصف علی زرداری پاک فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی کے بعد بیان کے متن کی غلط تشریحات کرتے رہے اسی طرح بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم نوازشریف اور انکل الطاف کے بارے میں اپنے بیانات کی غلط تشریحات کی اور شیر ڈیزل سے نہیں چلتا ، کی بھی تلافی کرنے کی کوشش کی ۔ ہواؤں کے رخ کو دیکھ کر جو بلاول اپنے باپ کے خلاف شیخ رشید سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا تھا، ایک ملاقات اور ہواؤں کے رخ نے اس کی منزل اور قبلہ وکعبہ کو بدل دیا۔ بلاول بھٹو کی پارٹی میں پھر بھی کچھ تو سیاسی پختگی رکھنے والے رہنما ہیں لیکن پپا جانی کی اسیر مریم نواز کی پارٹی میں چند حاشیہ برداروں کے تسلط کے سوا کیا ہے؟۔ سید ظفر علی شاہ وغیرہ بھی کارنر کردئیے گئے ہیں۔ پاکستان کی قیادت کیا آئندہ بلاول زرداری اور مریم نواز کے ہاتھوں میں اسلئے ہوگی کہ انکے باپوں کے بڑے کارنامے ہیں؟ بڑی سیاسی بصیرت کے مالک ہیں یا پانامہ لیکس اور سوئس اکاونٹ کے؟۔
جنرل راحیل شریف اور پاک فوج کے دل ودماغ میں جو بات بیٹھ جائے ، اس کو نکالنا آسان نہیں مگر نوازشریف کے بیٹے بیٹیاں ، نواسے پوتے ہیں، نواسی کی شادی ہوئی ، اسکے بھی بچے آجائیں گے لیکن اگر ملک وقوم ، اسلام اور ملت کیلئے قربانی کی بات آجائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس نے نواسے اور نواسی کو سیاسی قیادت کیلئے تیار کرنا ہے مگر اس کی قربانی نہیں دے سکتا۔ الطاف حسین پر کتنے بھی غداری کے الزامات لگائے جائیں ، پھر بھی وہ اپنی اکلوتی بچی کی قربانی اسلام، وقوم وملت اور اپنے ملک کیلئے دے دیگا۔ اسکے پروردہ سید مصطفی کمال اینڈ کمپنی نے بھی قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور ایم کیوایم پاکستان کے رہنما ؤں اور قائد ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی جانوں پر کھیلنے کیلئے میدان میں آئے۔ کراچی کے باسی روزانہ نہ جانے کتنے بڑے پیمانے پر مٹی اور آلودگی کھانے کا شکار ہوتے ہیں اور یہ سب کرپٹ مافیا کی کارستانی ہے۔ الطاف حسین اور اسکے تربیت یافتہ برگشتہ گروہوں کو کراچی کا مہاجر طبقہ اسلئے بھگت رہا ہے کہ اس کو سانس لینے کی بھی کھلی فضا میں فرصت نہیں اور پانی ، بجلی، روڈوں کی خستہ حالی، ابلتے ہوئے گٹر کے سیلاب ، مہنگائی، بے روزگاری اور مسائل ہی مسائل نے ان کا جینا مرنا دوبھر کردیا ہے۔ دن میں پچاس مرتبہ الطاف قیادت چھوڑنے کی بات کرتا تھا تو ایک مرتبہ ایم کیوایم نے بھی اس کو فارغ ہی کردیا مگر اس سے کراچی کے عوام کے مسائل تو حل نہ ہوئے اور نہ ہونگے۔
کراچی کی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی اور دہشت گردی تھا جس میں ایم کیوایم کا بھی پورا پورا حصہ تھا۔ رینجرز گذشتہ تیس سال سے کراچی کے مسائل حل نہیں کرپارہی تھی اور موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر پہلے ڈی رینجرز سندھ تھے ، فوج کے خلوص پر پہلے بھی شک نہ تھا لیکن باصلاحیت قیادت کے بغیر خلوص زیادہ کام نہیں آتا۔ پورے ملک اور کراچی میں پرامن فضا پاک فوج کی باصلاحیت قیادت اور خلوص کے نتیجے میں قائم ہے اور اس کو جاری رہنا چاہیے۔ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے کہا ہے کہ ’’ بجلی پر کسی ایک کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ درست بات ہے لیکن جو سوچ سیاسی قیادت کی ہونی چاہیے ، اس کا اظہار پاک فوج کے ذمہ دار کی زبان سے ہورہا ہے۔ سیاستدان کو ملک وقوم کی فلاح وبہبود سے دلچسپی ہوتی تو آج پاکستان میں بجلی سستی ، سڑکوں کی حالت بہتر، تعلیم و صحت کے شعبوں میں ترقی اور داخلی و خارجہ پالیسی مثالی ہوتی، آئی ایم ایف کا اسحاق ڈار کو ایوارڈ دینا قابلِ شرم ہے کہ جس سے جان چھڑانے کا دعویٰ کیا وہی گلے پڑگیا

جنرل راحیل شریف ایک زبردست جرنیل؟

میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سے یہ تأثر مل رہاہے کہ جنرل راحیل کے جانے کا وقت بالکل قریب میں ٹھہرگیاہے لیکن پاک فوج نے ان کی قیادت میں جو مثالی کردار اداکیا ہے، پوری قوم پر احسان کا فرض چکانے کا وقت آگیاہے،جنرل راحیل شریف نہ ہوتے تو نوازشریف کیا عمران خان کے وزیراعظم کی باری لگتی تب بھی دہشت گردی سیچھٹکارا نہ ملتا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت محترمہ بے نظیربھٹو شہید اور اے این پی کے رہنماؤں کی قربانیوں کو خراج تحسین نہ پیش کرنا بڑی زیادتی ہے، ایم کیوایم نے بھی طالبان کیخلاف جو جاندارآواز اٹھائی تھی وہ بھی قابلِ ستائش تھی مگر کراچی میں ایم کیوایم کا ٹارگٹ کلر ونگ اور پیپلز پارٹی کی امن کمیٹی نے طالبان سے زیادہ بدامنی پھیلانے کا ارتکاب کیا، کورٹ نے سارے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگ اور بھتہ خور مافیہ کی ٹھیک نشاندہی کی ۔
بلوچستان میں دہشت گردی کو عالمی اور بھارتی سپورٹ کے علاوہ مسلم لیگ ن سمیت سیاسی جماعتوں اور سول سوساٹیز کے نام پر این جی اوز کی حمایت بھی حاصل رہی، حالانکہ وہاں آزادی کے نام پر سیاسی جدوجہدکے بجائے بدترین قسم کی دہشت گردی ہورہی تھی۔ پورے ملک میں ہرقسم کی دہشت گردی کو پاک فوج نے جنرل راحیل کی قیادت میں بہت جرأت، بہادری اور حکمت کیساتھ سے ختم کرکے سیاستدانوں کیلئے ایک بہترین فضاء بنائی ہے لیکن دہشت گردوں نے وقتی طور سے چپ کی سادھ لی ہے، فوج کی طرف سے باگ ڈھیلی ہونے کی دیر ہے، یہ پھر اسی زور وشور سے پاکستان کو دیمک زدہ بناکر ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے چکر میں ہیں، نوازشریف اور مودی عالمی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوکر پاکستان اور بھارت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ آج اعلان ہوجائے کہ کشمیر الگ ملک ہے، پختون ، بلوچ ، سندھ، کراچی اور پنجاب الگ الگ ممالک ہیں تو نوازشریف کو اور نوازشریف کے کھلم کھلا اور درپردہ یاروں کو بڑی خوشی ہوگی۔ مودی بھارتی پنجاب کے سکھوں سے عالمی ایجنڈے کے تحت جان چھڑانے کی کوشش میں ہے اور نوازشریف نے مغل بادشاہوں اور راجہ رنجیت سنگھ کے طرز پر گریٹر پنجاب کا خوب دیکھ رکھا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سیاستدانوں نے پاک فوج کو بھی کرپشن کا شہد چٹا دیاہے ، سیاستدانوں کی طرح فوج بھی کرپشن سے پاک نہیں لیکن فوج کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالاتر ہے، فوج کی تربیت پاکستانی سرحدات کی حفاظت اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار ہوکر کی گئی ہے، پنجاب کے لوگوں میں سب سے بڑی خوبی جمود کا شکار نہ ہوناہے مگر ان کی سب سے بڑی خامی پیسیوں کی ریل پیل کا انکے سر پر سوار ہوناہے۔ ہر وقت ایک ہی دھن کہ پیسہ کیسے کمایا جائے؟۔ یہ لالچ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کو ایک کرکے عالمی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ مودی انتہاپسند ہندو ہے وہ پنجاب کے کم عقل سکھوں اور پاکستانی فوج سے جان چھڑانے کیلئے یہ قربانی دینے کا جذبہ رکھتاہے۔ محب وطن بھارتی رہنما لالوپرشادیو نے بیان دیا کہ ’’ کشمیر ہاتھ سے نکل رہا ہے‘‘۔ تو میڈیا پر ایک جھلک کے بعد یہ خبر غائب کردی گئی۔ میڈیا زرخرید لونڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے جس کی کھائے اس کی گائے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات اب نہ رہی۔ میڈیا کا مالک سودابازی یا اپنے عزائم کی تکمیل کی پالیسی بنالیتاہے، ملازمین کو اس کی خواہش کے مطابق چلنا پڑتاہے۔ سیاسی جماعتیں بھی سیاست نہیں تجارت کرتی ہیں۔
جب پاک فوج کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کسی میں نہیں ہوتی تھی، تب بھی ہم نے بفضل تعالیٰ اپنا فرض پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، اخبار کے ادارئیے ، بڑی شہ سرخیاں اورآرٹیکل اسکے گواہ ہیں، طاقت کے حصول کیلئے دم ہلانے والے سیاستدان کتوں سے زیادہ برے لگتے ہیں لیکن اب حب الوطنی کا یہ تقاضہ ہے کہ کرپٹ، تاجر، ضمیر فروش ، اخلاقی دیوالیہ پن کے شکار اور اسلام و ملک سے بے وفائی کرنے والے حکمرانوں کو بے نقاب کیا جائے۔ عمران خان نے جو الفاظ شیخ رشید کیلئے استعمال کئے تھے ، اس سے زیادہ عمران خان خود بھی برے ہیں مگر اس وقت ان کی آواز سب سیاستدانوں کے مقابلہ زبردست ہے، کراچی وسندھ سے ایم کیوایم و پیپلزپارٹی ، بلوچستان سے بلوچ رہنماؤں محمود خان اچکزئی اور مولانا محمد خان شیرانی کی صوبائی جمعیت اور پختونخواہ سے مولانا فضل الرحمن و اے این پی کے رہنما قومی سطح کے معاملات کرپشن اور بے انصافی پراگر اس اہم وقت میں نوازشریف پر دباؤ بڑھانے کیلئے اٹھ جاتے تو دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب کو بھی غنڈہ گردی سے پاک کردیا جاتا، اصغر خان کیس کے جرم میں مجرموں کو سزا ہوجاتی، جنرل پرویز اشفاق کیانی کی طرح جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہوتی تو اس ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہوجاتی ۔ نوازشریف نے پہلے بھی دھوکے دئیے ہیں اور مؤمن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاسکتا ہے۔مسلم لیگ(ن) کیلئے بھی جنرل راحیل ایک بہترین جرنیل ہیں جو حکومت کیخلاف سازش نہیں کرتے لیکن نوازشریف کو اپنے لئے ایک تابعدار جنرل کی ضرورت ہے گر یہ خواہش پوری ہوئی تو بہت برا ہوگا۔

قومی ایکشن پلان سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے تشکیل دیا گیا

مال ودولت ، اسٹیبلشمنٹ ، موروثیت کی پیداوار کی قیادت میں قومی ایکشن پلان کے ان نکات پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت ہی نہ نہیں جو حکومت سے متعلق ہیں اسلئے وقت ختم ہوگیا مگر سنجیدہ کوشش پرصرف غورہی کیا جارہاہے

قومی ایکشن پلان سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے تشکیل دیا گیا لیکن آخری وقت تک اسکے ان کو نکات کو سنجیدگی سے نہ لیاگیا جن کا تعلق سیاسی حکو مت سے تھا، کیونکہ دہشت گردی کیخلاف ذہن سازی کی مطلوبہ صلاحیت حکمرانوں میں موجودنہ تھی اور اپوزیشن رہنما بھی یکسر محروم دکھائی دیتے ہیں، اسلئے فوج کی تشویش کاخاطر خواہ جواب کسی سے نہیں بن پڑا، کور کمانڈرکے اجلاس میں جب بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تو حکومت اپنی غلطی مان لینے کی بجائے سیخ پا ہوجاتی رہی ہے۔ حکومت، جمہوریت اور نوازشریف کے زبردست وکیل جیوکے معروف صحافی نجم سیٹھی نے کہا کہ ’’ طالبان، جہادی تنظیمیں، سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی وغیرہ کی قوت 10فیصد سے بھی کم اور مدارس ،مذہبی سیاسی جماعتوں جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان اور جماعت اسلامی کی طاقت90فیصد سے زیادہ ہے، اسلئے ان پر قومی ایکشن پلان کے تحت ہاتھ ڈالنے سے اسٹیبلشمنٹ،حکومت اور عدلیہ سب ہی ڈرتے ہیں۔قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق اسلئے عمل نہیں ہوسکتاہے‘‘۔
معاشرے کے ہر طبقہ میں شریف اور بدمعاش ہوتے ہیں، محلہ کے دو، تین بدمعاش سینکڑوں شریفوں پر حاوی رہتے ہیں ، ریاست کا کام یہی ہوتا ہے کہ بدمعاشی کے کردار کا خاتمہ کرکے انسانیت، شرافت اور اخلاقی اقدار کی حکمرانی قائم کی جائے۔ پاک فوج نے کراچی میں ایم کیوایم ، پختونخواہ میں طالبان اور بلوچستان میں قوم پرستوں کی دہشت کا خاتمہ کرکے پاکستان کے کونے کونے میں ریاست کی رٹ بحال کردی لیکن پنجاب میں روایتی بدمعاشی بحال ہے۔ طالبان ، ایم کیوایم کے کارکن اور بلوچ قوم پرست ن لیگ اور تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی طرح کلہاڑی اور ڈنڈے لیکر اپنی قوت کا مظاہرہ نہیں کرسکتے ۔ قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا تو بہت سے لیگی اور تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن روایتی لب ولہجے اور دہشت پسندی کے باعث پنجاب رینجرز کے حوالے ہوجاتے، پھر وہ بھی ایم کیوایم کی طرح ریاست کی رٹ مان کر عاجزانہ گفتگو پر مجبور ہوجاتے۔ جنرل راحیل شریف میں جرأت وبہادری ہے وہ پنجاب کے گلوبٹوں سے بھی طالبان، ایم کیوایم اور بلوچ قوم پرستوں کی طرح نمٹ سکتے ہیں مگر بھاری بھرکم پیسہ، جمہوریت سے زیادہ نوازشریف کی ذاتی فکر اور پاک فوج سے بدظنی کا یہ نتیجہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت قانون، اخلاق اور کردار کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتی ہے۔
ماڈل گرل ایان علی کے مقابلہ میں مریم نواز شریف زیادہ تفتیش کے قابل ہے، ڈاکٹر عاصم کے مقابلہ میں اسحاق ڈار نے اعترافی بیان ریکارڈ کرایا ہے اور یوسف رضاگیلانی کا جرم اتنا بڑا نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کو عدالت نے نااہل قرار دیا ، جتنا نوازشریف کاہے اصغر خان کیس میں جمہوریت کے خلاف سازش اور پانامہ لیکس سے راہِ فرار اختیار کرنے میں۔ 16سال بعد اصغر خان کیس میں شریک ملزموں کو باقاعدہ مجرم قرار دیا مگر اس سے رقوم کی واپسی اور نااہل ہونے کی سزا نہیں دی گئی۔ جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس اپنے وقت پر رخصت ہوجائیں اور پاکستان کی ریاست میں نوازشریف کیساتھ وہ سلوک نہ کیا جائے جو دوسروں کیساتھ ہوا ہے تو چوہدری افتخار کی طرح تعریف کرنے والے تنقید کرتے پھریں گے اور ان کی زبانوں کو روکنے کیلئے ہتک عزت کے دعوے کام نہ آئینگے۔
قوم کا اجتماعی ضمیر یہ تقاضہ کرتا ہے کہ طاقتوروں اور کمزوروں کو یکساں انصاف کے فراہم کرنے میں سب سے بڑا کردار جمہوری حکومت کا ہونا چاہیے لیکن جب جمہوریت کا اپنا سیٹ اپ غیر جمہوری ہوگا، مشاہداللہ خان، سعد رفیق، خواجہ آصف اور دیگر رہنما ؤں کو بی بی مریم نواز کے سامنے وہ اہمیت حاصل نہ ہو ، جسکے وہ مستحق ہیں اور وہ وزارتوں اور اپنے مفادات کے چکر میں اس پر راضی ہوں۔ بلاول زردای کے سامنے چودھری اعتزاز حسن، قمرزمان کائرہ، افضل چن وغیرہ سر نگوں ہوں تو عوام کو کونسی جمہوریت کا پیغام دینگے؟۔ کیا گھوڑے، گدھے اور کتے کو جعلی ڈگری کی طرح بھاری بھرکم پیسے دیکر موجودہ انتخابی نظام میں نہیں جتوایا جاسکتاہے؟، اس کا تجربہ کرکے دیکھ لیا جائے تو ضرور کامیاب ہوگا۔یقینی طورسے مارشل لاء مسائل کا حل نہیں لیکن جمہوری قوتیں عدل وانصاف کا نظام قائم کرنے میں سنجیدہ نہ ہوں تو ماضی میں بھی مارشل لاء کو روکنے کیلئے عوام نے اسلئے کوئی قربانی نہ دی کہ جمہوری حکومتیں جن جمہوری جماعتوں کی وجہ سے برسرِ اقتدار تھیں، ان میں بذات خود جمہوریت کی روح نہیں تھی۔ اب دن بدن مزید معاملہ تنزلی کی طرف ہی جارہا ہے۔
اگر جمہوری قوتوں نے قانون کی حکمرانی قائم نہ کی اور مارشل لاء کے ذریعہ سے بھی اس ملک کو سیدھی راہ پر لگانے کی کوئی کوشش نہ کی گئی تو کراچی، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں پھر دہشت پسند بھی آزاد ہوکر اپنے لئے ان جمہوری جماعتوں سے انصاف مانگ لیں گے جن کے ساتھ مل کر پاک فوج نے ان کو کنارے لگایا تھا، پھر اس ملک کی بدحالی کا ذمہ دار کون ہوگا؟۔ ن لیگ نے سوئس اکاونٹ پر جس طرح تقریریں کیں، اب پانامہ لیکس پر دوسروں کو دھمکانے اور الزام لگانے کی بجائے کھلے دل سے جرم کی سزا کھانی چاہیے۔

مفتی عبد القوی کا فتویٰ اور قندیل بلوچ اسکنڈل کے علمی حقائق

وہ محترمہ جومحرم بہن ،بیٹی وغیرہ اور منکوحہ نہ ہو، جس قسم کا معاہدہ کیا جائے یہ نکاح ہے، نکاح ہے، نکاح ہے۔ قرآن وسنت سے یہی سمجھاہے

مفتی عبدالقوی نے فتویٰ جاری کیا تو پاکستان تحریک انصاف کے علماء کے سربراہ تھے، پھرعرصہ بعدقندیل بلوچ کے واقعہ کی وجہ سے ہٹادیا گیا

بدقسمتی ہے کہ واقعات کی بنیاد پر معاشرے میں ردِ عمل آجاتا ہے مگراس نصاب کی غلطیوں پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آتا جو خرابیوں کی جڑ ہے

پاکستان بھر میں مفتی عبدالقوی کا فتویٰ سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام کے ذریعہ عام ہوا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنا، مفتی صاحب اس وقت ہلال کمیٹی کے رکن اور پاکستان تحریک انصاف علماء ونگ کے سربراہ بھی تھے۔ اپنے اس فتوے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے معروف قندیل بلوچ کو میڈیا پر ملنے کی دعوت بھی دی اور ذوق کی پاسداری ایک ہوٹل میں ہوئی۔ جیوٹی چینل نے کچھ ریٹنگ اور کچھ تحریکِ انصاف کی مخالفت کی وجہ سے اس کو خوب اچھالا، موصوف کو علماء ونگ تحریکِ انصاف ، ہلال کمیٹی کی رکنیت اور ٹی وی چینلوں پر اپنے فرائضِ منصبی سے محروم کردیا گیا۔ یہ دنیا اتنی تنگ وتاریک ہے کہ امریکی صدارتی امید وار ڈونلڈ ٹرمپ اور اس سے پہلے صدر کلنٹن پر بھی اس قسم کے واقعہ پر بڑی مہم سازی ہوئی مگر اسلامی دنیا میں صرف واقعہ ہی نہیں بلکہ قانون سازی کی بنیاد بھی اتنی شرمناک ہے کہ عام لوگوں کو پتہ چلے تو صحیح بخاری اور فقہ کی کتابوں پر تعجب کی انتہاء کردیں۔ مغیرہ ابن شعبہؓ کے خلاف تین گواہوں نے گواہی دی تو حضرت عمرؓ نے چوتھے گواہ کی آمد پر کہا کہ اللہ اسکے ذریعہ اس صحابی مغیرہؓ کو ذلت سے بچائے گا، پھر اتنی زور داز آواز سے چیخ کر کہا بتا تیرے پاس کیا ہے ؟ کہ راوی خوف سے بیہوش ہونے کے قریب آگیا، چوتھے گواہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ اس خاتون(ام جمیلؓ) کے پاؤں مغیرہؓ کے کاندھے پرگدھے کے کانوں کی طرح پڑے تھے اور اس کی سرین دکھائی دے رہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے باقی تینوں گواہوں پر حدِ قذف جاری کردیا، ان کو80,80کوڑے لگادئیے،پھر پیشکش کردی کہ آئندہ پھر تمہاری گواہی قبول کی جائے گی ،اگر جھوٹ کا اقرار کرلو، دوگواہوں نے جو صحابی نہ تھے یہ اقرار کرلیا کہ ہم نے جھوٹ بولا تھامگر واحدصحابیؓ گواہ اپنی بات پرڈٹے کہ جو دیکھا سچ تھا۔ یہ واقعہ صحیح بخاری اور فقہ وتفسیر کی کتابوں میں قانون سازی کے حوالہ سے ہے۔
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک حضرت عمرؓ کی پیشکش قرآن کی آیت کے منافی تھی، قرآن میں ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی کبھی قبول نہ کیجائے۔ جمہور فقہاء امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ نے اس واقعہ کو دلیل بنایااور یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ’’ اس واقعہ کی بنیاد پر توبہ کرنے کے بعد جھوٹے گواہ کی گواہی قبول کی جائے گی‘‘۔ پہلے حضرت عمرؓ نے مغیرہ ابن شعبہؓ سے بصرہ کی گورنری چھینی مگرپھر گورنر بنادیا ۔ یہ قانون سازی قرآن وسنت کی بنیادپر ہرگز نہیں۔ البتہ اللہ نے در اصل حضرت عمرؓ کے ذریعہ غیرشرعی، غیرانسانی اور غیرفطری سنگساری کی سزا کو ہمیشہ کیلئے معطل کردیا۔جو قرآن وسنت نہیں بلکہ یہود کی توراۃ میں اللہ کے احکام کی تحریف کا نتیجہ تھاجسکے سب سے بڑے داعی حضرت عمرؓ ہی تھے، اگر قرآن کیمطابق 100کوڑے کی سزا ہوتی تو حضرت عمرؓ کیلئے پریشانی کا سبب نہ ہوتی۔ یہ قرآن وسنت، فطرت وشریعت سے انحراف کا نتیجہ تھا کہ مجرموں کی بجائے گواہوں کے سزا کی غلط روایت بھی پڑگئی۔ سورۂ نور میں زنا کی سزا 100کوڑے کے بعد نبیﷺ نے کسی پر سنگساری کی سزا جاری نہیں کی۔ جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل نہ ہوا تھا تو یہ سنگساری کی سزا اہل کتاب کی موافقت کی وجہ سے دی گئی مگر اسمیں آخری حد تک رحم کھانے کا عنصر موجود تھا جبکہ ایک گروہ کی موجودگی میں کوڑوں کی سزا میں رحم کھانے سے روکا گیا ہے اور وہ فطرت کے عین مطابق ہے اس پررحم کھانے کیلئے پاپڑ بیلنے کی ضرورت بھی نہیں۔
صحیح مسلم کی روایت کیمطابق حضرت عمرؓ کے دور تک متعہ کا سلسلہ جاری تھا،حضرت عمرؓ نے اس پابندی لگائی، صحیح بخاری کیمطابق نبیﷺ نے سفر میں متعہ کی اجازت دی اور قرآن کی آیت کا حوالہ دیکر فرمایا کہ’’ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام مت کرو، جن کو اللہ نے حلال کیا ہے‘‘۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے مسیار کے نام سے متعہ کی اجازت دی ہے، مفتی عبدالقوی نے متعہ اور مسیار کا نام لئے بغیر کہا کہ ’’شادی ایک نکاح متعددکی اجازت میرے فہم کے مطابق قرآن وسنت میں موجود ہے‘‘۔ سنی مکتب کی معروف تفاسیر میں بھی متعہ کی اجازت قرآن کی آیات میں موجود تھیں، بعض قرأتوں میں ’’ایک متعین وقت تک نکاح کی وضاحت ہے‘‘۔ یہ قرأت نہیں ہوسکتی بلکہ درسِ نظامی میں جلالین کے طرز پر کوئی پرانی تفسیر ہوگی لیکن بہرحال مفتی عبدالقوی نے اسی کی بنا پر فتویٰ دیا ہوگا۔
مشہور شخصیت حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے جب حضرت علیؓ کے سامنے متعہ کو زنا کہا تو حضرت علیؓ نے کہا کہ’’تم خود بھی تو اسی متعہ کی پیداوار ہو‘‘(زادالمعاد علامہ ابن قیمؒ )،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی والدہ ماجدہ لونڈی تھیں، رسول اللہﷺ کے ایک فرزندزندہ ہوتے تو ان کی ماں لونڈی تھی، حضرت ہاشم کے بیٹے حضرت عبدالمطلب کی والدہ معروف بیوی نہ تھی اسلئے جب لائے گئے تو لوگ ان کو بڑے بھائی مطلب کے غلام سمجھتے تھے، اصل نام شیبہ تھامگر عبدالمطلب نام مشہور ہوا۔ حضرت ابوہرہؓ نے صحابہؓ سے کہا کہ ’’تم خود پر کس بات کا فخر کرتے ہو، قریش تو آسمان (لونڈی )کے بیٹے ہیں۔ کاش! ہم دنیا میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے شخصی کردار اور فرقہ وارانہ تعصبات چھوڑ کر مثبت راہ کو اپنا نصب العین بنالیں تو ہمارے معاشرے اور معاشرتی نظام کی اصلاح ہوسکتی ہے۔