پوسٹ تلاش کریں

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

مسلمانوں میں ایک عرصہ سے یہ رویہ رہا ہے کہ میاں کی طرف سے بیوی کوکسی لفظ کے استعمال پر علماء ومفتیان کی طرف بھاگنا پڑتا ہے کہ ’’ طلاق ہوئی یا نہیں اور اس میں حلالہ کی ضرورت ہے یا نہیں؟‘‘۔ عوام نے شروع سے اقتدار پر خود قبضہ کیا، بنی امیہ اور بنوعباس کے ادوار سے مذہبی طبقہ بھوسی ٹکڑیوں پر گزارا کررہا تھا، حکمران کی آنکھیں پھرنے سے فقہاء کی دنیا تاریک ہوجاتی تھی۔ حکمران تو اپنے لئے اپنے باپ کی لونڈیوں پر دل آنے کی صورت میں بھی فقہاء سے حلال کروالیتے تھے۔ جن علماء حق کے اپنے وسائل ہوتے تھے، ان کو کسی نہ کسی بہانے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور جودرباری حکمرانوں کے رحم وکرم پر ہوتے تھے وہ عیش اڑانے کیساتھ ساتھ دین کا حلیہ بگاڑنے میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مزارعت کے بارے میں احادیث صحیحہ ہیں کہ زمین کو بٹائی، کرایہ اور ٹھیکے پر دینا سود اور ناجائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اورامام شافعیؒ اس بات پر متفق تھے کہ احادیث صحیحہ کے مطابق زمین کو مزارعت پر دینا سود اور ناجائز ہے لیکن جاگیرداروں اور درباری علماء و فقہاء نے حقائق کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا۔ آج احادیث اور ائمہ مجتہدینؒ کے متفقہ مسلک پر عمل ہوجائے تو پاکستان کی تقدیر بدل جائیگی۔ غریب کیلئے سیاستدان اور حکمران کچھ بھی نہ کریں صرف زمین میں محنت کا ان کو مالک بنادیں تو ایک بڑا انقلاب بھرپا ہوجائیگا۔ کامریڈ لال خان کے پندرہ روزہ’’ جدوجہد ‘‘ میں کمیونسٹوں کا جومنشور لکھا گیا ہے وہ بھی ایک بڑا فراڈ ہے ، ایک شق میں مزارعہ کو زمینوں کا مالک بنانے کالکھا ہے اور دوسری شق میں زمینوں کی اجتماعی ملکیت اور اجتماعی مزارعت کا لکھاہے، یعنی مزارعین زمینداروں کی بجائے سرکارکے ملازم ہونگے۔روس اور چین میں جو نظام ناکام ہواہے ،اس کا تجربہ پاکستان میں کرنے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔
چلو مزارع کمزور ہے اور زمیندار طاقتور مگر اپنی عورت کی عزت تو اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ہمارا ایک برگشتہ پیربھائی تھا، مسجد الٰہیہ سوکواٹر کورنگی کراچی میں خادم تھا، مولانا نورالحق، اس نے حلالے کو دھندہ بنارکھا ہے، ہمارے ساتھیوں کی موجودگی کا بھی لحاظ نہ کیا، ایک غریب آیا کہ بیوی کو طلاق کیلئے یہ الفاظ استعمال کئے، اس سے پوچھا کہ تیری کتنی تنخواہ ہے؟، اس نے کہا کہ تیس ہزار، اچھا ہوجائیگا، بیس ہزار روپے لاؤ اور بیوی کو میرے پاس رات کو چھوڑ جاؤ۔ دوسرے سے ہاں تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا یہ الفاظ استعمال کئے ہیں ، کیا کام کرتے ہو؟، فلاں کام، اچھا تم دس ہزار لاؤ اور پرسوں رات اپنی بیوی کو یہاں چھوڑ جاؤ، حلال کردوں گا۔ یہ دھندے کتنے لوگوں نے جاری رکھے ہونگے؟۔
ایران میں ایک دوست مولانا عبداللطیف بلوچ ہیں جو دارالعلوم کراچی سے فاضل ہیں، خیرالمدارس ملتان میں پڑھتے تھے تو ملتان میں ہمارا دفتر تھا اسلئے ملاقات ہوجاتی تھی ایک مرتبہ وہ میرے ساتھ ٹانک اور وانا بھی گئے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کا ہمارے ہاں جلسہ تھا ، پھر مولانا نور محمد سے بھی ہم وانا میں مل کر آگئے۔ کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی تو طلاق کے مسئلہ پر بات چیت کا یہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نے بتایا کہ ’’ہمارے ہاں ایک مولوی نے عورت کا حلالہ کیا، چند دن بعد اس عورت کو دیکھا اور پوچھا کہ تمہیں مزہ آیا تھا یا نہیں؟۔ اس نے کہا کہ مزہ تو نہیں آیاتھا۔ مولوی نے کہا کہ پھر تم حلال نہیں ہوئی ہو،اسلئے کہ حدیث کے الفاظ میں ایکدوسرے کامزہ چکھ لینے کی شرط ہے۔ پھر دوبارہ اس کے ساتھ معاملہ کیا اور پوچھا کہ اب مزہ آیا تو اس عورت نے کہا کہ ہاں، تو اس کے حلالہ کو درست قرار دیا۔ جب ہمیں پتہ چلا تو اس مولوی کو پکڑا کہ خبیث تم نے یہ کیا کیا ہے؟۔ مولوی نے بتایا کہ عدت تو میں بھولا تھا، جب اس سے کہا کہ تم اس عورت کو حق مہر دو، تو اس نے کہا کہ میرے پاس ایک تمن (روپیہ)بھی نہیں ہے‘‘۔
جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا اللہ داد صاحب ژوب کے صاحبزادے مولانا عزیزاللہ نے ہمارے ساتھیوں عبدالعزیز اور امین اللہ کو بتایا کہ ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ کتابچے سے میری ایک دیرینہ تشویش کا مسئلہ حل ہوگیا ہے، ہماری قوم بات بات پر طلاق کا لفظ استعمال کرتی ہے چائے اور کرائے کے پیسے دینے پر بھی دونوں طرف سے طلاق ڈالی جاتی ہے، ظاہر ہے کہ کسی ایک کو طلاق پڑجاتی ہوگی ۔ ایسے میں ہماری قوم کے نکاحوں کی پوزیشن کیا ہوگی؟۔ تعلق اور پیداوار جائز یا ناجائز ہونگے؟۔ اس کتاب نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔ یہ صرف کاکڑ قوم کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پٹھان زیادہ تر اس معاملے میں یہی روش اختیار کرتے ہیں۔
قرآن میں صلح ومصالحت اور نیکی وتقویٰ کے کاموں میں کیلئے رکاوٹ ڈالنے اللہ نے اپنی ذات کے استعمال سے روکنے کے بعد بڑے مفصل انداز میں طلاق کا مسئلہ واضح کردیا ہے، سب سے پہلے یہ وضاحت کی ہے کہ لغو قسموں پر اللہ نہیں پکڑتا مگر دلوں کی کمائی پر پکڑتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی عورتوں سے نہ ملنے کی قسم کھائی ہو ان کیلئے چار کا انتظار ہے۔ اگر پھر آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ سنتا اور جانتا ہے۔ آیت میں خواتین کے حق کی وضاحت ہوئی ہے کہ چارماہ سے زیادہ انتظار کی زحمت نہیں دی جاسکتی ہے، طلاق دینے اور پڑنے کی چیزنہیں بلکہ علیحدگی کا عمل ہے۔ چار ماہ سے زیادہ انتظار تو بہت دور کی بات ہے اگر اس ناراضگی میں بھی پہلے سے طلاق (چھوڑنے ) کا عزم تھا تو اس دل کے گناہ پر اللہ کی گرفت ہوگی۔ اسلئے کہ طلاق کے اظہارکی صورت میں انتظار کی مدت کم ہے۔
پھر اللہ نے طلاق والی عورتوں کیلئے تین مرحلوں تک انتظار کا حکم دیا ہے، جسمیں شوہر ہی کو صلح کی شرط پر بیوی کو لوٹانے کا حقدار قرار دیا ہے۔ حدیث میں یہ مرحلے پاکی کے ایام اور حیض کے حوالہ سے واضح کئے گئے ہیں، میڈیکل سائنس کے علاوہ انسانی فطرت وعقل بھی ان مرحلوں کے ادراک سے آگاہ ہے۔ اللہ نے میاں بیوی کے یکساں حقوق اور شوہر ایک درجہ فضیلت دینے کو واضح کیا ہے اور اس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہوگی کہ شوہر چھوڑنے کا اعلان کردے اور بیوی عدت کا انتظار کرے؟، ان تین مراحل کے پسِ منظر میں تین مرتبہ طلاق کا تصور واضح ہے جس میں اللہ نے بار بار رجوع کی گنجائش کو عدت کی تکمیل سے واضح کیا ہے، سورۂ طلاق میں رجوع نہ کرنے کی صورت میں دوعادل گواہوں کا بھی ذکرہے، تاکہ عورت کے مالی معاملہ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کو نکاح کا پیغام بھی دینا چاہے تو دے سکے۔ قرآن نے بیوہ اور طلاق شدہ کے علاوہ اپنی صالح لونڈیوں اور غلاموں کے نکاح کرانے کا بھی حکم دیا ہے۔ ان احکام پر عمل اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب معاشرے میں عدت کے بعد عورت کا باقاعدہ دوسرے شوہر سے فارغ ہونا واضح ہو۔
قرآن میں اللہ نے جہاں ایک خاص صورتحال میں میاں بیوی کے درمیان باہوش وحواس علیحدگی جس میں فیصلے کرنے والوں کا بھی کردار ہو اور سب متفق ہوں کہ شوہر کی طرف سے دی گئی اشیاء میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں مگر جب سب کو یہ خدشہ ہو کہ کسی خاص چیز کو واپس کئے بغیر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو بیوی کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے اور شوہر کی طرف سے لینے میں دونوں پر حرج نہ ہوگا، یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرتا ہے تووہی لوگ ظالم ہیں اس مخصوص صورتحال میں علیحدگی یعنی طلاق کے بعد اس عورت کا پہلے سے نکاح اس وقت تک درست نہیں جب تک دوسرے سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ کاش علماء ومفتیان آیات پر غور کرکے اپنے فتوؤں پر نظر ثانی کردیں تو بات بن جائے۔

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

ہندو کے بارے میں مشہور تھا کہ ’’ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام‘‘، مودی سرکار نے اس کا بالکل الٹا نقشہ پیش کرتے ہوئے ایک ایسے موقع پر جب وزیراعظم نوازشریف نے کشمیر میں مظالم اور بھارتی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانی تھی، اس عین موقع پر مودی نے سر پر دوپٹہ باندھ کر دھوتی سے باہر آنے کی دھمکیاں دینی شروع کردیں۔ جب پاکستان کے دفاعی بجٹ کے برابر پاکستان سے بھارت پیسہ منتقل ہورہا ہے تو افواج پاکستان کے برابر مودی سرکار کو نوازحکومت کی فکر ضرور ہوگی اور جو کبوتر نوازشریف کی طرف سے مودی سرکار کے پاس پیغام لے کر گیا ہے یہ وہ منافقت کا کبوتر ہوسکتا ہے جو مودی سرکار نوازشریف کی نواسی کی شادی کے موقع پر ہی چھوڑ کر گیاہو، کچھ دن پہلے دبئی سے پاکستان لائے جانے والے جن کبوتروں کی خبر میڈیا کی زینت بنی تھی ان بھی بھارتی کبوتروں کی اسمگلنگ کا معاملہ ہوسکتاہے۔

Molana_Fazluپچھلے دنوں سندھ میں جمعیت علماء اسلام نے ڈاکٹر خالد سومرو شہید کے قاتلوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں کے سپرد کرنے کا مطالبہ کرنے کیلئے کراچی میں مظاہرہ کیا تو اس میں پچاس بسیں تھرپارکر جیسے قحط زدہ علاقے سے لانے کی بات جے یوآئی ف کورنگی کے ذمہ داروں مولانا سیدعالم انصاری وغیرہ نے دارالعلوم کراچی کے پاس اجلاس میں کیا، یہ سب نوازشریف ہی کی طرف سے خرچے کا اہتمام لگتاہے،یہ تو ہوسکتاہے کہ بلوچستان کے وزراء اپنی حرام کی کمائی سے جمعیت علماء اسلام ف کے جلسوں کو کامیاب کریں لیکن سندھ والوں کے پاس اتنی رقم نہیں ہے۔ یہ فوج کو اپنی قوت دکھانے کا مظاہرہ ہے، مفتی تقی عثمانی نے ہمیشہ ڈکٹیٹر شپ کاساتھ دیا مگر اب اسحاق ڈار کیساتھ روابط کے نتیجے میں ترکی میں فوج کی ناکامی پر یکجہتی کا پیغام دیا گیا، مولانا فضل الرحمن نے دیر میں جلسہ کیا تو سعودیہ کی رقم کھا جانے اور قبائلی عوام کوان کی مرضی کے مطابق نظام دینے کی بات کی۔ جس نوازشریف سے پیسہ لیکر جلسہ کیا گیا اسی کیخلاف غلطی سے ’’گونواز گو‘‘ کے نعرے لگے تو جیو ٹی وی چینل نے دکھائے لیکن صحافیوں نے مولانا فضل الرحمن سے یہ سوال نہیں کیا کہ
قبائلی علاقوں کے کسی نمائندے کو حکومت نے اپنی کمیٹی میں شامل نہیں کیاہے تو اس سے بڑھ کر حکومت کا قبائل کیساتھ ظلم کیا ہوسکتاہے؟۔ مولانا فضل الرحمن اس کا یہی جواب دیتا کہ یہ سوال قبائلیوں کا حق بنتا ہے کہ اٹھائیں، میں تو قبائلی نہیں ہوں، سلیم صافی قبائلی ہیں وہ یہ سوال اٹھارہے ہیں یہ ان کا حق بنتاہے، البتہ یہ صحافیوں کا کام نہیں سیاستدانوں کا کام ہے، مسلم لیگ کے قبائلی رہنما تو یہ سوال اٹھانہیں رہے اور ہم ان کے اتحادی ہیں اسلئے ہم بھی نہیں اٹھارہے ہیں۔ تحریک انصاف والوں کو بات کرنے کاحق ہے لیکن حکومت سنے یا نہ سنے یہ حکومت کا حق ہے۔ میراکام تواپنی جیب بھرنا ہے ، باقی قبائلی بھاڑ میں جائیں، میں صرف شرارت کرکے اپنا پیسہ حلال کرسکتاہوں جو نوازشریف نے عنایت فرمایا ہے، اسکے بدلہ میں کہہ سکتا ہوں کہ فوج نے دہشت گردوں کیخلاف آپریشن نہیں کیا ہے بلکہ قبائلی عوام کیخلاف کیا ہے، جس سے قبائل اور نوازشریف دونوں خوش ہونگے اور فوج پر دباؤ بڑھ جائے گا۔
مولانافضل الرحمن سے سوال کیا جاتا کہ وزیراعظم نوازشریف نے عیدالفطر کو لندن میں پاکستان سے ایک دن پہلے سعودی عرب کیساتھ منایا اور عیدالاضحی کو اسکے بالکل برعکس امریکہ میں سعودیہ کے ایک دن پاکستان کیساتھ منایا، اس کی وجہ کیا تھی؟ مولانا فضل الرحمن فی البدیہ کہہ دیگا کہ مجھے نوازشریف کی وکالت کرنی ہے، اسلئے یہ راستے بنانے کیلئے مدلل شرعی مسائل بتانے پڑیں گے۔ جاویداحمد غامدی سے بھی یہ پوچھ لیا جائے تو وہ کہہ دینگے کہ یہ عوام اور علماء کی صوابدید کا مسئلہ نہیں ہے، یہ فیصلہ تو حکومت نے کرنا ہوتا ہے، لندن اور امریکہ میں جن کی حکمرانی ہے، اوباما وغیرہ ، عید کا فیصلہ وہاں انہوں نے ہی کرنا ہوتا ہے، لہٰذا نوازشریف نے عیدالفطر پاکستان سے ایک دن پہلے سعودیہ اور عیدالاضحی ایک دن بعد سعودیہ کے بعد پاکستان کیساتھ ٹھیک منائی۔ مفتی اعظم پاکستان بریلوی اور چیئرمین ہلال کمیٹی پاکستان مفتی منیب الرحمن اور مفتی اعظم پاکستان دیوبندی مفتی رفیع عثمانی بھی یہ فتویٰ دیں گے کہ مسئلہ یہی ہے اور پھر کسی اور کا فتویٰ نہیں چلے گا۔ اگر عمران خان بک بک کرے تو اس نے بھی اپنی صوبائی رویت کے مسئلہ میں حکومت کا جبر قبول کرلیا، پاکستان میں اتحاد سے عیدیں منائی گئیں۔ جب تک اقوام متحدہ کسی ملک کو تسلیم نہ کرے ، اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اقوام متحدہ میں مغربی ممالک خاص طور سے امریکہ کا بنیادی کردار ہے، ہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ عالمی سطح پر امریکہ و برطانیہ نے ہماری عیدوں میں بھی دلچسپی لینی شروع کردی ہے، سودی نظام کو اسلامی بنانے میں بھی انہی کی مہربانی ہے اور اسلامی خلافت کے قیام کی کوشش بھی انہی کی مرہونِ منت ہوگی۔
پاکستان کے سابق صدرپرویزمشرف نے کہا کہ ’’ امریکہ نے ہمیں استعمال کیا اور ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے‘‘۔ یہ غلط بات ہے، پاکستان نے اپنی مجبوری اور مفاد کی خاطر امریکہ کا ساتھ دیاتھا، اب امریکہ کا مفاد بھارت کیساتھ ہے تو بھارت ہی کا ساتھ دے گا۔ ہمارے حکمرانوں میں سیاسی حکمت عملی کا فقدان ہے، کل توشریف براداران کو زرداری کے سوئس اکاونٹ کیخلاف آواز اٹھانے میں کوئی جمہوریت کے خلاف سازش نظر نہیں آتی تھی مگر آج پانامہ لیکس میں نوازشریف کی کمپنیوں پر سازش نظر آتی ہے۔ عدالت نے تو زرداری کو بھی گیارہ سال تک قید میں رکھنے کے باوجود کوئی سزا نہیں دی تھی۔ اگر شریف برادری کو پاکستان سے محبت ہے تو دنیا کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے پہلے اپنے بچوں کو دولت سمیت پاکستان لائیں۔
پاکستان کی میڈیا کو اگر جمہوریت کی حمایت ،اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت اور قانون کی حکمرانی کا خیال ہو تو 16سال بعد سپریم کورٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد کا جرم عدالت میں ثابت کردیا، یوسف رضاگیلانی کی طرح نوازشریف کو بھی نااہلی کی سزا دی جائے۔ عدلیہ بحالی تحریک سے زیادہ قانون کی حکمرانی کیلئے اس تحریک کی جان ہوگی،اسلئے افتخار چوہدری نے پہلے خود بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ عدالت کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر لاہور سے جی ٹی روڈ اور ساہیوال سے فیصل آبادکے راستے موٹروے، کوئٹہ سے ڈیرہ غازی خان کے راستے کراچی سے ملتان کے راستے اورپشاور سے اسلام آباد کیطرف ہلکا پھلکا مارچ کریں تو حکومت قانون کے سامنے گھٹنے ٹیکنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ لوڈشیڈنگ کاوعدہ حکومت نے پورانہ کیا۔ عمران خان کی تقریرپر کیبل آپریٹر کی کارستانیاں بھی رہیں۔

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

جیوٹی چینل پر سلیم صافی نے مشرق وسطیٰ کے مسائل کے ماہر سے انٹرویو کیا تو اس نے بتایا کہ القاعدہ اور داعش میں شدید اختلافات ہیں۔ القاعدہ کا نظریہ ہے کہ فی الحال عالمی خلافت کے قیام کیلئے عملی اقدام درست نہیں، افغانستان میں امارت اسلامی کے بعد جہادی سر گرمیاں جاری رکھی جاتیں تو عالمی قوتوں کو مشکلات سے دور چار کیا جاسکتا تھا، داعش مفاد پرست ہے جبکہ داعش کا مؤقف یہ ہے کہ’’ اسلامی خلافت کا قیام ایک شرعی فریضہ ہے، جس کیلئے قریش ہونا اور جسم کے اعضاء کا سالم ہونا بنیادی شرط ہے اور یہ دونوں شرائط امیرالمؤمنین ملا عمر میں نہیں پائی جاتی ہیں‘‘۔ القاعدہ، طالبان اور داعش کے آپس سمیت امت مسلمہ کے اختلافات کو سلجھانے کیلئے اغیار کی طرف دیکھنے کی بجائے اندرون خانہ مسلم علماء، دانشور اور ہماری ریاستوں کو باہمی طور سے مل بیٹھ کر حقائق کی طرف آنا ہوگا۔
اسماعیلی آغا خانی اور داؤدی بوہرہ کے اہل تشیع فرقوں نے اپنی جماعتوں اور ان کے سربراہوں کو امام زمانہ قرار دے رکھا ہے، اسلئے وہ تمام ممالک میں بہت خاموشی کیساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور کسی سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔ اہلحدیث سے کٹ جانی والی جماعت المسلین نے بھی اپنی جماعت اور اسکے امیر کا ایک تصور بنالیا ہے جو کراچی سے پاکستان بھرمیں اپنی سرگرمیاں جاری ہوئے ہیں، اہل تشیع کے امامیہ فرقے کے نزدیک احادیث میں بارہ خلفاءِ قریش کا ذکر ہے اور وہ انکے نزدیک حضرت علیؓ سے مہدی غائب تک بارہ ائمہ اہلبیت ہیں۔ جب تک ان کے نزدیک مہدی غائب کا ظہور نہیں ہوجاتا ، وہ اسلامی امارتوں کے قیام اور اجتہاد سے کام لیکر اپنے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں، ایران میں انکی جمہوری حکومت اور شام میں خاندانی بادشاہت ہے۔ دنیا بھر میں اہل تشیع کا یہ معروف فرقہ نہ صرف اپنے عقائد ومسلک بلکہ سیاسی اور جہادی جدوجہد میں بھی مصروفِ عمل ہے۔ صدام حسین عراق میں سنی حکمران تھے جس کا تختہ الٹ کر امریکہ نے وہاں شیعہ کوحکومت بنانے کا موقع فراہم کیا، اب امریکہ شام کے شیعہ حکمران حافظ بشار الاسد کو ہٹانے اور وہاں کسی سنی حکمران کو لانے کی تگ ودو میں ہے۔ حال ہی میں داعش کے نام پر امریکہ نے 60شامی فوجیوں کو بمباری کا نشانہ بناکر شہید کردیا اور پھر وضاحت کی کہ غلط فہمی میں یہ ہوا ہے۔ روس امریکہ کیخلاف تھوڑی بیان بازی کرلیتا ہے اور یہ بھی مسلم ریاستوں کے بھیگی بلی بن جانے کے مقابلہ میں غنیمت سے کم نہیں۔
روس کی فوجیں پاکستان میں پہلی بار ایسے موقع پر مشقیں کرنے آئی ہیں جب بھارت اور دنیا کشمیر کے مظالم سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پر دباؤ بڑھارہے ہیں۔ امریکہ سے کھربوں کی خریداری کا معاہدہ من موہن سنگھ نے کیا تھا، اسلحہ کی خریداری اور اس کا استعمال ہو یا پاکستان اور خطے سے کمائی کرکے بھارت کو اپنی قسطیں ادا کرنے ہوں، لگتا ہے کہ امریکہ نے بھارت کو مانیٹری کا فریضہ سونپ دیا ہے۔چین اور سعودی عرب سے دشمنی ایران ، افغانستان اور بھارت سے امریکہ کی دوستی بنے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟۔ باتوں سے بات نہیں بنے گی بلکہ ایک مضبوط اور مربوط لائحۂ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ تب پاکستان کی سلامتی خطرے سے باہر ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے ان معاشرتی مسائل کو پاکستان اٹھائے جن پر عالمِ اسلام میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔ افغانستان، ایران ، سعودی عرب، عرب امارات، کویت ،قطر عمان، مصر،سوڈان، لیبیا، شام، عراق ، یمن، ملائشیاء، انڈونیشاء،ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ اور تمام مسلم ممالک اور غیرمسلم ممالک بھارت ، امریکہ،لندن، فرانس، جرمنی ،روس وغیرہ سے علماء ومفتیان کے وفود کو پاکستان طلب کرکے خواتین کے حقوق اور خلع وطلاق کا مسئلہ سامنے رکھا جائے تو ایک یکجہتی کا انقلاب پیدا کرنے میں بالکل بھی کوئی مشکل نہ ہوگی۔پاکستان کے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان اور دانشوروں کو حکومت اور ریاست بلاکر اس کا تجربہ کرکے بھی دیکھ لے۔
نماز کے اوقات میں فرق اسلئے ہوتا ہے کہ کہیں دن تو کہیں رات ہوتی ہے لیکن پوری دنیا میں چاند ایک ہی ہے، اگر امریکہ اور پاکستان میں ایک دن میں روزہ اور عید کا تصور درست ہے تو پاکستان ، ایران اور سعودی عرب میں بھی ایک دن کا ہونا کوئی غلط، غیرشرعی اور غیرفطری بات نہیں۔ ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کو دن دھاڑے کچھ فاصلے پر بھینس نظر نہیں آتی تو ہلال کہاں سے نظر آئیگا۔ اگر یہی ہلال شرعی ہو، جو پاکستان میں دکھتا ہے ، ٹی وی چینلوں کی زینت بنتاہے ، کوئی نہیں بھی دیکھنا چاہے تو آسانی سے نظر آنے کیلئے تیار ہوتا ہے، بس خالی آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کی دیر ہوتی ہے تو پھر ایسے ہلال کو دیکھے کیلئے کمیٹی کا بوجھ سرکار کو اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ایک مرتبہ محکمہ موسمیات پاکستان نے اعلان کیا کہ کراچی میں چاند نظر آنے کا امکان ہے، اسلام آباد میں ابرآلود موسم کی وجہ سے بالکل نہیں تو میڈیا پر دکھایا جارہا تھا کہ مفتی منیب الرحمن کراچی سے اسلام آباد چاند دیکھنے پہنچے۔ وہاں بادلوں میں چاند تلاش کرنے کے مناظر دکھائے جارہے تھے۔
اتفاق سے مجھے اور اشرف میمن کو اسلام آباد کسی کام جانا پڑا تھا، ائرپورٹ پر یہ ہلال کمیٹی والے حضرات بھی مل گئے، ایک ہی جہاز میں ہماری ٹکٹیں تھیں۔اشرف میمن نے مفتی منیب الرحمن سے سوال جواب کئے۔ اشرف میمن نے کہا کہ اگر چاند یہاں اور سعودی عرب کا اوقات کی وجہ سے ایک دن کافرق ہے تو یہاں اور امریکہ میں اوقات کا زیادہ فرق ہے، پھر زیادہ دنوں کا فرق ہونا چاہیے ۔ مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ ’’یہ پاکستان ہے انجوائے کرو‘‘۔ یہ پرویزمشرف کے دور کی بات ہے۔ جب پوری دنیا میں چاند ایک ہے تو عالمی اسلامی خلافت ہو تو بھی ایک دن میں عید ہوگی ، پھر عالمی اسلامی خلافت کے قیام سے پہلے کیا عالم اسلام کی ریاستیں ایک دن کے روزے، عیدالفطر اور عیدالاضحی پر متفق نہیں ہوسکتے ہیں یا تمام ریاستوں کو مرغے پالنے کی شرعی نہیں سیاسی ضرورت ہے؟۔ صرف اقدام کی ضرورت ہے ورنہ یہ کوئی مشکل کام نہیں، جس سے عالم اسلام میں اتحاد کی ایک نئی روح دوڑے گی۔
احادیث میں مسلمانوں کی جماعت ، خلافت کے قیام اور امام زمانہ کو پہچاننے پر زور دیا گیا ہے، ایک وقت تک کا مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت پر احادیث کو فٹ کرتا تھا، جمعیت علماء اسلام کی ایک بڑی مرکزی علماء کانفرنس میں ان کا یہ خطاب بھی سینٹر مولانا صالح شاہ قریشی کے کزن مولانا نیاز محمد قریشی نے ’’آذان انقلاب‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا، میرے بھائی جمعیت علماء اسلام کے سابقہ مرکزی شوریٰ کے رکن اور مولانا مفتی محمودؒ و مولانا فضل الرحمن کے عقیدتمند پیر نثار شاہ نے کہا تھا کہ ’’میرا پندرہ سالہ مطالعہ ایک طرف اور مولانا فضل الرحمن کی یہ تقریر دوسری طرف تو اس کا وزن زیادہ ہے‘‘۔ جب میں اپنی کتاب ’’ اسلام اور اقتدار‘‘ میں ان احادیث کی وضاحت اور مولانا فضل الرحمن کی تردید کرتے ہوئے لکھا کہ’’ عاقل کیلئے اشارہ کافی ہے ‘‘ تو مولانا نے پھر اپنی جماعت کوان احادیث کا مصداق نہیں ٹھہرایا۔
ویسے تو علامہ اقبالؒ نے امامت کا مسئلہ بالکل حل کردیا ہے، تاہم امامت کے شرعی مسئلے پر عالمی کانفرنس بلائی جائے تو ہلال سے بڑھ کر سورج کی طرح سب ایک امام پر نہ صرف اتفاق ہوسکتا ہے بلکہ امت مسلمہ فتنوں اور فرقہ واریت کی زد سے بھی نکل سکتی ہے اور انسانیت کا بھی بھلا ہوسکتا ہے۔ شیعہ سنی خلفاء وائمہ پر اختلاف تاریخ میں ایسی حیثیت رکھتا ہے جیسے دن گزرنے کے بعد رات کو سایہ کی لیکروں پر جھگڑے کی فضاء کھڑی کی جائے لیکن اتحادواتفاق اور وحدت آج بھی ہوسکتی ہے۔

اداریہ نوشتہ دیوار ، ماہ اکتوبر 2016

درباری ملاؤں اور علماءِ حق کے درمیان ہمیشہ سے بہت بڑا فاصلہ رہا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک طرف علماءِ حق نے اپنی استعداداورصلاحیت کے مطابق کسی بھی مصلحت کا لحاظ رکھتے ہوئے کلمۂ حق بلند کیا ہے، حق کی آواز اُٹھائی ہے ، دین اور ایمان کی پاسداری کی ہے تو دوسری طرف علماءِ سوء نے ہر دور میں باطل کا ساتھ دیکر اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں تاریخ کے ہر دور میں اپنا بدترین کردار ادا کیا ہے۔ اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں ہمیشہ مسلمان ریاستوں اور حکمرانوں نے ہی اپنے مفادات کے تحت اپنا کردار ادا کیا ہے اور علماءِ سوء نے درباری بن کر چند ٹکوں کی خاطر انکا ساتھ دیا ہے، علماء حق نے مزاحمت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ہر دور میں عتاب میں رہے ہیں لیکن جیت علماءِ سوء کی اسلئے رہی ہے کہ ریاست اور حکمران ان کیساتھ تھے اور یوں اسلام بتدریج ہردور میں نبیﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اجنبی بنتا گیا ہے۔
مسلکی اختلاف حق اور باطل کی بنیاد پر نہیں رہے ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ،حضرت امام شافعیؒ ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ ، حضرت امام جعفر صادقؒ ، امام اوزاعیؒ ، محدثینؒ ، امام ابن تیمیہؒ اور دیگر ائمہ مجتہدینؒ کے درمیان مسلکی اختلاف حق وباطل اورعلماء حق وعلماء سوء کا اختلاف ہرگز نہیں تھا۔آج مملکت خداداد پاکستان میں فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلاف میں عقائد ومسالک کو ماحول کے تناظر میں جس طرح دیکھا جاتا ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک حقائق کو نہ سمجھا جائے ،عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا اور اختلافات کے دلدل اور بیرونی سازشوں بدترین بھنور سے ہم نکل نہیں سکتے۔
اس مرتبہ عیدالاضحی کے موقع پر تین عیدیں منائی گئیں، اہل تشیع کے بوہری فرقہ نے سعودیہ عرب سے ایک دن پہلے عید کے اجتماعات منعقد کئے۔ دوسرے دن عالمِ اسلام کے سب سے بڑے اجتماع ’’حج‘‘ کے دوران سعودیہ اور عرب ممالک کی عید تھی اور تیسرے دن پاکستان اور دنیا بھر میں پاکستان کے مطابق امریکی صدر اوباما وغیرہ نے مسلمانوں کو عید منانے پر مبارکباد دی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایران، پاکستان اور امریکہ ، برطانیہ اور یورپ میں ایک عیدالاضحی ایک دن میں شرعی طور سے منائی جاتی ہے تو کیا عرب کیساتھ ایک دن میں عیدمنانا شریعت اور مسلک کیخلاف ہے یا اسکے پیچھے کوئی دوسرے عوامل ہیں؟۔ وزیراعظم نوازشریف نے عیدالفظرتو پاکستان سے ایک دن پہلے لندن میں سعودیہ کیساتھ منائی تھی اور عید الاضحی امریکہ میں سعودیہ کی بجائے ایک دن بعد پاکستان کیساتھ منائی۔آخر ایسا کیوں ہے؟۔
دوماہ دس دن بعد وزیراعظم نوازشریف کا عقیدہ و مسلک بدل گیا؟۔ یا یہ ایک اتفاق تھا اور یا پھر اسکے پیچھے معروضی حقائق کچھ اور ہیں؟۔ امریکی پارلیمنٹ نے بل منظور کیا کہ ’’ 9/11کا مقدمہ ورثاء کے مطالبہ پر سعودی حکومت پر چلایا جائے ‘‘۔ جس کو اوباما نے ویٹو کردیا، امریکی صدارتی امیداوار ڈونلڈ ٹرمپ کا تو ایجنڈہ ہی مسلمانوں کیخلاف ہے لیکن ہیلری کلنٹن نے بھی بالکل واضح کردیا کہ’’ اگر میں صدر ہوتی تو اس بل کو ویٹو نہ کرتی‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’’ اسامہ بن لادن کی طرح ابوبکر البغدادی کا پیچھا کرکے ہمیں ماردینا چاہیے تھا‘‘۔ اسامہ بن لادن پر سب سے پہلا حملہ بھی کروز میزائل کے ذریعہ سے صدرکلنٹن کے زمانے میں ہوا تھا، سعودی حکومت ، داعش اور دیگر معاملات کے حوالہ سے امریکہ کا متوقع لائحۂ عمل کیا ہے؟۔ اس کا اندازہ سعودیہ کے علماء کونسل کی طرف سے یہ فیصلہ کہ ’’ کسی مسلمان فرقے کو کافر قرار دینا جائز نہیں اور تکفیری لوگوں کی بھرپور مذمت ہے‘‘۔ اگرکہہ دیا جائے ’’دیر آید درست آید‘‘ تو بھی ٹھیک ہے مگر ایک عمر گزاردی انتظار انتظار کرتے۔
سعودیہ کی ریاست چاہتی تو یہ اقدام بہت پہلے ہوسکتا تھا۔ پہلے شیعہ سنی اور دیگر اختلافات کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ بھی کارفرما تھا، آج مسلم ریاستوں کے ڈھانچوں کو تباہ کرکے مسلمانوں کے بچے، بوڑھے، جوان، خواتین وحضرات کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ افغانستان، عراق ، لیبیا، سوڈان اور شام وغیرہ سے جو لوگ پناہ گزین بن کر تباہ وبرباد ہورہے ہیں، اس کا سب سے بڑا ذمہ دار امریکہ اور مسلمانوں کے داخلی مسلکانہ، فرقہ وارنہ اور نظریاتی اختلافات ہیں۔ شیعہ سنی،حنفی اہلحدیث اور دیوبندی بریلوی اختلافات کے علاوہ القاعدہ اور داعش کے اختلاف کو ختم کرنا وقت کا تقاضہ اور مسلمانوں اور انسانیت کے بہترین مفاد میں ہے۔موجودہ دور میں مسلم ریاستوں کے اصحابِ حل و عقد کا سب بڑا فرض یہ بنتا ہے کہ گماشتہ علماء سوء کو استعمال کرکے جتنا اب مزید اسلام کا حلیہ بگاڑنے کیلئے علماء سوء کو ٹشو پیپر کی طرح سے استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ علماء حق اور علماء سوء کے کردار کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے بجائے حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دیا جائے۔
موجودہ اسلامی بینکاری کو مفتی تقی عثمانی، مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اسلامی قرار دیا اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی ، احسن المدارس گلشن اقبال کراچی کے علماء و مفتیان سمیت دیگر علماء ومفتیان نے اس کو سود اور ناجائز قرار دیا ہے۔ پاکستان اور دیگر ملکوں کی ریاستی پالیسی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح آج کے دور میں بھی درباری علماء سوء کو سپورٹ کررہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی بڑی خبر اخبارات میں شہ سرخی بن کر عیدالاضحی کے دن سامنے آئی کہ ’’ اسٹیٹ بینک نے اسلامی بینکاری کو سود سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ درباری علماء سوء کے چہرے پر لگتا ہے کہ’’ ناک نہیں ہے، ورنہ کٹ جاتی، یہ اسٹیٹ بینک نے ان کی ناک پر مکا رسید کیا ہے ‘‘۔ وہ صرف اپنے معاوضہ کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ان کو عزت بھی کوئی چیز نہیں لگتی ہے۔
پہلے اسلامی بینکنگ نے حکومت سے اسلام آباد،لاہور موٹروےM”2 کی بجائے جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ کراچی سودی قرضہ پر لیا تھا، اب موٹروےM”2 کے بدلے امریکہ میں ایک ارب ڈالر اسلامی بانڈز کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سودی نظام کو اسلام کا نام دینے کی آخر ضرورت کیا ہے؟، جب انمیں کوئی فرق بھی نہیں ہے۔ ہماری شرعی عدالت سپریم کورٹ کے تابع ہے اور سودی نظام کو عالمی سطح پر اسلام کے نام سے سودی نظام کے تابع کرنے کی ضرورت کیا تھی،جبکہ یہ کسی بحران کے نتیجے میں بھی نہیں ہے، پھر کیوں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسلام کا حلیہ بگاڑا جارہاہے۔ یہ شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث کے مسائل نہیں بلکہ نام نہاد شیوخ الاسلام اور مفتیان اعظم اپنے مکروہ چہروں کو مسلکوں کا سہارا لیکر چھپانے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔
دارالعلوم کراچی سے شائع ہونے والی کتابوں میں شادی کے رسوم میں لفافہ کو سود، احادیث کے مطابق 70گناہ،70وبال اور70وعیدوں کے معاملات گنوا دئیے گئے ہیں ، جن میں کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ پورے کراچی کا ستیاناس ہے جو شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی سے یہ نہیں پوچھتا ہے کہ عوام پر شادی کے رسم میں لفافہ لینے دینے کے معاملہ پر اپنی ماں سے زنا کا فتویٰ لگانے والو! تم نے دنیا بھر میں سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیکر عوام سے بڑا گناہ نہیں کیا ؟۔ کیا کراچی کے دیگر دیوبندی مدارس کی کوئی اوقات نہیں ہے؟۔ جو سب مل کر تمہارے خلاف یک زباں و سربکف ہیں؟۔فرقہ پرستی کا نقاب کب تک اور کس طرح سے چلتا رہے گا، یہ سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔پہلے درباری مفتیان ہوا کرتے تھے اب مولانافضل الرحمن بھی درباری بن گئے ہیں۔

اشرف میمن پبلشر نوشتہ دیوار کا تبصرہ

شیعہ سنی فرقہ وارانہ اور دہشت گرد تنظیموں تحریکِ جعفریہ و سپاہ صحابہ ،سپاہِ محمداور لشکرِ جھنگوی، جہادی اور دہشت گرد تنظیموں نے پنجاب ہی سے جنم لیا تھا،
پورے پاکستان میں فوج نے دہشت گردی کیخلاف بھرپور اقدامات کئے لیکن پنجاب کوضربِ عضب (نبیﷺ کی تلوار) کی ضرورت پر بحث مباحثہ رہا
پنجاب کو قدرت نے مذہبی آزادی کی بھرپور انسانی و اسلامی فطرت ودیعت فرمائی، پنجاب کے برعکس پاکستان کے دیگر صوبے اس نعمت سے محروم ہیں،
اقبالؒ نے پنجابی مسلمان کوکہا مذہبی جدت پسند، یہ شاخ نشیمن سے اترتا بہت جلد، تحقیق کی بازی ہوتو شرکت نہیں کرتا، ہوکھیل مریدی کا توہرتابہت جلد

article_panjab

تقسیم ہند کے وقت زیادہ مظالم پنجاب کے سکھوں نے مسلمانوں پر ڈھائے۔ والدین اور اساتذہ سے مار کھانے والے کی سخت مزاجی فطری ہوتی ہے

پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان اپنی بیتی کے نتیجہ میں نظریاتی مخالفین اور اقلیتی صوبوں سے وہ سلوک نہ کریں،جو سکھوں نے انکی امی اور ابو کیساتھ کیاتھا

women-force-pml-ptiAshraf-Memon-Octob2016

پاکستان کے دیگر صوبوں اور علاقوں کی بہ نسبت پنجاب کی آبادی زیادہ ہے۔ پنجاب کی عوام محنت کش، ذہین، جذباتی، سیاسی شعوراور مذہبی لحاظ سے پاکستان میں ’پہلے نمبر‘ کی حقدار ہے۔ علامہ اقبالؒ ، پیر مہر علی شاہ ؒ گولڑہ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ،فیض احمد فیضؒ ، حبیب جالبؒ ،نوابزادہ نصراللہ خانؒ ،شاکر شجاع آبادی اور دیگر شخصیات نے جنم لیا۔ میرا مقصد ایسے بنیادی نکات کو سامنے لانا ہے جن سے پنجاب میں خاص طورسے اور پاکستان میں عام طورسے مذہبی اور سیاسی شعور بیدار ہو۔ علامہ اقبالؒ کولوگ سیاسی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو مذہبی سمجھتے ہیں ، حالانکہ علامہ اقبالؒ سیاست سے زیادہ مذہب کے علمبردار تھے اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ مذہب سے زیادہ سیاست کے علمبردار تھے، یہ حقیقت سمجھنے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ جب برطانیہ کی سلطنت پر دنیا میں سورج غروب نہ ہوتا تھااور دنیا بھر میں بالعموم اور برصغیر پاکستان میں برٹش امپائر کی غلامی کیخلاف جد وجہد جاری تھی تو علامہ اقبالؒ نے دس سال، دس مہینے، دس ہفتے، دس دن ، دس گھنٹے، دس منٹ کیا دس سیکنڈ بھی برطانیہ کیخلاف جدوجہد میں برطانیہ کی قید میں نہ گزارے مگر سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے دس سال جیل میں گزاردئیے۔ بخاریؒ نے چیخ چیخ قائداعظم ؒ محمد علی جناح کو مشرقی اور مغربی پاکستان کا نقشہ جلسۂ عام میں کلہاڑی کی مدد سے سمجھایا کہ دونوں کے درمیان بھارت حائل ہوگا، ہماری بری بحری اور فضائی افواج ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گی، بنگال پر بھارت قبضہ نہیں کرسکتا، اسے الگ آزاد ملک بننے دو، پورا پنجاب لے لو، بمبئی تک سندھ لے لواور کشمیر کا مسئلہ سب سے پہلے حل کرو، یہ برطانیہ کی سازش ہے، ’’لڑاو اور حکومت کرو‘‘ کی جس پالیسی کے تحت انگریز نے قبضہ کیا، وہ پھر دوہرایا جائیگا اور ان کی بات آج سوفیصد درست نکلی۔ ان کی بات مان لی جاتی تو آج ہمارے حالات بھی بہت مختلف ہوتے، جنرل ایوب خانؒ کے زمانہ میں پاکستان نے جرمنی کو قرضہ دیا تھا، اس ملک کو بھٹو نے دولخت کیا، جنرل ضیاء الحق نے باقی ماندہ کو بھی ذبح کردیا۔نوازشریف اور زرداری کمپنیوں نے اس کی کھال اتاری، عمران اور طاہر القادری اس کوتکہ بوٹی کرنے کے درپے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاست کو بنیاد سے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بہت بڑا المیہ تھا کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے سیاسی نظریات کو پنجاب میں دفن کیا گیا اور انکے مذہبی کردارکا روپ قوم کے سامنے رہا، نوابزادہ نصراللہ خانؒ نے بھی اپنی سیاست کا آغاز ’’مجلسِ احرار‘‘ سے کیا تھا، اسی کے تربیت یافتہ تھے،جب وہ جنرل ضیاء کی زندگی میں ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) میں بیش بہا قربانیاں دینے کے باجود پہلی مرتبہ جنرل ضیاء کے جانشین غلام اسحاق خان کے مقابلہ میں صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے تو سرکار اور اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ جماعتوں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے علاوہ اصول پسندی کی علمبردار جماعت ’’پیپلزپارٹی ‘‘ کی بے مثال قائدآنسہ بینظیر بھٹو نے بھی نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلہ میں غلام اسحاق خان کو ووٹ دئیے۔ مولانا فضل الرحمن کی ضرورت نہ ہوگی ورنہ اس کو بھی شہد چٹا دیا جاتا تو اپنے اصول بھول جاتا، یہ الگ بات ہے کہ غلام اسحاق خان نے پھر نوازشریف کی کرپشن بھی برداشت نہ کی اور اس وقت دونوں کی کرپشن کو بھانپ کر دونوں کی حکومتوں کو چلتا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وضاحت فرمائی ہے کہ’’ دین میں جبروزبردستی نہیں ہے‘‘۔ پنجاب کا یہ بہت بڑا کمال ہے کہ اللہ نے اس کو یہ حسین فطرت ودیعت کی ہے کہ دین میں زبردستی والے معاملہ کا تصور نہیں سمجھتے۔علامہ عنایت اللہ مشرقی، غلام احمد قادیانی، غلام احمد پرویز، مولانامودوی اورلاتعداد قسم کے مولوی ، پیرفقیر اور مذہب کے روپ میں رہنے والوں کو پنجاب کے وسیع دامن میں پناہ ملی۔ علامہ عنایت اللہ مشرقی سیاست اور عدم تشدد کے علمبردار تھے ،اسلئے ان کا صرف نام ہی باقی رہا۔ غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز کی ذہنیت خالص مذہبی تھی اسلئے ان کو پنپنے کا خوب موقع ملا۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی غیرسیاسی خالص مذہبی ہیں اسلئے یاجوج ماجوج کی طرح بڑھ رہے ہیں اور انتہاپسند انہ اور احمقانہ نظریات کی ترویج کررہے ہیں۔ جماعتِ اسلامی نے اپنے مذہبی روپ کو سیاست میں بدل ڈالا، تو اس کادائرہ سکڑگیا اور مخصوص حلقوں اور افراد تک محدود ہوگئی، رہی سہی جو ساکھ تھی اور قاضی حسین احمدمرحوم نے طبلے بجاکر تباہ کی۔ جن کو روس کے گورباچوف سے جماعتِ اسلامی کو تباہ کرنے کیلئے تشبیہ دی جاتی ہے۔
مذہب کیلئے پنجاب کی زمین زرخیز اور سیاست کیلئے سخت اور بنجر اسلئے ہے کہ سیاست میں مذہب کی طرح رواداری کی فضاء نہیں ،مذہبی جماعتِ اسلامی سیاسی بن گئی تو پنجاب کے کالجوں ا ور یونیورسٹیوں سے ملک بھر میں بدترین تشدد کی روایت ڈال دی۔ تحریک انصاف کے عمران خان کیساتھ ایم کیوایم اور طالبان نے کوئی ذاتی زیادتی نہیں کی لیکن کراچی یونیورسٹی میں عمران خان کیساتھ اسلامی جمعیت طلبہ نے جو کچھ کیا ، اس کا میں چشم دید گواہ ہوں، میں اپنی گاڑی میں عمران خان کو لیکر گیا تھا، وہاں سے جس طرح الٹے پاؤں بھاگنا پڑا، میری گاڑی کا شیشہ بھی توڑدیا گیا۔ پنجاب کے اندر تو عمران خان کو سنا ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ والوں نے الف ننگا کردیا تھا۔ جماعت اسلامی کے رہنما امیرالعظیم کی اپیل پر بھی نہیں چھوڑا جارہا تھا جس پر انہوں نے شرمندگی کا بھی اظہار کیاتھا۔

force-pml-ptiAshraf-Memon-Octob2016

عمران خان نے رائیونڈ جلسہ میں مذہب کا ہتھیار استعمال کیا کہ’’ میں نے ایمان سیکھ لیا، پہلے میرے اندر ایمان نہ تھا ، ایمان آنے کے بعد اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا‘‘۔ پنجاب میں تحقیق کا مادہ نہیں ورنہ اسی محفل میں کہہ دیتا کہ’’ جس پرویز مشرف کو کرسی اور پیسہ کیلئے امریکہ کی غلامی کا نام دیکر گالی دی، جب امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاکر افغانستان میں امریکہ کی حمایت کی تھی تو اس وقت تم نے پرویزمشرف کی بھرپور حمایت کی تھی، جہاں تک وزیرستان میں فوج بھیجنے کی بات ہے تو وزیرستان پاکستان ہی ہے جہاں سے معصوم بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتاتھا، اگر شمالی سے پہلے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن راہِ نجات کو سیاستدانوں کی بھرپور حمایت حاصل ہوجاتی تو شرپسند عناصر کا صفایا ہونے میں اتنی دیر نہ لگتی، عمران خان نے تو ضربِ عضب کے بعد قبائلی پناہ گزینوں کو سہارا دینے کے بجائے مہینوں دھرنے کے مجرے میں بھنگڑے ڈالے۔اور پنجاب کے گلوبٹوں اور پولیس کو طالبان کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ آرمی پبلک ا سکول کے واقعہ کے بعد دھرنے سے باعزت جان چھڑانے کیلئے ضرب عضب کی حمایت کا اعلان کیا۔
یہ احمقانہ بات ہے کہ بے ایمان پاک فوج امریکہ سے ڈرتی ہے باایمان عمران خان نہیں ڈرتا۔ اللہ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مخلوق کے ظلم سے نہ ڈرا جائے۔ نبی کریم ﷺ شبِ ہجرت اسلئے چھپ کر نکلے کہ ظالم مشرکوں کا خوف تھا۔ اگر عمران خان نے یہودی جمائما خان سے نئے طرز کا ایمان سیکھا ہے تو اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت اور معجزات دئیے ، اسکے باوجود اپنی قوم کو لیکر فرعون کا ایسا مقابلہ نہیں کیا کہ اللہ کے علاوہ ظالم کا ڈر نہیں تھا بلکہ فرعون سے بھاگے اور فرعون پیچھا کررہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسکو ڈبودیا۔ قرآن کی تعلیمات کیخلاف عوام کو بیوقوف بنانا چھوڑ دیا جائے ۔ رائیونڈ کی تبلیغی جماعت 80 سال سے محنت کررہی ہے کہ ایسے لوگ پیدا کئے جائیں جن کا اللہ پر انبیاء کرام ؑ سے بھی بڑھ کر ایمان ہو مگرآج تک وہ خود بھی ایسا ایمان پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی اپنے رنگ میں دعوت اسلامی بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔
مولانا مودودیؒ نے مذہبی معاملات سے دامن چھڑا کر سیاسی میدان کا رُخ کیا اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے مذہب کی طرف توجہ دی، مولانا مودودی نے مسئلہ لکھا کہ دوبہنیں آپس میں جڑی ہیں تو قرآن کی آیت کے منافی اس کا ایک ہی آدمی سے نکاح کردیا جائے ، بخاریؒ نے اس کو قرآن کے خلاف سازش اور من گھڑت جھوٹ قرار دیا تھا۔ ختم نبوت کی تحریک میں گرفتاری دینے پنجاب سے کراچی کارکن آتے تھے، مساجد کے آئمہ تو پولیس کو اطلاع دینے کی دھمکی دیکر بھتہ مانگتے تھے، سرکاری ٹانگے مفتی اعظم مفتی شفیع ؒ و مولانا احتشام تھانوی ؒ تحریک کے درپردہ مخالف تھے۔

force2-pml-ptiAshraf-Memon-Octob2016

پنجاب کی زرخیز سرزمین سے قرآن و سنت کی تفہیم کا معاملہ شروع ہو تو کوئی جماعت بنانے کی ضرورت نہیں پڑیگی بلکہ عوام الناس ، تمام فرقے اور جماعتیں اپنی گروہ بندیوں کو بھول کر اسلام کی نشاۃ ثانیہ پر آمادہ ہونگی اور ایک بہترین فکر کو عملی شکل دینے میں پنجاب کی طرف سے پہل ہوگی تو تمام صوبے بھی اس کو قبول کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ سیاسی لوگوں نے ایک دوسرے کیخلاف ڈنڈے اسلئے اٹھا رکھے ہیں اور کلہاڑیوں کی نمائش اس لئے ہورہی ہے کہ انکا ضمیر ، پارٹیاں اور قیادت ایکدوسرے سے مختلف نہیں۔ سب کو چند ٹکے بھی ملتے ہیں اور قیادت کیلئے وفاداری کے اظہار سے سیاسی موسم بھی گرما دیا جاتا ہے۔ دوسرے صوبے والے خوفزدہ نہ ہوں فرقہ واریت ، جہادی تنظیموں ، مذہبی انتہا پسندی ، شدت پسندی اور دہشت گردی کی طرح سیاسی شدت پسندی کی وبا نہیں پھیلے گی۔ پنجاب کی مشہور کہاوت ہے کہ ’’جنہاں دے کاردانڑے،انہاں دے کملے وی سیانڑے‘‘ یعنی امیروں کے بیوقوفوں کو سمجھدار سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان کیساتھ معراج محمد خان تھے تو عمران خان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اب جہانگیر ترین اور علیم خان کی وجہ سے عمران خان بھی ہوشیار ہوگیا ہے،ایسی سیاست اور اسکی سوچ پر لعنت بھیجنی ہوگی اور یہ بات یاد رکھی جائے کہ میرا اپنا تعلق بھی تحریک انصاف سے رہا ہے۔ میں نے قومی اسمبلی کیلئے الیکشن بھی کراچی تحریک انصاف کی ٹکٹ پر لڑا ہے ، بہت قریب سے معاملات دیکھے ہیں۔
پنجاب میں خواتین کیخلاف تشدد کا بل پیش کرکے مولانا فضل الرحمن کے احتجاج پر غائب کردیا گیا ، حالانکہ قرآن میں خواتین کے نام پرایک سورت کا نام ’’النساء‘‘ ہے، جس کی آیت 19 اور 20 کو دیکھا جائے تو کسی بل کی ضرورت بھی پیش نہیں آئیگی۔ اللہ نے پہلے عورت کو شوہر کی مملوکہ بننے کی نفی کی ہے اور اسکو شوہر کا گھر چھوڑ کر الگ ہونے کی اجازت دی ہے اور پھر مرد کو ایک بیوی چھوڑ کر دوسری سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے جس میں خواتین کے حقوق کی بھرپور وضاحت کی گئی ہے، سید عتیق الرحمن گیلانی نے عمران خان کے رہبر مولانا مفتی سعید خان صاحب کے سامنے ان آیات کی وضاحت بھی کی جن کے بارے میں غلط تفاسیر لکھ کر معاملہ بگاڑا گیا ہے۔ قرآن کا ترجمہ بالکل واضح ہے اورجو تفسیریں لکھی گئی ہیں ان میں ترجمے کو مسخ کرکے اسلام کو اجنبی بنادیا گیا ہے۔
اگر عورت شوہر کی مملوکہ نہ ہو اور اس کو شریعت نے شوہر کو چھوڑنے کی اجازت دی ہو تو کوئی شوہر اس پر بے تحاشہ مظالم تو بہت دور کی بات ہے کوئی ایسا رویہ بھی نہیں رکھے گا جو علیحدگی کا سبب بن سکے۔ پنجاب ، پاکستان اور ہندوستان و افغانستان ایران و عربستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں قرآن کی اس آیت کے ذریعے سے خواتین کو تحفظ حاصل ہوگا اور انقلاب کیلئے بہت بڑی بنیاد بنے گا۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ تمام فرقوں کے مراکز ہی بھارت میں ہیں ، جہاں سے فرقوں اور جماعتوں کی ڈوریں بندھی ہوئی ہیں ان بیچاروں کو خود بھی معلوم نہیں کہ قرآن و سنت کی موجودگی میں وہاں بندھا رہنا بالکل فضول ہے۔
مفتی شاہ حسین گردیزی نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کو پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف ؒ کا واحد مرید قرار دیا ہے جس کا تعلق علماء دیوبند سے ہے۔ انہوں نے مولانارشید احمد گنگوہیؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ’’ مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ وہ نبی اور مہدی نہیں لیکن صالح مسلمان ہے‘‘ جس پر کفر کا فتویٰ لگانے میں بنیادی کردار سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا تھا جن کے ہاتھ پر دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کشمیریؒ سمیت سب نے امیر شریعت کے نام سے بیعت کی۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں میں بہت ساری عبارات بھی یکساں ہیں، جنکے حوالے بھی مفتی سید شاہ حسین گردیزی نے دئیے ہیں۔ ویسے یہ بات درست ہے کہ علماء دیوبند نے بریلوی مکتبہ فکر کے اعلیٰ حضرت کی طرح کفر کے فتوؤں کی فیکٹریاں نہیں کھول رکھی تھیں اور اگر سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ یہ کردار ادا نہ کرتے تو شاید مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار آج خود بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت و مہدویت کے دعویٰ سے دستبردار ہوکر مسلمانوں میں شامل ہوتے۔ قائد اعظم کا جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی دیوبندی شیخ الاسلام نے پڑھایا لیکن بریلوی اور قادیانی اس سے گریزاں رہے سیاسی و مذہبی شعور وقت کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب کے ایما پر بھارت کے مولانا منظور نعمانی کے استفتاء کے جواب میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کی طرف سے اہل تشیع کیخلاف ایک تفصیلی فتویٰ لکھا گیا جسمیں قرآن کریم کی تحریف ، صحابہ کرام کو کافر اور عقیدہ امامت سے ختم نبوت کا منکر قادیانیوں سے بدترکافر قرار دینے کی وضاحت کی گئی۔ مفتی ولی حسن ؒ ایک مجذوب ٹائپ کے انسان تھے ، مولانا یوسف لدھیانویؒ نے بھی فرمایا تھا کہ حاجی عثمان صاحبؒ کیخلاف میری طرف فتویٰ منسوب کرکے لکھا گیا ہے۔ اب سعودی عرب کے علماء کی شوریٰ نے اس قسم کے فتوؤں کی مذمت کردی ہے اور اس سے پہلے ’’اتحاد تنظیمات المدارس‘‘ کے نام سے شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی ، اہلحدیث کے مدارس اسلام کے نام پر اکھٹے ہوئے تھے۔
پنجاب کی عوام کو فرقہ واریت کیخلاف ٹھوس ثبوت کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے اور اسلامی احکامات کے حوالے سے پنجاب کے لوگ بالکل بھی دوسروں کی طرح سے گدھے پن اور کتے پن کا مظاہرہ نہیں کرینگے۔ عتیق گیلانی کے استاد مولانا بدیع الزمان ؒ کا تعلق رائیونڈ سے تھا اور انکے صاحبزادگان نے تین طلاق کی درست تعبیر کو سراہا ہے، بہت بڑی بات یہ ہے کہ سید عتیق الرحمن گیلانی کی حمایت اسکے باوجود تمام مکتبۂ فکر والے سر عام کررہے ہیں کہ سب کی جڑوں اور بنیادوں کو ہلا دیا ہے، یہ قرآن وسنت ہی کی طاقت کا کرشمہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے پیرحاجی عثمانؒ کو اپنے خلفاء اور مرید وں سمیت اپنے مکتب کے دوست علماء ومفتیان نے نشانہ بنایا اور ٹانک کے تمام دیوبندی سرگردہ علماء کی طرف سے کھلی حمایت کے باوجود طالبان نے بریلوی سمجھ کر ان کے گھر تباہ کو کیا۔
عمران خان جب کرکٹ کھیل رہا تھا تو عتیق گیلانی نے تحریک شروع کی تھی، سال با مشقت سزا کالے قانون 40ایف سی آر کے تحت ہوئی چارماہ کی قید 1991ء میں کاٹی۔ عتیق گیلانی نے 1979 سے چیچہ وطنی،لیہ ، کوٹ ادو میں سکول کے دوران ہی ساتویں سے دسویں تک مذہبی فرقوں کے خدوخال اور سیاست کے داو پیج کی شدوبد حاصل کرلی ۔ بھٹواور مفتی محمودکے متوالے و مخالف دو بڑے بھائی تھے۔ 82ء میں میٹرک کے امتحان سے پہلے کوٹ ادو سے لیہ اور پھر رائیونڈکی بودوباش کاتجربہ کرکے چیچہ وطنی کے دوست سے ملتے ہوئے کراچی میں مذہبی تعلیم و حاجی عثمان سے تصوف کی تربیت شروع کی، اور84ء میں طالبِ علمی کے دوران سہراب گوٹھ میں وزیراور محسود طلبہ کی ذہن سازی کیلئے جمیعۃ اعلاء کلمۃ الحق کے نام سے وزیرستان سے رسوم و رواج کی جگہ اسلامی قانون سازی پر فیصلوں کیلئے تحریک کا آغاز کیا۔ قید میں اور92ء میں قید سے رہائی کے بعد کتابوں کا سلسلہ جاری رکھا، شکارپور اور ملتان سے مشکلات کے دور میں تحریک جاری رکھی۔ پھر اپنے علاقہ میں پبلک سکول اور کراچی سے اخبار ضرب حق کا اجراء کیا، پھر کچھ عرصہ تک خاموش رہنے پر مجبوری کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ یہ محنت پنجاب میں ہوتی تو تناور درخت کی صورت اپنالیتی۔ کافی عرصہ سے پنجاب میں دفتر قائم کرنے کا ارادہ تھا، ہم کسی روایتی مخصوص جماعت بنانے کی بجائے قومی سظح کی تحریک چاہتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف نے مولانا فتح ..

جنرل راحیل شریف نے ستار ایدھی کو کراچی میں عزت دی۔ ٹانک کے بے لوث مولانا ، امن وامان کے ضامن کو بھی زبردست عزت دینی چاہیے ۔
میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے تحریک انصاف کے ایوب بیٹنی سے کہا ’’ یہودی کے ٹکٹ پر کھڑے تھے؟‘‘ ہم نے بتایا مولانا فتح خان کی مسجد دفتر تھا
جب خانہ کعبہ پر مہدی کے نام سے قبضہ ہوا، تو ٹانک شہر میں علماء، لیڈر اور رہنما مشن ہسپتال ٹانک کو لوٹنے کیلئے بپھرے تھے، مولانا فتح خان ؒ نے روکا

جنرل راحیل نے ستار ایدھی کو انسانیت کی بلاامتیاز خدمت پر قومی اعزاز سے دفنانے کی عزت بخشی ، عمران خان کو کراچی کے ڈیفنس میں پلاٹ دیا تو ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ حضرت مولانا فتح خان صاحبؒ کا انتقال ہوا ، جنوبی وزیرستان اور ضلع کیلئے ٹانک شہر مرکزی حیثیت کا حامل ہے اگر مولانا فتح خان صاحبؒ نہ ہوتے تو ٹانک روز روز بلوؤں کا شکار ہوتا، مختلف ادوار میں مختلف مواقع پر بلوائی آتے اور شہر کے امن ومان کو خراب کردیتے، اقلیتوں کا فرقہ واریت، مذہب اور قوم قبیلہ کے نام پر جینا دوبھر کردیا جاتا، لوٹ مار ہوتی اور لوگوں کو دہشتگردی کا عام نشانہ بنایا جاتا لیکن سب تخریبی قوتوں کے سامنے مولانا فتح خان کی شخصیت ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح حائل رہی ہے۔ مولانا مفتی محمودؒ کے دور سے مولانا فضل الرحمن تک ٹانک میں جمعیت کے ووٹوں کی اکثریت رہی۔ مگر جمعیت کی مرکزی قیادت نے کبھی تومولانا فتح خانؒ کو ایک مرتبہ جیتوانے اپنا کردار ادا کیا ہوتا۔ مولانا فضل الرحمن نے حکومت کی اشیرباد حاصل کی تو سرکاری سطح پر ڈسٹریکٹ خطیب کا عہدہ مولانا فتح خان سے چھین کر غیرمعروف ملا کو دینے میں بھی شرم وحیاء اور غیرت و حمیت سے کام نہ لیا، اپنے باپ کی دوستی کا بھی کوئی لحاظ نہ کیا۔اپنی اخلاقی حیثیت کھونے کے بعد مولانا فتح خانؒ کو سامنے لایا۔
مولانا فتح خان ؒ نے مولانا فضل الرحمن کی منافقانہ چال چلن کو بھرپور طریقہ سے سمجھا مگر حدیث کے مصداق کہ المؤمن غر کریم ’’مؤمن دھوکہ کھانے والا معاف کرنے والا ہوتا ہے‘‘ ہمیشہ عفو و درگزر ، چشم پوشی اور غلطیوں پر گرفت کرنے کے بجائے صرف نظر سے کام لیا۔ ٹانک میں بریلوی، اہل تشیع ، اہلحدیث اقلیت اور دیوبندی مکتبۂ فکر والے اکثریت میں ہیں، عیسائی بھی ہیں۔ اگر مولانا فتح خان تخریب کاری والی ذہنیت رکھتے یا تخریب کارانہ ذہنیت کیخلاف ایک مضبوط بند کی طرح سے زبردست رکاوٹ نہ ہوتے تو ٹانک میں اقلیتوں کیساتھ وہ سلوک ہوتا کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے شیعہ اور پنجاب میں عیسائیوں کی بستیاں جلانے کو دنیا بھول جاتی۔ شرو خیر کا مادہ ماحول میں گھٹتا اور بڑھتا ر ہتا ہے، ہرجگہ خیرکے نمائندے اور شر کے عناصر موجود ہیں مگر جب قیادت خیر کے نمائندوں کو نہیں شر کے عناصر کو مل جاتی ہے تو ماحول میں دنگا وفساد اور شرو فتنے کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔
ڈیڑھ سوسال پہلے اپرکانیگرم جنوبی وزیرستان میں شرپسند قیادت نے ہلا بول کر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع کے تمام افراد کو مرد، خواتین، بوڑھے، جون اور بچے سب کو قتل کردیا تھا اور اتفاق سے ایکا دکا شیر خوار بچے رہ گئے تھے جن کی وجہ سے آج انکے ایک دو گھرانے موجود ہیں۔ لوگ سمجھتے ہونگے کہ ماتمی جلوس اور کالے کپڑوں کی وجہ سے کانیگرم کے باشندوں نے ایسا کیا ہوگا، لیکن یہ بات بالکل بھی نہ تھی، اسلئے کہ مارنے والوں نے کافی عرصہ بعد تک ماتم اور کالی قمیصوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ یہ صرف ایک برادری کو لوٹ مار کے بہانے قتل کرنے کا جذبہ تھا ۔ عوام سمجھے گی کہ کانیگرم جنوبی وزیرستان کے لوگوں نے کیا اپنا اجتماعی ضمیر کھو دیا تھا؟۔ نہیں نہیں ہرگز نہیں، میرے والد پیرمقیم شاہؒ نے تقسیم ہند کے وقت بھی بنوں تک سے آنے والے ہندو خاندانوں کو لوئرکانیگرم شہر جنوبی وزیرستان میں کافی عرصہ تک پناہ دی تھی۔ جب حالات ٹھیک ہوگئے تو وہ لوگ بحفاظت گئے اور ابھی قریب کے دور میں کوئی غریب ہندو بسوں میں سفر کرکے میرے والد صاحبؒ سے ملنے آیا، جس کی ملاقات بڑے بھائی پیر جلال شاہ مرحوم سے ہوئی، دور کے مسافر کی دوسرے بھائیوں کو پتہ نہ چلنے کی وجہ سے خاطر خواہی مہمان نوازی نہیں ہوسکی جس کا سب کو بہت افسوس ہوا۔ بھارت جاکر بھی معذرت کرلیں تو سکون نہ ملے گا، اللہ یہ موقع پھر فراہم کردے تاکہ اس کا گلہ دور کردیں۔
وزیرستان اور ٹانک بڑی معتبر شخصیات اور ان کی عمدہ روایات کی وجہ سے امن وامان ، سکون و خوشحالی اور بھائی چارے و رواداری کی آماجگاہ رہے ہیں۔ ٹانک کے ڈگری کالج میں کسی پروفیسر کا پتہ چلا کہ وہ مرزائی ہے تو بڑی مشکل سے وہ جان بچانے میں کامیاب ہوا، ٹانک کے جذباتی عوام کی رہنمائی کیلئے بڑی شخصیات نہ ہوتیں تو پاکستان بھر میں اس کی شہرت فتنہ وفساد، جنگ وجدل اور ہنگامی آرائی کے حوالہ سے پہلے نمبر پر ہوتی۔ مولانا فتح خان ؒ ایک عرصۂ دراز سے ایک بلند مینار ، تناور اور پھلدار درخت کی طرح تھے۔ علمی اعتبار سے میں نے کوئٹہ سے لاہور، سوات سے کراچی تک سفر کرکے بڑے نامی گرامی علماء کرام کی زیارت، ملاقات اور شرفِ تلمذ حاصل کیا ہے ، مدینہ یونیورسٹی میں تخصص( اسپشلائزیشن) پڑھانے والوں کی علمی حیثیت کو ملاقات کرکے بھی دیکھا ہے مگر مولانا فتح خان نوراللہ مرقدہ کی طرح کسی میں علمی قابلیت، معلومات کا وسیع ذخیرہ اور سمجھ بوجھ نہیں دیکھی۔ انکی وفات کے دن نمائندہ نوشتۂ دیوار خیبر پختونخواہ شاہ وزیرخان کافی عرصہ بعد خوش قسمتی سے وہاں تھے اور جنازہ میں بھی شریک ہوئے۔ اسکے فون پر صاحبزادے سے تعزیت بھی کرلی ، نیٹ پر ان کا کوئی نام اور تصویر نہ تھی۔مولانا فضل الرحمن پر رقم قربان کرنے کا اعلان نوازشریف نے کیا تھا جس کا افتتاح کرتے وقت مولانا فتح خانؒ کو بھی اپنی ساکھ کیلئے ساتھ لیا ہوگا، بہرحال قارئین کے ساتھ اخبار کی خوش قسمتی ہے کہ مولانا مرحومؒ کی ایک تصویر مل گئی جو مولاناؒ کی شخصیت کی ایک جھلک ہے۔
مولانا فتح خانؒ سے بہت یادیں وابستہ ہیں، راز ونیاز کی گفتگو ہے، جس سے بہت گوشوں کی نقاب کشائی ہوتی ہے، حوصلہ افزاء ہیں، مولاناؒ کے توسط سے علماء حقانی سے عقیدت ومحبت بڑھتی اور علم وسمجھ کے ابواب کھلتے ہیں۔ مولاناؒ کا دور ایک طویل عرصہ پر محیط ہے، مولاناؒ نے ایک واقعہ کا ذکر کئی مرتبہ کیا کہ ’’بہت عرصہ ہوا، میں ٹانک سے کانیگرم گیاتھا، والد صاحب مرحوم پیر مقیم شاہ نے کہا کہ ہم یہ دوست بیٹھے ہیں، دعوتوں میں یہ موجودافراد سب شریک ہونگے، سات دنوں کایہ شیڈول ہے، میں نے کہا کہ کل مجھے واپس جانا ہے، تو پیرصاحب نے فی البدیہہ کہا کہ اللہ آپ کو زندگی بھر نہ ٹھہرائے، ہمارے شغل کو خراب کردیا۔ وہ دن تھا اور آج کے دن تک کہ پھر کانیگرم میں رات نہیں گزاری ہے‘‘۔

pir_muqeem_shahنیٹ پرہمارے پڑوسی فہیم محسودولد خیربادشاہ مرحوم نے اپنے دادا اور ہمارے والد کی بہت پرانے دور کی تصویر لگائی ۔ بیچ میں دائیں سے بائیں جانب ان کی اور بائیں سے دائیں عصا ء اور گھڑی والی والد مرحوم کی تصویر ہے۔یہ وہ لوگ تھے جن کی وجہ سے علاقے کی عزت اور امن قائم رہنے کا سکہ چلتا تھا، مولانا فتح خان کی مسجد متحدہ مجلس عمل کے وقت تحریک انصاف کا بھی آفس رہاتھا جب لوگ یہودی کہاکرتے تھے۔ وزیراعلیٰ خٹک ٹانک کا نام ’’فتح آباد‘‘ رکھ دے تو بہتر ہوگا۔

ڈاکٹر طاہر القادری پر تبصرہ

قرآن میں مشاورت کے بعد اللہ پر توکل کرنے کا حکم ہے،طاہرالقادری نے کہا کہ راحیل سے بھیک نہ مانگونگا

پھر یورپ سے بھیگ مانگنے نکلا، عمران خان سے پہلے رائیونڈ کا اعلان کیا پھر شریعت و جمہوریت کیخلاف قراردیا

پھر کہا عمران نے مشاورت نہ کی تھی،پھر کہا کہ ہم شرکت کرسکتے ہیں، پھر کہا علامتی شرکت بھی نہ کرینگے۔ واہ واہ

عقل ہوتی تو کہتا کہ ’’ عمرہ جاتی میں چائے کی دعوت قبول کرنے کا اعلان کرکے ہمارے حوصلے کوشکست دیدی‘‘

’’ رائیونڈ طالبان کا نظریاتی قبلہ رہاوہاں ہم نہیں جاسکتے‘‘۔ اتنی گلاٹیاں تو پاکستانی سرکس میں چینی بھی نہ کھا تا ۔

 

ڈاکٹر طاہرالقادری نے دنیا دیکھی ، ایک منظم جماعت ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘ اور تحریک منہاج القرآن کے بانی ہیں اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں، اس کے باوجود انقلاب کو بدنام کرنے کیلئے جو تماشہ طالبان نے لگا رکھا تھا، آخر کار وہ تو شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ و سیدا حمدبریلوی شہیدؒ کے پیروکار تھے اس لئے قربانی بھی دی لیکن اسلام کو عملی طور پر نافذ کرنے سے بھی بدنام کردیا، اب ڈاکٹر طاہرالقادری اسلامی انقلاب کے نظریہ کو بھی داؤ پر لگانے کیلئے میدان میں اتراتھا، ہربات میں قلابازی کھانے کو انقلاب کہنا عوام میں سلگتی ہوئی چنگاری کو بھجانے کے مترادف تھا۔ طلاق کے مسئلہ پر میڈیا میں تحریک منہاج القرآن والے عوام کو آگاہ کریں تو بھی لوگوں میں بڑی تبدیلی آئے اور ڈاکٹرطاہرالقادری کے سچے یا جھوٹے خوابوں کی تعبیر عمل میں آسکتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری یہ قضیہ بیان کرتا کہ تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق کا جاتی عمرہ کے بجائے رائیونڈجانے اور پھر نوازشریف کے گھرچائے پینے کی دعوت کا اعلان ہمیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کرگیا۔ اگر نوازشریف کے گھر نہیں جانا تھا اور نواز شریف چائے کی دعوت دیتاتو پھر ہم کہاں کھڑے ہوتے؟۔ رائیونڈ تو طالبان کے اکابرین کا مرکز ہے، عمران خان کیلئے کوئی خطرہ نہیں لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسی تبلیغی جماعت کی وجہ سے طالبان پر بھی یہ فتویٰ لگادیا کہ ’’ جہنم کے کتے ہیں انکومارنا انسانیت اور شریعت کی خدمت ہے‘‘ ۔
ہماری ریاست، حکومت اور عوام کی قیادت جبتک اچھے ہاتھوں میں منتقل نہ ہو، ہر مداری اورجوکرقائدبالکل بازاروں میں منجن فروش،سنیاسی باوا اور بنگالی باباوغیرہ کے روپ میں اپنی سیاسی دکان چمکانے کی پریکٹس جاری رکھے گا۔ تاہم جسطرح بھٹو نے فیکٹریوں اور ملوں کو بحقِ سرکار ضبط کیا، جس سے قوم وملک کو بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس طرح سیاسی مداریوں پر پابندی لگانے سے قوم وملک کو نقصان پہنچ جائیگا۔ تاہم ریاستی اداروں کو کرپشن وغیرہ میں ڈاکٹر عاصم حسین و اسحاق ڈار اور نواز شریف و زرداری میں تفریق چھوڑنی ہوگی اور جس دن بڑے بڑوں پر یکساں گرفت کی گئی تو پوری قوم ساتھ ہوگی، فوج کو نواز شریف سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے

عمران خان کی رائیونڈ مارچ پر تبصرہ

گوجرانوالہ میں لیگی غنڈوں نے گھیرا تو جاوید ہاشمی کی بہادری کام آئی، یہ شیخ رشید کو جگہ پر چھوڑکر بھاگ نکلا تھا

شیخ رشید اسلئے ڈاکٹر طاہرالقادری اور انکے ساتھیوں کی تعریف کرتا تھا، عمران کا امپائر سے بھی اعتماد اُٹھ گیا

جنرل راحیل شریف نے اپنا موڈ نہ دیکر بڑا اچھا کیا ہے،جس کتیا کوا قتدار کا جھانسہ دیاگیا ریلہ پیچھے لگتاہے

قائدین کو ماحول کی برائی نے لیڈر بنادیا ہے، تخریب کار پیسوں پر اورماحول کا فائدہ اٹھاکر اپنا رنگ بدلتے ہیں

عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی گردن اور دُم امپائر کی انگلی اُٹھنے کی خواہش میں بڑی ہلتی رہیں مگرجنرل راحیل نے ان کو اپنا موڈ نہیں دیا اور بہت اچھا کیا۔ اس کی وجہ سے پہلے بھی معاشرے میں خرابیاں جنم لیتی رہی ہیں۔ پنجاب کے سمجھداروغیرتمند و بہادر لوگوں میں یہ شعور بیدار کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ عوامی جذبے کا فائدہ اٹھاکر فرقہ واریت، طالبان کو کھلے عام سپورٹ کیا گیا لیکن پھر منہ موڑا گیا، خیر یہ قائدین میں شعور کا فقدان ہوسکتا ہے، وہ بھی عوام ہی تو ہیں، ماحول کی برائیوں نے ان کو لیڈر بنادیا تو یہ الگ بات ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جس کو حکومت دینے کا جھانسہ دیا، وہ بے نسل کتیا کی طرح کتوں کے ریلوں کی قیادت کرنے لگی، یہی قائدین کی قیادت کا اصلی راز ہے کم عقلوں میں اورکوئی صلاحیت نہیں ہے۔
کیا نواز اورشہبازنے زرداری کے سوئس اکاؤنٹ میں60کروڑ ڈالرکیخلاف آواز ISIکے کہنے سے اٹھائی؟۔ جیو جنگ کے صحافی سہیل وڑائچ سے یہی کہا تھا، اپنے بچوں کا پتہ بھی نہیں کہ پانامہ لیکس میں کتنی رقم ہے؟۔ سیاستدانوں کے چہرے پر شرم و حیاء کے کوئی آثار نہیں ہیں، دولت مابدولت کے کھیل سے عوام کا بیڑہ غرق کردیں۔ پورا ملک انتہاپسندی ، شدت پسندی ، دہشتگردی کی زد میں تھانوازشریف ،عمران خان اسکی حمایت میں پیش پیش تھے، پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ بلوچستان نے دھماکے کے متأثرین سے کہا تھا کہ ’’ آنسو پونجھنے کیلئے ٹشو پیپر کے ٹرک بھیج دوں؟‘‘۔ سیاستدان اپنا چہرہ اور تخریب کار اپنا رویہ بدلتے رہتے ہیں۔
افغانستان میں روس آیا تو تخریب کار خاد کے ایجنٹ بن کر دھماکے کرتے رہے ۔ جنوبی وزریرستان کے مرکزی شہر کانیگرم کو عمران خان اپنا ننھیال قرار دیتا ہے، جہاں برکی قبیلہ رہتا ہے،جہاں کسی ملکی وغیرملکی کا کردار نہ تھا، تخریب کار پھر بھی رات کو بارود نصب کردیتے، صبح نماز کیلئے اٹھنے والے اور پانی لانے والی خواتین وحضرات کو خوامخواہ میں دھماکوں کا شکار کرنا چاہتے تھے۔ پھر شہر کی ٹینکی بن گئی تو اس میں ڈی ٹی ٹی ڈال دی اور پھر چوریاں بڑھ گئیں، پھر ڈکیتی اور اغواء کی واردتیں شروع ہوئیں۔ پھر طالبان کے دور میں تخریب کاروں، چوروں ، ڈکیتوں کا روپ بدلا اور طالبان بن گئے۔ کرایہ کے یہ ٹٹو اب اسکے ہیں جو انکو پیسہ دے، کتیا کتوں کا کھیل ختم کرکے انسانیت ہونی چاہیے۔

ایڈیٹر اجمل ملک کی تحریر

اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی سب سے بڑی نعمت اپنی کتاب ’’ قرآن مجید‘‘ اور اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے رسول اللہ ﷺ کی اسوۂ حسنہ ’’سنت‘‘ کا تحفہ دیا ہے۔ علماء کرام اور مذہبی طبقات کی یہ بہت بڑی مہربانی ہے کہ مختلف ادوار میں آندھی آئے یا طوفان انہوں نے بڑا زبردست کارنامہ انجام دیا ہے کہ’’ہر دور میں ایمان کے ٹمٹاتے ہوئے دیا کو جلائے رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے‘‘۔ جس طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ عرب سے تین وجوہات کی وجہ سے محبت رکھو، ایک یہ کہ قرآن عربی میں ہے، دوسرا یہ کہ میں عربی ہوں اور تیسرا یہ کہ جنت کی زبان عربی میں ہے‘‘۔ نبیﷺ کی وجہ سے صحابہؓ اوراہلبیت سے محبت بھی احادیث میں ایمان کا تقاضہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح سے مذہبی طبقات سے انسیت اور محبت رکھنا بھی ایمان کا اولین تقاضہ ہے۔ خواہ یہ مذہبی طبقات ایک دوسرے سے تعصب، نفرت، عداوت اور انسانیت و اسلام کے منافی کتنے ہی جذبات واحساسات رکھتے ہوں۔ ان کی اپنے مسلک و فرقہ سے محبت ایمان اور دوسرے سے عداوت رکھنا اپنے ماحول میں تو ایمان واسلام ہی کا تقاضہ ہوتا ہے۔ یہی تو ان کی اصل ،بنیادی اور جوہری خوبی ہے۔ اللہ ہی کیلئے محبت وعداوت ہو تو اس سے بڑا ایمان کیا ہوسکتا ہے؟۔ صحابہ کرامؓ میں بھی اختلاف رہا ہے، جنگیں برپا ہوئی ہیں، ہزاروں لوگ ان میں قتل ہوئے ،رسول اللہﷺ نے فرمایاتھا کہ ’’ میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرو‘‘۔ جن عظیم لوگوںؓ نے اپنے کانوں سے حجۃ الوداع کی یہ نصیحت سنی ، وہ بھی ایک ماحول کی وجہ سے خود پر قابو نہ پاسکے۔ جن دس صحابہؓ نے جنت کی بشارت پائی تھی، حضرت علیؓ ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے بھی جنگوں میں ایک دوسرے کیخلاف حصہ لیا۔ حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ نے اسی میں شہادت پائی۔

cartoon-nawaz-sharif-Octob2016
ہمارے ہاں انتہا پسند اور شدت پسند مذہبی طبقات کو حقائق کی طرف متوجہ کیا جائے توپھر یہی لوگ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ بنیں گے۔ مذہبی طبقات کو عوام میں پذیرائی بھی اسلئے نہیں ملتی کہ ان لوگوں میں مثبت سوچ کا فقدان اور منفی سوچ کا رحجان ہے۔ جبکہ سیاستدان عوام کو شعور دینے کی بجائے مفادات کی سیاست کرتے ہیں۔ سیاسی لیڈر شپ مذہبی جذبہ اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی ہے۔افغانستان نیٹو کی افواج نے قبضہ کرلیا، طالبان اور عوام کو دربدر کردیا، خاندان تباہ ہوئے۔ بچوں، خواتین، بوڑھوں اور سب ہی بموں، دھماکوں اور بمباری کا نشانہ بنے یا بارود کی گن گرج سے لرزے، ترسے اور بدحال ہوئے۔ بے شعور اور عقل سے عاری عوام نے جانوں اور عزتوں کی تباہی اور بربادی کا احساس کرکے کبھی تواپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایاہوتا مگر نہیں لیکن کسی افغانی کے مرتد ہونے کی خبر سے تمام افغان نے زبردست احتجاج کیا۔ اگر پاکستان کے علماء اور مذہبی طبقات عمران خان کی سابقہ بیگم جمائماخان کیخلاف ارتداد یا غیرمسلم سے شادی کے نام پر تحریک چلاتے تو تحریک انصاف کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ملتا۔ افغانستان میں نیٹو افواج کو سپلائی دینے والی کمپنیوں کو 75% کی رعایت پر مال ملتا تھا اور بعض کمپنیاں نیٹو کو سپلائی دینے کی بجائے مارکیٹ میں بڑا منافع رکھ کر وہ مال فروخت کردیتی تھی اور انکے کارندے نہیں چاہتے تھے کہ جن کمپنیوں سے مال لیا ہے اس کی معائنہ ٹیم افغانستان جاکر صورتحال کا پتہ لگائے، اسلئے عوام کو اکسانے کیلئے یہ ڈرامہ بھی رچایا جاسکتا تھا کہ کوئی مرتد ہوگیا ہے یا قرآن جلایا گیا ہے، یا گستاخی کی گئی ہے۔
مذہبی جذبے اور سیاست کو اپنے مالی اور تجارتی مفادات کیلئے استعمال کرنا بہت بڑا المیہ ہے۔ قرآن کریم نے اس کی جڑیں کاٹی ہیں۔ ایسے لوگوں کو بدترین جانور کتااور گدھا قرار دیا ہے۔ نوازشریف نے مذہبی جذبے سے ڈاکٹر طاہرالقادری کو غارِ حرا تک کندھے پر اٹھایا اور شہبازشریف نے طاہرالقادری کے جوتوں کے تسمے باندھنے اور کھولنے تک امریکہ کے سفر میں خدمت انجام دی تھی، یہ مذہبی جذبے اور خوبیوں کی بہترین دلیل ہے۔ اگرچہ شعور بیدار ہونے کے بعد اس جذبے کو بے شعوری ، جہالت اور اندھیر نگری کا اب نتیجہ کہا جائے، مولانا فضل الرحمن نے اپنی سیاست کی شروعات اپوزیشن سے کی تھی اور اب سوشل میڈیا پر اس کی تصویر کیساتھ یہ مذاق چل رہا ہے کہ ’’ ہر حکومت اپنے ورثہ میں دوسری حکومت کیلئے غربت، بے روگاری اور مولانا فضل الرحمن کو چھوڑ کر جاتی ہے‘‘۔یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ’’ہماری سیاست سے متأثر ہوکر امریکی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی صدارتی امیدوار ی سے ثبوت دیا ہے کہ سیاست کے ذریعہ سے بہترین تجارت بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان ؒ نے کہا کہ ’’پاکستان میں نظریاتی سیاست کو تجارت میں بدلنے کا اصل بانی نوازشریف ہے‘‘۔ اب توماشاء اللہ مولانا فضل الرحمن بھی شانہ بشانہ ہیں جب مولانا فضل الرحمن اپوزیشن میں ہوتے تھے تو ان کو امت میں شعور بیدار کرنے کے سوا ملتا کیا تھا؟۔ آخر ان کی بھی ماشاء اللہ جان ہے، کسی کریانہ سٹور میں کھانے ، پینے کی اشیاء و اجناس ملتی ہیں۔ بطور مثال چوہا اگر دکان میں ایک معزز مقام رکھتا ہو، اور اس کیلئے کھانے کے تمام راستے بند ہوں اور صرف ترازو میں وزن ڈالنے کی اس کو اجازت ہو تو اپوزشن میں جانے کی مثال ایسی ہو ، جیسے لوہے کے وٹے میں چوہا اپناوزن ڈالے،حکومت کے پلڑے میں جان ڈالنے کی مثال اشیاء خورد ونوش کے پلڑے میں جانے کی طرح ہو تو چوہا بلکہ کوئی بھی جاندار، جانور اور انسان کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالے گا؟۔ اگر لوہے کے وٹے کے پلڑے میں جانے سے دکاندار کا نقصان ہو اور کھانے پینے کی اشیاء میں وزن ڈالنے سے حکومت اور موصوف دونوں کا فائدہ ہو تو باڑ میں جائے عوام کی ایسی کی تیسی، انکے مفاد کا کیا ہے اور کس نے خیال رکھنا ہے؟۔ حکومت اپنے مفاد کی خاطر تگڑے قسم کے لوگوں اور بڑی ہستیوں کو اپنے ساتھ رکھے تو یہ مذہب اور سیاست کی سوداگری ہوگی جو ہوتی رہی ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ علماء امت میں دین کی حفاظت کے امین اور محافظ ہیں جو دین کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں جبتک یہ دنیا گھس نہ جائیں اور حکمرانوں سے خلط ملط نہ ہوجائیں، جب یہ دنیا میں گھس گئے اور حکمرانوں سے مل گئے تو انہوں نے اللہ سے خیانت کی۔ (عصر حاضر حدیث نبویﷺ کے آئینہ میں : مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ )
سید عتیق الرحمن گیلانی نے جس طرح سے درسِ نظامی کے نصاب میں قرآن کی تعریف اور طلاق کے مسئلہ میں حقائق سے پردہ اٹھایا ہے ، اگر عتیق گیلانی کے پاس حکومت، مدرسہ یا دنیاوی کوئی بڑا منصب ہوتا تو بڑے بڑے لوگ یقیناًاسلام ، قرآن و سنت، شریعت وفطرت اور وقت کے تقاضوں اور دنیا کے ماحول کو سمجھ کر پاکستان سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کرنا ایک مذہبی فرض قرار دیتے۔ عتیق گیلانی کے خاندان نے اپنے دور میں کربلا کی قربانی دی۔ عتیق گیلانی نے فرقہ وارانہ تصورات کی کامیابی سے بیخ کنی کرکے قرآن وسنت کو جس انداز میں اجاگر کیا ، مدارس عربیہ، بنوری ٹاؤن ،مکتبِ دیوبند اور فقہ حنفیہ کے اکابراور اصاغرکیلئے یہ باعثِ فخر ہونا چاہیے تھا کہ ہماری فضائیں اس عظیم شخصیت کی گزر گائیں رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریمؒ بیرشریف لاڑکانہ سے لیکر جمعیت علماء اسلام ٹانک تک کے بہت سے اکابر واصاغر نے سید گیلانی کی تائید کی تھی، جمعیت علماء پاکستان کے پروفیسر شاہ فریدالحقؒ سے لیکر بہت سے بریلوی مکتب کے اکابر واصاغر نے سنی تحریک کے ثروت اعجاز قادری تک نے تائید کی ہے۔پروفیسر غفور احمدؒ ، مولانا عبدالرؤف اتحادالعلماء کے صدر ، جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی صدر مولانا عبدالحق بلوچؒ سے مفتی علی زمان تک بہت لوگوں کی تائید حاصل رہی ہے۔ پروفیسر غفور احمدؒ کا بیان ضربِ حق کی زینت بنا تھا کہ سید عتیق گیلانی نے فرقہ پرستی کا مسئلہ حل کردیا، اب فرقہ پرست گدھ کی طرح پہاڑوں کی چوٹی پر بیٹھ کر اس کی مردار لاش کو نوچتے رہیں۔
اہلحدیث کے بہت سے اکابرین مولانا عبدالرحمن سلفی، مفتی عبدالرشیدؒ ، مولانا ارشد وزیر آبادی اور مولانا محمد سلفی سمیت بڑی تعدادمیں تائید کرتے ہیں۔ اہل تشیع کے علامہ طالب جوہری، علامہ حسن ظفر نقوی، علامہ عباس کمیلی، علامہ حسن ترابیؒ ، ڈاکٹر حسن رضوی، علامہ کرار نقوی وغیرہ بڑی تعداد میں اکابر واصاغر تائید کررہے ہیں۔ کالعدم سپاہ صحابہ اہلسنت و الجماعت کے مرکز جامع مسجد صدیق اکبر کے خطیب اور کراچی کے امیر علامہ ربنوازحنفی اور پشاور کے رہنماؤں تک کی تائیدات شائع ہوئی ہیں اور ہوتی رہی ہیں۔
اصل مسئلہ عتیق گیلانی کی تائید یا تردید کا نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت کے مطابق عائلی اور معاشرتی قوانین سے لیکر ملکی و بین الاقوامی میں اسلام اور فطرت کے مطابق روح پھونکنے کا ہے۔ اگر میاں بیوی کے تعلقات، حقوق، نکاح اور خلع و طلاق کے حوالہ سے قرآن و سنت کے واضح احکامات سے روگردانی ہے ، خاندانوں کو تباہ کرنے اور حلالہ کی لعنتوں سے قرآن وسنت کے مطابق علماء ومفتیان اور دانشور و سیاستدان اور جج و ریاستدان اپنی عوام کا خیال نہیں رکھ سکتے ہیں تو ان سے کیا خیر کی توقع رکھی جائے گی؟۔ عمران خان نے جیسے باہوش و حواس قانونی پراسس سے جمائما خان کو طلاق دی ، ویسے ریحام خان کا معاملہ ہوتا تو عوام کو رہنمائی ملتی، ریحام خان نے کہا کہ ’’میری طلاق شرعی نہیں ‘‘ ، مسیج پر لندن میں اترتے وقت طلاق طلاق طلاق کے الفاظ کو شہرت ملی۔ مریم نواز کے حوالہ سے افواہوں کی گردش ہے ،یہ مسئلہ مفتیان کی وجہ سے بگڑا یا حکمران قانون اور شریعت کی پاسداری نہیں کرتے؟، اسے گھر کا مسئلہ کہنا غلط ہے۔ طلاق کے گھمبیر مسئلہ کی قرآن و سنت سے وضاحت بڑا کارنامہ ہے۔