پوسٹ تلاش کریں

مذہبی تعلیمات کیلئے بہت بگاڑ کے اسباب کیا تھے؟

پاکستان اسلام کے نام پر بنا، اسلام سے بڑھ کر انسانیت کیلئے کوئی قانون اور مذہب نہیں، البتہ مذہبی طبقے نے اسلام کا حلیہ ایسا بگاڑ دیا ہے کہ اگرافہام وتفہیم کا ماحول پیدا کیا جائے تو تمام مذہبی طبقات اپنی خود ساختہ منطقوں سے نکل کر اسلام کا فطری دین قبول کرسکتے ہیں۔ مغل اعظم اکبر بادشاہ نے وقت کے شیخ الاسلام اور درباری علماء کی مددسے اسلام کا حلیہ یوں بگاڑ اکہ ’’علماء نے فتویٰ دیاکہ اولی الامر کی حیثیت سے دین کے احکام کی تعبیر وتشریح آپ کا حق ہے، جو نظام دینِ اکبری میں آپ کی مرضی ہو، آپ کااختیارہے، مسلم امہ، ہندو، بدھ مت اور سارے مذاہب کیلئے قابلِ قبول اسلامی احکام کی تعبیر کااختیار آپکے پاس ہے، یہ ظل الٰہی کا اختیار ہے جو اللہ نے خود آپکو دیا ہے‘‘۔ آج مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن سودی نظام کو جواز کی سند دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں فتویٰ پیش ہو تو سودی نظام کو اسلام قرار دینے کی جرأت خود کو گنہگار کہنے والے ارکان بھی نہ کریں۔
اکبر کے دین الٰہی کیخلاف ہمارے شہر کانیگرم جنوبی وزیرستان کے پیر روشان نے پختون قبائل کو متحد کرنے کی تحریک چلائی اور اسکے اقتدار کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی۔ مغل بادشاہوں کی سفاکی مثالی تھی،شیخ احمدسرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ نے اکبر کے سامنے جھکنے اور سجدۂ تعظیمی سے انکار کیامگر مغلیہ دورِ اقتدار ابوالفضل فیضی اور ملادوپیازہ جیسے درباری علماء کی بدولت اسلام کے نام پر چلتا رہا۔ مغلیہ کے بہترین بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے جو فتاویٰ عالمگیریہ پانچ سو علماء کرام کی مدد سے مرتب کیا، جن میں شاہ ولی اللہؒ کے والد شاہ عبدالرحیمؒ بھی شامل تھے۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں لکھا ہے کہ ’’ بادشاہ پر کوئی حد نافذ نہیں ہوسکتی ۔ قتل، چوری، زنا، ڈکیتی وغیرہ کے جرائم کرے تو بادشاہ سلامت ہے، اسلئے کہ بادشاہ خود حد کو نافذ کرتا ہے تو اس پر کوئی کیا حد نافذ کرسکتا ہے؟۔ بادشاہ سزا سے بالاتر ہے‘‘۔ اس سے بڑھ کر شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتاب ’’تقلید کی شرعی حیثیت ‘‘ میں علماء کو مقام دیا ہے۔جس میں یہ تک لکھا کہ ’’ عوام علماء کی تقلیدکے پابند ہیں، عوام براہِ راست اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت نہیں کرسکتے ، آیت میں علماء کے آپس کا اختلاف مراد ہے۔ اگر علماء گمراہ کریں، تب بھی عوام پر اطاعت ضروری ہے، عوام پر ذمہ داری عائد نہیں ‘‘۔ مفتی تقی عثمانی نے کھلے عام قرآن کی آیت میں معنوی تحریف کا ارتکاب کیا اور جن احادیث کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے تووہ اپنے دلائل کا بھی کھلے عام مذاق ہیں۔ شیعہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے اسلئے گمراہ ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امام سے اختلاف جائز نہیں تو حضرت عمرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث قرطاس میں اختلاف کی جرأت کیسے کی؟۔ مفتی تقی عثمانی نے شیعوں کے عقیدۂ امامت سے بڑھ کر علماء کرام کی اندھی تقلید کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی یہ تعریف کی ہے کہ ’’ اللہ کی آیات پر بھی اندھے اور بہرے ہوکر گر نہیں پڑتے‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ کی ایسی تقلید نہیں کی تھی جس کی تعلیم مفتی تقی عثمانی نے علماء ومفتیان کے حوالہ سے دی ہے، بنیادی معاملات قابلِ غور ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے قرآن کا ترجمہ کیا، علماء کو احادیث کی طرف متوجہ کیا اور انگریز کے مقابلہ میں مقامی حکمرانوں کو متوجہ کیا ۔انگریز نے قبضہ کیا ، 1857ء کی جنگِ آزادی ناکام ہوئی، سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھ دی، انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کی کوشش کی، دارالعلوم دیوبند نے اسلامی تعلیمات کو تحفظ دینے کی مہم شروع کی۔ ہند میں بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث مکاتب بن گئے۔ مولانا عبداللہ غزنوی کا تعلق افغانستان سے تھا، شیخ نذیر حسین دہلوی اہلحدیث کے شاگرد ،افغانستان سے بار بار جلاوطن ہوئے جواحراری رہنما مولانا داؤد غزنویؒ کے دادا تھے، میرے اجداد سیدامیرشاہؒ بن سید حسن ؒ سید اسماعیل ؒ بن سید ابراہیمؒ بن سید یوسف ؒ مذہبی گھرانہ تھا۔ سید یوسف ؒ کے دو فرزند سیدعبداللہؒ اور سید عبدالوہاب ؒ تھے، پیر روشان کے بعد کچھ برکی قبائل نے کانیگرم سے جالندھر سکونت اختیار کی، عبدالوہابؒ شاہ پور ہوشیار پور جالندھر میں مدفون ہیں ، انکی اولاد نے انکو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا فرزند لکھا ہے مگر سولویں عیسوی صدی میں فرزند کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ سید یوسف ؒ بن سید رضاشاہ ؒ بن سید محمد جمال شاہؒ ولد سیدنظام الدین شاہؒ ولد سیدمحمود حسن دیداری ؒ ولدسید محمد ابوبکر ذاکرؒ ولد سید شاہ محمد کبیرالاولیاءؒ (مدفن کانیگرم) بن سیدمحمد ہاشم ؒ بن عبداللہ.؛.؛.؛.؛.؛.؛.؛.؛.عبدالرزاق بن سید عبدالقادر جیلانیؒ بہت بڑاشجرہ ہے۔
پیرروشان کی اولاد سے ہمارے اجداد کی رشتہ داری رہی۔ بایزید انصاری پیر روشان سید نہ تھے ،انکی اولاد بھٹوزداری کی طرح سیدانصاری بن گئے۔ میری دادی بھی انکے خاندان سے تھیں، جب حضرت علیؓ کی باقی اولاد علوی ہیں اور ہم حضرت فاطمہؓ کی وجہ سے سید ہیں تو دوسروں کو بھی ماں کی وجہ سے سید بننے کا حق ہونا چاہیے۔ نبیﷺ کیلئے تو اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبین’’محمد(ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کے چچازاد علیؓ اور چچا عباسؓ کی اولاد خلافت کے منصب کی حقداری پر نہ لڑتے تو بہت اچھا ہوتا۔پیرورشان ایک انقلابی تھے اور ایک انقلابی کا خون رگوں میں گردش کرتا ہو توقابلِ فخر ہے۔ عمران کی والدہ جالندھر کی برکی قبیلے سے تھی جو پیرروشان کے بعد کانیگرم سے ہجرت کرکے آباد ہوئے۔ عمران خان اسلئے نیازی سے زیادہ ماں کو ترجیح دیتا ہے ، شہبازشریف اور آصف زرداری طعنہ کے طور پر نیازی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، حالانکہ لوہار اور زردار کی بھی نیازی سے زیادہ اہمیت نہیں ۔میرے دادا کے بھائی سیداحمد شاہ اور پرناناسیدسبحان شاہ کا قبائلی عمائدین میں افغان حکومت کیساتھ مذاکرات کا ذکر ہے،میرے ماموں سید محمودشاہ اور والدکے چچازاد سیدایوب 1914ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں زیرتعلیم تھے اور پیرسیدایوب شاہ عرف آغا جان افغانستان میں پہلے اخبار کے ایڈیٹر تھے۔
مدارس کا نصاب بہتوں نے بدلنے کی کوشش کی، مولانا ابوالکلام آزادؒ بھارت کے وزیرتعلیم تھے ، تب بھی انہوں نے علماء سے اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ ، مولانا انورشاہ کشمیری،ؒ مولانا سندھیؒ ، مولاناسید یوسف بنوریؒ ، مولانا مفتی محمودؒ اور بہت اکابر نصاب کی تبدیلی کے خواہاں رہے۔ وفاق المدارس نے سال بڑھادئیے۔ مفتی اعظم مفتی رفیع عثمانی نے کہا کہ ’’ امام مہدی کا ظہور ہونیوالا ہے، وہ حق وباطل کا امتیاز ہوگا ، ہم ترجیح کی اہلیت نہیں رکھتے‘‘۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے لکھا ’’شاہ اسماعیل شہیدؒ کے مرشد سیداحمد بریلوی ؒ اسلئے مدارس میں پڑھ نہ سکے کہ کتابوں کے حروف نظروں سے غائب ہوجاتے تھے‘‘۔ مولانا سید محمد میاںؒ نے بڑی خوبی ان کی یہ لکھ دی کہ ’’سیداحمد بریلویؒ کا تعلق تصوف سے تھا‘‘ اور جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا سید مودودیؒ نے ’’ تصوف سے تعلق کو اصل خرابی کی بنیاد قرار دیا تھا‘‘۔ مولانا سیداحمد بریلوی شہیدؒ پر بھی امام مہدی کا گمان کیا گیا، شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب منصب امامت کی اصل بنیاد یہی تھی۔
سنی اور شیعہ میں عقیدۂ امامت کے حوالہ سے بنیادی اختلاف یہ ہے کہ شیعہ امام کے تقرری کو من جانب اللہ سمجھتے ہیں اور سنی کے نزدیک امام کا مقرر کرنا مخلوق کا فرض ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے لکھا کہ ’’ رسول اللہ ﷺ نے مشاہدہ میں فرمایاکہ’’ شیعہ عقیدۂ امامت کی وجہ سے گمراہ ہیں‘‘۔ جس پر شاہ ولی اللہؒ نے غور کرکے یہ نتیجہ نکالا کہ ’’ اس کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار لازم آتاہے‘‘۔ مولانا حق نواز جھنگویؒ نے بھی اصل اختلاف عقیدۂ امامت قرار دیاتھا اورشاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالعزیزؒ نے تحفہ اثنا عشریہ کتاب لکھی اور شاگردوں نے اہل تشیع کو کافر قرار دیا۔ مگرشاہ اسماعیل شہیدؒ نے بھی منصب امامت میں ’’اہل تشیع کے بنیادی عقیدۂ امامت کی اپنے رنگ میں شدومد سے وکالت کی ‘‘۔ مولانا یوسف بنوریؒ نے شاہ اسماعیل شہیدؒ کی ایک کتاب ’’بدعت کی حقیقت‘‘ کا مقدمہ لکھا ، جس میں تقلید کو بدعت قرار دیا گیا ہے اور اس میں منصب امامت کی بھی بڑی تائید کردی۔ مولانا یوسف بنوریؒ کے والد مولانا سیدزکریا بنوریؒ نے مولانااحمدرضاخانؒ کو ہندوستان میں حنفی مذہب اور تقلید کو بچانے کیلئے خراج تحسین پیش کیا ۔ بنوری ٹاؤن کے مفتی ولی حسن ٹونکیؒ مفتی اعظم پاکستان کی طرف منسوب کرکے فتویٰ لکھاگیا جس میں شیعہ کو صحابہؓ سے انکار، قرآن کی تحریف اور عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم بنوت کا منکر قرار دیکر قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دیا گیا۔ مہدی کے بارے میں عوام ہی نہیں علماء دیوبند کے اکابر کا عقیدہ بذاتِ خود قادیانیت سے بدتر تھا اسلئے کہ ایسی شخصیت کا اعتقاد جو اپنی روحانی قوت سے پوری دنیا میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، نبوت کے دعوے سے بھی بڑھ کر گمراہی ہے، انبیاء کرامؑ کیلئے بھی ایسا اعتقاد جائز نہیں ۔مولانا سندھیؒ ، سید مودودیؒ اورعلامہ اقبالؒ نے اس غلط اعتقاد کی زبردست الفاظ میں اصلاح کی کوشش کی تھی۔
شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سیداحمد بریلویؒ کی خراسان سے مہدی کی پیش گوئی میں ناکامی کے کافی عرصہ بعد بعض نے امیرالمؤمنین ملا عمرؒ کو بھی مہدی قراردیا۔ داعش کہتی ہے کہ ملاعمر اعضاء کی سلامتی اور قریشی نہ ہونے کیوجہ سے خلیفہ نہیں بن سکتے تھے،اسلئے امیرالمؤمنین ابوبکر بغدادی کو بنادیا۔ ہم نے بھی پاکستان سے اسلام کی نشاۃثانیہ اور خلافت کے قیام کا آغاز کرنے کی بنیاد رکھ دی، تمام مکاتبِ فکر کے سینکڑوں علماء ومشائخ نے تائید بھی کی، میرے استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہماری رہنمائی کے تأثرات میں امام مالکؒ کا قول لکھا کہ ’’ اس امت کی اصلاح نہ ہوگی مگرجس نہج پر اس امت کی اصلاح پہلے کی گئی ‘‘۔ یہ بات بہت بڑے گر کی ہے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کوراجہ داہر اور ن لیگ کی حکومت کو راجہ رنجیت سنگھ سے بہت بدتر سمجھنے والے القاعدہ خود کو محمد بن قاسمؒ اور طالبان و داعش خود کو سیداحمد بریلویؒ کی تحریک سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا تو پاکستان میں فوج کیخلاف نفرت کا طوفان اٹھاتھا۔ دہشت گردی مضبوط ہوئی تو فوج سے مزید نفرت بڑھ گئی۔ جنرل راحیل کے جانے کا وقت قریب آیا تو حبیب جالب کی طرح اقبال کا شاہین نہیں بلکہ لال کرتی کا کوّا صحافی ہارون الرشید کہہ رہاہے کہ جنرل راحیل کے بارے میں فوج کے اندر کسی کا وہم وگمان بھی نہ تھا کہ یہ آرمی چیف بنے گا، جس کا مطلب چن چن کر اشفاق کیانی کی طرح ہی بنائے جاتے ہیں جو قوم کو کرپشن، دہشت گردی اور منافقت میں ڈبوکر ماردیں۔فوج کا ماضی تو ن لیگ کو بھی اچھا نہیں لگتا جس کی پیداوار ہیں ۔ حقائق کی تہہ تک اسوقت تک پہنچنے میں کامیابی نہیں مل سکتی جب تک ساری قوم اپنی غلطیوں کا ادراک نہ کرلے۔ فوج کا کام عوام کی اصلاح نہیں ہوتی، عوام کی اصلاح کیلئے سیاسی رہنمااور علماء ومشائخ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ سیاسی رہنما ٹاؤٹ اور کچھ ٹاؤٹ بننے کیلئے اپنی دم سر پر دستار سجائے رکھتے ہیں۔ مذہبی نصاب درست ہوجائیگا تو فرقہ بندی سے ہوا نکل جائیگی۔ نیک لوگوں کا کردار ضائع ہونے کے بجائے معاشرے میں اپنا رنگ لائیگا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ آپس میں لڑنے بھڑنے کا ماحول نہ رہے گا، دنیا میں ہمارے پاکستان کی فضاء اپنے ہمسایہ اور دنیا بھر کیلئے مثالی ہوگی، کشمیر کی آزادی یقینی بن جائے گی اور ہندوستان کے مسلمان عزت اور وقار کی زندگی گزاریں گے ۔ شر کی تمام قوتیں سر نگوں اور حق کے غلبے سے اسلامی خلافت کی راہ ہموارہوگی۔
حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر جیسے لوگ پاکستان کا اثاثہ ہیں، کرایہ کے سپاہی اگر ملک بچاسکتے تو بنگلہ دیش میں ہماری فوج ہتھیار کیوں پھینک دیتی؟۔یہ لوگ ریاست کے جتنے وفادار ہیں اتنے اسلام کے بھی نہیں۔ اگر ہمارے فرقوں اور ہماری ریاست کا قبلہ ٹھیک ہوجائے تو کمیونزم کا نظریہ رکھنے والے اسلام کیساتھ کھڑے ہونگے۔ مزارعین سے جاگیردار احادیث اور فقہی اماموں کے مسلک کے مطابق اپنا حصہ وصول کرنا سود سمجھیں تو بندہ مزدور کے اوقات بدل سکتے ہیں، لال خان واحد کمیونسٹ رہنما ہیں جو عملی کوشش کررہے ہیں مگر انکے منشور میں بھی تضاد ہے، ایک طرف مزارع کو مالک بنانے کی بات ہے تو دوسری طرف زمین کی اجتماعی ملکیت کی شق ہے۔ جب اپنے ملک کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان اور عزیز ہم وطنو والے فوجی جرنیل شہروں کے گلی نالیاں صاف کرینگے تو پھر قوم مان جائے گی کہ انکا کوئی ذاتی ایجنڈہ نہیں بلکہ قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ بڑے بڑوں کے پاس پیسہ نہ ہو توکونسلر کا انتخاب جیتنا بھی ان کیلئے مشکل ہے۔

اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار کا تبصرہ

نوازشریف دوباروزیراعظم بن چکاتھا، سی پیک پرویزمشرف کا کارنامہ تھا ،اگر نوازشریف نہ آتا تو مغربی روٹ بن چکا ہوتا ، تجارتی سرگرمیاں بھی شروع ہوچکی ہوتیں

ایم کیوایم کی طرح پھوٹ پڑے تو گھر کے افراد بھی نااہلی کے گواہ بن جائیں،آلو کی قیمت کم اور بجلی کی قیمت کا جھوٹ سے غلط بتانے پر زرخرید میڈیاخبر کیوں نہیں لیتا؟

سوات کے امیر مقام سے کراچی کے الطاف ، پنجاب کے لوہار اور سندھ کے زردار تک قوم پر مسلط قائدین حدیث کیمطابق روبیضہ (گرے پڑوں) سے توقع نہیں ۔

ایڈیٹرنوشتۂ دیوار اجمل ملک نے کہاکہ : نوازشریف پہلے بھی دومرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں مگر سی پیک نہیں بنایا، کسی اور کی حکومت ہوتی تو مغربی روٹ بن چکا ہوتا، ، مشرقی روٹ پر دھند کا ڈیرہ ہوتا ہے، گوادر سے لاہور کیلئے بھی مغربی روڈمحفوظ اور شارٹ کٹ تھا،پنجاب کی آبادی مزید ماحولیاتی آلودگی کی متحمل نہیں،بجائے صحن کے کم عقل گھرکی چھت پرباغ اُگارہاہے۔ وزیر اعظم کی اہلیت اور دیانتداری کیلئے دور جانے کی ضرورت نہیں،یہ دیکھا جائے کہ ملک چلانا تو بڑی بات کیا یہ اپنا گھر چلانے کے لائق بھی ہے؟، آلو کی قیمت کا اعلان کیا ’’80روپے کلو تھا، اب 25 روپے ہوگیا،یہ بھی زیادہ بتا رہا ہوں ورنہ مجھے 20 روپے بتایاگیا‘‘۔ قوم نااہل وزیراعظم کیخلاف کیوں اُٹھ کھڑی نہ ہوئی؟۔ کسی احمق ترین سے پوچھ لو، تو وہ بھی بتادے گا کہ آلو کی قیمت کا تعلق موسم سے ہے، پنجاب میں فصل کا وقت ہوتاہے تو قیمت بہت گرجا تی ہے ،جب نااہل حکمران کی وجہ سے ایکسپورٹ نہ ہو، آلو زیادہ کاشت ہو تو کسان اپنی محنت اور لگائی ہوئی رقم بھی کھودیتا ہے‘‘ جس وزیراعظم کو یہ پتہ نہ ہو، وہ کرپشن کا سہارا لئے بغیر مالدار کیسے بن سکتاہے؟، یہ بیان کیا نااہلیت کیلئے کافی نہیں؟۔ عدالت میں یہ ثبوت نہیں چلتا کیونکہ ہماری قوم اہلیت کے مفہوم سے عاری لگتی ہے۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
عوام کواہلیت کا پتہ نہیں، چھوٹے سر والی عوام نواز شریف کی طرح آلو ، بڑے سر والی عوام شہباز شریف کی طرح کدو جیسے ہیں دونوں کو آمروں نے ہی قوم پر مسلط کیا۔ بالکل جھوٹ سے بجلی کا یونٹ 18سے کم کرکے 10 روپے بتایا؟ وزیر اعظم کی نا اہلی کیلئے یہ جھوٹ کافی نہیں؟۔عدالت لوٹا ہوا پیسہ اورعمرہ جاتی محل لاہور کے متأثرین کو دلادے
ہوئے ہم جو مرکے رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا ، نہ کوئی مزار ہوتا
بے رحمانہ احتساب ناگزیر ہوچکا۔وزیراعظم کی نااہلی کیلئے اصغر خان کیس کا16سال بعد فیصلہ کافی تھالیکن سامری کایہ بچھڑا مقدس گائے کی اولاد ہے اسلئے سزا نہ ہوئی۔ عاصمہ جہانگیر کی بات سوفیصد درست ہے کہ’’ دو خدا مل جائیں تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے‘‘۔ باقی تین صوبوں میں تو 3خداؤں کا عقیدۂ تثلیث کا چل رہاہے۔ فوج ، عدلیہ اور تختِ لاہور کی جمہوریت تینوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ الطاف حسین کی تصویر پر عدلیہ کی پابندی لگانے کا کیس عاصمہ جہانگیر لڑ رہی ہیں۔اللہ نظرِ بد سے بچائے ، دہشت گردی کا گرد بھی نہ لگے لیکن محمود خان اچکزئی بیان دے تو فروغ نسیم اس بات کو فروغ دیتاہے کہ وکلاء اچکزئی کا کیس نہیں لڑینگے، کیوں؟۔ الطاف حسین کی وکالت کرنیوالاسینیٹر فروغ نسیم محمود خان اچکزئی اور الطاف حسین میں یہ تفریق اسلئے روا رکھتا ہے کہ ایک کتنے معاملات میں ملوث ہو مگر کبھی تو فوج کو بھی دعوت دیتاہے اور دوسرے کا جرم جمہوریت کا راگ الاپنا ہے؟ ۔ ریاست ماں ہے مگر تختِ لاہور اور اسٹیبلشمنٹ کوماں باپ کہنا حماقت ہے۔ دونوں کے ازدواجی تعلق سے باقیوں نے اولاد کی طرح نہیں جناہے۔ بلوچستان میں60سے زیادہ پولیس میں بھرتی ہونے والے جواں شہید ہوئے مگرجیوٹی وی کے ٹیبل ٹاک میں مباحثہ ہورہاہے کہ باپ(فوج) وزیراعظم کو جھاڑ دانٹ پلائے تو مسئلہ نہیں لیکن اگر ماں (وزیراعظم) نے باپ (فوج) کو ڈانٹ پلادی تو اس کو محلے میں پھیلانے سے گھر کی بدنامی ہوتی ہے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ بیوی تو دور کی بات یہ تو لونڈی بھی نہیں بلکہ ناجائز تعلق کے نتیجہ میں یہ سیاست میں لائے گئے ہیں۔ فوج نہ لائے تو یہ ریاست کے وزیراعظم ہاؤس میں داخل بھی نہ ہوں۔
دہشت گردوں کے سہولت کارڈاکٹر عاصم حسین اور میئر کراچی کی ضمانت ابھی مشکل سے ہوگئی۔ بلوچستان اور پختونخواہ میں تو پہلے سے فوج کا اقتدار ہے۔عمران خان کو نیا مہرہ نہ بننے دیا جائے، آرمی پبلک سکول پر حملے کیخلاف جلوس کو بھی پشاور شہر میں پولیس نے روکا جو نقاب پوشوں اور وردی والوں کا خوف عوام کے دلوں سے نکالنے کے نعرے لگارہے تھے، ملزم ڈاکٹر عاصم سے بڑا مجرم اسحاق ڈار ہے اور ملزم ماڈل ایان علی سے بڑی ملزم مریم نواز ہے۔ دہشت گردوں سے زیادہ مضبوط اسٹیبلشمنٹ کی ربڑ اسٹمپ پنجاب کے کٹھ پتلی سیاستدان ہیں اگر عدلیہ نے بچھڑے کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کردیا تو مقدس گائے بھی ذبح ہوجائے گی۔ پھر عدلیہ کو اپنے ساتھ بھی انصاف کرنا پڑیگا۔ڈوگر اور افتخارچوہدری کے معاملات کو بھی سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔ بڑے بڑے مگر مچھ دھرلئے جائیں تو قوم خوشحال ہوجائے گی۔
عدلیہ فوج سے مل جائے تختِ لاہور بھی ہل جائے سامری کا یہ بچھڑاہے غریب عوام کھل جائے
عدالت اور ریاست کی قوت مل کر بال بچھوڑے کو باہر سے بلوائیں اور پھر آئی سی ایل میں نام ڈال کرنااہلی کا حکم جاری کریں،اگر وزیراعظم نے قانونی طور سے پانامہ کی حکومت کو خط لکھنا ہے تو وزیراعظم اپنے بچوں کیخلاف انصاف نہیں کرسکتا۔ یوسف رضاگیلانی کو صدر زرداری کے خلاف خط نہ لکھنے پر نااہل قرار دیا گیا، جمہوریت برقرار رہی، فوج عدالت کو تحفظ فراہم کرے، چڑھ دوڑنے کا ٹریک ریکارڈ پہلے سے موجود ہے۔ کیاکھلے عام جھوٹ اور بد دیانتی پر آئین کے کسی دفعہ سے نواز شریف کو عدالت عظمیٰ دفع نہیں کرسکتی ؟۔اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی از خود نوٹس لیتے تو بھی ایم اکیوایم کی طرح یہ بکھر جاتے اوروزیراعظم کی نااہلی کی گواہی شہبازشریف، نصرت شہباز، کلثوم نواز، مریم نواز، صفدر عباسی ، حمزہ شہباز، حسن نواز اور حسین نواز سمیت زرخرید میڈیا کے اینکر اور حکومت کے مشیراور وزیر بھی انشاء اللہ ضرور دینگے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ مریم کا سرپرست صفدر عباسی ہے یا باپ کی کفالت ہے؟۔
وزیراعظم کے جھوٹ پر ’’ کامران خان کیساتھ‘‘میں وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے کہا کہ ’’فی یونٹ3 روپے‘‘ کمی کی ۔ یہ وزیراعظم کا میڈیا پرقوم سے جھوٹ کااعتراف ہے، سوال پوچھا کہ 3 فیصد کمی کہاں؟ تومصدق ملک نے کہا کہ ’’65فیصد آبادی 100 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرتی ہے،3فیصد کی کمی ان کیلئے ہے‘‘ احسن اقبال تومٹھاس کیلئے کریلا گھول دیتا کہ ’’80فیصد کے پاس بجلی نہیں، 80فیصد لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، بہت سولربھی لگ گئے ہیں، بدچلن اعداد وشمارنکالے جائیں تووزیراعظم صاحب کی بات بالکل ٹھیک ہے ،نہیں تو کورٹ میں چیلنج کرو، یہ مدت تو نکال جائیں گے‘‘۔بجلی کی قیمت موبائل فون کی طرح بہت کم ہوسکتی ہے مگر انہوں تیزرفتار بجلی میٹروں سے عوام کا خون ہی چوسنا ہے۔23فیصد بجلی چوری کے باوجود Kالیکٹرک کا28ارب کا منافع ہے، پہلے بہت خسارہ ہورہاتھا۔ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے مختلف کمپنیوں کو بجلی دینے کی بات کرکے عوام کے دکھ سکھ کا خیال رکھنے کا ثبوت دیا ہے ، عوامی نمائیدوں نے حکومت کو خدمت کے بجائے منافع بخش تجارت سمجھ رکھا ہے ۔منحوس منافع بخش تجارت کیلئے لڑتے ہیں۔
کوئی اور اتنی واضح غلط بیانی کا مرتکب ہوتا تو میڈیا اسکا چھلکا اتار دیتی مگر یہ حکومت کا میڈیا کو پیسہ کھلانے یانااہل صحافت کا نتیجہ ہے ۔وزیراعظم گھر کے افراد، کسی وزیر اور مشیر سے مشاورت کرتا تو بھی ان حماقتوں کا مرتکب نہ ہوتا۔ اگر تابعدار فوج اسکے ہاتھ چڑھ گئی تو پھر ملک وقوم کا اللہ ہی حافظ ہے، جاتے جاتے جنرل راحیل اور رضوان اختر کی توہین کیوں کی؟۔یہ سوال ہی غلط ہے۔ شیخ سعدی کا غالباً شعر ہے کہ سبق نہ دہد کم ذات را کم ذات چوں عاقل شود گردن زدد استاذ را ’’ کم ذات کو سبق نہ دو، کم ذات جونہی عاقل بنے استاد کی گردن مار دیتاہے‘‘۔ جنرل ضیاء اور فوج نوازشریف کے محسن ہیں مگر سب سے زیادہ فوج کو ذاتی غلام بنانے کے پیچھے نوازشریف لگا۔ مارشل لاء مخالف محمود خان اچکزئی، اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمن، زرداری اینڈ کمپنی سے لیکر 22اگست سے پہلے کی ایم کیوایم بلوچ شدت پسند اور طالبان سب سے مفاد کی خاطر دوستی رہی۔ زرداری قابلِ تعریف نہیں لیکن جس طرح بینظیر بھٹو نے سوات پر جھنڈا لگانے اورحملے کے باوجود اپنی جان قربان کرنے کیلئے پیش کردی، اسی طرح سے زرداری نے وہ کردکھایا، دہشت گردوں کیخلاف شہید ہونے پر خراج عقیدت پیش کی، سوات کا آپریشن کروایا۔ مسلم لیگ (ن) میں سب سے زیادہ جمہوریت ، اصول پسند ، بہادر اور قدرے بہتر ظفر علی شاہ نے اسلئے مولانا فضل الرحمن کو امریکہ کا ایجنٹ کہاتھا کہ’’اس نے طالبان کو اسلام آباد تک پہنچنے کی طرف توجہ دلائی ‘‘۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے لکھا کہ ’’ مولانا فضل الرحمن ایک خود کش سے مر نہیں سکتا اور دو طالبان ضائع نہیں کرنا چاہتے‘‘ ۔ڈاکٹر شاہد مسعود کراچی کے دھماکے کو شہرت کیلئے بینظیر بھٹو کا اپنا کیا دھرا قرار دیتا تھا، پھر بینظیر کی موت کا آصف زرداری کو ذمہ دار قرار دیا ، زرداری نے پی ٹی وی کا چیئرمین بنادیا تو شاہد مسعود نے خود کو کٹرجیالا بتانا شروع کیا ۔ زرداری جانتا تھا کہ اس نے اے آر وائی چینل کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر جیو چینل کا رخ کردیا، پھر زرداری نے چوتڑ پر لات مارکر نکالا، توجیونے خوب ذلیل کیا۔سوچکر کاٹ کر اب اے آر وائی پر بیٹھنے میں شرم بھی نہیں آتی۔
سیاست و صحافت اگر اخلاقی معیار کے بجائے ابن الوقتی اور ذلت کا کھیل بن جائے تو قوم کو کون عروج کی منزل کی طرف لے جائیگا؟۔ جنرل راحیل اور ڈی جی آئی ایس آئی کو جاتے جاتے کیوں دولتی لگادی؟۔ شریف برادران جمہوریت کیخلاف جنرل ضیاء سے اشفاق کیانی تک فوج کی ٹانگوں میں اپنا سر دیتے ہیں اوربرسرِ اقتدار ہوکرفوج کیخلاف ہرہتھکنڈہ استعمال کرکے کہتے ہیں کہ’’ہر دور میں ڈگڈی بجانے والا آجاتاہے‘‘۔ ڈگڈی بجانے کے علاوہ کوئی پیشہ برا نہیں، سید بھی ڈگڈی کا پیشہ اختیار کریگا تو میراثی کہلائے گا،آج تو پیسے والے میراثیوں کو بھی یہ قوم کسی غریب سے زیادہ عزت دیتی ہے، کمائی کے جائز ذرائع عزت ہیں، زرداری نے ق لیگ کو چھوڑ کر حکومت کا موقع فراہم کیا، شہبازشریف نے پنجاب پر گرفت مضبوط کی تو ڈکشنری میں ایسی گالی نہ تھی جو زرداری کیلئے استعمال نہ کی گئی ہو۔ جب تنگ آکر زرداری نے کہا کہ ’’ نوازشریف کے سر میں لوہار کا دماغ ہے ‘‘ تو ن لیگی کہہ رہے تھے کہ ’’اس حد تک ہم نہیں گرسکتے ‘‘۔ یعنی منافق، چور، ڈکیت،، بدمعاش اور چوکوں پر لٹکانے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی تمام تقریروں سے بھی یہ ’’لوہار‘‘ بڑی گالی تھی حالانکہ کہہ دیتے کہ لوہار اور زردار میں زیادہ فرق نہیں، کہا جاتاہے کہ’’ سو سنار کی ایک لوہار کی‘‘۔مگر معاملہ الٹا ہوگیا ، سو لوہار کی ایک زردار کی۔جو رویہ زرداری سے شریف برادران نے اختیار کیا، وہی انکا وطیرہ تھا، حدیث میں آتا ہے کہ ’’چرواہے بڑی بلڈنگوں پر مقابلہ اور فخر کرینگے‘‘۔ اور ’’ روبیضہ (گرے پڑے نکمے لیڈر،عوام کی تقدیرکا) فیصلہ کرینگے‘‘۔ سیاست و صحافت عمدہ لوگوں کے ہاتھ سے نکل کر سوات کے امیر مقام سے کراچی کے الطاف ، پنجاب کے لوہار اور سندھ کے زردار تک جن لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچی ، یہ حدیث کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے۔پرویزمشرف کے دور میں ان فوجی افسران کی فہرست شائع ہوئی جو لال کرتی کے پیداوار تھے۔ چوہدری اعتزاز احسن نے عدالت سے سزایافتہ نواز شریف کو بری کروا یا، ججوں اور مؤکلوں کیلئے پارٹی سے فاصلہ بنایا،اب جہانگیرترین کے وکیل بن گئے تو کہاکہ ’’عدالت نے پہلی مرتبہ ن لیگ کیخلاف فیصلہ دیا ‘‘۔ حبیب جالب نے اشعار کہے ’’ہر بلاول ہے ہزاروں کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے‘‘۔تو محترمہ نے کہا ’’یہ مجھ پر تنقید ہے کہ ملک مقروض کردیا اور نام لیوا غرباء کے پیر ننگے ہیں‘‘اعتزاز احسن نے غلط سمجھایا کہ ’’جالب نے تیری تعریف کی‘‘۔ یہ بھٹو کی بیٹی کا حال تھا جو مشکل ترین دور میں خوگرِ حمد جالب سے اپنے دورِ اقتدار میں تھوڑا سا گلہ بھی نہ سن سکی، پھر زرداری کے بلاول کا کیا حال ہوگا جس نے جعلی بھٹو بنکر مرتضیٰ بھٹو کے یتیم بچے ذوالفقاربھٹو سے قیادت چھینی ؟۔ شیخ رشید کے سامنے طاہر القادری نے رائیونڈ کا اعلان کیا، پھر اسکو اسلام و جمہوریت کیخلاف قرار دیا، لندن میں ملنا گوارا نہ تھا،کرنِ امید نے سورج مکھی کے پھول سے سورج کا ٹوٹا رشتہ جوڑا، کنٹریکٹ میرج کا فتویٰ تحریک انصاف کے شیخ الاسلام مفتی عبدالقوی کا تھا، نکاح خواں شیخ رشید کو پرانے ن لیگی ساتھی بھڑوا کہہ رہے ہیں ،صبح وشام مفاد کی خاطر تقدیریں بدلنے والے اقبالؒ کے مؤمن نہیں ۔ کردار کے غازی متعہ کی پیداوارحضرت عبداللہ بن زبیرؓ ہوں یا لال کرتی کے پیداوار، ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں، علم وکردار نسلی عیب کومٹاتا ہے۔ بلال حبشیؓ ،صہیب رومیؓ، سلمان فارسیؓ اور ابوجہل، ابولہب،ابن ابی کی فضلیت و رذالت قوم ونسل، قبیلے وزباں سے نہیں کردار کی بنیاد پرمتعین ہوئی ہے ،قوم کو پیسے نہیں کردارکا قائد چاہیے۔
عمران خان نے ہیلی کاپٹر کی ضرورت کے بغیر بھی اسلام آباد سے کراچی کا سفر کیا تھا، خیبر پختونخواہ کے جلسے میں بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے جاتا، لیلائے اقتدار کتیاقیادت مایوں میں دلہن کی طرح بیٹھ گئی اور اپنے کارکن ورہنماؤں باراتیوں کو پاس ہی بلالیا، پرویز خٹک رات بھر لٹک گئے اور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل کھانے سے پہلے اعلان کردیا کہ ’’مبارک ہو‘‘۔ یہ الفاظ فسٹ کزن طاہرالقادری سے مستعار لئے تھے۔ جس نے خود بھی اس بے خودی میں موت کا مزہ چکھاتھا اسلئے عمران خان کی سیاسی موت پربھی اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ لیا۔شیخ رشید گولیاں کھاکر سوگئے مگرطاہرالقادری کے جملے کونامناسب کہا۔ تحریک انصاف کے دوگروپ ہیں گھانس والے اور ڈانس والے ۔ گھانس والوں نے رات کو موٹروے پر جھاڑیوں میں آگ لگاکر آنسو گیس کے شیل کھائے،ڈانس والوں نے بڑی تعداد میں نکل کر رنگ وراگ کی محفل سجاکر تماشہ انجوائے کیا۔ وسعت اللہ خان نے حکومت کے کریک ڈاؤں پر کہا کہ ’’قوال کوخود ہی وجدآگیا‘‘۔ غالباً اکتوبر 1920کا زمانہ تھا، محمد علی جوہر اور شوکت علی لاہور میں جلوس کی قیادت کررہے تھے، علامہ اقبال انارکلی کے ایک چوبارے میں رہتے تھے، جلوس دیکھنے کیلئے بالکونی میں کھڑے ہوگئے،تو جوہرنے بلند آواز سے اقبال کو مخاطب کرکے کہا کہ آو! تمہارے کلام نے ہمارے سینوں میں آگ لگادی ، تم ہمارا تماشہ دیکھ رہے ہو، آؤ ہماری قیادت کرو۔ اقبال نے جواب دیا : جناب میں قوم کا قوال ہوں، اگر میں بھی حال میں مبتلاہواتوقوالی کون کریگا؟‘‘۔ عاصمہ جہانگیر اورمولانا فضل الرحمن اپنے سوز کو سامری کے ساز جیو ٹی چینل سے نہیں ملائیں، دہشت گردوں کاایک بڑا سہولت کار نواز شریف سزاپائے تو عمران خان بھی نہ بچے گا،ایک پَر ناکارہ ہو تو دوسرا بھی بیکار ہے، ایکدوسرے پر الزام لگانے والے شریفوں اور عمران خانیوں کے علاوہ فضل الرحمانیوں اورزردایوں سمیت سب کو قوم کٹہرے میں دیکھنا چاہتی ہے ۔ اجمل ملک

یہ پہلا موقع ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حزبِ اقتدار کا کوئی گٹھ جوڑ نہیں

عوام میں میڈیا کے ذریعے یہ شوشہ رہتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اچھی ہیں یا فوجی ڈکٹیٹر شپ؟۔ حالانکہ یہ سوال بالکل فضول ہے، دونوں ایکدوسرے کا نعم البدل نہیں بلکہ یکجان دو قالب ہیں، جس طرح جمہوریت کے دور میں کسی کے پاس اقتدار ہوتا ہے تو کوئی عتاب رہتی ہے، اسی طرح فوجی ڈکٹیٹرشپ کے دور میں بھی بعض سیاسی جماعتیں اپوزیشن اور بعض اقتدار میں رہتی ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حزبِ اقتدار کا کوئی گٹھ جوڑ نہیں ، ن لیگ کو یہ بھی پسند نہیں، اس سے فائدہ اٹھاکر انقلاب کی ضرورت ہے مگر کیسے؟۔

 Raheel_Saharif_FebSpac2016

معراج محمد خانؒ کی شخصیت سے سیاست بے نقاب ہوتی ہے ذوالفقار علی بھٹوؒ ، جنرل ضیاءؒ اور عمران خان کا پتہ چلتا ہے

معراج محمد خان بائیں بازو کے ،جاویدہاشمی دائیں بازوکے اچھے کردار وں کی علامت ہیں، تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ دونوں کی فکر ونظر میں اختلاف ہوسکتا تھا لیکن خلوص وکردار پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ معراج محمد خان خود کو علماء حق کے پاؤں کی خاک کہنے پرفخر محسوس کرتے تھے اور جاوید ہاشمی نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی سے معذرت کرلی تھی کہ میں جماعتِ اسلامی جیسی مذہبی جماعت نہیں مسلم لیگ جیسی سیکولر جماعت کے ساتھ ہی چل سکتا ہوں۔ معراج محمد خان کمیونسٹ مسلمان تھے اور جاویدہاشمی سیکولر مسلمان ہیں، ایک کادائیں اور دوسرے کا بائیں باز وسے تعلق اس بات کا ثبوت نہیں کہ انہوں نے اسلام سے رو گردانی کا ارتکاب کیا۔
یہ معراج محمد خان کا قصور نہ تھا جو کیمونسٹوں کی صفوں میں کھڑا ہوا، بلکہ یہ علماء سوء کا قصور تھا جنہوں نے مذہب کو پیشہ بنالیا۔ جس دن اسلام کا حقیقی تصور قائم کرلیاگیا اور اس پر عمل کیا گیا تو کمیونسٹ اور سیکولر لوگ اسلام کی آغوش میں ہی پناہ لیں گے۔ اسلام خلوص کا نام ہے، اسلام پیشہ نہیں دین ہے اور اسلام نے ہی دین میں جبر کومنع کیا ہے۔ جس دن مذہبی طبقات نے یہ تأثر ختم کردیا کہ اسلام کوئی پیشہ ہے تو دنیا کی ساری کمیونسٹ پارٹیاں اسلام کے دامن میں پناہ لیں گی اور جس دن مذہبی طبقات نے یہ تأثر قائم کرلیا کہ دین میں جبر نہیں تو دنیا کی ساری سیکولر قوتیں اسلام کی آغوش میں پناہ لیں گی۔ معراج محمد خان ؒ کے نام پر آرٹ کونسل میں ایک پروگرام رکھا گیاجو تقریروں اور اچھے جذبات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سینٹر کامریڈ تاج حیدر نے کہا کہ ’’معراج محمد خان کے حوالہ سے میں نے جومضمون لکھا ، کسی بھی نامور اخبار نے اس کو شائع کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ جب کسی کا نام آجائے تو ادارہ اس کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجاتا ہے‘‘۔
سنیٹر تاج حیدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مذہبی طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جوگٹھ جوڑ تھا اس کا خاتمہ ہوا ہے ، اس صورتحال سے کمیونسٹ نظریات رکھنے والوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مولا بخش چانڈیو نے ایک بڑا اچھا شعر بھی سنادیا کہ ’’حسینؓ کی عزاداری کاعشرہ ضرور مناؤ مگر وقت کے یزید کی طرفداری بھی مت کرو‘‘ اور سب مقررین نے اپنے خیالات اور جذبات کا اپنے اپنے انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ معراج محمد خان ؒ کے نام کیساتھ ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کے لفظ کا اشارہ نا مانوس لگتاہے لیکن اللہ کی رحمت کی دعا کی اجاراداری ان لوگوں سے ختم کرنے کی ضرورت ہے جو صرف مذہبی ماحول سے تعلق رکھتے ہوں۔ مذہبی طبقات صرف اپنے اپنے اکابر کے ساتھ یہ علامت لگاتے ہیں، ان کی یہ بھی مہربانی ہے کہ مخالفین کیساتھ زحمت اللہ علیہ (زح) نہیں لگاتے۔ عوام کو ان مذہبی جہالتوں سے نکالنا بھی بہت بڑی جدوجہد اور جہاد ہے جن میں نامعقول مذہبی طبقات کی وجہ سے جاہل عوام مبتلا ہیں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولاناشاہ احمدنورانیؒ بڑے اور اچھے لوگ تھے لیکن معراج محمد خانؒ بھی کسی سے کم تر نہ تھے۔ جنرل ایوب خانؒ کے دور میں ذوالفقار علی بھٹوؒ جب جنرل صاحب کیساتھ تھے تو معراج محمد خانؒ نے ان کا مقابلہ کیا، جب بھٹو نے جنرل ایوب کا ساتھ چھوڑدیا تو اپنے سخت ترین مخالف بھٹو کا استقبال کیا اور اپنے کارکن بھٹو کے حوالہ کردئیے کہ اب ہمارا اختلاف نہ رہا ، راستہ درست چن لیا ہے تو ہم آپکے ساتھی ہیں۔ بھٹو کے دورِ حکومت میں معراج محمد خان کو وزارت ملی لیکن حکومت اور اپنی وزارت کے خلاف عوام کے حقوق کیلئے احتجاج میں شامل ہوگئے۔ بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ جو راہ ورسم بنالی تھی اس کو نباہ رہے تھے مگر معراج محمد خان نے اپنے اصولوں سے وفا کی۔ پھر جب بھٹو نے سیاسی قائدین پر جیلوں میں بغاوت کے مقدمات چلائے تو معراج محمد خان بھی حکومت کی صف میں نہ تھا بلکہ اپوزیشن جماعتوں کیساتھ جیل میں بندتھے۔
جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگا تو معراج محمد خان نے بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ ہونے کے بعد بھٹو کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولا۔ معراج محمد خان کو جعلی سیاستدان بننے کی پیشکش ہوئی مگر معراج محمد خان نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اگر معراج جنرل ضیاء کی پیشکش کو قبول کرلیتا تو جنرل ضیاء کو مذہبی طبقے اور اسلام کاسہارہ لینے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ جب ایم آر ڈی کی تحریک چلی تو معراج محمد خان بھی اس جدوجہد کا حصہ تھے بلکہ ساری جماعتوں نے معراج محمد خان کا نظریہ قبول کرکے ہی ایک مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کیا تھاجس میں جنرل ضیاء اتفاقی حادثے کا شکار نہ ہوتے توزیادہ عرصہ تک صرف تحریک ہی چلانی پڑتی۔ بھٹو نے بھی ایک آمر جنرل ایوب کی صحبت اُٹھائی تھی اسلئے آمرانہ سیاست ان کے دل ودماغ پر چھائی تھی جس کا ساتھ معراج محمد خان نہیں دے سکتے تھے، نوازشریف اصغرخان کی تحریک استقلال کا فائدہ اٹھاکر سیاست میں ڈالے گئے اور امیرالمؤمنین جنرل ضیاء الحق کے سپاہی بن گئے، جنرل ضیاء کی برسیوں پر بھی جنرل ضیاء کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے حلف اٹھایا کرتے تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے ذریعہ سے برسرِ اقتدار آنے والا نوازشریف اصغر خان کیس میں ملزم نہیں بلکہ مجرم ہے، جس طرح کالا کوٹ پہن کر سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کیخلاف جنرل اشفاق کیانی کے ہمراہ کورٹ میں گئے، اسکے بعد وزیراعظم ایک ناکردہ گناہ کی وجہ سے مجرم بن کر نااہل قرار دئیے گئے یہ ہمارے اصحاب حل وعقد ، ریاستی اداروں، عدالتوں اور جمہوری نظام پر ایک بدنما داغ ہے کہ نوازشریف کو سزا کیوں نہیں سنائی جارہی ہے۔
معراج محمد خان کو پہلی مرتبہ ایم آر ڈی کے جلسہ میں ’’نشتر پارک کراچی‘‘ میں دیکھا تھا، مدرسہ جامعہ بنوری ٹاؤن کا طالب علم تھا، مولانا فضل الرحمن کی وجہ سے ہم نے جمعہ کی نماز بھی نشتر پارک میں قبضہ کی نیت سے پڑھی، زیادہ تر مقررین کو بولنے تک نہ دیا، شاید معراج محمد خان کو مولانا فضل الرحمن سے کہنا پڑا، کہ اپنے ورکروں کو خاموش کردو۔ جب کسی کا بولنا گوارہ نہ ہو تو اس کا سننا بھی کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے۔ البتہ مولانا فضل الرحمن پر کفر کے فتوے لگانے والے مخلص نہ تھے اسلئے انکے فتوؤں کو کبھی اہمیت نہ دی، پیپلزپارٹی سے اتحاد پر جو مذہبی طبقات مولانا فضل الرحمن سے ناراض تھے ،انہوں نے پیپلزپارٹی کی طرف سے ایم آر ڈی کی قیادت کرنے والے غلام مصطفی جتوئی کو پھر اسلامی اتحاد کا سربراہ بنایا۔ چونکہ مذہبی طبقے اور موسم لیگیوں کا اتنا بڑا دم نہ تھا کہ وہ جنرل ضیاء کے باقیات کا حق ادا کرلیتے، اسلئے عوام کو دھوکہ دینا ناگزیر سمجھا گیا اور غلام مصطفی جتوئی کو قیادت سونپ دی گئی مگر جتوئی مرحوم پرا عتماد نہ تھا اسلئے اسٹیبلشمنٹ نے ان کو ناکام بناکرہٹایا اور نوازشریف کو وزیراعظم بنایا گیا۔
نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے خلاف صدر غلام اسحاق خان کا ساتھ دیا تھااور پھر اسی صدر کی وجہ سے خود بھی جانا پڑا،محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ نے صدارتی امیدوار کیلئے ایم آر ڈی (تحریک بحالئ جمہوریت) کے دیرینہ ساتھی بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خانؒ کے مقابلہ میں غلام اسحاق خان کا ساتھ دیا تھا۔ فضل الرحمن کو ایک اصولی سیاست کا امین سمجھا جاتا تھا۔ اب تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان کا مقابلہ کرنے کیلئے نوازشریف کی اوٹ میں پناہ لینا شاید ایک مجبوری ہو ، بڑے لوگوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں، معراج محمد خان تنہائی کے شکار تھے اور تحریک انصاف کو ایک جماعت بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ میری پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی تو عرض کیا کہ کہاں آپ اور کہاں عمران خان؟، یہ جوڑ بنتا نہیں ہے۔ معراج محمد خان نے اعتراف کیا کہ واقعی یہ اتفاق وقت کا بہت بڑا جبر ہے۔ عمران خان جب پرویز مشرف کے ریفرینڈم کا ساتھ دے رہا تھا تو معراج محمد خان پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہونے کے باوجود مخالفت کررہے تھے۔ عمران خان نے معراج محمد خان کو برطرف کیا اور پھر قوم سے معافی مانگ لی کہ ریفرینڈم کی حمایت میری غلطی ہے۔
جس طرح عمران خان نے کھل کر قوم سے معافی مانگی لیکن معراج محمد خان سے راستہ الگ کرنے پر اپنے کارکنوں کو آگاہ نہ کیا کہ اتنی بڑی غلطی میں نے کی تھی اور سزا شریف انسان کو دی تھی اور یہ بڑی خیانت ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی اگر اپنے غلطیوں کا اعتراف کرکے معراج محمد خان کو منالیتی توپھر پیپلزپارٹی کی قیادت معراج محمد خان کے ہاتھ میں ہوتی اور قائدین کی وفات کے بعد پیپلزپارٹی کے نظریاتی بڑے قدآور رہنماؤں کا اجلاس ہوتا کہ کون سا نیا قائد منتخب کیا جائے؟۔ آج عمران خان کے چاہنے والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ بھٹو کے بعد عمران خان عوامی قیادت کا حق اداکررہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ معراج محمد خان بھٹو اور عمران خان سے بذاتِ خود بڑے اور حقیقی قائد تھے، جب اہل قائد کو کارکن اور نااہل کوقائد بنایا جائے تو ایسی پارٹی کبھی اعتماد کے قابل نہیں ہوتی ۔ معراج قائدتھے مگر ان کوقائد کا درجہ نہ دیا گیا۔
معراج محمد خان کی یاد میں ہونیوالے پروگرام میں کامریڈوں کا غلبہ تھا،جناب میرحاصل بزنجو اور دیگر رہنماؤں نے معراج محمد خان کو خراج تحسین پیش کیا مگر اتنی بات وہ بھول گئے کہ روس کے نظام کی تعریف کرنے اور امریکہ کی مزاحمت کرنے والے معراج محمد خان نے طالبان کو سراہا تھا جنہوں نے ایک واحد قوت کے طور پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو چیلنج کیا۔ جماعتِ اسلامی کے سابقہ امیر سید منور حسن پہلے کمیونسٹ کی بیج بونے والی تنظیم این ایس ایف میں تھے، جب سلیم صافی کو انٹریو دیا کہ ’’ امریکہ کے فوجی اگر طالبان کے خلاف لڑنے پر شہید نہیں ہوتے تو ان کے اتحادی پاکستانی فوج کو کیسے شہید کہا جاسکتا ہے؟‘‘۔ جس پر انکو جماعتِ اسلامی کی امارت سے ہاتھ دھونے پڑ گئے۔ اگر معراج محمد خان نے طالبان کی حمایت کی تھی تو جماعتِ اسلامی کے امیر نے ایک ہاتھ بڑھ کر حمایت کی تھی۔
سید منور حسن اور معراج پرانے ساتھی اور پھر حریف رہے لیکن اس بات پر متفق ہوگئے کہ طالبان نے سامراج کو چیلنج کرکے بڑا کارنامہ انجام دیا ۔ جماعتِ اسلامی سے میرحاصل بزنجو نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ تاج محل مکھن کا بناہوا نہیں ہوسکتا، یہ درست ہے لیکن غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے تو حقوقِ انسانی کے حوالہ سے متضاد و متفرق قوتوں کے درمیان مفاہمت کی راہ بنائی جائے۔ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ مولوی اور طالب سرمایہ دار کا مکھن کھاکر کمیونسٹوں پر فتوے لگارہے ہیں ، اب تو پتہ چلا ہے کہ مکھن کھانے کی وجہ سے نمک حلال کرنے کا الزام غلط ہے، سرمایہ دارانہ نظام پر لرزہ طاری ہے، مرنے مارنے سے سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ یورپ و امریکہ اور مغرب ومشرق میں ایک خوف کی فضا ء گنتی کے چند افراد نے طاری کر رکھی ہے۔
روس کے خاتمہ سے کمیونسٹوں میں وہ دم خم نہیں رہا ہے اور یہ بات درست ہے کہ مذہبی طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غیرفطری اتحاد ختم ہوگیا ہے، کہاوت ہے پشتو کی کہ ’’بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے میری رات ہوگئی‘‘۔ معراج محمد خان اگر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنے میں پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کے بجائے جماعتِ اسلامی یا جمعیت علماء اسلام میں جاتے تو شاید وہ بھی ان جماعتوں کا قائد بنتے اور خلوص وکردار کے مرقع معراج محمد خان کے جنازے میں مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی طرح تمام فرقوں اور جماعتوں کے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی۔ کمیونسٹوں سے معذرت کیساتھ وہ مذہب کو نشہ قرار دیتے ہیں لیکن چرس کا نشہ کرنے والے پھر بھی کچھ کام کاج کے قابل رہتے ہیں کمیونسٹ تو ہیروئن پینے والوں کی طرح بالکل ہی ناکارہ بن جاتے ہیں اور کسی کام کاج کے قابل نہیں رہتے۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری یورپ و مغربی ممالک کے انصاف کی بات کرتے ہیں حالانکہ یہ لعنت تو مغرب سے ہی آئی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو سزا نہ ہونے دی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو80سال قید کی سزا دی۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام ، سوڈان اور کتنے سارے مسلم ممالک تباہ کردئیے گئے اور پھر صرف اعتراف جرم کیا حالانکہ سزا بھی ہونی چاہیے۔ پرویزمشرف کے ریفرینڈم کی حمایت پر معذرت کافی نہ تھی، برطانیہ کی طرح عراق کے معاملہ پر اعترافِ جرم کوکافی نہ سمجھنا چاہیے تھا بلکہ معراج محمد خان کو قیادت سونپ دینی چاہیے تھی۔ برطانیہ کو بھی چاہیے کہ اپنے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کو باقاعدہ سزا بھی دے، ورنہ عراق میں تباہ ہونیوالے خاندان نسل درنسل اپنا انتقام لینے کیلئے برطانیہ کی عوام کو نہ چھوڑیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جس طرح اسلام آباد میں ایک پولیس افسرایس ایس پی کو پٹوایا تھا ،اسی طرح دھرنے کے دوران خود کو سزا کیلئے پیش کردیں اور اسلام آبادایئرپورٹ پر جس طرح کارکنوں نے پولیس والوں کی ناک وغیرہ توڑ کر پٹائی لگائی تھی، اسی طرح ان کے رہنماؤں سے بھی ان زخموں کا بدلہ لینے کیلئے پیش کیا جائے تو شاید انکے برگشتہ مرید شریف برادران کا ضمیر بھی جاگ جائے اور وہ خود کو قصاص کیلئے پیش کریں۔
قوم طبقاتی تقسیم کو مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی ہے، کراچی میں اگر معراج محمد خان کیخلاف مذہبی طبقات اور اسٹیبلشمنٹ مل کر میدان نہ مارتے تو آج قوم پرستی کی بنیاد پر کراچی میں خون خرابے کے بعد شریف لوگوں کی بجائے گھٹیا قسم کا ماحول نہ بنتا۔ اسلامی جمعیت طلبہ، پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن، پنجابی سٹوڈنٹ فیدریشن، سندھی سٹودنٹ فیڈریشن اور بلوچ سٹوڈنٹ فیڈریشن ایک تعصب کے ماحول میں نہ پلتے تو مہاجر سٹوڈنٹ فیڈریشن کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔قوم پرستی کی سیاست نے انسانیت اور اسلام دونوں کو نقصان پہنچایا، آرٹ کونسل میں ایک مقرر نے کہا کہ ’’ معراج محمدخان کی وجہ سے قوم پرستی کی طلبہ تنظیمیں بنی تھیں، وہ ہر قوم سے محبت رکھتے تھے، جئے سندھ، پختون،بلوچ اور پنجابی طلبہ تنظیموں کیلئے NSFبنیاد تھی‘‘۔ ترقی پسند تحریکوں کے رہنما کو ایک شکایت یہ بھی تھی کہ موجودہ نوجوان طبقہ بڑا اچھا ہے لیکن ہمارے اندر ایسی صلاحیت نہیں جو ان کو پیغام پہنچاسکیں۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے روس اور امریکہ سے فنڈز آتے تھے، باصلاحیت لوگ اپنا حصہ وصول کرکے سادہ لوح لوگوں کو قربانیوں کا بکرا بنادیتے تھے، اب وہ فنڈز تو بند ہوگئے ہیں،ایک سوکھا سا نظریہ رہ گیا ہے، وہ سویت یونین جو ان لوگوں کو ترنوالہ دیتا تھا،اب خود اپنا وجود بھی کھو گیا ہے۔ اگر وہ ایندھن ملنا شروع ہوجائے تو پھر سے افراد، قربانی کے بکرے اور بہت کچھ مل جائیگا،خان عبدالغفار خان ؒ اور عبدالصمدخان شہید اچکزئیؒ پاکستان بننے سے پہلے کے قوم پرست تھے، عاصم جمال مرحوم پنجاب سے تعلق رکھتے تھے ،ایک مخلص کمیونسٹ تھے، آخری عمر میں نماز پڑھنے پر بھی آگئے۔ ولی خان ؒ کی پارٹی میں رہ چکے تھے، حبیب جالبؒ کے ساتھی تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ ’’غوث بخش بزنجوؒ کے پاس پیسہ نہیں تھا اسلئے ان کو قیادت نہیں کرنے دی جاتی تھی، جبکہ ولی خانؒ کے پاس پیسہ تھا اگر وہ یہ قربانی دیدیتے کہ مہمانوں پر پیسہ خرچ کرتے اور قیادت غوث بخش بزنجوؒ کو سونپ دیتے، تو مشرقی پاکستان بھی نہ ٹوٹتا‘‘۔
قوم پرستی کا شوشہ تو معراج محمد خان سے پہلے کا تھا، متحدہ ہندوستان کی قومیت کا علمبردار طبقہ قوم پرست تھا۔ مولانا آزادؒ اور مولانا مدنیؒ نے اسلئے گالیوں اور اسلام سے خارج ہونے کا سامنا کیا کہ وہ مسلمان ہندی قوم پرست تھے، علامہ اقبالؒ نے بھی ہندی قومیت پر نظمیں لکھیں، خود کو سومناتی کہاہے۔ صحابہؓ کے انصارؓ و مہاجرینؓ ، قریش وغیرقریش، اہلبیت وقریش،کالا گورا، عرب وعجم، عرب وموالی اور اسرائیلی واسماعیلی کا شوشہ پرانا ہے۔ معراج کمیونسٹ اچھے انسان، پاکستانی اور مسلمان تھے۔ اچھا نظریہ اور حب الوطنی مختلف العقائد مسلمانوں کو آج بھی ایک کرسکتا ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی