پوسٹ تلاش کریں

پولیس پر اعتماد کریں ریاست مارتی نہیں: چیف جسٹس ثاقب نثار

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar

نوشتہ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سید ارشاد علی نقوی نے کہا ہے کہ عوام کو تمام ریاستی اداروں پر تہہ دل کیساتھ اعتماد کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاک فوج ، عدلیہ ، پولیس ، سول انتظامیہ کے علاوہ پارلیمنٹ سب ہی قابل احترام ہیں لیکن ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔ عوام ہی کی جان، مال اور عزت و آبرو ٹکے کی نہیں اور جب تک مخصوص مقاصد کی خاطر انکے حال پر رحم نہ کیا جائے تو ان کی فریاد عرش الٰہی کو سنائی دیتی ہے اور بس۔ محترم چیف جسٹس صاحب ! آپ ٹھیک فرماتے ہیں کہ راؤ انوار کو چھپانے والے بہت ہیں لیکن اگر ماڈل ٹاؤن پولیس کو استعمال کرنے والوں کی خبر لی جاتی تو ان چھپے ہوئے پھنے خانوں کو نکالنا بھی مشکل نہ ہوتا۔ لواحقین کو طفل تسلیاں مبارک ہوں۔ معروف صحافی مظہر عباس نے ایک پروگرام میں بتایا کہ ’’جنرل نصیر اللہ بابر کی قیادت میں ایک اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایم کیو ایم کے دہشت گرد عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں ، ان کو پولیس مقابلے میں ماردیا جائے۔ اس اجلاس میں سول اور ملٹری کے تمام اداروں نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا لیکن آئی جی پولیس افضل شگری واحد انسان تھا جس نے اس سے اختلاف کیا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ بھی کردیا گیا۔ پھر راؤ انوار ، چوہدری اسلم اور دیگر دہشت والے تھانیداروں کی خدمات لی گئیں اور ماورائے عدالت خوب قتل و غارت گری ہوئی ۔ اس قتل و غارت میں ایک فوجی افسرکا نام آیا اور اسے پھر فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی اور پھانسی دے بھی دی‘‘۔
راؤ انوار نے ایم کیو ایم کے بعد طالبان دہشتگردوں کا صفایا کرنے میں بھی زبردست اور اہم کردار ادا کیا۔ راؤ انوار جیسے بہادر پولیس افسر نہ ہوتے تو امن کی فضاء ہوتی ،نہ طالبان سے کراچی چھٹکارا پاتا۔ طالبان کیوجہ سے محسود قوم کیساتھ جو سلوک فوج نے روا رکھا اس پر محسود قوم بجا طور سے کوئی شکوہ نہیں کرتی ہے۔ پولیس نے دہشت گردوں کے علاوہ شریف لوگوں کو بھی بہت ستایا اور اللہ کرے کہ اب محسودوں کا گناہ معاف ہو ، آئندہ کسی اور طوفان سے گزرنا نہ پڑے۔ پٹھانوں نے طالبان اور بلوچوں نے قوم پرستوں ، مہاجروں نے ایم کیو ایم کی وجہ سے جو دکھ درد سہے ہیں اللہ نہ کرے کہ ہمارے پنجابی بھائی ان سے گزریں۔ قصور کے بے قصور بچوں اور بچیوں کیساتھ جو کچھ ہوا ، اس طرح توبلوچ قوم پرستوں ، ایم کیو ایم کے دہشتگردوں اور طالبان دہشتگردوں کے خواب و خیال میں بھی نہ گزرا ہوگا۔ یہ ریاست کا بہت بڑا احسان ہوگا کہ قرآن و سنت کیمطابق جبری جنسی تشدد کیخلاف پارلیمنٹ کھلے عام سنگساری کے احکام نافذ کردے۔ پارلیمنٹ قانون پاس کرے عدالت چند دنوں میں ان کیسوں کو نمٹائے اور حکومت اس پر عمل درآمد کرائے۔
عدالت عالیہ نے چاہا تو وقت گزرنے کے باوجود میاں نواز شریف ان کیسوں میں بری کردیا جن میں عدالت نے سزا دی تھی۔ عدالت عالیہ نے چاہا تو حدیبیہ پیپر ملز کے تمام دستاویزی ثبوت موجود ہونے اور باقاعدہ فیصلہ نہ ہونے کے باوجود کیس کو دفن کردیا۔ عدالت عالیہ نے چاہا توپارلیمنٹ میں اثاثہ جات کے اقرار کے تحریری بیان اور قطری خط میں کھلا تضاد تھا تو بھی اپنا فیصلہ اقامہ پر سنایا۔ جس سے چیف جسٹس کے سابق مؤکل محترم نااہل نواز شریف کوسپریم کورٹ کے لارجر بنچ کو خوب تر صلواتیں سنانے کا موقع فراہم کیا۔ نقیب اللہ محسود بے گناہ تھا تو قرآن میں ایک بیگناہ کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں تو بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی کئی داستانیں ہیں جو کسی شمار و قطار میں نہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی نیت پر انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی شک نہیں مگر نصیر اللہ بابر ہی نے جمہوری دور میں طالبان پیدا کئے اور پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت عام شہریوں کو قتل کی اجازت دی۔ ہمارا مقصد تنقید برائے تنقید اور مخصوص لوگوں کی طرفداری نہیں لیکن قرآن و سنت کے احکامات سے ہمارے مردہ معاشرے میں نئی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ قتل کے بدلے قتل اور زنا بالجبر پر سر عام سنگساری کی سزا جمہوری بنیادوں پربھی عالم انسانیت کیلئے قابل قبول ہوگی اور دنیا کے تمام کمزور لوگ اس کو سپورٹ کرینگے۔

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar-2

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar-3

اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار کا تبصرہ

نوازشریف دوباروزیراعظم بن چکاتھا، سی پیک پرویزمشرف کا کارنامہ تھا ،اگر نوازشریف نہ آتا تو مغربی روٹ بن چکا ہوتا ، تجارتی سرگرمیاں بھی شروع ہوچکی ہوتیں

ایم کیوایم کی طرح پھوٹ پڑے تو گھر کے افراد بھی نااہلی کے گواہ بن جائیں،آلو کی قیمت کم اور بجلی کی قیمت کا جھوٹ سے غلط بتانے پر زرخرید میڈیاخبر کیوں نہیں لیتا؟

سوات کے امیر مقام سے کراچی کے الطاف ، پنجاب کے لوہار اور سندھ کے زردار تک قوم پر مسلط قائدین حدیث کیمطابق روبیضہ (گرے پڑوں) سے توقع نہیں ۔

ایڈیٹرنوشتۂ دیوار اجمل ملک نے کہاکہ : نوازشریف پہلے بھی دومرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں مگر سی پیک نہیں بنایا، کسی اور کی حکومت ہوتی تو مغربی روٹ بن چکا ہوتا، ، مشرقی روٹ پر دھند کا ڈیرہ ہوتا ہے، گوادر سے لاہور کیلئے بھی مغربی روڈمحفوظ اور شارٹ کٹ تھا،پنجاب کی آبادی مزید ماحولیاتی آلودگی کی متحمل نہیں،بجائے صحن کے کم عقل گھرکی چھت پرباغ اُگارہاہے۔ وزیر اعظم کی اہلیت اور دیانتداری کیلئے دور جانے کی ضرورت نہیں،یہ دیکھا جائے کہ ملک چلانا تو بڑی بات کیا یہ اپنا گھر چلانے کے لائق بھی ہے؟، آلو کی قیمت کا اعلان کیا ’’80روپے کلو تھا، اب 25 روپے ہوگیا،یہ بھی زیادہ بتا رہا ہوں ورنہ مجھے 20 روپے بتایاگیا‘‘۔ قوم نااہل وزیراعظم کیخلاف کیوں اُٹھ کھڑی نہ ہوئی؟۔ کسی احمق ترین سے پوچھ لو، تو وہ بھی بتادے گا کہ آلو کی قیمت کا تعلق موسم سے ہے، پنجاب میں فصل کا وقت ہوتاہے تو قیمت بہت گرجا تی ہے ،جب نااہل حکمران کی وجہ سے ایکسپورٹ نہ ہو، آلو زیادہ کاشت ہو تو کسان اپنی محنت اور لگائی ہوئی رقم بھی کھودیتا ہے‘‘ جس وزیراعظم کو یہ پتہ نہ ہو، وہ کرپشن کا سہارا لئے بغیر مالدار کیسے بن سکتاہے؟، یہ بیان کیا نااہلیت کیلئے کافی نہیں؟۔ عدالت میں یہ ثبوت نہیں چلتا کیونکہ ہماری قوم اہلیت کے مفہوم سے عاری لگتی ہے۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
عوام کواہلیت کا پتہ نہیں، چھوٹے سر والی عوام نواز شریف کی طرح آلو ، بڑے سر والی عوام شہباز شریف کی طرح کدو جیسے ہیں دونوں کو آمروں نے ہی قوم پر مسلط کیا۔ بالکل جھوٹ سے بجلی کا یونٹ 18سے کم کرکے 10 روپے بتایا؟ وزیر اعظم کی نا اہلی کیلئے یہ جھوٹ کافی نہیں؟۔عدالت لوٹا ہوا پیسہ اورعمرہ جاتی محل لاہور کے متأثرین کو دلادے
ہوئے ہم جو مرکے رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا ، نہ کوئی مزار ہوتا
بے رحمانہ احتساب ناگزیر ہوچکا۔وزیراعظم کی نااہلی کیلئے اصغر خان کیس کا16سال بعد فیصلہ کافی تھالیکن سامری کایہ بچھڑا مقدس گائے کی اولاد ہے اسلئے سزا نہ ہوئی۔ عاصمہ جہانگیر کی بات سوفیصد درست ہے کہ’’ دو خدا مل جائیں تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے‘‘۔ باقی تین صوبوں میں تو 3خداؤں کا عقیدۂ تثلیث کا چل رہاہے۔ فوج ، عدلیہ اور تختِ لاہور کی جمہوریت تینوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ الطاف حسین کی تصویر پر عدلیہ کی پابندی لگانے کا کیس عاصمہ جہانگیر لڑ رہی ہیں۔اللہ نظرِ بد سے بچائے ، دہشت گردی کا گرد بھی نہ لگے لیکن محمود خان اچکزئی بیان دے تو فروغ نسیم اس بات کو فروغ دیتاہے کہ وکلاء اچکزئی کا کیس نہیں لڑینگے، کیوں؟۔ الطاف حسین کی وکالت کرنیوالاسینیٹر فروغ نسیم محمود خان اچکزئی اور الطاف حسین میں یہ تفریق اسلئے روا رکھتا ہے کہ ایک کتنے معاملات میں ملوث ہو مگر کبھی تو فوج کو بھی دعوت دیتاہے اور دوسرے کا جرم جمہوریت کا راگ الاپنا ہے؟ ۔ ریاست ماں ہے مگر تختِ لاہور اور اسٹیبلشمنٹ کوماں باپ کہنا حماقت ہے۔ دونوں کے ازدواجی تعلق سے باقیوں نے اولاد کی طرح نہیں جناہے۔ بلوچستان میں60سے زیادہ پولیس میں بھرتی ہونے والے جواں شہید ہوئے مگرجیوٹی وی کے ٹیبل ٹاک میں مباحثہ ہورہاہے کہ باپ(فوج) وزیراعظم کو جھاڑ دانٹ پلائے تو مسئلہ نہیں لیکن اگر ماں (وزیراعظم) نے باپ (فوج) کو ڈانٹ پلادی تو اس کو محلے میں پھیلانے سے گھر کی بدنامی ہوتی ہے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ بیوی تو دور کی بات یہ تو لونڈی بھی نہیں بلکہ ناجائز تعلق کے نتیجہ میں یہ سیاست میں لائے گئے ہیں۔ فوج نہ لائے تو یہ ریاست کے وزیراعظم ہاؤس میں داخل بھی نہ ہوں۔
دہشت گردوں کے سہولت کارڈاکٹر عاصم حسین اور میئر کراچی کی ضمانت ابھی مشکل سے ہوگئی۔ بلوچستان اور پختونخواہ میں تو پہلے سے فوج کا اقتدار ہے۔عمران خان کو نیا مہرہ نہ بننے دیا جائے، آرمی پبلک سکول پر حملے کیخلاف جلوس کو بھی پشاور شہر میں پولیس نے روکا جو نقاب پوشوں اور وردی والوں کا خوف عوام کے دلوں سے نکالنے کے نعرے لگارہے تھے، ملزم ڈاکٹر عاصم سے بڑا مجرم اسحاق ڈار ہے اور ملزم ماڈل ایان علی سے بڑی ملزم مریم نواز ہے۔ دہشت گردوں سے زیادہ مضبوط اسٹیبلشمنٹ کی ربڑ اسٹمپ پنجاب کے کٹھ پتلی سیاستدان ہیں اگر عدلیہ نے بچھڑے کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کردیا تو مقدس گائے بھی ذبح ہوجائے گی۔ پھر عدلیہ کو اپنے ساتھ بھی انصاف کرنا پڑیگا۔ڈوگر اور افتخارچوہدری کے معاملات کو بھی سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔ بڑے بڑے مگر مچھ دھرلئے جائیں تو قوم خوشحال ہوجائے گی۔
عدلیہ فوج سے مل جائے تختِ لاہور بھی ہل جائے سامری کا یہ بچھڑاہے غریب عوام کھل جائے
عدالت اور ریاست کی قوت مل کر بال بچھوڑے کو باہر سے بلوائیں اور پھر آئی سی ایل میں نام ڈال کرنااہلی کا حکم جاری کریں،اگر وزیراعظم نے قانونی طور سے پانامہ کی حکومت کو خط لکھنا ہے تو وزیراعظم اپنے بچوں کیخلاف انصاف نہیں کرسکتا۔ یوسف رضاگیلانی کو صدر زرداری کے خلاف خط نہ لکھنے پر نااہل قرار دیا گیا، جمہوریت برقرار رہی، فوج عدالت کو تحفظ فراہم کرے، چڑھ دوڑنے کا ٹریک ریکارڈ پہلے سے موجود ہے۔ کیاکھلے عام جھوٹ اور بد دیانتی پر آئین کے کسی دفعہ سے نواز شریف کو عدالت عظمیٰ دفع نہیں کرسکتی ؟۔اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی از خود نوٹس لیتے تو بھی ایم اکیوایم کی طرح یہ بکھر جاتے اوروزیراعظم کی نااہلی کی گواہی شہبازشریف، نصرت شہباز، کلثوم نواز، مریم نواز، صفدر عباسی ، حمزہ شہباز، حسن نواز اور حسین نواز سمیت زرخرید میڈیا کے اینکر اور حکومت کے مشیراور وزیر بھی انشاء اللہ ضرور دینگے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ مریم کا سرپرست صفدر عباسی ہے یا باپ کی کفالت ہے؟۔
وزیراعظم کے جھوٹ پر ’’ کامران خان کیساتھ‘‘میں وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے کہا کہ ’’فی یونٹ3 روپے‘‘ کمی کی ۔ یہ وزیراعظم کا میڈیا پرقوم سے جھوٹ کااعتراف ہے، سوال پوچھا کہ 3 فیصد کمی کہاں؟ تومصدق ملک نے کہا کہ ’’65فیصد آبادی 100 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرتی ہے،3فیصد کی کمی ان کیلئے ہے‘‘ احسن اقبال تومٹھاس کیلئے کریلا گھول دیتا کہ ’’80فیصد کے پاس بجلی نہیں، 80فیصد لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، بہت سولربھی لگ گئے ہیں، بدچلن اعداد وشمارنکالے جائیں تووزیراعظم صاحب کی بات بالکل ٹھیک ہے ،نہیں تو کورٹ میں چیلنج کرو، یہ مدت تو نکال جائیں گے‘‘۔بجلی کی قیمت موبائل فون کی طرح بہت کم ہوسکتی ہے مگر انہوں تیزرفتار بجلی میٹروں سے عوام کا خون ہی چوسنا ہے۔23فیصد بجلی چوری کے باوجود Kالیکٹرک کا28ارب کا منافع ہے، پہلے بہت خسارہ ہورہاتھا۔ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے مختلف کمپنیوں کو بجلی دینے کی بات کرکے عوام کے دکھ سکھ کا خیال رکھنے کا ثبوت دیا ہے ، عوامی نمائیدوں نے حکومت کو خدمت کے بجائے منافع بخش تجارت سمجھ رکھا ہے ۔منحوس منافع بخش تجارت کیلئے لڑتے ہیں۔
کوئی اور اتنی واضح غلط بیانی کا مرتکب ہوتا تو میڈیا اسکا چھلکا اتار دیتی مگر یہ حکومت کا میڈیا کو پیسہ کھلانے یانااہل صحافت کا نتیجہ ہے ۔وزیراعظم گھر کے افراد، کسی وزیر اور مشیر سے مشاورت کرتا تو بھی ان حماقتوں کا مرتکب نہ ہوتا۔ اگر تابعدار فوج اسکے ہاتھ چڑھ گئی تو پھر ملک وقوم کا اللہ ہی حافظ ہے، جاتے جاتے جنرل راحیل اور رضوان اختر کی توہین کیوں کی؟۔یہ سوال ہی غلط ہے۔ شیخ سعدی کا غالباً شعر ہے کہ سبق نہ دہد کم ذات را کم ذات چوں عاقل شود گردن زدد استاذ را ’’ کم ذات کو سبق نہ دو، کم ذات جونہی عاقل بنے استاد کی گردن مار دیتاہے‘‘۔ جنرل ضیاء اور فوج نوازشریف کے محسن ہیں مگر سب سے زیادہ فوج کو ذاتی غلام بنانے کے پیچھے نوازشریف لگا۔ مارشل لاء مخالف محمود خان اچکزئی، اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمن، زرداری اینڈ کمپنی سے لیکر 22اگست سے پہلے کی ایم کیوایم بلوچ شدت پسند اور طالبان سب سے مفاد کی خاطر دوستی رہی۔ زرداری قابلِ تعریف نہیں لیکن جس طرح بینظیر بھٹو نے سوات پر جھنڈا لگانے اورحملے کے باوجود اپنی جان قربان کرنے کیلئے پیش کردی، اسی طرح سے زرداری نے وہ کردکھایا، دہشت گردوں کیخلاف شہید ہونے پر خراج عقیدت پیش کی، سوات کا آپریشن کروایا۔ مسلم لیگ (ن) میں سب سے زیادہ جمہوریت ، اصول پسند ، بہادر اور قدرے بہتر ظفر علی شاہ نے اسلئے مولانا فضل الرحمن کو امریکہ کا ایجنٹ کہاتھا کہ’’اس نے طالبان کو اسلام آباد تک پہنچنے کی طرف توجہ دلائی ‘‘۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے لکھا کہ ’’ مولانا فضل الرحمن ایک خود کش سے مر نہیں سکتا اور دو طالبان ضائع نہیں کرنا چاہتے‘‘ ۔ڈاکٹر شاہد مسعود کراچی کے دھماکے کو شہرت کیلئے بینظیر بھٹو کا اپنا کیا دھرا قرار دیتا تھا، پھر بینظیر کی موت کا آصف زرداری کو ذمہ دار قرار دیا ، زرداری نے پی ٹی وی کا چیئرمین بنادیا تو شاہد مسعود نے خود کو کٹرجیالا بتانا شروع کیا ۔ زرداری جانتا تھا کہ اس نے اے آر وائی چینل کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر جیو چینل کا رخ کردیا، پھر زرداری نے چوتڑ پر لات مارکر نکالا، توجیونے خوب ذلیل کیا۔سوچکر کاٹ کر اب اے آر وائی پر بیٹھنے میں شرم بھی نہیں آتی۔
سیاست و صحافت اگر اخلاقی معیار کے بجائے ابن الوقتی اور ذلت کا کھیل بن جائے تو قوم کو کون عروج کی منزل کی طرف لے جائیگا؟۔ جنرل راحیل اور ڈی جی آئی ایس آئی کو جاتے جاتے کیوں دولتی لگادی؟۔ شریف برادران جمہوریت کیخلاف جنرل ضیاء سے اشفاق کیانی تک فوج کی ٹانگوں میں اپنا سر دیتے ہیں اوربرسرِ اقتدار ہوکرفوج کیخلاف ہرہتھکنڈہ استعمال کرکے کہتے ہیں کہ’’ہر دور میں ڈگڈی بجانے والا آجاتاہے‘‘۔ ڈگڈی بجانے کے علاوہ کوئی پیشہ برا نہیں، سید بھی ڈگڈی کا پیشہ اختیار کریگا تو میراثی کہلائے گا،آج تو پیسے والے میراثیوں کو بھی یہ قوم کسی غریب سے زیادہ عزت دیتی ہے، کمائی کے جائز ذرائع عزت ہیں، زرداری نے ق لیگ کو چھوڑ کر حکومت کا موقع فراہم کیا، شہبازشریف نے پنجاب پر گرفت مضبوط کی تو ڈکشنری میں ایسی گالی نہ تھی جو زرداری کیلئے استعمال نہ کی گئی ہو۔ جب تنگ آکر زرداری نے کہا کہ ’’ نوازشریف کے سر میں لوہار کا دماغ ہے ‘‘ تو ن لیگی کہہ رہے تھے کہ ’’اس حد تک ہم نہیں گرسکتے ‘‘۔ یعنی منافق، چور، ڈکیت،، بدمعاش اور چوکوں پر لٹکانے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی تمام تقریروں سے بھی یہ ’’لوہار‘‘ بڑی گالی تھی حالانکہ کہہ دیتے کہ لوہار اور زردار میں زیادہ فرق نہیں، کہا جاتاہے کہ’’ سو سنار کی ایک لوہار کی‘‘۔مگر معاملہ الٹا ہوگیا ، سو لوہار کی ایک زردار کی۔جو رویہ زرداری سے شریف برادران نے اختیار کیا، وہی انکا وطیرہ تھا، حدیث میں آتا ہے کہ ’’چرواہے بڑی بلڈنگوں پر مقابلہ اور فخر کرینگے‘‘۔ اور ’’ روبیضہ (گرے پڑے نکمے لیڈر،عوام کی تقدیرکا) فیصلہ کرینگے‘‘۔ سیاست و صحافت عمدہ لوگوں کے ہاتھ سے نکل کر سوات کے امیر مقام سے کراچی کے الطاف ، پنجاب کے لوہار اور سندھ کے زردار تک جن لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچی ، یہ حدیث کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے۔پرویزمشرف کے دور میں ان فوجی افسران کی فہرست شائع ہوئی جو لال کرتی کے پیداوار تھے۔ چوہدری اعتزاز احسن نے عدالت سے سزایافتہ نواز شریف کو بری کروا یا، ججوں اور مؤکلوں کیلئے پارٹی سے فاصلہ بنایا،اب جہانگیرترین کے وکیل بن گئے تو کہاکہ ’’عدالت نے پہلی مرتبہ ن لیگ کیخلاف فیصلہ دیا ‘‘۔ حبیب جالب نے اشعار کہے ’’ہر بلاول ہے ہزاروں کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے‘‘۔تو محترمہ نے کہا ’’یہ مجھ پر تنقید ہے کہ ملک مقروض کردیا اور نام لیوا غرباء کے پیر ننگے ہیں‘‘اعتزاز احسن نے غلط سمجھایا کہ ’’جالب نے تیری تعریف کی‘‘۔ یہ بھٹو کی بیٹی کا حال تھا جو مشکل ترین دور میں خوگرِ حمد جالب سے اپنے دورِ اقتدار میں تھوڑا سا گلہ بھی نہ سن سکی، پھر زرداری کے بلاول کا کیا حال ہوگا جس نے جعلی بھٹو بنکر مرتضیٰ بھٹو کے یتیم بچے ذوالفقاربھٹو سے قیادت چھینی ؟۔ شیخ رشید کے سامنے طاہر القادری نے رائیونڈ کا اعلان کیا، پھر اسکو اسلام و جمہوریت کیخلاف قرار دیا، لندن میں ملنا گوارا نہ تھا،کرنِ امید نے سورج مکھی کے پھول سے سورج کا ٹوٹا رشتہ جوڑا، کنٹریکٹ میرج کا فتویٰ تحریک انصاف کے شیخ الاسلام مفتی عبدالقوی کا تھا، نکاح خواں شیخ رشید کو پرانے ن لیگی ساتھی بھڑوا کہہ رہے ہیں ،صبح وشام مفاد کی خاطر تقدیریں بدلنے والے اقبالؒ کے مؤمن نہیں ۔ کردار کے غازی متعہ کی پیداوارحضرت عبداللہ بن زبیرؓ ہوں یا لال کرتی کے پیداوار، ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں، علم وکردار نسلی عیب کومٹاتا ہے۔ بلال حبشیؓ ،صہیب رومیؓ، سلمان فارسیؓ اور ابوجہل، ابولہب،ابن ابی کی فضلیت و رذالت قوم ونسل، قبیلے وزباں سے نہیں کردار کی بنیاد پرمتعین ہوئی ہے ،قوم کو پیسے نہیں کردارکا قائد چاہیے۔
عمران خان نے ہیلی کاپٹر کی ضرورت کے بغیر بھی اسلام آباد سے کراچی کا سفر کیا تھا، خیبر پختونخواہ کے جلسے میں بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے جاتا، لیلائے اقتدار کتیاقیادت مایوں میں دلہن کی طرح بیٹھ گئی اور اپنے کارکن ورہنماؤں باراتیوں کو پاس ہی بلالیا، پرویز خٹک رات بھر لٹک گئے اور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل کھانے سے پہلے اعلان کردیا کہ ’’مبارک ہو‘‘۔ یہ الفاظ فسٹ کزن طاہرالقادری سے مستعار لئے تھے۔ جس نے خود بھی اس بے خودی میں موت کا مزہ چکھاتھا اسلئے عمران خان کی سیاسی موت پربھی اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ لیا۔شیخ رشید گولیاں کھاکر سوگئے مگرطاہرالقادری کے جملے کونامناسب کہا۔ تحریک انصاف کے دوگروپ ہیں گھانس والے اور ڈانس والے ۔ گھانس والوں نے رات کو موٹروے پر جھاڑیوں میں آگ لگاکر آنسو گیس کے شیل کھائے،ڈانس والوں نے بڑی تعداد میں نکل کر رنگ وراگ کی محفل سجاکر تماشہ انجوائے کیا۔ وسعت اللہ خان نے حکومت کے کریک ڈاؤں پر کہا کہ ’’قوال کوخود ہی وجدآگیا‘‘۔ غالباً اکتوبر 1920کا زمانہ تھا، محمد علی جوہر اور شوکت علی لاہور میں جلوس کی قیادت کررہے تھے، علامہ اقبال انارکلی کے ایک چوبارے میں رہتے تھے، جلوس دیکھنے کیلئے بالکونی میں کھڑے ہوگئے،تو جوہرنے بلند آواز سے اقبال کو مخاطب کرکے کہا کہ آو! تمہارے کلام نے ہمارے سینوں میں آگ لگادی ، تم ہمارا تماشہ دیکھ رہے ہو، آؤ ہماری قیادت کرو۔ اقبال نے جواب دیا : جناب میں قوم کا قوال ہوں، اگر میں بھی حال میں مبتلاہواتوقوالی کون کریگا؟‘‘۔ عاصمہ جہانگیر اورمولانا فضل الرحمن اپنے سوز کو سامری کے ساز جیو ٹی چینل سے نہیں ملائیں، دہشت گردوں کاایک بڑا سہولت کار نواز شریف سزاپائے تو عمران خان بھی نہ بچے گا،ایک پَر ناکارہ ہو تو دوسرا بھی بیکار ہے، ایکدوسرے پر الزام لگانے والے شریفوں اور عمران خانیوں کے علاوہ فضل الرحمانیوں اورزردایوں سمیت سب کو قوم کٹہرے میں دیکھنا چاہتی ہے ۔ اجمل ملک

یہ پہلا موقع ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حزبِ اقتدار کا کوئی گٹھ جوڑ نہیں

عوام میں میڈیا کے ذریعے یہ شوشہ رہتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اچھی ہیں یا فوجی ڈکٹیٹر شپ؟۔ حالانکہ یہ سوال بالکل فضول ہے، دونوں ایکدوسرے کا نعم البدل نہیں بلکہ یکجان دو قالب ہیں، جس طرح جمہوریت کے دور میں کسی کے پاس اقتدار ہوتا ہے تو کوئی عتاب رہتی ہے، اسی طرح فوجی ڈکٹیٹرشپ کے دور میں بھی بعض سیاسی جماعتیں اپوزیشن اور بعض اقتدار میں رہتی ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حزبِ اقتدار کا کوئی گٹھ جوڑ نہیں ، ن لیگ کو یہ بھی پسند نہیں، اس سے فائدہ اٹھاکر انقلاب کی ضرورت ہے مگر کیسے؟۔

 Raheel_Saharif_FebSpac2016

سیاسی جماعتوں سے کتوں کے ریلوں کی طرح عوام کیوں نفرت کرتی ہے؟

اگر ہماری سیاسی قیادت عوام سے ہوتی تو عوام کی حالت بھی بدل جاتی، عوام کی حالت بدلتی نہیں لیکن سیاسی قیادتوں، رہنماؤں اور انکے بچوں کی حالت ہی بدلتی رہی ہے۔ نوزشریف ، بھٹواور زرداری کے دوسرے بھی رشتہ دار ہیں کیا انکے بھی کاروبار ایسے چمک رہے ہیں،بچے ایسے دمک رہے ہیں یا یہ سیاست کا کرشمہ ہے کہ دونوں کا احوال ایکدوسرے سے بہت مختلف ہے؟۔نوازشریف کے بچوں میںآخر ایسی کونسی صلاحیت ہے کہ اپنے عزیز واقارب سے اتنا بڑا فاصلہ پیدا ہوا ؟ ،خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، دوسرے سیاسی رہنماؤں نے بھی سیاست کو تجارت سمجھ کر اسی جانب رخ کردیاہے۔ عمران خان نے سوچا کہ مولویوں کی طرح شریف برادران کا دروازہ کھٹکھٹاکر ہسپتال کیلئے بھیک مانگنے اور کنگلا رہنے سے بہتر سیاسی جماعت بنانا ہے۔ پہلے کوئی پوچھتا نہ تھا مگر جب اقتدار کی خوشبو آنے لگی تو وہ لوگ جو موقع کی تلاش میں سیاستدانوں کا جتھایا کتوں کا ریلا بننے پر آمادہ رہتے ہیں وہی پیچھے میدان میں کود جاتے ہیں۔
قرآن نے انسان کو راہ پر لگانے کیلئے گدھے اور کتے کی ٹھیک مثالیں دیں۔
شاہ محمود قریشی ، مخدوم جاوید ہاشمی وغیرہ کی اپنی حیثیت ، شخصیت ، قد کاٹھ، صلاحیت ،سیاسی خدمت اور نمایاں مقام بلاشبہ عمران خان کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کے حامل رہے مگر سیاسی جتھے میں شخصیت میں کمال کی بات نہیں ہوتی ، بس قیادت سے دلہنِ اقتدار کی خوشبو آنی چاہیے ، کتیا جو اورجیسی ہو، بڑے بڑے کتوں کو ریلے میں شامل ہونے کیلئے صرف مطلوبہ قیادت کا احساس ہوتا ہے۔وہ قد کاٹھ، رنگ نسل ،بوڑھی جوان، خصلت وکردار کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنے وقتی نفسانی خواہشات کے پیچھے چل کر ثابت کرتے ہیں کہ کتا آخربہت ہی کتا ہوتا ہے، دنیا کے ایسے طلبگار شخص کیلئے کتوں کی مثال قرآن میں زبردست ہے جن کو چھوڑ دیا جائے، تب بھی ہانپے اور بوجھ لاددیا جائے تب بھی ہانپے۔
ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف، آصف زرداری، جنرل ضیاء ، پرویزمشر ف سب کے دورِ اقتدار میں قیادتوں کے گرد اسلئے لوگ اکٹھے ہوجاتے تھے کہ لیلائے قیادت سے اقتدار کی خوشبو آجاتی تھی، چوہدری شجاعت، شیخ رشید اور چوہدری نثار نے کونسی اہلیت نوازشریف میں دیکھی ؟۔ جو کٹ کر دوسری قیادت کے ریلے میں شامل ہوا ،یا وقتی طور سے حالات برداشت کرکے بیٹھا رہا، اس کی بنیاد قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا بلکہ اپنے اپنے مفاد کا خیال تھا، شاہ محمود قریشی نے واضح طور سے ن لیگ کی قیادت اور عمران خان کے سامنے اپنے تقاضے رکھ لئے۔ شاہ محمود قریشی کو نوازشریف اپنے قریب رکھ لیتاتو ن لیگ میں ہی جاتا، وہ پہلے بھی مسلم لیگ میں تھا، مخدوم ہاشمی نے کہا تھا کہ ’’بے نظیر بھٹو کیخلاف جتنی گندی زباں وہ استعمال کرتا تھا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘۔ شاید شیخ رشید سے بھی بڑھ کر گالیاں دیتا ہوگا، پھر وہی جاویدہاشمی اور شاہ محمود قریشی جب عمران خان کی قیادت کے پیچھے اکٹھے ہوئے تو شاہ محمود قریشی نے نعرہ لگایا کہ ’’ اوپر اللہ نیچے بلا‘‘ جسکی جاوید ہاشمی نے تائید کردی پھر جاویدہاشمی نے جب تحریکِ انصاف سے راستہ جدا کیا تو اس بات کا اظہار کردیا کہ’’ روزِ اول سے یہ احساس تھا کہ کہاں پھنس گیا ہوں؟‘‘۔ جب شاہ محمود قریشی نے نعرے لگوائے کہ ’’باغی ہے یا داغی ہے‘‘ تو ہم نے لکھ دیا تھا کہ تحریکِ انصاف شاہ محمودقریشی سے عہد لکھوا دے کہ اگر تحریک انصاف کو اس نے چھوڑا تو یہ نعرہ نہ لگوائے گا کہ ’’ اوپر اللہ ، نیچے دلا‘‘۔پارٹی بدلنے پر کتوں کیلئے قیادت کی اہمیت کتیا جیسی رہتی ہے۔ نوازشریف اور ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ریلے میں تھے،آج بھی کندھے پر غارِ حرا چڑھانے کیلئے ایک تنومند خرم نواز گنڈہ پور آمادہ نہ ہوگا۔ نوازشریف نے طاہر القادری کو چڑھایا تھا، وجہ صلاحیت تھی یا ضعف الطالب والمطلوب؟ عاشق و معشوقہ آج ایکدوسرے کو بہت نیچ اور کھوٹی نظروں سے دیکھتے ہیں؟۔ عامر فرید کوریجہ کو ڈاکٹر طاہر القادری کو چھوڑنے پر گالیاں اور قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں؟۔ عامر کوریجہ ہی نہیں ڈاکٹر دلدار قادری مرکزی جنرل سیکرٹری منہاج القرآن، مفتی عبدالمجید اشرفی اور مولانا غلام دستگیر افغانی بھی چھوڑ گئے تھے۔کارکن نہ بدلنے کا دعویدار ڈاکٹرطاہرالقادری رہنماؤں کے بدل جانے کی کہانی کیوں بھول گیا؟۔
قائدانہ صلاحیت کی بات نہیں ہوتی بلکہ بڑے بڑے قد آور رہنما اقتدار کی بُو سونگھ کر ساتھ رہتے ہیں ، کتوں کے ریلے کا نام لینا بار بار اچھا نہیں لگتا لیکن قرآن کی آیت کا ورد کرنے سے ایمان کو تازگی ملتی ہے، مخصوص قسم کے لوگ سیاسی جماعتوں میں شامل ہوکر کسی نظریاتی اہمیت کیوجہ سے قیادتوں کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اقتدار کی خوشبو کتیا قیادت کے پیچھے لگنے کیلئے اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ نوازشریف کیساتھ اقتدار میں شامل لوگ ایکدوسرے سے بہ تکلف بول چال بھی نہیں رکھتے ۔ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ ایکدوسرے پر غرانے سے بھی نہیں کتراتے مگر ایک ریلے کا حصہ ہیں، میں نے لیہ میں تعلیم حاصل کی ہے ، وہاں رہنے کیوجہ سے رؤف کلاسرا مجھے کچھ زیادہ اچھے لگتے ہیں یا وہ باکردار اور نظریاتی صحافی ہیں ، بہرحال ان کو سننے سے دلچسپی ہے، وہ حق بات کہنے میں نتائج کی پرواہ نہیں کرتے، برے وقتوں میں لوگوں کی اچھائیاں سامنے لاتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کیخلاف چوہدری نثار نے کچھ بولا، تو جناب رؤف کلاسرا نے یاد دلادیا کہ ’’چوہدری نثار سے میں نے پوچھا تھا کہ کس سیاسی قائد کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہو؟، چوہدری نثار نے کہا کہ میں دو شخصیات کے کردار سے متاثر ہوں، ایک خان عبدالولی خان اور دوسرے محمود خان اچکزئی‘‘۔
چوہدری نثار نے کہا کہ’’ رؤف کلاسرا نے مجھ سے زبردستی سے انٹرویو لیا تھا یعنی میں انٹرویو دینا نہیں چاہتا تھا‘‘۔ یہ ممکن ہے کہ گاڑی یا سواری میں آدمی بیٹھنے پر آمادہ نہ ہومگر کوئی زبردستی کرکے بٹھا دے یا اصرار کرکے بیٹھنے پر مجبور کرے ،یہ ممکن نہیں کہ چوہدری نثار کے منہ میں رؤف کلاسرا نے عبدالولی خان اور محمود خان اچکزئی کو زبردستی ٹھونس دیا ہو۔ اوریہ حیرانگی کی بات بھی نہیں اسلئے کہ مسلم لیگ جنرل ضیاء کی آمریت کا پاجامہ ہے ،جمہوریت پسند چوہدری اعتزازاحسن کا نام تو نہیں لے سکتے تھے، پھر سوال کا جواب دیا جاتا کہ قمر الزمان کائرہ اور منظور وٹو کیساتھ مل کر سیاست کیسے کی جاتی؟۔زرداری نے ق لیگ کو قاتل لیگ قرار کہا اور چوہدری شجاعت و چوہدری پرویز الٰہی نے پیپلزپارٹی کی دشمنی میں نواز شریف کے ریلے میں شامل ہونا گوارا کیا تھا، مگر پھر چوہدری پرویزالٰہی راجہ پرویز اشرف کا نائب وزیراعظم بن گیا۔ شیخ رشید کو ن لیگ والے قبول نہیں کرتے تو وہ برملا کہتاہے کہ’’ کوئی بھی آئے مگر نواز شریف کااقتدارختم ہو‘‘۔بھلے عمران خان، طاہرالقادری، چوہدری شجاعت، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن ، بلاول یا کوئی بھی ہو، ریلے میں شامل ہونے کیلئے قیادت کی خوشبو اہم ہوتی ہے، قیادت کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔یہ حال اکثر سیاسی رہنماؤں اور خاندانوں کا ہے، دو سگے بھائی اسد عمراپوزیشن اور وفاقی وزیر زبیرحکومت کے ریلوں کا حصہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمن بدلتے حکومتی ریلے میں شامل رہتا ہے، افتخارچوہدری نے بھی اپنی جماعت بنالی ہے۔دوسری ادلتی بدلتی قیادتوں کا معاملہ تو کسی سے مخفی نہیں رہا ہے لیکن جب سے الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے اپنے رہنماؤں کی کُٹ لگوائی ہے اور پھر آہستہ آہستہ فضا بدل رہی ہے تو انکی حالت بھی دوسروں سے مختلف نہیں ، عوام کو اگر سب سے نجات ملے تو سب خوش ہونگے۔ فیصل واوڈا نے جماعت بدلنے پر سوال کاجواب دیا کہ ’’ سیاسی کارکن رہونگا‘‘۔ ایس ایس پی راؤ انوار نے پکڑ کر اچھا کیا۔ایسے لوگوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے جنہوں نے اقتدار کی دلہن بننے سے پہلے مایوں اور مہندی جتنی قربانی بھی نہ دی ہو،نظریہ نہ ہو،نوازشریف ، عمران خان، طاہر القادری اور مصطفی کمال جیسوں کو نچایا جاتا ہے اگراسٹیبلشمنٹ نے اس کھیل کو بند کردیا تو قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ سیاسی جماعتوں سے کتوں کے ریلوں کی طرح عوام کیوں نفرت کرتی ہے؟
اگر ہماری سیاسی قیادت عوام سے ہوتی تو عوام کی حالت بھی بدل جاتی، عوام کی حالت بدلتی نہیں لیکن سیاسی قیادتوں، رہنماؤں اور انکے بچوں کی حالت ہی بدلتی رہی ہے۔ نوزشریف ، بھٹواور زرداری کے دوسرے بھی رشتہ دار ہیں کیا انکے بھی کاروبار ایسے چمک رہے ہیں،بچے ایسے دمک رہے ہیں یا یہ سیاست کا کرشمہ ہے کہ دونوں کا احوال ایکدوسرے سے بہت مختلف ہے؟۔نوازشریف کے بچوں میںآخر ایسی کونسی صلاحیت ہے کہ اپنے عزیز واقارب سے اتنا بڑا فاصلہ پیدا ہوا ؟ ،خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، دوسرے سیاسی رہنماؤں نے بھی سیاست کو تجارت سمجھ کر اسی جانب رخ کردیاہے۔ عمران خان نے سوچا کہ مولویوں کی طرح شریف برادران کا دروازہ کھٹکھٹاکر ہسپتال کیلئے بھیک مانگنے اور کنگلا رہنے سے بہتر سیاسی جماعت بنانا ہے۔ پہلے کوئی پوچھتا نہ تھا مگر جب اقتدار کی خوشبو آنے لگی تو وہ لوگ جو موقع کی تلاش میں سیاستدانوں کا جتھایا کتوں کا ریلا بننے پر آمادہ رہتے ہیں وہی پیچھے میدان میں کود جاتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی ، مخدوم جاوید ہاشمی وغیرہ کی اپنی حیثیت ، شخصیت ، قد کاٹھ، صلاحیت ،سیاسی خدمت اور نمایاں مقام بلاشبہ عمران خان کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کے حامل رہے مگر سیاسی جتھے میں شخصیت میں کمال کی بات نہیں ہوتی ، بس قیادت سے دلہنِ اقتدار کی خوشبو آنی چاہیے ، کتیا جو اورجیسی ہو، بڑے بڑے کتوں کو ریلے میں شامل ہونے کیلئے صرف مطلوبہ قیادت کا احساس ہوتا ہے۔وہ قد کاٹھ، رنگ نسل ،بوڑھی جوان، خصلت وکردار کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنے وقتی نفسانی خواہشات کے پیچھے چل کر ثابت کرتے ہیں کہ کتا آخربہت ہی کتا ہوتا ہے، دنیا کے ایسے طلبگار شخص کیلئے کتوں کی مثال قرآن میں زبردست ہے جن کو چھوڑ دیا جائے، تب بھی ہانپے اور بوجھ لاددیا جائے تب بھی ہانپے۔
ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف، آصف زرداری، جنرل ضیاء ، پرویزمشر ف سب کے دورِ اقتدار میں قیادتوں کے گرد اسلئے لوگ اکٹھے ہوجاتے تھے کہ لیلائے قیادت سے اقتدار کی خوشبو آجاتی تھی، چوہدری شجاعت، شیخ رشید اور چوہدری نثار نے کونسی اہلیت نوازشریف میں دیکھی ؟۔ جو کٹ کر دوسری قیادت کے ریلے میں شامل ہوا ،یا وقتی طور سے حالات برداشت کرکے بیٹھا رہا، اس کی بنیاد قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا بلکہ اپنے اپنے مفاد کا خیال تھا، شاہ محمود قریشی نے واضح طور سے ن لیگ کی قیادت اور عمران خان کے سامنے اپنے تقاضے رکھ لئے۔ شاہ محمود قریشی کو نوازشریف اپنے قریب رکھ لیتاتو ن لیگ میں ہی جاتا، وہ پہلے بھی مسلم لیگ میں تھا، مخدوم ہاشمی نے کہا تھا کہ ’’بے نظیر بھٹو کیخلاف جتنی گندی زباں وہ استعمال کرتا تھا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘۔ شاید شیخ رشید سے بھی بڑھ کر گالیاں دیتا ہوگا، پھر وہی جاویدہاشمی اور شاہ محمود قریشی جب عمران خان کی قیادت کے پیچھے اکٹھے ہوئے تو شاہ محمود قریشی نے نعرہ لگایا کہ ’’ اوپر اللہ نیچے بلا‘‘ جسکی جاوید ہاشمی نے تائید کردی پھر جاویدہاشمی نے جب تحریکِ انصاف سے راستہ جدا کیا تو اس بات کا اظہار کردیا کہ’’ روزِ اول سے یہ احساس تھا کہ کہاں پھنس گیا ہوں؟‘‘۔ جب شاہ محمود قریشی نے نعرے لگوائے کہ ’’باغی ہے یا داغی ہے‘‘ تو ہم نے لکھ دیا تھا کہ تحریکِ انصاف شاہ محمودقریشی سے عہد لکھوا دے کہ اگر تحریک انصاف کو اس نے چھوڑا تو یہ نعرہ نہ لگوائے گا کہ ’’ اوپر اللہ ، نیچے دلا‘‘۔پارٹی بدلنے پر کتوں کیلئے قیادت کی اہمیت کتیا جیسی رہتی ہے۔ نوازشریف اور ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ریلے میں تھے،آج بھی کندھے پر غارِ حرا چڑھانے کیلئے ایک تنومند خرم نواز گنڈہ پور آمادہ نہ ہوگا۔ نوازشریف نے طاہر القادری کو چڑھایا تھا، وجہ صلاحیت تھی یا ضعف الطالب والمطلوب؟ عاشق و معشوقہ آج ایکدوسرے کو بہت نیچ اور کھوٹی نظروں سے دیکھتے ہیں؟۔ عامر فرید کوریجہ کو ڈاکٹر طاہر القادری کو چھوڑنے پر گالیاں اور قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں؟۔ عامر کوریجہ ہی نہیں ڈاکٹر دلدار قادری مرکزی جنرل سیکرٹری منہاج القرآن، مفتی عبدالمجید اشرفی اور مولانا غلام دستگیر افغانی بھی چھوڑ گئے تھے۔کارکن نہ بدلنے کا دعویدار ڈاکٹرطاہرالقادری رہنماؤں کے بدل جانے کی کہانی کیوں بھول گیا؟۔
قائدانہ صلاحیت کی بات نہیں ہوتی بلکہ بڑے بڑے قد آور رہنما اقتدار کی بُو سونگھ کر ساتھ رہتے ہیں ، کتوں کے ریلے کا نام لینا بار بار اچھا نہیں لگتا لیکن قرآن کی آیت کا ورد کرنے سے ایمان کو تازگی ملتی ہے، مخصوص قسم کے لوگ سیاسی جماعتوں میں شامل ہوکر کسی نظریاتی اہمیت کیوجہ سے قیادتوں کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اقتدار کی خوشبو کتیا قیادت کے پیچھے لگنے کیلئے اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ نوازشریف کیساتھ اقتدار میں شامل لوگ ایکدوسرے سے بہ تکلف بول چال بھی نہیں رکھتے ۔ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ ایکدوسرے پر غرانے سے بھی نہیں کتراتے مگر ایک ریلے کا حصہ ہیں، میں نے لیہ میں تعلیم حاصل کی ہے ، وہاں رہنے کیوجہ سے رؤف کلاسرا مجھے کچھ زیادہ اچھے لگتے ہیں یا وہ باکردار اور نظریاتی صحافی ہیں ، بہرحال ان کو سننے سے دلچسپی ہے، وہ حق بات کہنے میں نتائج کی پرواہ نہیں کرتے، برے وقتوں میں لوگوں کی اچھائیاں سامنے لاتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کیخلاف چوہدری نثار نے کچھ بولا، تو جناب رؤف کلاسرا نے یاد دلادیا کہ ’’چوہدری نثار سے میں نے پوچھا تھا کہ کس سیاسی قائد کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہو؟، چوہدری نثار نے کہا کہ میں دو شخصیات کے کردار سے متاثر ہوں، ایک خان عبدالولی خان اور دوسرے محمود خان اچکزئی‘‘۔
چوہدری نثار نے کہا کہ’’ رؤف کلاسرا نے مجھ سے زبردستی سے انٹرویو لیا تھا یعنی میں انٹرویو دینا نہیں چاہتا تھا‘‘۔ یہ ممکن ہے کہ گاڑی یا سواری میں آدمی بیٹھنے پر آمادہ نہ ہومگر کوئی زبردستی کرکے بٹھا دے یا اصرار کرکے بیٹھنے پر مجبور کرے ،یہ ممکن نہیں کہ چوہدری نثار کے منہ میں رؤف کلاسرا نے عبدالولی خان اور محمود خان اچکزئی کو زبردستی ٹھونس دیا ہو۔ اوریہ حیرانگی کی بات بھی نہیں اسلئے کہ مسلم لیگ جنرل ضیاء کی آمریت کا پاجامہ ہے ،جمہوریت پسند چوہدری اعتزازاحسن کا نام تو نہیں لے سکتے تھے، پھر سوال کا جواب دیا جاتا کہ قمر الزمان کائرہ اور منظور وٹو کیساتھ مل کر سیاست کیسے کی جاتی؟۔زرداری نے ق لیگ کو قاتل لیگ قرار کہا اور چوہدری شجاعت و چوہدری پرویز الٰہی نے پیپلزپارٹی کی دشمنی میں نواز شریف کے ریلے میں شامل ہونا گوارا کیا تھا، مگر پھر چوہدری پرویزالٰہی راجہ پرویز اشرف کا نائب وزیراعظم بن گیا۔ شیخ رشید کو ن لیگ والے قبول نہیں کرتے تو وہ برملا کہتاہے کہ’’ کوئی بھی آئے مگر نواز شریف کااقتدارختم ہو‘‘۔بھلے عمران خان، طاہرالقادری، چوہدری شجاعت، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن ، بلاول یا کوئی بھی ہو، ریلے میں شامل ہونے کیلئے قیادت کی خوشبو اہم ہوتی ہے، قیادت کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔یہ حال اکثر سیاسی رہنماؤں اور خاندانوں کا ہے، دو سگے بھائی اسد عمراپوزیشن اور وفاقی وزیر زبیرحکومت کے ریلوں کا حصہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمن بدلتے حکومتی ریلے میں شامل رہتا ہے، افتخارچوہدری نے بھی اپنی جماعت بنالی ہے۔دوسری ادلتی بدلتی قیادتوں کا معاملہ تو کسی سے مخفی نہیں رہا ہے لیکن جب سے الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے اپنے رہنماؤں کی کُٹ لگوائی ہے اور پھر آہستہ آہستہ فضا بدل رہی ہے تو انکی حالت بھی دوسروں سے مختلف نہیں ، عوام کو اگر سب سے نجات ملے تو سب خوش ہونگے۔ فیصل واوڈا نے جماعت بدلنے پر سوال کاجواب دیا کہ ’’ سیاسی کارکن رہونگا‘‘۔ ایس ایس پی راؤ انوار نے پکڑ کر اچھا کیا۔ایسے لوگوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے جنہوں نے اقتدار کی دلہن بننے سے پہلے مایوں اور مہندی جتنی قربانی بھی نہ دی ہو،نظریہ نہ ہو،نوازشریف ، عمران خان، طاہر القادری اور مصطفی کمال جیسوں کو نچایا جاتا ہے اگراسٹیبلشمنٹ نے اس کھیل کو بند کردیا تو قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔

مسئلہ کشمیر اور سیون سٹار جنرل راحیل شریف کی عزت کیوں ؟

بھارت خود کوجب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے تو اسکے دماغ پر مظلوم کشمیریوں کا بھوت سوار ہوجاتا ہے۔اس کو ڈراؤنے خواب آنا شروع ہوجاتے ہیں، اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر کشمیریوں کی خود ارادیت اور استصوابِ رائے کے خوفناک مناظرسامنے آجاتے ہیں، اقوام متحدہ نے سوڈان کو بھی تقسیم کردیا، پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ اور کشمیر میں بھی سکھوں کی حکومت رہی ہے اور سکھ بھارت کے ہندؤں سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ مشرقی پنجاب کے علاوہ مسلمانوں کی اکثریت اور بنگلہ دیش کے آزاد مملکت بن جانے کے بعد بھارتی بنگال بھی بنگلہ دیش سے مل سکتا ہے۔ ہندو فطری طور پر متعصب اور مسلمان محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مفاد اپنے پڑوسی ملک بھارت کیساتھ دوستی کرنے میں ہے، پاکستان انڈیا کے ذریعہ ایشاء کا سب سے بڑا ٹائیگر بن سکتا ہے،روس اور اس سے آزاد ہونے والی ریاستوں ،افغانستان، ایران، ترکی اورعرب ویورپ تک بھارت کیلئے پاکستان زمینی اور سمندری حدود کا راستہ ہے جس سے بھارت بھی بخوبی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور پاکستان کو بھی بہترین راداری کے ذریعہ بڑی آمدن مل سکتی ہے۔ ایک کشمیر تو بھارت کو بالکل تحفہ میں بھی پیش کردینا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی ایک فطری عمل تھا لیکن بھارت نے خود کو خوامخواہ بدنام کردیاتھا۔
مجلس احرار کے قائدمولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے انگریز کے خلاف زندگی جیل اور ریل میں گزاری، ان کی تقریریں ریکارڈ پر ہیں، وہ سرِ عام لوگوں کو پاکستان کا نقشہ سمجھاتے تھے کہ اتنی دور ہماری فوجیں ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کرسکیں گی، اسلئے بنگلہ دیش کو الگ آزاد ہونے دو، اس پر ہندوؤں کا قبضہ نہیں ہوسکتا، وہ اپنی آزادی خود حاصل کریں گے۔ ہمارے لئے سب بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے اور انگریز کے جانے سے پہلے اس مسئلہ کا حل ضروری ہے، ورنہ انگریز نے پہلے بھی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو ‘‘ کی پالیسی اپنا کر ہمیں محکوم بنایا تھا، یہ مسئلہ کشمیر دوبارہ اس خطے میں انگریز کی مداخلت کا ذریعہ بن جائیگا۔ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ایک کشمیر ہے لیکن حالات اور واقعات کا فائدہ اٹھاکر عالمی قوتیں پاکستان کے علاوہ بھارت، چین، ایران اور افغانستان سمیت پورے خطے میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور نئے انداز میں نئی صف بندی کے ذریعہ وہ کھیل کھیلنا چاہتی ہیں جس کی طرف ہم خود کو بھی خود ہی دکھیل رہے ہیں۔
بھارت کو دانشمندی کا مظاہرہ کرکے کشمیر سے اپنی جان ہی نہیں چھڑانی چاہیے بلکہ جنرل راحیل شریف کی خدمت میں خاص تحفہ کے طور پر پیش کرنا چاہیے، جس نے اس خطے میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے عالمی خوابوں کا چکناچور کیا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ جنرل راحیل کو 7سٹار جنرل بناکر کم ازکم اگلے پانچ سالوں کیلئے نہ صرف چیف آف آرمی سٹاف بلکہ چیف آف جوائنٹ اسٹاف کا عہدہ بھی ان کے سپرد کریں۔ نوازشریف کے قریبی ساتھی طلال چوہدری کو یہ کہتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی ہے کہ ’’فوج پہلے منہ چھپاتی پھر رہی تھی، ہماری وجہ سے اس قابل ہوئی ہے کہ سامنے آسکے‘‘۔ ٹی وی ٹاک شوز میں اسکے یہ تأثرات سن کر بہت افسوس ہوا تھا۔
جنرل راحیل شریف کیوجہ سے بلوچستان کے بلوچ، پختونخواہ کے پختون، کراچی کے مہاجر اور پورے پاکستان کے تمام شہریوں نے سکھ کا سانس لیاہے ۔ جمہوریت کو بچانے کیلئے فوج سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔جمہوریت کیلئے سب سے بڑا خطرہ خود جمہوری جماعتیں ہیں، جن کا اپنا ایجنڈہ اپنی جماعتوں میں بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ ہے۔ ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین سے بڑا ڈکٹیٹر ، ظالم اور جاہل متکبر عمران خان ہے۔ جس طرح طالبان دہشت گردوں کی بے ضمیری اور بے غیرتی سے حمایت کررہا تھا، اس میں عقیدے اور نظرئیے کے کوئی عمل دخل نہیں تھا بلکہ غیرت کا فقدان تھا۔ عمران خان کیلئے برکی بوٹ ہاؤس ٹانک کے مالک گل شاہ عالم خان برکی نے بہت ہی زیادہ جدوجہد کی تھی لیکن جب طالبان نے اس کو زندہ غائب کردیا تو اس پر اظہارِ مذمت تو بہت دور کی بات ہے اظہارِ افسوس بھی نہ کیا۔ کراچی میں زہرہ شاہد کے قتل کے بعد عمران خان کافی عرصے بعد خصوصی ہیلی کاپٹر سے کراچی آئے ، بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا ، دو لفظ کی مذمت تک نہ کی اور تعزیت کیلئے بھی نہ گئے۔ یہ بہادری ہے یا بے غیرتی؟۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے نواز شریف کو چیلنج کیا ہے کہ بھارت نے اس کو پاکستان میں برسر اقتدار لانے کیلئے سرمایہ کاری کی ہے۔ قادری صاحب کے سچ اور جھوٹ کو پنجاب والے جانیں لیکن ایم کیو ایم کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ن لیگ کی حکومت لڑانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ دو چار اس طرح کے اور ایشوز کھڑے کئے جائیں گے اور پھر جنرل راحیل شریف کو رخصت کردیا جائیگا۔ جنرل راحیل شریف خود اقتدار کے بھوکے ہوتے تو انکے حق میں کوئی بھی آواز نہ اٹھاتا۔ اس شخص نے پوری قوم پر امن و سلامتی کے حوالے سے بڑا احسان کیا ہے اور نواز شریف پانامہ لیکس کی وجہ سے خوفزدہ ہیں۔ اسلئے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کبھی نہیں کریں گے۔
پرویز مشرف نے آخر کار نواز شریف کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر کشمیر کا سمجھوتہ ایکسپریس کرنا تھا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے اپنی وردی کو اپنی کھال بھی قرار دیا تھا۔ عمران خان سمیت مفاد پرست قسم کے لوگوں کو بھی پرویز مشرف نے اپنے لئے استعمال کیا تھا۔ وہی مفاد پرست لوگ اب عمران خان اور نواز شریف کی پارٹیوں میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔
پاکستان کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کرنی ہے ، جنرل راحیل شریف عزت کے ساتھ رخصت ہوجائے تب بھی ان بدبخت سیاستدانوں اور جرنیلوں کا قلع قمع ہونا ہے جنہوں نے مملکت خداداد پاکستان کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ہر جگہ سے شدت پسندوں اور دہشت گردوں کو ختم کرکے چھوڑا ہے۔ جو مذہبی اور سیاسی جماعتیں ان کے بل بوتے پر عوام کے سامنے کھڑی رہ سکتی تھیں انکے خاتمے کے بعد نہتے عوام حکمرانوں کا بخوبی مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کو اپنی فتح سمجھنے والے شہباز شریف اور نواز شریف اس بات کو یاد رکھ لیں کہ اب لشکر جھنگوی کے سیدھے سادے لوگ تمہاری حفاظت نہیں کرینگے۔
شہباز شریف نے پنجاب میں مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کے خاتمے پر جس طرح کا احتجاج کیا تھا ، اتنے جذبات سے تو ملا فضل اللہ کے سسر صوفی محمد نے بھی ریاست کے خلاف بغاوت کی آواز نہیں اٹھائی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے سارے محاذ فتح کرلئے ہیں مگر پنجاب ابھی باقی ہے۔ جہاں عصمت دری کے سب سے زیادہ واقعات ہوتے ہیں جو فرقہ پرستی اور شدت پسندانہ نظریات کیلئے گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے ، جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد یہ لوگ طالبان ، لشکر جھنگوی ، ایم کیو ایم ، بلوچ شدت پسند، پیپلز پارٹی اور دیگر لوگوں سے معافی تلافی کرلیں گے کہ ہم مجبور اور معذور تھے اسلئے معافی چاہتے ہیں۔
اگر جمہوریت اور سسٹم کو بچانے کی فکر ہو تو سب سے پہلے نواز شریف اپنے بچوں کے سب اثاثے بیرون ملک سے پاکستان منتقل کردے۔ ماڈل ایان علی کی طرح پورے خاندان پر جب تک کورٹ فیصلہ نہ کرلے بیرون ملک جانے پر پابندی لگائی جائے۔ مسلم لیگ ن کے سابق وزیر صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو نے بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو قتل کردیا اور پھر اس پر دہشت گردی کا دفعہ ختم کرکے ریمنڈ ڈیوس کی طرح بیرون ملک بھیج دیا۔
اصغر خان کیس کے جرم کا بھی فوری طور پر فیصلہ سنا کر نواز شریف اور دوسرے ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور نہ اہل قرار دے کر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح گھر نہیں بلکہ جیل بھیج دیا جائے۔ وہاں اس کو پتہ چلے گا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے کہ نہیں؟۔ ہر معاملے پر جھوٹ اور پیسوں اور میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار سے خوشحالی کا جشن منایا جارہا ہے مگر قرضہ لے لے کر ملک کا دیوالیہ کردیا ہے۔ اقتصادی راہداری اور موٹر وے کو ملانے کیلئے نام وسطی ایشیائی ریاستوں کا لیا جارہا ہے اور افتتاح اسکے بالکل برعکس لاہور سے سیالکوٹ بھارت کی طرف کیا جارہا ہے۔ عمران خان اور پرویز خٹک بھی عقل سے عاری ہیں ، سوات موٹروے کے بجائے پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان موٹر وے بنائی جاتی تو ملتان سے ڈیرہ اسماعیل خان تک کوئٹہ ، گوادر ، کراچی کا ٹریفک اسی شارٹ کٹ کی طرف منتقل ہوجاتا۔ پختونخواہ کے عوام کو کراچی ، جنوبی پنجاب ، کوئٹہ اور گوادر کیلئے سہولت سے ایک بہترین شاہراہ کا اہتمام بھی ہوجاتا۔ سوات میں موٹروے بنانے سے پہلے بڑے پیمانے پر پن بجلی سے نہ صرف پختونخواہ بلکہ پورے پاکستان کو روشن کیا جاسکتا ہے سیاستدان صرف شہرت اور تجارت کا تجربہ رکھتے ہیں باقی کچھ نہیں۔ عبد القدوس بلوچ

مہاجر کیا سوچ رہا، کیاسوچنا چاہیے؟:ایڈیٹراجمل ملک

اپنی مٹی پر دیوانہ بنا پھرتا ہوں لوگ کہتے ہیں مہاجر مجھ کو

Ajmal_Malik_Sep2016

کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں عوام کی نمائندہ جمہوری جماعت متحدہ قومی موومنٹ ایم کیوایم پر بحران آیاتو مہاجر کیا سوچتے ہیں؟۔ اس کی تصویر سید شہزاد نقوی نے کارٹون کی صورت میں اپنے ذہنی تخلیق سے اتاری ہے، سید شہزاد نقوی کا تعلق ایم کیوایم سے بالکل بھی نہیں ، اس نے شکوہ کیا ہے کہ اپنی مٹی پر رہتا ہوں تو لوگ مجھ کو مہاجرکیوں کہتے ہیں؟۔جب ایک غیرسیاسی مہاجر یہ دیکھتا ہے کہ ایم کیوایم کے دفاتر اچانک مسمارکردئیے، وہ لوگ جو اپنے قائد کے خلاف معمولی بات پر جذباتی ہوجاتے تھے، اسی قائد کیخلاف عجیب الزامات، ہر قسم کی مغلظات اور پھرپور طریقے سے سرگرم ہیں، اب ایم کیوایم پاکستان نے بھی لندن سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے، مہاجر کہاں کھڑے ہیں؟، لوگ انکے بارے سوچ کیا رکھتے ہیں؟، یہاں پلے بڑھے، پاکستان اور کراچی کی گلیوں کے سوا کچھ دیکھا نہیں، پھر کیوں بے وطن مہاجر سمجھا جارہا ہے۔ کس قیمت پر یہ وطن اپنا ہی بن سکتا ہے؟، طالبان نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی لیکن ان کو پرائے ہونے کا احساس نہیں دلایا گیا۔
جے سندھ، بلوچ قوم پرست اور پاکستان کے گناہ میں شرکت نہ کرنے پر فخر کرنے والا مولانا فضل الرحمن، متحدہ ہندوستان کے حامیوں کی اولاد اسفندیارخان، محمود خان اچکزئی ، قائداعظم کو کافر کہنے والا مولانا مودودی اور مولانا احمدرضاخان بریلوی کی روحانی اولادآج سب پاکستانی مگر جنہوں نے ’’بن کے رہیگا پاکستان، بٹ کے رہیگا ہندوستان ‘‘ کے نعرے لگاکرقربانیاں دیں، ان کی اولاد کی محب وطن ثابت کرنے کیلئے کس طرح سے ناک رگڑوائی جاری ہے؟۔ شاہ زیب خانزادہ نے واسع جلیل سے کہاکہ ’’تم نے رضاحیدر کے قتل کا الزام اے این پی پر لگایاتو100پٹھان ماردئیے گئے، بعد میں پتہ چلا کہ لشکرِ جھنگوی نے ماراتھا‘‘ مگراس وقت تو ریاست نے کوئی کاروائی نہ کی ،حالانکہ الطاف حسین رو رو کے کہہ رہا تھا کہ ان بیچاروں کا کیا قصور تھا جن کو مارا گیا؟۔ 12مئی کا واقعہ بڑا تھا یا 22اگست کا؟۔طالبان نے کیا کچھ نہیں ، وہ خود قبول کرتے تھے کہ ہم کررہے ہیں ، ان کے ہمدرد کہتے تھے کہ نہیں یہ طالبان نہیں امریکہ کروا رہاہے؟، شہباز شریف طالبان سے کہتا تھا کہ ’’پنجاب کو نشانہ مت بناؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘، ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ’’را کاملازم کلبھوشن نوازشریف کے مِل ملازموں سے رابطے کی وجہ سے پکڑا گیا‘‘۔ کوئٹہ دھماکہ پر جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’’بھارت کی را ملوث ہے‘‘تو اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی روزمانہ جنگ میں سرخی لگی کہ ’’تم جھوٹ مت بولو یہ گھر کا معاملہ ہے، تم نے جو مسلح بردار تنظیمیں پال رکھی ہیں ، کیا یہ کرائے کے قاتل نہیں؟‘‘۔محمود خان اچکزئی نے اسمبلی کے فلور پر کہا کہ ’’میں پاکستان زندہ باد نہیں کہوں گا‘‘۔کسی نے بھی اپنے بیان سے توبہ نہیں کیالیکن الطاف حسین نے اپنا بیان واپس لیا، کسی کی جماعت نے اپنے قائد اور رہنما سے لاتعلقی کے اعلان کی زحمت محسوس نہ کی لیکن ایم کیوایم نے کھل کر اظہار لاتعلقی کیا۔کسی کاسرکاری عہدہ نہیں چھینا گیا مگر ایم کیوایم کے دفاتر بھی مسمار کردئیے گئے کیوں؟۔
مہاجر بے وطن خوار ہے، غدار ہے، بیکار ہے، ناہموار ہے، بیچار ہے، عبرت کا جھنکارہے؟ ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا لے کر شہر کی آبادیوں میں بھی اپنی آواز کو صدا بسحرا سمجھ رہاہے اور ہر روز ہر ٹی چینل پر نئے ایک سے ایک نیا شوشہ کھڑا کرکے ڈاکٹر فاروق ستار مجرم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے، الزامات کی برکھا برسائی جاتی ہے، روز نئے بادل اُمڈ تے اور چھٹتے ہیں، ژالہ باری کرکے مہاجروں کی نمائندہ منتخب قیادت کی بے توقیری کی جاتی ہے لگتا ہے کہ مہاجر آزاد نہیں مجبور ہیں، محب وطن نہیں غدار ہیں، پاکستانی نہیں بھارتی ایجنٹ ہیں۔ انکا جمہوری حق چھینا جارہاہے، نتائج بدلنے میں سرِ عام کوئی شرمندگی بھی نہیں ہورہی ہے۔ سارے اینکروں، ٹاک شوز، ملمع سازی کرنے والے ٹاؤٹ قسم کے مخصوص نام نہاد رہنماہم پر چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ ساری توپوں کارخ مہاجروں کی جانب موڑ دیا گیا ہے، بے یقینی کی کیفیت ہے، ایک زمانہ میں جیو اور جنگ کا جو حال کیا گیا تھا،اسرائیل، بھارت اور امریکہ کے ایجنٹ، اہلبیت کے گستاخ، ملک کے دشمن اور ڈھیر سارے مقدمات کا نشانہ بن گئے۔ آج ایم کیوایم کی باری ہے تو کل مسلم لیگ (ن) کی بھی آئے گی۔ جمہوریت کی علمبرداری کیا صرف اسٹیبلشمنٹ کی وفاداری سے مشروط ہے؟۔ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ہو، تو 100خون معاف،12مئی کیا بستیوں کے بستیوں کو آگ لگادے لیکن جب وہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ نہ ہو تو پوری قوم اسکے ناکردہ جرائم کی سزا کھائے، الزامات بھگتے؟۔
مصطفی کمال نے کمال کیا کہ سب سن لیں، ایم کیوایم کے ووٹر خود کو لاوارث نہ سمجھیں ہم موجود ہیں انکے حقوق کیلئے لڑینگے؟۔فاروق ستار میں شروع سے شرافت کا ایک معیار ہے، مصطفی کمال جذباتی ہے کیا مہاجروں کو پھر جذبات کی رو میں بہائے جانے کاسلسلہ جاری رہے گا۔ آج وہ مصطفی کمال جو الطاف حسین کے خلاف ایک ذوی معنیٰ لفظ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا، ایک ہیجان میں مبتلاء ہے، قاتل، لٹیرے، جن پر بھارت میں تربیت لینے کا الزام ہے وہاں پناہ لے رہے ہیں، آڑے تڑے کی زباں استعمال کی جارہی ہے، جس کاضمیر ہی قتل اور بہت سے الزامات کے اقرارِ جرم اور اعترافِ بد دیانتی میں پل بڑھ کر جوان ہوا ہو، کیااس کی غیرت جاگ گئی ہے تو اس کو مہاجر قوم کی قیادت سپرد کی جائے؟۔ مصطفی کمال تو چھوٹا الطاف ہی لگتا ہے، وہی تعلیم وہی تربیت، وہی ذہنیت، وہی معیار، وہی لہجہ، وہی درشتی، وہی الزام کا قرینہ اور وہی شخصیت بس ہوا کا رخ بدلا۔ مخلص ،معصوم،نڈر، جری، مثالی بہادر، جذباتی رونے دھونے والااور آسمان سے تارے لانے کا وہی طریقۂ واردات ، اگر ڈاکٹر فاروق ستار گستاخی ، لعن طعن اور 24گھنٹہ الطاف حسین سے رابطے کے باوجود خطرات سے دوچار ہے تو مصطفی کمال نے کس سے سلامتی کا تعویذ لیکر مہاجروں کی کشتی پار لگانے کیلئے ملاح کا کردار ادا کرنے کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے؟۔
خدارا! ڈاکٹر فاروق ستار کی زندگی داؤ پر لگانے کیلئے ٹی وی اسکرین پر اس کو ایسے الفاظ کہلوانا چھوڑ دو، جس سے اس کی زندگی خطرے میں پڑ جائے، جینا مشکل بنے، مار دیا جائے یا ڈاکٹر عامر لیاقت کی طرح ہتھیار پھینک دے، آخر عزت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے، شرم بھی نہیں آتی کہ ایک لا چار شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑے ہو۔ عام لوگ ان سے کیا توقع رکھیں؟،جو ایم کیوایم کے دورِ عروج میں دم دبا کر بیٹھے رہے، طالبان کی پشت پناہی کرتے رہے اور پھر یکایک رخِ زیبا ایسا موڑا کہ گویا کبھی شناسائی ہی نہ تھی۔ ایم کیوایم کے قائد سے ایک طلاق اور تین طلاق کی باتیں منظر پر آرہی ہیں، حالانکہ پاک سرزمین پارٹی تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر ہی پاک ہوگئی ہے۔کیا نوازشریف کے ساتھی دانیال عزیز، طارق عظیم، طلال چوہدری اور عطاء مانیکا وغیرہ نے (ق) لیگ سے حلالہ کروایا تھا کہ دوبارہ نکاح میں آگئے ہیں؟۔تحریک انصاف میں کتنے لوٹے حلالہ پر حلالہ کرواکے شاہ محمود قریشی وغیرہ عزت سے بیٹھے ہیں لیکن مہاجروں کیساتھ آخر کار ایسا کیوں؟۔
اب نہ تو ملک چھوڑ کر جاسکتے ہیں، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، چپ رہ بھی نہیں سکتے۔ باغی ہیں کیا اور غدار ہیں کیا؟۔ مہاجر نام نہ لیتے تو بے شناخت تھے سندھی مکھڑ، بلوچ پناہ گیر، پٹھان ہندوستانی کہتے تھے۔ نام لیا تو مجرم بن گئے، مہاجر قومی موومنٹ کو تحریک چلانے والوں نے نام بدل کر متحدہ کردیا، پھر حقیقی مہاجر قومی موومنٹ کو ریاست نے سپورٹ فراہم کی اور متحدہ بھی مجرم بن گئی، ایک نسخہ ناکام ہوتا ہے تو سنیاسی باوا نے دوسرا ٹریلر چلا کرقوم کی تباہی کا سامان تیار کر رکھا ہوتا ہے۔ اگر یہی روش ہے تو قانون بنایا جائے کہ پاکستان یا مہاجروں کی اپنی نمائندہ جماعت نہیں بن سکتی ہے اور جس نے سیاست کرنی ہو وہ اسٹیبلشمنٹ کے پیرول ، خواہشات اور طے کردہ منزل پر گامزن رہ کر ہی سیاست کرسکتا ہے، ہر نئے فوجی سربراہ کی طرف سے ایک نیا سرکلر جاری ہوگا جس میں ایک وضاحت ہوگی کہ اسٹیٹ کی پالیسی یہ ہے، طالبان کو سپورٹ کرنا ہے، ایم کیوایم کو سپورٹ ہے یا نہیں، بلاول بھٹو زرداری کب بلو رانی اور کب شہزادہ کہلائے، شیخ رشید کی زبانی معلوم ہوگی کہانی۔ جنرل ضیاء الحق کشمیر پر پالیسی بنائے تو مسلح تنظیمیں پالی جائیں، پرویز مشرف اپنے اقتدار کیلئے سہی لیکن کشمیر کے مؤقف سے پیچھے ہٹے تو جس پر مجاہدین کے کیمپ چلانے کا الزام تھا،وہ شیخ رشیدTV سکرین پر یہ وظیفہ باربار دہرائے کہ ’’مقبوضہ کشمیر کے لوگ مجاہدین سے بہت سخت تنگ تھے‘‘۔ مگر جنرل راحیل شریف کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈہ قرار دیکر اہمیت دے تو پھر پاکستان کیلئے یہ سب سے بڑا اہم مسئلہ بن جائے۔ مہاجر تو باعزت لوگ ہیں رنڈوے رشید کو کراچی میں اپنی تربیت کیلئے بھی نہیں بلا سکتے ہیں، کہتے ہیں کہ عمران کی بھی اس نے ریحام خان سے طلاق کرادی،نوازشریف پرویزمشرف سے ناراض ہوتے ہیں تو بلوچستان کیساتھ زیادتی کے حوالہ سے پیش پیش ہوتے ہیں اور حکومت میں ہوتے ہیں تو ان کو مولی گاجر کی طرح کاٹنے پر بھی آواز نہیں اٹھاتے ہیں۔
مہاجر کس سے کیسی سیاست سیکھیں، جماعتِ اسلامی جنرل ضیاء الحق کے دور میں ٹاؤٹ کا کردار ادا کررہی تھی تو ہڑتال کیلئے رات کو گاڑیاں جلاکر شہر کو بند کردیا جاتا ، مخالفین کو تعلیمی اداروں میں تشدد کا نشانہ بایا جاتا تھا، اسلام کے نام پر جنرل ضیاء نے ریفرینڈم کرایا تو جماعتِ اسلامی اور تمام مذہبی فرقوں کے بڑے مدارس جنرل ضیاء الحق کو سراپا مجسمۂ اسلام قرار دے رہے تھے، تحریکِ انصاف کے عارف علوی نے اکیلے کراچی پولیس کا مقابلہ کرکے پیہ جام کروایا حالانکہ پولیس اس کی سپورٹ نہ کرتی تو کیا پھدی کیا چھدی کا شوربہ۔ ایسے ماحول میں مہاجر کو سمجھ نہیں آرہی ہے کہ بھارت کی ایجنٹ ایم کیوایم نے آخر کونسے جہاز استعمال کرکے ایبٹ آباد کے امریکی کمانڈوز سے زیادہ کمال دکھایا کہ اتنے آفس بنالئے جو اچانک مسمار کر دینے کا فیصلہ ہوا، مہاجر کیا سوچے؟۔
مہاجرکو یہ سوچنا چاہیے کہ جو گلے شکوے اسکے دماغ میں بیٹھ گئے ہیں، ان کو نکال دے۔ کیا نوازشریف کی حکومت کے ہوتے ہوئے مارشل لاء نہیں لگا؟۔ نوازشریف نہیں روتا رہا کہ مجھے بھی ہتھکڑیاں لگاکر جہاز کی کرسی کیساتھ بھی باندھ دیا گیا؟۔ کیا اس پر کوئی گلہ شکوہ کرتا ہے کہ مہاجر بڑا سخت گیراور بے توقیری کرتا ہے؟۔ پرویزمشرف مہاجر تھا مگر انکی وجہ سے الزام مہاجروں کے سر نہ آیا ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی ، پنجاب میں ن لیگ کی صوبائی حکومتیں ختم کی گئیں، محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی گئی، بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کرکے اکبر بگٹی کے ذریعہ گورنر رائج قائم کیا گیا، اپوزیشن کی ساری قیادت کو ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں ڈالا، بغاوت اور غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ یہ تو جنرل ضیاء نے جمہوری حکومت قید کرکے جمہوری لوگوں پر غداری کے مقدمات ختم کیے ورنہ اپوزیشن کی ساری جمہوری جماعتیں قائد عوام بھٹو کے زمانے میں غداری کے مقدمہ میں تختۂ دار کو پہنچتیں۔ جب کراچی کے سیاہ وسفید کی مالک مہاجروں کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم تھی تو کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں اعلیٰ درجے کی تعلیم، تربیت، امن وامان ،روشن خیالی اور مذہب شناسی کے نمونے اور مثالیں قائم کرکے مہاجر پاکستان کے دوسرے لسانی کائیوں کے قابلِ تقلید بن سکتے تھے۔پاکستان میں بہت زبانیں ہیں جن کی تاریخ بڑی قدیم ہے، اردو کو پاکستان میں قومی زبان کا درجہ دیکر اردو بولنے والوں میں احساس پیدا کیا گیا کہ ’’تم حکمران ہو‘‘۔ ہجرت کرنے والے تو پنجاب ، پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی بہت ہیں، کراچی میں بڑی تعداد ان کی بھی ہے جو ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہیں جوگھروں میں اردو کی بجائے دوسری زبانیں بولتے ہیں۔اردو اسپکنگ دوسروں کی طرح خود کو مہاجر نہ بھی کہلواتے تو میمن، چھیپا، مارواڑی، صدیقی، فاروقی ، عثمانی ، علوی ، سید اور اپنے اپنے پیشے اور قومیت سے اپنا تعارف رکھ سکتے تھے۔
مہاجر کہلانے میں بھی کوئی عیب نہیں، صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد مہاجروں کی تھی ،نبیﷺ بھی مہاجرین میں سے تھے۔ حضرت آدمؑ بھی جنت سے زمین پر مہاجر بن کے آئے۔ حضرت اسماعیلؑ بھی مہاجر تھے، قبائل تعارف کیلئے ہوتے ہیں، سب ایک آدم کی اولاد ہیں،زبان رابطے کا ذریعہ ہے۔آج کوئی برطانیہ، امریکہ، مغرب کے دیگر ممالک یا آسٹریلیا کی قومیت اختیار کرکے فخر کرتا ہے تو پاکستان بنا ہی مسلمانوں کیلئے تھا۔خاص طور سے ہندوستان سے آنے والوں کیلئے۔ وہاں وہ اقلیت میں تھے، نظریۂ پاکستان کی وجہ سے پڑوسیوں سے تصادم کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ پاکستان ایک خطۂ زمین ہے اس پر اسلامی نظام کے نفاذ کی ذمہ داری حکمران طبقہ اور علماء کرام پر تھی۔اردو اسپکنگ اپنی مادری زباں کی وجہ سے سب سے بڑھ کر کردار ادا کرسکتے تھے۔لوگوں نے نظام پر توجہ نہ دی اور نوکریوں باگ ڈور سنبھالنے اور مراعات کے چکر میں لگ گئے۔
پہلی مرتبہ آزادانہ انتخاب کا نتیجہ ادھر ہم ادھر تم نکلا، بنگلہ دیش الگ ہوا، فوج کو بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑگئے۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالا ،تو170قابل ترین بیوروکریٹوں کو فارغ کیا اورکوٹہ سسٹم قائم کرکے پنجابیوں اور مہاجروں کا گٹھ جوڑ ختم کرکے سندھیوں کو پنجابیوں سے ملادیا۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے ہتھوڑے گروپ سے لیکر کراچی کے لسانی فسادات تک پیپلزپارٹی کو مٹانے کا منصوبہ بنایا، جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا نورالہدی کو سات ماہ تک جیل رکھا، اسلئے کہ وہ پیپلزپارٹی کے جیالے شیخ نورالہدی مرحوم کو قید کرنا چاہتے تھے مگر بیوروکریٹ کمشنر نے اپنی جان فوجی دماغ سے چھڑانے کیلئے مولوی کو پکڑ کر بتایا یہ کہ ’’جیالا پکڑ لیا ہے‘‘۔ جب شیخ نورالہدیٰ پکڑ لیے گئے تو مولانا نورالہدیٰ کی جان چھوٹ گئی، ان کو چھوڑدیا گیا۔ اوریا مقبول جان خود بھی کمشنر رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ سول بیوروکریسی ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مغالطہ دیتی ہے،اسلئے ملک کی حالت بہتر نہیں ہورہی ہے۔بیروکریسی کو سدھارنے کیلئے کون کام کرے گا؟۔
اچھی تعلیم کیلئے ایک زبرست ماحول کی ضرورت ہوتی ہے،پہلے طلبہ تنظیموں نے پھر یہ معیار کراچی میں ایم کیوایم کے عروج کی وجہ سے گرگیا، اب تو کوٹہ سسٹم کی ضرورت ہی نہ رہی ہے اور تعلیم کے علاوہ تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ تربیت کے بغیر تعلیم سے کوئی معیاری معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا، تربیت کے بعد پھر تزکیہ بھی ضرورت ہوتی ہے، قوموں اور قیادت پراونچ نیچ کے ادوار آنے سے انسانوں کا تزکیہ ہوتا ہے۔ ایم کیوایم کے رہنما ؤں کو جب وقت ملا تھا تو عوام سے خوش اخلاقی سے پیش آتے۔عاجزی ، انکساری، رواداری ، اخلاق ، مروت اور اچھا انداز اپناتے تو آج تیز وتند ، تلخ و ترش اور گھن گرج کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آزمائش اللہ تعالیٰ بڑے لوگوں پر ہی ڈال دیتا ہے لیکن یہ عذاب نہیں بلکہ گناہوں کی معافی اور تزکیہ ہے۔مہاجر کا شریف طبقہ ایک طرح سے یرغمال بناہوا تھا اس پر عام مہاجر کو پریشان نہیں خوش ہونا چاہیے۔ اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار

پندرہ روزہ ’’طبقاتی جد وجہد‘‘ کی کچھ ’’جھلکیاں.. محنت نے دولت کو للکارا ہے!

مئی1886ء کو امریکی سرمایہ دار ریاست کے ہاتھوں شکاگو میں جب مزدوروں کے پرامن جلسے کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ مزدوروں کے ریاستی قتلِ عام کے بعد انکے قتل کا مقدمہ مزدور رہنماؤں پر چلاکر ان کو پھانسی دیدی گئی۔۔۔ ایک مزدور کو زندگی کی سہولیات حاصل کرنے کیلئے ایک دن میں کئی جگہ گھنٹہ دو گھنٹہ کام کرنا پڑتا ہے تب زندگی رواں دواں رہ سکتی ہے… معلوم دنیا کی تاریخ’’ طبقاتی کشمکش ‘‘ کی ہے، غلام کی آقا، مزارعہ کی جاگیردار، مظلوم کی ظالم اور مزدور کی سرمایہ دار کے خلاف… یومِ مئی مزدوروں کا عالمی دن، ناقابلِ مصالحت طبقاتی کشمکش کاعلمبردار
تحریر۔قمرزمان خان:اگرچہ محنت کش طبقہ اپنی جدوجہد سے اپنی منزل تک نہیں پہنچا مگرشکستوں اور فتوحات کی مختلف لہروں سے نظر آتا ہے کہ اس کشمکش نے ظلم سے کافی …
فوجی اداروں میں بدعنوانی: فوج میں تطہیر کی حدود…21اپریل کو فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے حوالے سے منظر عام پر آنیوالی کاروائی میں لیفٹیننٹ جنرل ایک میجر جنرل3بریگڈئیرزایک کرنل اور 12افسران کو برطرف کیا گیاہے لیکن ابھی واضح نہیں ہواہے کہ کیا ان کا کورٹ مارشل بھی ہوگا یاانکو اس کرپشن میں سزائیں بھی ملیں گی کہ نہیں؟
تحریر: لال خان۔ ویسے تو یہاں میڈیا معمولی واقعات ، خصوصاً معمول بن جانیوالی کرپشن کی خبروں اور افواہوں ہی سے چائے کے کپ میں طوفان کھڑا کردیتا ہے لیکن جنرل راحیل شریف کی جانب سے فوج میں تطہیر کے تأثر سے تو سونامی برپا ہوجائیگا۔۔۔
جنرل راحیل کا یہ بیان تھا کہ ’’ ہرطرف مکمل احتساب کیا جانا لازم ہے….اگر ہم بد عنوانی کی غلاظت کا خاتمہ نہیں کرینگے تو دہشت گردی کیخلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی ہے‘‘ عمومی طور پر حزبِ اختلاف نے اس بیان کو نوازشریف اور انکے خاندان کے حالیہ پانامہ لیکس سکینڈل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔لیکن چونکہ اس پیسے کی سیاست کے تمام دھڑے کسی نظریاتی بنیاد سے عاری ہیں اسلئے انکے تجزئے و بیان بڑے ہی سطحی اور محدود ہوتے ہیںیہی وجہ ہے کہ یہ سیاستدان کسی دوررس تناظر یا پروگرام یا لائحۂ عمل سے بھی عاری ہیں، انکی چونکہ ساری دلچسپی مال بٹورنے میں ہوتی ہے، اسلئے انکی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اقتدار کے ذریعہ اس لوٹ میں زیادہ حصہ داری رکھنے والے سیاسی دھڑوں کو کسی طریقے سے پچھاڑا جائے ، چاہے فوجی کاروائی کے ذریعہ ہی سے کیوں نہ ہو۔ جمہوریت کے یہ چمپئن تو بوقتِ ضرورت فوجی حکومتوں میں بھی حصہ داری حاصل کرلیتے ہیں اور اس وقت کوئی بھی حاوی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو کسی نہ کسی فوجی اقتدار میں کسی نہ کسی قسم کی شراکت اور مراعات حاصل نہ کرتی ہو۔
جنرل راحیل شریف کی غیرمعمولی کاروائی کسی اور ہی مسئلے اور تشویش کی غمازی کرتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اسکی ریاست میں کسی نہ کسی سطح پر کرپشن موجود ہوتی ہے۔ کچھ اداروں میں کرپشن کم اور کچھ میں زیادہ ہوتی ہے لیکن پاکستان کی موجودہ فوج جس کے بنیادی ڈھانچے انگریز سامراج کی برصغیر میں کھڑی کی جانے والی فوج پر مبنی اور انہی کا تسلسل ہیں اس میں کرپشن کی گنجائش کم ازکم انگریز سامراج نے بہت کم چھوڑی تھی، اسلئے نہیں برطانوی سامراج بڑا دیانتدار اور نیک تھا بلکہ اسلئے کہ ریاست کے فوج جیسے کلیدی ادارے میں کرپشن کا بڑے پیمانے پر پھیل جانا پوری حاکمیت کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔ انگریز سامراج نے مارکس کے الفاظ میں’’ ہندوستان پر قبضہ ہندوستان(برصغیر) کی فوجوں کے ذریعہ ہی کیا تھا۔‘‘۔ یہاں تک کہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں سکھوں، کشمیر کے مہاراجہ اور دوسرے مقامی قبائلی ، علاقائی اور نسلی لشکروں کی حمایت انگریز کو نہ ملتی تو ان کو یہاں کے مقامی فوجیوں اور عوام نے شکست دے دینا تھی ۔ اور ان کو ہندوستان پر مکمل قبضہ کی بجائے یہاں سے فرار ہونا پڑتا۔انہوں نے بنگال سے آغاز کیا،اور تقسیم اور لالچ کے ذریعے مقامی راجاؤں، مہاراجاؤں کو غداریوں پر راغب کرکے انہیں استعمال بھی کیا اور نوازا بھی۔ پھر یہ پالیسی ہرطرف جاری رکھی۔لیکن پھر انہوں نے یہاں کی برادریوں، نسلوں، ذاتوں کی اقسام اور انکے سماجی کرداروں کی پرکھ بھی حاصل کی اور انہیں استعمال کرنے کی پالیسی بھی اختیار کی۔ اس طرح جغرافیائی لحاظ سے بکھرے ہوئے معاشروں کی معاشی وسماجی خصوصیات اور حتی کہ مختلف خطوں کے افراد کی جسمانی ساخت کی بنیاد پر برٹش انڈین آرمی تشکیل دی۔ ان میں خصوصاً شمال مغربی پنجاب کے سنگلاخ علاقوں اور وادیوں سے ( سنگ دل افرادکی) زیادہ بھرتیاں کی گئیں۔ یہ کوئی حادثاتی امر نہ تھا کہ برطانوی فوج کے عروج میں بھاری نفری سکھ جاٹوں،راجپوتوں اور دھن، بھون،دنہار، کالا چٹاوغیرہ جیسے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھتی تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے فوجیوں کو سویلین آبادیوں سے الگ سخت ڈسپلن کے تحت چھاؤنیوں میں ہی محدود رکھا، اگر کسی فوجی کو کنٹومنٹ کی حدود سے شہر میں کسی نہایت ضروری کام سے بھی جانا ہوتاتھا تو اس کیلئے نائٹ پاس حاصل کرنا ضروری ہوتا تھا۔ دوسری جانب فوجی سپاہی اور افسران دہقانوں، چھوٹے کسانوں یا درمیانے درجے کے زمیندار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں نسل در نسل مغرب سے برصغیر آنے والے حملہ آوروں کیلئے لڑنے کی روایات بھی موجود تھیں اور پھر انکے خلاف بغاوتوں کی ریت بھی پائی جاتی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں کا حکمران طبقہ اپنی تاریخی نااہلی، مالیاتی کمزوری،تکنیکی پسماندگی کے تحت جدید صنعتی سماج، سرمایہ دارانہ ریاست اور پارلیمانی جمہوریت قائم کرنے سے قاصر تھااور نظام کو برقرار رکھنے اور اسے چلانے کیلئے روزِ اول سے ہی اقتدار میں فوج کا کلیدی کردار رہا۔ اقتدار میں آکر فوج اور بالخصوص فوجی اشرافیہ یا جرنیلوں کی دو لت اور طاقت کے باہمی رشتے میں شمولیت ناگزیر ہوجاتی ہے۔جوں جوں فوجی اقتدار کی شرح بڑھتی گئی، فوج کا سرمایہ اور کاروبار امور میں کردار بھی بڑھتا چلاگیا۔ اسی طرح یہاں کے سرمایہ دار طبقے کا وجود ہی کرپشن اور چوری سے مشروط ہے، چنانچہ وقت کیساتھ بدعنوانی ریاست کے ہر ادارے میں پھیلتی چلی گئی ضیاء الحق کے دور میں یہ عمل تیز تر ہوگیا۔
جنرل راحیل شریف کا یہ اقدام کرپشن اور کالے دھن کے اس پھیلتے ہوئے زہر کے تریاق کی کوشش معلوم ہوتا ہے جس سے ادارے کے ڈھانچوں اوروجود تک کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ایسے میں یہ ادارہ نہ اس ریاست کے کسی کام کا رہیگا اور نہ اسکا وجود اور ساکھ برقرار رہ سکے گی۔ فوج کے کرپشن میں ملوث ہونے کی داستانوں کی کتابیں ڈھیروں ہیں لیکن یہ واقعہ حکمرانوں کی شدید تشویش اور سنگین کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ریاستی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ قدم بہت چھوٹا ہے اور بہت تاخیر سے اٹھایا گیا ہے، تاہم حکمران طبقات کے دانشور ، تجزیہ نگار اور درمیانے طبقے کے کچھ افراد اس سے بھی خوش ہیں کہ چلو کچھ تو ہواہے!۔ راحیل شریف کی اُبھاری گئی ساکھ کا بھی شاید ان کے شعور پر بوجھ ہوگا۔ اس اقدام سے اس ادراک کا یہی کردار ہوسکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن اس بحران کی وجہ نہیں بلکہ اسکی ناگزیر پیداوار ہے۔ریاست ، معیشت اور سیاست کے اس بحران کی دو بنیادی وجوہات ہیں پہلے تو پاکستان کے بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقے میں اتنی سکت ہی نہیں کہ یہاں کے سرمایہ دار ٹیکس اور بل ادا کریں، محنت کشوں کو انسانی اجرت اور سہولیات بھی دیں، ہر کام جائز طریقے سے کریں اور ساتھ ہی اپنا شرح منافع بھی برقرار رکھ سکیں۔دوسری جانب بدترین استحصال ، نابرابری اور غربت سے ذلت اورمحرومی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس میں ہر سطح اور ہر ادارے میں دو نمبری کے بغیر گزارہ نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اقدام ایک بے قابو ہوتے ہوئے عمل کے خلاف صرف ایک وارننگ ہے لیکن جب بدعنوانی نظام کا ناگزیر جزو بن جائے اور اُوپر سے نیچے تک سماج اور ریاستی مشینری کے رگ وپے میں رچ بس جائے تو جرنیلوں،افسر شاہی اور سیاستدانوں وغیرہ کے خلاف انفرادی کاروائیاں ختم نہیں ہوسکتی۔سوال پھر پورے نظام پر آتا ہے۔ بدعنوانی ختم کرنے کیلئے ذاتی ملکیت اور دولت کا خاتمہ درکار ہے۔ یہ کسی جرنیل کا نہیں سوشلسٹ انقلاب کا فریضہ ہے۔(کامریڈلال خان صاحب)۔
اوکاڑہ میں انجمن مزارعین پر فوجی آپریشن: محافظ یا غاصب؟۔تحریر امان اللہ مستوئی: ایک آپریشن جو پچھلے چندروز میں دوبارہ جاری کیا گیا وہ وسطی پنجاب میں انجمن مزارعین کیخلاف ہے۔ یہ غریب کسان نہ دہشت گرد ہیں نہ بھتہ خوراور سب سے بڑھ کر یہ غیر مسلح ہیں لیکن ان پر بھی ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کے تحت ’’دہشت گردی‘‘ کے مقدمے ہی درج ہورہے ہیں اور ریاستی جبر پوری وحشت سے کیا جارہا ہے۔ انجمن کے 13کارکنوں کوکئی دنوں سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے ۔ ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔(جدوجہد)

پندرہ روزہ جدوجہد اداریہ۔۔۔ کرپشن کے کھلاڑی

’’گلی گلی میں شور ہے سارے لیڈر چور ہیں‘‘ یہ نعرہ برصغیر میں کتنی نسلوں سے یہ خلق سنتی آرہی ہے،لگاتی آرہی لیکن جوں جوں کرپشن کے خلاف شور بڑھتا گیا، کرپشن مزید پھیلتی پھولتی گئی ہے۔عمران خان نے اس معمول کو ایک غیرمعمولی کیفیت دیکر اس پرانے نعرے کونئے سرے سے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو کرپشن کیخلاف مہم بنیادی طور پر اس نظام زر کے تحفظ اور اسکی المناک بربادیوں پر مزید پردہ پوشی کا کام کرتی ہے، درحقیقت یہ کرپشن کے علاج کا ڈھونگ اور عوام میں شعور پیدا کرنے کی جھوٹی کوشش ہے، یہ بیماری کی بجائے اسکے علامات کا نسخہ ہے۔کرپشن کے شور تلے اس حیوانی نظام کی مشقت و استحصال کے مظالم چھپائے جاتے ہیں۔ دولت کو ’’ جائزطریقوں‘‘ سے اکٹھا کرنے اور اسکی ذخیرہ اندوزی کیلئے راہِ عامہ بنائی جاتی ہے۔کرپشن کے واویلے میں بڑے بڑے امراء، مخیر حضرات ، شرفا اور مذہبی پیشوا دولت کے اجتماع اور منافعوں کی ڈاکہ زنی کو جائز قرار دینے کی اصل واردات کررہے ہیں۔ پہلے تو جائزو ناجائز دولت جمع کرنے میں فرق کرنا مشکل نہیں ناممکن ہے،امارت اور غربت میں بڑھتی ہوئی تفریق اور دولت کے انبار لگاکر بھوک اورغربت کو پھیلانے کو اگر اخلاقی یا قانونی طور پر درست قرار دیا جائے تو پھر کرپشن کو گالی دینے کی کوئی تک نہیں بنتی۔کیا محنت کے استحصال سے حاصل کردہ قدرِ زائد یا منافع خوری جائز ہے؟۔ اگر یہ کرپشن نہیں ہے تو پھر اس سے بڑا جھوٹ کوئی ہوہی نہیں سکتا؟۔ غریبوں کو مزید غریب کرکے اور امارت میں بے ہودہ اضافوں کا عمل اگر جائز ہے تو پھر کرپشن کیسے ناجائز ہے؟۔لیکن المیہ یہ ہے کہ اخلاقیات ہوں یا اقدار، سماجی رجحان ہوںیا مختلف مفروضوں کی تعریف، ایک طبقاتی نظام ان کے بنانے اور بگاڑنے کا حق صرف بالادست طبقات کے نمائندگان اور انکے کاسہ لیس مفکروں اور تجزیہ نگاروں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ لیکن ایک محروم معاشرے میں جہاں نظام ترقی کرنے اور دینے سے قاصر ہوجائے وہاں کا سرمایہ دار بجلی اور ٹیکس چوری کیے بغیر سرکاری خزانے کو لوٹے بغیراور محنت کشوں کی روزی روٹی پر لات مارے بغیرتو سرمایہ دار ہو نہیں سکتا۔وہ جیسے جیتے ہیں ویسے ہی مر نہیں سکیں گے۔انکی اوباشی پل نہ سکے گی اور وہ سیاست اور طاقت کو خرید کر حاکمیت نہیں کرسکیں گے۔ لیکن جس معاشرے میں ذلت اور رسوائی ہر طرف پھیلی ہوئی ہواور زندگی کو اذیت ناک بنارہی ہووہاں کرپشن معاشرے کی رگوں اور ہڈیوں میں سرائیت کرجاتی ہے۔کرپشن کے بغیر شناختی کارڈ تک نہیں بن سکتاتو پھر ایسے معاشرے میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانا بنیادی طور پر اس کو تحفظ دینے کے سوا کچھ نہیں ہے جس کی کرپشن ضرورت اور ناگزیر پیداوار ہے۔
فوج میں کرپشن اتنی ہے کہ اس کا وجود اور ڈھانچے بکھر جانے کے خطرے سے دوچار ہے۔ سپریم کورٹ کا ہر نیا چیف جسٹس عدلیہ کی کرپشن کا رونا روتے روتے اپنی مدت پوری کرلیتا ہے اور عدالتی کرپشن کے ذریعہ باقی زندگی عیش وآرام سے گزارتا ہے،صحافت میں کرپشن کیخلاف سب سے زیادہ شور ہے اور جتنی کرپشن اسکے ان داتاؤں نے کی ہے اور کررہے ہیں اس کا مقابلہ کرنے میں پولیس اشرافیہ بھی پیچھے رہ گئی ہے۔معاشرے کی کوئی پرت کوئی ادارہ ، کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو کرپشن کے بغیر چل سکتا ہویا قائم بھی رہ سکے۔لیکن پھر بھی کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ شور ہے۔جہاں ایک کرپٹ عدالتی نظام بدترین کرپشن کے مرتکب حکمرانوں کو بری کردیتا ہووہاں وہی حکمران اور جج پھر کرپشن کیخلاف راگ الاپتے ہیں۔ یہ کیسا کھلواڑ کیسا ناٹک ہے؟۔ نوازشریف خاندان ہو یا باقی حکمران طبقات کے دھڑے ہوں،اگر کرپشن نہیں کرینگے تو اس نظام میں حکمران بنیں گے کیسے؟۔سیاست سے جس جلسے میں کرپشن کے خلاف آگ اگلی جاتی ہے اسی جلسے یا جلوس کو بدترین کرپشن والے ہی فنانس کرتے ہیں، ملک ریاض جیسے نودولیتے اور بلیکیے جرنیلوں سے لیکر عام سیاسی لیڈروں کو کرپشن سے تابع کرلیتے ہیں،ہرادارے کو کنٹرول میں لے لیتے ہیں صحافت انکی داشتہ بن جاتی ہے، ریاست انکی مشکور ہوتی ہے ، سیاست انکے کرموں کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتی ہے لیکن
پھر بھی کرپشن کا کھلواڑ جاری ہے۔ کرپشن کے کھلاڑی عوام کو اس کرپشن کے ایشو میں الجھائے رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔لیکن عوام اب اس کرپشن کے ناٹک سے اکتا چکے ہیں۔ انکی سیاسی بیگانگی اس ایشو کے استعمال کی ناکامی کی غمازی کرتی ہے۔ یہ بیگانگی جب پھٹے گی تو پھر جاگے ہوئے محنت کش عوام کی یلغار اس پورے نظامِ زر کو اکھاڑنے اور دولت وطاقت کو نیست ونابود کرنے کا وار بن جائے گی۔پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری! (یکم مئی2016 پیپلزپارٹی اور مزدورتحریک میں سوشلزم کی آواز)

جدوجہد یکم مئی تا15مئی 2016کے’’ اداریہ پر تبصرہ‘‘ فاروق شیخ

محترم کامریڈ لال خان سوشلزم کی اس تحریک کے روحِ رواں ہیں ۔ جہاں قیادت محنت و صلاحیت کی بنیاد پر ہو تو وہاں انسانیت کیلئے اچھی توقعات رکھنے کی امید ہوتی ہے، اس پندرہ روزے میں بڑی اہم بات یہ ہے کہ اس میں کارل مارکس کا نظریہ’’قدر زائد‘‘ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اسی نظریہ کی وجہ سے لینین نے روس ’سویت یونین‘کا عظیم انقلاب برپا کیا تھا،چین میں بھی اسی نظریے کی بنیاد پر انقلاب برپا ہوا ہے۔ پاکستان یا برصغیر میں اس نعرے میں تھوڑی سی کشش اسلئے باقی ہے کہ آزادی کے بعد بھی پاکستان اور بھارت کے حالات میں عوام کیلئے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے، وہی فوج، وہی عدالتیں اور وہی بیوروکریسی اور وہی استحصالی نظام بلکہ پہلے کی نسبت اب زیادہ ظلم وستم اور جبرو زیادتی کا ماحول ہے۔ پہلے فوج سول آبادی میں قدم رکھنے میں خوف محسوس کرتی اور اب اس جنگلی طبقے کا عوام پر راج ہے، سیاست فوج کی باندی، عدالت لونڈی اور بیوروکریسی نوکر اور صحافت چاکر ہے۔ اگر ترکی میں عوام فوجیوں کو بغاوت سے روک سکتے ہیں تو پاکستان کی عوام کیلئے اس نظام کو تہہ وبالا کرنے میں ایک رات کی مار ہے لیکن نظام کو بدلا جائے تو متبادل کیا نظام ہوگا۔عوام نے جمہوریت اور مارشل لاؤں کا بار بار تجربہ دیکھا ہے جو ایک دوسرے سے بدتر اور بدترین ثابت ہوتے ہیں۔
سوشلزم اور اسلامی انقلاب کے خواہاں تبدیلی کے حوالہ سے جو نظریات رکھتے ہیں ، ان میں مکالمہ کی ضرورت ہے۔ اس پندرہ روزہ رسالے میں پیپلزپارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری کی قیادت سے توقعات وابستہ کی گئی ہیں کہ وہ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی بجائے پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی راہ پر چلیں اور پارٹی کا بنیادی نظریہ سوشلزم کا تھا، پرائیویٹ ملوں اور فیکٹریوں کو بھٹو نے سرکاری تحویل میں لیا تھالیکن یوسف رضاگیلانی نے اس اقدام کو سب سے بڑی گالی دی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔
ہماری سوشلزم کی علمبردار تحریکوں سے صرف اتنی گزارش ہے کہ تمہاری حب الوطنی، انسان دوستی، غریب پروری اور جرأت وبہادری پر کوئی شبہ نہیں ہے لیکن قدرِ زائد کا بنیادی نظریہ ہی موروثی نظام کے خلاف ہے۔ بلاول بھٹو،میر حاصل بزنجو، اسفندیار ولی خان اور دیگر سوشلزم اور کمیونزم کے نظریے کو سپورٹ کرنے، سمجھنے اور اس پر ایمان رکھنے والی جتنی جماعتیں ہیں وہاں سب کی سب قیادتیں موروثیت کی وجہ سے ہیں۔ بلاول بھٹو میں کتنی صلاحیت ہے اور اس نے کتنی محنت کی ہے؟۔ کیا پیپلزپارٹی کی قیادت بذاتِ خود یہ اہلیت رکھتی ہے جو قدرِ زائد کے بنیادی نظریہ پر پورا اترتی ہو؟۔ اس کے بنیادی ڈھانچے کی قیادت ہی قدرِ زائد پر استوار ہونے والے نظریے کی بیخ کنی ہے۔اگر ایسے توقعات اور خواہشات کی بنیاد پر چند محنت کشوں کے جیبوں پر اضافی بوجھ رکھ کر تحریک برپا کرنے کا سلسلہ جاری رہے تو دانشوروں کی میٹنگوں سے معاملہ کبھی آگے نہ جائیگا۔ جن منافقتوں کا رونا رویا جارہاہے،اسی کے آنسو پی کر اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کیجائے تو کیا نتائج برپا ہونے کی امید بھر آئیں گے؟۔البتہ اس نظام کی ناکامی کے بعد چند افراد کی تربیت سے بھی اچھے توقعات پوری ہونے کی امید زیادہ بری اور کوئی جرم بھی نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ ایک محنت کش تھے، اماں خدیجہؓ ایک سرمایہ دار تھیں۔ایمانداری نے وہ نتائج برپا کیے کہ سرمایہ دار خاتونؓ ایک محنت کش پیغمبرﷺ کی اس وقت بیوی بن گئیں اور ان کا سارا مال پھر تحریک کیلئے وقف ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ انبیاء درہم ودینار کی نہیں علم کی وراثت چھوڑتے ہیں‘‘۔ درہم ودینار کی وراثت چھوڑنے والے بادشاہ اور علماء دنیا ہوسکتے ہیں لیکن انبیاء کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جب حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت تھی تو والد کی زندگی میں حضرت سلیمان علیہ اسلام نے اپنی صلاحیت کو بھی منوایا تھا اور کوئی بھی اہلیت والی شخصیت ہو تو اس کو جانشین بنانے پر اتفاق میں حرج نہیں لیکن
پاکستان میں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو عوام کی روحانی اور جسمانی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرے۔ جو کرپشن کو ہڈیوں کے گودے اور خون کے جرثوموں سے باہر نکال دے۔ جو عوام کی روحانیت اور اخلاقیات کو بھی بدل دے۔ سوشلزم کے نعرے میں جان ہونی چاہیے تھی لیکن افسوس کہ نہیں ہے۔ کرپشن کے نعرے کی طرح نظام کی تبدیلی کا نعرہ بھی خوشنما ڈھونگ کے سوا نتیجہ خیز اسلئے نہیں کہ یہ چلے ہوئے کارتوس کا خول ہے،اگر روس سمٹ گیا، چین نے اپنے نظریہ سے انحراف کیا تو پھر پاکستان میں انقلاب چائے کی پیالی میں وہ طوفان ہوگا جو عجیب بھی ہوگا اور غریب بھی۔ سوشلزم کے حامی اگر اسلام کے آفاقی نظام پر اتنی محنت اور صلاحیت لگاتے تو دنیا میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوسکتا تھالیکن اہل فکر ونظر میں مکالمے کی ضرورت ہے، امریکہ نہیں روس سے دوستی ہوجائیگی۔

معراج محمد خانؒ کی شخصیت سے سیاست بے نقاب ہوتی ہے ذوالفقار علی بھٹوؒ ، جنرل ضیاءؒ اور عمران خان کا پتہ چلتا ہے

معراج محمد خان بائیں بازو کے ،جاویدہاشمی دائیں بازوکے اچھے کردار وں کی علامت ہیں، تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔ دونوں کی فکر ونظر میں اختلاف ہوسکتا تھا لیکن خلوص وکردار پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ معراج محمد خان خود کو علماء حق کے پاؤں کی خاک کہنے پرفخر محسوس کرتے تھے اور جاوید ہاشمی نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی سے معذرت کرلی تھی کہ میں جماعتِ اسلامی جیسی مذہبی جماعت نہیں مسلم لیگ جیسی سیکولر جماعت کے ساتھ ہی چل سکتا ہوں۔ معراج محمد خان کمیونسٹ مسلمان تھے اور جاویدہاشمی سیکولر مسلمان ہیں، ایک کادائیں اور دوسرے کا بائیں باز وسے تعلق اس بات کا ثبوت نہیں کہ انہوں نے اسلام سے رو گردانی کا ارتکاب کیا۔
یہ معراج محمد خان کا قصور نہ تھا جو کیمونسٹوں کی صفوں میں کھڑا ہوا، بلکہ یہ علماء سوء کا قصور تھا جنہوں نے مذہب کو پیشہ بنالیا۔ جس دن اسلام کا حقیقی تصور قائم کرلیاگیا اور اس پر عمل کیا گیا تو کمیونسٹ اور سیکولر لوگ اسلام کی آغوش میں ہی پناہ لیں گے۔ اسلام خلوص کا نام ہے، اسلام پیشہ نہیں دین ہے اور اسلام نے ہی دین میں جبر کومنع کیا ہے۔ جس دن مذہبی طبقات نے یہ تأثر ختم کردیا کہ اسلام کوئی پیشہ ہے تو دنیا کی ساری کمیونسٹ پارٹیاں اسلام کے دامن میں پناہ لیں گی اور جس دن مذہبی طبقات نے یہ تأثر قائم کرلیا کہ دین میں جبر نہیں تو دنیا کی ساری سیکولر قوتیں اسلام کی آغوش میں پناہ لیں گی۔ معراج محمد خان ؒ کے نام پر آرٹ کونسل میں ایک پروگرام رکھا گیاجو تقریروں اور اچھے جذبات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سینٹر کامریڈ تاج حیدر نے کہا کہ ’’معراج محمد خان کے حوالہ سے میں نے جومضمون لکھا ، کسی بھی نامور اخبار نے اس کو شائع کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ جب کسی کا نام آجائے تو ادارہ اس کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجاتا ہے‘‘۔
سنیٹر تاج حیدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مذہبی طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جوگٹھ جوڑ تھا اس کا خاتمہ ہوا ہے ، اس صورتحال سے کمیونسٹ نظریات رکھنے والوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مولا بخش چانڈیو نے ایک بڑا اچھا شعر بھی سنادیا کہ ’’حسینؓ کی عزاداری کاعشرہ ضرور مناؤ مگر وقت کے یزید کی طرفداری بھی مت کرو‘‘ اور سب مقررین نے اپنے خیالات اور جذبات کا اپنے اپنے انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ معراج محمد خان ؒ کے نام کیساتھ ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کے لفظ کا اشارہ نا مانوس لگتاہے لیکن اللہ کی رحمت کی دعا کی اجاراداری ان لوگوں سے ختم کرنے کی ضرورت ہے جو صرف مذہبی ماحول سے تعلق رکھتے ہوں۔ مذہبی طبقات صرف اپنے اپنے اکابر کے ساتھ یہ علامت لگاتے ہیں، ان کی یہ بھی مہربانی ہے کہ مخالفین کیساتھ زحمت اللہ علیہ (زح) نہیں لگاتے۔ عوام کو ان مذہبی جہالتوں سے نکالنا بھی بہت بڑی جدوجہد اور جہاد ہے جن میں نامعقول مذہبی طبقات کی وجہ سے جاہل عوام مبتلا ہیں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولاناشاہ احمدنورانیؒ بڑے اور اچھے لوگ تھے لیکن معراج محمد خانؒ بھی کسی سے کم تر نہ تھے۔ جنرل ایوب خانؒ کے دور میں ذوالفقار علی بھٹوؒ جب جنرل صاحب کیساتھ تھے تو معراج محمد خانؒ نے ان کا مقابلہ کیا، جب بھٹو نے جنرل ایوب کا ساتھ چھوڑدیا تو اپنے سخت ترین مخالف بھٹو کا استقبال کیا اور اپنے کارکن بھٹو کے حوالہ کردئیے کہ اب ہمارا اختلاف نہ رہا ، راستہ درست چن لیا ہے تو ہم آپکے ساتھی ہیں۔ بھٹو کے دورِ حکومت میں معراج محمد خان کو وزارت ملی لیکن حکومت اور اپنی وزارت کے خلاف عوام کے حقوق کیلئے احتجاج میں شامل ہوگئے۔ بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ جو راہ ورسم بنالی تھی اس کو نباہ رہے تھے مگر معراج محمد خان نے اپنے اصولوں سے وفا کی۔ پھر جب بھٹو نے سیاسی قائدین پر جیلوں میں بغاوت کے مقدمات چلائے تو معراج محمد خان بھی حکومت کی صف میں نہ تھا بلکہ اپوزیشن جماعتوں کیساتھ جیل میں بندتھے۔
جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگا تو معراج محمد خان نے بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ ہونے کے بعد بھٹو کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولا۔ معراج محمد خان کو جعلی سیاستدان بننے کی پیشکش ہوئی مگر معراج محمد خان نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اگر معراج جنرل ضیاء کی پیشکش کو قبول کرلیتا تو جنرل ضیاء کو مذہبی طبقے اور اسلام کاسہارہ لینے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ جب ایم آر ڈی کی تحریک چلی تو معراج محمد خان بھی اس جدوجہد کا حصہ تھے بلکہ ساری جماعتوں نے معراج محمد خان کا نظریہ قبول کرکے ہی ایک مشترکہ جدوجہد پر اتفاق کیا تھاجس میں جنرل ضیاء اتفاقی حادثے کا شکار نہ ہوتے توزیادہ عرصہ تک صرف تحریک ہی چلانی پڑتی۔ بھٹو نے بھی ایک آمر جنرل ایوب کی صحبت اُٹھائی تھی اسلئے آمرانہ سیاست ان کے دل ودماغ پر چھائی تھی جس کا ساتھ معراج محمد خان نہیں دے سکتے تھے، نوازشریف اصغرخان کی تحریک استقلال کا فائدہ اٹھاکر سیاست میں ڈالے گئے اور امیرالمؤمنین جنرل ضیاء الحق کے سپاہی بن گئے، جنرل ضیاء کی برسیوں پر بھی جنرل ضیاء کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے حلف اٹھایا کرتے تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے ذریعہ سے برسرِ اقتدار آنے والا نوازشریف اصغر خان کیس میں ملزم نہیں بلکہ مجرم ہے، جس طرح کالا کوٹ پہن کر سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کیخلاف جنرل اشفاق کیانی کے ہمراہ کورٹ میں گئے، اسکے بعد وزیراعظم ایک ناکردہ گناہ کی وجہ سے مجرم بن کر نااہل قرار دئیے گئے یہ ہمارے اصحاب حل وعقد ، ریاستی اداروں، عدالتوں اور جمہوری نظام پر ایک بدنما داغ ہے کہ نوازشریف کو سزا کیوں نہیں سنائی جارہی ہے۔
معراج محمد خان کو پہلی مرتبہ ایم آر ڈی کے جلسہ میں ’’نشتر پارک کراچی‘‘ میں دیکھا تھا، مدرسہ جامعہ بنوری ٹاؤن کا طالب علم تھا، مولانا فضل الرحمن کی وجہ سے ہم نے جمعہ کی نماز بھی نشتر پارک میں قبضہ کی نیت سے پڑھی، زیادہ تر مقررین کو بولنے تک نہ دیا، شاید معراج محمد خان کو مولانا فضل الرحمن سے کہنا پڑا، کہ اپنے ورکروں کو خاموش کردو۔ جب کسی کا بولنا گوارہ نہ ہو تو اس کا سننا بھی کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے۔ البتہ مولانا فضل الرحمن پر کفر کے فتوے لگانے والے مخلص نہ تھے اسلئے انکے فتوؤں کو کبھی اہمیت نہ دی، پیپلزپارٹی سے اتحاد پر جو مذہبی طبقات مولانا فضل الرحمن سے ناراض تھے ،انہوں نے پیپلزپارٹی کی طرف سے ایم آر ڈی کی قیادت کرنے والے غلام مصطفی جتوئی کو پھر اسلامی اتحاد کا سربراہ بنایا۔ چونکہ مذہبی طبقے اور موسم لیگیوں کا اتنا بڑا دم نہ تھا کہ وہ جنرل ضیاء کے باقیات کا حق ادا کرلیتے، اسلئے عوام کو دھوکہ دینا ناگزیر سمجھا گیا اور غلام مصطفی جتوئی کو قیادت سونپ دی گئی مگر جتوئی مرحوم پرا عتماد نہ تھا اسلئے اسٹیبلشمنٹ نے ان کو ناکام بناکرہٹایا اور نوازشریف کو وزیراعظم بنایا گیا۔
نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے خلاف صدر غلام اسحاق خان کا ساتھ دیا تھااور پھر اسی صدر کی وجہ سے خود بھی جانا پڑا،محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ نے صدارتی امیدوار کیلئے ایم آر ڈی (تحریک بحالئ جمہوریت) کے دیرینہ ساتھی بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خانؒ کے مقابلہ میں غلام اسحاق خان کا ساتھ دیا تھا۔ فضل الرحمن کو ایک اصولی سیاست کا امین سمجھا جاتا تھا۔ اب تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان کا مقابلہ کرنے کیلئے نوازشریف کی اوٹ میں پناہ لینا شاید ایک مجبوری ہو ، بڑے لوگوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں، معراج محمد خان تنہائی کے شکار تھے اور تحریک انصاف کو ایک جماعت بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ میری پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی تو عرض کیا کہ کہاں آپ اور کہاں عمران خان؟، یہ جوڑ بنتا نہیں ہے۔ معراج محمد خان نے اعتراف کیا کہ واقعی یہ اتفاق وقت کا بہت بڑا جبر ہے۔ عمران خان جب پرویز مشرف کے ریفرینڈم کا ساتھ دے رہا تھا تو معراج محمد خان پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہونے کے باوجود مخالفت کررہے تھے۔ عمران خان نے معراج محمد خان کو برطرف کیا اور پھر قوم سے معافی مانگ لی کہ ریفرینڈم کی حمایت میری غلطی ہے۔
جس طرح عمران خان نے کھل کر قوم سے معافی مانگی لیکن معراج محمد خان سے راستہ الگ کرنے پر اپنے کارکنوں کو آگاہ نہ کیا کہ اتنی بڑی غلطی میں نے کی تھی اور سزا شریف انسان کو دی تھی اور یہ بڑی خیانت ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی اگر اپنے غلطیوں کا اعتراف کرکے معراج محمد خان کو منالیتی توپھر پیپلزپارٹی کی قیادت معراج محمد خان کے ہاتھ میں ہوتی اور قائدین کی وفات کے بعد پیپلزپارٹی کے نظریاتی بڑے قدآور رہنماؤں کا اجلاس ہوتا کہ کون سا نیا قائد منتخب کیا جائے؟۔ آج عمران خان کے چاہنے والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ بھٹو کے بعد عمران خان عوامی قیادت کا حق اداکررہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ معراج محمد خان بھٹو اور عمران خان سے بذاتِ خود بڑے اور حقیقی قائد تھے، جب اہل قائد کو کارکن اور نااہل کوقائد بنایا جائے تو ایسی پارٹی کبھی اعتماد کے قابل نہیں ہوتی ۔ معراج قائدتھے مگر ان کوقائد کا درجہ نہ دیا گیا۔
معراج محمد خان کی یاد میں ہونیوالے پروگرام میں کامریڈوں کا غلبہ تھا،جناب میرحاصل بزنجو اور دیگر رہنماؤں نے معراج محمد خان کو خراج تحسین پیش کیا مگر اتنی بات وہ بھول گئے کہ روس کے نظام کی تعریف کرنے اور امریکہ کی مزاحمت کرنے والے معراج محمد خان نے طالبان کو سراہا تھا جنہوں نے ایک واحد قوت کے طور پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو چیلنج کیا۔ جماعتِ اسلامی کے سابقہ امیر سید منور حسن پہلے کمیونسٹ کی بیج بونے والی تنظیم این ایس ایف میں تھے، جب سلیم صافی کو انٹریو دیا کہ ’’ امریکہ کے فوجی اگر طالبان کے خلاف لڑنے پر شہید نہیں ہوتے تو ان کے اتحادی پاکستانی فوج کو کیسے شہید کہا جاسکتا ہے؟‘‘۔ جس پر انکو جماعتِ اسلامی کی امارت سے ہاتھ دھونے پڑ گئے۔ اگر معراج محمد خان نے طالبان کی حمایت کی تھی تو جماعتِ اسلامی کے امیر نے ایک ہاتھ بڑھ کر حمایت کی تھی۔
سید منور حسن اور معراج پرانے ساتھی اور پھر حریف رہے لیکن اس بات پر متفق ہوگئے کہ طالبان نے سامراج کو چیلنج کرکے بڑا کارنامہ انجام دیا ۔ جماعتِ اسلامی سے میرحاصل بزنجو نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ تاج محل مکھن کا بناہوا نہیں ہوسکتا، یہ درست ہے لیکن غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے تو حقوقِ انسانی کے حوالہ سے متضاد و متفرق قوتوں کے درمیان مفاہمت کی راہ بنائی جائے۔ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ مولوی اور طالب سرمایہ دار کا مکھن کھاکر کمیونسٹوں پر فتوے لگارہے ہیں ، اب تو پتہ چلا ہے کہ مکھن کھانے کی وجہ سے نمک حلال کرنے کا الزام غلط ہے، سرمایہ دارانہ نظام پر لرزہ طاری ہے، مرنے مارنے سے سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ یورپ و امریکہ اور مغرب ومشرق میں ایک خوف کی فضا ء گنتی کے چند افراد نے طاری کر رکھی ہے۔
روس کے خاتمہ سے کمیونسٹوں میں وہ دم خم نہیں رہا ہے اور یہ بات درست ہے کہ مذہبی طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غیرفطری اتحاد ختم ہوگیا ہے، کہاوت ہے پشتو کی کہ ’’بارش سے بھاگا اور پرنالے کے نیچے میری رات ہوگئی‘‘۔ معراج محمد خان اگر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنے میں پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کے بجائے جماعتِ اسلامی یا جمعیت علماء اسلام میں جاتے تو شاید وہ بھی ان جماعتوں کا قائد بنتے اور خلوص وکردار کے مرقع معراج محمد خان کے جنازے میں مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی طرح تمام فرقوں اور جماعتوں کے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی۔ کمیونسٹوں سے معذرت کیساتھ وہ مذہب کو نشہ قرار دیتے ہیں لیکن چرس کا نشہ کرنے والے پھر بھی کچھ کام کاج کے قابل رہتے ہیں کمیونسٹ تو ہیروئن پینے والوں کی طرح بالکل ہی ناکارہ بن جاتے ہیں اور کسی کام کاج کے قابل نہیں رہتے۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری یورپ و مغربی ممالک کے انصاف کی بات کرتے ہیں حالانکہ یہ لعنت تو مغرب سے ہی آئی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو سزا نہ ہونے دی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو80سال قید کی سزا دی۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام ، سوڈان اور کتنے سارے مسلم ممالک تباہ کردئیے گئے اور پھر صرف اعتراف جرم کیا حالانکہ سزا بھی ہونی چاہیے۔ پرویزمشرف کے ریفرینڈم کی حمایت پر معذرت کافی نہ تھی، برطانیہ کی طرح عراق کے معاملہ پر اعترافِ جرم کوکافی نہ سمجھنا چاہیے تھا بلکہ معراج محمد خان کو قیادت سونپ دینی چاہیے تھی۔ برطانیہ کو بھی چاہیے کہ اپنے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کو باقاعدہ سزا بھی دے، ورنہ عراق میں تباہ ہونیوالے خاندان نسل درنسل اپنا انتقام لینے کیلئے برطانیہ کی عوام کو نہ چھوڑیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جس طرح اسلام آباد میں ایک پولیس افسرایس ایس پی کو پٹوایا تھا ،اسی طرح دھرنے کے دوران خود کو سزا کیلئے پیش کردیں اور اسلام آبادایئرپورٹ پر جس طرح کارکنوں نے پولیس والوں کی ناک وغیرہ توڑ کر پٹائی لگائی تھی، اسی طرح ان کے رہنماؤں سے بھی ان زخموں کا بدلہ لینے کیلئے پیش کیا جائے تو شاید انکے برگشتہ مرید شریف برادران کا ضمیر بھی جاگ جائے اور وہ خود کو قصاص کیلئے پیش کریں۔
قوم طبقاتی تقسیم کو مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی ہے، کراچی میں اگر معراج محمد خان کیخلاف مذہبی طبقات اور اسٹیبلشمنٹ مل کر میدان نہ مارتے تو آج قوم پرستی کی بنیاد پر کراچی میں خون خرابے کے بعد شریف لوگوں کی بجائے گھٹیا قسم کا ماحول نہ بنتا۔ اسلامی جمعیت طلبہ، پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن، پنجابی سٹوڈنٹ فیدریشن، سندھی سٹودنٹ فیڈریشن اور بلوچ سٹوڈنٹ فیڈریشن ایک تعصب کے ماحول میں نہ پلتے تو مہاجر سٹوڈنٹ فیڈریشن کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔قوم پرستی کی سیاست نے انسانیت اور اسلام دونوں کو نقصان پہنچایا، آرٹ کونسل میں ایک مقرر نے کہا کہ ’’ معراج محمدخان کی وجہ سے قوم پرستی کی طلبہ تنظیمیں بنی تھیں، وہ ہر قوم سے محبت رکھتے تھے، جئے سندھ، پختون،بلوچ اور پنجابی طلبہ تنظیموں کیلئے NSFبنیاد تھی‘‘۔ ترقی پسند تحریکوں کے رہنما کو ایک شکایت یہ بھی تھی کہ موجودہ نوجوان طبقہ بڑا اچھا ہے لیکن ہمارے اندر ایسی صلاحیت نہیں جو ان کو پیغام پہنچاسکیں۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے روس اور امریکہ سے فنڈز آتے تھے، باصلاحیت لوگ اپنا حصہ وصول کرکے سادہ لوح لوگوں کو قربانیوں کا بکرا بنادیتے تھے، اب وہ فنڈز تو بند ہوگئے ہیں،ایک سوکھا سا نظریہ رہ گیا ہے، وہ سویت یونین جو ان لوگوں کو ترنوالہ دیتا تھا،اب خود اپنا وجود بھی کھو گیا ہے۔ اگر وہ ایندھن ملنا شروع ہوجائے تو پھر سے افراد، قربانی کے بکرے اور بہت کچھ مل جائیگا،خان عبدالغفار خان ؒ اور عبدالصمدخان شہید اچکزئیؒ پاکستان بننے سے پہلے کے قوم پرست تھے، عاصم جمال مرحوم پنجاب سے تعلق رکھتے تھے ،ایک مخلص کمیونسٹ تھے، آخری عمر میں نماز پڑھنے پر بھی آگئے۔ ولی خان ؒ کی پارٹی میں رہ چکے تھے، حبیب جالبؒ کے ساتھی تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ ’’غوث بخش بزنجوؒ کے پاس پیسہ نہیں تھا اسلئے ان کو قیادت نہیں کرنے دی جاتی تھی، جبکہ ولی خانؒ کے پاس پیسہ تھا اگر وہ یہ قربانی دیدیتے کہ مہمانوں پر پیسہ خرچ کرتے اور قیادت غوث بخش بزنجوؒ کو سونپ دیتے، تو مشرقی پاکستان بھی نہ ٹوٹتا‘‘۔
قوم پرستی کا شوشہ تو معراج محمد خان سے پہلے کا تھا، متحدہ ہندوستان کی قومیت کا علمبردار طبقہ قوم پرست تھا۔ مولانا آزادؒ اور مولانا مدنیؒ نے اسلئے گالیوں اور اسلام سے خارج ہونے کا سامنا کیا کہ وہ مسلمان ہندی قوم پرست تھے، علامہ اقبالؒ نے بھی ہندی قومیت پر نظمیں لکھیں، خود کو سومناتی کہاہے۔ صحابہؓ کے انصارؓ و مہاجرینؓ ، قریش وغیرقریش، اہلبیت وقریش،کالا گورا، عرب وعجم، عرب وموالی اور اسرائیلی واسماعیلی کا شوشہ پرانا ہے۔ معراج کمیونسٹ اچھے انسان، پاکستانی اور مسلمان تھے۔ اچھا نظریہ اور حب الوطنی مختلف العقائد مسلمانوں کو آج بھی ایک کرسکتا ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان کے مسائل کا حل اور اہل اقتدار کی ترجیحات وا ہداف

پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ اہل اقتدار کی ترجیحات اور اہداف ہی نہیں ہیں۔ ہمارا سب سے بڑامسئلہ پانی کا ہے، قدرتی پانی کا بہاؤ پاکستان کی عوام کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تحفہ ہے۔ پینے کا صاف اور میٹھا پانی ہمارے لئے نعمت کی بجائے زحمت بن جاتا ہے، کھڑی فصل تباہ اور آبادیاں خانہ بدوشی پر مجبور دکھائی دیتے ہیں، سیلاب ہرسال طوفانِ نوح کا منظر پیش کرتا ہے۔ اللہ کی سب سے بڑی دولت پانی کی نعمت جس سے اللہ نے ہر جاندار چیز کو پیدا کیا ہے، جس کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں وہ ہمیں دستیاب ہونے کے باوجود طوفان کی طرح بہاکر سمندر کی نذر ہوجاتا ہے لیکن ہم بوند بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں،اگر اہل اقتدار کو عوامی مسائل اور پاکستان کو درپیش چیلنج کی کوئی فکر ہوتی تو پانی کے ذخائز بناکر پاکستانیوں کو کربلائے عصر کی تکلیف سے کوئی تو نجات دلاتا؟۔ اے این پی والوں نے پختون پختون کی رٹ لگاگر مہاجروں میں بھی لسانیت کو ہوا دی، کراچی کو پختونوں کا سب سے بڑا شہر کہنے والوں نے کراچی میں ہی پختونوں کو تعصب کی نذر کردیا۔ حب الوطنی اور قربانیوں کا جذبہ ہوتا تو یہ کہا جاتا کہ نوشہرہ ہم سے زیادہ فوج کی سرزمین ہے جہاں عام لوگوں سے زیادہ فوجی اداروں کی بہتات ہے،اگر کالاباغ ڈیم سے نوشہرہ ڈوب بھی جائے تو کراچی کے پختونوں کیلئے اتنی چھوٹی سی قربانی ہم دینگے۔
کراچی، سندھ ، بلوچستان ، پنجاب اور پختونوں کے مفاد میں دریائے سندھ پر کالاباغ ہی نہیں پورے دریائے سندھ پر ڈیم ہی ڈیم بنائے جاتے تو آج زیرزمین اور سطح زمین پر پانی کے بہت بڑے ذخائر ہوتے، سستی بجلی و انرجی سے پاکستان اور پاکستانی قوم خوشحال ومالامال ہوتی اور صحت وزراعت سمیت ہرشعب ہائے زندگی میں ہم خود کفالت کی زندگی گزارتے۔ ہماری ریاست کا معیار بہت بلند ہوتا، عرب سے تیل خریدنے کی بجائے اپنے تیل وگیس کے قیمتی ذخائرسے فائدہ اٹھاتے۔ آج بھی رونے دھونے کی ضرورت نہیں، ستارایدھی کو فوجی پروٹوکول دینے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوجاتے بلکہ شارعِ فیصل پر کارساز سے ڈرگ روڈ تک سروس روڈ پر قبضہ ختم کرکے چوڑے فٹ پاتھ کی جگہ پر سڑک کی توسیع سے عوام کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔پرویز مشرف نے کارساز پر فلائی اُور کیلئے تھوڑی سی فوجی زمین نہ لی ہوتی تو مسئلہ حل نہیں ہوسکتا تھا۔ آج ڈکٹیٹر کے دور میں کراچی کے ترقیاتی کام اور جمہوری دور میں کراچی کا بیڑہ غرق کرنے کا تصور کیا جائے تو جیسے ترقی وعروج کے پہاڑسے زوال وانحطاط کی کھائی میں گرگئے ہوں۔
عوام کامزاج حکمرانوں نے اللہ کی غیب میں پرستش کرنے کے بجائے چڑھتے سورج کے پجاریوں والا بنایا ہے۔ کشمیر میں(ن) لیگ کی جیت جمہوریت کے تابناک مستقبل نہیں بلکہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عوام چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ آج نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے اور پھر کشمیر میں الیکشن ہوجائیں تو نوازشریف کیخلاف ووٹ دیا جائیگا۔ یہ عوام کا مزاج بن گیا ہے کہ جو ٹیم جیتنے کا چانس رکھتی ہے بچے بھی اسی کے طرفداربن جاتے ہیں۔ سعد رفیق دوسروں کو اس بات سے ڈراتے ہیں کہ ’’جائیں گے تو سب ایک ساتھ جائیں گے‘‘۔ سندھ بلوچستان اور پختون خواہ میں تو پہلے سے مارشل لاء نافذ ہے، اگر پنجاب میں لگ جائے تو دوسروں کو کیا فرق پڑیگا؟۔ چوہدری نثار کو سندھ کی بڑی فکر ہے لیکن پنجاب میں اغواء ہونے بچوں کو انسان نہیں شاید کتے کے بچے سمجھا جاتا ہے،اسلئے وہاں رینجرز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
جنرل راحیل شریف نے چیف جسٹس سندہ ہائی کورٹ کے بیٹے اویس شاہ کوبھلے ٹانک سے بازیاب کرواکر بڑا کارنامہ سرانجام دیا لیکن کیا لاہوراور دیگر شہروں میں اغواء ہونے والے بچوں کا کوئی حق نہیں، گداگری کے پیشہ کیلئے اغواء کئے جانے والے بچے کسی ستارایدھی کا انتظار کریں؟۔ قصور میں بچوں کیساتھ زیادتی کرکے گھناؤنے کردار والوں کو کیا اسلئے کیفرِ کردار تک نہ پہنچایا جاسکا کہ وہ دہشت گردگروپوں کیساتھ مل کر کاروبارِ سرکار کو چلانے میں معاونت کریں؟۔یہ عجیب مخمصہ ہے کہ انسانیت کی تذلیل کرنے والوں کو دہشت گرد نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس معاشرے کے دن گنے چنے لگتے ہیں جہاں حکمرانوں کا کوئی ضمیر ہی نہ ہو۔ پانامہ لیکس پرتین وزیراعظموں کا استعفیٰ اور پاکستان کے وزیراعظم کی ہٹ دھرمی کوئی معمولی بات نہیں ۔ زرداری ڈھیٹ بن کر رہ جاتا تو اس کی ڈھٹائی سمجھ میں آتی تھی اسلئے کہ دوسروں کے خلاف وہ حبیب جالب کی زبان اور شاعری میں تو بات نہ کرتا تھا۔ ان پارساؤں کا ڈھیٹ بن جانا انتہائی خطرناک ہے،اور اس سے زیادہ خطرناک بات شہبازشریف، چوہدری نثار اور نوازشریف کا جمہوریت کے پردے میں پناہ لینا ہے جن کی ساری زندگی جمہوریت کے خلاف کھلی کتاب کی طرح رہی ہے۔
اصحاب حل وعقد سب سے پہلا کام یہ کریں کہ دریائے سندھ پر خرچہ کرکے جگہ جگہ پانی کو ذخیرہ بنانا شروع کریں،پاکستان،سندھ اور کراچی کو وافر مقدار میں پانی کی سخت ضرورت ہے،پاکستان میں پانی کو ذخیرہ کرنے ،سستی بجلی پیداکرنے کی زبردست صلاحیت ہے ۔
نامزد وزیراعلیٰ سیدمراد علی شاہ نے اگر لوگوں کو دعوت دی کہ دریائے سندھ پر پانی کے ذخائر کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تو بڑے پیمانے پر لوگ اس نعمت کو عام کرنے کیلئے چندہ دینے پر بھی آمادہ ہوجائیں گے۔ تھرکے لوگوں کی مدد کے نام پر جتناسرمایہ خرچ ہوا ہے، اس سے کم سرمایہ پر دریائے سندھ میں پانی کو ذخیرہ بناکر خوشحالی کی لہر لائی جاسکتی ہے بلکہ مسائل کا مستقل حل بھی نکل سکتا ہے۔ جس موسم میں خشک سالی ہوتی ہے اس وقت دریائے سندھ بالکل خالی ڈیم کا منظر پیش کرتا ہے اور اس میں پانی کو ذخیرہ کیاجائے تو زمین کے اندر میٹھے پانی کے ذخائر سے سندھ کی قسمت بدل جائیگی۔ پھر سندھ کی عوام کا سب سے اہم اور بڑا مطالبہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا ہوگا۔
پانی کے ذخائر سے سندھ کی بنجر زمین کو زرخیزبنانے میں دیر نہ لگے گی اور کراچی کو وافر مقدار میں پانی ملے گا تو عوام کا ایک بنیادی اور دیرینہ مسئلہ حل ہوجائیگا۔ ڈیفنس جیسے علاقہ میں بھی پانی نہیں تو غریب آبادی کے مکینوں کا مسئلہ حل کرنے میں کس کودلچسپی ہوسکتی ہے؟۔ دریائے سندھ کے ذخائرسے نہروں کے ذریعہ بھی کراچی کو پانی دینے کا بندوبست ہوسکتا تھا لیکن آمریت اور اس کی پیدوار جمہوریت نے مل کر اور باری باری کبھی بھی عوامی مسائل کے حل کو ترجیح نہ سمجھابلکہ جن جن ذرائع سے سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ منافع کما سکتا تھا وہی حکمرانوں کی بھی ترجیح رہی ہے، حد تو یہ ہے کہ کراچی میں سرکاری زمینوں پربدمعاش لینڈ مافیاز، سرمایہ داروں، حکومتوں، ریاستی اداروں اور غریبوں تک سب نے اپنا ہاتھ صاف کیا ہے، البتہ غریب کو قانون کا سہارا نہ مل سکا،اسلئے وہ کچی آبادی ہے اور طاقت کے بل پربدمعاشوں اور پیسہ پربدقماشوں نے قانون ہاتھ میں لیکر بھی قانون کو ٹشو پیپر کی طرح بڑے احترام کیساتھ اپنا گند صاف کرنے کیلئے استعمال کیا ۔
جب قانون کو طاقت اور پیسوں کی لونڈی بنایا جائے تو اہل اقتدار و حکمران طبقہ کی ترجیحات کو سمجھنا دشوار نہیں ہوتا، ایک طرف چھڑی والوں کااقتدار ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کے گماشتوں اور چہیتوں کو جمہوریت کے نام سے حکمران بنایا جاتا ہے۔ سیاستدان سچ کہتے ہیں کہ وہ حکمران تو ہوتے ہیں لیکن انکے پاس اقتدار اور اختیار نہیں ہوتا ۔ نیوی کا شارع فیصل کے سروس روڈ پر قبضہ ہوجائے اور لوگ رل رل کر روز روزٹریفک میں پھنستے رہنے کو معمول کی مجبوری اور حالات کا جبر سمجھیں اور دوسری طرف صدیوں کی آبادیوں کو لیاری ایکسپریس وے کیلئے چند ہزار کی قیمت دیکر ملیا میٹ کردیں تو پتہ چلتا ہے کہ عوام ترجیح نہیں ۔ ایک دن کارساز سے ڈرگ روڈ تک لوگ خالی گاڑیاں چھوڑ کر ایک آدھ دن کیلئے صرف اپنا احتجاج نوٹ کرادیں کہ وہ فٹ پاتھ جس پر کوئی چلتا بھی نہیں ، سروس روڈ کی جگہ پر پہلے نرسیاں بنائی گئی تھیں اور پھردہشت گردی کے خوف نے قبضہ کرایا ۔ جس کی وجہ سے عوام کو روز روز بہت تکلیف ہوتی ہے اور پھر چند دنوں بعد پروٹوکول کیلئے سڑک ،آفس سے چھٹی اور بہت رش کے وقت بند کردی جاتی ہے۔
جنرل راحیل شریف نے اگر واقعی قوم کی خدمت کرنی ہے تو کارسازاور نیشنل اسٹڈیم سے ائرپورٹ کی طرف جانے والے نیوی کے علاقوں میں عوام کیلئے بڑی بڑی شاہراروں کے ذریعہ سے سہولت فراہم کریں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام میں مسجد اور قبرستان کو کسی بھی صورت میں گرانا جائز نہیں مگر سڑک کی توسیع کیلئے مسجد اور قبرستان کو بھی گرایا جاسکتا ہے۔ یہ پریشر بالکل بھی ختم کردینا ضروری ہے کہ قبرستان سے عوامی ، مسجد سے مذہبی طبقات اور فوجی علاقہ سے اہل اقتدار کے جذبات مجروح ہونگے۔ فوج، مذہبی طبقات اور عوام سب مل کر ایسا کام کریں جس سے ثابت ہو کہ مخلوقِ خدا کیلئے سہولت کے دروازے کھل گئے ہیں ۔ پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ پیسوں کی حکومت اور تاجروں کی تجارت ہے۔جمہوری پارٹیوں میں جمہوریت نہیں بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ ہے۔ پرویزمشرف کے دور میں میڈیا اور عوام کو رائے کی آزادی ملی، آج ن لیگ کی حکومت نے پی ٹی وی کو(ن: ش: ٹی وی )نواز شریف شہبازشریف ٹی وی بناکر رکھ دیا ہے۔
ہاکس بے غریب عوام کیلئے ایک زبردست تفریح گاہ ہے لیکن جولائی کی آخری اتوار کو مشاہدہ ہوا کہ جگہ جگہ ’’سمندر تمہارا دوست نہیں‘‘ لکھا گیا تھا۔ رینجرز کے سپاہیوں نے دن دھاڑے عوام کو وہاں سے نکالنا شروع کیا، بغیر کسی وجہ کے سڑک پر ٹریفک پولیس اور عام پولیس کے ذریعہ روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس کا مقصد صرف اور صرف یہ لگتا تھا کہ آنے جانے والوں کو شدید تکلیف دہ صورتحال سے دوچار کیا جائے۔ ہاکس بے سے شہر کی طرف جانے والی شاہراہ مکمل طور پر بند کردی گئی تھی اور آنے والی سڑک کی تھوڑی سی جگہ چھوڑ دی گئی تھی جہاں سے ایک گاڑی بمشکل گزرسکتی تھی، باری باری آنے جانے والی گاڑیوں کو گزار کر خواہ مخواہ بیچاری عوام کو تکلیف دی جارہی تھی۔ عراق اور لیبیا کی فوج اور حکمرانوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت تھی اگر اپنے ہی اہل اقتدار عوام کو محروم کرنے اور کنارہ لگانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو کل کلاں اللہ نہ کرے اس فوج کی جگہ غیرملکی فوج بھی قبضہ کرسکتی ہے اور پھر رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔