پوسٹ تلاش کریں

غربت ختم کرنے کا ذریعہ زکوٰۃ مگر…..

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب یہ اُمت شراب کو مشروب کے نام سے ، سُود کو منافع کے نام سے اور رشوت کو تحفے کے نام سے حلال کرلے گی اور مال زکوٰۃ سے تجارت کرنے لگے گی تو یہ ان کی ہلاکت کا وقت ہوگا، گناہوں میں زیادتی و ترقی کے سبب۔
رواہ الدیلمی ، کنز العمال ص ۲۲۶ ج ۱۴ ، حدیث نمبر ۳۸۴۹۷۔ عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ ۔
مکتبہ بینات علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نمبر ۵۔ ملنے کے پتے: مکتبہ شیخ الاسلام جامع مسجد فلاح بلاک نمبر 14نصیر آباد ، ایف بی ایریا کراچی۔
اسلامی کتب خانہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، مظہری کتب خانہ گلشن اقبال نمبر۲کراچی، مکتبہ بینات جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

نماز ، روزہ اور حج کی طرح زکوٰۃ بھی ایک اسلامی فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی قرآن میں تلقین فرمائی ہے۔ زکوٰۃ میں ایک بنیادی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ کسی مستحق شخص کو زکوٰۃ کے مال کا مالک بنادینا ضروری ہے۔ جو فلاحی ادارہ اور مدرسہ بھی زکوٰۃ لوگوں سے مانگتا ہے کیا وہ شرعی تقاضہ کو پورا کرتے ہوئے مستحق افراد کو زکوٰۃ کا مالک بناتاہے یا نہیں؟۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ مدرسہ کیلئے 8 مہینے کا بجٹ بنادیتے تھے ، شعبان اور رمضان کی چھٹیاں ہوتی تھیں ، شوال سے رجب تک 8مہینے طلبہ تعلیمی نصاب مدرسہ میں پڑھتے تھے، جن میں ہر ماہ طلبہ کو زکوٰۃ کے وظیفے کا باقاعدہ مالک بنادیا جاتا تھا، پھر جو طلبہ مدرسہ کے لنگر کا کھانا کھاتے تھے وہ کچھ رقم کھانے کی مد میں جمع کرتے تھے اور کچھ اپنی ضروریات کیلئے رکھ لیتے تھے ۔ مثلاً 150روپے ہر طالب علم کو وظیفہ ملتا تھا اور اس میں سے 120کھانے کیلئے اور 30 روپے ضروریات کیلئے ہوتے تھے۔ اگر مدرسہ میں ہزار طلبہ پڑھتے تھے تو 8ماہ کے حساب سے ماہانہ بجٹ150×1000=150000 ڈیڑھ لاکھ اور سالانہ بجٹ 150000×8=1200000، بارہ لاکھ بنتا تھا۔ مولانا بنوری ؒ 12 لاکھ سالانہ کے بعد زکوٰۃ کی رقم لینا بند کردیتے تھے۔ اگلے سال کیلئے مزید زکوٰۃ لینا جائز نہیں سمجھتے تھے، کیونکہ اس طرح سے سالانہ زکوٰۃ کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
دار العلوم کراچی کے ارباب اہتمام زکوٰۃ کیلئے مخصوص مقدار کے بجائے لا متناہی رقم لیتے تھے۔ جہنم کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ وہ کہے گا کہ ھل من مزید کیا اور بھی ہے۔ دار العلوم کراچی کے ارباب اہتمام زکوٰۃ کے خود ہی وکیل بن جاتے اور خود ہی منصف۔ زکوٰۃ کے بارے میں مذہبی طبقہ کی طرف سے حیلے کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ حضرت امام غزالیؒ نے لکھا کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد شیخ الاسلام قاضی ابو یوسف سال ختم ہونے سے پہلے اپنا سارا مال بیوی کو ہبہ کردیتے تھے اور اگلے سال بیوی سارا مال اس کو ہبہ کردیتی تھی، یوں زکوٰۃ سے بچنے کا حیلہ بنارکھا تھا۔ امام غزالیؒ کی کتابوں کو اس وجہ سے مصر کے بازاروں میں جلایا گیا۔ ان کو امام ابو یوسف کی بدنامی سے زیادہ فکر اپنے حیلوں کو بچانے کی تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے لکھا کہ دیوبند کے ایک بزرگ بڑے عالم دین بھی یہی حیلہ کرتے تھے اور یہ یہود کے نقش قدم پر ہوبہو چلنے کے مترادف ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سلیم صافی کو انٹرویو میں کہا کہ میری بیرون ملک اور اندرون ملک کوئی جائیداد اور دولت نہیں ہے ، صحیح کہا ہوگا کہ جب حکمران وزیر اعظم نواز شریف کی بیوی بچوں کی کمپنیاں وزیر اعظم کی نہیں تو کسی اور کی کیا ہوں گی؟۔ اسحٰق ڈار کے بیٹے چالیس چالیس لاکھ درہم باپ کو تحفہ میں دیتے ہیں، وزیر اعظم اپنی صاحبزادی کو کروڑوں تحفے میں دیتے ہیں، بچے کروڑوں وزیر اعظم کو دیتے ہیں ، جس طرح کرپشن کا پیسہ مالدار خاندانوں کے درمیان ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ تک گردش میں رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچنے کیلئے آف شور کمپنیاں بنائی گئی ہیں اسی طرح زکوٰۃ کے مال کیلئے بھی بڑے بڑے مدارس اور فلاحی اداروں کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس سے زکوٰۃ کا فریضہ ادا نہیں ہورہا ہے بلکہ ایک مخصوص طبقہ زکوٰۃ کے نام پر کاروبار کررہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ صحابہؓ سے کہتے تھے کہ مجھ پر زکوٰۃ کے مال کی ذمہ داری ڈالنے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے خود مستحقین کوزکوٰۃدیں، اللہ نے فرمایا انہ لحب الخیر لشدید انسان مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ ان سے زکوٰۃ لیں یہ انکے لئے تسکین کا ذریعہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خود اپنے اوپر ، اپنی اولاد ، گھر والوں اور رشتہ داروں پر زکوٰۃ کو حرام کردیا۔ جب انسان اپنے مال کی زکوٰۃ دے تو اسکو ترجیحات کا حق بھی پہنچتا ہے لیکن کسی اور کی زکوٰۃ مانگنے کیلئے بے چین روح بن جائے اور ترجیحات خود طے کرے تو اس میں وہ لذت ہے جس کو آپ بڑے بڑے اشتہارات کی شکل میں دیکھتے ہیں، حالانکہ اپنے لئے بھی بھیک مانگنا بہت مشکل کام ہے چہ جائیکہ دوسروں کیلئے مانگی جائے۔ اگر اس رمضان کو صرف اور صرف زکوٰۃ کا مال غریب طبقہ تک پہنچ جائے تو پاکستان میں ایک بہت بڑا انقلاب آجائیگا۔
مستحقین کو زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے دیجائے تو جو لوگ کھانے کیلئے بھوکے ہوں ان کے تن پر کپڑوں کی ضرورت ہو یا علاج اور تعلیم کی ضرورت ہو وہ غریب خود اپنی ترجیحات طے کرینگے۔ زکوٰۃ کے نام پر اشتہارات میں جو پیسہ خرچ کیا جاتا ہے ، بڑی عمارتیں بنائی جاتی ہیں ، بڑے بڑے ادارے پالے جاتے ہیں یہ غریبوں ، ناداروں اور مسکینوں کی حق تلفی ہے۔کاروبار اسی وجہ سے تباہ ہیں کہ غریبوں کو زکوٰۃ بھی نہیں مل رہی ہے ، ایک مرتبہ کی زکوٰۃ مستحقین تک پہنچائی جائے تو ثابت ہوگا کہ اللہ کا فرمان سچ ہے کہ’’ صدقہ مال کو بڑھاتا ہے‘‘۔ جیسے بتوں کو سجدہ جائز نہیں اسی طرح غیر مستحق کو زکوٰۃ کے نام پر پالنا غلط ہے

jun2016(fazlurehman_cartoon)

کبھی تیر کے اورکبھی شیر کے بھی شکار ہیں        زکوٰۃ بھی کاروبار خدمات بھی مستعار ہیں

اسلام سورج کی طرح ہے اور مذہبی طبقے مینڈکوں کی طرح پانی میں عکس پر لڑ رہے ہیں، عتیق گیلانی

حضرت ابراہیمؑ کے بعد دین کا معروف دورِ جاہلیت میں منکر اور منکر معروف بن چکا تھا۔حقیقی ماں کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دینے پر حرام سمجھناشرعی فتویٰ بن چکا تھا۔

رسول ﷺ سے خاتونؓ نے اپنے شوہر کے مسئلہ پر جھگڑا کیا، رائج الوقت فتویٰ پر اللہ نے فرمایا کہ ماں وہ ہے جس نے جن لیا، بول سے ماں نہیں بنتی یہ جھوٹ و منکرہے

بلاتفریق تمام مذہبی طبقوں نے سورج کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے کھڈوں میں اسکے عکس کو تلاش کرنا شروع کیااورپانی بھی گدلا کردیاہے تو ان کو عکس کہاں نظر آئیگا؟

بلاول زرداری نے درست کہا کہ شیر ڈیزل سے نہیں چلتا ، اگر ساتھ میں یہ مشورہ بھی دیتے کہ بھنگ سے چلتا ہے تو وزیر اعظم کو اوپن ہارٹ سرجری نہیں کرانی پڑتی تھی

سندھ کی حکومت پٹرول پیتی ہے ، نیشنل ہائی وے کی شامت پھر آئی ہے ، اگر بلٹ پروف شیشے کیطرح وزیر اعلیٰ کو اندرون سندھ لے جاتے تو کراچی کی قسمت جاگ جاتی

سب نے احمقوں نے اجماع کرلیا کہ سورج چھوٹا ہوتا ہے اسلئے کہ چھوٹے کھڈے میں سمایا اور سورج ٹھنڈا ہے اسلئے کہ اگر گرم ہوتا تو تھوڑا پانی اُبل پڑتا۔یہ منطق ہے

فطری دین اسلام پیش کیا جائے تو مذہبی و غیر مذہبی طبقے فوراً پاکستان ،عالم اسلام اورتمام انسان قبول کرینگے

Mandak2_june2016

برصغیر پاک و ہند پر 8سو سالہ حکمرانی کے بعد انگریز نے قبضہ کیا اور آزادی و تقسیم ہند کے بعد پاکستان دو لخت ہوا اور اب تک کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے

وزیراعظم کو لندن میں آرام کرنے کا صلہ اسلئے ملاکہ جیو ٹی وی چینل اور کچھ صحافیوں کے منہ میں کچھ ڈال کر خاموش کرادیا ،ورنہ تو ان کی بک بک چلتی تھی کہ صج پاکستان گیا یا شام تک نہ رہیگا،عوام کو حکومت جانے کا فرق بھی نہ پڑتا

نوازشریف زرداری کیطرح ڈاکٹر شاہد مسعود کو پی ٹی وی کا چیئرمین بنادے تاکہ پھر اے آروائی سے بھاگ جائے۔ عرفان صدیقی کی بات کااچھا صلہ دیاکہ صدرتارڑ نے پانچ جنرلوں کے سامنے گن پوائنٹ پر استفعیٰ نہ دیا۔

پانامہ لیکس سے شریف فیملی کی ساکھ متأثر ہوئی، بین الاقوامی سطح اور خطے میں پاکستان تنہائی کا شکار ہوگیا، اندرون و بیرون خطرات سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر پائیدار تبدیلی ضروری ہے قومی حکومت بنانا بہت بہتر رہے گا۔

ایران سے امریکی پاپندی ختم ہوئی، ایران سے چین براستہ افغانستان راہداری کامنصوبہ بھارت کیلئے خطے میں اثر ورسوخ بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ پاکستان کو نظریاتی ، معاشی اور معاشرتی معاملات کے ذریعہ پائیداری درکارہوگی

مدارس، مساجد، مذہبی جماعتوں اور عوام نے اگرتبدیلی کا فیصلہ کرلیا تو جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس سمیت ملک کے تمام ریاستی اداروں کے سربراہ خوش ہونگے

پاکستان اب زیادہ آزمائشوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے، ہمیں روح اور اپنے اخلاقیات بدلنے کی ضرورت ہے، گوادر ہمارا سر ہے،بلوچ پاکستان کی عزت کے دستار ہیں، ہمارے رویے، غفلت اور ظلم وجبر کے باعث صرف بلوچ، پختون، سندھی ، مہاجر نہیں بلکہ پنجاب کی عوام سب سے زیادہ مظلوم ہیں، جہاں بدمعاش کلچر میں بیٹیوں کی عزت کو بھی سرِ عام تحفظ حاصل نہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور تمام بلوچ رہنما ملت اسلامیہ کے خلاف بین الاقوامی معاملہ کو سمجھ لیں، پوری اسلامی دنیا کے مسلمانوں کے خون سے زمین رنگین ہوگئی ، غیروں سے زیادہ اپنا عمل اور اپنی کمزوریاں ہاتھ کی ہتھکڑیاں اور پاؤں کی بیڑیاں بنتی ہیں۔
جس دن غیرتمند بلوچوں کو احساس ہوا کہ ہم غلام نہیں پاکستان کے سر کی دستار ہیں تووہ اعلان کریں گے کہ اکبر بگٹی کو فوج نے گھر میں نہیں مورچہ میں مارا ہے، لڑائی میں ایسا نہ ہو تو کیا ہوگا؟۔ ہم پاکستانی فوج کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں جتنا ان سے ہوسکتا تھا اتنا وہ ہمارے ساتھ نہیں کرتے تھے، جنگ میں کوئی فائدہ نہیں، ہم خود ہی دوستی کا ہاتھ بڑھادیتے ہیں، ہم سارے بھائی بھائی ہیں۔ اپنی قوم اور اپنے ملک کیلئے آج کے بعد ہم کوئی مشکل نہ کھڑی کریں گے تودنیا دیکھے گی کہ بہادر بلوچ ملتِ اسلامیہ کی امامت کررہے ہیں۔
طالبان نے نیٹو کیخلاف جانوں کے نذرانے پیش کئے، اب بندگلی کی طرف جانے اور مزید اپنا اور اپنی قوم و ملت کا نقصان کرنے کی بجائے اپنی خدمات طاقت کی بجائے علم کی شمع جلاکر پیش کریں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اسوقت ہوگی جب دنیا کو احسا س ہوگا کہ مسلم امہ میں دنیا کی بہترین انسانیت، زبردست اخلاقی اقدار اورسب سے اعلیٰ عدل و انصاف کا نظام ہے۔ دنیا کے پاس صرف قانون، زورزبردستی اور چیک اینڈ بیلنس کاہی سسٹم ہے مگر ہمارے پاس روحانی اور عقیدے کی بنیاد پر ایسا نظام ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
مساجدومدارس،خانقاہوں وامام بارگاہوں، جماعت خانوں ومذہبی جماعتوں اور مسلم سکالروں کو اکٹھا کرکے قرآن وسنت کی بنیاد پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز کیا جائے تو ایک انقلاب آجائیگا، کراچی اور پاکستان بھر اردو اسپکینگ کمیونٹی بہترین تعلیمی نظام قائم کرکے پاکستان کے گھر گھر ، گلی گلی، محلہ محلہ، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، شہر شہربلا امتیاز و نسل ،فرقہ وقوم سب کو تعلیم و شعور کے زیور سے آشنا کریگی۔ سندھیوں سے دل کی دھڑکنوں کی طرح پیار و محبت میں خون کے سرخ وسفید جرثومے پورے پاکستان کو پہنچیں گی،مہاجر قوم شہ رگ اور اور سندھی دل دل پاکستان جان جان پاکستان ہیں۔ شہ رگ کٹنے اور دل کی دھڑکن بند ہو تو جسم لاش بن کرموت واقع ہوجاتی ہے۔پھر سندھی جلوس نکالیں گے کہ کالاباغ ڈیم بناؤ اور ازبکستان سے بجلی لانے کی بجائے دریائے سندھ کو پورے کا پورا ڈیم کی طرح بناؤ، جو نہ صرف بجلی بلکہ سطح زمین پر پانی کی قحط نہ رہے، پاکستان سرسبز وشاداب اور زیرزمین پانی کے ذخائر بھی مالامال ہوں، پانی کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے مگر حکمرانوں کو دلچسپی نہیں۔
اللہ نے فرمایا: ’’گدھے، خچر اورگھوڑے میں نے پیدا کئے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرو اور خوبصورتی کیلئے پیدا کئے ہیں‘‘۔ یہ جانور کام کے بھی ہیں اور ان کی وجہ سے رونق بھی ۔ مسلمانوں کے پاس وہ نصابِ تعلیم، معاشرتی احکام،تہذیب وتمدن اور اخلاقی اقدار نہیں تھے جو انگریز کو برصغیرِ پاک وہند سے روک سکتے۔ سکھ ایک نیا مذہب تھا لیکن پنجاب، کشمیر اور قبائلی علاقہ جات کے دامانی علاقوں تک ان کی حکومت تھی۔ انگریز نے اپنے دور میں جو فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ کا نظام بنایا، ان کے مقاصد، خدمات اور معاشرتی رونق کے سوا کیا تھے؟۔ 70سال ہوگئے ہیں کہ برصغیرپاک وہند سے انگریز گیا، بھارت اور پاکستان میں آج بھی یہ ادارے اپنے اپنے خدمات انجام دینے اور معاشرے کو رونق بخشنے کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیرپر بھی قبضہ کرلیا تھا لیکن اقوام متحدہ نے رائے حق دہی کیلئے اس کو پاکستان سے خالی کروایا اور پھر بھی بھارت نے قبضہ کرلیا۔ ہم بھارت سے تو قبضہ نہ چھڑاسکے البتہ مشرقی پاکستان بھی کھو دیا ہے۔ ہم نے اپنی بہت تعریف کرلی، اب اپنی ان کوتاہیوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے باقی ماندہ پاکستان بھی خطرات سے دوچار ہے۔ ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر امریکہ کو بھونکنے اور ڈھینچوڈھینچوکی ورد چھوڑیں۔
اپنے اندر اتنا دم پیدا کریں کہ امریکی امدادشکریہ کیساتھ قبول کرنے کی بجائے ان کے اپنے پڑوسی غریب ممالک کو دینے کی تجویز پیش کریں۔ F.16طیارے کی ہمیں ضرورت بھی پیش نہ آتی ،اگر اسٹیل مل میں کرپشن کی بجائے جنگی سازوسامان ، مسافر طیارے اور دیگراشیاء بناکر اس کو بہترین ادارہ بنادیتے۔ ہمارے ریاستی اداروں کی تشکیل وتعمیر جنہوں جن مقاصد کی خاطر کی تھی ان سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی توقع رکھنا بھی بعض بدبودار قسم کی ذہنیت کا شاخسانہ تھا، جن لوگوں نے اسلام کو اوڑھنا، بچھونا، کھانا پینا اور رہنا سہنا بنانا رکھا ہے وہ خوداسلام سے بہت دور ہیں جن کی نسلیں دارلعلوم میں پیدا، پھل بڑھ کر دفن ہوجاتی ہیں توپاک فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کے جوانوں اور افسروں سے کس قسم کے اسلام کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ اصلاح کیلئے گمراہی کے قلعوں مدارس کو فتح کرنا ہوگا۔
مجھے مدارس سے نفرت نہیں محبت،بد اعتقادی نہیں عقیدت،بغض وعناد نہیں عشق وپیار ، بدظنی وبدگمانی نہیں حسنِ ظن وخوش گمانی اور بدخواہی نہیں خیرخواہی ہے، وقت آئے تو ادب وتمیز،اکرام واحترام، عجز وانکساری،تواضع اور ایسے خاطر مدارات کا مظاہرہ کروں گا، جیسے ایک فرمانبردار بیٹا اپنے والدین کا کرتا ہے، ماں کی ممتا سے ملنے والے دودھ کی میٹھاس کو یاد نہیں رکھا جاسکتا مگر مدارس کی ممتا سے ملنے والے علم کی میٹھاس دل ودماغ کیلئے فرحت بخش ہوتے ہیں۔ دودھ کی یہ نہریں بزرگوں سے ہوتی ہوئی رسول اللہﷺ تک اور اللہ کی وحی تک پہنچتی ہیں، سب اپنے نصیب کے مطابق سیراب ہوتے ہیں،اساتذہ کرام کی تعلیم وتربیت ہے کہ قرآن و سنت کی روح سے روگردانی نہیں کی، ورنہ میں بالکل بھٹک جاتا۔
اہم اور بنیادی تجاویز اور ان کا مختصر خلاصہ
1:مدارس کے نصاب کی وسیع تر مشاورت سے تبدیلی، جن احکام میں معروف کی جگہ منکرات نے لے لی ہے، اس کو قرآن و سنت کے مطابق معروفات میں تبدیل کرنا۔
(ا): نکاح و طلاق میں معروف کی جگہ منکر نے لے لی ہے ،دلائل وبراہین کے ذریعہ ایک نئے نصاب کی تشکیل اور اس پر معاشرتی نظام کو کاربند کرنے کے نتیجے میں زبردست خوشحالی آئے گی۔ پسند کی شادی کی مخالفت نہیں ناپسند کی شادی کی حوصلہ شکنی کی ضرورت کا احسا س کرنا چاہیے تھا، نبیﷺ نے فرمایا:جس لڑکی کے باپ نے اسکی مرضی کے بغیرنکاح کیا تو وہ نکاح منعقد نہیں(بخاری)۔نصاب اور معاشرے میں اس حدیث کی ترویج ہوتی تو کوئی لڑکی بھاگ کر شادی نہ کرتی۔ طلاق واقع ہونے نہ ہونے کی چیز نہیں بلکہ علیحدگی کا طریقۂ کار ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، جسکی کچھ تفصیل اداریہ میں موجود ہے۔رجوع کا تعلق باہمی صلح سے مشروط اور معروف طریقہ سے ہے، حضرت عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کے یکطرفہ رجوع کے حق کو معطل کیا تھا ۔ تین طلاق نہیں ایک طلاق کے لفظ پر بھی عورت راضی نہ ہو تو شوہر یکطرفہ رجوع کا حق کھو دیتا ہے حضرت عمرؓ کا فیصلہ درست تھا لیکن اس کو حلالہ کیلئے غلط رنگ دیا گیا ہے، صلح کی شرط پر رجوع کی قرآن وسنت میں عدت کے دوران اور عدت کے بعد وضاحت ہے۔ بخاری وابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابورکانہؓ و امّ رکانہؓ کے واقعات موجود ہیں۔ بیوقوفی اور کم عقلی کی انتہاء ہے کہ احناف نے ’’نورانوار‘‘اور ابن قیم ؒ نے ’’زادالمعاد‘‘ میں اس طلاق کو قرآن کے مطابق فدیہ سے ہی مشروط کیا ہے اور پھر یہ بحث کی ہے کہ فدیہ کوئی الگ چیز ہے یا طلاق کا ضمنی معاملہ ہے؟۔ عدد کی گنتی پوری کرنے کا چکر نہ ہوتا تو اس بحث کی ضرورت بھی نہ پڑتی لیکن علامہ ابن قیمؒ کی سمجھ پر بہت تعجب ہوتا ہے کہ احناف کی ضد میں لکھ دیا کہ ’’ طلاق الگ چیز ہے اور خلع الگ، اسکا نام اللہ نے طلاق نہیں فدیہ رکھا ہے‘‘ حالانکہ آیت میں خلع کا ذکر نہیں بلکہ اس طلاق کا مقدمہ ہے جس کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے۔ خلع کے بارے میں سورۂ النساء کی آیت ہے ، احادیث اسی ضمن میں لکھے جاتے تو معاشرے میں خواتین کے حقوق اجاگر ہوتے ہم بہت سی برائیوں سے بچتے، طلاق کے تضاد اور اختلافات بھی کالعدم نہیں بلکہ معدوم ہی ہوجائیں گے۔
جس طرح اللہ اور اسکے رسولﷺ نے مرحلہ وار دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ کی وضاحت فرمائی ہے،اس سے طرح ہاتھ چھوڑ شوہر کی پٹائی سے صنفِ نازک کو بچانے کیلئے مارنے سے پہلے دومرحلے رکھے ہیں، پہلے مرحلہ میں افہام وتفہیم سے سمجھانا، دوسرا مرحلہ بستر الگ کرنا اور تیسرے مرحلہ میں مارنا۔ کوئی بیوی کو دشمنی اورمنصوبہ بندی سے نہیں مارتالیکن چھوڑنے اور الگ ہونے سے بیوی کو ہلکی پلکی مار خود بھی بہتر لگتی ہے۔جب اتنی برداشت شوہر میں پیدا ہوجائے کہ سمجھانے اور بستر کو الگ کرنے کے مراحل سے گزرے تو مارپیٹ اور تشدد کی عادت بھی نرمی اور شائستگی میں بدل جاتی ہے۔جس طرح طلاق کے بارے میں مرحلہ وار دو مرتبہ طلاق کے مرحلوں کو ترک کیا گیا اسیطرح سے مارپیٹ کے دو مراحل کو بھی نظرانداز کرکے اسلام کے نام پر معروف کو منکر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
2: دنیائے اسلام کا سب سے بڑا مرکز خانہ کعبہ ہے اور حجر اسود ایک ہجوم کا محور رہتا ہے کوئی بھی شریف معاشرہ اس طرح اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مخلوط ماحول میں اجنبی خواتین و مرد حضرات ہڈی پسلی ایک کرکے ایک دوسرے کے گوشت پوست میں پیوست ہوجائیں۔ یہ انسانی شرافت ، فطرت اور اسلام کے بنیادی تعلیمات کے بالکل منافی ہے، یہ شکر ہے کہ اس کی تصویریں دنیا کو دکھاکر یہ باور نہیں کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دیکھو ہم روشن خیال ہیں۔ مہذب دنیا سے ہم نے لائنوں میں ہی نہیں سیکھا ہے بلکہ اپنے ہرمفاد کیلئے ان کی ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگرحاجی اور عمرہ والوں کو حجراسود کا نمبر ایشوکیا جاتا، بھلے سعودی حکومت اس کاانتظام کرکے فیس بھی وصول کرتی توسب کیلئے بہتر ہوتا۔
3: خواتین کو خلع کا حق عدالتوں کی بجائے معاشرتی بنیادوں پر دیا جاتا تو اس میں تشدد کے عنصر کو ختم کرنے میں مدد ملتی۔ جب شوہر کو یہ پتہ ہوتا کہ عورت چھوڑ کر جانے کا حق بھی رکھتی ہے تو اس کے ساتھ غلامی کی بجائے ایک معاشرتی ساتھی کی طرح سلوک رو ا رکھا جاتا اور اگر عورت پابند نہ ہونے کے باوجود اس کی بد سلوکی پر صبر کا مظاہرہ کرتی تو یہ اصلاح کا ذریعہ بھی بنتا۔ جب عورت سے نکاح نہ ہوا ہو اور پھر بھی اس پر استحقاق جمائی جاتی ہو تو پھر نکاح کے بعد اس کو غلام سمجھنے میں کیوں مرد کو حق بجانب نہ سمجھے گا لیکن اگر قانون سے واضح کیا جائے کہ منکوحہ عورت بھی غلام نہیں تو غیر منکوحہ سے رویہ کبھی غلط نہ ہوسکتا تھا۔
4: طالبان نے ایک کام زبردست کیا جو ہماری ریاست ، سول سوسائٹی اور عوامی دباؤ سے ممکن نہ تھا۔ اس کی وجہ سے لوگ طالبان سے زیادہ نفرت کرنے لگے تھے، مگر خوف کی وجہ سے کچھ بول نہیں سکتے تھے۔ کسی جگہ لڑکی اور اسکے والدین قریبی رشتہ دار سے رشتہ کیلئے راضی نہیں ہوتے تھے تو بھی رسم و رواج کی مجبوری سے شادی کرانی پڑتی تھی۔ طالبان نے لڑکی اور والدین کی مرضی سے کئی شادیاں کرواکر بہترین کردار ادا کیا۔ اگر قرآن و سنت کی تعلیمات عوام کے سامنے ہوتیں تو یہ غلط رسم و رواج بہت پہلے ختم ہوچکے ہوتے۔
5: جس طرح سود کو موجودہ دور میں عام لوگ سمجھتے ہیں اسی طرح سے دور جاہلیت میں بھی سمجھتے تھے۔ قرآن نے منع کیا ، اب پھر معروف کی جگہ منکر اور منکر کی جگہ معروف نے لی ہے، چنانچہ بینک کے سود کو جائز اور کاروبار قرار دیا گیا ، شادی بیاہ کے لفافہ کو سود قرار دیا گیا۔ ہر دور میں وقت کے شیخ الاسلاموں نے اسلام کو اجنبی بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور ان سب کا جائز لے کر عوام کو معروف اور منکر بتانے کی ضرورت ہے۔ عتیق گیلانی

13سالہ مکی، 10سالہ مدنی، اور 30 سالہ خلافت راشدہ نے دنیا کی تاریخ کو بدل ڈالا ، یہ قرآن ، سنت اور اسلام کی نشاۃ اول کا زبردست کارنامہ تھا

اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ خواتین بلارنگ ونسل اور مذہب کے تمام انسانوں کے بنیادی حقوق برابری کی بنیاد پر بحال کردئیے، فضیلت کا معیار تقویٰ و کردار کو قرار دیا، انسانی حقوق پامال کرنے کو ناقابلِ معافی جرم کہا

نکاح، طلاق، رجوع، خلع کے واضح احکام کو معروف سے مذہبی طبقہ نے منکرمیں بدل دیا، مسلم معاشرہ بتدریج تنزلی اور اسلام ا جنبیت کا شکار بنتا چلاگیا۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کیلئے اصلاح اسی طرح سے ہوگی جیسے پہلے ہوئی تھی

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا تھا، یہ عنقریب پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا، خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے‘‘۔ اسلام کے معروف شرعی احکام کو منکرات میں بدلا جائے تو اسلام اجنبی بن جائیگا ،

علامہ سیدیوسف بنوریؒ اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ کے استاذ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے لکھا : ’’ قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے۔۔۔‘‘فیض الباری۔معنوی تحریف کی مثالیں سمجھ لو!،

مفتی تقی عثمانی نے بینک کا سود جائزاور شادی بیاہ میں لفافہ سود قرار دیا۔آسان ترجمۂ قران کے نام سے پہلی مرتبہ طلاق کی آیات کی تفسیر میں نہیں بلکہ ترجمہ میں بھی تحریف کا ارتکاب کیا، معنوی تحریف سے معروف کو منکر بنایا گیا

اسلامی نظریاتی کونسل میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے سماء ٹی وی چینل سے رئیس کا پروگرام تھا، مفتی نعیم، مفتی عبدالقوی، ماروی سرمد، سمیعہ راحیل قاضی مہمان تھے۔اسکرین پر سورۂ النساء کی ایک ادھوری آیت اور اس کا ترجمہ دکھایا گیا۔پوری آیت اورترجمہ: یاایھاالذین اٰمنوالایحل لکم ان ترثوا النساء کرھاو لاتعضلوھن لتذھبوا ببعض ما اٰ تیتموھن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شئیا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیراO
’’ اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ اپنے بیویوں کے زبردستی مالک بن بیٹھو اور ان کو مت روکے رکھو تاکہ تم لے اُڑھو،بعض ان چیزوں کو جوتم نے ان کو دی ہیں مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں، اور انکے ساتھ سلوک کرو ،اچھائی سے اور اگر تم انہیں برا سمجھتے ہو تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا جانو اور اس میں تمہارلئے اللہ خیر کثیر بنادے‘‘۔
اس آیت میں زبردست معنوی تحریف کی گئی ، اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں النساء بیویوں کو قرار دیا ہے، اس آیت میں بھی بیوی کے علاوہ کوئی غیر عورت مراد ہوہی نہیں سکتی، اسلئے کہ اپنی بیوی کو ہی چیزیں دی ہوتی ہیں،جب وہ چھوڑ کر جانا چاہتی ہے تو ان میں سے بعض چیزیں واپس لینا اپنا حق سمجھاجاتاہے،اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں بعض چیزوں کو واپس لینا مستثنیٰ قرار دیا ،جب وہ کھلی ہوئی فحاشی کا ارتکاب کریں۔اگر بیویاں چھوڑ کر جانا چاہیں تو ان کے بارے میں وضاحت ہے کہ انکے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو، ان کو اسلئے بھی مت روکے رکھو کہ بعض دی ہوئی چیزیں ان سے واپس لو، اگر چھوڑ کر جانے کی وجہ سے تمہیں بری لگیں تو ان کے چھوڑ کر جانے کو برا مت سمجھو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ اس میں تمہارے لئے خیر کثیر بنادے۔ اس سے بہتر بیوی مل جائے، اس کو روک کر زبردستی سے مالک بن بیٹھو تو تمہاری عزت کہیں تارتار نہ ہوجائے۔ اسی میں مصلحت ہے کہ چھوڑدو۔
علماء وفقہاء نے اس آیت میں معنوی تحریف کرکے النساء (عورتوں) سے دوالگ قسم کی عورتیں مراد لی ہیں۔ آیت کے پہلے حصہ سے رشتہ داروں کی بیوائیں مراد لی ہیں کہ ان کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو، ان کو اپنی مرضی سے جہاں چاہیں شادی کرنے دو اور ان کو جو تم نے چیزیں دی ہیں وہ واپس مت لومگر یہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں، آیت کے دوسرے حصہ سے اپنی بیگمات مراد لی ہیں کہ انکے ساتھ اچھا سلوک کریں، اگر تمہیں بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ اچھا سلوک کرنے سے اللہ تمہارے لئے خیر کثیر بنادے، اولاد ہو اور حالات بدل جائیں وغیرہ۔ حالانکہ یہ سراسر غلط ہے اسلئے کہ دوقسم کی خواتین کی طرف ایک ہی ضمیر سے الگ الگ خواتین کی طرف کیسے نسبت ہوسکتی؟،یہی معنوی تحریف ہے۔
علماء وفقہاء یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شوہر کو کیسے مخاطب کیا جاسکتا کہ بیوی کا زبرستی سے مالک مت بن بیٹھو،شوہر بیوی کے ایک طلاق نہیں تین طلاق کا مالک ہوتا ہے۔ایسی انوکھی ملکیت دنیا کی کسی اور چیز میں ہوہی نہیں سکتی، جس طرح طلاق کی ملکیت کا مکروہ اور انتہائی منکر تصورعلماء وفقہاء نے بنارکھا ہے۔ عقل دنگ رہ جائیگی ، فطرت کو پسینہ آجائیگا اور روح تڑپ اُٹھے گی کہ معروف اسلام کو ایسا منکر بنانے کا تصور کیسے کرلیا گیا؟۔
شوہر تین طلاق کا مالک ہے، ایک طلاق بیوی کو دیدی، عورت کی دوسری شادی ہوئی ، پہلا شوہر پھر بھی بقیہ دو طلاق کا مالک ہے۔ دوسرے نے طلاق دی اور پہلے سے پھر شادی ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلا شوہر بدستور سابق بقیہ دو طلاق کا مالک ہوگا یا نئے سرے سے تین طلاق کا مالک ہوگا؟۔ ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ بقیہ دو طلاق کا مالک ہوگا۔ یہی مسلک حضرت ابوہریرہؓ، حضرت علیؓ ، حضرت ابی کعبؓاور حضرت عمران بن حصینؓ کی طرف منسوب ہے جس کی طرف جمہورائمہ فقہ امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، محدثینؒ اور امام ابوحنیفہؒ کے بعض شاگرد گئے ہیں۔ جبکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن عباسؓ اور امام ابوحنیفہؒ انکے مخالف گئے ہیں کہ نکاحِ جدید سے پہلا شوہر نئے سرے سے تین طلاق کا مالک ہوگا۔
یہ کوئی معمولی اختلاف نہ تھا بلکہ جیسے فرض کیا جائے کہ صحابہؓ کی طرف جھوٹ سے نسل کی نسبت کرنے والا علماء کا کوئی گروہ ہو، جسکے آباء واجداد میں سے کسی نے عورت کو اس طرح طلاق دی اور پھر دوبارہ شادی کرلی ہو تو پھر ایک طلاق کے بعد بعض کے نزدیک عورت کو مغلظہ قرار دیا جائیگا اور بعض کے نزدیک وہ رجوع کے بعد بدستور بھی بیوی ہوگی۔ بعض کا مؤقف ہوگاکہ شوہر سے اس کا تعلق حرام کاری والا ہے اور بعض دوسری جگہ نکاح کرے تو اس تعلق کو حرام کاری قرار دینگے، کیا اسلام میں ایسے شکوک وشبہات کی گنجائش ہے؟۔ دور کی بات نہیں کرتا، ہمارے مرشد حاجی محمدعثمانؒ کے مریدو معتقد کے بارے میں فتویٰ دے دیاگیا کہ ’’نکاح جائز ہے، منعقد ہوجائیگا، جائز نہیں، اس نکاح کا انجام کیا ہوگا عمر بھر کیلئے حرام کاری اور اولاد الزنا، یہ نکاح جائز نہیں گو منعقد ہوجائے‘‘۔ ان پر مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی اور شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کے دستخط بھی ہیں، میں دارالعلوم کراچی میں نمازباجماعت کے بعد اعلان کرکے ان کو چیلنج کیا لیکن وہ وہاں سے دم دباکر بھاگ گئے۔
جب رسول اللہ ﷺ کی طرف من گھڑت احادیث منسوب ہوسکتی ہے تو کیا صحابہ کرامؓ اور فقہی اماموں کی طرف جھوٹ منسوب کرنے سے کوئی شرم، حیاء اور غیرت آتی؟۔ اگر یہ سچ ہے تو نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا ہے اور عنقریب یہ پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا ، خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے‘‘۔ تین طلاق کی ملکیت کایہ تصور ہی سراسر باطل ،قرآن و سنت کے واضح احکام سے متصادم اور انسانی عقل و فطرت کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔ اسلام نے طلاق کے عمل کیلئے عدت کا تصور دیکر علیحدگی کا بہترین انداز دنیا کے سامنے پیش کیا۔ شوہر تین طلاق کا مالک نہیں بلکہ عدت کا حقدارہوتا ہے اور مذہبی طبقات نے انتہائی کفرو گمراہی، کم عقلی وبد فطری کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کے معروف کو منکر میں تبدیل کردیا ہے۔یہ صحابہ کرامؓ اور ائمہ مجتہدینؒ کی طرف سے نہیں تھا امام ابوحنیفہؒ نے بھی ایلاء میں چار ماہ کے انتظار کی مدت کو طلاق کا عمل قرار دیا لیکن پھر بعد میں امام ابوحنیفہؒ کے نام پر غلط اور من گھڑت مسائل بنائے گئے۔

1747_lاس میں سارے مذہبی طبقات کو ملوث قرار دینا سراسر زیادتی ہے۔ سب میں سمجھ بوجھ ، عقل و ذہن اور صلاحیت نہیں ہوتی ہے، مفتی تقی عثمانی نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے معاوضہ لیکر سودی نظام کو جائز قرار دیا ہے اور شادی بیاہ کے رسم میں لفافہ سود قراردیا ۔ مفتی عبدالرؤ ف سکھروی جیسے لوگ وعظ کرنے لگے :’’ شادی میں نیوتہ یا سلامی کی رسم سود ہے اور اسکے ستر گناہ ہیں، ستر وبال ہیں اور اس کا کم ازکم گناہ اپنی ماہ سے زنا کے برابر ہے‘‘۔ اس کو کتاب کی شکل شائع بھی کردیا گیا۔ کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ ایک طرف بینک کے سود کو جائزکیا تودوسری طرف لفافہ کی رسم کو سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو ماں سے زناکے برابر قرار دیا۔
اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ سے فرمایا لاتمنن فتکثر ’’ احسان اسلئے نہ کریں کہ زیادہ بدلہ ملے گا‘‘۔ یہ مالی معاملات کے حوالہ سے نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کے مشن کے حوالہ سے ہے اسلئے کہ جب کوئی بھی انسان قوم کی بھلائی کیلئے ان سے اچھائی کے حوالہ سے تحریک شروع کرتا ہے تو فطری طور سے توقع رکھتا ہے کہ اس کا بدلہ خیر کثیر کی شکل میں ہی ملے گا لیکن جو جاہل، ہٹ دھرم اور ہڈ حرام ہوتے ہیں ان کی طرف سے اکثر خلافِ توقع نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسلئے اللہ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ احسان سے بھلائی کی توقع نہ رکھیں۔
اس کو سود کی تعریف میں شامل کرنا معروف کو منکر بنانا ہے، تحفہ تحائف سے محبت بڑھتی ہے اسلئے نبی ﷺ نے فرمایا کہ’’ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اور محبتوں کو بڑھاؤ‘‘۔ حکومت ڈنڈے کے زور پر نہیں لیکن اپنی ذمہ داری سمجھ کر علماء کرام کے درمیان صحیح طریقہ سے راہ ہموار کرکے پارلیمنٹ میں مکالمے کا اہتمام کروائے تو بہت سارے معاشرتی مسائل سے چھٹکارا مل جائیگا۔ دین ومذہب ایک روحانی اور اخلاقی قوت ہے ، آدمی بڑی قربانی دیدیتا ہے لیکن اپنا ایمان بچالیتا ہے۔اسلام عظیم دین ہے اور مسلمان عظیم قوم ہیں، مذہبی طبقات حلالہ کروائیں، زنجیر زنی کروائیں، تعصبات کے انگارے لوگوں کے دل و دماغ میں ڈال دیں اور خود کش حملے کروائیں عوام مذہب کی ہرطرح کی قربانیاں دیدیتے ہیں۔
اگر علماء ومفتیان کے ذریعہ مسلمانوں کے اندر معاشرتی حقوق کو بحال کردیا جائے تویہ اتنا بڑا انقلاب ہوگا کہ بھارت،روس، امریکہ، پورپی یونین، برطانیہ کے علاوہ سعودیہ اور ایران کو بھی پاکستان کی امامت میں اقتداء کرنے پر مجبور کردیگا، افغانستان کیساتھ بھی اسی وجہ سے نہ صرف معاملات ٹھیک ہونگے بلکہ طالبان و افغان حکومت بھی پاکستان کی ہاں و ناں کو مانیں گے۔ ماروی سرمداور مفتی نعیم ، سمیعہ راحیل اور مفتی عبدالقوی ایک ہونگے ۔
تازہ واقعہ ہے کہ مری میں ایک 19سالہ لڑکی کو رشتہ کے تنازع پر جلادیا گیا، یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اقدار کا وہ نمونہ ہے جو جاہلانہ طرزِ عمل کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرتی اقدار کو تحفظ دینے کیلئے اسلام کو ٹیشو پیپر بنایاہے۔ اسلام نے جاہلانہ معاشرتی روایات کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھالیکن مسلمانوں نے جاہلانہ رسوم کو ختم کرنے کی بجائے حیلے بہانے سے اسلام کا نام لیکر ان کو تحفظ دیا ہے۔ اسلام نے بیوی اور لونڈی میں تفریق کی تھی،بیوی منکوحہ ہوتی ہے مملکوکہ نہیں۔قرآن کہتا ہے کہ زبردستی سے بیوی کا مالک مت بن بیٹھو، علماء وفقہاء نے قرآن کی آیت کے الفاظ کو توتبدیل نہیں کیامگر اس کے معانی اور تفسیر کو تبدیل کردیا۔ یہ صرف مدارس تک بات محدود نہیں جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی نقوی اور بلکہ غلام احمد پرویز کے پیروکاروں نے ان سے بھی بدتر کردار ادا کیاہے، مدارس والوں سے زیادہ جماعتِ اسلامی کو سیاست کی پڑی ہے۔
سورۂ النساء کی آیات میں الصلح خیراور اسکے سیاق وسباق کی پوری وضاحت ہے جس سے صلح ہی مراد ہے لیکن مولانا مودودی ؒ نے اس سے ’’ خلع‘‘ مراد لیا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سورۂ بقرہ کی جس آیت میں طلاق کے بعد فدیہ کا ذکر ہے اس سے مراد خلع نہیں بلکہ علیحدگی کی ایک خاص صورتحال کا ذکر ہے مگر پھر بھی اس سے خلع مراد لیا ہے، اور حنفی علماء کے مقابلہ میں علامہ ابن تیمیہؒ کے شاگرد علامہ ابن قیمؒ کی عقل پر ہنسی آئیگی جس نے ’’خلع‘‘ کے بارے میں اپنی انتہائی کم عقلی کا مظاہرہ صرف اسلئے پیش کیا ہے کہ وہ حنفی مسلک کی تردید کرنا چاہتے تھے۔ معلومات کا ذخیرہ اور مخلص تھے مگر عقل نہ دارد۔
امام ابوحنیفہؒ اپنے دور میں قرآن کیلئے جس طرح کھڑے ہوئے ، یہ دین اور حق کو تحفظ دینے کا بہترین ذریعہ تھا، اگرچہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں ان کا مؤقف سوفیصد غلط تھامگر ضعیف اور من گھڑت روایات کے مقابلہ میں انہوں نے زبردست کردارادا کیا جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ مثلاً قرآن اور صحیح حدیث میں واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق کی عدت کے تین پیریڈ تین طہر ہیں، جس طرح تین دن تین روزے رکھے جائیں تو عدد میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی ہے مگر احناف نے خود ساختہ طور سے قرآن میں 3کے عدد کو تحفظ دینے کیلئے حیض مراد لئے۔ جس طرح روزہ کی ابتداء دن کے شروع سے ہوتی ہے رات کو روزہ مکمل ہوجاتا ہے، اسی طرح نبیﷺ نے طہر میں پرہیز کو ایک مرتبہ طلاق قرار دیا۔
غلام کی دو طلاق اور لونڈی کی دو حیض عدت سے بھی مراد یہی ہے کہ غلام دو طہروں کی پرہیز کریگا تو یہ دو طلاق ہیں اور لونڈی تین کی بجائے دو حیض تک انتظار کریگی۔ ان باتوں کو مزید وضاحت کساتھ ایک کتابچہ میں پیش کررہا ہوں لیکن علماء ومفتیان اور عوام کو یہ توجہ دلانا ضروری ہے کہ اسلام کے معروف احکام کو واضح کرنے کے بعد نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا بھر کے انسان بھی ان کی طرف لپکیں گے اور سب اسلام کی طرف آئیں گے۔ عتیق گیلانی