پوسٹ تلاش کریں

مہاجر کیا سوچ رہا، کیاسوچنا چاہیے؟:ایڈیٹراجمل ملک

اپنی مٹی پر دیوانہ بنا پھرتا ہوں لوگ کہتے ہیں مہاجر مجھ کو

Ajmal_Malik_Sep2016

کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں عوام کی نمائندہ جمہوری جماعت متحدہ قومی موومنٹ ایم کیوایم پر بحران آیاتو مہاجر کیا سوچتے ہیں؟۔ اس کی تصویر سید شہزاد نقوی نے کارٹون کی صورت میں اپنے ذہنی تخلیق سے اتاری ہے، سید شہزاد نقوی کا تعلق ایم کیوایم سے بالکل بھی نہیں ، اس نے شکوہ کیا ہے کہ اپنی مٹی پر رہتا ہوں تو لوگ مجھ کو مہاجرکیوں کہتے ہیں؟۔جب ایک غیرسیاسی مہاجر یہ دیکھتا ہے کہ ایم کیوایم کے دفاتر اچانک مسمارکردئیے، وہ لوگ جو اپنے قائد کے خلاف معمولی بات پر جذباتی ہوجاتے تھے، اسی قائد کیخلاف عجیب الزامات، ہر قسم کی مغلظات اور پھرپور طریقے سے سرگرم ہیں، اب ایم کیوایم پاکستان نے بھی لندن سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے، مہاجر کہاں کھڑے ہیں؟، لوگ انکے بارے سوچ کیا رکھتے ہیں؟، یہاں پلے بڑھے، پاکستان اور کراچی کی گلیوں کے سوا کچھ دیکھا نہیں، پھر کیوں بے وطن مہاجر سمجھا جارہا ہے۔ کس قیمت پر یہ وطن اپنا ہی بن سکتا ہے؟، طالبان نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی لیکن ان کو پرائے ہونے کا احساس نہیں دلایا گیا۔
جے سندھ، بلوچ قوم پرست اور پاکستان کے گناہ میں شرکت نہ کرنے پر فخر کرنے والا مولانا فضل الرحمن، متحدہ ہندوستان کے حامیوں کی اولاد اسفندیارخان، محمود خان اچکزئی ، قائداعظم کو کافر کہنے والا مولانا مودودی اور مولانا احمدرضاخان بریلوی کی روحانی اولادآج سب پاکستانی مگر جنہوں نے ’’بن کے رہیگا پاکستان، بٹ کے رہیگا ہندوستان ‘‘ کے نعرے لگاکرقربانیاں دیں، ان کی اولاد کی محب وطن ثابت کرنے کیلئے کس طرح سے ناک رگڑوائی جاری ہے؟۔ شاہ زیب خانزادہ نے واسع جلیل سے کہاکہ ’’تم نے رضاحیدر کے قتل کا الزام اے این پی پر لگایاتو100پٹھان ماردئیے گئے، بعد میں پتہ چلا کہ لشکرِ جھنگوی نے ماراتھا‘‘ مگراس وقت تو ریاست نے کوئی کاروائی نہ کی ،حالانکہ الطاف حسین رو رو کے کہہ رہا تھا کہ ان بیچاروں کا کیا قصور تھا جن کو مارا گیا؟۔ 12مئی کا واقعہ بڑا تھا یا 22اگست کا؟۔طالبان نے کیا کچھ نہیں ، وہ خود قبول کرتے تھے کہ ہم کررہے ہیں ، ان کے ہمدرد کہتے تھے کہ نہیں یہ طالبان نہیں امریکہ کروا رہاہے؟، شہباز شریف طالبان سے کہتا تھا کہ ’’پنجاب کو نشانہ مت بناؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘، ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ’’را کاملازم کلبھوشن نوازشریف کے مِل ملازموں سے رابطے کی وجہ سے پکڑا گیا‘‘۔ کوئٹہ دھماکہ پر جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’’بھارت کی را ملوث ہے‘‘تو اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی روزمانہ جنگ میں سرخی لگی کہ ’’تم جھوٹ مت بولو یہ گھر کا معاملہ ہے، تم نے جو مسلح بردار تنظیمیں پال رکھی ہیں ، کیا یہ کرائے کے قاتل نہیں؟‘‘۔محمود خان اچکزئی نے اسمبلی کے فلور پر کہا کہ ’’میں پاکستان زندہ باد نہیں کہوں گا‘‘۔کسی نے بھی اپنے بیان سے توبہ نہیں کیالیکن الطاف حسین نے اپنا بیان واپس لیا، کسی کی جماعت نے اپنے قائد اور رہنما سے لاتعلقی کے اعلان کی زحمت محسوس نہ کی لیکن ایم کیوایم نے کھل کر اظہار لاتعلقی کیا۔کسی کاسرکاری عہدہ نہیں چھینا گیا مگر ایم کیوایم کے دفاتر بھی مسمار کردئیے گئے کیوں؟۔
مہاجر بے وطن خوار ہے، غدار ہے، بیکار ہے، ناہموار ہے، بیچار ہے، عبرت کا جھنکارہے؟ ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا لے کر شہر کی آبادیوں میں بھی اپنی آواز کو صدا بسحرا سمجھ رہاہے اور ہر روز ہر ٹی چینل پر نئے ایک سے ایک نیا شوشہ کھڑا کرکے ڈاکٹر فاروق ستار مجرم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے، الزامات کی برکھا برسائی جاتی ہے، روز نئے بادل اُمڈ تے اور چھٹتے ہیں، ژالہ باری کرکے مہاجروں کی نمائندہ منتخب قیادت کی بے توقیری کی جاتی ہے لگتا ہے کہ مہاجر آزاد نہیں مجبور ہیں، محب وطن نہیں غدار ہیں، پاکستانی نہیں بھارتی ایجنٹ ہیں۔ انکا جمہوری حق چھینا جارہاہے، نتائج بدلنے میں سرِ عام کوئی شرمندگی بھی نہیں ہورہی ہے۔ سارے اینکروں، ٹاک شوز، ملمع سازی کرنے والے ٹاؤٹ قسم کے مخصوص نام نہاد رہنماہم پر چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ ساری توپوں کارخ مہاجروں کی جانب موڑ دیا گیا ہے، بے یقینی کی کیفیت ہے، ایک زمانہ میں جیو اور جنگ کا جو حال کیا گیا تھا،اسرائیل، بھارت اور امریکہ کے ایجنٹ، اہلبیت کے گستاخ، ملک کے دشمن اور ڈھیر سارے مقدمات کا نشانہ بن گئے۔ آج ایم کیوایم کی باری ہے تو کل مسلم لیگ (ن) کی بھی آئے گی۔ جمہوریت کی علمبرداری کیا صرف اسٹیبلشمنٹ کی وفاداری سے مشروط ہے؟۔ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ہو، تو 100خون معاف،12مئی کیا بستیوں کے بستیوں کو آگ لگادے لیکن جب وہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ نہ ہو تو پوری قوم اسکے ناکردہ جرائم کی سزا کھائے، الزامات بھگتے؟۔
مصطفی کمال نے کمال کیا کہ سب سن لیں، ایم کیوایم کے ووٹر خود کو لاوارث نہ سمجھیں ہم موجود ہیں انکے حقوق کیلئے لڑینگے؟۔فاروق ستار میں شروع سے شرافت کا ایک معیار ہے، مصطفی کمال جذباتی ہے کیا مہاجروں کو پھر جذبات کی رو میں بہائے جانے کاسلسلہ جاری رہے گا۔ آج وہ مصطفی کمال جو الطاف حسین کے خلاف ایک ذوی معنیٰ لفظ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا، ایک ہیجان میں مبتلاء ہے، قاتل، لٹیرے، جن پر بھارت میں تربیت لینے کا الزام ہے وہاں پناہ لے رہے ہیں، آڑے تڑے کی زباں استعمال کی جارہی ہے، جس کاضمیر ہی قتل اور بہت سے الزامات کے اقرارِ جرم اور اعترافِ بد دیانتی میں پل بڑھ کر جوان ہوا ہو، کیااس کی غیرت جاگ گئی ہے تو اس کو مہاجر قوم کی قیادت سپرد کی جائے؟۔ مصطفی کمال تو چھوٹا الطاف ہی لگتا ہے، وہی تعلیم وہی تربیت، وہی ذہنیت، وہی معیار، وہی لہجہ، وہی درشتی، وہی الزام کا قرینہ اور وہی شخصیت بس ہوا کا رخ بدلا۔ مخلص ،معصوم،نڈر، جری، مثالی بہادر، جذباتی رونے دھونے والااور آسمان سے تارے لانے کا وہی طریقۂ واردات ، اگر ڈاکٹر فاروق ستار گستاخی ، لعن طعن اور 24گھنٹہ الطاف حسین سے رابطے کے باوجود خطرات سے دوچار ہے تو مصطفی کمال نے کس سے سلامتی کا تعویذ لیکر مہاجروں کی کشتی پار لگانے کیلئے ملاح کا کردار ادا کرنے کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے؟۔
خدارا! ڈاکٹر فاروق ستار کی زندگی داؤ پر لگانے کیلئے ٹی وی اسکرین پر اس کو ایسے الفاظ کہلوانا چھوڑ دو، جس سے اس کی زندگی خطرے میں پڑ جائے، جینا مشکل بنے، مار دیا جائے یا ڈاکٹر عامر لیاقت کی طرح ہتھیار پھینک دے، آخر عزت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے، شرم بھی نہیں آتی کہ ایک لا چار شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑے ہو۔ عام لوگ ان سے کیا توقع رکھیں؟،جو ایم کیوایم کے دورِ عروج میں دم دبا کر بیٹھے رہے، طالبان کی پشت پناہی کرتے رہے اور پھر یکایک رخِ زیبا ایسا موڑا کہ گویا کبھی شناسائی ہی نہ تھی۔ ایم کیوایم کے قائد سے ایک طلاق اور تین طلاق کی باتیں منظر پر آرہی ہیں، حالانکہ پاک سرزمین پارٹی تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر ہی پاک ہوگئی ہے۔کیا نوازشریف کے ساتھی دانیال عزیز، طارق عظیم، طلال چوہدری اور عطاء مانیکا وغیرہ نے (ق) لیگ سے حلالہ کروایا تھا کہ دوبارہ نکاح میں آگئے ہیں؟۔تحریک انصاف میں کتنے لوٹے حلالہ پر حلالہ کرواکے شاہ محمود قریشی وغیرہ عزت سے بیٹھے ہیں لیکن مہاجروں کیساتھ آخر کار ایسا کیوں؟۔
اب نہ تو ملک چھوڑ کر جاسکتے ہیں، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، چپ رہ بھی نہیں سکتے۔ باغی ہیں کیا اور غدار ہیں کیا؟۔ مہاجر نام نہ لیتے تو بے شناخت تھے سندھی مکھڑ، بلوچ پناہ گیر، پٹھان ہندوستانی کہتے تھے۔ نام لیا تو مجرم بن گئے، مہاجر قومی موومنٹ کو تحریک چلانے والوں نے نام بدل کر متحدہ کردیا، پھر حقیقی مہاجر قومی موومنٹ کو ریاست نے سپورٹ فراہم کی اور متحدہ بھی مجرم بن گئی، ایک نسخہ ناکام ہوتا ہے تو سنیاسی باوا نے دوسرا ٹریلر چلا کرقوم کی تباہی کا سامان تیار کر رکھا ہوتا ہے۔ اگر یہی روش ہے تو قانون بنایا جائے کہ پاکستان یا مہاجروں کی اپنی نمائندہ جماعت نہیں بن سکتی ہے اور جس نے سیاست کرنی ہو وہ اسٹیبلشمنٹ کے پیرول ، خواہشات اور طے کردہ منزل پر گامزن رہ کر ہی سیاست کرسکتا ہے، ہر نئے فوجی سربراہ کی طرف سے ایک نیا سرکلر جاری ہوگا جس میں ایک وضاحت ہوگی کہ اسٹیٹ کی پالیسی یہ ہے، طالبان کو سپورٹ کرنا ہے، ایم کیوایم کو سپورٹ ہے یا نہیں، بلاول بھٹو زرداری کب بلو رانی اور کب شہزادہ کہلائے، شیخ رشید کی زبانی معلوم ہوگی کہانی۔ جنرل ضیاء الحق کشمیر پر پالیسی بنائے تو مسلح تنظیمیں پالی جائیں، پرویز مشرف اپنے اقتدار کیلئے سہی لیکن کشمیر کے مؤقف سے پیچھے ہٹے تو جس پر مجاہدین کے کیمپ چلانے کا الزام تھا،وہ شیخ رشیدTV سکرین پر یہ وظیفہ باربار دہرائے کہ ’’مقبوضہ کشمیر کے لوگ مجاہدین سے بہت سخت تنگ تھے‘‘۔ مگر جنرل راحیل شریف کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈہ قرار دیکر اہمیت دے تو پھر پاکستان کیلئے یہ سب سے بڑا اہم مسئلہ بن جائے۔ مہاجر تو باعزت لوگ ہیں رنڈوے رشید کو کراچی میں اپنی تربیت کیلئے بھی نہیں بلا سکتے ہیں، کہتے ہیں کہ عمران کی بھی اس نے ریحام خان سے طلاق کرادی،نوازشریف پرویزمشرف سے ناراض ہوتے ہیں تو بلوچستان کیساتھ زیادتی کے حوالہ سے پیش پیش ہوتے ہیں اور حکومت میں ہوتے ہیں تو ان کو مولی گاجر کی طرح کاٹنے پر بھی آواز نہیں اٹھاتے ہیں۔
مہاجر کس سے کیسی سیاست سیکھیں، جماعتِ اسلامی جنرل ضیاء الحق کے دور میں ٹاؤٹ کا کردار ادا کررہی تھی تو ہڑتال کیلئے رات کو گاڑیاں جلاکر شہر کو بند کردیا جاتا ، مخالفین کو تعلیمی اداروں میں تشدد کا نشانہ بایا جاتا تھا، اسلام کے نام پر جنرل ضیاء نے ریفرینڈم کرایا تو جماعتِ اسلامی اور تمام مذہبی فرقوں کے بڑے مدارس جنرل ضیاء الحق کو سراپا مجسمۂ اسلام قرار دے رہے تھے، تحریکِ انصاف کے عارف علوی نے اکیلے کراچی پولیس کا مقابلہ کرکے پیہ جام کروایا حالانکہ پولیس اس کی سپورٹ نہ کرتی تو کیا پھدی کیا چھدی کا شوربہ۔ ایسے ماحول میں مہاجر کو سمجھ نہیں آرہی ہے کہ بھارت کی ایجنٹ ایم کیوایم نے آخر کونسے جہاز استعمال کرکے ایبٹ آباد کے امریکی کمانڈوز سے زیادہ کمال دکھایا کہ اتنے آفس بنالئے جو اچانک مسمار کر دینے کا فیصلہ ہوا، مہاجر کیا سوچے؟۔
مہاجرکو یہ سوچنا چاہیے کہ جو گلے شکوے اسکے دماغ میں بیٹھ گئے ہیں، ان کو نکال دے۔ کیا نوازشریف کی حکومت کے ہوتے ہوئے مارشل لاء نہیں لگا؟۔ نوازشریف نہیں روتا رہا کہ مجھے بھی ہتھکڑیاں لگاکر جہاز کی کرسی کیساتھ بھی باندھ دیا گیا؟۔ کیا اس پر کوئی گلہ شکوہ کرتا ہے کہ مہاجر بڑا سخت گیراور بے توقیری کرتا ہے؟۔ پرویزمشرف مہاجر تھا مگر انکی وجہ سے الزام مہاجروں کے سر نہ آیا ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی ، پنجاب میں ن لیگ کی صوبائی حکومتیں ختم کی گئیں، محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی گئی، بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کرکے اکبر بگٹی کے ذریعہ گورنر رائج قائم کیا گیا، اپوزیشن کی ساری قیادت کو ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں ڈالا، بغاوت اور غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ یہ تو جنرل ضیاء نے جمہوری حکومت قید کرکے جمہوری لوگوں پر غداری کے مقدمات ختم کیے ورنہ اپوزیشن کی ساری جمہوری جماعتیں قائد عوام بھٹو کے زمانے میں غداری کے مقدمہ میں تختۂ دار کو پہنچتیں۔ جب کراچی کے سیاہ وسفید کی مالک مہاجروں کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم تھی تو کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں اعلیٰ درجے کی تعلیم، تربیت، امن وامان ،روشن خیالی اور مذہب شناسی کے نمونے اور مثالیں قائم کرکے مہاجر پاکستان کے دوسرے لسانی کائیوں کے قابلِ تقلید بن سکتے تھے۔پاکستان میں بہت زبانیں ہیں جن کی تاریخ بڑی قدیم ہے، اردو کو پاکستان میں قومی زبان کا درجہ دیکر اردو بولنے والوں میں احساس پیدا کیا گیا کہ ’’تم حکمران ہو‘‘۔ ہجرت کرنے والے تو پنجاب ، پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی بہت ہیں، کراچی میں بڑی تعداد ان کی بھی ہے جو ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہیں جوگھروں میں اردو کی بجائے دوسری زبانیں بولتے ہیں۔اردو اسپکنگ دوسروں کی طرح خود کو مہاجر نہ بھی کہلواتے تو میمن، چھیپا، مارواڑی، صدیقی، فاروقی ، عثمانی ، علوی ، سید اور اپنے اپنے پیشے اور قومیت سے اپنا تعارف رکھ سکتے تھے۔
مہاجر کہلانے میں بھی کوئی عیب نہیں، صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد مہاجروں کی تھی ،نبیﷺ بھی مہاجرین میں سے تھے۔ حضرت آدمؑ بھی جنت سے زمین پر مہاجر بن کے آئے۔ حضرت اسماعیلؑ بھی مہاجر تھے، قبائل تعارف کیلئے ہوتے ہیں، سب ایک آدم کی اولاد ہیں،زبان رابطے کا ذریعہ ہے۔آج کوئی برطانیہ، امریکہ، مغرب کے دیگر ممالک یا آسٹریلیا کی قومیت اختیار کرکے فخر کرتا ہے تو پاکستان بنا ہی مسلمانوں کیلئے تھا۔خاص طور سے ہندوستان سے آنے والوں کیلئے۔ وہاں وہ اقلیت میں تھے، نظریۂ پاکستان کی وجہ سے پڑوسیوں سے تصادم کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ پاکستان ایک خطۂ زمین ہے اس پر اسلامی نظام کے نفاذ کی ذمہ داری حکمران طبقہ اور علماء کرام پر تھی۔اردو اسپکنگ اپنی مادری زباں کی وجہ سے سب سے بڑھ کر کردار ادا کرسکتے تھے۔لوگوں نے نظام پر توجہ نہ دی اور نوکریوں باگ ڈور سنبھالنے اور مراعات کے چکر میں لگ گئے۔
پہلی مرتبہ آزادانہ انتخاب کا نتیجہ ادھر ہم ادھر تم نکلا، بنگلہ دیش الگ ہوا، فوج کو بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑگئے۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالا ،تو170قابل ترین بیوروکریٹوں کو فارغ کیا اورکوٹہ سسٹم قائم کرکے پنجابیوں اور مہاجروں کا گٹھ جوڑ ختم کرکے سندھیوں کو پنجابیوں سے ملادیا۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے ہتھوڑے گروپ سے لیکر کراچی کے لسانی فسادات تک پیپلزپارٹی کو مٹانے کا منصوبہ بنایا، جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا نورالہدی کو سات ماہ تک جیل رکھا، اسلئے کہ وہ پیپلزپارٹی کے جیالے شیخ نورالہدی مرحوم کو قید کرنا چاہتے تھے مگر بیوروکریٹ کمشنر نے اپنی جان فوجی دماغ سے چھڑانے کیلئے مولوی کو پکڑ کر بتایا یہ کہ ’’جیالا پکڑ لیا ہے‘‘۔ جب شیخ نورالہدیٰ پکڑ لیے گئے تو مولانا نورالہدیٰ کی جان چھوٹ گئی، ان کو چھوڑدیا گیا۔ اوریا مقبول جان خود بھی کمشنر رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ سول بیوروکریسی ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مغالطہ دیتی ہے،اسلئے ملک کی حالت بہتر نہیں ہورہی ہے۔بیروکریسی کو سدھارنے کیلئے کون کام کرے گا؟۔
اچھی تعلیم کیلئے ایک زبرست ماحول کی ضرورت ہوتی ہے،پہلے طلبہ تنظیموں نے پھر یہ معیار کراچی میں ایم کیوایم کے عروج کی وجہ سے گرگیا، اب تو کوٹہ سسٹم کی ضرورت ہی نہ رہی ہے اور تعلیم کے علاوہ تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ تربیت کے بغیر تعلیم سے کوئی معیاری معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا، تربیت کے بعد پھر تزکیہ بھی ضرورت ہوتی ہے، قوموں اور قیادت پراونچ نیچ کے ادوار آنے سے انسانوں کا تزکیہ ہوتا ہے۔ ایم کیوایم کے رہنما ؤں کو جب وقت ملا تھا تو عوام سے خوش اخلاقی سے پیش آتے۔عاجزی ، انکساری، رواداری ، اخلاق ، مروت اور اچھا انداز اپناتے تو آج تیز وتند ، تلخ و ترش اور گھن گرج کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آزمائش اللہ تعالیٰ بڑے لوگوں پر ہی ڈال دیتا ہے لیکن یہ عذاب نہیں بلکہ گناہوں کی معافی اور تزکیہ ہے۔مہاجر کا شریف طبقہ ایک طرح سے یرغمال بناہوا تھا اس پر عام مہاجر کو پریشان نہیں خوش ہونا چاہیے۔ اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار