پوسٹ تلاش کریں

پولیس پر اعتماد کریں ریاست مارتی نہیں: چیف جسٹس ثاقب نثار

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar

نوشتہ دیوار کے خصوصی ایڈیٹر سید ارشاد علی نقوی نے کہا ہے کہ عوام کو تمام ریاستی اداروں پر تہہ دل کیساتھ اعتماد کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاک فوج ، عدلیہ ، پولیس ، سول انتظامیہ کے علاوہ پارلیمنٹ سب ہی قابل احترام ہیں لیکن ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔ عوام ہی کی جان، مال اور عزت و آبرو ٹکے کی نہیں اور جب تک مخصوص مقاصد کی خاطر انکے حال پر رحم نہ کیا جائے تو ان کی فریاد عرش الٰہی کو سنائی دیتی ہے اور بس۔ محترم چیف جسٹس صاحب ! آپ ٹھیک فرماتے ہیں کہ راؤ انوار کو چھپانے والے بہت ہیں لیکن اگر ماڈل ٹاؤن پولیس کو استعمال کرنے والوں کی خبر لی جاتی تو ان چھپے ہوئے پھنے خانوں کو نکالنا بھی مشکل نہ ہوتا۔ لواحقین کو طفل تسلیاں مبارک ہوں۔ معروف صحافی مظہر عباس نے ایک پروگرام میں بتایا کہ ’’جنرل نصیر اللہ بابر کی قیادت میں ایک اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایم کیو ایم کے دہشت گرد عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں ، ان کو پولیس مقابلے میں ماردیا جائے۔ اس اجلاس میں سول اور ملٹری کے تمام اداروں نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا لیکن آئی جی پولیس افضل شگری واحد انسان تھا جس نے اس سے اختلاف کیا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ بھی کردیا گیا۔ پھر راؤ انوار ، چوہدری اسلم اور دیگر دہشت والے تھانیداروں کی خدمات لی گئیں اور ماورائے عدالت خوب قتل و غارت گری ہوئی ۔ اس قتل و غارت میں ایک فوجی افسرکا نام آیا اور اسے پھر فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی اور پھانسی دے بھی دی‘‘۔
راؤ انوار نے ایم کیو ایم کے بعد طالبان دہشتگردوں کا صفایا کرنے میں بھی زبردست اور اہم کردار ادا کیا۔ راؤ انوار جیسے بہادر پولیس افسر نہ ہوتے تو امن کی فضاء ہوتی ،نہ طالبان سے کراچی چھٹکارا پاتا۔ طالبان کیوجہ سے محسود قوم کیساتھ جو سلوک فوج نے روا رکھا اس پر محسود قوم بجا طور سے کوئی شکوہ نہیں کرتی ہے۔ پولیس نے دہشت گردوں کے علاوہ شریف لوگوں کو بھی بہت ستایا اور اللہ کرے کہ اب محسودوں کا گناہ معاف ہو ، آئندہ کسی اور طوفان سے گزرنا نہ پڑے۔ پٹھانوں نے طالبان اور بلوچوں نے قوم پرستوں ، مہاجروں نے ایم کیو ایم کی وجہ سے جو دکھ درد سہے ہیں اللہ نہ کرے کہ ہمارے پنجابی بھائی ان سے گزریں۔ قصور کے بے قصور بچوں اور بچیوں کیساتھ جو کچھ ہوا ، اس طرح توبلوچ قوم پرستوں ، ایم کیو ایم کے دہشتگردوں اور طالبان دہشتگردوں کے خواب و خیال میں بھی نہ گزرا ہوگا۔ یہ ریاست کا بہت بڑا احسان ہوگا کہ قرآن و سنت کیمطابق جبری جنسی تشدد کیخلاف پارلیمنٹ کھلے عام سنگساری کے احکام نافذ کردے۔ پارلیمنٹ قانون پاس کرے عدالت چند دنوں میں ان کیسوں کو نمٹائے اور حکومت اس پر عمل درآمد کرائے۔
عدالت عالیہ نے چاہا تو وقت گزرنے کے باوجود میاں نواز شریف ان کیسوں میں بری کردیا جن میں عدالت نے سزا دی تھی۔ عدالت عالیہ نے چاہا تو حدیبیہ پیپر ملز کے تمام دستاویزی ثبوت موجود ہونے اور باقاعدہ فیصلہ نہ ہونے کے باوجود کیس کو دفن کردیا۔ عدالت عالیہ نے چاہا توپارلیمنٹ میں اثاثہ جات کے اقرار کے تحریری بیان اور قطری خط میں کھلا تضاد تھا تو بھی اپنا فیصلہ اقامہ پر سنایا۔ جس سے چیف جسٹس کے سابق مؤکل محترم نااہل نواز شریف کوسپریم کورٹ کے لارجر بنچ کو خوب تر صلواتیں سنانے کا موقع فراہم کیا۔ نقیب اللہ محسود بے گناہ تھا تو قرآن میں ایک بیگناہ کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں تو بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی کئی داستانیں ہیں جو کسی شمار و قطار میں نہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی نیت پر انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی شک نہیں مگر نصیر اللہ بابر ہی نے جمہوری دور میں طالبان پیدا کئے اور پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت عام شہریوں کو قتل کی اجازت دی۔ ہمارا مقصد تنقید برائے تنقید اور مخصوص لوگوں کی طرفداری نہیں لیکن قرآن و سنت کے احکامات سے ہمارے مردہ معاشرے میں نئی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ قتل کے بدلے قتل اور زنا بالجبر پر سر عام سنگساری کی سزا جمہوری بنیادوں پربھی عالم انسانیت کیلئے قابل قبول ہوگی اور دنیا کے تمام کمزور لوگ اس کو سپورٹ کرینگے۔

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar-2

police-per-aitemad-karen-riasat-marti-nahi-chief-justice-saqib-nisar-3

اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار کا تبصرہ

نوازشریف دوباروزیراعظم بن چکاتھا، سی پیک پرویزمشرف کا کارنامہ تھا ،اگر نوازشریف نہ آتا تو مغربی روٹ بن چکا ہوتا ، تجارتی سرگرمیاں بھی شروع ہوچکی ہوتیں

ایم کیوایم کی طرح پھوٹ پڑے تو گھر کے افراد بھی نااہلی کے گواہ بن جائیں،آلو کی قیمت کم اور بجلی کی قیمت کا جھوٹ سے غلط بتانے پر زرخرید میڈیاخبر کیوں نہیں لیتا؟

سوات کے امیر مقام سے کراچی کے الطاف ، پنجاب کے لوہار اور سندھ کے زردار تک قوم پر مسلط قائدین حدیث کیمطابق روبیضہ (گرے پڑوں) سے توقع نہیں ۔

ایڈیٹرنوشتۂ دیوار اجمل ملک نے کہاکہ : نوازشریف پہلے بھی دومرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں مگر سی پیک نہیں بنایا، کسی اور کی حکومت ہوتی تو مغربی روٹ بن چکا ہوتا، ، مشرقی روٹ پر دھند کا ڈیرہ ہوتا ہے، گوادر سے لاہور کیلئے بھی مغربی روڈمحفوظ اور شارٹ کٹ تھا،پنجاب کی آبادی مزید ماحولیاتی آلودگی کی متحمل نہیں،بجائے صحن کے کم عقل گھرکی چھت پرباغ اُگارہاہے۔ وزیر اعظم کی اہلیت اور دیانتداری کیلئے دور جانے کی ضرورت نہیں،یہ دیکھا جائے کہ ملک چلانا تو بڑی بات کیا یہ اپنا گھر چلانے کے لائق بھی ہے؟، آلو کی قیمت کا اعلان کیا ’’80روپے کلو تھا، اب 25 روپے ہوگیا،یہ بھی زیادہ بتا رہا ہوں ورنہ مجھے 20 روپے بتایاگیا‘‘۔ قوم نااہل وزیراعظم کیخلاف کیوں اُٹھ کھڑی نہ ہوئی؟۔ کسی احمق ترین سے پوچھ لو، تو وہ بھی بتادے گا کہ آلو کی قیمت کا تعلق موسم سے ہے، پنجاب میں فصل کا وقت ہوتاہے تو قیمت بہت گرجا تی ہے ،جب نااہل حکمران کی وجہ سے ایکسپورٹ نہ ہو، آلو زیادہ کاشت ہو تو کسان اپنی محنت اور لگائی ہوئی رقم بھی کھودیتا ہے‘‘ جس وزیراعظم کو یہ پتہ نہ ہو، وہ کرپشن کا سہارا لئے بغیر مالدار کیسے بن سکتاہے؟، یہ بیان کیا نااہلیت کیلئے کافی نہیں؟۔ عدالت میں یہ ثبوت نہیں چلتا کیونکہ ہماری قوم اہلیت کے مفہوم سے عاری لگتی ہے۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
عوام کواہلیت کا پتہ نہیں، چھوٹے سر والی عوام نواز شریف کی طرح آلو ، بڑے سر والی عوام شہباز شریف کی طرح کدو جیسے ہیں دونوں کو آمروں نے ہی قوم پر مسلط کیا۔ بالکل جھوٹ سے بجلی کا یونٹ 18سے کم کرکے 10 روپے بتایا؟ وزیر اعظم کی نا اہلی کیلئے یہ جھوٹ کافی نہیں؟۔عدالت لوٹا ہوا پیسہ اورعمرہ جاتی محل لاہور کے متأثرین کو دلادے
ہوئے ہم جو مرکے رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا ، نہ کوئی مزار ہوتا
بے رحمانہ احتساب ناگزیر ہوچکا۔وزیراعظم کی نااہلی کیلئے اصغر خان کیس کا16سال بعد فیصلہ کافی تھالیکن سامری کایہ بچھڑا مقدس گائے کی اولاد ہے اسلئے سزا نہ ہوئی۔ عاصمہ جہانگیر کی بات سوفیصد درست ہے کہ’’ دو خدا مل جائیں تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے‘‘۔ باقی تین صوبوں میں تو 3خداؤں کا عقیدۂ تثلیث کا چل رہاہے۔ فوج ، عدلیہ اور تختِ لاہور کی جمہوریت تینوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ الطاف حسین کی تصویر پر عدلیہ کی پابندی لگانے کا کیس عاصمہ جہانگیر لڑ رہی ہیں۔اللہ نظرِ بد سے بچائے ، دہشت گردی کا گرد بھی نہ لگے لیکن محمود خان اچکزئی بیان دے تو فروغ نسیم اس بات کو فروغ دیتاہے کہ وکلاء اچکزئی کا کیس نہیں لڑینگے، کیوں؟۔ الطاف حسین کی وکالت کرنیوالاسینیٹر فروغ نسیم محمود خان اچکزئی اور الطاف حسین میں یہ تفریق اسلئے روا رکھتا ہے کہ ایک کتنے معاملات میں ملوث ہو مگر کبھی تو فوج کو بھی دعوت دیتاہے اور دوسرے کا جرم جمہوریت کا راگ الاپنا ہے؟ ۔ ریاست ماں ہے مگر تختِ لاہور اور اسٹیبلشمنٹ کوماں باپ کہنا حماقت ہے۔ دونوں کے ازدواجی تعلق سے باقیوں نے اولاد کی طرح نہیں جناہے۔ بلوچستان میں60سے زیادہ پولیس میں بھرتی ہونے والے جواں شہید ہوئے مگرجیوٹی وی کے ٹیبل ٹاک میں مباحثہ ہورہاہے کہ باپ(فوج) وزیراعظم کو جھاڑ دانٹ پلائے تو مسئلہ نہیں لیکن اگر ماں (وزیراعظم) نے باپ (فوج) کو ڈانٹ پلادی تو اس کو محلے میں پھیلانے سے گھر کی بدنامی ہوتی ہے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ بیوی تو دور کی بات یہ تو لونڈی بھی نہیں بلکہ ناجائز تعلق کے نتیجہ میں یہ سیاست میں لائے گئے ہیں۔ فوج نہ لائے تو یہ ریاست کے وزیراعظم ہاؤس میں داخل بھی نہ ہوں۔
دہشت گردوں کے سہولت کارڈاکٹر عاصم حسین اور میئر کراچی کی ضمانت ابھی مشکل سے ہوگئی۔ بلوچستان اور پختونخواہ میں تو پہلے سے فوج کا اقتدار ہے۔عمران خان کو نیا مہرہ نہ بننے دیا جائے، آرمی پبلک سکول پر حملے کیخلاف جلوس کو بھی پشاور شہر میں پولیس نے روکا جو نقاب پوشوں اور وردی والوں کا خوف عوام کے دلوں سے نکالنے کے نعرے لگارہے تھے، ملزم ڈاکٹر عاصم سے بڑا مجرم اسحاق ڈار ہے اور ملزم ماڈل ایان علی سے بڑی ملزم مریم نواز ہے۔ دہشت گردوں سے زیادہ مضبوط اسٹیبلشمنٹ کی ربڑ اسٹمپ پنجاب کے کٹھ پتلی سیاستدان ہیں اگر عدلیہ نے بچھڑے کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کردیا تو مقدس گائے بھی ذبح ہوجائے گی۔ پھر عدلیہ کو اپنے ساتھ بھی انصاف کرنا پڑیگا۔ڈوگر اور افتخارچوہدری کے معاملات کو بھی سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔ بڑے بڑے مگر مچھ دھرلئے جائیں تو قوم خوشحال ہوجائے گی۔
عدلیہ فوج سے مل جائے تختِ لاہور بھی ہل جائے سامری کا یہ بچھڑاہے غریب عوام کھل جائے
عدالت اور ریاست کی قوت مل کر بال بچھوڑے کو باہر سے بلوائیں اور پھر آئی سی ایل میں نام ڈال کرنااہلی کا حکم جاری کریں،اگر وزیراعظم نے قانونی طور سے پانامہ کی حکومت کو خط لکھنا ہے تو وزیراعظم اپنے بچوں کیخلاف انصاف نہیں کرسکتا۔ یوسف رضاگیلانی کو صدر زرداری کے خلاف خط نہ لکھنے پر نااہل قرار دیا گیا، جمہوریت برقرار رہی، فوج عدالت کو تحفظ فراہم کرے، چڑھ دوڑنے کا ٹریک ریکارڈ پہلے سے موجود ہے۔ کیاکھلے عام جھوٹ اور بد دیانتی پر آئین کے کسی دفعہ سے نواز شریف کو عدالت عظمیٰ دفع نہیں کرسکتی ؟۔اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی از خود نوٹس لیتے تو بھی ایم اکیوایم کی طرح یہ بکھر جاتے اوروزیراعظم کی نااہلی کی گواہی شہبازشریف، نصرت شہباز، کلثوم نواز، مریم نواز، صفدر عباسی ، حمزہ شہباز، حسن نواز اور حسین نواز سمیت زرخرید میڈیا کے اینکر اور حکومت کے مشیراور وزیر بھی انشاء اللہ ضرور دینگے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ مریم کا سرپرست صفدر عباسی ہے یا باپ کی کفالت ہے؟۔
وزیراعظم کے جھوٹ پر ’’ کامران خان کیساتھ‘‘میں وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک نے کہا کہ ’’فی یونٹ3 روپے‘‘ کمی کی ۔ یہ وزیراعظم کا میڈیا پرقوم سے جھوٹ کااعتراف ہے، سوال پوچھا کہ 3 فیصد کمی کہاں؟ تومصدق ملک نے کہا کہ ’’65فیصد آبادی 100 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرتی ہے،3فیصد کی کمی ان کیلئے ہے‘‘ احسن اقبال تومٹھاس کیلئے کریلا گھول دیتا کہ ’’80فیصد کے پاس بجلی نہیں، 80فیصد لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، بہت سولربھی لگ گئے ہیں، بدچلن اعداد وشمارنکالے جائیں تووزیراعظم صاحب کی بات بالکل ٹھیک ہے ،نہیں تو کورٹ میں چیلنج کرو، یہ مدت تو نکال جائیں گے‘‘۔بجلی کی قیمت موبائل فون کی طرح بہت کم ہوسکتی ہے مگر انہوں تیزرفتار بجلی میٹروں سے عوام کا خون ہی چوسنا ہے۔23فیصد بجلی چوری کے باوجود Kالیکٹرک کا28ارب کا منافع ہے، پہلے بہت خسارہ ہورہاتھا۔ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے مختلف کمپنیوں کو بجلی دینے کی بات کرکے عوام کے دکھ سکھ کا خیال رکھنے کا ثبوت دیا ہے ، عوامی نمائیدوں نے حکومت کو خدمت کے بجائے منافع بخش تجارت سمجھ رکھا ہے ۔منحوس منافع بخش تجارت کیلئے لڑتے ہیں۔
کوئی اور اتنی واضح غلط بیانی کا مرتکب ہوتا تو میڈیا اسکا چھلکا اتار دیتی مگر یہ حکومت کا میڈیا کو پیسہ کھلانے یانااہل صحافت کا نتیجہ ہے ۔وزیراعظم گھر کے افراد، کسی وزیر اور مشیر سے مشاورت کرتا تو بھی ان حماقتوں کا مرتکب نہ ہوتا۔ اگر تابعدار فوج اسکے ہاتھ چڑھ گئی تو پھر ملک وقوم کا اللہ ہی حافظ ہے، جاتے جاتے جنرل راحیل اور رضوان اختر کی توہین کیوں کی؟۔یہ سوال ہی غلط ہے۔ شیخ سعدی کا غالباً شعر ہے کہ سبق نہ دہد کم ذات را کم ذات چوں عاقل شود گردن زدد استاذ را ’’ کم ذات کو سبق نہ دو، کم ذات جونہی عاقل بنے استاد کی گردن مار دیتاہے‘‘۔ جنرل ضیاء اور فوج نوازشریف کے محسن ہیں مگر سب سے زیادہ فوج کو ذاتی غلام بنانے کے پیچھے نوازشریف لگا۔ مارشل لاء مخالف محمود خان اچکزئی، اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمن، زرداری اینڈ کمپنی سے لیکر 22اگست سے پہلے کی ایم کیوایم بلوچ شدت پسند اور طالبان سب سے مفاد کی خاطر دوستی رہی۔ زرداری قابلِ تعریف نہیں لیکن جس طرح بینظیر بھٹو نے سوات پر جھنڈا لگانے اورحملے کے باوجود اپنی جان قربان کرنے کیلئے پیش کردی، اسی طرح سے زرداری نے وہ کردکھایا، دہشت گردوں کیخلاف شہید ہونے پر خراج عقیدت پیش کی، سوات کا آپریشن کروایا۔ مسلم لیگ (ن) میں سب سے زیادہ جمہوریت ، اصول پسند ، بہادر اور قدرے بہتر ظفر علی شاہ نے اسلئے مولانا فضل الرحمن کو امریکہ کا ایجنٹ کہاتھا کہ’’اس نے طالبان کو اسلام آباد تک پہنچنے کی طرف توجہ دلائی ‘‘۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے لکھا کہ ’’ مولانا فضل الرحمن ایک خود کش سے مر نہیں سکتا اور دو طالبان ضائع نہیں کرنا چاہتے‘‘ ۔ڈاکٹر شاہد مسعود کراچی کے دھماکے کو شہرت کیلئے بینظیر بھٹو کا اپنا کیا دھرا قرار دیتا تھا، پھر بینظیر کی موت کا آصف زرداری کو ذمہ دار قرار دیا ، زرداری نے پی ٹی وی کا چیئرمین بنادیا تو شاہد مسعود نے خود کو کٹرجیالا بتانا شروع کیا ۔ زرداری جانتا تھا کہ اس نے اے آر وائی چینل کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر جیو چینل کا رخ کردیا، پھر زرداری نے چوتڑ پر لات مارکر نکالا، توجیونے خوب ذلیل کیا۔سوچکر کاٹ کر اب اے آر وائی پر بیٹھنے میں شرم بھی نہیں آتی۔
سیاست و صحافت اگر اخلاقی معیار کے بجائے ابن الوقتی اور ذلت کا کھیل بن جائے تو قوم کو کون عروج کی منزل کی طرف لے جائیگا؟۔ جنرل راحیل اور ڈی جی آئی ایس آئی کو جاتے جاتے کیوں دولتی لگادی؟۔ شریف برادران جمہوریت کیخلاف جنرل ضیاء سے اشفاق کیانی تک فوج کی ٹانگوں میں اپنا سر دیتے ہیں اوربرسرِ اقتدار ہوکرفوج کیخلاف ہرہتھکنڈہ استعمال کرکے کہتے ہیں کہ’’ہر دور میں ڈگڈی بجانے والا آجاتاہے‘‘۔ ڈگڈی بجانے کے علاوہ کوئی پیشہ برا نہیں، سید بھی ڈگڈی کا پیشہ اختیار کریگا تو میراثی کہلائے گا،آج تو پیسے والے میراثیوں کو بھی یہ قوم کسی غریب سے زیادہ عزت دیتی ہے، کمائی کے جائز ذرائع عزت ہیں، زرداری نے ق لیگ کو چھوڑ کر حکومت کا موقع فراہم کیا، شہبازشریف نے پنجاب پر گرفت مضبوط کی تو ڈکشنری میں ایسی گالی نہ تھی جو زرداری کیلئے استعمال نہ کی گئی ہو۔ جب تنگ آکر زرداری نے کہا کہ ’’ نوازشریف کے سر میں لوہار کا دماغ ہے ‘‘ تو ن لیگی کہہ رہے تھے کہ ’’اس حد تک ہم نہیں گرسکتے ‘‘۔ یعنی منافق، چور، ڈکیت،، بدمعاش اور چوکوں پر لٹکانے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی تمام تقریروں سے بھی یہ ’’لوہار‘‘ بڑی گالی تھی حالانکہ کہہ دیتے کہ لوہار اور زردار میں زیادہ فرق نہیں، کہا جاتاہے کہ’’ سو سنار کی ایک لوہار کی‘‘۔مگر معاملہ الٹا ہوگیا ، سو لوہار کی ایک زردار کی۔جو رویہ زرداری سے شریف برادران نے اختیار کیا، وہی انکا وطیرہ تھا، حدیث میں آتا ہے کہ ’’چرواہے بڑی بلڈنگوں پر مقابلہ اور فخر کرینگے‘‘۔ اور ’’ روبیضہ (گرے پڑے نکمے لیڈر،عوام کی تقدیرکا) فیصلہ کرینگے‘‘۔ سیاست و صحافت عمدہ لوگوں کے ہاتھ سے نکل کر سوات کے امیر مقام سے کراچی کے الطاف ، پنجاب کے لوہار اور سندھ کے زردار تک جن لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچی ، یہ حدیث کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے۔پرویزمشرف کے دور میں ان فوجی افسران کی فہرست شائع ہوئی جو لال کرتی کے پیداوار تھے۔ چوہدری اعتزاز احسن نے عدالت سے سزایافتہ نواز شریف کو بری کروا یا، ججوں اور مؤکلوں کیلئے پارٹی سے فاصلہ بنایا،اب جہانگیرترین کے وکیل بن گئے تو کہاکہ ’’عدالت نے پہلی مرتبہ ن لیگ کیخلاف فیصلہ دیا ‘‘۔ حبیب جالب نے اشعار کہے ’’ہر بلاول ہے ہزاروں کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے‘‘۔تو محترمہ نے کہا ’’یہ مجھ پر تنقید ہے کہ ملک مقروض کردیا اور نام لیوا غرباء کے پیر ننگے ہیں‘‘اعتزاز احسن نے غلط سمجھایا کہ ’’جالب نے تیری تعریف کی‘‘۔ یہ بھٹو کی بیٹی کا حال تھا جو مشکل ترین دور میں خوگرِ حمد جالب سے اپنے دورِ اقتدار میں تھوڑا سا گلہ بھی نہ سن سکی، پھر زرداری کے بلاول کا کیا حال ہوگا جس نے جعلی بھٹو بنکر مرتضیٰ بھٹو کے یتیم بچے ذوالفقاربھٹو سے قیادت چھینی ؟۔ شیخ رشید کے سامنے طاہر القادری نے رائیونڈ کا اعلان کیا، پھر اسکو اسلام و جمہوریت کیخلاف قرار دیا، لندن میں ملنا گوارا نہ تھا،کرنِ امید نے سورج مکھی کے پھول سے سورج کا ٹوٹا رشتہ جوڑا، کنٹریکٹ میرج کا فتویٰ تحریک انصاف کے شیخ الاسلام مفتی عبدالقوی کا تھا، نکاح خواں شیخ رشید کو پرانے ن لیگی ساتھی بھڑوا کہہ رہے ہیں ،صبح وشام مفاد کی خاطر تقدیریں بدلنے والے اقبالؒ کے مؤمن نہیں ۔ کردار کے غازی متعہ کی پیداوارحضرت عبداللہ بن زبیرؓ ہوں یا لال کرتی کے پیداوار، ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں، علم وکردار نسلی عیب کومٹاتا ہے۔ بلال حبشیؓ ،صہیب رومیؓ، سلمان فارسیؓ اور ابوجہل، ابولہب،ابن ابی کی فضلیت و رذالت قوم ونسل، قبیلے وزباں سے نہیں کردار کی بنیاد پرمتعین ہوئی ہے ،قوم کو پیسے نہیں کردارکا قائد چاہیے۔
عمران خان نے ہیلی کاپٹر کی ضرورت کے بغیر بھی اسلام آباد سے کراچی کا سفر کیا تھا، خیبر پختونخواہ کے جلسے میں بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے جاتا، لیلائے اقتدار کتیاقیادت مایوں میں دلہن کی طرح بیٹھ گئی اور اپنے کارکن ورہنماؤں باراتیوں کو پاس ہی بلالیا، پرویز خٹک رات بھر لٹک گئے اور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شیل کھانے سے پہلے اعلان کردیا کہ ’’مبارک ہو‘‘۔ یہ الفاظ فسٹ کزن طاہرالقادری سے مستعار لئے تھے۔ جس نے خود بھی اس بے خودی میں موت کا مزہ چکھاتھا اسلئے عمران خان کی سیاسی موت پربھی اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ لیا۔شیخ رشید گولیاں کھاکر سوگئے مگرطاہرالقادری کے جملے کونامناسب کہا۔ تحریک انصاف کے دوگروپ ہیں گھانس والے اور ڈانس والے ۔ گھانس والوں نے رات کو موٹروے پر جھاڑیوں میں آگ لگاکر آنسو گیس کے شیل کھائے،ڈانس والوں نے بڑی تعداد میں نکل کر رنگ وراگ کی محفل سجاکر تماشہ انجوائے کیا۔ وسعت اللہ خان نے حکومت کے کریک ڈاؤں پر کہا کہ ’’قوال کوخود ہی وجدآگیا‘‘۔ غالباً اکتوبر 1920کا زمانہ تھا، محمد علی جوہر اور شوکت علی لاہور میں جلوس کی قیادت کررہے تھے، علامہ اقبال انارکلی کے ایک چوبارے میں رہتے تھے، جلوس دیکھنے کیلئے بالکونی میں کھڑے ہوگئے،تو جوہرنے بلند آواز سے اقبال کو مخاطب کرکے کہا کہ آو! تمہارے کلام نے ہمارے سینوں میں آگ لگادی ، تم ہمارا تماشہ دیکھ رہے ہو، آؤ ہماری قیادت کرو۔ اقبال نے جواب دیا : جناب میں قوم کا قوال ہوں، اگر میں بھی حال میں مبتلاہواتوقوالی کون کریگا؟‘‘۔ عاصمہ جہانگیر اورمولانا فضل الرحمن اپنے سوز کو سامری کے ساز جیو ٹی چینل سے نہیں ملائیں، دہشت گردوں کاایک بڑا سہولت کار نواز شریف سزاپائے تو عمران خان بھی نہ بچے گا،ایک پَر ناکارہ ہو تو دوسرا بھی بیکار ہے، ایکدوسرے پر الزام لگانے والے شریفوں اور عمران خانیوں کے علاوہ فضل الرحمانیوں اورزردایوں سمیت سب کو قوم کٹہرے میں دیکھنا چاہتی ہے ۔ اجمل ملک