پوسٹ تلاش کریں

مولانا آزادؒ کی تجاویزاورہماری خوش اسلوبی کافائدہ: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 4 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

مولانا آزادؒ کی تجاویزاورہماری خوش اسلوبی کافائدہ: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 4 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018 اخبار: نوشتہ دیوار

triple-talaq-in-islam-halalah-maulana-muhammad-khan-sherani-molana-yusuf-binori-agreement-marriage-nikah-mut'ah-mufti-mehmood-kathputli

مولانا ابوالکلام آزادؒ کے نظرئیے اور داڑھی کی تراش سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان کی قابلیت کا انکار مخالف بھی نہیں کرتا، مولانا آزادؒ بھارت کے وزیرِ تعلیم تھے تو علماء کے سامنے تجویز رکھی’’ جن کتابوں کو درسِ نظامی میں پڑھایا جاتا ہے یہ زوال کے دور کی ہیں۔ اسلامی علوم کو عروج ملا ،پھرعلوم کا زوال ہوا تو ساتویں صدی ہجری میں انتہائی پستی کا دور آیا۔ تفتازانی وغیرہ نے وہ کتابیں لکھیں کہ مغلق عبارات کی خود شروحات لکھ دیں۔ شکایت ہے کہ علماء میں استعداد نہیں لیکن یہ کتابیں علماء کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہیں۔ یہ نصاب نہ بدلا تو علماء فراغت کے بعد استعداد نہیں علم وعقل سے بھی محروم ہونگے‘‘۔ آزادؒ کی تجویز کے بعد نصاب کی تبدیلی پر بازگشت رہی ہے لیکن اس پر عمل کی مطلوبہ صلاحیت نہ تھی۔ آزادؒ نے لکھ دیا کہ ’’ اصولِ فقہ میں کمزوریاں ہیں اگر کسی اہل عقل کی نظر پڑگئی تو اسکا ڈھانچہ زمین بوس ہوجائیگا‘‘۔ جمعیت علما اسلام کے مولانا محمد خان شیرانی نے مجھ سے کہا: ’’ آپ نیا نصاب تشکیل دیں تو میں ذمہ لیتا ہوں کہ اسی کو علماء پڑھائیں گے‘‘۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بن گئے تو میں نے متعدد بار ملاقات کی، تین طلاق اور حلالے کا مسئلہ سلجھانے پر پر زور دیا مگر ان کو فرصت یا جرأت نہیں تھی یا خواتین کی عزتوں اور شرعی مسائل کی اہمیت نہ تھی۔
امام ابوحنیفہؒ کیخلاف اسماعیل بخاریؒ اور سید عبدالقادر جیلانیؒ نے بڑا سخت لہجہ استعمال کیا تھا۔ مولانا آزادؒ پر مولانایوسف بنوریؒ نے زندیق کا فتویٰ لگادیا۔فتوے سے دونوں قسم کے اکابر ؒ پر فرق نہیں پڑتا۔ اکابرؒ تو اکابرؒ تھے، صحابہ کبارؓ میں شدید علمی وعملی ، سیاسی اور مذہبی اختلافات تھے۔ صحابہؓ سے بڑھ انبیاءؓ تھے۔ موسیٰ ؑ و ہارون ؑ انبیاء سگے بھائی تھے، موسیٰ نے ہارون ؑ کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑ ا تو جھگڑا جائیداد کانہیں مذہبی تھا۔ موسیٰؑ نے کہا کہ ان کو شرک کیوں کرنے دیا؟۔ ہارون ؑ نے کہا کہ تیری غیر موجودگی میں تفریق اور پھوٹ سے بچانا تھا، دیوبندی و بریلوی کے اکابر ایک ہیں ۔ مفتی شاہ حسین گردیزی نے لکھا ’’دیوبندی اکابرؒ نے عاشورہ میں شہدائے کربلا کا تذکرہ بدعت قرار دیا اور بریلوی اکابرؒ نے جواز بخشا تھا لیکن نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ بریلوی اکابرؒ زیادہ کامیاب رہے اسلئے کہ پہلے بڑی تعداد میں اہلسنت کے تعزئیے نکلتے تھے اور پھر بعد میں اہلسنت کے تعزئیے بہت کم ہوگئے‘‘۔
بریلوی دیوبندی معرکۃ الآراء مسئلہ نور وبشر کا ہے مگر بریلوی مقبول کتاب ’’ بہار شریعت میں انبیاء کرام ؑ کیلئے بنیادی عقیدہ یہ لکھاہے کہ انبیاء کرامؑ بشر ہوتے ہیں‘‘۔ دیوبندی مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی کتاب ’’نشر طیب فی ذکر حبیبﷺ‘‘ کی پہلی فصل ’’نبی ﷺ کے نور‘‘ پر لکھ دی کہ ’’کائنات میں سب سے پہلے نبیﷺ کا نور پیدا ہوا ‘‘۔ مناظرانہ بحث، ایکدوسرے کیخلاف نفرت کی ضرورت نہیں لیکن کچھ نے منافرتوں سے شہرت کمائی، یہ ذریعہ معاش نہ ہوگا تو سب ٹھیک ہوجائیگا۔
استاذ گرامی جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر مدظلہ العالی کی طرف سے ہماری تحریک کے حوالے سے میری ایک کتاب میں آپ کی تحریرہے جس میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خواہش والوں کی حضرت امام مالکؒ کے قول سے رہنمائی ہے کہ ’’ اس امت کی اصلاح نہ ہوگی مگر جس چیز (قرآن وسنت) سے اس امت کی پہلے اصلاح ہوئی ہے‘‘۔ جب تک تعلیمی نظام درست نہ ہو تو علماء اور صلحاء سے بھی بات نہیں بنے گی۔ اکابرین ؒ نے علم و تقویٰ میں کمی نہ چھوڑی مگر علم اور تقویٰ جاتا رہاہے ۔ نصاب کی غلطیوں کو درست کیا تو رشدوہدایت کے چراغ روشن ہونگے اور مساجد ومدارس مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ دنیا کیلئے حقیقی اسلامی اور روحانی مراکز ہونگے جنکے منبر ومحراب اوربلندمیناروں سے حقیقی محبت ہوگی اوردل کی عقیدت سے علماء اور صلحاء کو لوگ چومیں گے۔ عقیدت ومحبت کا جذبہ بھی ٹھیک استعمال ہوگا۔
سعودیہ میں مذہب کا کردار نیست و نابود ہوا۔ عوام نے مذہب سے بغاوت کا راستہ اپنایا ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں دوسری سیاسی جماعتوں کیلئے کٹھ پتلی کا کردار ادا کرکے گزارہ کرتی ہیں لیکن کام علماء ومفتیان کے حیلے تراشنے نے خراب کیا ہے۔ مفتی محمودؒ نے زکوٰۃ کے مسئلے پر حق کی آواز اٹھائی لیکن دارالعلوم کراچی کے مفتیان نے حیلہ تراشا۔ سود ی بینکاری کو اسلامی قرار دیا اور سارے علماء کی مخالفت نے دم توڑ دیا۔ اگر سوداسلامی ہو تو اسلامی نظام کیلئے کوشش نہیں ہر چیز کا نام بدل دیا جائے،اسلام نے اجنبیت کا بڑا سفر طے کیا،سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں جنسی تعلق کے جائزطریقے 1نکاح اور2 معاہدہ ہیں۔ یمین عہد و پیمان کوبھی کہتے ہیں۔ لونڈی سے نکاح اور معاہدہ اور آزاد عورت سے بھی نکاح اور معاہدہ ہوسکتا ہے۔ ملکت ایمانکم کا جملہ قرآن میں مختلف پیرائے میں آیا ہے۔ لونڈی کیلئے اَمۃ اورغلام کیلئے عبد کا لفظ ہے۔ ملکت فعل ایمانکم اسکا فاعل ہے۔ یعنی جنکے مالک تمہارے معاہدے (ایگریمنٹ) بن جائیں۔ اس جملے کی درست وضاحت کیلئے قرآن کی آیات ہیں جن کی نشاندہی کے بعد علماء کرام ، مفتیان عظام اور قارئین پر واضح ہوگا کہ یہ جملہ قرآن میں معاہدہ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے۔ کسی عورت کا شوہر گم ہو اور چار سال بعد اس کو عدتِ وفات کے بعد دوسرے شخص سے شادی کی اجازت ملے۔ کچھ عرصہ بعد پہلا شوہر نمودار ہوجائے تو مسئلہ کیا ہوگا؟۔ دوسرے شوہر سے اسکا نکاح نہ ہوگا بلکہ اس کی حیثیت ایک معاہدے کی ہوگی ، اگر عورت اس کو برقرار رکھنا چاہے تو بھی اس کی گنجائش ہوگی اور اگر عورت معاہدے کو ختم کرنا چاہے تو بھی اجازت ہوگی۔ یہ صورت اس وقت بھی پیش ہوگی کہ جب کوئی عورت لونڈی بن جائے یا وہ دارالکفر کو چھوڑ کر مسلمان بن جائے اور پھرکوئی شخص اس سے معاہدہ کرلے ۔ پہلا شوہر اسلام قبول کرلے اور عورت پہلے شوہر سے ہی اپنا نکاح باقی رکھنا چاہے تو دوسرے شوہر سے اسکے تعلق کی حیثیت معاہدے کی ہوگی۔ یہ اسلام کا کمال ہے کہ قرآن نے لونڈی کو بھی نکاح اور ایگریمنٹ کی اجازت دی تھی۔البتہ ایگریمنٹ کے لفظ کو لونڈی کیساتھ خاص کرنے کا کوئی جوا زنہیں تھا۔
امریکہ کی ایرانی نژاد خاتون نے ایک ضخیم کتاب لکھ کر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بڑا غلط تأثر پیش کیا۔ نکاح،متعہ اور لونڈی سے جنسی تعلق اور قوانین پیش کرکے اسلام اور اُمۃ کو بدنام کیا۔حالانکہ امریکہ اور مغرب میں نکاح و ایگریمنٹ کے قوانین بالکل غیرفطری ہیں جس سے مغرب بہت معاشرتی مسائل کا شکار ہے۔ اسلام کا درست تصور انقلاب عظیم کا بہت بڑا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور اسکا کریڈٹ مدارس کو جائیگا، اسلئے کہ میں اپنے علم کا سرمایہ افتخار اپنے اساتذہ کرام ، حنفی مسلک اور اصولِ فقہ کی تعلیمات کو سمجھ رہا ہوں۔ مدارس نے قرآن وسنت کے علاوہ مسالک کے درمیان تقابلی جائزے کا میدان کھلا نہ رکھا ہوتا تو قرآن وسنت کی درست تعبیر تک دماغ کبھی نہ پہنچتا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء ، اسلاف وا خلاف ، اساتذہ کرام کی جو قدر ومنزلت میرے دل میں ہے وہ اپنے والدین اور پیرومرشد کی بھی نہیں۔علماء حق نے رشدوہدایت کا چراغ ہرمشکل دور میں جلائے رکھا۔ ٹمٹماتا ہوا یہ دیاپوری دنیا کو روشن کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے لیکن ہم نے قرآن وسنت کی طرف رجوع نہ کیا تو ذلت ورسوائی مقدرہوگی۔لباس واطوار،طلاق، خلع، نکاح، معاہدہ، پردہ اور دیگر معاملات پر قرآن وسنت سے رہنمائی لینی بہت ہی ضروری ہے ۔ سید عتیق گیلانی

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز