پوسٹ تلاش کریں

طلاق کا واضح اور درست تصور، قرآن کریم کی آیات بینات اور سنت کی روشنی میں

طلاق کا واضح اور درست تصور، قرآن کریم کی آیات بینات اور سنت کی روشنی میں اخبار: نوشتہ دیوار

triple-talaq-in-islam-halalah-surah-baqarah-maulana-muhammad-khan-sherani-syed-atiq-ur-rehman-gailani(2)
حیض (ماہواری )مہینے میں 3سے 10دن جبکہ پاکی کے دن 20سے27دن ہیں۔ نبیﷺ سے حیض کاحکم پوچھاگیا، تو قرآن نے اذیت قرار دیا۔ عورت کو اذیت ہوتی ہے اور ناپاکی بھی۔ علماء نے ترجمہ ، تفسیر اور فقہ سے اذیت غائب کردی، لغت کی کسی کتاب میں اذیٰ کے معنیٰ ناپاکی کے نہیں۔اللہ نے اذیت کی وجہ سے توبہ اور ناپاکی کی وجہ سے طہارت والوں کو پسندیدہ قرار دیا ۔ علماء وفقہاء کے دماغ میں صرف مردوں کا حق ملحوظِ خاطر رہا، اسلئے عورت کی اذیت کو خاطر میں نہ لایا گیا ۔ حرث کا معنیٰ اثاثہ بھی ہے اور کھیتی بھی۔ علماء نے اپنے لئے غیرت کھائی ہوتی تب بھی عورت کو کھیتی نہیں اثاثہ قرار دیتے۔گھر کی ملکہ، بچوں کی ماں، سسرال کی بہو اور انسان کی عزتِ جان ’’محترمہ بیوی‘‘ کو بہت بے غیرتی کا مظاہرہ کرکے کھیتی قرار دیا گیا۔ کھیتی میں لوگ بول وبراز کرتے ہیں، گدھے اور بیل اور ٹریکٹر سے ہل چلایا جاتاہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین مولانا محمد خان شیرانی سے ہم نے طلاق کے مسئلہ پر بات کی تو اس نے عورت سے متعلق کھیتی باڑی کے اجارے کا ذکر کیا۔ طلبہ کو پڑھایاجاتاہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے عورت سے پیچھے کی راہ مباشرت کو جائز قرار دیا۔ حضرت علیؓ نے اس کو کفر قرار دیا، امام ابوحنیفہؒ کی رائے حضرت علیؓ کیمطابق ہے اور امام مالکؒ کا قول وعمل اسکے بر عکس ہے، وہ کہتاہے کہ ابھی ابھی میں نے بیوی سے پیچھے کی طرف سے مباشرت سے غسل کیا۔ مسلکی اختلافی بحث ہے کہ قرآن کے لفظ انّٰی شئتم سے کیا مراد ہے؟ ۔ جہاں سے چاہو سے لواطت ثابت اور جیسے چاہو سے لواطت حرام قرار دی جاتی ہے۔اگر عورت کے حق کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تواس قسم کے فضول اختلافات اور بکواسات کی ضرورت نہ پڑتی،جو بدقسمت مذہبی نصاب کا حصہ ہیں۔ اللہ نے حیض میں بھی واضح اور بڑی ترجیح اذیت کو دی ہے۔ عورت کی اذیت کوبھی موضوع بحث بنایا جاتا تو تفسیر وفقہ میں قرآن کی آیات کے مفہوم کی گردن مروڑنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
اللہ نے سورۂ مجادلہ میں خاتون کی رائے پر مذہبی قول جھوٹ و منکر قرار دیا اور سورۂ احزاب نبیﷺ کو حکم دیا کہ’’ اللہ کے نازل کردہ اتباع کرو،اللہ کی وکالت کافی ہے‘‘۔ امام اعظمؒ نے بعض احادیث کو قرآن سے متصادم قراردیا تو یہ سب دین کو برباد کرنے کیلئے تھا یاتحفظ کیلئے ؟۔پھر اما م ابوحنیفہؒ کے نام پر مسائل گھڑے گئے۔ اس آیت میں عدت و طلاق کے حوالہ سے واضح ہے کہ جس طرح دن کو روزہ رکھا جاتاہے ، رات کو نہیں۔ اس طرح بیوی سے مقاربت کا زمانہ حیض نہیں پاکی کے ایام ہیں۔ جس طرح دن رات میں ایک مرتبہ روزہ رکھا جاسکتاہے، اسی طرح ایک مرحلے میں ایک مرتبہ طلاق ہے۔


triple-talaq-in-islam-halalah-surah-baqarah-maulana-muhammad-khan-sherani-syed-atiq-ur-rehman-gailani(5)

مندرجہ بالا آیات میں چار ماہ کا انتظار وعدت واضح ہے جوتین ماہ یا تین طہرو حیض کے مقابلہ چار ماہ یا چار طہرو حیض ہے۔ جس طرح یہ بہت بڑی کم عقلی ہوگی کہ 15دن سفر کی بات ہو اور اس بات پر اختلاف کیا جائے کہ 15رات مراد ہیںیا15دن۔ حالانکہ دونوں مراد ہیں، بولنے میں 15رات کہا جائے یا15دن۔ بات ایک ہی ہے۔ اللہ نے حیض کی صورت میں عورت کی عدت تین مرحلے متعین کیے لیکن اگر حیض نہ آتا ہو یا اس میں کمی بیشی ہو تو پھرتین ماہ۔ جیسے بیماری ، زیادہ عمر اور بچے کو دودھ پلانے کی صورت میں ماہواری وقت پر نہیں آتی ۔ اسکی اللہ نے3ماہ کی وضاحت کردی ہے جو تین طہروحیض کے ہی برابر ہیں۔ مدارس کے طلبہ اور علماء ومفتیان کتابوں میں بے سروپا اختلافات کی وجہ سے کھلی ہوئی آیات کا معنی ومفہوم سمجھنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔
جاہلیت میں شوہر کی زباں سے قسم نکل جاتی کہ عورت کے پاس نہ جائیگا تو عورت زندگی بھر بیٹھی رہتی کہ طلاق کا اظہار نہ ہوا۔ اللہ نے واضح کیا کہ لغو قسم سے اللہ نہیں پکڑتا بلکہ دل کی کمائی پر پکڑتاہے۔ 4ماہ تک باہمی صلح و رجوع کیا تو اللہ غفور رحیم ہے۔آیت میں عورت کا حق واضح ہے۔ شوہر طلاق کا اظہار نہ کرتا تو بیوی حق سے زندگی بھر محرومی رہتی ۔ آیت میں واضح ہے کہ مرد کو 4 ماہ تک صلح کی ڈھیل ہے اور عورت کو 4ماہ بعد طلاق کا اظہار نہ ہونے کے باوجود دوسری شادی کی اجازت ہے ۔بیوہ کی عدت 4ماہ 10 دن ہے۔ طلاق کا اظہار نہ کیا تو اظہارِطلاق سے 1ماہ زیادہ اور بیوہ سے 10 دن کم کی عدت کی کھلی وضاحت ہے۔فقہاء نے عورت کاحق نظر انداز کیا، حنفیوں کے نزدیک 4ماہ گزرتے ہی طلاق ہوگی اور جمہور کے نزدیک جبتک طلاق نہ دیگاعورت 4ماہ بعد بھی بیٹھی رہے گی۔ فضول اختلافات نے مسلم اُمہ کو ذہنی مفلوج کردیا ، سمجھدار طبقے کیلئے یہ کافی ہے کہ قرآن کا مدعا عورت کا حق کو محفوظ کرنا تھا، جیسے بیوہ کی 4ماہ10دن عدت ہے ، اگر شادی نہ کی تو موت کے بعد تختی لگے گی کہ زوجہ مفتی اعظم ۔۔۔اور قیامت کے دن بھی رشتہ قائم رہے گا یوم یفرالمرء من اخیہ وامہ وابیہ واصاحبتہ و بنیہ ’’ اس دن آدمی فرار ہوگااپنے بھائی ، باپ، اپنی ماں ،بیوی اور اولادسے‘‘۔ نبیﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ ’’اگر مجھ سے پہلے فوت ہوگئیں توخود غسل دونگا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کی میت کو آپکی ز وجہ نے غسل دیا اور حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کو غسل دیا،پھر میت کا غسل علماء کا کسبِ معاش بن گیا۔ اللہ نے واضح کیاکہ طلاق کا عزم تھا تو اسکا اظہار نہ کرنے پر پکڑ ہوگی اسلئے کہ ایک ماہ عدت میں اضافہ ہوا۔جس طرح عدت کے بعد بیوہ نے فیصلہ کرنا ہے کہ فوت شدہ شوہر سے اپنا تعلق بحال رکھے یا نئی شادی کرے۔ مگر فوتگی کے بعد مرد کے حق کو موضوع بحث بنایا گیا۔احمق علماء نے فوتگی پر طلاق واقع کردی ۔بہشتی زیور میں ہے کہ بیوی شوہر کو غسل دے سکتی ہے لیکن شوہر کپڑے کے بغیر چھو نہیں سکتا۔ روزنامہ جنگ میں مولانا سعید جلالپوریؒ نے لکھا کہ’’ ایک کے فوت ہونے پر دونوں اجنبی بنتے ہیں‘‘۔ اسی طرح ایلاء میں بھی عورت کے حق کو نہیں دیکھا۔ ایک طبقے نے کہا کہ مرد کا حق استعمال ہوا، عورت حرام ہوگئی ، دوسرے نے کہا کہ مرد کا حق استعمال نہیں ہوا،اظہار طلاق تک نکاح بحال رہیگا۔ حالانکہ عورت کا حق دیکھا جاتا تو اس اختلاف کی نوبت نہ آتی ۔ عورت کو چارماہ انتظار کے بعد یہ حق بھی پہنچتا کہ بیوہ کی طرح دوسری جگہ شادی کرلے اور اگر اسی شوہر سے 4ماہ گزرنے کے باوجود باہمی رضامندی سے رجوع پر راضی ہوتی تو بھی ناجائز نہ ہوتا۔1: عورت کاحق بحث سے خارج کیا، حالانکہ قرآن کا بنیادی مقصد عورت کے حق کو تحفظ دینا تھا، 2: روایتی ملا کے ذریعے نکاح پڑھانا پیشہ بن گیاجس کا قرآن وسنت میں وجود نہ تھا،3: حلالہ کے دلچسپ مفاد نے فقہاء کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں تھیں۔


و المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروءٍ ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ و الیوم الاٰخر و بعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحاً و لھن مثل الذین علیھن بالمعروف و للرجال علیھن درجۃ و اللہ عزیز حکیمO (البقرہ:228)

اور طلاق والی انتظار میں رکھیں خود اپنی جانوں کو تین قروء (طہر و حیض) تک اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو پیدا کیا ،اللہ نے انکے پیٹ میں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر، اور انکے خاوند حق رکھتے ہیں انکے لوٹانے کا اس مدت میں بشرطیکہ صلح کرنا چاہیں، اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا ان پر ہے معروف طریقہ سے۔ اور مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔(نبیﷺ حضرت ابن عمرؓ کو طلاق کی صورت کا یہ نقشہ سمجھایا)

triple-talaq-in-islam-halalah-surah-baqarah-maulana-muhammad-khan-sherani-syed-atiq-ur-rehman-gailani(4)

اظہار طلاق نہ ہوتو عورت 4ماہ اوراظہارِطلاق کے بعد3مرحلے یا3ماہ کی عدت کی پابندہے۔ شوہر کا یہ بڑا درجہ ہے کہ وہ طلاق دے اور عورت عدت کا انتظار کرے۔ عورت کی رضا اور صلح کے بغیر شوہر عدت میں بھی یکطرفہ رجوع نہیں کرسکتا، فقہاء نے عورت کا حق تلف کردیا اور شوہر کو غیرمشروط رجوع کاحق دیا ۔ اللہ نے وضاحت کی وان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما ’’اگردونوں کا ارادہ صلح کا ہو تو اللہ موافقت پیدا کردیگا‘‘۔اللہ نے باہمی رضاسے میاں بیوی کے درمیان نہ صرف صلح کا دروازہ کھلا رکھا بلکہ صلح کیلئے انتظار کا پابند بھی بنایا۔ اللہ نے واضح کیا کہ عورت پابند ہے اور عدت کے بعد دوسری شادی کرسکتی ہے ۔فقہاء نے عورت نہیں صرف شوہر کا حق ملحوظِ خاطر رکھا۔ چنانچہ لکھا کہ ’’ مسئلہ26: بچے کا اکثر حصہ باہرآچکاتو رجعت نہیں کرسکتامگر دوسرے سے نکاح اس وقت حلال ہوگا کہ پورا بچہ پیدا ہولے۔( ردالمختار، الطلاق ج 5ص193۔نعم الباری فی شرح صحیح البخاری، ج 10،ص766، علامہ غلام رسول سعیدی)۔ عورت کا بھی خیال رکھا جاتا تو اللہ کا حکم سمجھنے میں اتنی بڑی ٹھوکریں نہ کھاتے۔ جن الفاظ میں بیوہ کو عدت کی تکمیل کے بعد دوسری شادی کی اجازت ہے ،ان الفاظ میں باربار عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت ہے، مفتی تقی عثمانی نے ’’آسان ترجمہ‘‘ کے نام پر الفاظ کے ترجمہ میں تحریف کی ۔مولانا انورشاہ کشمیریؒ نے قرآن میں معنوی تحریف کا ذکرکیا۔ حضرت عمرؓ نے یکجائی تین طلاق نافذ کرنے کا حکم خواتین کے تحفظ کیلئے دیاتھا اگر ایک مرتبہ کی طلاق کے بعد جھگڑا ہوتا اور عورت صلح پررضامند نہ ہوتی تب بھی حضرت عمرؓ رجوع کی اجازت نہ دیتے۔دومرتبہ طلاق کا تعلق شوہر کے غیرمشروط اختیار سے نہیں اور اللہ نے بار بار رجوع کا تعلق عدت سے واضح کردیا ہے۔ کاش طلاق واقع ہونے کے ساتھ رجوع کی آیات پر بھی فطرت کے مطابق توجہ دی جاتی۔


triple-talaq-in-islam-halalah-surah-baqarah-maulana-muhammad-khan-sherani-syed-atiq-ur-rehman-gailani(3)

حیض میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کا عمل واضح ہے، حمل میں تین مراحل سے تین مرتبہ طلاق کا تعلق نہیں بن سکتا۔ حضرت ابن عمرؓ نے معاملہ نہیں سمجھا تو نبی ﷺ نے غضبناک ہوکر عدت و طلاق کایہ عمل اسی طرح سے سمجھایا۔ اس معاملہ میں غلطی کھانے والے پر غضبناک ہونا رحمۃ للعالمینﷺ کی سنت تھی ۔ علماء کا اختلاف تھا کہ طلاق قول ہے یا فعل؟۔ جنکے ہاں قول ہے ، انکے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق درست ہیں اور جنکے ہاں فعل ہے ،انکے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہیں ۔ (ہدایۃ المجتھد: علامہ ابن رشد قرطبیؒ )ہاتھ لگانے سے پہلے نکاح و طلاق قول ہے، ہاتھ لگانے کے بعدنکاح و طلاق فعل بن جاتاہے،قرآن وسنت اور فطرت کا مسئلہ واضح ہے مگر معروف اسلام کو منکر بنادیا گیا۔ میاں بیوی آپس میں راضی ہوں، گھر والے صلح کروائیں، دونوں طرف کا ایک ایک رشتہ دار صلح کروائے۔یہ فطری معروف طریقہ ہے۔ فقہاء نے منکررجوع ایجاد کرلیا،شافعی مسلک ہے کہ نیت نہ ہوتومباشرت بھی رجوع نہیں۔ حنفی مسلک ہے کہ’’ نیند میں شہوت کا ہاتھ لگے ، بیوی اورشوہر دونوں کی شہوت معتبر ہے‘‘۔ عورت کا حق صلح کی شرط منظور نہیں لیکن عورت کا نیند میں شہوت سے ہاتھ لگنا رجوع ہو تو اس مذاق پر غصہ ہونا چاہیے یا نہیں؟۔ صحابیؓ نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق ہے؟۔ نبیﷺ نے فرمایا تسریح باحسان تیسری طلاق ہے، کوئی مفتی سے پوچھتا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے تو مفتی کہتا کہ ’’تیری آنکھیں نکل جائیں، تجھے نظر نہیں آتا کہ فان طلقہا فلاتحل لہ کتنی واضح آیت ہے۔صحابہؓ کے واقعات میں حدیث صحیحہ واضح ہیں کہ وہ طہرو حیض کی عدت وطلاق کے مراحل کو ہی تسلسل کیساتھ تین مرتبہ طلاق کا عمل سمجھتے تھے۔ نبیﷺ پر حدیث گھڑنے پرشرم نہ آئی تو صحابہؓ اور ائمہ مجتہدین ؒ کی طرف جھوٹ منسوب نہ کیا ہوگا؟۔ ضعیف حدیث، اکابر واصاغرصحابہؓ ،ائمہ مجتہدینؒ اور فقہاءؒ و محدثینؒ کا اختلاف ہے کہ ایک طلاق پر شوہر کی دو طلاقیں ہمیشہ باقی ہیں، دوسرا شوہر طلاق دے تو پہلا شوہر سابقہ دو طلاق کا مالک ہوگا یا تین طلاق کا؟۔ جمہور کی رائے تھی کہ پہلا شوہر سابقہ دو طلاق کا مالک ہوگا، امام ابوحنیفہؒ کی رائے تھی کہ تین طلاق کا مالک ہوگا۔ جبکہ قرآن و حدیث میں واضح ہے کہ شوہر طلاق کی صورت میں عدت کا حقدار ہے۔ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں عدت کاحق نہیں۔ فقہ میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی تین طلاق پر مضحکہ خیز اختلافی مسائل ہیں کہ کونسی صورت میں درمیان کی یا صرف آخری طلاق واقع ہوگی۔ طلاق کی ملکیت دنیا کا پہلا عجوبہ ہے جس میں پہلا شوہر عورت کی دوسری شادی کے بعد بھی دو طلاق کا مالک ہے اور دوسرا شوہر دو طلاق دیکر رجوع کرلے تو پھر ایک طلاق کا مالک عورت کا حقدار اور پہلا شوہر دوطلاق کا مالک ہوکر بھی حقدار نہیں۔قرآن و حدیث میں طلاق وعدت لازم ملزوم ہیں، شوہر طلاق کی عدت کا حقدار ہے نہ کہ طلاق کی عجوبہ ملکیت کا۔ کوئی یہ پسند کریگا کہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی دو طلاقوں کا مالک کوئی اورہو اور شوہر ایک طلاق کا مالک بن کر کار گزاری کرے؟۔ یہ عجوبہ احسن طلاق کے نام پر گھڑا گیا۔ آیت 230 البقرہ سے پہلے دونوں میاں بیوی اور فیصلہ کرانیوالوں کی طرف سے باہوش وحواس عورت کی طرف سے مجبوری کی حالت پر فدیہ دینے میں دونوں پر کوئی حرج نہ ہونے کی وضاحت ہے۔ چونکہ مرد ایسی صورتحال پر بھی عورت کو مرضی سے جہاں چاہے شادی نہیں کرنے دیتا، اسلئے اللہ نے مرد کو حدود سے نکلنے کی اجازت نہ دی، عورت کو مرضی سے جہاں چاہے شادی کی اجازت دی۔حضرت ابن عباسؓنے فرمایا:’’ اس طلاق کا تعلق قرآن کے سیاق وسباق کے مطابق دومرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ میں عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورت سے ہے‘‘۔درسِ نظامی کی کتاب ’’نوراانوار‘‘ میں طلاق کی اس صورت کو حنفی مسلک کیمطابق فدیہ دینے سے وابستہ قرار دیا گیا، تفسیرکے امام علامہ زمحشریؒ نے اسی صورتحال پر زور دیا، مگرحلالہ کی لعنت کے مزے اڑانے والے اللہ کی حدود کو پامال کرنے میں اندھے ہوگئے۔


و اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروفٍ او سرحوھن بمعروفٍ ولا تمسکوھن ضرارً لتعدوا ومن یفعل ذٰلک فقد ظلم نفسہ ولا تتخذوا اٰیٰت اللہ ھزواً واذکروا نعمت اللہ علیکم وما انزل علیکم من الکتٰب و الحکمۃ یعظکم بہٖ و اتقوا اللہ واعلموا ان اللہ بکل شیءٍ علیم(البقرہ: آیت 231)

اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی پھر پہنچیں وہ اپنی عدت کو، تو انکو معروف طریقے سے روکو یا معروف طریقے سے چھوڑ و۔ اور نہ روکوانکو ستانے کیلئے تاکہ ان پر زیادتی کرو۔ اور جو ایسا کرے تو بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا اور مت بناؤ اللہ کے احکام کو مذاق اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو جو تم پر اس نے کی ہے۔ اور اسکو جو اتاری تم پر کتاب میں سے اور حکمت ۔ تم کو نصیحت کرتا ہے اللہ اسکے ذریعہ ، اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے

اللہ کوپتہ تھا کہ’’ اسلام کو گلی ڈنڈے کی طرح کھیلا جائیگا‘‘۔ نبی کریمﷺ نے اہل فارس کے ایک فرد کے ہاتھوں دین، ایمان اور علم کی پیش گوئی فرمائی کہ وہ واپس لے آئے گا۔(بخاری ومسلم ) سابقہ قوموں نے حلال وحرام کیلئے اپنے رہبان اور احبار کو ربوبیت کا درجہ دیا۔ یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلی۔ اللہ نے واضح کیا کہ صلح کے بغیر شوہر غیر مشروط رجوع نہیں کرسکتا، پھرتین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا عمل واضح کیا اور ایک خاص صورتحال میں میاں بیوی اور معاشرے کی طرف سے باہوش وحواس جدائی کے بعد شوہر کو پابند کیا کہ اس کیلئے حلال نہیں کہ ج تک عورت کسی سے نکاح نہ کرلے۔ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ اس صورتحال کو اپنے حدود وقیود میں ہی رکھتے مگر بدقسمت امت کے کم عقل اور مفاد پرست ٹولے کو دین کا اہم فریضہ سپرد ہواتوحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی کیلئے تمام حدود کو پار کردیاگیا۔ فقہ حنفی کے فقیہ علی الاطلاق علامہ ابن ہمامؒ نے خاندان بسانے کی نیت سے حلالہ کو کارِ ثواب دیا۔ عوام نے شرعی مسئلہ سمجھ کر خاندان بسانے کیلئے ناگوار غیر فطری عمل کو بھی قبولیت کا درجہ دیا۔ علامہ شاہ احمد نورانیؒ جیسے نے بھی بہتی گنگا کا فائد اٹھایا، اب تو اس نے بدترین کاروبار کی شکل اختیار کرلی ۔ پہلے میری نگاہ سے قرآن وسنت اوجھل تھے ، جب توجہ کی تو اپنی کم عقلی پر بھی بہت زیادہ تعجب ہوا۔
مندرجہ بالا آیت میں پھر وضاحت کی گئی کہ اگر بیوی طلاق نہیں چاہتی اور شوہر نے مرحلہ وار تین طلاقیں دیں اور پھر شوہر کو فتوے کی ضرورت پڑتی ہے کہ رجوع کرسکتاہے یا نہیں ؟۔ تو اللہ نے آیت میں واضح کردیا کہ رجوع یا چھوڑنے کا معروف طریقہ اپناؤ اور اسلئے مت روکے رکھو کہ اس کو ضرر پہنچاؤ۔ اللہ کی نعمتوں کو دیکھو! طلاق سے متعلق آیات، بیوی اور اپنی ذہنی صلاحیت حکمت سے کام لو۔عوام کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ قرآن میں طلاق سے متعلق اتنی واضح آیات کی نعمت کو نہیں دیکھتے، بیوی بچوں کی نعمت کا بھی خیال نہیں رکھتے اور ذہنی صلاحیت حکمت کی نعمت بھی بروئے کار نہیں لاتے۔ قرآن کی آیات کا صرف ترجمہ بھی کافی ہے۔ اگر فقہاء اختلافی پیچیدگیاں پیدا نہ کرتے تو ضمنی تشریحات لکھنے کی ضرورت قطعی طور پر نہ ہوتی۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی کو حکومت اور اپوزیشن کی اکثریت نے منتخب کیاہے ۔ یہ بہت بڑا انسانی المیہ ہے کہ قرآن وسنت اور جمہور کیخلاف حلالہ کے نام پر خواتین کی عزت تارتار کی جاتی ہے۔ سینٹ میں اس پر اجلاس بلایا جائے تو مسلم امہ کی جان ایک بہت بڑے عذاب سے بچ جائے گی۔پاک فوج کے کور کمانڈر کانفرنس میں بھی اس اہم مسئلہ پر گفتگو ہونا چاہیے، مسلم امہ کیساتھ زیادتی کو ایجنڈے میں شامل کیا جائے تو لوگوں میں شعور کی منزل تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوگی۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ بھی اس اہم ایشو پر علماء ومفتیان کا ایک اجلاس طلب کریں ، بے شعور لوگوں کی عزتیں لٹ جانا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی،جماعتِ اسلامی کو بھی اس اہم معاملہ سے تغافل برتنے پر معاملہ اٹھانا چاہیے۔ جمعیت علماء اسلام نے اگر اس کو قبول کرکے بین الاقوامی اجتماع سے عوامی مسائل کے حل کا آغاز کیا تو حکمرانوں کا دم چھلہ بننے کی ضرورت کبھی نہیں پڑے گی۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی نے اگر اس کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا تو ان کی عوامی مقبولیت میں بین الاقوامی اضافہ ہوگا۔ مساجد نے اپنایا تو ہدایت کی راہیں ہموار ہوجائیں گی۔


واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ذٰلک یوعظ بہٖ من کان منکم یؤمن باللہ و الیوم الاٰخر ذٰلکم ازکیٰ لکم و اطھر و اللہ یعلم و انتم لا تعلمون (البقرہ: آیت 232 )

اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی پھر پورا کرچکی اپنی عدت کو تو نہ روکو ان کو کہ ازدواجی تعلق قائم کریں اپنے خاوندوں سے جب راضی ہو ں آپس میں معروف طریقے سے یہ نصیحت اسکو کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے دن پر اور اس میں تمہارے لئے زیادہ پاکی اور زیادہ طہارت ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ (یا د رکھوکہ آیات میں معروف رجوع کی عدت کے حوالہ سے باربار مختلف الفاظ میں وضاحت کی گئی ہے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے)

سورۂ بقرہ کی آیت229میں خلع مراد نہیں بلکہ مخصوص صورتحال ہے ، اگرعدت کے مرحلوں میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ میں رجوع کرلیاتو مسئلہ نہیں رہا، لیکن اگر تیسرے مرحلے میں جدائی کا عزم قائم رہا تو پھر واضح ہے کہ ولایحل لکم ان تأخذوا ممااتیتموھن شےءًاالا ان یخافاان لایقیما حدوداللہ ’’ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جوکچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے‘‘۔ اس کا خلع سے کوئی تعلق نہیں۔ آیت میں اس مال کا ذکر ہے جو شوہر نے دیاہو ۔ ایک ایرانی نژاد امریکی خاتون نے اسلام کے حوالہ سے کتاب لکھی، جس میں یہ واقعہ بھی ہے کہ ’’شوہر نے40ہزار تمن (ایرانی کرنسی ) نکاح کا حق مہر دیا، وہ بیوی سے پشت کی جانب مباشرت کرتا تھا، عورت کی خواہش پوری نہ ہوتی تھی تو اس نے خلع کا مطالبہ کیا، چنانچہ 50ہزارتمن میں شوہر نے خلع دیا‘‘۔آیت میں عورت اور مرد کے علاوہ فیصلہ کرانے والوں کیلئے بھی وضاحت کی گئی کہ ان کو بھی خوف ہو کہ اسکے بغیر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ اگر مرد اور عورت جدائی اختیار کرلیں اورعورت دوسری شادی کرلے تو درمیان میں سابقہ شوہر کی ایسی چیز جس کی وجہ سے دونوں کا رابطہ ہو اور اس میل میلاپ کے ذریعے اللہ کے حدود کو پامال کرنے کا خدشہ ہو، تو وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیںیہ اللہ کے حدودکا مقدمہ ہے۔ جبکہ خلع کی وضاحت سورۂ النساء آیت19میں ہے، عورت کے زبردستی سے مالک نہ بن بیٹھو۔اسلئے ان کونہ روکو کہ جو تم نے دیا ہے اس میں سے بعض واپس لومگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں ۔۔۔‘‘۔ جسکے بعد مردوں کو بھی ایک بیوی کو چھوڑکر دوسری شادی کرنے کی آیت20النساء میں وضاحت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا آیت میں اس صورت کی وضاحت کردی کہ جب اقدام بیوی کی طرف سے ہو، طلاق لینے کی محرک وہی ہو تو بھی عدت کی تکمیل کے بعد کتنا عرصہ گزر جائے ، باہمی ازدواجی تعلق کی بحالی میں کوئی بھی کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالے، اسی میں معاشرے کیلئے تزکیہ اور طہارت کا ماحول ہے۔اللہ جانتاہے تم نہیں جانتے۔اللہ کے نام کوڈھال بناکر کتنے گھر تباہ کئے گئے؟، کتنے اپنا گھر بسانا چاہتے ہیں لیکن ایک باطل مذہبی ماحول ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جوان مذہبی طبقات پر اعتماد کرکے بلاوجہ عزتوں کو لٹوادیتے ہیں۔اگر مذہبی طبقات تصویر کے معاملہ میں اپنا رویہ بدل سکتے ہیں تو تین طلاق کے حوالہ سے مذہبی عقیدتمندوں کی عزتوں کو بھی بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ علامہ الیاس قادری اور حاجی عبدالوہاب کوجلد اعلان کرکے انقلاب برپا کرنا چاہیے تھا۔


triple-talaq-in-islam-halalah-surah-baqarah-maulana-muhammad-khan-sherani-syed-atiq-ur-rehman-gailani(1)

عربی میں طلاق کا لفظ عورت کو چھوڑنے کیلئے بھی آتاہے، نبیﷺ نے مکہ فتح کیا تو فرمایا: لاتثریب علیکم الیوم انتم طلقاء ’’ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں، تم آزاد ہو‘‘۔ ایک طلاق وہ ہے جو علماء نے عوام کے دل ودماغ میں بٹھا یاہے۔ طلاق کا یہ تصور جاہلانہ ہے ،قدرت کے کارخانے میں اسکی گنجائش نہیں ۔ فقہاء کی اس اختراع نے انسانی فطرت کی تمام ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کو ملیامیٹ کردیا۔ قرآن و سنت میں اس کی گنجائش نہیں ۔ اللہ نے بار بار اس ذہنیت کی کھلے الفاظ میں نفی کی ۔ کوئی عالم دین سورۂ طلاق کا سلیس ترجمہ نہیں کرسکتا۔ اللہ نے فرمایا کہ’’ اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو انکو انکی عدت کیلئے چھوڑ دو‘‘۔ پھر تفصیل ہے کہ عدت کو گن کر اسکے پورے وقت کا احاطہ کرلو۔( عدت کی گنتی سے عورت پر زیادتی نہ ہوگی)اور اس دوران انہیں انکے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ کسی کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں،ہوسکتا ہے کہ اسکے بعد اللہ کوئی نئی راہ کھول دے‘‘۔ دنیا کی کسی بھی زباں میں ترجمہ کیا جائے تو ہر شخص سورۂ طلاق کی آیات سے مکمل اتفاق کریگا۔
علماء کی موشگافیوں کی بدولت ناممکن ہے کہ سورۂ طلاق کا کوئی ترجمہ و مفہوم سمجھے ۔ علماء نے طلاق کو جدائی کا عمل نہ سمجھابلکہ عجیب ملکیت قرار دیا ۔ اللہ کہتاہے کہ عدت کیلئے طلاق دو، علماء کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ ازراہ تفنن بول رہاہے لیکن طلاق تو ملکیت ہے، وقت کیلئے طلاق نہیں دی جاسکتی ۔ طلاق کے الفاظ زبان سے نکلے تو اسکی ملکیت سے شوہر ہاتھ دھو بیٹھا۔ عدت کیلئے طلاق کا قرآنی تصور خوامخواہ کی خام خیالی ہے، حقیقت نہیں ۔ عورت کی عدت پاکی کے ایام نہیں بلکہ حیض ہے۔ اللہ نے فرمایا : طلقوھن لعدتھن ’’ انکو چھوڑ دو، انکی عدت کیلئے‘‘۔کیا حیض کیلئے چھوڑنا طلاق ہے؟۔ حیض میں تو ویسے بھی مقاربت منع ہے۔ علماء سے بات نہیں بنتی تو وضاحت کرتے ہیں کہ ایک عدت الرجال (یعنی مردوں کی عدت) ہے اور ایک عدت النساء ہے۔ حیض کے ایام عورتوں کی عدت ہے اور طہر کے ایام مردوں کی عدت ہے یعنی وہ زمانہ جس میں مرد طلاق دیتا ہے مگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا، اسلئے کہ اللہ نے عورتوں کی عدت کیلئے طلاق کی بات فرمائی ۔ جب علماء پر قرآن کی تفسیر کے حوالے سے زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوتی ہے تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی مانند شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے تفسیر عثمانی میں لکھ دیا کہ ’’ عورتوں کو حیض کیلئے طلاق دو،کے معنیٰ یہ ہیں کہ حیض سے ذرا پہلے طلاق دو‘‘۔
چلو! بالفرض مان لیا کہ حیض سے تھوڑا پہلے طلاق دو، پہلے طہر میں حیض سے پہلے پہلی طلاق، دوسرے طہر میں حیض سے پہلے دوسری ، تیسرے طہر میں حیض سے پہلے تیسری طلاق دیدی تو پھر اسکے نتائج کیا نکلیں گے؟۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی نے لکھا کہ ’’ ہوسکتا ہے کہ اللہ کوئی نیا حکم نازل کردے‘‘۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ اللہ نے نئے حکم نازل کرنے کیلئے عدت کیلئے طلاق کا حکم دیا؟۔ یا اسلئے کہ اللہ موافقت کی راہ ہموار کردے؟۔ عدت کے اندر تین مرتبہ طلاق کی تکمیل ہوگئی تو علماء کے نزدیک رجوع کا دروازہ بند ہے۔ جبکہ اللہ کھلے الفاظ میں یہ جھوٹ قرار دیتاہے۔ فرمایا: ’’ جب تم طلاق دے چکو اوران کی عدت مکمل ہوچکی تومعروف طریقہ سے رجوع کرلو یا معروف طریقے سے الگ کرلو‘‘۔ مسلمان حیران ہے کہ تین مراحل میں الگ الگ مرتبہ تین طلاقوں کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش اللہ نے رکھی ؟۔ تو یہ پہلی مرتبہ اللہ نے تھوڑا ہی فرمایا، قرآن کی آیات کو دیکھو! بار بار اللہ نے عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی وضاحت فرمائی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں نبیﷺ نے بھی سورۂ طلاق کی آیات کی وضاحت کو اس طرح سے کھل کر بیان فرمایا ہو۔ جواب یہ ہے کہ ہاں ، بالکل!، حضرت رکانہؓ کے والدؓ نے حضرت رکانہؓ کی والدہؓ کو اس طرح سے تین طلاق عدت کے دوران دی تھیں۔ پھر اس نے کسی اور خاتون سے شادی کرلی۔ دوسری خاتون نے شکایت کی یہ نامرد ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ رکانہؓ کے والد سے اس کا بچہ کتنا مشابہ ہے۔ پھر نبیﷺ نے اس عورت کو طلاق( چھوڑ نے) کا حکم دیا اور فرمایا کہ رکانہؓ کی ماں سے رجوع کرلو۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو اس کو تین طلاق دے چکا ۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور پھرآپﷺ نے سورۂ طلاق کی آیت تلاوت فرمائی ۔ ابوداؤد شریف۔ عورت کشتی جلاکر شوہر کے گھر میں داخل ہوتی ہے۔ گھر بار ، بچے اور شوہر اسکا سہارا اور آسرا ہوتے ہیں اسلئے اللہ نے عورت کا حق محفوظ کیا مگرمخاطب شوہر کو بنایا کہ اگر بیوی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو معروف طریقے سے چھوڑ دو، تمام حقوق و فرائض سے سبکدوش ہوجاؤ، اپنوں میں سے2عادل گواہ بھی مقرر کرلو۔ میاں بیوی اور بچوں کا گھر ایک ہی ہوتاہے۔ شوہر بیوی کو چھوڑ کر دوسری سے شادی کرنا چاہتاہے تو جو کچھ بھی بیوی کو دیا ہو، چاہے بڑے خزانے ہوں ، کوئی چیز بھی واپس نہیں لے سکتا۔ دس بچے جنواکرسسرال بھیجنا کس قانون کے تحت جائز ہوسکتا ہے؟۔ بطورِ مثال ایک شخص کے پانچ ، دس بچے ہیں اور اس نے سورۂ طلاق کی ہدایات کے عین مطابق مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دی ۔ عدت کے خاتمے کے بعد اپنے فیصلے پر قائم ہے۔ دو عادل گواہ مقرر کرکے حتمی فیصلہ کرلیا۔ وہ گھر بچوں اور سابقہ بیوی کیلئے چھوڑ دیا۔ عادل گواہوں کا یہ فائدہ ہوگا کہ شوہر نا انصافی نہیں کریگا ، اس عورت سے کوئی نکاح کرسکے گا ، عدت کی تکمیل کے بعد پہلے شوہر سے فارغ ہوگئی ۔ اگر طلاق کا معاملہ واضح نہ رہا تو انواع واقسام کی افواہیں اور خبریں گردش کرتی پھریں گی۔نکاح سے زیادہ طلاق کی عدت کی تکمیل پر گواہ کا تقرر اسلئے قرآن میں بالکل واضح ہے۔
سورۂ طلاق کی وضاحت کے مطابق دو عادل گواہ بنانے کے بعد اگر پھر بھی دنیا اور مولوی سے ڈرنے کے بجائے انسان اللہ سے ڈرا تو اس کیلئے رجوع کی راہ ہموار کردیگا۔ سورۂ طلاق کی وضاحت کو بار بار دیکھ لیجئے۔ ایک اہم معاشرتی مسئلہ یہ ہے کہ عورت طلاق کے بعد بیٹھی ہو ۔ شوہر طاقتور ہو تو عورت مرضی سے نکاح نہیں کرسکتی، شوہر کے حلقہ احباب میں نکاح کی شوہر اجازت نہیں دیتا۔ عمران خان زیادہ غیرتمند نہیں مگرریحام خان نے کہا کہ ’’ مجھے پاکستان آنے پر مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں، میں پٹھان ہوں ، جان پر کھیلنا آتاہے‘‘۔ شہزادہ چارلس نے ڈیانا کو طلاق دینے کے بعد دوسرے سے تعلق برداشت نہ کیا اور قتل کروادیا جس کا کیس برطانوی عدالت میں بھی چلاہے۔ اس انسانی فطرت کو اللہ نے مدنظر رکھ کر فرمایا کہ ’’ اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ چونکہ شوہر طلاق کے بعد بھی عورت کواپنی مرضی سے جہاں چاہے شادی نہیں کرنے دیتا، اسلئے اللہ نے طلاق کے بعد عورت کی مرضی ایسی واضح کردی کہ شوہر کو واضح الفاظ میں روک دیا، تاکہ اسکی غیرت اس معاملے میں رکاوٹ نہ بنے۔اللہ نے فرمایاکہ’’ نبیﷺ کی وفات کے بعد بھی ازواجؓ سے نکاح نہ کرو، اس سے آپﷺ کو اذیت ہوتی ہے‘‘۔ سعد بن عبادہؓ بھی طلاق کے بعد عورت کو کہیں شادی نہ کرنے دیتا تھا۔ہمارا ایک مزارع تھا، خان بادشاہ بنوچی،اس کے بیٹے کریم نے بیوی کو تین طلاق دیدی ، پھر پڑوس کے گاؤں میں مسجد کے امام سے حلالہ کروانے کیلئے عورت کو حوالے کیا، اس عورت نے کہا کہ مجھے دوبارہ پہلے شوہر کریم کے پاس نہیں جانا، مسجد کے امام سے خوش ہوں، چار ماہ تک پھڈہ چلتا رہا۔ اس کے بعد کریم اور اسکے رشتہ داروں نے اس امام کی بھی خوب پٹائی لگادی،پسلی وغیرہ توڑ دی اور اس عورت کو بھی چھین کرلے آئے۔ قرآن کا مقصدحلالہ ہرگز نہ تھا لیکن افسوس کہ بے شرم مخلوق حلالے کروادیتے ہیں مگر عورت کو طلاق کے بعد مستقل شادی کی اجازت نہیں دیتے ۔
فقہی اصول ہے ’’ قرآن سے حدیث متصادم ہوتورد ہوگی حتی تنکح زوجا غیرہ میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت ہے۔ لڑکی گھر سے بھاگ کرشادی کرے تو حدیث ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر اسکا نکاح باطل ہے مگرحنفی کے نزدیک یہ قرآن سے متصاد م ہے‘‘۔اصول الشاشی ولی طلاق شدہ نہیں کنواری کا ہوتا ہے، حدیث ہوتی کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ، تب بھی اللہ کی طرف سے بھر پور وضاحتوں کی آیات کے بعد رجوع کا دروازہ بند نہیں ہوسکتا تھا۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟
خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟
بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں