پوسٹ تلاش کریں

وزیرستان میں غیرفعال و غیر حاضر اساتذہ پر”ماوا” خاموش کیوں؟

وزیرستان میں غیرفعال و غیر حاضر اساتذہ پر”ماوا” خاموش کیوں؟ اخبار: نوشتہ دیوار

Waziristan, Corruption in Education, Education Policy in Pakistan, Mawa, Latest news about Education in Pakistan

وزیرستان میںغیرفعال و غیر حاضر اساتذہ پر”ماوا” خاموش کیوں؟
آزاد صحافت: تحریر شفقت علی محسود

نوٹ: کالم کے آخر میں نوشتہ دیوار کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ وہ جنہوں نے تعلیم پر توجہ دی وقت نے انہیں کامیاب کر کے دکھایا۔

تعلیم انسان کو شعور مہیا کرتی ہے ”شور” اور ”شعور” میں ”ع” حرف کا فرق ”علم”ہے۔

وزیرستان میں تعلیم کے حوالے سے سرکاری حکام کو دردِ دل کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے۔

(1:) تعلیم۔کی اہمت اور ماحول کا اثر:
تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ ممالک، شہر، قوم یا افراد جنہوں نے تعلیم پر توجہ دی وقت نے انہیں کامیاب کر کے دکھایا۔ تعلیم انسان کو شعور مہیا کرتی ہے اور ”شور” اور ”شعور” میں ”ع” حرف کا فرق ”علم”ہے۔اگر چہ تعلیم کے بعد انسان پر آسمان سے زر و دولت کی بوریا یا نوٹوں کے لفافے نہیں اترتے بلکہ علم سے حاصل شعور سے انسان دنیا کے خزانوں، مال و دولت، اور انسانی ذہن پر حکمرانی کا شرف حاصل کر لیتا ہے۔انسان پر ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے جو ماحول میسر ہوگا اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ ایک خانہ بدوش بچہ باقی دنیا سے کٹ کر صرف بھیڑ، بکریوں اور اپنے خیمے کی بات کریگا کیونکہ اسکے ماحول میں یہی چیزیں گردش کر تی ہیں ۔ اسی طرح اگر کسی تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانے کے بچے کو دیکھا جائے تو اسکے بول چال، عادات و اطوار گلی میں آوارہ بچے سے بالکل ہی مختلف ہونگی۔ یہ سب ماحول کی وجہ سے ہے۔نقل مکانی کے بعد وزیرستان کے لوگوں نے مختلف علاقوں میں رہائش کے دوران ماحول کا اثر لیتے ہوئے اپنے بچوں کو مختلف سکول اور مدرسوں میں داخل کرانا شروع کر دیا ہے۔
(2:)آپریشن کے بعد وزیرستان کا تعلیمی پس منظر اور رکاوٹیں:
میری تحریر کا مقصد وزیرستان کے موجودہ تعلیمی صورت حال پر روشنی ڈالنا ہے تو میں بات فوجی آپریشن کے بعد کے وزیرستان سے شروع کرنا چاہونگا۔فوجی آپریشن کے بعد اپنے آبائی علاقے میں واپسی شروع ہونے پر لوگ پاکستان کے دور دراز شہروں سے خاندان سمیت واپس وزیرستان میں آباد ہونا شروع ہوگئے ۔ جب دیکھا تو مکان، دکان، ہسپتال اور سکول مکمل طور پر منہدم ہو گئے تھے۔وزیرستان کا تعلیمی نظام مکمل طور پر غیر فعال تھا اب وزیرستان کو آباد کرنے کیلئے نئے سرے سے تعمیرات شروع کی گئیں ۔اکثر منہدم سکولوں کو دوبارہ تعمیر کر نے کا کام شروع کیا گیا اور جو سکول بچ چکے تھے وہ غیر فعال تھے۔پھر وقت کیساتھ ساتھ ان سکولوں کو فعال کرنا شروع کیا گیا۔پہلے سے موجود اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں تعلیم کی بہتری کیلئے ایجوکیشن مانیٹرنگ یونٹ بنائے گئے، نئے اساتذہ کو بھی بھرتی کیا گیا۔ خواندہ وزیرستان کے مقصد کیلئے مختلف ویلفئر بنائی گئیں۔ موجودہ تعلیمی سفر میں دو بڑے مسائل ہیں ۔غیر فعال سکول اور غیر حاضر اساتذہ ۔تعلیم یافتہ وزیرستان کے خواب کی تکمیل کیلئے ضروری تھا کہ موجودہ اساتذہ پوری ذمہ داری کیساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے لیکن ایسا نہیں ہو پا رہا ۔ اسکی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ فوجی آپریشن کے بعد اساتذہ کی تنخواہیں بدستور جاری رہیں اور (9) یا (10)سالوں تک بغیر ڈیوٹی انجام دئیے تنخواہیں وصول کرتے رہے تو شاید اس نے ان کو مفت خوری کا عادی بنا دیا ہو ۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپریشن کے دوران اساتذہ مختلف کاروبار پراپرٹی، ڈسپنسری، دکان اور زمیندارہ وغیرہ شروع کر چکے تھے اب بھلا انکو چھوڑ کر تنخواہ پر گزارہ کرنا آسان نہ تھا۔ دوسرا بڑا مسئلہ غیر فعال سکول ہیں۔یہ سکول فوجی آپریشن سے پہلے فعال تھے لیکن آپریشن کے بعد ان میں سے بعض کی عمارت منہدم ہونے کے بعد آج تک بنی نہیں یا عمارت تو موجود ہے لیکن ابھی تک سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئیں۔یا یہ وہ سکول ہو سکتے ہیں جنکو مالکان، مشران اور علاقے کے بااثر لوگوں نے ان کو بطور مہمان خانہ اور بیٹھک بنائے ہوئے ہیں ۔سکولوں کی دوبارہ بحالی اور اساتذہ کو سکولوں میں ڈیوٹی انجام دینے کیلئے مختلف علاقوں کے نوجوان اپنی جدو جہد کرتے رہے اور آئی ایم یو (IMU)تک اپنی فریاد پہنچاتے رہے مگر کچھ دنوں کی حاضری کے بعد پھر وہی غیر حاضری ۔یہ اساتذہ مختلف بہانے بنا کر ان نوجوانوں کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے کبھی علاقائی امن کا بہانہ بنا کر اپنے آپکو کو غیر محفوظ کہتے تو کبھی رہائش و سہولیات کی عدم دستیابی کا بہانہ کر کے خود کو بے قصور کہتے ۔لیکن ان اساتذہ کی غیر حاضری کسی بڑے سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں۔
(3:) ماوا کی غیر فعال سکولوں اور غیر حاضر اساتذہ پر خاموشی کیوں؟؟
ماوا کا قیام وزیرستان میں تعلیم کے فروغ اور خواندہ وزیرستان کے نعرے سے ہوا اور لوگوں نے بھر پور انداز میں خیرمقدم کیا۔ماوا وزیرستان میں تعلیمی فروغ کیلئے ایجوکیشن سٹی کا قیام عمل میں لایا اور توقع کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں اس سے کافی فوائد وابستہ ہیں،ماوا نے کچھ سکولوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا جس میں بچوں کو تعلیم فراہم کی جا رہی ہے ۔ اسکے ساتھ مختلف علاقوں کے غریب بچوں کو پاکستان کے مختلف سکولوں میں فری تعلیم دلوانے اور پہلے سے داخل شدہ بچوں کے اخراجات بھی ماوا برداشت کر رہا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ماوا خواندہ وزیرستان کے خواب کو پورا کرنے کیلئے نیا سیٹ اپ لانا چاہتا ہے ؟کیا ایجوکیشن سٹی اور دوسرے طرز کے سکول بنا کر پورے وزیرستان میں پھیلانا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اس سیٹ اپ کو پھیلانے میں وقت لگے گا، پانچ (5) سال کے بچے کو اگر آج ہی قلم کتاب نہ تھمائی گئی تو پانچ (5) سال کے بعد یہی بچہ کہیں پر مزدوری ، کلینڈری کرتا نظر آئیگا۔ ہماری وہاں مقیم ایک اور نسل جہالت کے اندھیرے میں ڈوب جائیگی۔چونکہ ہر علاقے میں سکول پہلے ہیں۔ ان سکولوں کا سٹاف بھی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں ہے۔ ان سکولوں کو فعال کرنے اور ان میں معیاری تعلیم کی کوشش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔اگر ماوا واقعی خواندہ وزیرستان دیکھنا چاہتا ہے تو پھر وزیرستان کے ہر علاقہ کے سکول کو فعال ، غیر حاضر اساتذہ کو ڈیوٹی انجام دینے کیلئے کوشش کرنی ہوگی ۔سرا روغہ گرلز مڈل سکول کے متعلق خبر چلی کہ سکول عرصہ سے بند ہے، آٹھ (8)فیمیل ٹیچرز کافی عرصہ سے غائب ہیں۔ کیا ضروری نہیں کہ اس طرف توجہ دی جائے۔ اکثر سکول غیر فعال ہیں یا اساتذہ غیر حاضر ہیں ۔کیا ماوا نے ان کی فعالی اور اساتذہ کی حاضری کیلئے آواز اٹھائی ہے اگر نہیں تو کیوں؟۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ متعدد سکول ماوا سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں یا انکے جان پہچان والوں کے زیر کنٹرول ہیں اور ان پر ڈیوٹی دینے والے اساتذہ انکے رشتہ دار ہیں؟۔وادی بدر کے غیر حاضر اساتذہ اور بند سکولوں کی بحالی کیلئے آواز اٹھائی گئی تو پہلے مختلف طریقوں سے ان نوجوانوں کو چپ کرانے کی کوشش کی لیکن جب نوجوانوں نے ایک نہ مانی اور مختلف ویڈیو رپورٹ سوشل میڈیا کمپیئن کے ذریعے انکے خلاف ڈٹے رہے تو ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران آئے اور علاقے کے مشران اور نوجوانوں کو دھمکیاں دیں کہ کیوں انہوں نے غیر حاضر اساتذہ کے خلاف ویڈیوز رپورٹ بنائیں۔اس واقعہ کی تفصیل مشران کی زبانی ایک ویڈیو میں موجود ہیں۔کیا ماوا اس سارے واقعہ سے با خبر ہے۔ اگر ہاں تو خاموشی کیسی؟ ۔اور اگر نہیں تو کیا خواندہ وزیرستان کا نعرہ صرف بروند اور مولے خان سرائے تک محدود ہے؟ ماوا کے ذمہ داروں کو لوگوں کے تحفظات دور کرنے ہونگے، اعتماد میں لینا ہوگا لیکن اگر ان کو نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں یہ تحفظات پوری جماعت کی ہونگی ،تب مطمئن کرنے میں کافی دیر ہو چکی ہوگی۔
جوابی تبصرہ : نور ولی محسود
محسود ویلفئیر ایسوسی ایشن اپنی بساط و دائرہ کار کے تحت مسئلے کو شروع دن سے ڈیل کررہی ہے۔ ماوا مشران نے ہر فورم پر اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ جب بھی متعلقہ محکموں کیساتھ بیٹھک ہوئی ہے، اس مسئلے کی جانب توجہ ضرور دلائی ہے۔ ابھی(5)مئی (2021) کو بھی ماوا کے مشران پر مشتمل ایک اعلی سطحی وفد نے سیکریٹری ایجوکیشن اور سیکریٹری ہیلتھ کے پی کے (KPK) کیساتھ خصوصی ملاقاتیں کیں۔ مقصد انہیں علاقے میں موجود غیر فعال تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کی نشاندہی اور ان کو از سر نو فعال کرنے کی جانب توجہ دلانا تھا۔ اگلی نشستیں عید کے بعد ہونگی۔
تبصرہ : ماہنامہ نوشتۂ دیوار کراچی
وزیرستان کی محسود قوم میں دونوں افراد کے جذبات کا مختصر خلاصہ پیش کردیا ہے۔ وزیروں نے اپنی ایک فلاحی تنظیم کے ذریعے سے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کا اہتمام کررکھا تھا اور یہ جذبات محسود قوم میں بھی جاگ اُٹھے ہیں۔ فوجی آپریشن سے پہلے بھی مسائل کا سامنا قبائل کے تعلیمی نظام کو تھا۔ البتہ فوجی آپریشن سے پہلے طالبان کی دہشت گردی اور پھر فوجی آپریشن کے بعد تعلیمی نظام کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ شفقت علی محسود نے بھی ایک تنظیم کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے اور اچھی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے۔ نور ولی محسود نے بھی معقول جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ بندوق اور بارود کی جگہ تعلیم اور شعور کی طرف متوجہ ہوں تو بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔
اسلام کی آفاقی تعلیم پر کامریڈ اور طالبان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ شعورکو اُجاگر نہ کیا گیا تو جاہلیت کا اندھیرا ماردے گا۔ علم کیساتھ نظام کا درست ہونا ضروری ہے ۔ یہ شعور کا خلاصہ ہے۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا
اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے