پوسٹ تلاش کریں

نوشتۂ دیوار کی طرف سے جوابی بیانیہ

نوشتۂ دیوار کی طرف سے جوابی بیانیہ اخبار: نوشتہ دیوار

ye-jo-dehshat-gardi-he-is-ky-piche-wardi-he-40-fcr-mehsood-slogan-waziristan-allama-iqbal-nato-mujahideen-iblees-russia

ڈبل مائنڈ یادوہری ذہنیت سے جو منافقانہ کردار پاک فوج نے ادا کیاوہی حالت محسوداور پختون کی تھی۔ ورنہ اتنی ذلت، خواری، مصیبت اور مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ منظور پاشتین اپنی قوم کو استعمال ہونے کے حوالہ سے جو رعایت دیتا ہے وہی رعایت وہ فوج کو بھی دے۔ یہ کسی بے ضمیر سیاستدان اور جعلی ادا کار کی بات نہیں کہ ’’ایسا نہیں چلے گا‘‘ بلکہ حق کیلئے ہر قسم کی قربانیوں کی تاریخ کرنیوالوں کا مدعا ہے۔ ہم منظور پاشتین کی بہادری، صلاحیت اورجوانمردی کو تہہ دل سے سلام پیش کرتے ہیں، انکے اردگرد لوگ مخلص اور قوم کا درد رکھتے ہیں۔ ایک ایسی قیادت کی پختون بلکہ پاکستان، مسلمانوں اورانسانیت کو ضرورت ہے جو حق اور انسانیت کیلئے ہر ظالم ، جابر، ڈکٹیٹر اور وحشی جانوروں کیخلاف آواز اٹھائے۔ ہمارا معاشرہ جانوروں سے بدتر ہوچکا ہے ۔ بچیوں سے زیادتی کرکے انتہائی بے دردی کیساتھ ماردیا جائے تو مشرکین مکہ کی جاہلیت ہم پر لعنت بھیجتی ہوگی ۔ کیا اسکے پیچھے بھی کوئی وردی ہے؟۔ ایک وقت تھا کہ کہا جاتا تھا کہ ’’سمندر میں دومچھلی بھی لڑ پڑیں تو امریکہ اس میں ملوث ہوگا‘‘۔ مذہب کے نام پر تعصبات پھیلانے میں اس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہ تھا مگر لسانیت ، قومیت اور وطن کے نام پر تعصبات کے پیچھے روس اور کمیونزم کا ہاتھ ہوتا تھا۔ شیطان نے دیکھ لیا کہ مذہب کے نام پر ہتھیار وں کا سکہ اب چلنے والا نہیں تو قوم پرستی کا بیانیہ شروع کردیاہے ۔ علامہ اقبالؒ نے ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان پر ان حقائق کو لکھا تھا کہ ’’الحذر آئین پیغمبر سے سوبار الحذر ۔ حافظ ناموس زن، مرد آزما ، مرد آفرین ‘‘ابلیس نے کہا : ’’ مزدوکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے‘‘۔ وہ اسلام نہیں جو امریکہ نے جہاد کے نام پر روس کیخلاف استعمال کیا اور جو’’سودی نظام کو مشرف بہ اسلام کیا جارہاہے‘‘ وہ اسلام بھی نہیں جو نیٹو کی آغوش میں مجاہدین ہیں۔پاک فوج نے اگران کو آج کھلی چھوٹ دی تو منظور پاشتین ریلے سمیت یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں میں چھپتے پھرینگے۔ جنونی تو افغانستان میں امریکہ کی حکمت عملی سے بیٹھے ہیں۔ سرغنہ گلبدین حکمتیار امریکہ کی گود میں بیٹھ گیا ۔ جس کی بہادری پر حلف اٹھایا جاتا تھا۔ الزام اورتہمت کا بازار ختم کرکے سنجیدہ کوشش سے پختون پوری دنیا کو امن دے سکتی ہے۔ پاک فوج کی طرح محسودقوم نے بھی بڑا مغالطہ کھایا اور آزمائش کی چکی میں پس کر صلح حدیبیہ کے شرائط ماننے کیلئے آمادہ ہوگئے ۔ یہ پتہ نہیں کہ منظور پاشتین فوج کیخلاف ہے یا اسکے پیچھے بھی وردی ہے؟۔ کیونکہ فوج سے لڑنیوالے طالبان کے پیچھے وردی تھی تو آواز اٹھانے والے پر بھروسہ کرنا مشکل ہے،البتہ یہ حقیقت ہے کہ منظورپشتین نے فوج کی خامی پر ایسے وقت میں آواز اٹھائی جب سب نے مظلوم عوام کو نظر انداز کیاتھا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ عمران خان جنکے خلاف بات کرتا ہے انکے خلاف ہجڑہ بولنے کی جرأت رکھتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ریاست پر مشکل گھڑی آگئی تو یہ ہتھیار ڈالنے والوں کا ساتھی ہوگا۔ پرویز خٹک نے نشہ کرکے پنجاب کی پولیس کا رات بھر سامنا کیا اور عمران خان نے نشہ کرکے بھی بنی گالہ کے گھر سے نیچے اترنے کی جرأت نہیں کی ۔ حالانکہ شیخ رشید نے بڑی دھائی دی مگر مسلم لیگی کی گیدڑ بھبکی سے عمران خان ڈر گیا ۔ منظور پاشتین کا مطالبہ ہے کہ پاکستان کے دستور کے عین مطابق ہمیں انصاف دیا جائے۔ دلیل سے زمینی حقائق کو سمجھ کر بات کرنی ہوگی۔
پاکستان کے سیٹل ایریا میں عدالتی قوانین انگریز نے زبردستی سے عوام اور اداروں پر مسلط کئے تھے۔ گرمیوں میں کورٹ کی بچوں کی طرح چھٹیاں بڑی مثال ہیں جبکہ آزاد قبائل نے 40FCR اپنی مرضی سے قبول کیا تھا۔قبائلی قانون کے تحت عتیق گیلانی نے 1991ء میں جیل کاٹی تھی ۔ پھر عتیق گیلانی کے گھر پر حملہ ہوا تو طالبان نے کانیگرم جنوبی وزیرستان کے جرگہ میں کہا کہ ’’13 افراد ہم نے شہید کئے ہیں، 2 افراد ہمارے مارے گئے ۔11افراد کا حساب رہتا ہے تو 11افراد ہم چن کر دینگے تم ان کوبدلہ میں ماردینا‘‘۔محسود طالبان پشتو اور اسلامی قانون دونوں کی بنیاد پر یہ عدالت لگائے بیٹھے تھے۔
جب جنگ ہوتی ہے تو میدانِ جنگ میں عدالت نہیں لگائی جاتی ہے البتہ جنگ بندی کے بعد فیصلے ہوتے ہیں۔ قرآن میں ایک قانون یہ ہے کہ مجرم کو سزا دی جائیگی اور مجرم کے بدلے میں کسی اور کو قتل نہ کیا جائیگا۔ دوسرا یہ ہے کہ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام ، مرد کے بدلے مرد، عورت کے بدلے عورت کو قتل کیا جائیگا۔ قبائل میں قرآن کا دوسرا قانون نافذ تھا اور اگر یہ قانون نہ ہوتا تو لوگ بیکار افراد سے دوسروں کے اچھے قتل کرواتے اور بدلہ کیلئے اس کو حاضر کردیتے۔ قبائل میں اسی لئے امن بھی قائم تھااور بھول کر بھی حتی الامکان قتل سے پرہیز کیا جاتا تھا۔ ٹانک اورمیرانشاہ وغیرہ میں تبلیغی اجتماع ہوتا تھا تو طالبان جنگ بندی کا اعلان کردیتے اور پھر سرکاری عمارات، بازاروں ، گھروں اور مساجد ومدارس کو خودکش دھماکوں سے نشانہ بناتے تھے۔ بچے ، خواتین، بزرگوں اور کسی بھی طبقے کا کوئی لحاظ نہ کرتے۔ ایسے ہتھیار ابھی ایجاد نہیں ہوئے کہ مجرم نشانہ بن جائے اور بے گناہ افراد کو بچایا جاسکے۔جب بہادر فوجیں میدان میں اتر کر لڑاکرتی تھیں تو اس وقت عوام کو بچانا ممکن ہوتا تھا۔ جب گھروں میں گھسے ہوئے دہشتگرد عوام کو نشانہ بناکر چھپ جائیں تو فوجی کاروائیوں پر عدالتیں نہیں لگا کرتی ہیں۔

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

اسی بارے میں

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے
حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے
ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟