پوسٹ تلاش کریں

پاکستان پوری دنیا کی طاقت کا مرکز بننے جارہا ہے اس کی 5بنیادی وجوہات ہیں جس کا انکار ممکن نہیں

پاکستان پوری دنیا کی طاقت کا مرکز بننے جارہا ہے اس کی 5بنیادی وجوہات ہیں جس کا انکار ممکن نہیں اخبار: نوشتہ دیوار

نمبر1:

قرآن کے واضح آیات محکمات کودنیا نے عملی جامہ پہنایا ہے لیکن مسلمان مذاہب کی تقلید کی وجہ سے یہودونصاریٰ کے نقش قدم پر خود اس سے محروم ہیں۔ میاں بیوی میں صلح کیلئے حلالہ کی لعنت کھڑی کرنا اور عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت دینا جاہلیت اولیٰ کی زندہ شکل ہے۔

نمبر2:

پاکستان میں جتنی مذہبی اور جمہوری آزادی ہے اور اس کا استعمال غلط طریقے سے ہورہاہے لیکن یوٹیوب، فیس بک، واٹسپ اور جدید ترین میڈیا پر حق کی اشاعت کے بعد باطل کا ٹھہرنا ممکن نہیں ہے۔ موجودہ ریاستی، عدالتی، سیاسی اور مذہبی نظام سے لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کے قریب ہیں۔

نمبر3:

پہلے دولت کی سب سے بڑی بنیاد تیل تھی جس نے جاہل عربوں کو دولتمند بنادیا اور اب معدنی ذخائر ہیں۔ گاڑیوں، جہازوں اور خلائی شٹل سے لیکر دنیا کی ہر چیز کیلئے معدنی ذخائر بنیاد ہوگی جس میں الیکٹریکل توانائی سٹور بالفاظِ دیگر چارج ہونیکی صلاحیت پر ہوگی اور پاکستان اصل بنیاد ہے۔

نمبر4:

براعظم ایشیا اور یورپ کو تیز رفتار ٹرینوں کے ذریعے سستا ترین تجارتی سامان اور سفری سہولت کیلئے ملایا جائے گا۔ جس کیلئے واسکو ڈیگاما نے مشکلات برداشت کیں اور اسی میں امریکہ بھی دریافت ہوا تھا۔ آج ہندوستان پر قابض ظالم قوتیں پرتگال،فرانس اور برطانیہ سمٹ کر محدود ہوگئی ہیں۔

نمبر5:

دریائے سندھ کا قدرتی بہاؤ پاکستان اور ہندوستان کیلئے سب سے بڑی دولت ہیں۔ جن سے برصغیر پاک وہند دنیا میں جنت نظیر بن جائے گا۔ عراق میں دریائے دجلہ و فرات سوکھ گئے ہیں اگر برصغیر پاک و ہند کو ان مشکلات کا سامنا ہوا تو پھر یہاں کی آبادیاں ویرانیوں میں بدل جائیں گی۔

عرب کے خلیجی ممالک یمن، عرب امارات، عمان، کویت، قطر اور بحرین مقبوضہ برطانوی ہند کا حصہ تھے جن کو خفیہ انداز میں انتظامی اعتبار سے آزادی ہندسے تین ماہ قبل پردے میںالگ کردیا گیا تاکہ تیل اور سمندری راستوں پر قبضہ برقرار رکھاجائے اسلئے 1971ء میں خلیج سے برطانیہ نکلاتھا۔

جمہوریت اور مقبولیت میں فرق

رسول اللہ ۖنے اپنے چند صحابہ کرام سے جس تحریک کا آغازکیا تو اکثریت مخالف تھی لیکن پھر ایسی مقبولیت مل گئی کہ اپنے دور کی دونوں سپرطاقتیں روم اور فارس اس قبولیت کے آگے سر نگوں ہوگئی تھیں۔

فرمایا: وان تطع من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ان یتبعون الا الظن وان ھم یخرصون (انعام :116)

” اور اگر آپ نے اطاعت کی جو زمین میں اکثر ہیں تو اللہ کی راہ سے تجھے گمراہ کردیںگے۔وہ گمان پر چلتے ہیں اور چالیں چلتے ہیں”۔

لوگ حق اور باطل کو نہیں دیکھتے بلکہ جہاں اکثریت دیکھتے ہیں تو اس کی وکالت شروع کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ ان کو لیڈر سمجھ لیتے ہیں اور پیچھے چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پختونخواہ کے حالات بہت خراب ہیں لیکن پنجاب کا موازنہ کیا جائے تووہ اس سے بھی بدتر ہیں۔ جہاں روزانہ کے اعتبارسے انتہائی ظالمانہ واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اس طرح بلوچستان کے حالات واقعی خراب ہیں لیکن سندھ کے حالات بلوچستان سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ چلو دوصوبوں میں جنگ کی حالت ہے لیکن باقی دو صوبوں میں پھر کیا ہے؟۔ ہم نے اپنے گھر، محلہ، گاؤں، شہر ، تھانہ ، تحصیل ، ضلع اور ڈویژن کی سطح سے ملک ، خطے اور بین الاقوامی حالات کو ٹھیک کرنے کا تہیہ کرنا ہوگا۔ پھر حالات بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔قرآن وسنت مسائل الجھانے کیلئے نہیںسلجھانے کیلئے تھے۔ واضح آیات کو معروف تعمیر کی جگہ منکر تخریب بنانے والے شرم کریں۔

رسول اللہ ۖ سے ایک اعرابی نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ عرب اپنے آباء واجداد کے دین کو چھوڑ دیں گے اور آپکا دین قبول کرینگے؟ اور یہ بات بالکل سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ کے کمزور ساتھی فارس وروم کو شکست دے دیں گے۔یہ کوئی ماننے والی بات ہے؟ اور آپ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد قیامت کے دن سب زندہ ہوں گے تو آج تک کبھی کوئی زندہ ہواہے؟۔ میری سمجھ میںیہ کیسے آسکتا ہے؟۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ ”پہلی دو چیزیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے۔ قیامت کے دن میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر بتاؤں گا کہ ہوا کہ نہیں مانتے؟۔

جب مکہ فتح ہوا اور عرب جوق در جوق مسلمان بن گئے تو اعرابی نے دوڑ لگائی اور کسی دوسرے ملک میں چلا گیا۔ پھر جب حضرت عمر کے دور میں فارس وروم فتح ہوگئے تو اس نے مدینہ میں آکر اسلام قبول کیا۔ جس پر حضرت عمر نے بہت پروٹوکول دیا تو لوگ حیران ہوگئے کہ اس کی شکل تو پرٹو کول والی نہیں لگتی۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ ” جب نبیۖ سے سوال جواب ہورہے تھے تو میں بھی موجود تھا۔ نبیۖ نے اس کو ہاتھ سے پکڑ کر جنت لے جانا ہے اور پھر میری بھی یہ وہاں سفارش کرے گا”۔

جب پاکستان کی ہاں اور ناں میں دنیا کے فیصلے ہوں گے تو پھر صوفی برکت علی لدھیانوی کے دارالقرآن فیصل آباد میں لوگ حاضری دینگے کہ بابا نے بالکل سچ فرمایا تھا اور لوگ اللہ کے ولیوں کو مان لیںگے۔
٭٭

برصغیرپاک وہندسے دنیا خوشحال

پرتگال ، فرانس اور برطانیہ کوہِ ہمالہ کی طرح ہیبت رکھتے تھے مگرآج سمٹ کر رائی بن گئے۔ پرتگال کا واسکو ڈیگاماہندوستان کے یورپ سے سمندری راستے کی تلاش میں نکلا اور امریکہ دریافت کرلیا۔ جب سمندر سے ہندوستان تک پہنچنے میں کامیابی مل گئی تو اس سفر میں بھی بہت لوگ قربان ہوگئے مگر کچھ زندہ بچے تھے اور اس دریافت پربڑا جشن منایا گیا ۔

برطانیہ نے جاتے جاتے نہ صرف کشمیر کا چھرا مسلمانوں کی پشت میں گھونپا بلکہ تقسیم پنجاب کے فارمولہ کے مطابق مسلم اکثریتی اضلاع گورداسپور اور فیروز پور بھی پاکستان کا حصہ بنتے۔ جس کی وجہ سے پھر کشمیر اور دریائے ستلج، راوی اور بیاس پر بھی بھارت قبضہ نہیں کرسکتا تھا اور بھارت کا کشمیر اور ان دریاؤں سے راستہ منقطع ہوجاتا۔ پھریکم ایریل 1948ء میں ہی بھارت نے ستلج، راوی اور بیاس کا راستہ بند کردیا۔

دریاؤں کے بہاؤ کا قدرتی نظام متاثر ہوتو خشک سالی اور برف کے ذخائر پگھلنے سے سیلاب آتے ہیں اور زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ آبی ماہر حسن عباس نے بتایا دنیا کی سب سے بڑی دولت یہ دریائے سندھ کی شاخیں ہیں جو نہ صرف برصغیر پاک وہندبلکہ دوسرے علاقوں میں بھی اس سے بڑے ڈیم بن سکتے ہیں اور ہم امیر ترین ممالک بن سکتے ہیں۔ ہندوستانی و پاکستانی بھائی چارہ سے نہ صرف پانی کا قدرتی نظام بحال ہوکر خطہ رشک قمر بن جائے گا بلکہ تیز رفتار ریلوے لائن اور بسوں کے ذریعے فلپائن ،تائیوان،میانمار ، تھائی لینڈ، نیپال ، ہندوستان کو براستہ پاکستان ، ایران اور ترکی یورپ سے ملا سکتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے برعکس ہمارا طرزِ عمل جابرانہ ،غاصبانہ اور ظالمانہ نہیں ہوگا بلکہ باہمی رضا مندی سے یورپ اور ایشاء کے درمیان سستی اور منافع بخش تجارت ہوگی اور انسانیت کو جنگ کی تباہ کاری اور فضائی آلودگی سے نکال کردنیا میں سبھی کیلئے جنت کو یقینی بنائیںگے۔ انسانی اور مذہبی آزادی کا ماحول اور انسانیت کو فروغ ملے گا۔ دشمنی، بغض وعناد، حسد، ظلم وجبر ، نا انصافی اور نسلوں اور زبانوں کی بنیاد پر حقارت و فضیلت کے معیارات ختم کرنے ہوںگے۔ اچھے کو جزا اور زیادتی کے مرتکب کو سزائیں ملیں گی۔

جس طرح ہم میں مختلف فرقے مشرک وبدعتی ہیں، یہودونصاریٰ میں بھی اسی طرح سے تھے۔ قرآن میں اللہ نے سچا حکم دیاکہ” کہہ دو کہ اے اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریںاور ہم اپنے بعض کو بعض کا اللہ کے سوا رب نہ بنائیں، پس اگر وہ منہ پھر لیں تو کہو کہ تم گواہ رہو کہ ہم بیشک مسلمان ہیں”۔

اگر سود کو جواز فراہم کرنے والے مفتی تقی عثمانی ومفتی منیب الرحمن کو اللہ کے علاوہ رب نہیں بنایا ہے تو پھر قرآنی آیت کا کوئی مصداق نہیں۔ سارے مذاہب والے ایک خدا کو مانتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں مگر اپنے مذہبی طبقات نے اللہ کے علاوہ رب بناکر کام خراب کیا ہے
٭٭

جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو

نبیۖ نے فرمایاکہ ”جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر ، جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر اور جو تجھ سے تعلق توڑے تو اسے جوڑ”۔

سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا ،نبیۖ نے مزارعت کو سود قراردیا۔ لونڈی اور غلام مزارعت سے بنتے تھے ۔ غزوہ بدر میں 70قیدیوں میں کوئی غلام نہیں بنایا گیا اور جنگی قیدی کو غلام بنانا ممکن نہیں۔ ابھی نندن کو مفتی طارق مسعود اپنی بیگم کا غلام بناتا؟۔ اگربیوی کہتی کہ مجھے گفٹ کرو تو مفتی طارق مسعود پر کیا گزرتی؟۔ مفتی طارق مسعود نے جنگی قیدیوں کیلئے فدیہ لیکر آزاد کرنے یا احسان کرکے چھوڑ دینے کا حکم قرآن سے اخذ کیا ہے۔ لیکن تیسرا حکم من گھڑت بتایا ہے کہ غلام اور لونڈی بناؤ۔

قرآن میں کہیں بھی غلام اور لونڈی بنانے کا حکم نہیں ۔ مفتی طارق مسعود کہتا ہے کہ” اسلام کا احسان ہے کہ عورتوں کو لونڈی اور مردوں کو غلام بنانے کا حکم دیا۔ اگر یہ نہ ہو تو مجاہدین بھی نہیں مانیںگے کہ ہم نے ملک فتح کیا تولوگوں کو لونڈی و غلام کیوں نہیں بنائیں؟۔ اگر عورتوں کو لونڈی بنانے کے بجائے آزاد چھوڑ یں تو بے راہ روی پھیل جائے گی”۔ کیا اسرائیل غزہ وفلسطین کی مسلمان خواتین کو لونڈیاں بنائیں یا پھر جیسے امریکہ ونیٹو نے افغانستان اور عراق کو فتح کیا تو لونڈیا ں بناتا؟۔

قرآن نازل ہونے سے پہلے یہ مذہبی مسائل تھے کہ شوہر اکٹھی 3 طلاق دیتا تو حلالہ کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا تھا لیکن ایک طلاق دیتا تھا تو رجوع کا سلسلہ جاری رکھ کر عورت کو عذاب میں ڈالتا۔ اللہ نے دونوں طرح کے مسائل کا ایک ہی آیت البقرہ228میں خاتمہ کردیا کہ عدت میں صلح کی شرط پر انکے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اصلاح اور معروف کے بغیر طلاق رجعی کا خاتمہ کردیا اور اکٹھی تین طلاق میں عدت کے اندر رجوع کا حکم واضح کرکے حلالہ کی لعنت کا خاتمہ کردیا۔

سورہ بقرہ آیت228سے پہلے اور بعد کی آیات اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں عورت کے مسائل کا جس طرح سے حل نکالا ہے ۔ پھر علماء ومفتیان نے جس طرح قرآن کی بوٹیاں بناکر ٹکڑے کیا ہے تو کسی اور معاملے میں ان کی سمجھ میں آسانی سے بات نہیں آئے گی ۔ البتہ شعور و آگہی آجائے گی تو پھر بچہ بچہ سمجھے گا اور دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجے گا۔

جب علماء قرآن وسنت کے منافی رسم جاہلیت پر میاں بیوی کے درمیان صلح کا راستہ روکیںگے ، حلالہ کی لعنت کو شرط قرار دیںگے اور اس راہداری پر لذت آشنائی کا خراج وصول کریںگے اور ملکوں کو فتح کرکے دوسروں کی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو لونڈی بنانے کے خواب دیکھیںگے تو اللہ اپنی مخلوق پر اس فرعونیت کو مسلط کرے گا؟۔ نہیں ہرگز بھی نہیں۔ قرآن میں نکاح کے حقوق ہیں، نکاح کی استطاعت نہ رکھنے والوں کیلئے ایگریمنٹ کی ا جازت ہے اور اس سے مراد لونڈیاں یا متعہ نہیں ۔عمران خان کا ریحام خان سے نکاح نہیں ایگریمنٹ تھا جیسا کہ ہرپاکستانی کا ہوتا ہے۔ اگرنکاح ہوتا تو بنی گالہ گھر کی وہ مالک بن جاتی۔
٭٭

مجادلہ اور مکالمہ اسلام کی روشنی میں

مجلس احراراسلام کے پہلے صدر سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور جنرل سیکرٹری اہلحدیث مولانا داؤد غزنوی تھے ۔دوسری بار سیدالاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی صدر ،شیعہ مولانا مظہر علی اظہر ایڈوکیٹ جنرل سیکرٹری تھے۔ جس طرح ایران سے تیل وگیس لینے پر مشکلات ہیں، اسی طرح پاکستان اور ہندوستان کے درمیان نفرت کے بیج بوئے گئے۔ مجلس احرار الاسلام کامنشور ” حکومت الٰہیہ” کا قیام تھا۔بخاری نے قائد اعظم سے مطالبہ کیا کہ” بنگال کو الگ آزاد ملک بننے دو اور پنجاب پورا لو اور کشمیر کو متنازعہ مت چھوڑو۔ میں سپاہی بن کر پاکستان کیلئے لڑوں گا”۔

اگر خطے کی حالت درست ہوئی تو بھارت کشمیر اور پنجاب کے مسلم اکثریتی ضلعے جہیز میں دے گا۔فوجی کیپٹن بھرتی ہوتا ہے تو ڈسپلن کے بندھن میں جکڑا رہتا ہے۔جب آرمی چیف بنتا ہے تو پھر آزادی ملتی ہے اور تین سال تک تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ پھر جب مدت ملازمت بڑھ جاتی ہے تو ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ایوب خان تخلیق کرتا ہے اور نوازشریف کی کشیدہ کاری کا پھر جنرل ضیاء الحق آرکیٹیکٹ بنتا ہے اور عمران خان کو جنرل پرویز مشرف گلے کا ہار بناتا ہے۔ پھر سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں محبوس رہتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کی یہ بات درست ہے کہ ” کم بخت لیڈر بنائے نہیں جاتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں”۔ قرآن میں سورہ مجادلہ کے اندر پہلے عورت کے اپنے حق مانگنے کو مجادلہ قرار دیا ہے اور پھر اس مکالمے میں اللہ نے رسول اللہۖ اور مذہبی ماحول کے مقابلے میں عورت کی تائید فرمائی گئی ہے۔

حق مانگنے والوں کو کچلا نہیں جاتا ہے بلکہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ انصار کے جوانوں نے اپنے حق کیلئے چہ مگوئیاں کیں تو رسول اللہۖ نے مطمئن کردیا۔ یہود سے میثاق مدینہ اور مشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ کو دشمنوں سے سلوک کا بہترین نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ”اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتے۔ ٹال دو احسن انداز سے تو آپ اور جس میں دشمنی تھی وہ بیشک ایسا بن جائیگا کہ گویاگرم جوش دوست تھا”۔

قرآن نے کسی مذہبی ، لسانی ، قومی، ملکی اور خاندانی تشخص کے بغیر کہا ہے کہ ”جس نے ایک جان کو قتل کیا توبغیر کسی جان یا فساد کے تو اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کردیا” (سورہ المائدہ آیت32) جب قرآن سے ہٹ کر ایک پختون پر پنجابیوں کو قربان کرنے کی بات ہوگی یا پاکستانی پر افغانیوں کے قربان کرنے کی بات ہوگی تویہی فتنہ و فساد کا باعث بنتا ہے جب فوجی، غیرفوجی، پختون، بلوچ، پنجابی،سندھی ، مولوی ،عوام اورکافر ومسلم کی جان کا فرق رکھا جائے گا تو یہ فتنہ فساد اور اللہ اور اسکے رسول ۖ سے جنگ ہے جس کا اگلی آیت میں ذکر ہے۔ غزہ کے لوگ جنگ بندی کیلئے ترستے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ طوفان اقصیٰ میں یہود کی ننگی عورتوں کو لپیٹ کر لایا گیاتو وہ چھوڑیںگے؟ 2005ء میں غزہ کی پٹی سے یہود کا انخلاء اسرائیل کا بہترین اقدام تھا۔ اگر خورشید قصوری نے اسرائیل سے تعلق بہتر بنایا ہوتا تو غزہ کی عوام مشکل کا سامنا نہ کرتی ۔جرمنی نے افغان طالبان کیخلاف قرارداد پیش کی، جس کی پاکستان سمیت 116 ممالک نے حمایت کی مگر امریکہ و اسرائیل نے مخالفت کی۔حدیث میں عسقلان کو رابطہ اور صلح کیلئے بہترین بنیاد بنایا جاسکتا ہے مگر ہم خود جنگ کے شکارہیںاور بڑی سازش کی لپیٹ میںآ سکتے ہیں۔
٭٭

تاریخ سے سبق اور جدا جدا مزاج

امیر معاویہ کو حسن و حسین کی بدولت اقتدارملا اوریزید کو اقتدار اور خلافت کو موروثیت سے روکنا حسین کی فرض شناسی کا بہترین نمونہ تھا۔

یزید ی فوج نے مدینہ پر حسین کی شہادت اور مظالم کے پہاڑ توڑنے کے بعد مکہ مکرمہ کا رُخ کیا تو راستہ میں سربراہ مسلم بن عقبہ مرگیا اور حصین بن نمیر سربراہ مقرر ہوا ۔ جس نے 64دن تک مکہ کا محاصرہ جاری رکھا اور پھر یزید کے موت کی خبر آئی۔ اس وقت عبداللہ بن زبیر بہت معروف ہستی تھی اور حصین بن نمیر نے عبداللہ بن زبیر سے بیعت اور خلیفہ بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ا بن زبیر نے کہا کہ ”جب تک ایک ایک حجازی کے بدلے میں دس دس شامیوں کو قتل نہ کردوں تو یہ نہیں ہوسکتا”۔یہ جواب سن کر ابن نمیر نے کہا کہ ” جو آپ کو عرب کا مدبر کہتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ میں خفیہ راز کی بات آپ سے کہتا ہوں اور آپ چلا کر اس کا جواب دیتے ہیں۔میںخلافت دلانا چاہتا ہوں اور آپ جنگ اور خونریزی پر آمادہ ہیں”۔ معاویہ بن یزیدنے زین العابدین کو خلافت دینا چاہی پھر مروان خلیفہ بنایا۔ ا بن زبیر کومروان شکست نہیں دے سکا ۔عبدالملک بن مروان کے گورنر حجاج نے ابن زبیرسے جنگ کی تو ابن زبیر نے اپنی ماں سے کہا کہ ہتھیار ڈال دیتا ہوں، میری لاش کیساتھ بہت برا ہواتوآپ کو دکھ ہو گا۔ ماں ابوبکر کی بیٹی اسماء نے کہا کہ ”بیٹا! مجھے ہتھیار ڈالنے پرزیادہ تکلیف ہوگی۔ جب تجھے قتل کیا جائے تو تیری لاش کیساتھ جو بھی ہو تجھے کوئی تکلیف نہ ہوگی”۔ مولانا طارق جمیل کی زبان سے قصہ سن لیں۔ کہاں حجاج اور عبدالملک ،کہاں صحابی عبداللہ ابن زبیر کی المناک شہادت؟۔ مولانا طارق جمیل کی مخالفت میں زمین اور آسمان کی قلابیں ملانے والے صحابہ سے محبت نہیں رکھتے بلکہ مروان بن حکم اور حجاج بن یوسف کی ہی ناجائز اولاد ہیں۔ مروان حاکم تھا ،عبداللہ بن زبیر نے اس کا اقتدار تسلیم نہیں کیا ۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی ، مولانا آصف جلالی یزید، مروان، عبدالملک کے مقابلے میں امام حسین اور عبداللہ بن زبیر سے عقیدت رکھتے ہیں انہی کو خلیفہ مانتے ہیں۔ منتشر مذہبی و سیاسی قیادت کو مذہبی حساسیت کا ادراک نہیں۔مولانا مسعود اظہر سے مجاہدین یا خوارج عقیدت رکھتے ہیں؟۔عبداللہ بن زبیر فتنہ تھے یا عقیدت کے مستحق؟۔ ریاستیں پرائیوٹ جہاد کو استعمال کریں اور پھر کہاجائے یہ جہاد نہیں،تو اس کا وزن کیا ہوگا؟۔

اگر مجھے موقع ملا تو سب سے پہلے تبلیغی جماعت کے دو گروپوں میں صلح کراؤں گا۔ بریلوی دیوبندی،حنفی اہلحدیث، شیعہ سنی مذہبی و سیاسی جماعتوں اور پھر پڑوسی ممالک اور سارے تنازعات کو خوش اسلوبی اور عدل وانصاف کیساتھ حل کروں گا اور تاریخ کی بدگمانیوں کے پردے چاک کروں گا۔اسلئے کہ اس میں میرا اور سبھی کا مفاد ہے۔ انشاء اللہ

حسین شہید ہوگئے تو جنگ بندی پر زین العابدین کا راضی ہوناباقی لوگوں کو بچانے کیلئے بزدلی نہیں فطرت تھی۔ پھر دمشق میں جمعہ کا خطبہ امام زین العابدین نے دیا تھا۔ اگر سعودی، ایرانی، پاکستانی اورافغانی حکمران ہوتے توکیا امام زین العابدین کوخطبہ جمعہ کیلئے چھوڑتے؟۔

ایران نے ساری زندگی اپنی پروکسی کو لڑایا لیکن اسرائیل و امریکہ کا براہِ راست حملہ بہت برا لگا۔ اور فوری جنگ بندی پر بھی آمادہ ہوگیا۔ ایران عالمی ایٹامک انرجی کے سامنے سرنڈر ہے۔

عرب اپنی شاعری میں لوگوں کے ذوق کاکہتے ہیں کہ
تعشتھا شمطاء شاب ولیدھا
و للنا س فیما یعشقون مذاہب
” میں نے بڑھیا سے عشق کیا جسکے بچے تک اب جوان ہوگئے اور لوگوں کے عشق میں اپنی اپنی راہیں ہوتی ہیں”۔ ایک مصرع باربارآیا۔

و من مذہبی حب الدیار لأھلہا
” اور میرا راستہ اپنے دیس کے ہم وطنوں سے محبت ہے ۔….

لک مذہب حب الکفاح وانما
” تیراراستہ تو صرف جدوجہد سے محبت ہے۔………..

و لی مذہب عشقت مھذب
” اور میرا راستہ ہے کہ مہذب عشق کرتا ہوں ۔…………

و للنا س فیما یعشقون مذاہب
وحکمة ربی فی اختلاف المذاہب
” اور لوگ کے عشق میں اپنے اپنے مذاہب ہیں اور میرے رب کی حکمت مذاہب کے اختلاف میں رکھی ہوئی ہے”۔

و للنا س فیما یعشقون مذاہب
شتی، ولکن حب طٰہ مذہبی
” اور لوگ اپنے عشق کی راہوں میں الگ الگ منتشر ہیں لیکن صرف طہ (رسول ۖ )کی محبت ہی میرا مذہب ہے”۔

دوسروں کو چھوڑدو ،اپنی اصلاح احوال سے ابتداء کرو۔
بڑھیں گے اور بھی سلسلے حجابوں کے
کر اپنی بات حوالے نہ دے کتابوں کے
ہٹایا رنگ کا پودا تو زخم زخم تھا
چمن چمن تھے وہی سلسلے سرابوں کے
ابھی وہ حبس ہے خاور کہ دم الجھتا ہے
ابھی کھلے رکھو دروازے اپنے خوابوں کے

ایک دور تھا کہ حیرہ عراق کے عیسائی عرب بادشاہ کی خوبرو شہزادی ہند بنت نعمان بن منذرجو علم واداب کے زیو ر سے بھی آراستہ تھی ۔کسریٰ کے بادشاہ نے رشتہ مانگا۔ ایک عرب لڑکی کو اپنی چھوٹی سی مملکت کے باوجود ایک عجمی شہنشاہ کا رشتہ قبول نہیں تھا تو مجوسی ایرانی مملکت پر چڑھ دوڑا ۔ باپ اور بھائیوں کو قتل کیا اور ہند جان بچاکر شیبان قبیلہ میں پناہ لینے پہنچ گئی۔ پیچھاہوا مگرعرب نے جان پر کھیل کر عجم کو شکست دی اور اس جنگ کو ”ذی وقار” کا نام دیا۔ پھر اسلام نے روم وفارس کو شکست دی اور خالد بن ولید نے ہند بنت نعمان کو شادی کی پیشکش کی لیکن اس نے قبول کرنے سے انکارکیا۔ کچھ مراعات کی پیشکش کی تو اس نے کہا کہ ”میرے دو غلام ہیں جو میرے لئے کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں اسلئے ضرورت نہیں۔ عیسائیوں نے پوچھا کہ کیا بات اس نے تم سے کی؟ تو ہند بنت نعمان نے کہا کہ

صان لی ذمتی واکرم وجھی …انما یکرم الکریم الکریما
” اس نے میری ذمہ داری کا احساس کرکے مجھے عزت بخشی دی اور باعزت شخص ہی باعزت کا احترام کرتا ہے”۔

آخر میں مغیرہ ابن شعبہ نے شادی کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ میں بوڑھی نابینا ہوں ۔مجھ سے کیوں ؟۔مغیرہ نے کہا کہ تیری شہرت بھی میرے لئے اعزاز ہے۔ اسلام کے اس امتیاز نے مجوسیت کو نیست و نابود کیا اور اسلام کا یہی امتیازدنیا کی سپر طاقتوں کی شکست کا سبب بنا۔ جب تک ہم مسلمان اپنے معاشرے اور دنیا کو اسلام کا درست تصور نہیں دیں گے تونہ دجال اکبر آئے گا اور نہ مہدی اور نہ عیسیٰ علیہ السلام۔

لوگوں کے عشق ومحبت میں اپنے اپنے راستے ہیں لیکن ہم نے صراط مستقیم پر چلنا ہوگا ، جیسا کہ ہر نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے مانگتے ہیں مگر نہ سمجھتے ہیں نہ تلاش کرتے ہیں اور نہ عمل کرتے ہیں اور یہی نفاق ہے۔ اپنی ذات اور اپنے طبقے سے اصلاح کا آغاز حقائق کی بنیاد پر کرنا ہوگا۔
٭٭

پاکستانی جمہوریت اور تاریخی حقائق

1951ء میں مغربی پاکستان کے صرف پنجاب میں الیکشن ہوئے اور یہ محدود بالغ رائے دہی کے تحت ہوئے۔ مسلم لیگ اکثریت سے جیت گئی مگر دھاندلی کے الزامات لگے۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی مسلم لیگ پنجاب میں الیکشن ہار گئی تھی۔ پنجاب کے صوبے میں الیکشن 1951 ء کا بنیادی مقصد مشرقی پاکستان کی اکثریت کو برابر کی سطح پر لانا تھا۔ جسکے بعد ون یونٹ کا بدنام زمانہ قانون رائج کردیا گیاتھا ۔ 1955 میں ون یونٹ لایا گیا ،جس میں مشرقی پاکستان کو صوبہ کا درجہ دیا گیا۔

1954ء میں صرف مشرقی پاکستانی میں صوبائی الیکشن ہوئے تھے اور مسلم لیگ کو309میں سے صرف 9نشستیں ملی تھیں۔ جبکہ متحدہ محاذ کو جن میں عوامی لیگ (شیخ مجیب ، مولوی فضل الحق ) نظام اسلام پارٹی اور نیزا ملا جماعتیں شامل تھیں کو 223نشستیں ملیں۔ جن کا مشترکہ ایجنڈا 21 نکاتی تھا۔جن میں بنگلہ زبان کو قومی زبان کا درجہ دینا،آبادی کے تناسب سے اختیارات،کسانوں و مزدوروں کے حقوق ، تعلیم و صحت کی سہولیات شامل تھے۔ عوامی فتح کے باوجود گورنر جنرل غلام محمد نے اس اسمبلی کو صرف دو ماہ بعد توڑ دیا۔ مرکزی حکومت کو یہ برداشت نہیں ہوسکا اور صدارتی فیصلے کے ذریعے عوامی امنگوں اور منتخب نمائندوں کو پامال کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کو دھکا اس اقدام سے لگایا گیا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا جب انتخابات کے ذریعے اشرافیہ کو مسترد کیا گیا تھا لیکن اس میں صرف فوج کو ہی ملوث قرار دینا زیادتی ہوگی۔ اشرافیہ اور سول بیوروکریسی بھی اس میں برابر کی شریک تھی ۔

سوال یہ ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کو آج یاد کیا جاتا ہے لیکن جنرل ایوب سے ذوالفقار بھٹو نتھی تھا۔ جنرل ضیاء الحق سے نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کا ریفرینڈم عمران خان لڑرہاتھا، جنرل قمر جاوید باجوہ کو سب نے ملکر آئین میں20منٹ کے اندر تبدیلی کرکے ایکسٹینشن دیدی تھی۔ پارٹیاں اور ان کے کارکن جو بھی کریں لیکن عوام کو حقائق سے آگاہ رکھنا ضروری تھا۔ کون کون مرغا بننے کو تیار ہے کہ اس نے بہت بڑی غلطی کی تھی؟۔

پاکستان میں 1947ء سے 1955ء تک عبوری نظام تھا۔ الیکشن کا براہِ راست کوئی تصور نہیں تھا۔ صوبائی حکومتیں زیادہ تر گورنر بناتی تھیں اور پھر سول و ملٹری بیوروکریسی کی مشترکہ کاوش کے نتیجے میں 1958ء میں جنرل ایوب خان کا مارشل لاء آیا۔ باجی جمہوریت معطل ہوگئی تو پھر عوام کا اس میں آخر نقصان کیا تھا؟۔ جمہوری نفاق سے یہ کفر بہتر تھا۔

1956ء میں 9سال بعد پاکستان کا پہلا آئین آیا مگر الیکشن نہیں ہوسکے۔ جنرل ایوب نے مارشل لاء کے بعد سیاسی جماعتوں کا خاتمہ کیا اور بنیادی جمہوریت سسٹم متعارف کرایا۔ سیاسی سرگرمیاں بند کی گئیں۔ 1960میں BDسسٹم کے تحت الیکشن ہوا۔ 80ہزار یونین کونسل ممبر عوام نے منتخب کئے ۔40ہزار مغربی اور 40ہزار مشرقی پاکستان سے اور جنرل ایوب خان نے کہا کہ ریفرینڈم میں 95%نے ووٹ دیا۔ 1984ء میں جماعت اسلامی اور مذہبی طبقات کی اکثریت نے جنرل ضیاء الحق کے ریفرینڈم کو ووٹ دیا ۔ انگریز کے دورِ غلامی میں عورتوں کو ووٹ کا حق نہیں تھا اور ووٹ کی بنیادی شرطین تھیں۔ تعلیم ، 21سال عمر، جائیداد ٹیکس شرائط کی بنیادپر 2سے 12% تک ووٹ ڈال سکتے تھے۔ جنرل یحییٰ نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر قومی وصوبائی ممبران کے ووٹ کا حق دیا اور آج جتنی آزادی اور شعور ہے اس میں دسمبر1970ء کے الیکشن کا بڑا بنیادی کردار ہے ۔ نگران وزیراعظم معین قریشی نے قبائل کو بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر 1997ء میں ووٹ کا حق دیا تھا۔
٭٭

عالمگیر انقلاب کا طرز منہاج النبوة

قرآن میں مسلمانوں کے بدترین دشمن یہود اور مشرکین مکہ کو قرار دیا گیا ہے لیکن رسول اللہ ۖ نے میثاق مدینہ میں یہود کیساتھ برابری کی سطح پر معاہدہ کیا۔ مسلمانوں کی طرح انکے خون، عزت اور مالی حرمت کو مقدس قرار دیا۔ مشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ کا وہ معاہدہ کیا جس کی نظیر آج تک دنیا لانے سے قاصر ہے۔ کچھ عورتیں مسلمان بن کر بھاگ کر آئیں تو اللہ نے امتحان لینے کا حکم دیا تاکہ دھوکہ سے بچ جائیں۔ پھر ان کو واپس لوٹانے سے اس صورت میں منع کیا کہ جب وہ سازش کے تحت نہیں بھیجی گئی ہوں۔ اور یہ واضح کیا کہ وہ ان کیلئے حلال نہیں ہیں اور یہ ان کیلئے حلال نہیں ہیں۔ اسلئے کہ واپس بھیجنے کی صورت میں ان پر بڑا تشدد بھی ہوسکتا تھا اور ان کی جان عزت کی جگہ جنسی تشدد کیلئے رہ جاتی۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی عورتوں کو ان کے مظالم سے بچانے کی تدبیر کردی کہ ان کا حق مہر ادا کرکے ان سے شادی کرسکتے ہیں۔ اللہ نے لونڈی اور ایگریمنٹ والی کیلئے بھی حق مہر کو فرض قرار دے دیا ہے۔

انسانی غیرت کے احساسات کا اتنا خیال رکھا ہے کہ جب مشرکین کی بیویاں بھاگ کر آئی ہیں تو تم بھی اپنی کافرات عورتوں سے مت چمٹو اور ان کو انکے پاس بھیج دو۔ بے غیرت اور بے ضمیر لوگ اس ادلہ بدلہ کی تفسیر کو کہاں سمجھ سکتے ہیں؟۔ مگر غیرتمند وںکی روح میں اترجاتی ہے۔

اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر لالچی طبقات کیلئے قرآن نے یہ اصول وضع کردیا کہ ”مشرکین مکہ نے ان بھاگی ہوئی خواتین پر جو خرچہ کیا ہے تو وہ ان کو واپس کردو اور جو تم نے خرچ کیا ہے وہ بھی لے لو”۔

یہ دورِ جاہلیت کا اصول تھالیکن اس سے بھی چار قدم آگے بڑھ کر اللہ نے فرمایا کہ ” اگر تمہاری کافر خواتین تمہیں اپنا خرچ کیا ہوا مال نہیں دیں اور تم ان سے بدلہ لینا چاہو تو پھر ایسا مت کرو کہ بدلے میں دوسری خواتین کا حق روک لو۔نہیں نہیں ہرگز نہیں۔تم ان کو پورا پورا مال واپس کرو اور اللہ سے خوف کھاؤ۔ اللہ پر ایمان کا یہ نتیجہ ہونا چاہیے”۔

مترجمیں اور مفسرین نے واضح آیات کے بالکل برعکس الٹا معنی لیا ہے کہ اگر تمہاری چھوڑی ہوئی عورتیں تمہیں خرچ کیا ہوامال واپس نہ کریں تو تم بھی بدلے میں دوسروں کو یہ سزا کے طور پر کرو۔ جب حماس کے مجاہدین نے یہودی عورتوں اور بچوں کیساتھ حسن سلوک کیا تو سب مسلمانوں کے سر فخر سے بلند ہوگئے۔ جان، مال اور عزتوں کا تحفظ کسی جنس، مذہب ، دین ، قوم، سیاسی پارٹی ، دوست اور دشمن سب کیلئے برابر ہے۔ جب کسی کی انا کو قربان کیا جاتا ہے تو عرش لرز جاتا ہے۔ ظلم وجبر سے روکنا ایک بالکل الگ بات ہے اور کسی پر ظلم وجبر کرنا الگ بات ہے اور جن لوگوں کو اس کی تمیز نہیں ہوتی ہے تو وہی لوگ غلط کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ تحریک انصاف کا جلسہ نرسری شارع فیصل کراچی میںختم ہوا توسڑک کی دوسری طرف پختون لڑکے نے دوسروں سے کہا کہ جیو والے عمران خان کے خلاف ہیں اور ان کی گاڑی کھڑی ہے۔ میں نے اپنے دوست اشرف میمن سے کہا کہ صحافیوں کو بچاتے ہیں۔ مظہر عباس اور ماریہ میمن وین کی چھت پر تھے۔ جب انکے خلاف نعرے لگے تو ہم نے ان کے حق میں آزاد صحافت کے نعرے لگائے اور مظہر عباس سے گرم جوشی کیساتھ ہاتھ ملایا۔ پھر دوسرے لوگوں نے بھی ملایا اور ان شر پسندوں کے عزائم ناکام ہوگئے۔ آج وہی صحافی تحریک انصاف کیلئے سب سے مؤثر آواز ہیں۔ مظہرعباس کا عمران خان کے بارے میں کوئی مؤقف نہیں بدلا ہے لیکن اپنی پسندوناپسند کی بنیاد پر اور ڈالر کمانے کیلئے صحافت نہیں کی جاتی ہے۔ صحافت کا بلند معیار ہے تو آسمانی صحائف پر ایمان والوں کا کیا معیار ہونا چاہیے؟۔ یہ انقلاب سے معلوم ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

پاکستان کے زوال کا سبب کیا؟، تصاویر سے عکاسی!
50ٹریلین ڈالرز کا” خزانہ” پاکستان کی تو نکل پڑی۔
پاکستان پوری دنیا کی طاقت کا مرکز بننے جارہا ہے اس کی 5بنیادی وجوہات ہیں جس کا انکار ممکن نہیں