پوسٹ تلاش کریں

مفتی محمود پر1970میں ، مولانا فضل الرحمن پر1985 میں کفر کا فتویٰ لگا۔ کیااب حق کا علم مولانا بلند کریں گے؟

مفتی محمود پر1970میں ، مولانا فضل الرحمن پر1985 میں کفر کا فتویٰ لگا۔ کیااب حق کا علم مولانا بلند کریں گے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

قرآن کے احکام اور مسائل کاحل

قرآن کی تعریف : ”جو رسول ۖ پر نازل ہوا،جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے، جو آپ ۖ سے منقول ہے تواتر کیساتھ بلاشبہ”۔

اس کی تشریح:” اس سے پانچ سو آیات مراد ہیں۔ باقی قرآن قصے اور مواعظ ہیں۔ لکھے سے مراد لکھا ہوا نہیں کیونکہ یہ محض نقش ہے۔متواتر کی قید سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جیسے اخبار احاد اور مشہورآیات اور بلاشبہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی ، اگرچہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے اور اس وجہ سے اس کا منکر کا فر نہیں بنتا ہے”۔

یہ تعریف حنفی مسلک کی ہے جس میں صحیح احادیث سے زیادہ اہمیت قرآن کی اخبار احاد کی ہے لیکن امام شافعی کے نزدیک یہ عقیدہ کفرہے۔ جب قرآن سے باہر بھی آیات مان لی جائیں اور شبہ بھی ثابت کیا جائے تو پھر عوام کو بھی آگاہ کرنا چاہیے کہ علماء قرآن کیساتھ کیا کرتے ہیں؟۔

جب معاملہ 500آیات کا تھا تو پھر فضول کی بکواس کی ضرورت کیا ہے اور اگر لکھا ہوا قرآن اللہ کا کلام اور کتاب نہیں ہے تو اسلئے فقہ کی جن کتابوں فتاوی قاضی خان سے فتاویٰ شامی تک سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے ۔تاکہ اس توہین کو تحفظ دیا جائے؟۔

امام شافعی بسم اللہ میں شک نہیں کرتے تھے اور جہری نماز میں جہری بسم اللہ پڑھتے تھے تو ان پر رافضی کا فتویٰ لگادیا۔ علماء خود قرآن کیخلاف تعلیمات دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ ، سینیٹ اور عدالتوں میں جب تک ان کا مؤاخذہ نہیں ہوگا تو یہ اپنے غلط نصاب کو تبدیل نہیں کریںگے۔ امام ابوحنیفہ کی شہادت کے بعد امام شافعی نے حق کا پرچم بلند کیا تھا۔

اللہ نے فرمایا کہ ” رسول شکایت فرمائیںگے کہ اے میرے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔(الفرقان: 30)

اور یہ بھی واضح فرمایا کہ ” جیسا ہم نے ان بٹوارہ کرنے والوں پر نازل کیا ہو جنہوں نے قرآن کو بوٹیاں بوٹیاں کردیا۔ تیرے رب کی قسم ہم ان سبھی سے ضرور پوچھیںگے”۔(سورہ الحجر: 90،91،92)

قرآن نے مسائل کا بالکل واضح حل پیش کیا ہے جو اپنی مثال دینا آپ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اور جس دن ہر گروہ میں سے ان پرانہیں میں سے ایک گواہ کھڑا کریںگے۔اور تجھے ان پر گواہ بنائیںگے۔ اور ہم نے تجھ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کو واضح کرتی ہے۔اور مسلمانوں کیلئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے”۔ (النحل:89)

فرقہ پرستی، سیاست، قوم پرستی اور مختلف حوالہ جات سے لوگ اپنے کمالات کے جوہر دکھارہے ہیں لیکن اصل مسائل کے حل کی نشاندہی کا تصور نہیں رکھتے۔ جب تک معاشی اور معاشرتی بنیادوں پر ہمارے اپنے اقدار درست نہیں ہوں گے تو مسائل حل کے بجائے گھمبیر ہوں گے اور قرآن وہ کتاب ہے جس سے دنیا کی قوموں کو عروج ملتا ہے اور اس کے چھوڑنے سے مسلمان تنزلی کا شکار ہوگئے ہیں۔ دنیا میں میاں بیوی کی صلح پر پابندی نہیں اور اس کا سہرا قرآن کے سر جاتا ہے۔

قرآن کی صلح واصلاح کا منکر کون؟

دور جاہلیت میں طلاق کی عدت تھی اور طلاق رجعی کے بعد شوہر عورت کی رضامندی کے بغیر اس کو لوٹانے کا حق رکھتا تھا مگر تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔ طلاق کے الفاظ کے اقسام اور مختلف احکام تھے۔ اگربیوی کی پیٹھ کو ماں کی پیٹھ کہا تو حلالہ سے بھی رجوع نہیں ہوسکتاتھااور حرام کے بعد بھی رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔

قرآن نے تمام مسائل کا عام فہم عوامی حل پیش کردیا۔ سنت نے اس کو مزید واضح کردیا اور خلفاء راشدین نے ان کے مطابق فیصلے کئے لیکن پھر رفتہ رفتہ مذہبی طبقات اور اختلافات نے دین کے اصل چہرے کو مسخ کردیا ۔ اب بڑے بڑے علماء ومشائخ بات کو نہیں سمجھتے یا تجاہل عارفانہ سے اپنا ایکسپائر شدہ اسلحہ چلاکر قوم وملت کو برباد کررہے ہیں۔ ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور قبلہ ایاز سے ملاقاتیں کرکے بات سمجھا دی اور وہ سمجھ بھی گئے لیکن اپنی نوکریاں بچانے یا بڑے علماء کیساتھ الجھن سے بچنے کیلئے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھایا۔

1: سورہ بقرہ آیت 228میں حلالہ اور طلاق رجعی کی جاہلیت کے مسائل کو اللہ نے بہت آسان الفاظ میں حل کردیا۔ وبعولتھن احق بردھن ان ارادوا اصلاحًا: ”اور ان کے شوہر اس(عدت) میں ان کو صلح کی شرط پر لوٹانے کا حق رکھتے ہیں”۔(البقرہ آیت228)

جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اکٹھی طلاق پر حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اور شوہر عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔

حضرت عمر کے پاس اقتدار تھا ۔آپ نے دارالفتویٰ نہیں کھولا تھا۔ شوہر نے بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق۔ اور اپنا حق یہ سمجھا کہ وہ عدت میں رجوع کرسکتا ہے اور بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ حضرت عمر نے قرآن کے مطابق فیصلہ دے دیا کہ شوہر کو رجوع کا حق نہیں ۔ اس سے پہلے کوئی اکٹھی تین طلاق دیتا تھا تو باہمی رجوع کرلیتے تھے لیکن یہ فیصلہ قرآن کی بنیاد پر تھا اور حضرت عمر نے عورت کے حق کو بھرپور تحفظ دیا اور اگر ایک طلاق کے بعد بھی عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہوتی تو عمر نے قرآن کے مطابق یہی فیصلہ دینا تھا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمر ہی کے دور میں ایک شخص نے بیوی کو حرام کہہ دیا اور پھر تنازع حضرت عمر کے پاس پہنچ گیا۔ پھر وہ دونوں میاں بیوی رجوع پر رضامند ہوگئے تو یہ فیصلہ دے دیا کہ رجوع کرلو۔ پھر حضرت علی کے دور میں حرام کے لفظ پر دربارِ خلافت میں تنازعہ آیا۔ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو علی نے فیصلہ دے دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ قرآن نے بار بار واضح کیا ہے کہ باہمی اصلاح معروف طریقے سے جب دونوں راضی ہوں تو اللہ نے صلح کی اجازت دی اور حکم دیا ہے کہ صلح میں رکاوٹ مت بنو۔

عورت فحاشی کی مرتکب ہو تو عدت ہی میں اس کو گھر سے نکال سکتے ہیں اور وہ خود بھی نکل سکتی ہے۔ لیکن اگر مالی حقوق کے مسائل ہوں یا پھر غیرت کے نام پر سزا کی بات ہو تو دونوں کے درمیان لعان کا حکم ہے۔ پھر اگر شوہر سچا ہواور عورت جھوٹی ہو تب بھی عورت کو سزا نہیں دیںگے۔ اور قرآن نے واضح کیا ہے کہ بدکارمرد اور عورت کا آپس میں یا مشرک سے نکاح کرایا جائے گا۔ شیتل بی بی کا مسئلہ علماء کے غلط مسائل نے ہی بگاڑ دیا ہے جس میں کہانی کے جس رنگ کو دیکھا جائے یہی نکلے گا۔

قرآن میں بالکل کوئی تضادات نہیں ۔ آیت228البقرہ کے بعد آیت229میں مزید وضاحت ہے کہ عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ رجوع کیلئے معروف کی شرط ہے۔ صلح ، اصلاح اور معروف ایک ہی چیز ہیں اور قرآن نے بار بار اس کی وضاحت کی۔ رسول اللہۖ نے بھی وضاحت فرمائی کہ پاکی کے دن پھر حیض، پاکی کے دن پھر حیض پھر پاکی کے دن ۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے قرآن میں طلاق کا امر کیا ہے۔ بخاری نے باربار یہ حدیث نقل کی ہے۔

بخاری نے اکٹھی تین اور حلالہ کیلئے غلط حدیث نقل کی ہے اور قرآن کی آیت کا بھی بالکل غلط حوالہ دیا ہے۔ کہ رفاعہ القرظی نے بیوی کو تین طلاق دی اور پھر اس نے عبدالرحمن بن زبیرالقرظی سے نکاح کیا اور پھر نبیۖ کو دوپٹے کا پلو دکھایا کہ اسکے پاس ایسی چیز ہے ۔ نبیۖ نے فرمایا : کیا رفاعہ کے پاس جاناچاہتی ہو ؟،نہیں جاسکتی ،یہاں تک وہ تیرا شہد چکھ لے اور تو اس کا شہد چکھ لے(صحیح بخاری) حالانکہ صحیح بخاری نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ رفاعہ نے الگ الگ مراحل میں طلاق دی تھی مگر اس فراڈ کی وجہ سے امت مسلمہ کی عزتیں لُٹ رہی ہیں۔ اور اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ نبیۖ نے قرآن کے منافی اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کا حکم جاری کیا تھا اور نامرد سے حلالہ پر مجبور کرنا بھی بہتان ہے۔

جہاں تک عویمر عجلانی نے لعان کے بعد تین طلاقیں دیں تو اس سے قرآن کی آیت کو منسوخ کرنا اور حلالہ پر مجبور کرنا انتہائی درجہ کی جہالت تھی لیکن افسوس کہ اس ماحول میں بھی اسلام اجنبی بن چکا تھا۔ حنفی فقہاء کے نزدیک اکٹھی تین طلاق بدعت، ناجائز اور حرام تھیں۔ شافعی فقہاء کے نزدیک اکٹھی تین طلاق سنت، جائز اور مباح تھیں۔ بخاری نے حنفی مسلک کی مخالفت میں شافعی مسلک کو سپورٹ کرنے کیلئے ایسا کیا تھا۔

امام شافعی نے حضرت عمر کی سپورٹ کیلئے اکٹھی تین طلاق کو سنت قرار دیا۔ جس کی دلیل عویمر عجلانیکے لعان کا واقعہ تھا اور حنفی فقہاء و مالکی فقہاء کے نزدیک محمودبن لبید کی حدیث دلیل تھی کہ جب ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تو رسول اللہۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اورفرمایا کہ میری موجودگی تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟ ۔

محمود بن لبید کی روایت صحیح بخاری و صحیح مسلم میں نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں واقعہ کی تفصیل اورنبیۖ کے غضبناک ہونے کی وضاحت ہے اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر کی اکٹھی تین طلاق کی وضاحت ہے۔ روایات میں یہ بھی واضح ہے کہ طلاق دینے والا عبداللہ اور خبردینے اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔خلافت راشدہ میں یہ بحث نہیں تھی کہ طلاق سنت وبدعت کیا ہے؟۔حضرت عمر اور حضرت علی نے قرآن کے مطابق عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تو رجوع کا فیصلہ نہیں دیا ۔ چاہے اکٹھی تین طلاق کے الفاظ ہوں یا ایک بار حرام کا لفظ ہو۔ اور ظاہر ہے کہ عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تو نہیں روک سکتے تھے۔ ایک طرف رسول اللہۖ کی زندگی میں سخت ترین طلاق بیوی کو ماں قرار دینے کا معاملہ سورہ مجادلہ میں واضح تھا اور دوسری طرف جب نبیۖ نے طلاق نہیں دی تھی بلکہ ناراضگی وایلاء میں بھی ایک ماہ بعد رجوع کیا تو اللہ نے واضح کیا کہ پہلے تمام عورتوں کو علیحدگی کا اختیار دو۔ اگرساتھ رہنا چاہتی ہوں تب رجوع کرسکتے ہیں۔ قرآن وسنت کی عظیم الشان رہنمائی اور وضاحتوں کے باوجود بھی اختلافات اور قرآن وسنت سے بغاوت کرنا اانتہائی درجہ کی گراوٹ ہے۔ قرآن نے بار بار اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اصلاح، معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیادپر عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد رجوع ہوسکتا ہے بلکہ رجوع میں رکاوٹ مت ڈالو۔ اسی میں تمہارا باطنی تزکیہ اور ظاہری پاکیزگی ہے۔ لیکن ایک طرف صلح کے بغیر شوہر کو رجوع کی اجازت دیکر لاتعداد پیچیدہ مسائل کھڑے کردئیے اور دوسری طرف باہمی رضامندی میں حلالہ پر مجبور کرکے بیڑہ غرق کیا ہے اور آیت230البقرہ کا تعلق طلاق کی اس صورت سے ہے کہ جب اس سے پہلے آیت229البقرہ کے مطابق دونوں اور فیصلہ کرنے والے ایسی علیحدگی پر متفق ہوں کہ آئندہ رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں رہے اور یہ صرف اس مشکل مسئلے کا حل تھا کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی شوہر اپنی مرضی سے کسی اور سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جو لیڈی ڈیانا کیساتھ ہوا اور جس طرح ریحام خان کو طلاق کے بعد پاکستان واپس آنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ آیات231،232البقرہ میں اور سورہ طلاق کی پہلی دوآیات میںرجوع کا مؤقف واضح کیا۔

حنفی اور شافعی میں یہ اختلاف تھا کہ حرمت مصاہرت نکاح سے ثابت ہوتی یا زنا سے بھی۔ امام شافعی کے نزدیک حرمت مصاہرت ایک مقدس رشتہ ہے جو زنا سے ثابت نہیں ہوتا۔ حنفی فقہاء نے زنا اور نکاح کو ایک قرار دیا۔ پھر اس میں مزید وقت کیساتھ ساتھ ایکسٹینشن جاری رکھی۔ یہاں تک بھی معاملہ پہنچا دیا کہ شہوت کیساتھ چھونے سے بھی حرمت مصاہرت ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو ذہنی مریض بنادیا کہ ساس یا بہو سے ہاتھ ملانے پر شہوت تو نہیں آئی؟۔ آئی تھی تو ساس اور بہو بیوی بن گئی ، اپنی بیوی حرام ہوگئی۔ مولوی پکڑا گیا جو بہو کے سینے کو ہاتھوں سے سہلا رہاتھا تو اس نے اپنے لئے حیلہ تلاش کیا اور عام لوگوں کو فتویٰ دیا کہ لامحالہ شہوت آگئی اسلئے والد پر اس کی بیوی اور بیٹے پر اس کی بیوی حرام ہوگئی۔ پھر معاملے کو مزید ایکسٹینشن دیدی اور مسئلہ بنایا کہ اگر ساس یا بہو کی شرمگاہ کو باہر سے دیکھا تو پھر حرمت مصاہرت نہیں ہوگی اسلئے کہ عذر ہے اور شہوت آجاتی ہے اسلئے کہ شیح الحدیث مفتی عزیز الرحمن کی طرح کوئی ننگا پکڑا گیا تھا جس میں پرائیویٹ پاٹ منتشر تھے۔ لیکن شرمگاہ کو اندر سے شہوت کیساتھ دیکھاتو حرمت مصاہرت ہوگی۔ پھر مزید کچھ مولوی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تو ایک نیا مسئلہ نکالا کہ اگر شہوت کیساتھ ننگا ساس یا بہو، یا بیٹی یا ماں کو دبوچ لیا اور انزال ہوگیا تو پھر حرمت مصاہرت نہیں ہوگی اوراگر خارج نہیں ہوا تو حرمت مصاہرت ہوگی۔ سوشل میڈیا پر بے راہ روی اور جامعہ بنوری ٹاؤن کی ویب پر مسائل کا حل اس بدمعاشی کا نتیجہ ہے۔

fatwa-against-mufti-mahmood-and-fazlur-rehman-will-maulana-raise-banner-of-truth

چلتے پھرتے ہوئے مہتاب دکھائیں گے تمہیں
ہم سے ملنا کبھی پنجاب دکھائیں گے تمہیں
چاند ہر چھت پہ ہے سورج ہر آنگن میں
نیند سے جاگو تو کچھ خواب دکھائیں گے تمہیں
پوچھتے کیا ہو کہ رومال کے پیچھے کیا ہے؟
پھر کسی روز یہ سیلاب دکھائیں گے تمہیں
جھک کے پیار سے سر رکھ دیا جو کاندھے پر
درگاہ بھی مہرباں ہوگئی اپنے راندے پر
حلالہ لعنت ہے دورِ جاہلیت کی بڑی یاد گار
لعنت بھیجو اب کرائے کے سانڈھے پر
حرمت مصاہرت کے نام پر ڈھکوسلہ ہے
قربان جاؤ جاکے اب اپنے چاندے پر
وقت کے جو ظروف ٹوٹ گئے ان کی خیر
رحم کرو زندگی کے لمحات باقی ماندے پر
دین کے لاوزال اور بہترین احکام ہیں
اقتدار دیاں گل بات آندے جاندے پر
روس و امریکہ میں ہم سینڈوچ بن گئے
خدا را اب بوجھ مت لادو اپنے پانڈے پر
مشرقی روایت اور اسلام کا ہے حسین امتزاج
چھڈ دے ہونڑ نہ لکھ اپنی پوندی پاندے پر

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

پاکستانی امام مسجد کی پادری پوتی کا کینیڈا میں انٹرویو : بہت ہی جاندار تجزیہ کیساتھ
شہریار رضا عابدی، حافظ عبد الخالق بھٹی اور سلفی سپاہی کو جواب
اگر اسلام میں تصوف نہیں تو نماز میں چوتڑ اٹھا کر سبحان ربی اعلیٰ کی کیا ضرورت ؟