پوسٹ تلاش کریں

بہادربلوچ نوربی بی شیتل بانوک نے بہت بڑاانقلاب کردیا

بہادربلوچ نوربی بی شیتل بانوک نے بہت بڑاانقلاب کردیا اخبار: نوشتہ دیوار

مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی توکوئی بات نہیں

ایک طرف تہمینہ شیخ نے اس بات کو مسترد کیا ہے کہ بلوچ عورت کسی غیر مرد کیساتھ بھاگ گئی تھی اور پھر شوہر نے اس کو معاف کردیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں کوئٹہ کی رہائشی تھی۔ میرا بچپن کوئٹہ میں گزرا۔ میرا والد 72 سال کا ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو گھر چھوڑنے کی دھمکی پر لاہور منتقل ہوگئے۔ میرے والد نے بتایا کہ کوئٹہ کے 70سال پہلے بھی حالات یہی بدامنی کے تھے۔ ہم پنجابی ہیں اور ہم سب پاکستانی ہیں۔ پنجاب میں پھر بھی عورت کو آزادی ہے اور میں بلوچ قوم کی تعریف کرتی ہوں اور ان کے پردے کا نظام اچھا لگتا ہے اور بلوچ دوسروں کی بہ نسبت زیادہ پابند اور عزت دار ہیں جو کہانی بعد میں بنائی گئی ہے میں نہیں مان سکتی ہوں۔

جبکہ وقت اپڈیٹ پر احمد کاشف کے تأثرات بالکل مختلف ہیں اور سندھ اور بلوچ قوم کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے کہیں پڑھا کہ مسجد کو ہاتھ لگانے سے نکاح ہوجاتا ہے اور ان کے بڑے بڑے بچے ہوتے ہیں اور نکاح نہیں ہوتا۔ شیتل بانو نے پہلا شوہر چھوڑ دیا اور اس کے نکاح میں تھی۔ پھر دوسرے سے نکاح کیا یا نہیں؟۔ پہلے نے خلع دی یا نہیں؟۔ دوسرے کے ساتھ بغیر نکاح کے رہی۔ پھر جب پہلے کے پاس آئی تو ایک بچے سے اس کا حلالہ کروادیا۔ تم لوگ شکر کرو کہ پنجاب میں ہو بلوچ اور سندھی قوم کی جہالت فرعون اور دورِ جاہلیت کی طرح ہے اور احمدکاشف عربی زبان پر بھی عبور رکھتا ہے جس کاایک دوسرے ولاگ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک عورت نے عربی کی عدالت میں اپنا مقدمہ درج کیا کہ میں اس کے نکاح میں تھی اور اب یہ مجھے اپنا حق نہیں دیتے۔ جب شوہر اور سب لوگوں نے گواہی دی کہ یہ اس کی بیوی نہیں ہے تو قاضی نے کہا کہ ”میں گاؤں میں فیصلہ سناؤں گا”۔ پھر وہاں پوچھا کہ گھر کہاں ہے؟۔ بتایا کہ قریب ہے۔ پوچھا کتے ہیں؟۔ بتایا کہ ہاں کتے ہیں۔ قاضی نے کہا کہ عورت گھر جائے گی ،اگر کتوں نے بھونکا تو عورت جھوٹی ہے لیکن اگر کتے مانوس تھے تو پھر تم سب جھوٹے ہو۔ ان سب کی حالت خراب ہوگئی اور کتے نہیں بھونکے تو قاضی نے عورت کو اس کا حق دلوایا اور گاؤں والوں سے کہا کہ تم سب سے کتا اچھا ہے۔

سوال یہ ہے کہ عورت کا نام نور بی بی، شیتل ،بانو اصل میں کیا ہے ؟ تو نور بی بی کے شہور کا نام بھی نور تھا اسلئے شیتل کہتے ہوں گے اور بانوک بلوچ عزت سے کہتے ہیں جیسے بانوک کریمہ ۔اسلئے بانو سمجھ لیا ہوگا۔

اب اصل کہانی کیا ہے؟۔ جس کے تانے بانے آپس میں ملانے سے بھی نہیں ملتے ہیں؟۔ نور محمد سے خلع لیا اور احسان اللہ سے نکاح ہوا۔ پھر احسان اللہ سے جدائی ہوئی اور پھر حلالہ کرنے کے بعد نور محمد نے وہ بچوں کی خاطر پھر قبول کرلی۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ حلالہ کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر کیسے حلالہ کردیا؟۔ ہوسکتا ہے کہ خلع کے بعد کسی نے کہا ہو کہ احسان اللہ سے بھی طلاق ہوگئی ہے تو اب آپ شادی کرلو۔ اور نور محمد نے کہا ہو کہ اب یہ مجھ پر تین طلاق ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ خلع اور دوسری جگہ نکاح اور طلاق کے بعد تین طلاق دینے سے تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ علماء کے نزدیک تو دس جگہ نکاح کے باوجود بھی سابقہ شوہر طلاقوں کا مالک رہتا ہے۔اسلئے طلاق بھی ہوسکتی ہے اور حلالہ بھی اور پھر رجوع بھی ہوسکتا ہے۔

اگر معاملہ جوں کا توں رہتا تو مسئلہ نہیں تھا لیکن ایک طرف عورت کو اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے اور طعن و تشنیع سے بچانے کیلئے نور محمد نے کوئٹہ منتقل کردیا ہو اور دوسری طرف احسان اللہ سے یہ معاہدہ ہوا ہو کہ نکاح کے بعد اس نے دوبارہ اس علاقہ میں نہیں آنا ہے اسلئے کہ اس کا بچوں اور عورت کے خاندان والوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ احسان اللہ کی سمجھ میں یہی بات آئی ہو کہ جب اس نے طلاق دیکر چھوڑ دیا اور عورت اپنے شوہر کے پاس دوبارہ چلی گئی تو مجھ پر پابندی نہیں بنتی ہے۔

آپس میں دھمکی اور طعنوں تک بات پہنچی ہو۔ احسان اللہ سے اس کے خاندان نے لاتعلقی کا اعلان پہلے کیا ہو۔ شیتل کے بھائی نے قتل کی دھمکی دی ہو تواحسان اللہ نے کہا ہو کہ پہلے اپنی بہن کو قتل کرو لیکن معاملہ عزت پر ہاتھ ڈالنے کا نہیں محض طعن وتشنیع کا ہو۔ احسان اللہ کے قبیلے نے کہا ہو کہ اگر تم احسان اللہ کو قتل کروگے تو ہم تجھے بھی قتل کریں گے۔

نوربی بی بانوک شیتل نے کہا ہو کہ میرا بھائی احسان اللہ کو قتل کرے اور بدلے میں بھائی قتل ہو تو میں خود کشی کرتی ہوں یا خود کو قتل کیلئے پیش کرتی ہوں۔ دونوں قبائل نے طعن وتشنیع اور آئندہ قتل وغارت گری اور دشمنی کا راستہ روکنے کیلئے ان دونوں کے قتل پر اتفاق کیا ہو اور سردار نے بھی اس کی توثیق کردی ہو۔ خالی طعن وتشنیع سے بچنے کیلئے دوافراد کے قتل کو چھپانے کیلئے کہانی کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہو۔

ایک عورت خلع لے اور پھر دوسرے سے نکاح کے بدلے دونوں کو علاقہ بدر ہونا پڑے تو یہ ممکن ہے۔ عمران خان نے ریحام خان سے جو نکاح کیا تھا وہ بھی دو مرتبہ تھا۔ ایک مرتبہ محرم کے عاشورے میں جس کو اپنے اہل تشیع ورکروں ،ہمدردوں اور محبت کرنے والوں سے چھپا دیا۔ وہ پہلے سے بھی بچوں کی ماں اور میڈیا میں کام کرنے والی عورت تھی مگر جب اس کو طلاق دیدی تو ریحام خان کو دھمکیاں ملیں کہ پاکستان واپس آئی تو قتل کردیںگے اور یہ اس وقت کی خبروں کا حصہ ہے۔ ریحام نے کہا تھا کہ پختون ہوں اور گولی سے نہیں ڈرتی۔ اگر وہ عمران خان کے کسی مخالف سیاستدان مولانا فضل الرحمن، زرداری یا شہباز شریف سے شادی کرتی تو پاکستان ڈیگاری بلوچستان بن سکتا تھا۔

سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے مقابلے میں پنجاب کا مزاج تھوڑا بہت مختلف ہے لیکن جب پرویزمشرف کی جلاوطنی کے بعد شہباز شریف اور غلام مصطفی کھر اور نوازشریف ایک ساتھ بیرون ملک سے آئے تھے تو پنجاب کے ایک جیالے صحافی اطہر عباس نے شہباز شریف اور غلام مصطفی کھر کے درمیان ایک رشتے کا بہت سخت طعنہ دیا تھااسلئے کہ تہمینہ کھر کو بہت پہلے طلاق دی گئی تھی اور شہباز شریف نے اس کے ساتھ نکاح کیا تھا۔ عمران خان میں پھر میانوالی پنجابی پٹھان کا امتزاج تھا اور اس کی ماں بھی پنجاب کی برکی مگر نسلی اعتبار سے وزیرستانی قبائل سے تعلق رکھتی تھی۔ معاشرے کی اصلاح کیلئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔

ایک کہانی ”گاؤں کا چوہدری مجھے رکھیل بناکر رکھتا ہے ”۔ثمینہ کی مجاہد نایاب نے MN Point پر بیان کی ہے جو ہزار گنا شیتل بانونک کی کہانی سے زیادہ مظلوم ہے اور 7بار نکاح اور رکھیل اور کسی کے نکاح میں ہونے کا الزام لگاتی ہے جس کا ایک 4سالہ بچہ بھی ایک شوہر کے پاس رہ گیا ہے۔ کیا کسی کو انصاف ملنے کیلئے ویڈیو بناکر موت کے گھاٹ اتارنا ضروری ہے تب اس کو انصاف ملے گا؟۔ جبکہ دوسری طرف وقت Waqt Update پر احمد کاشف نے ”بانو آخری وقت میں کس کی بیوی تھی؟” کے عنوان سے ولاگ میں سندھی اور بلوچ سماج پر جو شرمناک الزامات لگائے ہیں وہ بھی دیکھنے کے قابل ہیں۔ ثمینہ اور شیتل کی کہانی کا موازانہ کرکے بڑا فیصلہ دینا بھی ضروری ہے۔

پورے ملک میں جس طرح کے حالات ہیں۔ پنجاب اور پشاور میں باپ کا بیٹیوں سے زیادتی پر ولاگ موجود ہیں اور اسکے علاوہ دن میں کئی چینلوں پر مختلف کہانیاں شائع ہوتی ہیںاگر ہم نے اصلاح احوال کی طرف توجہ دینے کے بجائے تعصبات کو بھڑکایا تو پھر اللہ کی عدالت میںہماری حیثیت جانوروں سے بھی بدتر ہوگی۔ اوکاڑہ میں سرعام بدکاری کو فروغ دینے والے میاں بیوی جنہوں نے بچیوں کا بھی خیال نہیں رکھا۔

فوجی کالونی راولپنڈی میں یتیم سدرہ کا دوسری جگہ نکاح پر گلا دباکر قتل کرنا اور چھپاکر دفن کرنا ایک ایک ولاگ بہت بڑا المیہ ہے۔ پشاور میں تین بھائیوں کا بیرون ملک سے آنے کے بعد قتل اور تیرہ خیبر ایجنسی میں مظاہرین کی شہادت اور فوج کی طرف دنبوں کی نیناواتی سے لیکر ایکسیڈنٹ میں مرنے والوں تک ایک ایک چیز المیہ ہے لیکن شیتل بانو کی بہادری نے جو شہرت حاصل کی یہ اس کے نصیب کی بات ہے۔ اس حوالہ سے کچھ اہم ترین اقدامات کی بہت ضرورت ہے۔ سیاسی ، ریاستی اور معاشرتی معاملات جس بے چینی سے بڑھ رہے ہیں اور ایک ایک واقعہ جس طرح کا دلخراش ہے تو کون کس کو کیا ذمہ دار ٹھہرائے؟۔ کون ہے جو ان معاملات سے خود کو بری الذمہ کہہ سکتا ہے؟۔

کنزہ فاطمہ ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ کزن سے رشتہ طے ہوگیا۔ جب اس کے ماں باپ ان کے گھر پر گئے تو انہوں نے انکار کردیا۔ پھر بھی اس کا کزن اصرار کررہاتھا اور گھنٹوں مسلسل تشدد کے بعد اس کو شہید کرکے اس کی لاش سڑک پر پھینک دی۔ دن میں کتنے چینلوں پر کیا کیا خطرناک واقعات رپورٹ ہوتے ہیں لیکن ہمارے کان پر جوں نہیں رینگتی ہے اور ڈھیٹ بن گئے ہیں۔ جس اسلام نے عورت کو تحفظ دیا تھا تو اس کا سارا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ جب عورتوں پر معاشرے میں رحم نہیں ہوگا تو کیا اس ملک کی عوام اور حکمرانوں پر اللہ رحم کرے گا؟۔

میں نے کئی کتابیں لکھ دیں۔ اخبار میں بہت مضامین لکھ دئیے ہیں اور بہت سارے مسائل کا قرآنی آیات میں واضح حل بتایا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی حالت ٹھیک ہوجائے گی بلکہ مغرب کی خواتین سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں بھی اسلام کے نفاذ پر متفق ہوجائیں گی۔ قرآن کی ایک ایک آیت اور اللہ کا ایک ایک حکم ہدایت کی روشنی پھیلانے کیلئے زبردست ہے لیکن جب علماء ومفتیان کا نصاب تعلیم ہی درست نہیں ہوگا تو پھر کس کو کیا ہدایت مل سکتی ہے؟۔ لوگ سوشل میڈیا پر کمائی اور عوام میں اپنا مقبول بیانیہ پیش کرنے کیلئے بہت کچھ کرتے ہیں لیکن قرآن کی طرف توجہ نہیںہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

مولانا سرفراز صفدر کاپوتامولاناعمار: وکیلاں دی کڑی ٹانگے والے نال نس گئی اے
بہادربلوچ نوربی بی شیتل بانوک نے بہت بڑاانقلاب کردیا
ضربِ حق کی تدبیر