پوسٹ تلاش کریں

گاندھی انگریز کے دلال تھے۔ بھارتی ہندو جج

گاندھی انگریز کے دلال تھے۔ بھارتی ہندو جج اخبار: نوشتہ دیوار

اکبر بادشاہ انڈیا کے بابائے قوم ہیں۔ مارکینڈے کاٹجو کا انٹرویو

چیف جسٹس مارکینڈے کا زلزلہ برپا کرنے والا زبردست انٹرویو۔تاریخی حقائق کو سمجھو اور اپنے خطے کو سازشوں سے بچاؤ!

السلام علیکم! میں ہوں سجاد پیزادہ۔ 24نیوز ڈیجیٹل ۔ انڈیا کی تین ہائی کورٹس کی چیف جسٹس رہنے والی مشہور شخصیت انڈین سپریم کورٹ کے سابق سینیئر جج ، چیئرمین پریس کونسل آف انڈیا رہنے والے جسٹس مارکنڈے کانجو۔ ہمارے پروگرام میں بہت بہت خوش آمدید جسٹس کالوجی !

جسٹس مارکنڈے: تھینک یو تھینک یو السلام علیکم!

سوال: بہت شکریہ کہ آپ نے ہمارے لیے وقت نکالا اگست 1947میں آزادی کا اعلان ہوا آپ کی عمر کتنی تھی سنا ہے کہ آپ علامہ اقبال کے گیت سن کر بڑے ہوئے۔
جواب: میری پیدائش ستمبر 1946 تو اگست 1947 میں میں11مہینے کا تھا، اس وقت کی کوئی یادداشت ہوتی نہیں کسی میں۔ علامہ اقبال کے شاعری بہت ہی پسند ہے۔

سوال: کاجو جی تقسیم میں بستی کی بستیاں اجڑ گئیں لوگ ادھر سے ادھر آئے کیا آپ کا خاندان متاثر ہوا تھا اور آج کے پاکستان کے کسی شہر میں بڑوں کی کوئی یادیں ہیں؟۔
جواب: میرے دادا جی کے والد انڈیا کی چھوٹی اسٹیٹ جاوڑا میںرہتے تھے ، دادا کو 10 سال کی عمر میں ایجوکیشن کیلئے لاہور بھیجا۔ وہاںاچھی ایجوکیشن نہیںتھی ۔جبکہ لاہور تو بہت ایجوکیشنل اور کلچر سینٹر رہا تو وہاں قریب 1900 سے 1906تک میرے دادا ڈاکٹر کیلاش ناتھ کانجو لاہور میںپہلے رنگ محل ہائی سکول ہے وہاں ایجوکیٹ ہوئے پھر فارمین کرسچن کالج میں ہوئے پھر BA ڈگری کے بعد LLBکرنے کیلئے وہ الہ آباد آگئے۔ میرا خاندان ایسٹرن یو پی کے شہر الہ آباد میں رہتا تھا۔ پیدا ہوا لکھنؤ میں مگر میری پوری پرورش الہ آباد میں ہوئی۔

سوال: آپ کے بڑوں کا مغل کورٹ سے تعلق تھا مغل ہندوستان میں عدالتیں تھیں وہاں کسی جگہ وہ تعینات تھے۔
جواب: میں تو ہوں کشمیری پنڈت مگر میرے پرکھے پنڈت منشا رام کانجو1800میں جاوڑا اسٹیٹ تو وہاں نواب تھے ان کے کورٹ میں ان کو سروس ملی کیونکہ ہم لوگ کشمیری پنڈت اردو اور فارسی کے بڑے ماہر تھے۔

سوال:گاندھی نے پینٹ کوٹ اتار کے دھوتی پہننا شروع کی ، نوجوانی میں شہر چھوڑا اور گاؤں جا کر بسے تاکہ عام آدمی کا درد محسوس کر سکیں۔ تو کیا آپ مہاتمہ گاندھی سے امپریس ہیں؟، کیا آپ ان کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں؟۔
جواب: میں گاندھی کوتو برٹش ایجنٹ مانتا ہوں یہی شخص بٹوارے کا ذمہ دار تھے۔ وہ بٹوارا سب سے بڑا سانحہ ہوا۔

سوال:آپ کے فادر آف دی نیشن ہیںگاندھی جی تو آپ ان کا کہہ رہے ہیں کہ وہ برٹش ایجنٹ تھے۔
جواب: دیکھئے بیوقوفوں کیلئے میں تو ذمہ دار ہوں نہیں اگر یہ بٹوارا نہ ہوتا تو ہندوستان یونائیٹڈ انڈیا انڈر سیکولر ماڈرن لیڈر شپ آج جوائنٹ بن جاتا جیسے چائنہ ہے۔ گاندھی ایجنٹ تھے برٹش کے ان کی وجہ سے بٹوارا ہوا۔

سوال: آپ سمجھتے ہیں کہ اگر گاندھی مسلمانوں کو انکے حقوق مل جاتے تو آج یہ خطہ کسی اور شکل میں نظر آتا۔
جواب: حقوق کا مطلب جانتے ہیں آپ؟۔ دیکھئے 14اگست کو آپ یوم آزادی منارہے ہیں۔15اگست کو ہندوستان منا رہا ہے مگر میں نے کہا میں نہیں مناؤں گا کیونکہ اصل آزادی ہے غربت ،بے روزگاری ،بھوک سے حفظان صحت کے فقدان سے آزادی یہ ملی ہے لوگوں کو؟۔ تو یہ فرضی یوم آزادی ہے۔ ہم بیوقوف ہیں کہ15 اگست کو سیلیبریٹ کریں جب ملک آزاد ہی نہیں ہوا ہے۔ آزادی ہوتی ہے اکنامک آزادی ۔ جناح کو مانتے ہیں بابائے قوم قائد اعظم یہ سب ۔ ہم لوگ کہتے ہیں فادر آف دی نیشن۔ آپ سوچیے بٹوارے میں کئی 10لاکھ لوگ کتنے بے رحمی سے قتل ہوئے ہندو مسلم ۔20 سوں لاکھ لوگ گھر سے بھگائے گئے قتل ہوا مشکلات ہوئیں یہی لوگ ذمہ دار تھے۔

سوال: تین بڑوں میں کس کو سب سے بڑا لیڈر مانتے ہیں بادشاہ اکبر، مہاتما گاندھی یا قائد اعظم محمد علی جنا ح کو؟۔
جواب: گاندھی بدمعاش لوگ تھے ان کی وجہ سے بٹوارا ہوا جس سے کتنا نقصان ہوا آج تک ہم لوگ …

سوال: فادرآف دی نیشن کون ہے پھر انڈیا کا؟۔
جواب: جرنلسٹ خود بولو۔ حوصلہ رکھئے بتارہا ہوں۔ بادشاہ اکبر کو مانتا ہوں کیونکہ جو پالیسی کا نام تھا ”صلح کل” یعنی سب مذہب اور کمیونٹیز کو برابر عزت دو جس کی وجہ سے مغل امپائر اتنا لمبا 300سال چلا ، سب کو ساتھ لے کے چلتا تھا۔ مغل بادشاہ اکبر کی کورٹ میں ہندو بڑے بڑے عہدے پہ تھے جیسے راجا ٹوڈر مل ہو آپ سمجھئے فائنانس منسٹر آف دی مغل امپائر،سارا فائنانس کنٹرول کرتے تھے، مان سنگھ بہت گریٹجنرل تھے سب کو برابر عزت دی گئی تو اسی کو میں فادر آف دی نیشن مانتا ہوں ، ہماری بیوقوفی ہے کہ گاندھی کو فادر آف دی نیشن مانتے ہیں، کتنا نقصان کیا ہندوستان کا، ہم بھی کتنے بڑے گدھے ہیں95%۔ اتنا نقصان کیا کہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں بے روزگاری

سوال: دنیا مانتی ہے فادر آف دی نیشن۔ گاندھی کے سر میں دماغ نہ تھا کیا آپ نے تو برٹش ایجنٹ ان کو بنا دیا۔
جواب: دیکھئے ایک وقت تھا دنیا مانتی تھی کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے یہ جیو سنٹرک تھیوری پوری دنیا مانتی ہے پھر ایک آدمی نے کہا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے یہ ہے ہیلو سینٹرک تھیوری۔ 1523 میں اس نے لکھا تو یہ کہنا کہ دنیا مانتی ہے، یہ تو کوئی بات نہیں۔ اکثر ہوتا ہے کہ ایک آدمی صحیح بول رہا ہے ساری دنیا غلط بول رہی ہے ۔

سوال: مہاتما گاندھی کا مقام کہاں دیکھتے ہیں؟۔
جواب: میں نے بتایا نا کہ انگریزوں کے دلال تھے۔ انگریز وںکی جو پالیسی ڈیوائڈ اینڈ رول تھی، ان کی وجہ سے بٹوارا ہوا ہے۔ گاندھی جی آئے تھے انڈیا1915 میں اس سے پہلے 20سال وکالت کی تھی ساؤتھ افریقہ میں۔ 1915سے1948 تک جب ان کا قتل ہوا لگاتار ان کی تقاریر اور آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں جو گورنمنٹ آف انڈیا پبلی کیشن ہے۔ عوامی تقریروں میں وکالت کرتے ہیں ذات پات کا نظام خود گائے کے تحفظ کی وکالت کرتا ہے۔ ہمیں گائے کو بچانا ہے اور ہندو نظریات کی باقاعدگی سے تبلیغ۔ اب اس کا کیا اثر ہوگا ایک عام مسلمان کے دماغ میں۔ عام مسلمان ایسی جماعت کا ممبر ہوسکتا ہے جس کا لیڈر یہ کہہ رہا ہے۔ کانگریس دانشوروں کی پارٹی تھی، اکثریت ہندوؤں کی تھی تو گاندھی نے سوچا کہ ہندوؤں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے مذہب کا استعمال کرنا چاہئے تو مذہب کا استعمال کیا۔ مذہب سے حمایت تو ملی مگر صرف ہندوؤں کی۔ مسلمان اس جماعت میں کیسے شامل ہوسکتے تھے؟۔ وہ مستقل اپنی تقاریر میں ہندو مذہب کی تبلیغ کرتے تھے۔ بڑے مشہور انڈیا کے وکیل ایچ ایم سیروائی کی کتاب کا نام ہے ”Partition of India Legend and Reality” یہ نوٹ کرلیجئے۔ اس میں لکھا کہ گاندھی کی تقاریر براہ راست تقسیم کی طرف لے جاتی ہیں۔
1917کے آس پاس جناح سیکولر اور محب وطن تھے اورکانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے رکن تھے۔ گاندھی نے کانگریس میں ہندو خیالات کااظہار کیاتو ناراض ہوگئے اور انگلینڈ گئے۔ انہوں نے کئی سال انگلینڈ میں وکالت کی۔ انگریزوں کی پالیسی یہ تھی کہ ہندوستان کومتحد نہیں رہنے دینا۔ اگر یہ متحد رہا تو یہ ایک جدید صنعتی یونٹ بن جائے گا۔

سوال: آپ سے مزید ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ان کی کوئی ایک خوبی بتا دیجیے۔
جواب: 1917ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ سیکولر اور محب وطن تھے۔

سوال: سیکولر کا مطلب کیا ہے؟۔
جواب: سننے کا حوصلہ رکھیں۔ سیکولر کا مطلب ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ سیکولر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنے مذہب کو پریکٹس نہیں کر سکتے بے شک آپ اپنے مذہب کو پریکٹس کر یں ہندو ہوتو مندر جائیے مسلم ہو تو مسجد جائیے۔ مگر مذہب نجی معاملہ ہے۔ ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ریاست کا مذہب نہیں ہوگا۔ سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو اپنے مذہب پر چلنے کا حق نہیں ہوگا۔

سوال: برطانیہ نے آزادی ہند ایکٹ منظور کیا جس پر 15اگست کو ہندوستان تقسیم ہوا، 10لاکھ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور لاکھوں عورتوں کا ریپ ہوا ہزاروں اٹھا لی گئی تو اس میں آر ایس ایس کے غنڈوں کا کتنا کردار تھا ؟۔
جواب:دوسرے مذاہب کیخلاف نفرت پھیلانا تھا۔ یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کا حصہ تھے۔ 1857 سے پہلے فرقہ وارانہ مسئلہ نہ تھا ہندوستان میں اور کوئی مذہبی فسادات 1857سے پہلے نہیں ہوئے۔ ہندو اور مسلم ایک ساتھ رہتے تھے بھائی بہن جیسے ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرتے تھے ۔1857میں ہندو مسلم مل کے لڑے انگریز سے۔ پھر انگریزوں نے سوچا کہ ہندوستان کو کنٹرول کرنے کا تو ایک طریقہ ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ تو ساری فرقہ واریت شروع ہوئی 1857سے ۔

سوال:یہ کیا بات ہوئی کہ 15اگست کو تو اعلان ہو گیا کہ تقسیم ہوگی لیکن تقسیم کے دو دن بعد 17اگست کو اعلان ہوا کہ فلاں علاقے ہندوستان میں آگئے فلاں پاکستان میں۔ یہ کیا تھا کیا یہ انگریز کی چال تھی کہ اس کے بعد بہت بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی لوگوں آپس میں لڑ پڑے۔
جواب: انگریزکی چال تھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے۔ دیکھیں انگریز جن ملکوں کو چھوڑتے تھے چونکہ قوم پرستی کی تحریکیں شروع ہو گئی تھیں تو وہاں پہلے تقسیم کر تے پھر چھوڑ دیتے تھے جیسے کہ آئرلینڈ میں تحریک آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی جسکے مغرب میں انگلینڈ ہے۔ تو انگریزوں نے اس کو تقسیم کیا چھوڑنے سے پہلے شمالی آئرلینڈپروٹسٹنٹ اور جنوبی آئرلینڈ جسے آئرش جمہوریہ کہتے ہیں کیتھولک۔ پھر سائپرس ایک آئرلینڈ ہے تو اس کو نارتھ اور ساؤتھ میں تقسیم کیا چھوڑنے سے پہلے وہ بھی مذہب کے نام پر۔ انڈیا کا بھی ایسے ہی تقسیم کیا۔ اسرائیل میں 95% لوگ پہلے عرب تھے تو اس کو پہلے اسرائیل بنایا اور دوسرا جارڈن بنایا۔ وہ بھی مذہب کے نام پہ۔ اسرائیل میں یہودی رہیں گے اور جو عرب تھے ان کو مار پیٹ کر بھگا دیا۔ پہلے 95% عرب اسرائیل میں ابھی 20% ہیں تو باقی 75%فیصد کہاں گئے؟۔ عورتوں بچوں کو مار ڈالا گیا یا بھگا دیا گیا۔ گالا میں ہیں یا ویسٹ بینک یا جارڈن میں ہیں یا لبنان میں۔

 

مارکنڈے کے انٹرویو پر تبصرہ

برطانوی ہند کو آزاد کرنے سے 3ماہ پہلے عرب خلیجی ممالک کو ہندوستان سے انتظامی اعتبار سے جدا کیاگیا۔ 1971ء میں وہاں سے نکلا۔ ہندوستان کو تقسیم کیا۔ عوام کو بے وطن اور بے آبرو کیا۔ ہم نے انگریزی نظام کا ڈھانچہ بدلنا تھا مگرمزید خراب کیا۔ کبھی کوئٹہ ژوب اور راولپنڈی سے بنوں، ٹانک اور مرتضی گومل تک ریلوئے لائن تھی وہ بھی ہم کھاگئے بھوکے کہیںکے۔ مارکنڈے ، لتا حیا اور ندی شرما جیسے لوگ غنیمت ہیں اور اپنی دشمنیاں ختم کرنی ہوں گی۔ لاکھوں فیلڈمارشل عاصم منیر ، ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان کی ماں کی رشتہ داریاں بھارت میں ہیں اور ہندوستان میں لاکھوں ہندو سکھ ہیں جن کا تعلق پاکستان سے ہے تو آپس میں نفرت نہیں محبت بنتی ہے انگریز گیا مگر ہماری نفرتیں ختم نہیں ہوئیں کتوں کی طرح لڑتے ہیں۔

جب تقسیم ہند کے باوجود بردہ فروشی کا دھندہ ہے تو اگر میدان وسیع ہوتا تو مزید مشکلات بڑھ جاتیں۔ جو کچھ ہوا تو اس میں خیر تھی لیکن آئندہ تجارت اور انسانیت کیلئے یورپی یونین اور عرب امارات کی طرح مضبوط اتحاد اور آمد ورفت کا ماحول قائم کرنا ہوگا، پنجروں کی جگہ آزادی کا ماحول سبھی کیلئے نفرتوں کا عذاب ختم کرنے کیلئے ضروری ہے۔


 

پاکستان کا وجود کفار کی وجہ سے قائم ہے۔ ارشد محمودمصنف دانشور
حوریں اور تنہا عورت

شہریار وڑائچ:ہیلو ویورز! ہمارے ساتھ ایک بڑے ہی مشہور اور لیفٹسٹ اور مصنف دانشور سکالر جناب ارشد محمود ہیں ۔ لندن میں ایک دریا کے کنارے ہیں ارشد صاحب سب سے پہلے ویلکم!۔السلام علیکم!
ارشد محمود: وعلیکم السلام آج بڑا اتفاق ہے ہماری ملاقات لندن میں ہورہی ہے ہم لاہور میں بیٹھا کر تے تھے۔
شہریار:آپ کی کتاب پاکستانی معاشرے کے گٹھن میں بہشت میں تنہا عورت یہ کانسپٹ ذہن میں آیا کیسے؟۔یہ کیسے آپ نے سوچ لیا ؟۔
ارشد محمود: جنت میں حوریں ہوں گی۔ مسلمان عورت ہماری بیویاں ، بہن بیٹیاں ، مائیں ہو سکتی ہیں تو مجھے لگا کہ وہاں یہ زمینی عورت بڑی اجنبی سی ہوگی ۔ہم تو وہی مرد حوروں کی ہوس کے مارے ہوئے ۔ عبادتیں ظاہر حوروں کیلئے کی ہیں ان کیلئے تھوڑی کی کہ پھر یہی ملے ہم کو ؟۔

سوال: پاکستانی معاشرے کی پکچر کس طرح ہے؟۔
جواب: افسوسناک نہ صرف ایک جگہ فکری، تہذیبی لحاظ سے کھڑی بلکہ آنے والا 14اگست 77سال ہوئے کہ ہم نے پیچھے کا سفر کیا گرنے کا ۔ انگلینڈ ترقی یافتہ دنیانئی چیزیں ایجاد کر رہے ہیں۔ ان کی ایکٹیوٹیز ہیں پاکستانی معاشرہ مذہب کے تنگ سے دائرے میں پھنس چکا ہے۔

سوال: قیامت کا ہمارا کانسپٹ ہے دنیا سے تعلق نہیں تو پھرکیسے کہہ رہے ہیں کہ ہم بیک ورڈ جا رہے ہیں؟۔
جواب: پاکستان کے تمام نوجوانوں اور پیرنٹس کی یہی لگن ہے کہ بچے مغربی ملکوں میں جائیں اور ہماری دنیا ہماری زندگی اسلام یا مذہب کے مطابق ہو۔یہ تضاد ہے ۔

سوال: بطور مسلمان پہلا حق ہے تو حرج کیا ہے ؟۔
جواب: دنیا میں جنہوں نے مادی ترقی کی چین جاپان ویسٹرن کنٹری یورپ جس نے ترقی کی اس کا دین چھوٹ گیا وہ سیکولر مذہب سے دور ہو گئے۔ پاکستانیوں کو سمجھ نہیں کہ اب کرنا کیا ہے ۔ پاگل بنایاہماری اسٹیبلشمنٹ ، ہماری سٹیٹ نے روکاہے ۔ پاکستانیوں کی یہ خواہش کہ ہمارا ملک خاندان ، اولادیں خوشحال ہوں، وہ باہر یونیورسٹیوں میں پڑھیں تو مطلب ہمارا دل کہیں اور ہے دماغ کہیں اور ہے پاکستانیوں کا۔ تو اس چکر میں پاکستان رکا ہے اور جو چیز رک جاتی ہے توہ بدبودار متعفن ہو جاتی ہے ۔

سوال:تو اس متعفن ،کرپٹ معاشرے کا ذمہ دار؟۔
جواب :علماء کہتے ہیں کہ دین سے دورہیں اسلئے زیادہ کرپٹ ہیں ۔پاکستان اسلام کے نام پہ بنا ،قائد اعظم نے کہا مدینے کی ریاست ماڈل ہے۔ آئین اسلامی ، قوانین اسلامی۔ ہر حرام چیز پر پابندی ،اسلام کیخلاف کوئی قانون ممکن نہیںمسجدیں مدرسے مولوی ماشااللہ 86% نمازیں پڑھنے والی قوم مسجدیں بھری ہوتی ہیں، ہمارے بچپن میں مسجدیں خالی، ابھی تو ماشااللہ لوگ دکانیں بند، ریڑیاں چھوڑ کے مسجد جاتے ہیں۔ ہم خاصے بنیاد پرست ہیں، تمام پالیسیاں کفار کے خلاف ہیں پوری پاکستانی سوچ اور اسکا دماغ ۔ اس سے بڑا عشق کیا ہو سکتاہے کہ بندہ مذہب کی خاطر قتل کر دے۔ مقبول نعرہ سر تن سے جدا ہے حالانکہ کتنا وائلنٹ ہے ٹوٹلی آج کی تہذیب سے یہ میچ نہیں کرتاہے لیکن ہمارے ہاں کوئی اسکے خلاف بولتا نہیں۔

سوال: ہمارے خلاف مغرب سازشیں کرتا ہے؟۔
جواب: یہ ساری ہم نے چیزیں بنائی ہیں۔ پاکستان کا وجود ہی کفار کی وجہ سے کھڑا ہے ۔امریکہ کی وجہ سے ہے دیکھو نا اگر امریکہ نہ چاہے توآدھا 50-40سال پہلے ٹوٹ گیا ،کوئی انٹرنیشنل سازش کرے توہم کچھ نہیں کر سکیں گے ، پاکستان کا وجود قائم ہی عالمی طاقتوں کی وجہ سے ہے، پاکستان تسلیم شدہ ملک ہے اس کو کوئی خطرہ نہیں۔ ہمارا بڑا فائنانشل مددگار، سکیورٹی فورسز ہمیشہ امریکن اسلحے سے لیس ہماری ایکانمی انٹرنیشنل فائنانشل سیٹ اپ ہے ہمارا ملک ڈالروں کا ہے تو سازشیں کون کررہا ہے ہمارے خلاف ہے تو یہ چیزیں گلی محلے کی ہیں یہ علم و دانش کی چیزیں نہیں ہیں۔

سوال: آپ بچتے ہیں پاکستانیوں سے وجہ کیا ہے؟۔
جواب: میں آتا ہی سانس لینے ،آکسیجن مل جائے، خوبصورت، صاف ایماندار اسٹریٹ فارورڈ لوگ ہیں۔ لڑکیاں نیم برہنہ، مولوی کی نظر سے بے حیائی لیکن کتنا پاکیزہ ماحول ہے۔ کوئی کسی کو بری نظر سے نہیں دیکھ رہا، اتنا بڑا جرم بنا دیا ،عورت کو سب سے پہلے محفوظ کیا، کسی کو ہراس نہیں کر سکتے ۔ ہم تو برقعے والی کو بھی نہیں چھوڑتے دیکھنے سے ۔کوئی آلودگی نہیں ، کپڑے اورہوتے،شوز گندے نہیں ہوتے ۔کئی روز کے بعدشوز پالش کریں۔

سوال:اسی لئے ہم کہتے ہیں صرف ایک کمی ہے صرف اسلام قبول کر لیں باقی سب کام اسلام والے کرتے ہیں۔
جواب: یہ جو مغرب کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسلام کے اصول ان کے پاس ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ جن کو کافر جہنمی کہتے ہیں جو دوزخی ہیں ان کو آپ کہہ رہے ہیں کہ سارا اسلام انہوں نے نافذ کیا ہوا ہے تو یار یہ تو بڑی عجیب بات ہے کسی ایک جگہ پہ تو یار قائم دائم رہونا یار۔


 

غزہ کے منافق دشمن۔ ارشد محمود مصنف دانشور سے انٹرویو

شہریار وڑائچ: فلسطین پر UK کے اندر بھی بہت بڑی تعداد ہے جو روز گرفتار ہو رہی ہے احتجاج بھی کر رہی ہے لیکن منع نہیں ہو تی۔ ارشد صاحب کا موقف مختلف ،آپ فلسطین کے مخالف کیوں ہیں ؟۔
ارشد محمود : فلسطین کیا میں کسی انسان کا مخالف نہیں ہو سکتا ہوں یہ اانسانی مسئلہ ہے ۔ ہم پاکستان کے ماحول کا ذکر کرتے ہیں تو بطور مسلمان ہم یہود دشمن ہیں ، نفرت رکھتے ہے یہودیوں سے عقیدے کے طور۔ اب ان سے ہمیں کیا توقع ہے ۔یار یہ تو ہے ہی نیچ یہ تو ہے ہی ظالم یہ تو ہے ہی جتنا بھی برا ان کو کہہ سکتے ہیں ہم کہیں گے۔ پرو فلسطینی موقف جو پاکستان کا ہے۔ رائٹ لیفٹ ایک جیسا جماعت اسلامی، لبیک ،جمعیت علماء میں کوئی فرق نہیں ۔ لیفٹ لبرل مذہبی اور غیر مذہبی سارے فلسطین کیساتھ ہیں اور اسرائیل کی مذمت کرنی اس کو نسل پرست اورفاشسٹ کہنا اس کو صیہونی یہ ٹرمیں بنائی ہوئی ہیں اس کو یہ صیہونیت ہے تو ایک نفرت کے مختلف لیبز ہیں۔

سوال:جب اتنے ہزاروں لوگ اور بچے مارئیے تو۔
ارشد محمود: اچھا ٹھیک ہے، فلسطینی مظلوم اسرائیل ظالم ہے۔ اب سوال ہے کہ 1948میں یہ تنازعہ ہے اب تک تقریبا پاکستان جیسی عمر ہے ۔ظلم ہو گیا، بچے مر گئے عورتیں مرگئیں بڑے مرگئے کیا یہ بچے پہلی دفعہ مرے ہیں؟، یہ 1948سے مر رہے ہیں ٹھیک ہے نا ۔ اس شور شرابے سے فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہوا ؟۔ کیا تبدیلی آئی ؟،کیا وطن مل گیا بچے مرنے سے بچ گئے؟، مجھے کوئی فائدہ کوئی چیز بتائیں۔ قیامت تک میں کہوں گا، سو سال بعد بھی یہی کہہ رہے ہوں گے بچے مر گئے، اسرائیل ان کو مار رہا ہوگا یہ ان پہ حملے کر رہے ہوں گے یہ دہشت گردیاں کر رہے ہوں گے۔

سوال: جب وہ مار رہا ہو تویہ ظلم نہیں لگتا کہ اگر ہم کچھ کر نہیں سکتے تو ہم کیا ایک مظلوم کے حق میں بولیں بھی نہیں۔
ارشد محمود: میرے سننے والے ہیں شاید سمجھ سکیں میرا گھر ہے ، میرے ماں باپ کا کوئی گھر تھا انہوں نے قبضہ کیا ہو۔ بڑے طاقتور، بدمعاش، دولت والے ہیں میں ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہوں ۔ انکے ساتھ میں پنگا کروں گا تو یہ میرے بچوں کو مار دیں گے۔ تو ہرگز پنگا نہیں کروں گا میں کیوں راہ چلتے میں انہیں انگل دوں ، گھر میں پتھر پھینکنے دوں، گالی گلوچ دوں ۔اگر اپنے بچوں کو کہوں کہ کنکریاں مارو۔ تو جواب میں وہ میرے بچوں کو قتل کر دیں گے تو میں تو کبھی اپنے بچوں کو مروانے پہ راضی نہیں ہوں گا۔ یہ فلسطینی 1948سے 78سال سے بچوں کو مروا رہی ہیں مسلسل مروائے چلے جا رہے ہیں اور ان کی صحت پہ اثر نہیں ہوتا ساری دنیا دکھ کا، غم کا اور ظلم کا اظہار کرتی ہے۔ میں ہوں سولیوشن سائٹ کی طرف۔ میں ایک امن پسند آدمی ہوں۔ اگر میرا حق جاتا رہے لیکن زندہ رہوں اور میری میرے بچے زندہ رہیں تو میں تو اس طرف جاؤں گا۔ میں نہیں چاہوں گا کہ میری زندگی ہلاکتوں میں گزرے۔ مرنے مارنے پہ گزرے میری نسل در نسلیں لڑتی اور مرتی رہیں۔ آپ لوگوں کا قبائلی ذہن ہے، نسل در نسل مروانے والے جو فلسطینیوں کو سپورٹ کر رہے ہیں، ان کو مرواتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ شاباش لڑتے رہو مرتے رہو اسرائیل پہ حملے کرتے رہو، لوگ اٹھاتے رہو۔ یار ایک دن میں 1200لوگوں کا ایک فنکشن میں میوزک کنسرٹ ہورہا تھا ، ان کا قتل عام کر دیتے ہیں یہ کوئی چھوٹی سی بات ہے ؟، 300لوگ جن میں بچے عورتیں اور بوڑھے ہیں ان کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اگر یہ تماشے کرتے رہیں لڑتے رہیں مرتے رہیں آپ اسرائیل کا ماتم کرتے رہیں۔ اسرائیل کا ماتم کر کے 70-80 سال اس کا کیا بگاڑا لیاہے؟۔ وہ کمزور ہوا ہے 70-80 سال سے مجھے آپ یہ بتائیں ۔ہاں ناں تو کریں نا۔ کمزور ہوا ہے کہ طاقتور ہوا ہے؟۔

شہریار وڑائچ: وہ تو طاقتور ہی ہوا ہے۔
ارشد محمود: فلسطینی نے اپنی کچھ انچ زمین لے لی، یا جو پاس تھا وہ بھی کھو دیا بلکہ کمزور ہوئے ہیں۔ یہ 7اکتوبر آج سے ڈیڑھ دو سال پہلے غزہ جیتا جاگتا کوئی جگہ تھی نا، انکے ا سکول تھے، ہاسپٹل بھی، لائف ہوگی، ہزاروں لاکھوں فلسطینی زندہ ہوں گے، ماں باپ بچے اپنے بچوں کیساتھ پیار سے رہ رہے ہوں گے نا۔ تو آج وہی غزہ کی حالت ہے دیکھ لیں تو پایا کیا؟۔ یہ مستقل تنازعہ ہے۔ میرے مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ مستقل تصادم کو زندہ رکھ رہے ہیں وہ 800سال میں بھی پورا نہیں ہونا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ ستمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

40ہزار طالبان مئی2022ء میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو لائے
گاندھی انگریز کے دلال تھے۔ بھارتی ہندو جج
غزوۂ ہند سندھ اور پنجاب میں ہوگا۔ مولانا سید سلمان ندوی