پراوین سا ہنی انڈین دفاعی تجزیہ نگار
اکتوبر 4, 2025

میں ان تعلقات کی بات کر رہا ہوں جو عالمی اور علاقائی جغرافیائی سیاست کو متاثر کرتے ہیں۔ آج پاکستان کے امریکہ کیساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کیسے ہیں اور روس کیساتھ کس نوعیت کے ہیں؟۔ پاکستان چین تعلقات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیا بخوبی واقف ہے۔ یہ بھی بتاں گا کہ تینوں عالمی طاقتوں کیساتھ بیک وقت غیر معمولی اسٹریٹیجک صورتِ حال کے نتیجے میں پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ پہلے ان تین عوامل کو واضح کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے پاکستان کو اس بلند مقام تک پہنچایا کہ وہ تینوں طاقتوں سے بیک وقت حکمتِ عملی کی سطح پر بات کر سکتا ہے۔ پہلا پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، دوسراآپریشن سندور۔ دنیا بالخصوص امریکہ نے دیکھا کہ پاکستان نے روایتی جنگی صلاحیت کتنی مضبوطی سے منوائی اور فضائیہ نے مرکزی کردار ادا کیا، تیسرا پاکستان کے چین سے وقت کی ہر آزمائش پر پورے اترنے والے دیرینہ اور مستحکم تعلقات، جو عالمی سیاست کے اتار چڑھا کے باوجود ہمیشہ قائم رہے۔
اب میں پاکستان اور ٹرمپ انتظامیہ کے تعلقات پر آتا ہوں۔ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں انہی سے لین دین کرتا ہوں جو مجھے پسند ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پسند آئی، کیونکہ انہوں نے دو ایسے اقدامات کیے جو ٹرمپ کے مزاج کے مطابق تھے۔ پہلا پاکستان کی قیادت نے کھلے عام اعلان کیا کہ فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کے کئی جنگی طیارے مار گرائے اور بھارت کی طرف سے اس کی تردید نہ آئی۔ اس سے ظاہر ہوا کہ” آپریشن سندور” شدید جنگ تھی۔ دوسرا پاکستان نے جنگ بندی کا سہرا صدر ٹرمپ کے سر باندھا۔ ٹرمپ کی نظر میں یہ بڑی کامیابی تھی کہ دو ایٹمی ریاستوں کے درمیان جنگ بندی ممکن ہو سکی۔ٹرمپ خود کو”دورِ امن کے صدر”کے طور پر دیکھنا چاہتاہے۔ اسی لیے وہ بارہا اپنی تقاریر میں جنگوں کو ختم کرنے کی بات کرتارہاہے۔ اس کیلئے پاکستان کی یہ پوزیشن نہایت موزوں ہے کہ وہ خطے میں امن قائم کرنے میں ان کا شریک ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی فوجی صلاحیت کو مشرقِ وسطی میں استحکام کیلئے وسیع کردار دیا گیا۔ یہ ٹرمپ کی خواہش تھی اور پاکستان نے دکھایا۔ اسی لئے پاکستان اور سعودی عرب نے باہمی دفاعی معاہدہ کیا، پہلی بار چین شامل ہوا۔ چین، سعودی عرب اور پاکستان نے مشترکہ فوجی مشق ”وارئیر نائن”میں شرکت کی۔
واضح ہے کہ چین بھی اتنا ہی خوش ہے جتنا ٹرمپ، کیونکہ مشرقِ وسطی میں پاکستان کی وسیع فوجی موجودگی سب کے حق میں ہے۔ سعودی عرب نے معاہدے کے بعد ایران کو اعتماد میں لیا اور ایران اس سے مطمئن نظر آیا۔ ایرانی صدر نے اقوامِ متحدہ میں کہا کہ وہ خطے کے مسلمانوں کے تعاون سے جامع علاقائی سیکیورٹی سسٹم تشکیل دینا چاہتاہے، جس میں پاکستان کی فوجی صلاحیت کو شامل سمجھا گیا۔اسی تناظر میں ٹرمپ نے آٹھ اسلامی و عرب ممالک سے ملاقات کی ۔اپنی ”اکیس نکاتی امن منصوبہ” پر بات کی۔ پاکستان بھی شامل تھا۔ پاکستان کی قیادت کو وائٹ ہاس مدعو کیا گیا تاکہ خطے میں اس کے کردار پر مزید بات ہو۔ وہاں تین بڑے امور پر بات ہوئی: مشرقِ وسطی میں استحکام، ایران، اور بگرام ایئربیس۔ پاکستان نے بگرام پر تعاون سے انکار کیا۔ جس پر چین، روس، ایران اور پاکستان نے مشترکہ بیان دیا کہ بیرونی فوجی اڈے کو افغانستان میں قبول نہیں کیا جائے گا۔یہ واضح ہے کہ ٹرمپ نے مشرقِ وسطی کے استحکام میں پاکستان کو کلیدی کردار دیا۔
اب آتے ہیں پاکستان روس تعلقات پر۔ ان تعلقات کو کم سمجھا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تیزی سے دو سطحوں پر پروان چڑھ رہے ہیں۔ پہلی سطح عالمی نظامِ حکمرانی جس میں روس اور چین مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسری سطح براہِ راست دوطرفہ تعلقات۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے صدر پیوٹن سے ملاقات کی جس میں پیوٹن نے کہا کہ پاکستان ایشیا میں روس کا اولین شراکت دار ہے۔ افغانستان میں استحکام اور توانائی منصوبوں پر بھی بات ہوئی۔ آج پاکستان کے تینوں طاقتوں سے تعلقات ہیں۔ نتیجے میں اسے زیادہ ”رسائی ”اور”پکڑ”حاصل ہوئی۔ رسائی کا مطلب پاکستان کے سیاسی و معاشی روابط اب جنوبی ایشیا سے آگے وسطی ایشیا، مشرقِ وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا تک پھیل گئے ہیں۔ جبکہ ”پکڑ”کا مطلب پاکستان کی فوجی صلاحیت اب ان خطوں میں اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
پاکستان نے درست قدم یہ اٹھایا کہ اس نے اپنے آپ کو نئے عالمی نظام کیساتھ جوڑ لیا ہے جسے چین اور روس آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور روس کو پاکستان کے امریکہ کیساتھ تعلقات سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ان کا وژن ”شراکت داری” پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کی پالیسی ہر چار سال بعد بدل جاتی ہے، جبکہ چین اور روس کی پالیسی مستقل مزاج اور ادارہ جاتی سوچ پر قائم رہتی ہے۔لہٰذا آج پاکستان ایک مضبوط مقام پر کھڑا ہے کیونکہ اس نے صحیح وقت پر صحیح انتخاب کیا ہے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ