مسلمان سے عیسائی بننے کاسفر ؟ اور مسلمانوں کیلئے اس میں بڑی عبرت اور اصلاح کا عظیم سبق!
اکتوبر 31, 2025
سوال :جمان قویسمی، آپ کبھی غزہ میں حماس کے ایک رکن سے شادی شدہ تھیں۔
جمان: جو کچھ اسکے بعد ہوا، وہ ایک ایسی کہانی ہے جس پر یقین کرنا سننے کے بغیر مشکل ہے۔
سوال: شروع کرنے سے پہلے، میری دوست، میں جاننا چاہتا ہوں کہ بچپن میں عیسائیوں اور یہودیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے تھی؟۔
جواب:اچھا، میں قطر میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی۔ میرے والد حماس کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔میرے والد اور والدہ نے ہمیں اسرائیل، یہودیوں، عیسائیوں بلکہ شیعہ مسلمانوں سے بھی نفرت کرنا سکھایا۔ہمیں بتایا جاتا تھا کہ جو بھی حماس سے تعلق نہیں رکھتا، وہ ہمارا دشمن ہے، اور ہمیں ان پر لعنت کرنی چاہیے!
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم واقعی عیسائیوں اور یہودیوں پر لعنت کرتے تھے،ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں قتل کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ قرآن یہی کہتا ہے۔میں جانتی ہوں کہ یہ پاگل پن لگتا ہے، مگر ہم واقعی اسلام پر اس طرح ایمان رکھتے تھے کہ تمام یہودیوں کو قتل کرنا ضروری ہے۔ ہمیں بتایاگیا کہ حضرت عیسی واپس آئیں گے تو وہ ہمارے ساتھ لڑیں گے، وہ صلیب کو توڑ یں گے، سور کو قتل کریں گے اور درخت اور پتھر مسلمانوں کو پکاریں گے:”اے مسلمان، میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے، آ ؤاور اسے مار دو۔”
اب سوچتی ہوں تو یہ سب کتنا جنون آمیز تھا۔
سوال:واہ تو آپ کے والد حماس کے بانی ارکان میں سے تھے۔آپ نے بعد میں غزہ میں ایک حماس کے رکن سے شادی کی۔آپ حضرت عیسی(یسوع )کو کیسے جاننے لگیں؟۔
جمان: اچھا، میں غزہ میں تقریباً تیرہ سال تک شادی شدہ رہی۔میری شادی2002میں ہوئی تھی اور میں اس وقت غزہ منتقل ہوئی۔2012 کے بعد میرے ذہن میں سوالات پیدا ہونے لگے کیونکہ میں نے دیکھاکہ حماس نے غزہ میں کیا کیا ۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کہا کہ وہ مساوات لائیں گے، لوگوں سے وعدے کیے، مگر کچھ بھی پورا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ فتح تنظیم سے نفرت کرتے ہیںجو حماس سے پہلے غزہ پر قابض تھی۔ انہوں نے عوام سے ووٹ مانگے، میں نے بھی حماس کو ووٹ دیا مجھے اس پر افسوس ہے، لیکن میں نے ایسا 2006-7 میں کیا تھا۔مگر انہوں نے غزہ کو پہلے سے بدتر بنا یا، اور فلسطینیوں کو ہی قتل کرنا شروع کر دیا۔انہوں نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ اگر آپ حماس سے تعلق نہیں رکھتے، تو آپ کو خوفزدہ رہنا چاہیے۔ میں سوچتی رہی، اور اسی دوران داعش کا ظہور ہوا، جو مسلمانوں کو بھی بڑی تعداد میں قتل کر رہی تھی۔ مجھے لگا کہ اس مذہب میں کچھ نہ کچھ غلط ہے۔
میں اسلام میں پلی بڑھی تھی لیکن میں کبھی خدا سے مطمئن نہ تھی۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ خدا مجھ سے ناراض ہے۔ مجھے کبھی یہ یقین نہ تھا کہ میں جنت میں جاؤں گی۔ ہمیشہ جہنم کا خوف رہتا اورقبر میں سانپوں کے عذاب کا تصور رہتا۔ اسلام ہمیں سکون نہیں دیتا، ہمیشہ یہ خوف رہتا کہ شاید میری عبادت قبول نہیں ہوئی، مجھے مزید کچھ کرنا ہے تاکہ خدا خوش ہو۔ اسی سوچ میں ایک شخص جو میرے قریب تھا میں اس کا نام حفاظتی وجوہ سے نہیں لینا چاہتی وہ لاادری ہے۔اس نے کہا کہ قرآن کو مذہبی عقیدت کے بغیر ایک عام کتاب کی طرح پڑھو۔ میں نے ایسا کیا تو دیکھا کہ قرآن میں زیادہ تر باتیں قتل و قتال کی ہیں، محمد کی کہانیاںہیں، مثلا جب اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کی۔ قرآن میں کہا گیا کہ اللہ نے آیت نازل کی کہ بیٹے کو کہو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے تاکہ محمد اس سے نکاح کر سکیں۔
مجھے لگا کہ قرآن کی یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔میں نے محسوس کیا کہ قرآن کا خدا حقیقی خدا نہیں ہو سکتا۔ یہ سب میرے لیے بے معنی تھا۔ مجھے اس کے بعد بھی یہ احساس ہوتا رہا کہ میں خدا کو نہیں جانتی۔ میں لاادری نہیں بنی تھی، مگر میں ہر روز دعا کرتی تھی کہ خدا، اگر توموجودہے تو میں تجھے جاننا چاہتی ہوں، تجھ سے ملنا چاہتی ہوں۔ میرے دل کے اندر یقین تھا کہ کوئی خدا ہے، میں یہ نہیں مان سکتی تھی کہ یہ کائنات بغیر کسی خالق کے ہے۔ میں دعا کرتی تھی اور جب میں نے خدا سے اپنے بچوں کی شفا کے لیے مانگا اور وہ بچ گئے ۔حالانکہ وہ موت کے قریب تھے تو مجھے یقین ہو گیا کہ خدا موجود ہے۔
میں نے2012 سے لے کر 2014 تک مسلسل دعا کی۔ 2014 میں جب حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی،تو میں نے ایک واقعہ دیکھا: اسرائیلی فوج (IDF) نے میرے سابق شوہر کو فون کیا اور کہا کہ اپنے پڑوسیوں کو اطلاع دو کیونکہ ہم ان کے گھر پر بمباری کرنے والے ہیں۔
میرے شوہر نے جواب دیا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔مجھے حیرت ہوئی کہ اسرائیل عام شہریوں کو خبردار کر رہا ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ انہوں نے کبھی اندھا دھند بمباری نہیں کی۔
اسی رات میرے پڑوسیوں کا گھر تباہ ہو گیا۔ میں بہت خوف زدہ تھی، مجھے لگا کہ اب میری موت قریب ہے۔ میں نے روتے ہوئے دعا کی: خدا، اگر تو موجود ہے، میں تجھے جاننا چاہتی ہوں، میں تیرا نام پکارنا چاہتی ہوں، مجھے بچا لے۔
اسی رات میں نے ایک خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنی والدہ کیساتھ بیٹھی ہوں میری والدہ کا انتقال 2005 میں ہوا تھا۔ہم دونوں بالکونی میں بیٹھے تھے ۔ چاند بہت بڑا اور روشن تھا، پھر وہ قریب آتا گیا۔ میری والدہ نے کہا، چاند کو دیکھو۔جب میں نے دیکھا تو چاند سے یسوع کا چہرہ ظاہر ہوا۔انہوں نے عربی میں مجھ سے کہا: انا یسوع۔یعنی میں خدا یسوع ہوں۔انہوں نے مجھ سے بات کی، اور مجھے یاد ہے کہ انہوں نے کہا:تم میری بیٹی ہو، خوف نہ کرو۔
جب میری آنکھ کھلی تو مجھے لگاکہ شاید یہ لمحہ صرف چند سیکنڈ کا تھا، لیکن کمرے میں روشنی سی پھیلی ہوئی تھی۔ مجھے لگا یہ کوئی خواب نہیں یہ حقیقت تھی۔ میں نے پہلے کبھی یسوع (یوشع) کا نام نہیں سنا تھا، کیونکہ قرآن میں انہیں عیسی کہا جاتا ہے۔ میں نے کبھی عیسائیوں سے میل جول نہیں رکھا تھا۔ میری ساری زندگی قطر کے اسکول، اسلامی مراکز، قرآن حفظ کی کلاسیں سب کچھ صرف اسلام کے گرد گھومتا تھا۔ میں نے کبھی کسی عیسائی سے نہیں سنا کہ وہ یسوع کے بارے میں بات کرے۔ مگر جب میں نے پہلی بار یشوعا کا نام سنا، تو وہ نام مجھے خوبصورت لگا۔ مجھے لگا کہ وہ خوبصورت خدا ہیں۔
میرے دل میں عجیب سا سکون اتر آیا۔زندگی میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے۔ کیونکہ میں نے اپنے خاندان سے بھی کبھی حقیقی محبت محسوس نہیں کی تھی، ان سے نفرت نہیں، محبت کرتی ہوں، لیکن مسلمان ہونے کا مطلب ہے ہمیشہ بے سکونی۔ ہمیشہ یہ احساس کہ خدا ناراض ہے۔ اس دن پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پر جا کر یشوعا کے بارے میں تلاش کیا۔ مجھے ایک مصری عیسائی کا صفحہ ملا۔ میں نے وہ صفحہ کھولا تو سب سے پہلا جملہ میرے سامنے آیا: اپنے دشمنوں سے محبت کرو۔ میں حیران رہ گئی کون کہتا ہے دشمنوں سے محبت کرو؟ قرآن تو کہتا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو قتل کرو یا انہیں جزیہ پر مجبور کرو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کہے اپنے دشمنوں سے محبت کرو؟
یہ تو بالکل نیا تصور تھا۔ میں نے اس صفحے پر پیغام بھیجا۔ منتظم مجھے آج تک نہیں معلوم وہ مرد تھا یا عورت ؟ مجھے بتایا کہ میں بائبل پڑھوںاور کہا کہ آج ہزاروں مسلمان خوابوں میں یسوع کو دیکھ رہے ہیں اور مسیحیت قبول کر رہے ہیں۔ اس نے کہا: تم پہلی نہیں ہو۔ مجھے اطمینان ہوا، کیونکہ مجھے لگا تھا شاید صرف میرے ساتھ ایسا ہوا ۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ یسوع کو دیکھنے سے پہلے، جب بھی میں سنتی کہ کوئی مسلمان عیسائی بن گیا ہے، تو میں سوچتی تھی کہ وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔ اور اب وہ میں خود تھی جس نے یسوع کو قبول کر لیا، اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ واہ، کیا حیرت انگیز گواہی ہے۔
سوال: واقعی قابلِ ذکر تجربہ۔ یسوع کی حمد ہو، زندہ باد بادشاہ یشوعا کی۔میں آپ کی بات سن کر جذباتی ہو گیا ہوں یہ گواہی بہت طاقتور ہے۔ ہمیں آپ کو دوبارہ پروگرام میں بلانا پڑے گا کیونکہ آپ کے پاس بانٹنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ اب چند مزید سوالات کرنا چاہوں گا۔ آپ نے بتایا کہ آپ کے والد حماس کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ان کا نام کیا ہے؟
جمان: ان کا نام ابو جعفر ہے۔ لوگ ابو جعفر کہتے ہیں۔ ان کا اصل نام محمد قواسمی ہے۔چونکہ میرے بڑے بھائی کا نام جعفر ہے، اسلئے لوگ میرے والد کو ابو جعفر قواسمی کہہ کر پکارتے ہیں۔
سوال: اچھا جب آپ نے نجات پائی،جب یشوعا آپ پر ظاہر ہوئے اور آپ کی زندگی بدل گئی، تو آپ نے اپنے سابق شوہر، جو حماس کا رکن تھا، اور اپنے والد، جو بانی رکن تھے، ان سب کو کس نگاہ سے دیکھا؟ آپ کا غزہ کے حالات کے بارے میں نظریہ کس طرح بدل گیا؟۔
جمان: دیکھیں، جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اسکے پیچھے سب کچھ حماس ہی ہے۔ حماس ہمیشہ مسائل پیدا کرتاہے۔ جب وہ خاموش رہتے ہیں، امن رہتا ہے۔ لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے، وہ اشتعال پھیلاتے ہیں۔ میں خود فلسطینی ہوں، میرے پاس فلسطینی شناختی کارڈ ہے، لیکن اب میںسمجھتی ہوں کہ یہ زمین درحقیقت بنی اسرائیل کو وعدے کے طور پر دی گئی تھی۔ میں نے بائبل میں یہ پڑھا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن میں کہیں فلسطین کا نام نہیں ۔اسے بنی اسرائیل کی سرزمین کہاگیا ۔لیکن ہمیں بچپن سے یہ سکھایا گیاکہ یہ ہماری زمین ہے اور ہمیں تمام یہودیوں کو یہاں سے نکال دینا ہے۔ لیکن میں نے اپنی دادی سے سنا کہ وہ اپنے یہودی پڑوسیوں کیساتھ امن اور محبت سے رہتی تھیں۔ یعنی کبھی ہم سب امن میں رہتے تھے۔ لیکن جب سے حماس نے فتنے شروع کیے، ہر بار جب امن قائم ہونے لگتا ہے، وہ اسرائیل پر راکٹ داغنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر اسرائیل جوابی کارروائی کرتا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا۔
مجھے یاد ہے 2008 کی جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ کی تعمیرِ نو کیلئے پیسہ بھیجا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ اگر امن رہا تو غزہ کو سنگاپور جیسا خوشحال بنا دیا جائے گا مگر حماس نے امن نہیں چاہا، انہوں نے تباہی کو ترجیح دی۔ انہیں لوگوں کے دکھ درد سے کوئی غرض نہیں، بس اقتدار اور طاقت کی ہوس ہے۔ میرے سابق شوہر اکثر اپنے رشتہ داروں سے بات کرتے ہوئے کہتے تھے: اب ہم ایک شہر کے نیچے دوسرا شہر بنا رہے ہیں۔ یعنی تمام پیسے جو عوامی تعمیر کیلئے آتے تھے، وہ زمین کے نیچے سرنگیں بنانے پر لگا دیتے تھے۔ انہوں نے عوام یا بچوں کیلئے کبھی پناہ گاہیں نہیں بنائیں۔ غزہ میں ایک بھی عوامی پناہ گاہ نہیں ہے، سب کچھ حماس کیلئے ہے۔ اب وہ انہی سرنگوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور عام شہریوں، عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔انہیں ہماری جان کی پرواہ نہیں۔ان کیلئے صرف ان کی طاقت اور اقتدار ہی سب کچھ ہے۔
سوال: آپ کی بات میں سچائی ہے، کئی بار بلانا پڑے گا کیونکہ آپ کی کہانی میں بہت کچھ ہے جو سمجھنے اور سیکھنے کے قابل ہے۔ اگر کوئی شخص یہ ویڈیو دیکھے، جس کااسلامی پس منظر ہے، اور اپنے ایمان کے بارے میں سوال کرنے لگا، یا پھر کوئی ایسا شخص ہے جو حماس کے بارے میں غلط تصورات رکھتا ہے تو آپ اس سے کیا کہیں گی؟ اس کیلئے آپ کا پیغام کیا ہوگا؟۔
جمان: میرا پیغام یہ ہے: اپنا دماغ استعمال کرنے سے مت ڈریے۔ سوچیے، سوال کیجیے۔ جو کچھ آپ کو بتایا گیا ہے، اسے اندھا دھند سچ نہ مان لیجیے۔ ہم سب سے بڑی غلطی یہی کرتے ہیں کہ جو بات ہمیں بچپن سے بتائی جاتی ہے، ہم اسے حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔ مگر ضروری ہے کہ انسان تحقیق کرے، تاریخ پڑھے، حقائق جانے، اور اپنے جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچے۔ یہ مت سمجھئے کہ حماس غزہ کی محافظ ہے۔ نہیں حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے سب سے بڑے دشمن خود حماس ہیں۔ حماس ظالم ہے۔ انہیں فلسطینیوں کی پرواہ نہیں۔ وہ صرف مارنے اور اقتدار میں رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انکے ذہن میں یہ عقیدہ بٹھایا گیا کہ اگر ہم قتل ہو جائیں تو جنت میں جائیں گے، جہاں بہتر حوریں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ چار یا پانچ سال کے بچوں کو قرآن یاد کرنے کے بہانے نفرت سکھاتے ہیں ۔ ہتھیار چلانا سکھاتے ہیں، انہیں یہود اور اسرائیل سے نفرت کرنا سکھاتے ہیں۔یہ بہت کم عمری سے شروع ہو جاتا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ آسان نہیں، کیونکہ جب آپ ایک خاص عقیدے میں پلتے ہیں، اور آپ کے والدین، خاندان سب اسی پر یقین رکھتے ہیں، تو سوال اٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
لیکن میرا مشورہ ہے خوف نہ کریں۔ سوچنے ، سوال کرنے سے نہ رکیں۔ اسلام میں سوچنے اور سوال کرنے کی اجازت نہیں۔ صرف فرمانبرداری کی توقع کی جاتی ہے۔ مگر خدا نے ہمیں دماغ اورسوچنے کی صلاحیت دی۔ اپنے روحانی احساس کے ذریعے سچائی تک پہنچنے کی دعوت دی ۔ میں خود اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں کئی بار جا چکی۔ لوگ پوچھتے ہیں: اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ امن کیسے ممکن ہے؟، میرا جواب ہمیشہ ایک لفظ ہوتا ہے یشوعا (یسوع)۔ کیونکہ وہی حقیقی امن دینے والا ہے۔ یسوع واحد راستہ ہیں۔ جس نے زندگی قربان کی تاکہ انسان گناہوں اور خوف سے آزاد ہو سکے۔ یہ صرف میرا عقیدہ نہیں یہ سچ ہے۔ یسوع واقعی مصلوب ہوئے، انہوں نے واقعی جان دی اور تیسرے دن زندہ ہوئے۔انہوں نے ہمیں گناہ اور موت سے آزاد کیا۔ میں جانتی ہوں کہ وہ آج بھی مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم خوف سے آزاد ہوں، اور سچائی کو پہچانیں۔ ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
بس اپنی نظریں یسوع پر جمائیں کیونکہ وہی راستہ ہیں، وہی سچ ہیں، اور وہی زندگی ہیں۔ ان جیسا کوئی نہیں۔آمین۔
ــــــــــ
جمان قواسمی کی حقیقت کیا ہے؟
یہ نہیں پتہ کہ جمان قواسمی کا کیا ماجراء ہے؟۔ اسکا سچ جھوٹ خدا کو معلوم ہے لیکن جب ہندوستان میں ایک بی بی کا شوہر گم ہوگیا تھا تو حنفی مسلک کے مطابق اس کو 80سال انتظار کا حکم تھا اسلئے اس نے اسلام چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے پھر مالکی مسلک سے چار سال انتظار کا فتویٰ ”حیلہ ناجزہ ”کتاب لکھ کر جاری کیا۔ جس میں یہ مسئلہ بھی لکھ دیا کہ ”اگر شوہر تین طلاق دیکر مکر گیا اور عورت کے پاس گواہ نہیں تھے تو خلع لے اور اگر خلع نہیں ملے تو حرام کاری پر مجبور ہے مگر جب شوہر جماع کرے تو وہ لذت نہ اٹھائے”۔
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
علامہ اقبال نے یہ زیادتی کی ہے۔ کیا ہندواور عیسائی حلالہ کی لعنت پر عورت کو اس طرح مجبور کرسکتے ہیں؟۔ پہلے یہود کی طرح حلالہ کی لعنت جاری کی اور اب 2%سود کے اضافے کو اسلامی بینکاری کا نام دے دیا؟۔ جس کی حیثیت ایسی ہے کہ جیسے بیٹوں سے ماؤں کا حلالہ کروایا جائے۔ علامہ اقبال یہ نہیں جانتا تھا کہ مولوی اس قدر حدود کو بھی کراس کریںگے اور ہمارا تاجر طبقہ پہلے حلالہ کرواتا تھا اور سودی حلالے پر خوش ہوگا۔
قرآن سورہ النساء میں اللہ نے عورت کو خلع کی اجازت دی ہے اور ساتھ میں مالی تحفظ بھی دیا ہے۔ جو ترقی یافتہ دنیا میں بھی اس پر کچھ نہ کچھ عمل ہے لیکن مسلمانوں نے خلع کے حق کا انکار کرکے معاملہ جبری جنسی زیادتی کو بھی شریعت کا نام دینے تک پہنچادیا ہے۔ حقائق آئیںگے تو ہٹ دھرم مولوی کے چوتڑ سے محض ہوا نہیں خارج ہوگی بلکہ شعلہ اوردھواں نکلے گا۔
اللہ نے خلع کی نسبت طلاق میں عورت کا زیادہ مالی حق رکھا ہے اسلئے اگر شوہر مذاق میں طلاق دے تو عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ مولوی نے طلاق رجعی کا جھوٹا تصور رکھ کر ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کی یکطرفہ جھوٹی شریعت جاری کی ہے اور دومرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کے غلط تصور سے شریعت اور قرآن وسنت اور انسانی فطرت کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق پر حادثاتی طور سے فیصلہ دے دیا ورنہ تو عیسائیوں کی طرح طلاق کا تصور بھی ختم ہوجاتا۔ لیکن دوسری طرف یہود کی طرح حلالہ کی لعنت میں مبتلا ء ہوگئے۔ 3 سو سال قبل اپنے عیسائیت سے بغاوت کرکے پروٹیسٹن نے اسلام کی طرح طلاق کی اجازت دی جسکے بعد برطانیہ کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور فرانس میں مذہبی طبقہ کے خلاف بغاوت ہوئی اور اٹلی میں رومن چرچ عجائب گھر بن گیا۔یہ اسلام ہی کی تو برکت تھی۔
اگر قرآن کے معاشرتی اور معاشی احکام کو دنیا کے سامنے رکھا جائے اور مسلمان اس پر خود عمل پیرا ہوں تو جمان جیسی کئی خواتین کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خواب میں فرمائینگے کہ اسلام کی طرف لوٹ جاؤ۔ نبیۖ نے طلاق شدہ وبیوہ سے نکاح کی راہ ہموار کرکے قیامت تک انسانیت پربڑا احسان کیاہے۔
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ