پوسٹ تلاش کریں

خدارا سنی اور جاوید غامدی حضرت عمر پر حلالہ کی لعنت جاری کرنے کی تہمت نہیں لگائیں

خدارا سنی اور جاوید غامدی حضرت عمر پر حلالہ کی لعنت جاری کرنے کی تہمت نہیں لگائیں اخبار: نوشتہ دیوار

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثة قروئٍ ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ والیوم الاٰخر وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجة واللہ عزیز حکیم (سورہ البقرة آیت228 )

” طلاق والی عورتیں خود کو انتظار میں رکھیں تین ادوار تک اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو اللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا اگر وہ اللہ اوریوم آخر پر ایمان رکھتی ہیں اور انکے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اور ان کیلئے بھی معروف حق ہے جیسا کہ ان پر ہے اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔

عورت کی عدت حیض آتا ہو تو تین ادواراور حمل ہو تو بچے کی پیدائش ہے۔ اور اگر نہ حمل ہو اور نہ حیض آتا ہو یا حیض میں گڑ بڑ ہو تو پھر تین ماہ کا اانتظار ہے۔ عدت میں عورت انتظار کی پابند ہے اور شوہر اصلاح کی شرط پر معروف طریقے سے باہمی رضا مندی کی بنیاد پر رجوع کرسکتا ہے۔ دورِ جاہلیت میں اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کا غیر فطری مذہب تھا اور دوسری طرف عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کی جہالت تھی۔قرآن کی آیات نے ان دونوں جہالتوں کو ختم کردیا۔ حضرت عمر کے دور میں پہلی بار ایک عورت تین طلاق کے بعد رجوع کرنے پر راضی نہیں تھی تو حضرت عمر نے عورت کے حق میں فیصلہ دیا ۔ کچھ نے طلاق بدعت کہا اورکچھ نے طلاق سنت ۔لیکن فیصلے کی روح کی طرف نہیں دیکھا کہ جب عورت راضی نہ ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ۔

حضرت علی کے دور میں ایک شخص نے بیوی کو حرام کہا جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو حضرت علی نے فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ ۖ نے ازواج سے ایلاء کیا۔ آیت226البقرہ میں طلاق کے عزم کا اظہار نہیں کیاتو عدت تین ماہ کی جگہ چار ماہ ہے اور جب نبیۖ نے ایک ماہ بعد اپنی ازواج سے رجوع کیاتو اللہ نے ان کو علیحدگی کا اختیار دینے کا حکم فرمایا۔تاکہ عورت کا اختیار واضح ہو۔طلاق کا عزم ہو تو پھر اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے اسلئے کہ عدت ایک ماہ بڑھتی ہے۔

وزیرستان کی آزاد منش عوام نے اگر قومی بنیاد پر فیصلہ کیا کہ البقرہ 222سے 237کے مطابق اور سورہ النساء 19اور 20و21کے مطابق عورتوں کو حقوق دینے ہیں جس میں ایک صحافی رضیہ محسود اور ایک ایازوزیر کی بیٹی کو علماء اور لکھے پڑھے طبقے کی کمیٹی میں شامل کیا جائے تو پاکستان وافغانستان، عرب و ہندوستان اور عالم انسانیت میں بہت بڑا انقلاب آجائے گا۔

روس اور اس سے آزاد ہونے والے ممالک میں طلاق کی قانونی عدت ایک سال ہے جس کے بارے میں امریکی جہاد کیلئے غلط پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ وہاں نکاح نہیں بلکہ جانوروں کی طرح والدین اور بہن بھائیوں کی حرمت ختم کی گئی ہے۔

قرآن خود بعض آیات کی بعض سے تفسیر کرتا ہے اور اس کی آیات میں کوئی بھی تضادات اور اختلافات بالکل نہیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیموھن شیئًا الا ان یخافا الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا و من یتعد حدوداللہ فاولٰئک الظالمون O سورہ البقرہ آیت:229)
ترجمہ :” طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو مگر یہ کہ جب دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے۔ اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں۔ یہ اللہ کی حدود ہیں تو ان سے تم تجاوز نہ کرواورجو حدوداللہ سے تجاوز کرے تووہی ظالم ہیں”۔

یہ آیت باہمی اصلاح یا صلح کی تفسیر ”معروف طریقے” سے کرتی ہے۔ جب معروف طریقے سے دونوں راضی ہوں گے تو پھر رجوع ہوسکتا ہے ورنہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ مسلک حنفی یہ ہے کہ ”اگر رجوع کی نیت نہیں ہے اور عورت پر عدت میں نظر پڑگئی اور شہوت آگئی تو رجوع ثابت ہوگیا ”۔ مسلک شافعی یہ ہے کہ ”اگر رجوع کی نیت نہیں ہو تو مسلسل جماع جاری رکھیں تو بھی رجوع نہیں ہوگا”۔ یہ معروف کے مقابلہ میں منکر ہے۔

دلوں اور دلالوں سے بے غیرتوں اور منہ کالوں سے کون یہ توقع رکھے کہ قرآن، معروف اور فطرت پرتوجہ دیںگے ؟۔ یہ مذہب سے پیٹ اور نفس پالتے ہیں اور بس!۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو جواز بخش دیا اور علماء نے پہلے سخت مخالفت کی اور پھر مقدس گائے کی دم پکڑلی کہ یہ ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ یورپ کے دورے پر نکلا ہے کہ اور صرف وہ لوگ مجلس میں شرکت کرسکتے ہیں جن کو کارڈ جاری ہوگا اور عوام سے خوف تھا کہ کوئی سوال پوچھ لیں تو؟ اسلئے سب کو روک دیا گیا۔

سورہ النساء آیت 19میں خلع کا ذکر ہے اور 20،21میں طلاق کا ذکر ہے۔ پہلے عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے اور اس کو مالی اور اخلاقی تحفظ بھی دیا ہے اور پھر مردکو طلاق کا حق دیا گیا ہے اور عورت کو خلع کے مقابلے میں زیادہ مالی حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے۔ مفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان کو بالمشافہہ بھی آیات کا درست مفہوم سمجھادیا تھا اور وہ مان بھی گئے تھے۔

آیت 230سے پہلے آیت 229البقرہ میں اللہ نے تین شرعی حدود کا ذکر کیا ہے۔ نمبر 1: عدت کے تین مراحل میں ہی تین مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔ پاکی کے ایام یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر پاکی کے ایام میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح تین مرتبہ طلاق کا امر کیا ہے اور تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ آیت واضح ہے کہ جب رجوع کرنا ہے تو معروف طریقے نہ کہ منکر طریقے سے۔ ایک شخص نے بنوں میں مولوی کے ذریعے زبردستی حلالہ کروایا اور پھر مولوی جیل بھی گیا۔ اگر آیت کا درست مفہوم معلوم ہوتا تو یہ بے غیرتی نہیں ہوتی۔ عورت راضی تو بغیر حلالہ کا رجوع ہے اور راضی نہیں تھی تو پھر حلالہ کے باوجود رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

نمبر2: دوسری حد یہ ہے کہ جب عدت کے تیسرے مرحلہ میں تیسری فیصلہ کن طلاق دیدی تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی عورت کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو۔ آیت229میں آیت230سے پہلے یہ بہت اہم حد ہے اور اسی کی وضاحت آیت20اور 21سورہ النساء میں بھی ہے۔

نمبر3: تیسری حد یہ ہے کہ تیسری فیصلہ کن طلاق کے بعد کوئی بھی دی ہوئی چیز واپس لینا حلال نہیں لیکن اگر دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔جس کا مطلب ہے کہ جدائی کے بعد شوہر کی دی ہوئی چیز رابطہ کا ذریعہ ہو اور جنسی تعلقات سے اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں تو عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں جس سے اس کی عزت ہی محفوظ ہوگی لیکن اس سے خلع مراد لینا عورت کا بدترین استحصال ہے جو کسی صورت میں مراد لینا انتہائی غلط ہے۔

اس آیت229میں معروف کیساتھ رجوع کی بھی بھرپور وضاحت کردی گئی اور احسان کیساتھ رخصت کرنے کی بھرپور وضاحت کرتے ہوئے مزید یہ بھی واضح کردیا کہ شوہر کیلئے دی ہوئی چیز واپس لینا حلال نہیں مگر اس صورت میں جب دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ پھر اللہ کی حدود کو دونوں ڈھبر ڈوز کردیں گے۔ جیسے خود کش فدائی حملہ کرتا ہے اسی طرح سے عورت سے وہ چیز واپس لینا اگرچہ حلال نہیں تھا لیکن عزت بچانے کیلئے اس چیز کو فداء کرنے میں حرج نہیں ہے۔

ایک شخص سے کہا جائے کہ میری جیب میں ہاتھ ڈالو لیکن اس کیلئے تین شرائط یا تین حدود ہیں۔ پہلی یہ کہ میں اندھا ہوں دوسری یہ کہ میرے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور تیسری یہ بھی کہ جب میری دونوں ٹانگیں ٹوٹ جائیں تو میری جیب میں سے وہ پیسہ نکال سکتے ہو جو تم نے مجھے دیا تھا۔ جب تک تینوں شرائط نہیں پائی جائیں گی تومیری جیب سے دئیے ہوئے پیسے واپس نہیں لے سکتے۔ اندھے ہونے کی صورت میں بھی اور پھر ہاتھ ٹوٹنے کی صورت میں بھی جب تک کہ ٹانگیں بھی نہ ٹوٹیں۔

یہی وہ صورت ہے کہ جس میں باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن شوہراس عورت کو اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتا۔ اس کی ایک مثال انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہتھے اور دوسری مثال برطانوی خاندان کا شہزادہ چارلس کی طلاق کے بعد لیڈی ڈیانا کا قتل ہے اور تیسری مثال ریحام خان کو طلاق دی تو تحریک انصاف کے کارکنوں نے پاکستان آمد پر قتل کی دھمکی دی اور چوتھی مثال خاور مانیکا جیسے بے غیرت انسان کا بشریٰ پر عدت کے نکاح کا کیس ہے۔ حالانکہ عمران خان بشریٰ بی بی کیساتھ شادی کے بعد عمرہ کی ادائیگی کیلئے بھی ساتھ گیا تھا۔

فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ( البقرہ :230 )” پس اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلالہ نہیں یہاں تک کہ کسی اورشوہر سے نکاح کرلے”۔
امام ابوحنیفہ کا مسلک اصول فقہ میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ فان طلقہا کا تعلق اس سے قبل متصل فدیہ سے ہے ۔ اسلئے کہ ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے (نورالانوار :ملا جیون)۔

حنفی مسلک کی یہ کتاب اور اصول الشاشی ہم نے حضرت مولانا بدیع الزمان سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھی تھی اور انہوں نے طلبہ کو تلقین کررکھی تھی کہ روزانہ قرآن کا ایک ایک رکوع ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ سمجھنے پر غور وتدبر کریں۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن کے بھی مولانا بدیع الزمان ہی استاذ تھے۔ بریلوی مکتب میں بھی اصول فقہ اور یہی حنفی مؤقف درس نظامی کا حصہ ہے۔

اگریہ حنفی مؤقف تسلیم کیا تو قرآن کی طلاق سے متعلق تمام آیات سیدھے سادے طلبہ کو بھی سمجھ میں آجائیںگی اسلئے کہ جب یہ فدیہ والی صورت نہیں ہو تو پھر آیت 228کے مطابق اکٹھی تین طلاق دی جائے یا مرحلہ وار عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی جائے تو پھرکسی صورت میں حلالہ کی ضرورت نہیں پڑے گی جب عورت رجوع کیلئے باہمی اصلاح سے راضی ہو۔ آیت229میں معروف طریقے سے رجوع کا یہی مطلب ہے کہ عورت راضی ہو۔ آیات 231 اور 232 البقرہ میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے اور یہی چیز سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں ہے ۔ افسوس کہ پیٹ کی خاطر منکر رجوع کی تشہیر ہورہی ہے مگر قرآنی آیات میں معروف رجوع کی جرأت نہیں کرتے ہیں۔

امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام جعفر صادق ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل پر حکمرانوں کی سختیاں تھیں لیکن اب حق پر کوئی ناجائز پریشر نہیںہے پھریہ کم عقلی ہے یا مفاد پرستی ہے ؟ اسلئے حقائق سمجھنے کے باوجود بھی لوگ ماننے کو تیار نہیں ہیں!۔
حنفی اصول فقہ کا مؤقف یہ ہے کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ سے مراد ”عورت کی خود مختاری اور آزادی” ہے۔ جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اس سے ”حلالہ ” مراد نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے کی آیات میںعدت کے اندر باہمی اصلاح اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے حلالہ کے بغیر بھی رجوع کی کھلی وضاحت ہے اور سورہ الطلاق کی پہلی دو آیات میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بغیر حلالہ کے رجوع کی کھلی وضاحت ہے۔

جب میں نے مولانا بدیع الزمان سے درسگاہ میں عرض کیا کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ سے مراد طلاق شدہ عورت ہے اور اس سے متصادم حدیث کو غلط پیش کیا گیا ہے کہ ایما امرأة نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاح باطل باطل باطل ” جس عورت نے بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے”۔حالانکہ آیت میں طلاق شدہ عورت کو مرضی کا مالک قرار دیا ہے اور حدیث سے کنواری مراد ہوسکتی ہے تو استاذ کا روشن چہرہ خوشی سے دمک اٹھااور فرمایا کہ ”جب اگلی کتابیں پڑھ لوگے تو مسائل کا حل نکالوگے”۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی کے پاس بھی سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ العالی ملاجیون کی کم عقلی کے لطیفے سنانے لگے ۔میرے بارے میں فرمایا کہ ”امام ابوحنیفہ وامام مالک جیسے درجہ کا ذہن رکھتا ہے ۔ایک دن تم طلبہ اس پر فخر کروگے کہ ہم نے عتیق کیساتھ پڑھا ہے”۔

محسود قوم میں حق مہر پر بحث ہے تواس سے بڑا مسئلہ حلالہ کی لعنت ہے۔ کچھ محسود منٹوں میںمعاملہ سمجھے ،کچھ گھنٹوں بعد بھی آمادہ نہ تھے۔ مولانا طاہر مسجدشین مینارٹانک، مولانا عصام الدین، ہاشم خان جانشین خیر محمد کا کا ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے محسود، برکی ،وزیر،بیٹنی، کنڈی ،گنڈاپور،مروت، مہاجرین، سرائیکی قائدین اور علماء کا جرگہ بلائیں تو انقلاب کا آغاز ہوگا۔
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

انقلاب کیلئے پیش خیمہ حقائق
شیعہ سنی، ایران سعودی، پاک افغان کشیدگی کا وہ حل جوبھارت، چین ، امریکہ، روس اوراسرائیل وفلسطین سب کیلئے بڑا آغاز ہوگا
خدارا سنی اور جاوید غامدی حضرت عمر پر حلالہ کی لعنت جاری کرنے کی تہمت نہیں لگائیں