پوسٹ تلاش کریں

شیعہ سنی، ایران سعودی، پاک افغان کشیدگی کا وہ حل جوبھارت، چین ، امریکہ، روس اوراسرائیل وفلسطین سب کیلئے بڑا آغاز ہوگا

شیعہ سنی، ایران سعودی، پاک افغان کشیدگی کا وہ حل جوبھارت، چین ، امریکہ، روس اوراسرائیل وفلسطین سب کیلئے بڑا آغاز ہوگا اخبار: نوشتہ دیوار

 

اکائی کے بارے میں سادہ زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ قطرہ، قطرہ سمندرہے یعنی پانی کی اکائی قطرہ ہے۔ پانی میں H2O دو ہائیدروجن اور ایک آکسیجن ایٹم ہیں۔ حضرت آدم وحواء سے ہابیل، قابیل اور شیث علیہ السلام تھے۔ نوح علیہ السلام کے بیٹے حام، سام، یافث تھے۔ مشرک، یہود و نصاریٰ کے دعویٰ کو قرآن نے جھوٹا کہا۔ ماکان ابراہیم یہودیًا ”نہیں تھا ابراہیم یہودی اور نہ نصرانی اور نہ وہ مشرکوں سے تھا”۔

ابراہم اکارڈ یہودی ، عیسائی اور عرب اسماعیل و اسحاق کی نسبت سے شروع کیا۔ بنی اسرائیل کے انبیاء اور محمد مصطفی خاتم الانبیائۖ ۔ یہ اکائی ہے۔ برصغیر پاک وہند اکائی تھی اور پھر پاکستان وبھارت میں تقسیم ہوا۔ علامہ اقبال کاترانہ آج بھارت پڑھتا ہے ”ساری دنیا سے اچھا ہندوستاں ہمارا”۔

1947کا پاکستان 1971 میں تقسیم ہوا۔اکھنڈ بھارت کا نظریہ ڈھاکہ سے کابل تک ہے۔ کشمیر متنازع تھا۔ ڈیورنڈلائن کو افغانی نہیں مانتے ۔ افغانستان ایران اور ڈیرہ اسماعیل خان ملتان کا حصہ تھا۔ دنیا میں زر، زمین اور زن کے نام پر لڑائیاں اور اکائیاں ہیں ۔دوسری جنگ عظیم 1945ء کے بعد جرمنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اورسویت یونین میں تقسیم ہوا۔ دو بلاک مشرقی ومغربی 1949ء بن گئے۔تقریباً30لاکھ افراد سویت یونین سے بھاگ گئے توباہمی اشتراک سے 1961ء دیوار برلن بنی۔جو1989میں توڑ دی گئی ۔ہمارے پاکستان کا خطہ ہزاروں سال کسی اور بر اعظم سے چل کر یہاں پہنچا اور قرآن میں واضح ہے کہ پہاڑ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ کبھی بادلوں کا چلنا واضح لگتا ہے اور کبھی ٹھہرے ہوئے لگتے ہیں۔

جب پاکستان بن رہا تھا تو ہندوستان کے مہاجرین نے اپنا وطن اور اپنے خاندان اور نسلیں قربان کردیں۔ پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچ اور سرائیکی اپنے وطن ، نسل اور زبان کی حساسیت کو سمجھتے ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت سب سے زیادہ تکلیف پنجابی بولنے والوں کو اٹھانی پڑی۔ اس طرح دوسرے صوبوں سے ہجرت کرنے والوں کے خاندان ٹوٹ کر تہس نہس ہوگئے اور جس ریاست کیلئے قربانی دی تو اس میں اسلام اور فلاح وبہبود اور آزادی کا تصور تھا۔ محلاتی سازشوں نے پاکستان کو ایک بڑی مثالی ریاست بننے سے روک دیا۔ لیکن آج اسلام کی آزادانہ تشریح کا راستہ کسی نے نہیں روکا ۔ کیا مشرقی و مغربی پاکستان صلح کریں تو حلالہ کرنا پڑے گا؟۔ ہرگز ہر گز نہیں!

مشرقی اور مغربی جرمنی اسلئے ایک ہوگئے کہ وہاں حلالہ کی لعنت کا تصور نہیں تھا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان میں حلالہ کا تصور ختم ہوگا تو دونوں پاکستان پھر ایک اور نیک ہوسکتے ہیں۔

وزیرستان واحد ایک ایسی سرزمین تھی جس پر کسی کی حکومت نہیں تھی۔ کرم ایجنسی پارہ چنار میں کابل افغانستان کا سرکاری پٹوار سسٹم تھا۔ جس کی باقاعدہ رجسٹریشن تھی۔ 1833ء میں افغان معزول بادشاہ شجاع درانی نے راجہ رنجت سنگھ کے ساتھ سرحدات کا معاہدہ کیا لیکن پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا تھا۔ انگریز نے افغانستان کو بفر زون بنایا تھا۔ ڈیورنڈ لائن معاہدہ1893 میں ہوا تھا اورلاہور کے پٹوار سٹم کے تحت جتنا علاقہ کرم سے باجوڑ تک افغانستان سے لیا تو اتنا واخان کا ناپ کردیا تھا تاکہ تاجکستان روس اور برطانوی ہند میں بفرزون قائم ہوجائے۔

امیر عبدالرحمن خان افغان بادشاہ برطانیہ سے سالانہ 18 لاکھ روپے گرانٹ لیتا تھا۔ اسکے بیٹے امیر حبیب اللہ خان کے قتل کے بعد اس کا پوتا امیرامان اللہ خان تخت پر بیٹھا، 1919 کو انگریز سے آزادی کا اعلان کیا۔ 1920ء میں ہندوستان سے 50ہزار سے زیادہ لوگوں نے ان کے بلاوے پر ہجرت کی ۔ مولانا احمد علی لاہوری اور عبدالغفار خان شامل بھی تھے۔ لیکن پھر آنے والوں کو ڈنڈوں اور گولیوں سے روکا گیا تھا۔

جب1947ء میں تقسیم ہند کا فیصلہ ہوگیاتھا تو باچا خان اپنا مؤقف واضح کررہے تھے کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر مت جاؤ ۔ ان کا پہلے بڑا تلخ تجربہ ہوچکا تھا۔ رسول اللہ ۖ نے یہود سے ہی میثاق مدینہ کیا تھا اورمشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تھا لیکن جب مسلمانوں نے میاں بیوی کے درمیان صلح کیلئے بھی حلالہ کو خراج بنالیا تو دوسری قوموں سے نفرت کیوں نہ بڑھتی؟ اور قرآن طلاق کے مقدمہ میں کہتا ہے کہ ”اللہ کو ڈھال مت بناؤ ، اپنے عہدوپیمان کیلئے کہ تم نیکی ، تقویٰ اور لوگوں میں صلح نہ کراؤ”۔( آیت224البقرہ) فلسطین و اسرائیل کی صلح میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے لیکن میاں بیوی کو ملنے نہیں دیا جاتا ہے اور یہ قرآن وسنت اور انسانی فطرت سے بالکل انحراف ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اور کوئی بستی نہیں ہے مگر ہم قیامت سے پہلے اس کو ہلاک کریں گے یا عذاب دیں گے سخت ترین اور یہ اللہ کے پاس کتاب میں لکھا ہوا ہے”۔ (الاسراء :58)

قرآن کے بعد تاریخ کے ہر موڑ پر مدینہ کے واقعہ حرہ اور عبداللہ بن زبیر کے وقت مکہ مکرمہ سے لیکر کہاں کہاں کیا کیا نہ ہوا؟۔ بنوامیہ کا بنوعباس کے ہاتھ اور بنوعباس کا چنگیزیوں کے ہاتھ سکوت بغداد ، جاپان کے شہروں پر ایٹم بم، افغانستان اور عراق کی تباہی موٹی موٹی مثالیں ہیں۔ غزہ کا قتل عام ہو یا پھر ڈیرہ اسماعیل خان کا سیلاب سے بہہ جانا ، بونیر میں پتھروں کا سیلاب اور آنے والے وقت میں کیا ہوگا؟۔ پہلی ،دوسری جنگ عظیم میں کتنے لوگ مارے گئے؟۔ یوکرین میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لبنان، شام اور یمن میں بڑی تباہیاں آئی ہیں۔ قرآن نے عورت کو خلع کا حق دیا اور مالی تحفظ بھی دیا لیکن مذہبی طبقات نے چھین لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو قرآن کو مانتا ہے عملی طور پر وہ مسلمان ہے یا نہیں مانتا وہ ہے؟ اور قرآن نے باہمی صلح سے رجوع کی اجازت دی ہے تو کافر مانتا ہے اور مسلمان نہیں مانتا ہے پھر مسلمان کون ہوا؟۔

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے پوچھا تھا کہ ”حق مہر” کی کیا حیثیت ہے؟۔ جو مفتی تقی عثمانی سے بڑے عالم تھے اورمفتی تقی عثمانی نے جواب دیا کہ ”یہ اعزازیہ ” ہے۔ حالانکہ حق مہر عورت کی سیکیورٹی اور انشورنس ہے ۔ وہ گھر سے کشتیاں جلاکر آتی ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی کوئی معین مقدار نہیں ہے لیکن یہ واضح ہے کہ مرد کی استطاعت کے مطابق عورت کو حق مہر ملے۔ عورت جب کسی سے نکاح کیلئے راضی ہوتی ہے تو اس کے مال واسباب کو دیکھتی ہے۔ بھلے اس کی شکل و صورت اور عمر کیسے ہی کیوں نہ ہو۔ مولانا محمد خان شیرانی نے 92سال کی عمر میں اگر شادی کی ہے تو عورت کسی فقیر کیلئے راضی کیوں نہیں ہوتی؟۔ پیپلزپارٹی کے تاج حیدر نے بھی بڑی عمر میں شادی کی تھی اور اس میں اسلامی قانون کے مطابق ایک ویلیو نکال کر حق مہر ہونا چاہیے۔غریب پر بوجھ ڈالیں گے تو شادی میں مشکل ہوگی مگر عورت کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

انقلاب کیلئے پیش خیمہ حقائق
شیعہ سنی، ایران سعودی، پاک افغان کشیدگی کا وہ حل جوبھارت، چین ، امریکہ، روس اوراسرائیل وفلسطین سب کیلئے بڑا آغاز ہوگا
خدارا سنی اور جاوید غامدی حضرت عمر پر حلالہ کی لعنت جاری کرنے کی تہمت نہیں لگائیں