پوسٹ تلاش کریں

انقلاب کیلئے پیش خیمہ حقائق

انقلاب کیلئے پیش خیمہ حقائق اخبار: نوشتہ دیوار

 

عشق ناپید و خرد میگردش صورت مار
عقل کو تابعِ فرمان نظر کر نہ سکا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا طالب علم تھا ،بوہری بازار صدر میں بونا اچانک بڑی مہارت سے سینے پر چڑھ گیا، میں دراز قد شرارت نہ سمجھ سکااور پٹخ دیا جوپڑاہوا شکایتی نظروں سے دیکھنے لگا ، شرمندہ تھا کہ اس کا اور میرا کیا مقابلہ؟۔ پھر پتہ چلا کہ بہروپیہ کئی لوگوں کا پیسہ اور چیخیں نکال چکا ہے۔ ہم نماز پڑھتے نہیں پٹختے ہیں اور کسی کے حلق سے ذوالخویصرہ کی طرح قرآن نہیں اُترتالیکن

نماز میری نماز ہے نہ وضو کوئی وضو آتی ہے انقلاب کی مسلسل کوئی خوشبو

آج گھر کے ماحول سے عالمی سطح پر دنیا جہاں کھڑی ہے اللہ خیر کرے یا تو پوری دنیا میں امن و امان کا قیام عمل میں آئے گا یا پھر گھریلو، معاشرتی، معاشی ، علاقائی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر عالم انسانیت کو بہت گھمبیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آدھی سے زیادہ دنیا غزہ کے ساتھ کھڑی تھی لیکن ان کے دکھ درد کا کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ افغانستان اور عراق پر جس قسم کے حالات گزرے، شام اور یمن کے لوگ جہاں سے گزرے اوریوکرین میں جو کچھ ہورہا ہے یہ حالات کسی پر بھی کسی وقت آسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی حد تک درست کوشش کرنی ہوگی کہ عالم انسانیت کو مشکلات سے نکالنے میں کردار ادا کریں۔

سکول ،تبلیغی جماعت،مدارس ،خانقاہ ،سیاست ،جہاد اور تنظیم سازی کے عمل سے مختلف ادوار میں گزرا۔ ضرور ت پڑی تواپنی جدو جہد پر ایک کتاب بھی شائع کروں گا۔ انشاء اللہ

میری چاہت ہے کہ مدارس کے نصاب کو تشکیل دیا جائے اور مختلف مکاتب فکر کی کمیٹی تشکیل دیں جو قرآن و احادیث کے حوالے سے اسلام کی درست تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے تدوین القرآن، تدوین الحدیث اور تدوین الفقہ کتابیں لکھی ہیں، بہت اہم معاملات کی نشاندہی بھی کی ہے مگر ان میں مسائل سلجھنے سے زیادہ الجھ گئے ہیں۔

مکینِ گنبد خضریٰ ۖفقط مرکز رشد وہدایت، منبع انوارِحق ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے مسائل کا حل بھی ہے۔

مشکوٰة میں ایک حدیث ہے کہ ”ایک عورت دونوں ہاتھوں اور پیروں سے ناچ رہی تھی تو رسول اللہۖ اور صحابہ کبار نے نظارہ دیکھا، حضرت عمر کی آمد پر عورت بھاگی تو نبیۖ نے فرمایا کہ ”عمر سے شیطان بھاگتا ہے”۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے نبی ۖ کا ذاتی طرزِ عمل نہیں دیکھا بلکہ عمر سے شیطان کے بھاگنے پر توجہ دی۔ حالانکہ دونوں چیزوں میں اعتدال تھا۔

عن عائشہ دخل ابوبکر و عندی جاریتان من جواری الانصار تغنیان بما تقاولت الانصار یوم بعاث قالت ولیستا بمغیتین فقال ابوبکر امزامیر الشیطان فی بیت رسول اللہ ۖ، و ذلک فی یوم عیدٍ فقال رسول اللہۖ یا ابابکر ان لکل قوم عیدًا و ھذا عیدنا

ترجمہ ” حضرت عائشہ نے کہا کہ ابوبکر میرے گھر میں داخل ہوئے ۔ میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گارہی تھیں جو انصار نے بعاث کے دن گائے۔یہ گانے والیاں نہ تھیں۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ رسول اللہ ۖ کے گھر میں یہ شیطانی باجے ؟۔ اور وہ عید کا دن تھا۔(صحیح بخاری کتاب العیدین۔ 3: باب سنة العیدین لاھل اسلام : مسلمانوں کیلئے عید کی سنت کیا ہے؟۔ حدیث952اور کتابی لحاظ سے7563) ۔

جاویداحمد غامدی نے غلط ترجمہ کیا کہ وہ انصار کی لونڈیاں تھیں اور لونڈیاں ہی گانے گاتی تھیں۔ حدیث میں واضح ہے کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں۔ ہرقوم کے کلچرل میں خوشی کے موقع پر جس طرح تقریبات ہوتی ہیں تو حضرت عائشہ جب صاحب اولاد بھی نہیں تھیں اور انصار کی لڑکیوں نے خوشی کے موقع پر اپنے ذوق کا مظاہرہ کیا اور حضرت ابوبکر نے اسلئے برا سمجھا کہ نبیۖ کے گھر میں تھا تو رسول اللہۖ نے اجازت دی اور ایک اعتدال اور میانہ روی کا زبردست درس دیاتھا۔

علماء نے گانے ، تصویر اور شرعی پردے کے علاوہ کئی ساری چیزوں میں اعتدال سے ہٹ کر خود ساختہ تصو ر قائم کیا تھا۔ میرا ماحول ان سے عقیدت کا تھا تو اس پر عمل بھی کیا لیکن جوں جوں اپنی جہالت کا پتہ چلا تو پیچھے ہٹنے میں شرم نہیں کھائی۔ ہم اسلام کو عام کریں نہ کہ اپنی انانیت اور جھوٹ کے تصورات کو۔

فرقہ واریت نے بہت نفرتیں سکھائی ہیں۔ شیعہ تراویح کی نماز کو بدعت کہتے ہیں اور قمیص نکال کر اپنوں اور دوسروں کو کسی عذاب میں ڈال کر زنجیر زنی کو فرض سے بڑا درجہ دیتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو جواز بخش کر کتنی بڑی بدعت ایجاد کرلی مگر میلادالنبیۖ کے جلوس کو بدعت کہتا ہے ؟۔ اسلام کے درست احکام واضح کرنے ہوں گے ۔علماء جائیں بھاڑ میں۔

میں اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا تو شرعی پردے کے غلط تصور نے گھر اور معاشرے میں ایک بدعت ڈال دی۔ بھائی نے والدہ سے کہا کہ ”دوسروں کے بڑے بیٹے پہلے الگ ہوجاتے ہیں اور تمہارا چھوٹا بیٹا الگ ہوا ہے”۔ میں نہ صرف خود الگ ہوا ہوں بلکہ دونوں بیگمات کے بچوں کو بھی الگ الگ گھروں میں رکھا ہے۔ میرے ساتھی منیر داؤد کا پروگرام تھا کہ ”گھر پر بالاخانہ بناکر ایک اور شادی کرکے اس کو رکھے لیکن میں نے منع کردیااسلئے کہ ماحول میں مزید بگاڑ آسکتا تھا”۔

اسلام میں دو شادیوں کی نہیں چار کی اجازت ہے۔ صحافی اقرار الحسن اور مفتی طارق مسعود نے زیادہ شادیاں کی ہیں لیکن ماحول کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ حضرت علی نے حضرت فاطمہ کی موجودگی میں ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنا چاہی اور حضرت فاطمہ نے شکایت کی تو نبیۖ نے فرمایا کہ میری بیٹی کو پھر طلاق دو، کیونکہ نبی اور اسکے دشمن کی بیٹی جمع مت کرو۔

اقوام متحدہ کے مشن میں یہ بھی ہے کہ دنیا میں خاندانی نظام کو پھر بحال کیا جائے۔ خاندانی نظام میں سب ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔ جوں جوں بچوں کے بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ الگ ہوتے جاتے ہیں اور یہ ایک فطری طریقہ ہے۔ جب ماں سمجھ رہی ہوتی ہے کہ میرا بیٹا ہے اور بیوی سمجھ رہی ہوتی ہے کہ میرا شوہر ہے تو پھر شادی کی خوشیاں غم میں اور سکون بالکل بے سکونی میں بدل جاتا ہے۔ اس کشمکش میں گھر بھی تباہ ہوتے ہیں اور فطری مقاصد کی جگہ شیطانی سازشوں کا بسیرا بنتا ہے۔

کسی کی اچھی کمائی ہو یا نقصان لیکن گھرانہ خوشحال رہتا ہے اور مل بیٹھ کر غمی خوشی بانٹتے ہیں تو دنیا جہنم بننے کی جگہ جنت نظیر بن جاتی ہے لیکن جب عورت کے دماغ پر بھوت سوار ہوتا ہے کہ میرا شوہر اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا نہیں تو سکون کی نعمت چھن جاتی ہے۔ مذہبی بے غیرت طبقہ نے حلالہ کی لعنت سے چھٹکارا نہیں دلایا لیکن عورت کو اسلامی حق دیا کہ شوہر اور گھر کی خدمت تم پر نہیں۔ اگر عورت ڈاکٹر ہو تب بھی اس نے اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق خدمت کرنی ہوتی ہے۔ کوئی فارغ بیٹھی ہو تو اس کے دماغ پر شیطان ہی راج کرے گا۔

رسول اللہۖ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اصحاب و اہل بیت سے بھی محبت کی جائے۔ شوہر اور بیوی سے محبت کے تقاضے یہ ہیں کہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں سے بھی محبت کی جائے۔ سلیم الفطرت انسانوں میں یہ تعلیم وتربیت کی ضرورت نہیں مگر کچھ کم عقل جاہل اور بدفطرت لوگوں کو رحجان ٹھیک کرنا ہوگا۔

حضرت عائشہ کے حجرے میں حضرت فاطمہکی میراث نہیں تھی۔ باپ بیٹوں کیلئے 120گزکا مکان چھوڑتا ہے جس میں 6بیٹے بال بچوں سمیت رہتے ہیں۔ داماد اور بیٹی کیس کرتے ہیں کہ ہماری وراثت دو۔ حالانکہ ان کمروں کے مالک بیٹے بھی نہیں بلکہ بہو ہوتی ہے۔ زندگی میں بیٹی کو جو دیا تو وہ اس کا ہے اور جو بیٹوں کو دیا تو وہ ان کا ہے۔ زندگی میں داماد بیٹے نہ چاہیں تو گھر میں داخل نہیں ہوسکتے اور باپ کی موت کے بعد وارث بن گئے؟۔ قرآن میں باپ، ماں، بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ ، دوست اور جن کی چابیاں تمہارے لئے کھلی ہوں تو ان کے گھر میں اکیلے اور مشترکہ کھانے کی اجازت ہے۔

جس سے ایک تو شرعی پردے کا درست تصور قائم ہوتا ہے جو علماء ومفتیان نے بگاڑ دیا ہے اور دوسرا وراثت کا بھی درست مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ جو گھر باپ کا الگ ہوگا تو اس کی وفات کے بعد وہ لاوارث نہیں ہوگابلکہ ورثا میں تقسیم ہوگا۔ مفتی محمد شفیع نے دارالعلوم کراچی کے وقف مال میں بیٹوں اور بیٹی کی جو بھی وراثت رکھی ہے تو وقف مال پر وراثت نہیں ہوسکتی ہے ،ان کو نکال باہر کرنا چاہیے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث بیٹا سلیمان علیہ السلام بن گئے لیکن بیٹے نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔ سعودی شہزادے نے ریاست کو موروثی سمجھ کر غلط کیا ہے۔ بنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کو بھی حق نہیں پہنچتا تھا۔

رسول اللہۖ اور خلفاء راشدین نے مسلمانوں کا اقتدار موروثی قرار نہیں دیا۔ جاویداحمد غامدی رسول اللہۖ کے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی کے اہل بیت ہونے پر فضول بکتا ہے لیکن یزید کا اہلبیت مروان کو درست قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے مروان کو بیعت کرنے سے انکار کیا تھا۔ قرآن نے اسلام کو زبردستی سے مسلط کرنے کا تصور نہیں دیا ہے بلکہ اہل کتاب کو دعوت دی ہے کہ” آؤاس بات کی طرف کہ جس میں ہم ایک ہیں۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرائیں۔ اور نہ بعض بعض کو ہم اللہ کے علاوہ اپنے رب بنائیں”۔ (سورہ آل عمران :64)

یہود ونصاریٰ نے اپنے بڑوں کو حلال وحرام کا رب قرار دیا تھا اور مسلمانوں نے اپنے مذہبی طبقات کو اپنا رب بنالیا ہے۔
اور اللہ نے فرمایا:” اور ہم نے نازل کی (اے نبی مکرم!) تیری طرف کتاب حق کیساتھ۔ جو تصدیق کرتی ہے اس کتاب کی جو ان کے درمیان ہے اور اس پر نگہبان ہے۔ پس آپ ان کے درمیان اسی سے فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور ان کی خواہشات کے پیچھے مت چلیں حق سے ہٹ کر۔ہم نے تم میں سے ہرایک کیلئے شریعت اور راستہ بنایا ہے۔ اور اگر اللہ چاہے تو تمہیں ایک جماعت بناتا لیکن تاکہ تمہیں آزمائے کہ جو تمہیں اللہ نے دیا ہے۔ پس تم ایک دوسرے سے اچھائی میں پہل کرو جس میں تم اختلاف کررہے ہو”۔ (سورہ المائدہ :48)

توراة ،انجیل ،ویدوں کی تفسیر پر قرآن مھیمن نگران ہے مگرمسلمان معنوی تحریف کا شکار ہیں قرآن کا درست ترجمہ ہو تو دین فطرت پر عمل ہوگا، جو درست اعمال کریں تو دنیا میں وہی قوم ترقی کر سکتی ہے۔ اللہ نے بیوہ و طلاق شدہ اور غلام ولونڈیوں کے نکاح کا حکم دیا۔ غلام نکاح کیلئے لکھت کا معاہدہ کرسکتا ہے۔کنواریاں نکاح چاہتی ہوں تو بغاوت پر مجبور کرنا غلط ہے مگرقرآن کا مفہوم مسخ کردیا گیا ۔ مذہبی طبقات کا رویہ خوارج والا ہو کہ قرآن کا درست مفہوم حلق سے نہیں نہ اترے تو دنیا میں مسلمانوں پر اللہ نہ کرے بڑی آزمائشیں آسکتی ہیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا ہے کہ مجھے کوئی حج بدل پر بھیج رہا تھا لیکن میں والد صاحب کی بیماری کی وجہ سے نہیں گیا۔ اللہ نے اس کی بدولت مجھے اتنا نوازا کہ آج میرے پاس بہت کچھ ہے اور اس نے بیرون ملک کا سفرنامہ ”دنیا میرے آگے” لکھا۔

1981-80 میں مولانا فضل الرحمن، فیض محمد شاہین لائن مین (بعد میں سپرنڈنٹ واپڈا کیلئے ترقی کی) کی دعوت پر جمن شاہ لیہ آئے تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی انہوں نے دیا 1982میں جب میں کراچی آیاتو دار العلوم کراچی میں مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی وغیرہ کے حالات بنگالی پاڑہ سے مختلف نہیں تھے۔ یہی احوال جامعہ بنوری ٹاؤن اور جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی اور دیگر علماء کے تھے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی جب لالو کھیت سے مدرسہ میں آتے تھے تو ایک دن مہمان نے چائے پلانے کا مطالبہ کیا۔ جس پر انہوں نے کہا کہ میری والدہ روز کا ایک روپیہ دیتی ہیں اور ایک طرف کا کرایہ آٹھ آنے ہے مجھے آنے جانے میں ہی روپیہ لگتا ہے اور خود بھی مدرسہ سے جو چائے ملتی ہے وہ پیتا ہوں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں آتے تھے اور علماء کے پاس غربت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

1983میں جب سواد اعظم اہل سنت کے نام سے شیعہ کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو مولانا سلیم اللہ خان نے مولانا اعظم طارق شہید کے سوتیلے والد مولانا زکریا لنگڑا جامعہ انوار العلوم فیڈرل بی ایریا نزد گلبرگ کراچی کی ڈنڈے سے پٹائی لگائی۔ پھر مولانا زکریا نے اخبارات میں بیان دیا کہ مولانا سلیم اللہ خان نے سواد اعظم کیلئے عراق کے پیسوں سے گھر میں فریج اور دیگر مراعات کی چیزیں خریدی ہیں۔ دار العلوم الاسلامیہ واٹر پمپ ایف بی ایریا سے میں مولانا یوسف لدھیانوی کے درس کو سننے جاتا تھا۔ مولانا نے کہا کہ مصحف اللہ کی کتاب نہیں اگر قرآن کے مصحف پر قسم کھائی جائے تو کفارہ نہیں اسلئے کہ تحریری شکل میں قرآن اللہ کی کتاب نہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ عوام اللہ کی کتاب کے نام پر زبانی قسم کھاتے ہیں لیکن مصحف پر سچی قسم سے بھی گھبراتے ہیں۔ اور مسئلہ علماء کے نزدیک بالکل الٹ ہے۔ پھر پتہ چلا کہ یہ صرف عوام ہی نہیں علماء کو بھی اس علم کا پتہ نہیں۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں پہلے سال مفتی عبد السمیع شہید سے بحث ہوئی تو ان کو بھی پتہ نہیں تھا۔ پھر نور الانوار میں وہی پڑھا جو مولانا یوسف لدھیانوی صاحب نے بتایا تھا لیکن تعجب اسلئے نہیں ہوا کہ پہلے سے معلوم تھا ۔ جب مفتی تقی عثمانی کی کتاب میں دیکھا کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا ہے اور اسکے خلاف پہلے بنوری ٹاؤن سے فتویٰ لیا اور پھر یہ مسئلہ شہہ سرخیوں کے ساتھ اخبار میں شائع کیا تو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے اس کو نکالنے کا روزنامہ اسلام اور ضرب مؤمن میںاعلان کردیا۔ پھر دھیان اس سائڈ پر گیا کہ آخر اتنی بڑی غلطی فقہاء نے کیسے کی ہے؟۔ تو پتہ چلا کہ جب تحریری شکل میں قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں مانتے تو اس کا یہی نتیجہ نکلے گا۔

پھر بہت ساری آیات میں یہ وضاحت دیکھی کہ لکھائی میں بھی قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ علماء کے سامنے بالمشافہ معاملہ اٹھایا اور تحریروں میں بار بار اس کا ذکر کیا لیکن ڈھیٹ مخلوق اس پر گدھوں کی طرح کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔ پھر قرآن کی جو تعریف لکھی ہے وہ بھی انتہائی گمراہ کن اور خطرناک ہے۔ ایک طرف یہ کہنا کہ قرآن وہ ہے جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے لیکن لکھے ہوئے سے پھر لکھا ہوا مراد نہیں۔ دوسری طرف یہ کہنا کہ جو متواتر نقل ہو بلاشبہ اور متواتر سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جو بذات خود تحریف قرآن کے مترادف ہے۔ اور بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے۔ اور شک اتنا مضبوط ہے کہ عام آیت کے انکار سے بندہ کافر بن جاتا ہے لیکن بسم اللہ کے انکار سے کافر نہیں بنتا۔ اس پر بھی بس کرتے لیکن اس تعریف کے باوجود یہ پڑھایا جاتا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک قرآن سے باہر آیت کا عقیدہ کفر ہے کوئی غیر متواتر آیت نہیں۔ احناف کے نزدیک غیر متواتر آیت بھی آیت ہے۔ جس کو قرآن کی تعریف سے نکال دیا اس کو چور دروازے سے پھر داخل کردیا۔

ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کا لکھا پڑھا طبقہ اور علماء کرام بیٹھ جائیں اورحقائق پر غور کریں۔ پاکستان بلکہ مدینہ یونیورسٹی کے اساتذہ کے پاس بھی اس کا معقول جواب نہیں ہے۔ کہیں ہم پر عذاب کے فیصلے کی وجہ قرآن کی حفاظت کے نام پر قرآن کے خلاف یہ سازشیں تو نہیں ہیں۔ جب قرآن نازل ہوا تھا تو جو معاشرتی اور معاشی مسائل یہود و نصاریٰ اور مشرکین نے اپنی جہالت کی وجہ سے دین ابراہیمی میں تحریف کرکے کھڑے کئے تھے جن کی قرآن نے واضح الفاظ میں اصلاح کی تھی آج ہمارا مسلمان معاشرہ اسلام کو پھر اسی مذہبی جہالتوں کی طرف دھکیل چکا ہے۔ پہلے ائمہ اربعہ اور حدیث کے خلاف مزارعت کو جواز بخشا گیا اب عالمی سودی نظام کو بھی جواز بخشا گیا ہے۔ نماز اور غسل و وضو کے مسائل سے لیکر نکاح و طلاق اور خواتین کے حقوق تک ساری چیزیں غیر منطقی اور غلط رائج کی گئی ہیں۔

حضرت ابوبکر نے حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے فرمایا تھا کہ جس نے رسول اللہ ۖ کو زکوٰة دی ہو تو اس سے ہم جبراً ہی لیں گے۔ ایک شخص نے رسول اللہ ۖ کو زکوٰة نہیں دی تھی تو حضرت ابوبکر نے اس کی زکوٰة لینے سے انکار کردیا۔ چاروں ائمہ کا متفقہ مسلک ہے کہ زکوٰة کیلئے قتال نہیں ہوسکتا۔ لیکن ان کی کم عقلی یہ ہے کہ دو امام بے نمازی کو واجب القتل قرار دیتے ہیں ایک کہتا ہے کہ بے نمازی مرتد ہے اور دوسرا نماز نہ پڑھنے کی سزا قتل سمجھتا ہے۔ تیسرے کے نزدیک کوڑے اور چوتھے کے نزدیک زدوکوب اور قید ہے۔ مفتی شفیع نے سیاق و سباق کا لحاظ رکھے بغیر معارف القرآن میں مشرکوں کو قتل کرنے کا شرعی حکم جاری کیا اور نماز و زکوٰة کیلئے حضرت ابوبکر کے فعل کو دلیل بنایا۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے تبیان القرآن میں اس پر رد لکھا۔ شدت پسندی کی لہر میں مدارس کا کردار دیکھنا ہوگا۔
ــــــــــ

بے عمل کو دنیا میں راحتیں نہیں ملتیں
دوستو ! دعاؤں سے جنتیں نہیں ملتیں

اس نئے زمانے کے آدمی ادھورے ہیں
صورتیں تو ملتی ہیں سیرتیں نہیں ملتیں

اپنے بل پہ لڑتی ہے جنگ ہر پیڑھی
نام سے بزرگوں کے عظمتیں نہیں ملتیں

جو پرندے آندھی کا سامنا نہیں کرتے
ان کو آسمانوں کی رفعتیں نہیں ملتیں

اس چمن میں گل ہونے خون سے نہاتے ہیں
سب کو ہی گلابوں کی قسمتیں نہیں ملتیں

شہرتوں پہ اترا کر خود کو جو خدا سمجھیں
منظر ایسے لوگوں کو تربتیں نہیں ملتیں

بے مقصد لوگوں کو عداوتیں نہیں ملتیں
بلا قیمت لوگوں کو شوکتیں نہیں ملتیں

ناڑے پکڑتے ہیں ہمیشہ اوروں کے
چھپے واروں سے شجاعتیں نہیں ملتیں

پہلے کنویں میں ڈالا پھر چور بنا ڈالا
قصہ یوسف ہے وہی ظلمتیں نہیں ملتیں

حمزہ کا کلیجہ حضرت ہند نے چبا ڈالا
واہ فتح مکہ آہ کربلا رُتیں نہیں ملتیں

مل جاتی ہے شہرت دولت حکومت
باطل کو حق سے نسبتیں نہیں ملتیں

نہیں بدلی کسی زمانے میں اللہ کی سنت
شیوۂ حق پرستی میں بدعتیں نہیں ملتیں

زہر کا پیالہ پی لیا سقراط نے آخر
زمانے کو بدلو تو شربتیں نہیں ملتیں

کڑیاں ملتی ہیں نئی نئی سازشوں کی
زہے نصیب کہ شیطنتیں نہیں ملتیں

آدم حواء کے بیٹے تھے ہابیل قابیل
عتیق بدبخت کو خدا کی رحمتیں نہیں ملتیں
ــــــــــ

دل پر جو جبر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
شریر کرلیں جو شر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

متٰی نصراللہ اب کے بار تم پکاروگے
ضبط اس قدر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

حق باطل سے ہوچکا ہے جدا یہ ہوچکا ہے فیصلہ
بس تم کو خبر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

سمندر سے راستہ دینے والا رب راستہ دے گا
اللہ ہی کا امر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

تم سے جو رہ گیا اس کا دُکھ نہیں جو کرگئے تم
اس پر شکر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

اللہ تیرا ناصر ہو اللہ تیرا حامی ہو اے مجاہد
جہاد تو تا عمر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

ابھی تو عبد کو حقوق العباد ہے گھیرے ہوئے
دعا کو ابھی اثر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

خدا غضبناک ہوا پیچھے بیٹھ رہنے والوں پر
زندگی رب کی نذر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

ابھی تو فقط آغاز ہوا ہے ابھی سے تھکان کیسی
ابھی تو آگے سفر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

کوئی نقصان پہنچا نہ سکے اگر اللہ نہ چاہے
کرلے اے بشر جو کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

اور ابھی تو تمہارا حساب وکتاب باقی ہے
تم نے این مفر کہنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

جو تیرے دشمنوں پر ناگوار گزرتی ہے سو گزرے
تم نے حق کا ذکر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

رب کی نظر ہے سب پر کہ اب رب نے غم رات کی
بس اب سحر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

مشکل میں صبر و نماز سے کام لو فرمان الٰہی ہے
رب سے سمر کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے

سب رضائیں رب کی تو بندوں سے گلے کیسے
ہر گلہ رب کے در کرنا ہے ہمیں اب صبر کرنا ہے
ــــــــــ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

انقلاب کیلئے پیش خیمہ حقائق
شیعہ سنی، ایران سعودی، پاک افغان کشیدگی کا وہ حل جوبھارت، چین ، امریکہ، روس اوراسرائیل وفلسطین سب کیلئے بڑا آغاز ہوگا
خدارا سنی اور جاوید غامدی حضرت عمر پر حلالہ کی لعنت جاری کرنے کی تہمت نہیں لگائیں