علامہ شرف الدین شیعہ کے مفتی منیر شاکر شہید تھے
جولائی 17, 2025
مفتی منیر شاکر سے قرآن پر بات ہوئی تو اس نے کہا کہ50سال بعد مجھے مسلمان کردیا۔ یقین ہے کہ علامہ علی شرف الدین سے ملاقات ہوتی تو انہوں نے کہنا تھا کہ70سال بعد مسلمان کردیا۔ قرآن سے سنی اور شیعہ مذہبی طبقات نے کھلواڑ کیا ہے!
مفتی منیر شاکر شہید ، علامہ شرف الدین خوش قسمت تھے کہ ولاتموتن الا و انتم مسلمون ” اور تم مت مرو مگر مسلمان ہوکر” کے قرآنی حکم پر عمل کیا۔ دونوںمشعل راہ اسلئے نہ بن سکے کہ قرآن وسنت کو ہی نہیں سمجھا۔ دنیا میں مذہبی افراط اور تفریط تھی ۔ یہودی حلالہ کی لعنت میں گرفتار اور عیسائیوں میں مذہبی طلاق نہیں تھی تو اسلام نے طلاق کو جواز بخشا اور حلالہ کی لعنت ختم کردی اور عورتوں کے تمام حقوق بحال کردئیے۔ مذہبی طبقے نے اسلام کو اجنبی بناکر عورت کے حقوق کو قرآن وسنت کے پیچھے چھپ کر غصب کردیاہے اور وہ قرآن جس نے صلح کی راہ کھول کر حلالہ کا تصور بھی ختم کردیااور طلاق کے بعد عورت کی رضا کے بغیر رجوع کا دروازہ بند کردیا تو شیعہ سنی نے پھر نصاریٰ و یہود کے نقش قدم کو زندہ کردیا۔ چراغ تلے اندھیرا کے مانند آج پوری دنیا قرآن وسنت کی واضح راہ پر ہے لیکن شیعہ سنی اندھیرے میں ہیں۔ برہمن نول کشور نے قرآن کے تراجم کو گھر گھر پہنچایا ۔بدقسمت مسلمانوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ اگر قرآن کو سمجھ لیا توانسانوں پر صلح کا دروازہ کھلے گا اورعورت حلالہ کی ذلت سے بچے گی اور میاں بیوی سے لیکر شیعہ وسنی، ہندو مسلمان، سکھ یہودی ، مشرق ومغرب کے تمام انسانوں میں صلح کروائیں گے۔
پختون ،بلوچ ، پنجابی، سندھی میں اشاعت التوحید والسنہ والے قرآن کی دعوت میں قربانی دیتے رہے لیکن نہ خود ہدایت پائی اور نہ ہی دوسروں کو ہدایت کا سبب بن سکے۔ جس طرح مفتی منیر شاکر اور علامہ علی شرف الدین موسوی تھے، اسی طرح وہ بھی ہیں۔ علامہ محمد حیدر نقوی شیعہ عالم خلوص و ایمان کیساتھ قرآن کی دعوت عام کرتا ہے لیکن نتیجہ وہی ہے جو بجلی کی جگہ چراغ کی دعوت دینے والوں کا ہوسکتا ہے۔ غالباً 2004میں ڈاکٹر پیر عبدالجبار کے ساتھ ایک محسود افسر آئے اور مجھ سے کہا کہ ” وزیرستان میں بجلی کی آمد سے پہلے مسجد کے مولانا نے تقریریں کیں کہ خبردار اپنے گھروں میں بجلی مت لگاؤ۔ یہ بلب نہیں شیطان کے خصیے ہیں لیکن جب بجلی آگئی تو مولانا نے شیطان کے خصے لگا دئیے ”۔
قرآن میں بجلی سے زیادہ نفع بخش ہونے کی صلاحیت ہے مگر جس قرآن نے دورِ جاہلیت میں لوگوں کی عزتیں حلالہ کی لعنت سے بچائی تھیں تو اب اسی کو توڑ مروڑ کر عزتیں لوٹنے کا ذریعہ بنایا جارہاہے۔ جس قرآن نے عورتوں کو حقوق دئیے تو اسی قرآن کے ذریعے عورتوں کے حقوق کو غصب کیا گیا اور جس قرآن نے عقل وشعور کی نعمت کو جگایا تھا تو اسی قرآن کی بنیاد پر لوگوں کے عقل وشعور کو جڑ سے ختم کیا جارہا ہے۔
علامہ علی شرف الدینبہت عظیم مخلص مسلمان تھے۔ ان کے علم سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن خلوص اور ایمانداری پر کوئی شک وشبہ نہیں ہوسکتا ہے۔ قرآن سے ٹکرانے کی بنیادپرانہوں نے احادیث کا انکار کیا مگر کون ہے، جس نے نہیں کیا ؟۔علامہ علی شرف الدین نے کہا کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ”میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ایک قرآن دوسری میری سنت” ۔ اللہ نے فرمایا:انا سنلقی علیک قولًا ثقیلًا ”بیشک عنقر یب ہم آپ پر بھاری بات ڈالیں گے”۔ سنت قرآن کی طرح بھاری چیز نہیں ہوسکتی ۔ اس طرح اہل بیت بھی بھاری چیز نہیں ہوسکتے۔ یہ شیعہ سنی نے گھڑ رکھی ہیں۔ نبیۖ نے صرف قرآن کو چھوڑ ا ہے، اہلبیت اور سنت چھوڑنے کی چیز نہیں ہوسکتی ہے۔ کاش علامہ سے ملاقات ہوتی تو نہ صرف مسلمان بناتا بلکہ پھر اچھا بھلا شیعہ بھی ۔
قرآن نے ذمہ دار طبقات کو مخاطب کیا ہے کہ سنفرغ لکم ایہ الثقلان ”عنقریب تمہارے لئے ہم فارغ ہوں گے اے دو بھاری گروہ”۔ مفتی منیر شاکر اور علامہ شرف الدین کے بیٹے پیروکاروں سمیت قرآن پر عمل کریں تو انقلاب ہے ۔ نبیۖ نے اپنا جانشین نامزد نہیں کیا تو ابوبکر، عمراور معاویہ نے غلط کیا؟۔ جس سے یزید و مروان بنوامیہ تک بات پہنچی؟۔علامہ شرف الدین نے کہا کہ قرآن میں اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کا حکم ہے۔ اولی الامر کی مشروط اطاعت کاحکم ہے اور مکہ میں نبیۖ رسول تھے اور مدینہ میں لوگوں نے حاکم بھی بنادیا۔ حاکم کی حیثیت سے اختلاف جائز تھا تو حدیث قرطاس سے انکار کی ضرورت نہیں تھی اور علی ولی اللہ کی بھی تأویل کرنا ضروری نہیں۔ نبیۖ نے علی کیلئے ایسے ماحول نہیں بنایا تھا جو یزید یا مروان کیلئے بنایا گیا ۔ یا جس طرح جاویداحمد غامدی نے اپنے داماد کیلئے بنایا ہے۔ نبیۖ رحمت للعالمین تھے اسلئے اپنا چچازاد بھائی اور داماد صلاحیت کے باوجود انصار ومہاجرین پر مسلط نہیں کیااور نہ اس کیلئے ایسا ماحول بنایا۔ جبری زکوٰة نے مسلمانوں کو ریاست کے سامنے کمزور کردیا تھا اسلئے ابوبکر نے عمر کے تسلط کا فیصلہ کیا تو سب نے قبول کیا۔ حضرت عمر نے پھر اعتدال کو ترجیح دیتے ہوئے شوریٰ نامزد کردی تھی۔ حضرت علی نے ہنگامی طور پرمنصب قبول کیا اور امام حسن نے وحدت کو ہی ترجیح دی اور اسی پر خلافت راشدہ کا 30سالہ دور ختم ہوگیا۔
آغا سید شرف الدین کی بات کو شیعہ سنی اپنا منشور بنائیں تو بھی ہمیں خوشی ہوگی کہ حضرت عائشہ بہت ہی قابل احترام اور دنیا وآخرت میں رسول اللہ ۖ زوجہ مطہرہ ام المؤمنین تھیں۔ البتہ حضرت علی کے مقابلے میں غلطی پر تھیں جس پرنادم تھیں۔ یہ شیعہ سنی اتحاد کیلئے مثبت اور بہت جاندار نکتۂ نظر ہے۔آغا شرف الدین کے نزدیک حضرت علی کے بعد حضرت ابوبکر سب زیادہ شاندار شخصیت تھی۔ سنیوں کیلئے یہ غنیمت ہے لیکن آغا شرف الدین پر سوال اٹھے گا کہ ابوبکر نے پھر علی کے ہوتے ہوئے حضرت عمر کی نامزدگی کیوں کی؟۔ اللہ نے فرمایا:
” اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو مت کرو! اور اللہ پر کوئی بات مت بناؤ مگر حق۔ بیشک مریم کا بیٹا رسول اللہ ہے اور کلمہ ہے جس سے اللہ نے مریم کو القا کیا اور اللہ کی طرف سے روح ہے۔پس اللہ پر اور اس کے رسولوںپر ایمان لاؤ اور تین مت کہو۔ تم بس کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ بیشک اللہ اکیلا معبود ہے ۔ وہ پاک ہے اس سے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔اس کیلئے ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہی وکالت کے اعتبارسے کافی ہے”۔ (النساء آیت:171)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تقدس اللہ کے کلام سے ثابت تھا اور قصہ حضرت یوسف پہلے تھا اور قصہ قرآن بعد میں بن گیا۔ یہود ونصاریٰ نے حضرت عیسیٰ کی شخصیت پر افراط وتفریط سے کام لیا تو دونوں گمراہ ہوگئے اور اس غلو سے اللہ نے منع فرمایا۔
ہر لحظہ ہے مؤمن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری وغفاری وقدوسی وجبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایۂ جبریل امین بندۂ مومن
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میںبھی میزان
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
فطرت کا سرور ازلی اس کے شب وروز
آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمن
بنتے ہیں مری کارگہ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہنچان!
علماء کرام شیعہ ہوں یا سنی ،ان کا کوئی قصور نہیں اسلئے کہ وہ مدارس میں قرآنی تعلیمات کی جگہ کچھ اور ہی پڑھاتے ہیںاور میں خوش قسمت ہوں کہ مولانا بدیع الزمان شاگردوں کو خوب تلقین فرماتے کہ ایک رکوع قرآن کا روزانہ پڑھ کر سمجھواور قرآن کے معارف بتاتے تھے اور پیچیدہ سوالات بھی۔ پھر نصاب میں قرآن وسنت کے خلاف باتوں کے مقابلہ میںحق بات پر خوشی کا اظہار بھی فرماتے۔ علامہ علی شرف الدین نے وہ حدیث مسترد کی جو شیعہ و سنی کتب میں ہے کہ نبیۖ و علی ایک نور تھے۔ حضرت عبداللہ میں نور نبوت اور حضرت ابوطالب میں نور ولایت منتقل ہوا۔ اگر ہم مان لیں کہ حدیث صحیح ہے تو پھر شیعہ کے پاس اس کا جواب نہیں کہ ”نور ولایت حضرت علی کے بعد حضرت حسن میں منتقل ہوا تو حضرت حسین میں کیسے منتقل ہو؟”۔ رسول اللہۖ کے نوراور علی کے نور سے حفید سیدا شباب اہل الجنة بن گئے۔ حسن پر نور امامت کا اور حسین پر نورولایت کا۔ مجدد الف ثانی شیخ احمدنے حضرت حسین کی ولایت کا ذکر کیا ہے لیکن حضرت حسن کے نور امامت کا ذکر نہیں کیا ہے۔
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل کی اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا تو دنیا سے مانند خاک راہ گزر
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش
مشکوٰة کی شرح ”مظاہر حق ” میں بارہ خلفاء قریش کی تشریح میں یہ روایت لکھی ہے کہ ” مہدی کے بعد 5افراد حسن کی اولاد سے ہوں اور 5افراد حسین کی اولاد سے اور آخری فرد پھر حسن کی اولاد سے ہوگا”۔ اہل تشیع کی روایات میں بھی مہدی کے بعد گیارہ مہدیوں کو خلافت ملنے کا ذکر ہے۔ ان میں رجعت کا عقیدہ بھی ہے اور رجعت سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مہدی کا کردار حضرت علی جیسا ہو اور باقی گیارہ امام حسن، حسین، امام زین العابدین …………اور آخرمیں مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سامنا دجال اکبر سے ہو۔ جب آئیں گے تو دیکھیں گے۔
اگر تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس کے ساتھی مولانا احتشام الحسن کاندھلوی امیر جماعت بنتے تو بہتر تھا۔ مولانا محمد یوسف بانی کے بیٹے تھے مگر جماعت میں وقت نہیں لگایا تھا پھر حاجی محمد عثمان امیر بنائے جاتے تو بھی بہتر تھا لیکن مولانا انعام الحسن داماد شیخ الحدیث مولانا زکریا امیر بنائے گئے ۔اگر ان کی جگہ حاجی عبدالوہاب امیر بنتے تب بھی بہتر ہوتا۔ ترجیحات کی وجہ مختلف ہوتی ہے۔ اگر علامہ عارف الحسینی شہید کے بعد علامہ علی شرف الدین ہی تحریک نفاذ جعفریہ کے صدر بنائے جاتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن جو کچھ ہوا تو سب بہتر تھا اور اب حقائق کی طرف رجوع کیا جائے تو امت مسلمہ اس بدترین بحران سے نکل سکتی ہے۔ ہمیں ایک اچھے انقلاب اور اصلاح کی امید ہے۔
کاش! علماء و مفتیان، اسلامی سکالرز اور سیاسی جماعتوں کا رُخ قرآن کے انسانی حقوق پر آجائے تو عورت کے حقوق کو سمجھنے کے نتیجے میں عالمی ، علاقائی ، ملکی قوانین، ڈویژن، ضلع، تحصیل اور تھانہ کی سطح سے لیکر اقوام متحدہ تک سبھی معاملات سمجھ لیںگے بلکہ عمل درآمد بھی ہوگا۔
صرف نکاح وطلاق کے واضح مسائل، معاملات اور حقوق سے فرقہ واریت کی جنگ ختم ہوسکتی ہے۔ سیاسی میدان کارزار میں کربلا سے موجودہ دور تک کے سارے جھگڑے ختم ہوسکتے ہیں۔ خلافت راشدہ میں جنگ وفساد صرف اسلام کی سیاست کی حدتک تھا لیکن بعد میں سیاست سے بڑھ کر مذہبی مسائل کو بگاڑنے کا بھی سبب بن گیا۔ بگاڑ کا نام اصلاح رکھ دیا جائے تو اصلاح کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟۔ ایک ملک میں قانون ہو کہ اگر شوہر نے تین طلاق دیدی تو حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ۔ دوسرے ملک میں حلالہ کے بغیر رجوع ہوسکتا ہو تو لوگ کس کا قانون پسند کریںگے؟۔ ظاہر ہے کہ حلالہ بدترین لعنت ہے۔
محمد خدابندہ ہلاکو خان کا پڑپوتا تھا۔ 1304ء سے1316 تک حکومت کی ۔ پہلے سنی تھا اور پھر حلالہ کی وجہ سے شیعہ بن گیا اور پوری سلطنت میں مذہب اہل بیت کی تبلیغ کی۔ پھر اسماعیل اول صفوی نے پہلی بار ایران میں ایک آزاد مملکت کی بنیاد رکھ دی جس میں موجودہ جمہوریہ ایران، آذر بائیجان ، آرمینیاکے ساتھ ساتھ جارجیا،شمالی قفقاز،عراق، کویت،افغانستان کے علاوہ موجودہ شام کے کچھ حصے، ترکی، پاکستان، ازبکستان اور ترکمانستان اس عظیم ریاست کا حصہ تھے۔ ان کے پوتے کا نام شاہ اسماعیل صفوی بھی اسی کے نام پر رکھا گیا۔جس نے شیعہ مذہب اختیار کیا اور وہ پہلا شیعہ صفوی حکمران تھا۔
آج کچھ لوگ شیعہ سے سنی اور سنی سے شیعہ بن گئے لیکن اس میں مذہبی طبقات کے مذہب سے زیادہ مفادات ہیں۔ اگر قرآن کی طرف فرقہ واریت سے بالاتر اہم ترین نصوص کی طرف توجہ دی گئی تو شیعہ سنی مسئلہ تحلیل ہوجائے گا اور اسلام کی حیثیت گھریلو سے لیکر عالمی اسلامی حقوق کی علمبرداری کے طور پر ہوگی۔ اس طرح شافعی اور حنفی اختلافات بھی بنیاد سے اکھڑ جائیںگے۔ دورِ جاہل میں عورت کے حقوق نہیں تھے۔ اسلام نے مذہبی جہالتوں کا خاتمہ کیا اور مذہبی طبقات نے جہالتوں کو پھر انسانی اور نسوانی حقوق پر ڈاکہ ڈال کر استعمال کیاہے۔
مولانا مودودی نے شافعی اور حنفی اختلافات کے دلائل کہ بالغ لڑکی کا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز یا نہیں؟عدالت پر معاملہ ڈالا ہے۔ اگر قرآن کے دئیے ہوئے حقوق متعارف ہوتے تو اس نکاح کو قانونی حقوق سے محروم کردیا جاتا اور نکاح کی جگہ اس پر معاہدے کا اطلاق ہوتا۔ جس کی ذمہ داری متاثرہ دونوں خاندانوں پر نہیں بلکہ دو افراد پر پڑتی۔ لیکن جب نکاح کے حقوق کا تصور ہی موجود نہیں ہے تو پھر معاملہ دنیا کو نہیں سمجھ میں آسکتا ہے۔ جیسے موبائل بچوں کو سمجھ آتا ہے لیکن جنہوں نے اپنی زندگی میں موبائل اور ترقی یافتہ دنیا نہیں دیکھی ہو تو پھر ان کو موبائل سمجھانا بہت بڑا مسئلہ ہے۔اللہ کرے کہ اسلام اپنے معاشرے میں اصلاح کی بنیاد بن جائے تو پارلیمنٹ میں بھی قوانین بنانے سمجھنے اور سمجھنانے کے مسائل نہیں آئیں گے۔
علامہ سید علی شرف الدین نے کہا کہ ” عقائد کا تعلق دنیاوی معاملے سے ہے جیسے خریدوفروخت کے عقود اور عقد نکاح۔ قرآن میں ایمانیات کا ذکر ہے اور جن جن چیزوں پر ایمان لانے کا حکم ہے وہ کافی ہے اور اس پر مزید اضافہ فرقہ واریت اور بدعات کے زمرے میں آتا ہے”۔
جب حضرت زبیر جنگ جمل میں میدان کے اندر آئے تو حضرت علی نے ان کے سامنے اس حدیث کا ذکر کیا جو حضرت علی کے حق ہونے پر دلیل تھی تو حضرت زبیر نے کہا کہ میں بھول گیا تھا اور جنگ چھوڑ گئے لیکن پیچھے سے ایک کم بخت نے وار کیا اور حضرت علی کے پاس آیا تو علی نے فرمایا میں تمہیں جہنم کی خبر سناتا ہوں۔ نبیۖ نے فرمایا تھا کہ زبیر کا قاتل جہنمی ہے۔ صحابہ کے ایمان کی بلندی صحبت نبویۖ تھی اور جب تک ایمان دل میں نہیں اترتا تو عقیدہ سے مؤمن نہیں مسلم بنتے ہیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ