پوسٹ تلاش کریں

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کا مختصر تعارف اخبار: نوشتہ دیوار

علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ،گلگت بلتستان کے علاقہ شگر کے ایک گاں علی آباد چھورکاہ میں 1938 عیسوی میں پیدا ہوئے۔والد کا نام سید محمد موسوی ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کی۔ آپ چونکہ ایک شیعہ جعفری اثنا عشری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اسلئے پاکستان سے بنیادی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے 1957 عیسوی میں نجف کا رخ کیا۔وہاں حوزہ علمیہ نجف میں دینی علم حاصل کیا۔1964عیسوی میں نجف سے واپس پہنچے۔

پھر آپ نے دینی تعلیم کیلئے ایران کے شہر قم کی مشہور و معروف شیعہ درسگاہ ”حوزہ علمیہ قم” میں داخلہ لیا۔

حوزہ علمیہ میں تعلیم کے دوران آپ نے نصاب میں قرآن کو لازمی مضمون کے طور پر شامل نہ کرنے پر شکایت کی ۔ ایک تقریر کی جس سے بہت سارے حوزہ والے آپ سے خفا ہوگئے۔آپ کے استاد آیت اللہ صادقی تہرانی تھے جو خود قرآن فہمی اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے پر جوش حامی تھے۔اسکے علاوہ آپ نے آیت اللہ باقر صدر سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا۔آپ نے آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ خوئی کی بھی براہ راست شاگردی اختیار کی۔

عراق و ایران (نجف،قم ،مشہد)میں کل 20سال آپ علوم دین حاصل کرتے رہے۔اور آیت اللہ حکیم سے لے کر اب تک کے علما نے آپ کو اجازة نامہ دئے،لیکن آپ نے ان اجازة کو تفخر کے طور پر کبھی شو نہیں کیاہے۔

سر زمین پاکستان آنے کے بعد 1981ء میں ادارہ ”دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان”کی بنیاد رکھی۔جسکے تحت آپ نے مذہب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔

آپ نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو ترجمہ کیا ۔ شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔ پاکستان میں امام مھدی سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب کو بھی عام کیا،ان کتابوں میں ”شیعیت کا آغاز کب اور کیسے”،تیجانی سماوی کی کتابوں ہو جاؤسچوں کیساتھ اور پھر میں ہدایت پا گیا۔فلسفہ امامت،مذہب اہل بیت،شب ہائے پشاور،اہل بیت آیت تطہیر کی روشنی میں،فلسفہ امامت اوردعائے ندبہ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔ آپ نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان1407ہجری میں پہلا سیمینار ”یوم القرآن”منعقد کیا،تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت،قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔ سیمینار میں ملک کے علما ء و دانشور وں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔یہ سیمینار مسلسل8 سال تک منعقد ہوتا رہا۔ چنانچہ رمضان 1415ہجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور انکے حصول کی ترغیب دی جائے اور پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔

1417 رمضان کو تیسری بار معارف قرآن کا اعلان کیا،جب حصہ لینے اور ناظرین کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ 10ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔

علامہ نے 1979 کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ علی شرف الدین موسوی کا شمار اس دور کے چوٹی کے علماء اور شیعہ اثنا عشری کے مرکزی قائدین میں تھا۔ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد آپ کا نام بھی شیعہ مسلک کی قیادت کے لئے سنا جاتا رہا۔

علامہ نے نہ صرف کتب لکھیں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعیت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں ۔ اس سلسلہ میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی کا اردو ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان اور حسین شناسی جیسی کتب شائع کیںپھر آپ نے بذات خود خرافات کیخلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا ۔چنانچہ عزاداری کیوں، انتخاب مصائب امام حسین،قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چنانچہ آپ نے ”عقائد و رسومات شیعہ اور شیعہ اہل بیت” اور موضوعات متنوعہ لکھی۔اسکے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلئے ”باطنیہ و اخوتھا”لکھی۔ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں ”اٹھو قرآن کا دفاع کرو”اور اس جیسی 10کے قریب کتابیں لکھیں۔چنانچہ آغا صاحب کے بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کیخلاف بہت سے شیعہ علما ء مخالف ہو گئے۔کئی علما ء نے شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔ آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آئی اور مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا،کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیرا کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔

آغا نے 40سال شیعہ مسلک کا درس دیا۔ چنانچہ آغا صاحب نے حال ہی میں تہمتوں ،بہتانوں کے بارے میں ”محرم 2013ء ”میں کتابچہ”دارالثقافہ سے عرو الوثقیٰ” لکھا۔غرض آج آغا صاحب اپنے موقف پر قائم ہیں اور شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو ”شیعہ علی” کہتا ہے۔آج بھی آغا صاحب چیلنج کرتے ہیں کہ اگر میرا موقف غلط ہے تو میری زندگی میں ہی دلائل سے جواب دیں نہ کہ ڈنڈے کے زور پر ان کو عقائد سے دستبردار ہونے کیلئے کہا جائے۔بلاشک و شبہ آغا صاحب ایک دلیر اور منصف مزاج شخصیت ہیں،جن کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد اب 100کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ان کی ایک ایک کتاب سے حق و صداقت کی بوآتی ہے۔آج بھی ان کا اعلان ہے کہ ”صرف قرآن و سنت ہی میرا دین ہے۔ اسلام کے سوا فرقوں سے مجھے نفرت ہے۔اللہ کی توحید اور رسول ختم نبوت اور سنت سے مجھے محبت ہے،اہل بیت کا میں تا بعدار اور رسول اللہ کے سفر و حضر کے ساتھیوں مہاجرین و انصار کو حقیقی مسلمان مانتا ہوں اور ان کو میں کافر نہیں کہہ سکتا,علی کے بعد یاران رسول ۖ میں سے سب سے افضل ابوبکر و عمر کو سمجھتا ہوں.۔شرک و بدعات اور خرافات سے مجھے نفرت اور کراہت ہے”۔

آغا صاحب نے اس سال ایک کتاب خطداحون کے نام سے لکھی ہے جس میں فرقہ خطا و قداحیہ کے باقیات کو رد کیا ہے اور اپنی اولاد سے بیزاری و لاتعلقی کا اعلان کیا کیونکہ وہ خطداحون کے عقائد رکھتے ہیں.

اپنی کتاب رشد و رشادت میں خلفائے راشدین کے سنہرے دور کا علمیی جائزہ اور ان پر اعتراضات کا مسکت جواب دیا ۔ آغا صاحب کی تالیفات و تصانیف کی فہرست میں 70کے نام درج ہیں۔یہ 2019ء کی تحریر ہے۔آغا صاحب کی 100 سے زائد تصانیف ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں