پوسٹ تلاش کریں

بیشک جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں لوگوں میں سے ان کو جو انصاف کا امر کرتے ہیں تو ان کو بشارت دو المناک عذاب کی۔ آل عمران21

بیشک جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں لوگوں میں سے ان کو جو انصاف کا امر کرتے ہیں تو ان کو بشارت دو المناک عذاب کی۔ آل عمران21 اخبار: نوشتہ دیوار

امریکہ کا روس کے خلاف جہاد سے لیکر دہشت گردی کے خلاف ڈبل گیم کھل چکاہے ۔ سلیم صافی نے اِن کیمرہ اجلاس کا بتایا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ”افغان طالبان اور TTPایک سکہ کے دو رُخ ہیں”۔ ایک طرف اشرف غنی کی فورسز کی تنخواہیں بند کیں ، دوسری طرف طالبان کیلئے ڈالروں کی مدد جاری رکھی ، تیسری طرف افغانستان کے فنڈز منجمد کردئیے۔ جرمنی نے لڑکیوں کی تعلیم اورافغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی۔ پاکستان سمیت 116ممالک نے حمایت صرف امریکہ اسرائیل نے مخالفت کی۔ چین، روس، بھارت اور ایران غیر جانبدار تھے۔ امریکہ معدنیات کیلئے خطے کو عدمِ استحکام کا شکار بنانا چاہتاہے۔ پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے نامزدکیا تو پھر امریکہ پاکستان کیخلاف کیوں ؟۔ پاکستان ،بھارت، چین، ایران اور افغانستان کے درمیان صلح اور تجارت کا فروغ ہی امریکہ کی موت ہے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ مزاحمت کرنے والی تمام قوتوں کی آبیاری نہیں ہو اور آپس میں لڑ مر کر کمزور ہوجائیں اور اس کے نزدیک افغان طالبان ، پاک فوج، مزاحمتی تحریکیں اور باشعور سیاستدان سب کا خاتمہ ضروری ہے۔ وہ بھارت اور چین کا بھی دشمن ہے اور افغانستان، ایران اور پاکستان کا بھی دشمن ہے۔ اگر اس خطے کے لوگوں نے صرف صلح اور آپس میں آزاد تجارت شروع کردی تو ہم ایران کے تیل و گیس کی بھارت وچین کو سپلائی اور بھارت سے گائے کے گوشت ، دال اور چاول کی افغانستان وایران کو سپلائی سے اپنی عوام اور ریاست کی غربت ختم کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور طالبان بھی اسلام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔ وزیرستانی کہتے ہیں کہ ”گدھے کی محبت لات مارناہے”۔ حدیث ہے کہ ”یہ امت بھی سابقہ اقوام کے نقش قدم پر چلے گی”۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور ہم صدیوں پیچھے اقوام کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی نشاة ثانیہ ہورہی ہے اور یہ حقیقت ہے لیکن نشاة اول کیا تھی؟۔ یہی سمجھنا ہوگااور اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء نے ہماری تائید کی تھی جن میں ایک استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پرنسپل جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ،صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر تائیدمیں لکھاکہ ”امام مالک نے فرمایا کہ اس امت کی اصلاح نہیں ہوسکتی مگر جس چیز سے اس کی اصلاح پہلے ہوئی تھی۔ جو لوگ اسلام کی نشاة ثانیہ چاہتے ہیں تو ان کو پہلے تعلیم وتربیت اور پھر اس کے نفاذ کیلئے حکومتی سطح پر تحریک چلانے کی طرف توجہ کرنا چاہیے”۔ استاذ محترم کی تحریر کا لب لباب اور خلاصہ میں نے لکھ دیا ہے ۔

رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان نے دنیا کو شکست دی اسلئے کہ اسلام کا معاشی ، معاشرتی، مذہبی ، علاقائی اور بین الاقوامی نظام اس قابل تھا کہ تمام لوگوں نے اسکو قبول کیا۔ سب سے بنیادی چیز شخصی، مذہبی اور سماجی آزادی تھی۔ لونڈیوں کا لباس موجودہ مغربی دنیا کی خواتین سے بھی زیادہ ننگ تڑنگ والا اور انتہائی بیہودہ تھا۔ قرآن و حدیث اور اسلام وفقہ کا کہیں یہ حکم نہیں تھا کہ جبری پردہ دار لباس پہناؤ۔

مؤمنین اور مؤمنات کو غضِ بصر کا حکم ہے۔جس کا معنی یہ ہے کہ جس طرح بجلی تیز اور مدھم ہوتی ہے۔ تیز روشنی دوسرے پر سخت پڑتی ہے اور مدھم کی نرم پڑتی ہے۔ راتوں کو گاڑیاں چلتی ہیں تو سامنے والی گاڑی کی وجہ سے لائٹ ڈِ م کی جاتی ہے تو اس ٹریفک کے اصول کی طرح چودہ سو سال پہلے قرآن نے عورتوں اور مردوں کو یہ حکم دیاتھا۔

معاذ خان لکھا پڑھا نوجوان ہے جو Voices&Visions یوٹیوب چینل پر فاطمہ شہزاد سے انٹرویو لے رہا ہے اور موضوع بحث لبرل ازم اور سوشلزم کی مزاحمتی سیاست ہے۔ معاذ خان اپنی فطرت کی بنیاد پر اپنی آنکھوں سے جس شرافت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس سے قرآن کی تعلیمات جھلک رہی ہیں۔حنفی مسلک میں اگر عورت پر شہوت کی نگاہ پڑگئی تو نیت نہ ہونے کے باوجود بھی طلاق سے رجوع ہوجائیگااور شافعی مسلک میں نیت نہ ہو تو جماع سے بھی نہیں ہوگا۔ فقہاء نے دین اسلام کو اسلئے اجنبیت اور منکرات کی طرف دھکیل دیا ہے کہ قرآن میں اللہ نے طلاق سے رجوع کیلئے صلح اور معروف کی شرط کو واضح کیا ہے اور انہوں نے قرآن کے واضح احکام کو پس پشت ڈال کر معروف کو منکر بنادیا ۔

مولانا فضل الرحمن کے کندھے پر مریم نواز نے بہت پیار سے اپنا سر رکھ دیا اور بینظیر بھٹو بھی مولانا سے مانوس تھیں۔ اگر مولانا نے کسی کو ہراساں کیا ہوتا تو فاصلہ بڑھ جاتا ۔ اقبال نے”ایک آرزو” میں کہاکہ

مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو

نظروں میں شہوت اور عدم شہوت کیا ہے؟۔ انسان کو اس کا فطری مطلب معلوم ہے۔ پاکستان کی سیاحت سے غیرملکی اسلئے رک گئے کہ ان کی خواتین کو احساس ہوتا ہے کہ شہوت کی نظروں تاڑا جاتا ہے۔ یہی شہوت کااحساس جب خانہ کعبہ میں عورتوں اور مردوں میں نہیں ہوتا تو حجرِ اسود چومتے وقت اچھے بھلے مسلمان بھی ایک دوسرے سے اجنبی مرد اور عورتوں کے باوجود ہڈی پسلی اتنی ایک کرلیتی ہیں کہ جتنا میاں بیوی کے درمیان بھی ایکدوسرے سے الحاق ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔

دنیا میںایک کمیونزم و سوشلزم ہے ،دوسرا کیپٹل ازم وسیکولر ازم ہے اور تیسرا اسلام ہے۔ اسلام دین ہے اور قرآن کا اعلان ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ رسول اللہۖ کا دوراور حضرت ابوبکر و عمر کا دور اور حضرت عثمان کا دور خیرالقرون ہیں اور حضرت علی کے دور میں فتنے شروع ہوگئے اسلئے اس پر خیرالقرون کا اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ رسول اللہۖ اور حضرت ابوبکر کا دور ایک تھا اسلئے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ حضرت عمر کے دور میں مالیاتی طبقاتی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی اسلئے یہ دوسرا دور تھا ، حضرت عثمان کے دور میں خاندانی نظام کی بنیاد پڑی اسلئے خیرالقرون کا تیسرا دور تھا اور حضرت علی کے دور میں فتنوں کا آغاز ہوگیا اسلئے وہ شامل نہیں لیکن شاہ ولی اللہ نے حضرت علی کے دشمنوں کو مایوس کیا اسلئے کہ ان کے دور کو قیامت تک فتنوں میں رہنمائی کیلئے بہترین بنیاد قرار دیا ہے۔

شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ قرآن میں خلافت کا وعدہ جمع کیساتھ ہے۔ عربی میں کم ازکم تین پر جمع کا اطلاق ہوتا ہے اور مسلمانوں کیساتھ اللہ نے وعدہ پورا کیا اور تین خلفاء کو خلافت کی دولت عظیمہ سے نواز دیا۔

شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے لکھا کہ خیرالقرون کا صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین کے تین ادوار پہلی صدی ہجری، پھر دوسری صدی ہجری اور پھر تیسری صدی ہجری پر اطلاق ہوتا ہے۔ اور چوتھی صدی ہجری اس میں شامل نہیں اور تقلید کو چوتھی صدی ہجری میں ضروری قرار دیا گیا ہے اسلئے تین سو سال تک جو چیز بھی رائج ہوئی ہے وہ دین ہے لیکن اسکے بعد ہر چیز بدعت ہے۔ بدعت کی حقیقت ۔ جس کی تائید میں علامہ یوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھ دی ہے۔

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے تقلید کی شرعی حیثیت میں ائمہ مجتہدین کے بعد وہ حدیث نقل کی ہے جس میں علماء کے اٹھ جانے کی خبر ہے اور لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیںگے ۔ ان سے فتویٰ پوچھیںگے اور وہ جانے بوجھے بغیر جواب دیںگے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریںگے۔ متفق علیہ عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں۔

علامہ اقبال کی طرف شعر منسوب ہے جو شاید کسی اور کا ہے کہ
توحید ہستی ہم ہیں محافظ خدا ہمارا
ہم کافروں کے کافر کافر خدا ہمارا

جس میں ترمیم کی ضرورت ہے کہ
توحید ہستی ہم ہیں محافظ خدا ہمارا
ہم جاہلوں کے جاہل جاہل رہنما ہمارا

غسل ، وضو اور نماز کے فرائض اور ان میں اختلافات کا پتا قرآن و سنت ، خلفاء راشدین، صحابہ کرام، تابعین ، مدینہ کے سات فقہاء قاسم بن محمد بن ابی بکر ، عروہ بن عبداللہ بن زبیر ……وغیرہ جنکے بارے میں مولانا انورشاہ کشمیری نے لکھا ہے کہ ” اگر انکے نام لکھ کر پانی میں ڈالے جائیں اور اس کا چھڑکاؤ کیا جائے تو چھت لکڑی کو دیمک نہ لگے گی”۔ سلیمان کے دور میں یہ نعمت میسر نہیں تھی ورنہ اپنی عصا پر چھڑکتے۔

شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے عذاب قبر کے انکار کی بنیاد رکھ دی۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے پہلی صدی ہجری کو رسول اللہۖ کا دور قرار دیا، دوسری صدی ہجری کو صحابہ کرام اور تیسری صدی ہجری کو تابعین کا دور قرار دیا۔ جس میں فقہ و حدیث کی بنیادرکھ دی گئی اور چوتھی صدی ہجری میں تقلید کو بدعت قرار دیا تھا۔ ان کی کتاب کا اردو ترجمہ ”بدعت کی حقیقت” پرحضرت علامہ محمدیوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھی ہے جس میں ان کی ایک دوسری کتاب ”منصب امامت” کی تائید بھی کی ہے۔ سیداحمد بریلوی کے خلیفہ اجل میاں نور محمد جھنجھالوی سے حاجی امداداللہ مہاجر مکی بیعت ہوئے۔ اور اکابر دیوبندمولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی ان کے مرید اور خلفاء عظام تھے۔

ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں بہت وقت لگایا تھا اور سلسلہ قادریہ کے شیخ بھی تھے۔ مولانا فقیر محمد خلیفہ مولانا اشرف علی تھانوی ان کی مجالس میں بیٹھتے تھے اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی طرح سمجھتے تھے۔ حالانکہ کہاں حضرت حاجی محمد عثمان اور کہاں حاجی امداد اللہ؟ بہت فرق تھا۔ حاجی امداداللہ مہاجرمکی پر حکایات رومی کی وجہ سے کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور حاجی محمد عثمان نے قرآن وسنت کو اہمیت دی تھی۔ البتہ دونوں عالم دین نہیں تھے اور امام غزالی جیسے علماء بھی صوفی بن گئے تو اصول فقہ اور فقہ کے علوم کو بدترین گمراہی سے تعبیر کیا تھا اور دوسروں کی ہدایت کیلئے بھی ”المنقذ من ضلال ” کتاب لکھ دی ۔جس کا ترجمہ ”گمراہی کے اندھیرے سے ہدایت کی روشنی ” کے نام سے کیا گیاہے۔

تبلیغی جماعت اور علماء کا اختلاف

تبلیغی جماعت والے اپنے کام کو فرض اسلئے سمجھتے ہیں کہ امت اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی غسل، وضو، نماز کے فرائض سے آگاہ نہیں اور جب غسل کے فرائض کا پتہ نہیں ہوگا تو نماز اور قرآن کوہاتھ سے چھونے کا معاملہ بھی خطرناک ہوگا اسلئے کہ جنابت سے طہارت ضروری ہے۔ اس طرح بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی اور قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا تو پھر وضو کے فرائض بھی ضروری ہیں اور نماز کے فرائض بھی ضروری ہیں۔

علماء کرام کہتے ہیں کہ غسل ، وضو اور نماز کے فرائض ضروری ہیں مگر لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ علماء سے فرائض ، واجبات اور سنن اور مستحبات سیکھ لیں۔ لوگوں کے پیچھے گھومنے میں علماء کرام کی بے توقیری ہے۔

اب پہلا سوال یہ ہے کہ غسل، وضو اور نماز کے فرائض نبیۖ نے صحابہ کرام یا خلفاء راشدین و صحابہ نے تابعین کو سکھائے تھے؟۔ مدینہ کے مشہور سات فقہاء کو ان فرائض کا پتہ تھا؟ ۔ تو جواب نفی میں ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رسول اللہۖ، صحابہ کراماورتابعیننے یہ فرائض نہیں سیکھے اور ان کی نماز ہوجاتی تھی تو پھر یہ کیوں ضروری ہیں؟۔

جب غسل، وضو اور نماز کے فرائض اور واجبات کو حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مسالک میں الگ الگ تقسیم کیا جائے اور سب کے فرائض ایک دوسرے سے مختلف ہوں اور اس وجہ سے تقلید بھی فرض بن گئی ہو تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟۔ جس کا جواب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی نہیں ہوگی اور اسلئے حرم کعبہ میں چار اماموں کے چار جائے نماز تھے اور مسجد نبوی ۖ میں تو محراب تک بھی الگ الگ بنائے گئے تھے۔

محراب نبویۖ سے الگ محراب حنفی بھی بنایا گیا تھا۔ علامہ ابن تیمیہ نے چار مسالک کو چار الگ الگ فرقے قرار دیا لیکن ان کو ختم نہیں کیا بلکہ پانچواں مذہب بھی ایجاد کیا جیسے اہل حدیث کا اپنا مسلک ہے۔

مسلک اور نصاب فتویٰ لگانے اور حکومتی جبر سے ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کیلئے ایسی دلیل کی ضرورت ہے جس کی حقانیت سے باطل اپنی موت آپ مرجائے۔ اصول فقہ میں پہلا اصول قرآن، دوسرا حدیث، تیسرا اجماع اور چوتھا قیاس ہے۔ جس کا مطلب ایسا اجتہاد ہے جس کو قرآن، حدیث اور اجماع سے استنباط کرکے اخذ کرلیا جائے۔

مجتہدین کے سات طبقات ہیں۔

1: پہلا طبقہ مختلف مسالک کے ائمہ حضرات کا ہے۔ جن کو مجتہد مطلق کہا جاتا ہے۔
2: دوسرا طبقہ ان کے بہت مشہور شاگردوں کا ہے جن کو مجتہد فی المذہب کا درجہ حاصل ہے۔
3:تیسرا طبقہ مجتہد فی المسائل کا ہے جو ائمہ اور ان کے شاگردوں کی تقلید کے پابند ہیں لیکن کچھ مسائل میں اجتہاد کرسکتے ہیں۔
4: چوتھا طبقہ اصحاب تخریج کا ہے۔ جو مجتہدین کے اجہتادات سے مسائل نکال سکتے ہیں۔
5: پانچواں طبقہ اصحاب ترجیح کا ہے جو اختلافی مسائل میں ایک قول کو ترجیح دے سکتے ہیں کہ یہ صحیح اور یہ غلط ہے۔
6: چھٹا طبقہ اصحاب تمیز کاہے جو کسی کے اولیٰ یعنی بہتر اور غیراولیٰ نامناسب کی صلاحیت ہی رکھتے ہیں۔
7: ساتواں طبقہ مقلدین محض کا ہے جن کا کام دوسروں کی صرف تقلید کرنا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔

علماء دیوبند وعلماء بریلوی مقلد محض

شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” سے متاثر ہوکر کچھ علماء نے تقلید محض سے انحراف کیا ۔ علامہ عبدالحی لکھنوی نے روایت کی بنیاد پر اکٹھی تین طلاق کو ایک قرار دیا جس کو مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتاویٰ رشیدیہ میں نقل کیا اور پھر حنفی فتویٰ بھی نقل کیا ہے کہ اکٹھی 3طلاق واقع ہوجاتی ہیں۔ تاکہ دونوں طرح کی راہیں کھل جائیں۔ علامہ ابن تیمیہ نے بھی ایک طلاق قرار دی اور ان سے گنگوہی متأثربھی تھے۔

پھر جب علماء دیوبند نے قرآن وسنت سے اپنا لگاؤ بڑھایا اور تقلید کو بدعت قرار دینے کی طرف رحجان بن گیا تو مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حرمین شریفین کے علماء سے ان کے خلاف مختلف عبارات نقل کرکے فتویٰ لیا جس کو ” حسام الحرمین ” کا نام دے دیا۔ پھر علماء دیوبند نے اپنی کتاب ” المہند علی المفند” میں اس کی تردید کردی اور خود کو مسلکاً حنفی اور مشرباً چشتی بتایا اور علامہ ابن تیمیہ کی گمراہی کے فتوے جاری کئے۔ اور محمد بن عبدالوہاب نجدی سے مکمل طور پر اپنی برأت کا اعلان کردیا۔

پھر اس کے کچھ عرصہ بعد حجاز میں وہابیوں کی حکومت آگئی اور علامہ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے عقائد پر دوبار ہ ایمان لایا تھا۔ ایک قندھاری افغانی عالم مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اکابرعلماء دیوبند کی شکست میں نہ صرف زبردست کردار ادا کیا بلکہ تذبذب کی ایسی کیفیت سے دوچار ہوگئے جیسے آج پختونخواہ اور پنجاب کے ہر نکڑ پر کتوں کے پلوں کی طرح ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگاتے نظر آتے ہیں۔

مقلد محض مولانا احمد رضا خان بریلوی نے فتاوی شامی میں بہت ہی بڑی گستاخانہ عبارت جس میں ”علاج کیلئے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے اگر یقین ہو کہ علاج ہوجائے گا”کی تأولیل لکھ دی ہے کہ ”چونکہ وحی کے بغیر علاج کا یقین نہیں ہوسکتا ہے اسلئے سورہ فاتحہ کو پیشاب لکھنا جائز نہیں قرار دیا ہے”۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ بچپن میں مولانا احمد رضا خان بریلوی نے لمبی قمیص پہنی تھی اور شلوار نہیں پہنی تھی تو سامنے سے عورتوں کو آتے ہوئے دیکھا جنہوں نے اس کو بچہ سمجھ کر اپنا چہرہ نہیں چھپایا۔ مولانا احمد رضا خان نے اپنی قمیص کے دامن سے اپنا چہرہ چھپایا تو نیچے اواز دکھنے لگے جس پر عورتیں مسکرائیں۔

مفتی تقی عثمانی نے علامہ شامی سے نقل کرکے لکھ دیاکہ ” میں نے امام ابویوسف کی کتابیں چھان ماریں مگر کہیں بھی علاج کیلئے یقین کی شرط نظر نہیں آئی”۔ یہ مولوی حضرات کچھ بھی لکھتے ہوئے دوسروں سے استفادہ بھی کرتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے تو ان کی تردید کرتے ہیں اسلئے مولانا احمد رضا خان اور مفتی تقی عثمانی کا معاملہ مختلف لکھا گیا ہے۔

شروع میں علماء دیوبند اور علماء بریلوی نے لاؤڈاسپیکرپر نماز،آذان اور اقامت کو ناجائز قرار دے دیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقلد محض کا یہ مقام نہیں تھا تو ایسی بکواس کی آخر کیا ضرورت تھی جس کی وجہ سے مدتوں تبلیغی جماعت اور پھر مدتوں بعد دعوت اسلامی بھٹک رہی تھی؟ ۔

نماز کے 14فرائض کا شیشہ ٹوٹا؟

ہمیں کانیگرم جنوبی وزیرستان کے سکول میں بھی نماز کے فرائض یاد کرائے گئے تھے ۔ آخری فرض 14: اپنے ارادہ سے نماز سے نکلنا۔

جب بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا تو مفتی عبدالسمیع سے بحث ہوئی۔ قرآن لکھائی کی شکل میں اللہ کا کلام ہے یا نہیں؟۔ جس پر وہ اپنی بحث ہار گئے اور طلبہ نے مجھے علامہ تفتازائی کے لقب سے مشہور کردیا۔

پھر جب میں نے مختلف مواقع پر مختلف سوالات اٹھائے تو ایک یہ بھی تھا کہ اپنے ارادے  کیساتھ نماز سے نکلنا فرض ہے بھلے ریح خارج کی جائے اور سلام سے نکلنا واجب ہے۔ تو واجب کیلئے سجدہ سہو ہے اور وضو کے بغیرسجدہ سہو نہیں ہوسکتا۔ پھر ایسے فرض کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔

جب بڑے اساتذہ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن تک جواب دینے سے قاصر ہوتے تھے تو طلبہ نے کہا کہ ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ استاذ قاری مفتاح اللہ صاحب مدظلہ العالی نے فرمایا کہ ” عتیق کو ایک عام طالب علم مت سمجھو ۔ جس طرح امام ابوحنیفہ اور امام مالک بڑے درجہ کے امام تھے اس طرح یہ بھی ایک امام ہیں”۔اور مجھ سے فرمایا کہ ”آپ محنت جاری رکھو اورنصاب کی غلطیوں کو خود ٹھیک کرلوگے”۔

قاری مفتاح اللہ صاحب قلندر ہیں۔ قلندر ہر چہ گوئید دیدہ گوئید۔

احناف نے یہ فرض ایک روایت سے لیا ہے کہ ” جس نے نماز کے آخری قاعدہ میں ریح خارج کردی تو اس کی نماز مکمل ہوگئی”۔

میں نے اس پر متعدد مرتبہ لکھا کہ ”ریح کا خارج ہونا یا ریخ کا خارج کرنا ” زبان اور لہجے میں فرق ہے لیکن اس سے حقیقی فعل فاعل مراد نہیں ہیں۔ جیسے فلاں شخص کا انتقال ہوگیا یا انتقال کرگیا زبان ، لہجے اور الفاظ کا فرق ہے۔ مرنے والا جب مرتا ہے تو لفظ کی حد تک مرگیا یا دنیا چھوڑ گیا لیکن حقیقت میں دونوں ایک ہیں۔ میری اس کاوش کا نتیجہ یہ نکل گیا ہے کہ رائیونڈ والوں نے اپنی ویپ سائٹ پر نماز کا 14فرض نہیں لکھا۔

جب علماء نے کھلے الفاظ میں لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا کہا کہ نہیں ہوتی تو عمل کرنے والوں نے عمل شروع کردیا لیکن پھر علماء نے کھلے عام اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے بات اولیٰ اور غیراولیٰ پر ڈال دی۔ لوگوں کو یہ تأثر دیا کہ علماء جو بات کہیں وہ مانو اور جوعمل کریں وہ نہیں کریں۔

تزکیہ بھی ایک اہم شعبہ ہے۔ علماء ومفتیان اپنی تزکیہ کیلئے کسی اللہ والے سے بیعت کرلیتے تھے۔ غسل اور وضو کے فرائض اوراختلافات بھی بالکل لایعنی اور فضو ل ہیں۔ جن پر کئی مرتبہ وضاحت کی ہے لیکن جب قرآن کی تعریف میں ڈنڈی ماری گئی ہے تو کس چیز پر اتفاق ہوسکتا ہے؟۔علماء کرام اپنے نصاب کی تبدیلی میں وقت ضائع نہیں کریں۔

تسخیرکائنات اور قرآن وحدیث

قرآن میں تسخیر کائنات اور نفع بخش چیزوں کی بقاء کو واضح کیا گیا۔ رسول اللہۖ نے فرمایا :”علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چین جانا پڑے”۔

ایک طرف قرآن و سنت کے احکام کی غلط تعبیرات، تاؤیلات اور تسخیرات سے نصاب کا ایسا ملیدہ بنادیا ہے جس کو علماء ومفتیان خود بھی کارآمد نہیں سمجھتے ہیں لیکن وقت ضائع کرنے اور پیسہ بٹورنے کا ذریعہ ہے۔ جس دن مدارس کو پیسہ بند ہوجائے گا تو کوئی بھی فضولیات میں اپنا وقت ضائع نہیں کرے گا۔ شیخ الہند اور مولانا انور شاہ کشمیری نے آخری وقت میں اس سراب سے علماء کی جان چھڑانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

اگر قرآن و سنت کے معاشرتی اور معاشی نظام کو امت مسلمہ اور دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو اس کیلئے کسی مزاحمتی تحریک کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ ملک کا جوا شرافیہ حرمت مصاہرت اور حلالہ کی مصیبت بڑی پیچیدگی سے برداشت کرتا ہے اور عوام اس بدبودار تحریف سے پہلو تہی برت رہی ہے لیکن اگر ان کو قرآن وسنت کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کیا گیا تو مسلمان اور کافر سب کے سب انسان اسلام کے ذریعے سے ایک اچھے نظام کی طرف مسخر ہوجائیںگے۔ قرآن وسنت نے جس جہالت سے عرب اور پوری دنیا کو نکالا ہے علماء اپنی غلط تشریحات کے ذریعے امت مسلمہ کو دنیا بھر میں پھر گمراہ کررہے ہیں۔ سراج الحق تقریر کرتا تھا کہ سود کا گناہ اپنی ماں سے خانہ کعبہ میں36مرتبہ زنا کے برابر ہے مگر جیسے کسی گدھے کو دیگ میں پکاکر اسکا نام اسلامی ٹٹو رکھا جائے اور گدھے کی لید اور پیشاب بھی اس میں شامل کیا جائے ویسے اسلامی بینک کا فراڈ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

پاکستانی امام مسجد کی پادری پوتی کا کینیڈا میں انٹرویو : بہت ہی جاندار تجزیہ کیساتھ
شہریار رضا عابدی، حافظ عبد الخالق بھٹی اور سلفی سپاہی کو جواب
اگر اسلام میں تصوف نہیں تو نماز میں چوتڑ اٹھا کر سبحان ربی اعلیٰ کی کیا ضرورت ؟