پوسٹ تلاش کریں

مولانا سرفراز صفدر کاپوتامولاناعمار: وکیلاں دی کڑی ٹانگے والے نال نس گئی اے

مولانا سرفراز صفدر کاپوتامولاناعمار: وکیلاں دی کڑی ٹانگے والے نال نس گئی اے اخبار: نوشتہ دیوار

شریف گھرانے کی لڑکی ہندوستان کی بڑی ادا کار ہ کیسے بنی؟بالو پاکستان فلم انڈسٹری کی خاتون اول ناصر بیگ کی وڈیو میں۔علامہ زاہد الرشدی کے بیٹے کا غامدی بنناوہی کردار لگتا ہے

فاروق اعظم نے مسئلہ طلاق پر کوئی اجتہاد کرکے حلالے کا راستہ نہیں کھولا بلکہ یزیدی ظالموں نے قرآن کو چھوڑکر ولایزید الظالمین الا خسارًا امت کو خسارے میں ڈال دیا

وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”اور انکے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر ان کو لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں”۔ ( البقرہ:228) یہ تمہارا اجتہادہے یا کھاد؟

پوتا رجل رشید کا دل باغ باغ یزید کا
دیا جلا سعید کا یا بجھا چراغ امید کا
چاند ہے یہ عید کا یا داغ وعید کا
کمال ہے کلید کا لگا ابھی سراغ دید کا

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

میرے تلخ لہجہ میں تیرے علاج کی آس ہے
حق کڑوا سہی مگر معالج کا بائی پاس ہے
قرآن کردیا بوٹی بوٹی پھر ہڈیوں کا چورن؟
غامدی کے روپ میں ٹیچی ٹیچی خناس ہے

المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قروئ…..وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”طلاق والی عورتیں تین ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں….اور ان کے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔ (سورہ البقرہ:228)

اس آیت کا ہدف1: تین طلاق پر حلالہ کی لعنت کا خاتمہ، ہدف2: عورت کی رضاکے بغیر شوہر کے حق رجوع کا خاتمہ اور ہدف3: عورت راضی تو شوہر رجوع کا سب سے زیادہ حقدار۔

ایک مجلس میں تین طلاق یا تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی اور کوئی حلالہ نہیں ہے۔ عورت راضی نہیں تو مذاق، غصہ اور سنجیدگی جیسے بھی دی تو رجوع نہیںہوسکتا۔ اسلئے کہ خلع میں اس عورت کے حقوق کم ہیں اور طلاق میں زیادہ ہیں۔ سورہ النساء آیات19،20،21میں بھرپور طریقہ سے حقوق واضح ہیں۔

شوہر نے بیوی کو3 طلاق دی ، عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو عمر نے عورت کے حق میں فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ علینے یہی فیصلہ حرام کے لفظ پر دے دیا تھا۔

رکانہ کے والد نے رکانہ کی والدہ کو مرحلہ وار سورہ طلاق کے مطابق تین طلاقیں دیں۔ عدت کی تکمیل پر دو عادل گواہ بنائے پھرکسی اور سے نکاح کیا، اس نے نامرد کہا تو نبیۖ نے طلاق کا حکم دیا اور فرمایا کہ ام رکانہ سے رجوع کیوں نہیں کرتا؟۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا۔ فرمایا : مجھے معلوم ہے اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات کی تلاوت فرمائی۔

حضرت آدم وحواء کو بطور فتنہ چاشنی شجرہ سے روکا گیا اور اللہ نے فرمایا کہ ” اے بنی آدم شیطان تمہیں فتنہ میں نہ ڈالے جیسے تمہارے والدین کو جنت سے نکالااور انکے لباس کو ان سے اتاراتاکہ ان کی شرمگاہوں کو…….”۔ (اعراف:27)
تحریف کے مرتکب بنی اسرائیل داؤد کی زبوراور موسٰی کی توراة اور کافی انبیاء کے باوجود حلالہ کی چاشنی چاٹنے لگے ۔

لعن الذین کفروامن بنی اسرائیل علی لسان داؤد و عیسٰی ابن مریم ذٰلک بماعصوا وکانوا یعتدون O ” لعنت کی گئی جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں سے داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان پر بوجہ وہ نافر مانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے”۔ (سورہ المائدہ:78)
پھر نصاریٰ نے حلالہ چھوڑ کر طلاق کا مذہبی تصور ختم سمجھ لیا۔

زبان محمدۖپر حلالہ والوں کی لعنت ہوئی۔ نبی ۖ نے فرمایا: ”تم سابقہ اقوام کے نقش قدم پر چلو گے۔ عرض کیا کہ یہود ونصاری ؟۔ فرمایا: تواور کون ؟”۔ امام ابوحنیفہ نے خلیفہ کیلئے اسکے والد کی لونڈی کو جائز نہیں قرار دیا۔ ابویوسف نے معاوضہ لیکر جائز قرار دیا۔ امام کو جیل میں شہیدکیا اور شاگردکو کوقاضی القضاة (چیف جسٹس) بنادیا۔ سب کہو !سبحان اللہ۔

صحف ابراہیم سے سوتیلی ماں کو جائز سمجھا گیا ۔ کیونکہ”ان کی مائیں نہیں مگر وہی جنہوں نے انہیں جنا ”۔ (سورہ مجادلہ) جبکہ قرآن ”نکاح نہ کرو جن کیساتھ تمہارے آباء نے نکاح کیا” صحف ابراہیم میں تھامگر جاہل ناسمجھ تھے۔ ہندو کی فطرت اتنی نہیں بگڑی کہ سوتیلی ماں کو جوازبخشتے یا حلالہ کے مریض بنتے ۔ ہندو کوصحیح اسلام پہنچتا تو عرب کی طرح قبول کرچکے ہوتے۔ غامدی گدھ سدرة المنتہیٰ کی گمراہانہ تفسیر کرتا ہے اور بیر کے نام پربھی شجرہ ملعونہ حلالہ کے اجتہاد میں زقوم کا چورن بیچ رہاہے۔
”ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی امنیت میں القا کیا ۔ پس اللہ مٹاتا ہے شیطان کے القا کئے کوپھر اپنی آیات کو مستحکم کردیتا ہے اور اللہ علم والا اور حکیم ہے”( سورہ حج :52)۔

سورہ مجادلہ میں ظہار کا مسئلہ حل ہوا تو نبیۖ کی تمنا تھی کہ حلالہ ختم ہو۔ نبیۖ کی امنیت پر شیطان حملہ آور تھا۔ سورہ نور میں واضح ہے کہ بیوی کو رنگے ہاتھوں پکڑلیا تو قتل نہیں کرسکتے۔ مرد سچ بولے اور عورت جھوٹ پھر بھی عورت کو سزا نہ ہوگی۔ استحقاق خلافت کے علمبردار حضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ میں قتل کروں گا۔ نبیۖ نے انصار سے فرمایا: تمہارا صاحب کیا کہتا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ بڑا غیرتمند ہے، طلاق شدہ و بیوہ سے کبھی نکاح نہ کیا اورطلاق دی کی تو کسی اور سے نکاح نہ کرنے دیا۔نبیۖ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے ۔ (صحیح بخاری)

آیت میں شیطانی مداخلت امنیت میںیہی تھی کہ لعان کے حکم اور آیت230البقرہ میںطلاق کے بعد عورت کی آزادی میں رکاوٹ کی بنیادتھی۔ امنیت یہ بنیاد ہے۔ پھر آیت کو حلالہ کی لعنت پر چھوڑ کر دم لیں گے کا شیطانی منصوبہ کا میاب ہوگیا۔ لیجعل اللہ مایلقی الشیطان فتنة للذین فی قلوبھم مرض و القاسیة قلوبھم ….” تاکہ شیطانی القا کو ان لوگوں کیلئے فتنہ اللہ بنادے جن کے دلوں میں (حلالے کا) مرض ہے اور جنکے دل ڈھیٹ ہیںاور بیشک ظالم دُور (یزیدی دور) کی بدبختی میں ہیں۔ اور تاکہ جان لیںجن کو علم دیا گیا کہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے تو اس پر ایمان لائیںپس اس کیلئے ان کے دل جھک جائیں۔اور بیشک اللہ ہدایت دینے والا ہے اہل ایمان کو صراط مستقیم کی طرف۔ (سورہ حج آیات : 53، 54)

مولانا عمار ناصر کے اَبا علامہ زاہدالراشدی حلالہ کے مرض میں مبتلا علمائء کا نمائندہ اور جاوید غامدی ڈھیٹ رفاہی کا نمائندہ ہے۔ حلالہ کے خلاف قرآن کو اہل علم بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ مان گئے۔ مگر غامدی پر مرزا غلام احمد قادیانی کا شیطان چڑھ گیا۔ سلمان رشدی کی تفسیر شیطانی آیات کو بھی یہ پیچھے چھوڑ گیا۔ نبی اکرم ۖ کی ذات میںقرآنی آیات سے شیطانی القاکے ثبوت پیش کررہاہے؟۔العیاذ باللہ یہ خود ہی سراپا شیطان ہے۔ قرآن نے انسانی شیطانوں کو واضح کردیا ہے۔

اہل سنت کے چاروں امام کا مسلک 100فیصد درست تھا کہ” اکٹھی تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں”۔ قرآن ایک طلاق کے بعدبھی عورت کی رضاکے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں دیتا اور حدیث میں مذاق کی طلاق بھی معتبرہے۔کوئی امام بھی قرآن و حدیث سے سر مو انحراف کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

احادیث کے ذخائر میں کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ نبیۖ نے عدت میں قرآن کے منافی میاں بیوی کو باہمی صلح کے باوجود بھی حلالہ پر مجبور کیا ہو۔اگر کوئی حدیث ہوتی تب بھی کم ازکم وہ فقہ حنفی جو قرآن کے مدمقابل واضح احادیث کومحض وہم کی بنیاد پر رد کرتی ہے تو قرآن سے متضاد حدیث کو کیسے مان سکتی تھی؟۔

ائمہ مجتہدین سیدنا عمر کے فیصلے پر متفق تھے کہ اگر تین طلاق کے بعد عورت صلح سے مکر جائے تو رجوع نہیں ہوسکتا۔ زیر بحث اکٹھی تین طلاق کا فعل تھا۔ امام ابوحنیفہ و مالک کے نزدیک یہ گناہ، بدعت، ناجائز ہے ۔دلیل محمود بن لبید کی روایت ہے کہ ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔ نبیۖ اس پر غضناک ہوکر اٹھے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ (نسائی) انکے شاگردامام شافعی کو پتہ چلاکہ یہ کردار حضرت عمر اور عبداللہ بن عمر تھے تو واضح کیا کہ یہ جائز، مباح اور سنت ہے ۔دلیل عویمرعجلانی کا واقعہ بنایا کہ لعان کے بعد تین طلاق دی۔اجتہاد کا مطلب انحراف نہیں۔ جاویدغامدی قرآن کی محکم آیات کو ضعیف روایت سے بلبلے کی طرح اُڑارہاہے لیکن علماء حق نے قرآن واحادیث کو پہنچانے میں کبھی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کیا۔ وفا ق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان محدث العصر نے لکھ دیا کہ ” مسلک حنفی میں احادیث سے قرآن میں حتی تنکح زوجًا غیرہ میں لفظ نکاح پر جماع کا اضافہ بھی نہیں ہوسکتا۔ (کشف الباری شرح صحیح البخاری)

یزید، مروان ،عبدالملک بن مروان نے سیاسی مفادات ، جنسی خواہشات اور عوامی جذبات کیلئے حلالہ کو ہتھیار بنادیا تھا۔ سعید بن المسیب نے کہا :”قرآنی حکم نکاح ہے جماع نہیں” ۔ عبدالملک نے عبدالعزیز سے عہد شکنی کرکے بیٹے کیلئے بیعت لینا چاہی تو سعید نے بچنے کیلئے حیلہ کیاکہ خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کی بیعت جائز نہیں۔ بڑا تشدد کیا، پھانسی گارڈ تک لے گئے۔عبدالرحمن بن ابوبکر نے بھی سمجھایا مگر رپورٹ دی کہ تشدد کے بعد مزید سخت ہوگئے ۔امام ابوحنیفہ کی شہادت ہوئی۔ امام مالک پرکوڑے برسا کر سوفٹ وئیر اپڈیٹ کیا مگر موطا کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے سے منع کیا۔ امام شافعی پر رافضیت کا فتویٰ اور امام احمد بن حنبل کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے۔ ائمہ اہل بیت اطہارنے کوئی کتاب نہیں لکھی اسلئے کہ حکمرانوں کی دسترس سے ملاوٹ کا شکار ہوسکتی تھی۔ قرآن کی حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لی اور احادیث پر محقق علماء نے تحقیقی نظررکھی تھی۔
امام عثمان نے حج وعمرہ کے اکٹھے ایک احرام پر پابندی لگائی تو امام علی نے اعلانیہ مخالفت کرکے احرام باندھا۔ (بخاری)

ضحاک گورنر دمشق نے کہا : حج وعمرہ کا احرام اکٹھے باند ھنے والا جاہل ہے۔ سعد بن ابی وقاص نے فرمایا:” یہ نہ کہو میں نے نبی ۖ کو باندھتے دیکھا ہے”۔عبداللہ بن عمر متوفی 74ھ سے کہا کہ تم اپنے والدکی نہیں مانتے؟، جواب دیا: والد نہیں نبیۖ کو نبیۖ مانا ہے۔ عبداللہ بن عباسمتوفی68ھ نے کہا تعجب ہے کہ پتھر تم پرکیوں نہیں برستے ؟۔ نبیۖ کے مد مقابل ابوبکر وعمر کو لاتے ہو؟۔ (شرح صحیح مسلم :علامہ غلام رسول سعیدی)

عمران بن حصین متوفی 52ھ نے کہا کہ ” اللہ نے قرآن میں حج و عمرہ کا حکم نازل کیا، نبیۖ کو اکٹھا احرام باندھتے دیکھا اور جس نے بھی اس کی مخالفت کی تو اپنی رائے سے کی اور اس رائے کا اس کو حق نہیں تھا۔ جب ہم سنت پر عمل کرتے تھے تو فرشتے ہاتھ ملاتے تھے اور اب جب تک میں زندہ ہوں مجھ سے میری بات نقل مت کرو۔ (صحیح مسلم میں مزید تفصیل )
قرآن نے مشرک اہل کتاب عورت سے نکاح کی اجازت دی۔ عبداللہ ابن عمر نے کہا کہ ان سے بھی نکاح نہیں ہوسکتا۔
عبداللہ بن عمر متوفی 74ھ کا اتفاق نہ تھا کہ اکٹھی 3 طلاقیں واقع ہوسکتی ہیں کہاکہ ” اگر میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری بار طلاق دیتا تو نبیۖ مجھے رجو ع کا حکم نہ دیتے”۔ (بخاری)

محمود بن لبید متوفی 97ھ نے کہا کہ” ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے بیوی کو تین طلاق دی تو نبیۖ غضبناک ہوکر اٹھے ….( سنن نسائی ) مذکورہ حضرت عمر اور عبداللہ تھے۔ حسن بصری متوفی110ھ نے کہا: مجھے مستندشخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمرنے تین طلاق دی۔ پھر20سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا۔ 20سال بعد ایک زیادہ مستند شخص ملا جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ (صحیح مسلم)

حسن بصری نے کہا بیوی کو حرام کہا تو جو نیت کی، بعض علماء کا اجتہاد تھاکہ یہ تیسری طلاق ہے جو کھانے پینے کی طرح نہیں کہ کفارہ سے حلال ہوجائے(حلالہ کرنا ہوگا)۔ (صحیح بخاری)۔ عبداللہ بن عباس نے کہا کہ حرام کہنے سے طلاق، حلف، کفارہ کچھ نہیں ۔یہی سیرت طیبہۖ کا تقاضہ ہے۔ (صحیح بخاری)

حسن بصری کی پیدائش 21ھ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ جب عبدالملک بن مروان نے خلیفہ صحابی عبداللہ بن زبیر کو 73ھ میں مکہ مکرمہ میں شہید کیا ۔یہ سانحہ عثمان بن عفان کی شہادت سے بہت حدتک مماثلت رکھتا تھا لیکن حجاج بن یوسف کے ظلم سے لوگوں کی ہمت جواب دے گئی تھی۔ عبداللہ بن عمر کی وفات کے بعد ان پر جھوٹ باندھا گیا کہ ”اگر میں اکٹھی تین طلاق دیتا تو نبیۖ رجوع کا حکم نہیں دیتے”۔ حسن بصری صوفی بالصفاتھے۔ انہیں کہا گیا کہ علی نے حرام کو تیسری طلاق قرار دیا۔ یوں ان کے ذہن کو بتدریج خدشات کا شکار کیا گیا تھا۔

بخاری نے رفاعہ القرظی کے واقعہ پر غلط عنوان بنایا ،مرحلہ وارتین بارطلاق دی۔ عبدالرحمن بن زبیر القرظی کی عورت نے نبیۖ کو دوپٹے کا پلو دکھایا کہ اسکے پاس یہ ہے۔کسی کو غصہ آیا کہ نبیۖ کے پاس یہ حرکت؟۔ اماں عائشہ نے فرمایاکہ بے چاری کو مار پڑی، کپڑا اٹھاکر زخم کے نشان دکھائے۔ نبیۖ نے صلح واصلاح کرانی تھی ۔ شوہر نے کہا کہ یہ جھوٹ بولتی ہے مردانہ قوت سے اس کی چمڑی تک ادھیڑ دی۔(صحیح بخاری)

اس سے حلالہ مراد نہیں ۔ مولانا پیر کرم شاہ الازہری نے نقل کیا کہ حسن کو بیوی نے حضرت علی کی شہادت کی خبر سنائی اور خلافت کی مبارکباد دی۔ جس پر حسن نے تین طلاق دی اور پھر کہا کہ اگر میں نے اپنے جد سے نہیں سنا ہوتا کہ تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تو میں رجوع کرلیتا”۔ راوی کے بارے میں مولانا ازہری نے لکھا : انہ جرو کلب رافضی”بیشک وہ کتے کا بچہ رافض تھا”۔(دعوت فکر: پیر کرم شاہ الازہری)
رافضی شیطان نے کسی کو حلالہ سے شکار کرنا ہوگاناں؟ ۔

حنفی مسلک ہے کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ قرآن میںعورت کو اپنے نکاح کیلئے اختیار ہے۔ احادیث میں ہے کہ ” ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہے”۔ (بخاری) ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔خبر واحد قرآن سے متصادم ہو تو عمل نہیں ہوسکتا۔ جاویداحمد غامدی ضعیف روایت سے قرآنی احکام کی واضح آیات کو بلبلے کی طرح اُڑا رہاہے؟۔

میں نے عرض کیا کہ مسلک حنفی کا اصول تطبیق ہے۔ حدیث سے کنواری مراد لے سکتے ہیں،مولانا بدیع الزمان کا چہرہ دمک اٹھا ، فرمایا کہ کتابوں کی تکمیل کے بعد آپ راستہ نکال لوگے۔

دل بیدار فاروقی دل بیدار کراری
مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری
دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری
مشام تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشاں اس کا
ظن و تخمیں سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تاتاری
اس اندیشے سے ضبط آہ میں کرتا رہوں کب تک
کہ مغز زادے نہ لے جائیں تیری قسمت کی چنگاری
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری
تو اے مولائے یثرب ! آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری

غامدی قادیانی سے زیادہ خطرناک ہے مگر سید عطاء اللہ شاہ بخاری، سید مودودی ، سیدابوالحسنات احمد قادری، سید محمد یوسف بنوری ، مفتی محمود اور مولاناشاہ احمد نورانی علماء حق نہیں۔مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی نے سودی بینکاری کا حیلہ کیاہے تو جاوید غامدی کی تجدید اور دین کی تعبیر نوپر کیا اعتراض ہوگا؟۔

مولانا سرفراز خان صفدر اللہ والے تھے اور مجھے اپنے مدرسہ نصرت العلوم کو مرکز بنانے کی دعوت دی تھی مگر میں نے عرض کیا فرقہ وارانہ شناخت نہیں چاہتا تو اور خوش ہوکر دعائیں دیں۔ ان کا پوتا ڈاکٹر عمارخان ناصر غامدی کے پاس پھنس گیاہے۔

حضرت عمر نے جب نبیۖ کو خبر دی کہ بہو نے رونا دھونا مچایا ہوا ہے تو نبیۖ نے ڈانٹ کر قرآن کے مطابق رجوع کا حکم دیا تاکہ مصالحت ہوسکے۔ یہ مسئلہ تھا اور نہ مقدمہ بلکہ ایسے حادثے کو نبیۖ کے سامنے پیش کرنا معمول تھا۔ اگر عبداللہ بن عمر کی بیوی رجوع نہ کرنے کی بات کرتی تو عبداللہ رجوع نہ کرتا اور رجوع کرتا کہ میں نے طلاق غصہ یامذاق سے دی تو بھی نبیۖ رجوع کا فیصلہ نہیں فرماتے۔ عورت کے حق کو تحفظ قرآن نے دیا تو صحابی یا پھر رسول اللہۖ کیسے چھین لیتے؟۔

کوئی3 کی نیت سے 3 طلاق دے تو قرآن معطل ہوگا؟۔

حسین کو تلاش ہے آج پھر یزید کی
شہہ رگ کٹ گئی اسلام کے حبل الورید کی
قیامت میں دکھیں چہرے سفید اور سیاہ
میں نے فاروقی کراری تھپڑ رسید کی
عبد یزید کے نام سے غامدی وجد میں آیا
یزیدیت سے اسلام کی قطع و برید کی
بڑے پدو مارے ڈھینچو ڈھینچو کر بیٹھا
اپنی مٹی پلید کی میڈیا پر ایسی لید کی
دین لاوارث ہے کوئی جو مرضی بکے؟
قد آوروں نے خواہ مخواہ تقلید کی؟
آنٹیوں کو ساتھ بٹھاؤ خانقاہی چلن چلاؤ
بیٹی بنے جانشیں جب لنگر چلے ثرید کی
عتیق فتویٰ نہیں لگاتا دلیل دیتا ہے
مرضی سب کی اپنی اپنی صواب دید کی

علامہ اقبال نے پہلے سے نشاندہی کی تھی کہ

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر امم کیا کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ
اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را

عورت کے حقوق کی نظر انداز ی ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کی طرح فتنہ تھا۔ حضرت عمر اور حضرت علیباب العلم نمایاں ہیں۔

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کردیا

پروین شاکر نے اپنی لازوال شاعری میں فطرت کو اُجاگر کیا۔

اک نہ اک روز تو رخصت کرتا
مجھ سے کتنی ہی محبت کرتا
سب رُتیں آکے چلی جاتی ہیں
موسم غم بھی تو ہجرت کرتا
بھیڑیے مجھ کو کہاں پاسکتے ہیں
وہ اگر میری حفاظت کرتا
میرے لہجے میں غرور آیا تھا
اس کو حق تھا کہ شکایت کرتا
کچھ تو تھی میری خطا ورنہ وہ کیوں
اس طرح ترک رفاقت کرتا
اور اس سے نہ رہی کوئی طلب
بس میرے پیار کی عزت کرتا

پروین شاکر کے رجوع میں اسلام رکاوٹ بنتا تو ملحد بنتی۔

جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

علامہ اقبال نے اسلام کی نشاة ثانیہ کا خواب شاعرانہ تخیل یا تصوف سے دیکھا لیکن قرآن نے وحی سے نبیۖ کو دکھایا۔

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری
عجب نہیں ہے کہ اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز
کہ نیستاں کے لئے بس ہے ایک چنگاری
خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری
نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہے سرمایہ کہ داری

اللہ نے معراج میں نبیۖ کو انبیاء کرام کی امامت کرائی اور اسلام کے غلبے اور حلالہ ملعونہ کے خاتمہ کاخواب دکھایا تھا۔ واذقلنا لک ان ربک احاط بالناس و ما جعلنا الرویا التی اریناک الا فتنة للناس والشجرة الملعونة فی القراٰن و نخوّ فھم فما یزیدالا ظغیانًا کبیرًا ( الاسراء :60) اور جب ہم نے تم سے کہا بیشک تیرے رب نے لوگوں گھیر رکھاہے اور تیرے خواب کو نہیں بنایا ہم نے جوآپ کو دکھایا مگر لوگوں کیلئے آزمائش اور قرآن میں ملعونہ شجرہ اور ہم ان کو ڈارتے ہیں تو نہیں بڑھتے مگر سرکشی میں”۔

رسول اللہ ۖ کو جو خواب نصب العین کی شکل میں دکھایا تھا تو وہ قرآن میں بھی احادیث صحیحہ سے کم نہیں ہے لیکن یہ غلبہ بھی امت کے زوال اور بنی اسرائیل کے عروج پر ہے جس میں اگر بنیادی کردار ہے تو وہ قرآن سے حلالہ کے دھبے کا خاتمہ ہے۔

غامدی کے اجتہادسے طلاق دینے والا، اسکے خاندان اور فتویٰ دینے والا ذہنی مریض بن جائیگا کہ حرامکاری ہے یا جائز ہے؟ ۔قرآن نے معاملہ ادھورا نہیں چھوڑا بلکہ مکمل حل کردیا۔
و ننزل من القراٰن ما ھو شفاء ورحمة للمؤمنین ولایزید الظالمین الا خسارًا ( سورہ بنی اسرائیل :82)
” اور ہم قرآن میں وہ نازل کرتے ہیںجو مؤمنوں کیلئے شفا اور رحمت ہے اور ظالم نہیں بڑھتے مگر خسارہ میں”۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے کہا کہ اس کو حیض آتا ہے مگر عیسیٰ کیلئے والد بنایا۔ وہ مجذوب فرنگی تھا ۔ جاویدغامدی دانش افرنگی ہے۔ایک دجال نے نبوت کا دعویٰ کیااور دوسرا دجال تجدیدکرتا ہے۔ علامہ اقبال نے ”پنجابی مسلمان” کے عنوان سے لکھا:

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندہ کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

جاویدغامدی سارا دین بلڈوز کررہاہے۔
عربی لڑکی کا نکاح غیر عرب سے نا جائز قرار دیا تو امام زید بن زین العابدین نے جائز قرار دیا۔ سوالات اٹھائے کہ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں نصف اور ہاتھ لگانے کے بعد پورا مہر ہوگا یا نہیں؟۔3 طلاق پر کسی اور سے نکاح لازم ہوگا یا نہیں؟۔ (المجموع : مصنف :امام زید ، یا شاگردنے لکھی)

حکمران حلالہ مہم سے بچانے کیلئے اہل بیت کی دلیل یہ تھی : الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ”طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ (البقرہ :229)یہ خبر ہے۔
الطلاق مرتان طلاق دو مرتبہ ہے۔دومرتبہ حلوہ کھایا مگر دوروپیہ کو دومرتبہ روپیہ نہیں کہتے۔ مرتبہ فعل سے خاص ہے۔
حکم کی خلاف ورزی ممکن لیکن خبر کی نہیں۔ زنا نہ کرو مگر کیا تو ہوگیا اور طلاق تین مرتبہ میں ہے تو ایک مرتبہ میں نہیں ہوگی ۔ محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم” محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کیساتھ ہیں تو وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم والے ہیں”یہ بھی خبرہے۔

امام ابن تیمیہ وفات 1328ء ، 728ھ۔ اورانکے شاگرد علامہ ابن قیم وفات 1350ء نے حلالہ سے بچنے کی ترکیب لڑائی ۔پھر شیخ الاسلام سراج الدین ابوحفص عمر علی بن احمد الشافعی مصری المعروف ابن الملقن جنہیں ابن المالکین بھی کہا جاتا ہے ۔ ( وفات 1401ء ، 804ھ ) نے حلالہ سے بچنے کیلئے ایک اور ترکیب نکالی کہ ”حیض میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے اسلئے جیسے نماز ، رمضان کے روزے اور حج وقت سے پہلے نہیں ہوتا ہے تو طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ”۔ علامہ عبدالحی حنفی لکھنوی ولادت 1848ء ، وفات 1886ء نے ابن تیمیہ کی طرح فتویٰ تین طلاق کو ایک قرار دیا۔ مولانا رشید احمد گنگوہی ولادت 1829ء ، وفات 1905ء نے فتاویٰ رشدیہ میں ان کا فتویٰ بھی نقل کیا اور حلالہ والا بھی نقل کیا۔ شیخ الہندمحمودالحسن مالٹا سے 1920ء میں رہاہوئے تو قرآن سے دوری اور فرقہ پرستی کو امت کے زوال کا سبب قرار دیا۔ مدارس سے زیاہ کالج سے امید لگائی۔ مولانا انورشاہ کشمیری وفات1933 نے کہا: ”قرآن حدیث کی خدمت نہیں کی فقہ میں عمرضائع کردی”۔ الحمدللہ میرے اجداد نے وزیرستان میں قرآن کی خدمت کی ۔

ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذت کردار نہ افکار عمیق
حلقہ شوق میں وہ جرأت اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق

ائمہ مجتہدینکو چھوڑ کر غامدی اپنی نحوست سے محکم قرآنی آیات پر خط تنسیخ پھیر رہا ہے۔ گھوڑے کے لگی نعل، مینڈکی بولی میرے بھی جڑدو۔ پھر تو ہوا کیساتھ پوٹی نکلی اور سانس بھی اُکھڑ گئی۔ محکم آیات، احادیث صحیحہ اور اجتہادات کا پتہ نہیںاور ہفوات کی نئی مذہبی دکان کھول کر بیٹھا ؟۔سب کہو سبحان اللہ!

 

قرآن میں طلاق کے اہداف!

1: مذہبی خرافات کا خاتمہ۔ 2: حقوق نسواں کی پاسداری۔ 3: انسانی معاشرتی عروج کیلئے انتہائی اقدامات۔
شیعہ سنی بلکہ مسلمان قوم ایک تو قرآن کو چھوڑ چکی ہے۔ ”اور رسول کہیں گے کہ اے میر ے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا ہے”۔ (سورہ فرقان آیت:30)

قوم قرآن کی معنوی تحریف میں مبتلاء ہے۔ ائمہ مجتہدین اور فقہی مسالک کے نام پر قرآن کو تقسیم کرکے بوٹی بوٹی بنادیا۔ ”کہہ دو کہ بیشک میں کھلا ڈرا نے والا ہوں۔ جیسا کہ میں نے نازل کیا بٹوارہ کرنے والوں پر، جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی کر دیا ۔ پس تیرے رب کی قسم کہ ہم ان سے ضرور پوچھیں گے جو وہ یہ(بوٹی بوٹی) کرتے تھے ”۔( سورہ الحجر89تا93 )

پڑھتا جا شرماتا جاتا۔ قومی صلح کرتا جا

سورہ البقرہ 222 تا 237 کے واضح احکام:
222۔ حیض میں دو چیزیںہیں ۔ایک اذیت ،دوسرا گند۔ اللہ توبہ کرنے والوںکو اور پاکیزگی والوں کوپسند کرتاہے۔

223: اس آیت میں اذیت بھلادی گئی اور بحث یہ شروع کردی کہ پیچھے کی راہ سے استعمال جائز ہے یا نہیں؟۔ عورت کا حق نظرانداز کرکے بہت شرمناک فقہی اور عملی حقائق ہیں۔

224: طلاق کے احکام کیلئے مقدمہ ہے کہ نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح میں اللہ اور مذہب کو رکاوٹ مت بناؤ۔ جب عوام میں تفریق جائزنہیں تو میاں بیوی میں کیاحکم ہوگا ؟۔

225: اللہ تمہیں زبان کے لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتامگر جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے اس پر پکڑتا ہے۔ یہ طلاق ہی کی بات ہے جس میں مغلظہ، بائن، رجعی ، صریح اور کنایہ کی اقسام گھڑے گئے ہیں۔ سورہ مائدہ آیت 89میں واضح ہے کہ حلف مراد ہو تو پھر اس کا کفارہ ہے ۔وہاں حلف (قسم) واضح ہے۔

226: ایلاء میں عورت کی عدت چارماہ ہے۔ باہمی رضا مندی سے صلح ہوسکتی ہے۔ رسول اللہۖ کی مہینہ بعد رجوع پر اللہ نے ازواج مطہرات کو علیحدگی کے اختیار کا حکم فرمایا۔ تاکہ عورت کا حق بھی واضح ہو۔ عورت کی اذیت کو نظر انداز کیا تو قرآن کوتقسیم کردیا۔ حنفی مسلک میں شوہر 4 ماہ نہیں گیا تو طلاق ہے اسلئے کہ اپنا حق استعمال کیا مگر جمہورکے ہاں جب تک طلاق نہیں دے تو عورت بیٹھی رہے گی۔ بڑا تضاد ہے۔

227: اگر ان کا طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ یہی دل کے گناہ اور اس پر اللہ کا پکڑنا واضح ہے اسلئے کہ عزم کا اظہار کرتا تو عورت ایک ماہ اضافی مدت نہ گزارتی۔

228:جاہلیت میں اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں تھا۔ عورت کی مرضی کے بغیر طلاق رجعی کا تصور تھا اورجب وہ دونوں راضی ہوتے تھے تب بھی کوئی رکاوٹ بن سکتا تھا۔ اس آیت میں تینوں کا قلع قمع کردیا لیکن یزیدیت نے پھر جاہلیت کو زندہ کرکے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا اسلئے جاوید احمد غامدی اسی جاہلانہ اسلام کے تصور کو زندہ کررہاہے۔

اس آیت میں عدت کی دو اقسام ہیں۔ طہروحیض کے تین ادوار اور عورت جب حمل ہو ۔ عدت میں اکٹھی تین طلاق دو یا پھر مرحلہ وار تین طلاق ،ایک دو یا ہزار طلاق دو مگر باہمی اصلاح کی بنیاد پر اللہ نے نہ صرف رجوع کا دروازہ کھول دیا ہے بلکہ باؤنڈ کردیا ہے کہ عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی اور حمل کی صورت میں تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا بھی تصور نہیں ہے۔

عیسائی مذہبی ٹھیکداروں کو مسترد کرچکے ۔ یہود ہمارے مذہبی طبقے کو حلالہ میں ڈال گئے ۔ جس دن ہمارا علماء طبقہ حلالہ اور سود کے جواز سے توبہ کرے تو یہود بھی حلالے کے مرض اور سود سے توبہ کریں گے اور ابراہم اکارڈ میں ان کو شکست ہوگی۔

مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن جن فتاویٰ سے عوام میں من گھڑت شریعت کی بدبو پھیلاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر عورت کی فرج سے آدھے سے زیادہ بچہ نکل گیا تو رجوع نہیں ہوسکتا اور اگر آدھے سے کم نکلا تو رجوع ہوسکتا ہے۔ لیکن 50\50 تھا تو پھر اس بچے کو مفتی اعظم بنالو اپنا مسئلہ خود حل کرے گا؟۔

229: ”طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دیناہے”۔ یہ حمل سے متعلق نہیں بلکہ حیض والی کیساتھ تین روزے کی طرح تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق ہے۔ جس کا تعلق الفاظ نہیں عمل کیساتھ ہے۔ حیض میں جماع نہیں اور طہر کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کا عمل ہے جو نبیۖ نے سمجھا یاہے جس کا ذکر بخاری کی کتاب الاحکام اور کتاب التفسیر، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں ہے۔

رسول اللہ ۖ سے عدی بن حاتم نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ فرمایا آیت229میں تیسری مرتبہ چھوڑنا ہی تیسری طلاق ہے۔رجوع کیلئے معروف، باہمی صلح، باہمی اصلاح اور باہمی رضامندی اور معروف طریقہ کو واضح کیا لیکن حنفی وشافعی فقہاء نے قرآن کی بوٹیاں کرتے ہوئے حنفی نے قرار دیا کہ ”شہوت کی نظر پڑگئی ، رجوع کی نیت نہیں تب بھی رجوع ہے۔ اس غلطی سے بچنا پڑے گا”۔شافعی نے قرار دیا کہ ”عدت کے دوران رجوع کی نیت نہ ہو توجماع سے بھی رجوع نہیں”۔قرآن کے معروف کو منکرات سے بوٹی بوٹی کردیا۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ ” تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو”۔ اب اس بے غیرتی کی انتہا کو دیکھو کہ اللہ نے عورت کو تین فیصلہ کن طلاق کے بعد مالی تحفظ دیا جو سورہ النساء آیات 20 اور 21 میں بھی واضح ہے کہ طلاق کے بعد خزانے دئیے ہوں تو واپس نہیں لے سکتے مگر جاویداحمد غامدی نے عورت کے مالی تحفظ کی جگہ عورت کے استحصال کا ذریعہ بنایا ہے کہ ”خلع” مراد ہے۔ اگرجاوید غامدی کہے کہ میں نے تقلید کی تو پھر اجتہاد کی بنیاد پر سارا دین کیوں تلپٹ کیا؟۔ قرآن کا واضح مفہوم بھی تقلید سے 180ڈگری کے درجہ پر مسخ کردیا؟۔ اللہ نے حلالہ سے تحفظ دینے کی خاطر وہ صورتحال بیان کی ہے کہ جب میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والوں کو خدشہ ہو کہ اگر کوئی خاص چیز مثلاً موبائل کی سم واپس نہیں کی گئی تو یہ دونوں جنسی سکینڈل کا شکار ہوکر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو وہ فدیہ کرنے میں حرج نہیں۔ فدیہ سے معاوضہ مراد نہیں بلکہ فدائی کی طرح قربانی مراد ہے۔ عورت کی عزت بچانے کیلئے یہ فدیہ خلع نہیں ، شوہر کے مال میں سے وہ خطرناک چیز واپس کرنی ہے جو رابطہ بن سکتی ہو۔

230:”پس اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے”۔229 میں تیسری طلاق ہے تو آیت 230البقرہ کی طلاق کونسی ہے؟۔یہ تین مرتبہ طلاق کے علاوہ ہے۔ یہ وہ طلاق ہے جس سے پہلے صورتحال واضح ہے کہ صلح کا کوئی پرواگرام نہیں۔ اس کا مقصد حلالہ نہیں بلکہ عورت کو اس کی مرضی کے مطابق کسی اور شوہر سے نکاح کا واضح الفاظ میں جواز ہے اسلئے کہ عورت سے رجوع نہیں کرنا ہو تو بھی اس کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے سے روکا جاتا ہے۔ لیڈی ڈیانا قتل کی گئی اور ریحام خان کو طلاق کے بعد پاکستان آنے سے روکا گیا کہ کہیں مخالف سیاسی لیڈر سے نکاح نہیں کرلے لیکن ریحام خان جان پر کھیل کر آگئی تھی۔

احناف اپنی اصول فقہ کی کتابوں میں پڑھاتے ہیں کہ اس طلاق کا تعلق خلع سے ہے ۔ (نورالانوار : ملاجیون) چلو یہ مانا مگر پھر کیوں ایک مجلس کی تین طلاق پر حلالہ کا فتویٰ دیتے ہو؟، ایک بڑے حنفی عالم علامہ تمنا عمادی نے ”الطلاق مرتان” کتاب میں یہی حنفی مؤقف لکھ دیا۔ علامہ بن قیم نے عبداللہ بن عباس کی طرف سے زاد المعاد میں یہی مؤقف لکھ دیا ہے۔

جہاں تک خلع کا تعلق ہے تو سورہ النساء آیت19 میں پہلے اللہ نے عورت کو خلع کا حق دیااور اس میں شوہر کی طرف سے دی گئی منقولہ بعض چیزوں کو واپس لینے سے روکا گیا ہے۔ اچھے انداز میں رخصت کرنے کا حکم دیا اگر وہ خلع لیتے ہوئے بری لگ رہی ہوں تو اللہ نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تمہارے لئے اس میں خیر کثیر پیدا کرے۔کچھ غلام احمد پرویز زدہ دلوں نے لکھا ہے کہ ”اگر وہ بدکردار ہوں تو رکھنے میں خیر کثیر ہے”۔

231: عورت اکثر شوہر کو چھوڑنا نہیں چاہتی ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف یعنی صلح کی شرط پر رجوع کرسکتے ہیں لیکن اگر ان کو خوشحال نہیں رکھ سکتے تو ضرر پہنچانے کیلئے رجوع مت کرو۔ یہ تمہار اپنا نقصان ہے۔ حلالہ کی تو بیخ کنی اللہ نے کردی ہے لیکن مولوی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ تین نعمتوں کاخیال رکھنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ایک بیوی جو حلالہ کیلئے نہیں۔ دوسری قرآنی آیات جو اللہ نے رجوع کیلئے نازل کی ہیں اور تیسری حکمت ودانائی ،جو اللہ کی عطاہے ۔ اس کا استعمال نہیں کیا تو آیات عزت کے تحفظ کی جگہ استحصال کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایک ایک آیت پر خوب تدبر بھی کرو۔

232: میاں بیوی باہمی معروف طریقے سے راضی ہوں تو کوئی مذہبی ، معاشرتی ، قانونی اور اخلاقی رکاوٹ نہیں ڈالیں۔ معاشرہ کا اسی میں زیادہ تزکیہ اور زیادہ طہارت ہے جو اللہ جانتا ہے اور انسان نہیں جانتا کہ اس سے کیسے گند پھیل جاتا ہے؟۔

233: میاں بیوی کی جدائی ہو تو بچوں کا خرچہ باپ پر ہے اور والدین میں کسی کو بھی بچے کی وجہ سے تکلیف نہیں دے سکتے ہیں۔بچے بڑے ہوں گے تو دونوں کا خیال رکھیں گے۔

234: بیوہ کی عدت 4ماہ 10دن ہے۔ اس کے بعد وہ اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ پہلے شوہر کے نکاح میں رہے تو بھی ٹھیک اورنیا انتخاب کرے تو بھی ٹھیک۔ یہ غلط بات ہے کہ دونوں میں سے ایک کی روح نکلتے ہی دوسرا اجنبی بن جائے۔ حضرت ابوبکر کو ان کی زوجہ نے غسل دیا اور حضرت فاطمہ کے غسل کا فرض حضرت علی نے ادا کیا۔ نبیۖ نے اماں عائشہ سے فرمایا کہ آپ پہلے فوت ہوگئی تو میں غسل دونگا۔مولوی بیوی کے مرنے پر زوجہ فلاں کی تختی لگاتا ہے اور والد کے 20سال بعد بھی والدہ فوت ہوتی ہے تو تختی زوجہ فلاں مولانا لگاتا ہے۔

235: عورت پسند ہو تو اللہ نے کہا کہ تم عدت میں بھی اس کا اظہار ضرور کروگے مگر پکانکاح مت کرو یہاں تک کہ عدت پوری ہوجائے۔ تمہارے اندر کو اللہ جانتا ہے اس سے بچ کے رہو۔ اور جان لو کہ اللہ مغفرت والا اور حلم والا ہے۔

236: ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں کوئی حرج نہیں۔ یا اس کا حق مہر مقر کیا ہو۔ مالدار پر اسکی وسعت کے مطابق اور غریب پراسکی وسعت کے مطابق خرچہ دینا فرض ہے۔ اس سے عورت کو کتنا تحفظ دیا گیا ہے؟۔ عورت مالداری کی بنیاد پر زیادہ تر شوہر کو ترجیح دیتی ہے لیکن کوئی اس کو بیچتا ہے اور کوئی پھر جہیز بھی مانگتا ہے اور ارب پتی یا کروڑ پتی یا لکھ پتی کا حق مہر اس کی وسعت کے مطابق نہیں دیتا بلکہ گائے بکری سمجھ رکھا ہے۔

237: اگر تم نے عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جو تم نے مقرر کیا ہے اسکا نصف تم پر فرض ہے مگر یہ کہ عورت کچھ معاف کردے یا وہ پورا دے جسکے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے ۔ تم معاف کرو تو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ آپس میںایک دوسرے پر احسان کرنا نہ بھولو۔ جو تم کرتے ہو اللہ دیکھتا ہے ۔

طلاق شوہر دے رہاہے اسلئے اسکے ہاتھ میں نکاح کے گرہ اور اس کی طرف سے رعایت دینے کو واضح کیا۔ فقہاء نے اس سے عورت سے علیحدگی کا اختیار ختم کردیا۔ کتنی بڑی حماقت ہے اور عورت خلع لے بھی تو زیادہ واپس ہی آئے گی۔ سورہ النساء آیت19میں نہ صرف خلع کے حکم اور عورت کے مالی تحفظ کو واضح کیا بلکہ آیت 21میں واخذن منکم میثاقًا غلیظًا ”انہوں نے تم سے پکا عہد لیا تھا”۔طلاق کے حکم میں بھی اس نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہے تاکہ گدھوں کو سمجھ میں آئے

سورہ طلاق کی دو آیات میں حقائق کاخلاصہ ہے۔ فرمایا ” اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو عدت کیلئے دو۔اور عدت کو پورا کرواور اللہ سے ڈرو، ان کو انکے گھر سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیںمگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں اور یہ اللہ کی حدود ہیں جو اللہ کی حدود سے بڑھا تو اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا ۔ تم نہیں جانتے ،شاید اللہ نئی راہ نکال دے ”۔

حسن الیاس غامدی کے داماد نے طہر میں پہلی طلاق دی۔ دوسرے طہر میں دوسری طلاق دی۔ پھرتیسرے طہر میں تیسری طلاق دی تو کیا پھر رجوع کا دروازہ بند ہوگا؟۔ نہیں !۔ اسلئے کہ اللہ کوئی راہ نکال سکتا ہے اسلئے تو عدت میں گھر کے اندر اس کو بیٹھنے کا حکم نہیں دیا کہ ناجائز جنسی تعلقات کے آخری لمحات سے فائدہ اٹھائیں؟۔ پھر اللہ کہتا ہے کہ ”جب عدت پوری ہو تو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے الگ کرو ! اور الگ کرنے کی صورت میں دو عادل گواہ بنالو۔ جو اللہ کیلئے گواہی قائم کریں۔تاکہ لوگوں کو بتائیں کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد تمام مالی حقوق بھی دئیے۔ رجوع کا راستہ بند نہیںکیا ۔من یتق اللہ یجعل لہ مخرجًا ”جو اللہ سے ڈرا تو اس کیلئے اللہ مخرج EXITراستہ بنادے گا۔(سورہ الطلاق آیت:2)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

مولانا سرفراز صفدر کاپوتامولاناعمار: وکیلاں دی کڑی ٹانگے والے نال نس گئی اے
بہادربلوچ نوربی بی شیتل بانوک نے بہت بڑاانقلاب کردیا
ضربِ حق کی تدبیر