اگر اسلام میں تصوف نہیں تو نماز میں چوتڑ اٹھا کر سبحان ربی اعلیٰ کی کیا ضرورت ؟
اکتوبر 4, 2025

نماز مؤمن کی معراج اور فحاشی ومنکرسے بچنے کا ذریعہ ۔اللہ نے فرمایا: ” کہہ دو کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن تو اس کیلئے اچھے نام ہیںاور نماز نہ چلاکر پڑھ اور نہ آہستہ اور انکے بیچ کی راہ لو”۔
”اعراب نے کہا کہ ہم ایمان لائے، کہو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ اسلام لائے ،ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا( حجرات:14)حدیث جبریل میں تصوف ہے؟
صحف ابراہیم وموسٰی قرآنی پاروں جیسے حجم میں برابرتھے ۔ سورة شہر، رکوع دروازہ ، آیت درسگاہ ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن علم کا شہر،اسکے 3 دروازے اور کئی درسگاہیں ہیں۔ فصلت آیاتہ اس کی آیات کو فصل بنایا۔ انا اعطیناک الکوثرO ” بیشک ہم نے آپ کو الکوثرعطا کی”۔ایک درسگاہ ہے۔ یؤتی الحکمة من یشاء و من یؤتی الحکمة فقد اوتی خیرا کثیرا و یذکر الا اولی الالباب (البقرہ آیت:269)”اللہ جس کو چاہے حکمت دے اور جس کو حکمت دی گئی تو اس کو خیر کثیر عطا کی گئی اور نصیحت نہیں لیتے مگر عقل والے”۔الکوثر کی تفسیر بھی ایک درسگا ہے۔ اور حکمت کی تفسیر بھی الگ درسگاہ ہے۔ سور ہ بقرہ کی پہلی آیت المOبھی ایک درسگاہ ہے۔ اسکے باطنی کمالات اور علم الاعداد تو اپنی جگہ لیکن جب فرشتوں نے اللہ کو نام نہیں بتائے اور حضرت آدم نے بتائے تو اللہ نے فرمایا”الم اقل لکم ۔کیا نہیں تم سے کہا تھا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ الم نشرح لک صدرککیا نہیںہم نے تمہارا سینہ کھولا؟۔ الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل کیا نہیں دیکھا آپ نے کہ ہم نے ہاتھی والوں کیساتھ کیا کیا؟۔ …
نبی ۖ صحابہ پر آیات کی تلاوت ، ان کا تزکیہ فرماتے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ۔اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے اور آخر والے جو ابھی ان سے نہیں ملے (سورہ جمعہ)
اسلام حجاز ، عرب اور دنیا پر چھا گیا، صحابہ کرام، اولاد صحابہ، سادات ،قرآن کی تفاسیر اور کمپوٹر،علم الاعداداور تسخیر کائنات کی آیات سبھی الکوثرکی تفسیرہے جو اللہ نے نبیۖ کو عطاء کیں۔
ولقد کذب اصحاب الحجر المرسلین (الحجر:80)”اور بیشک عقل والوں نے رسولوں کو جھٹلایا”۔ ابوجہل کم عقل نہیںابو الحکم کہلاتا تھا۔ ھل فی ذٰلک قسم لذی حجر (الفجر:5)” کیا اس قسم میں عقلمند کیلئے کچھ ہے”۔
الرٰ تلک اٰیات الکتاب و قراٰ ن مبین : ال ر یہ کتاب کی آیات ہیں اور قرآن مبین کی”۔ (الحجر آیت:1)
الحجر کی پہلی آیت میںمدارس کے نصاب کی اصلاح ہے کہ ”قرآن کتابت اور پڑھنے میں اللہ کا کلام ہے”۔ یونانی فلسفہ نے قرآن کی کتابت کو اللہ کا کلام نہیں مانا اور معاملہ فتاویٰ شامی اور قاضی خان میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے تک جا پہنچا۔
سود کو حلال کرنا قرآن کے منافی قیاس ہے۔سورہ الحجر کی دوسری آیت چودھواں پارہ ”بدرچاند”ہے ۔ جب عروج ملت اسلامیہ کا وقت آئے گا تو الحجر کی دوسری آیت اُجاگر ہوگی ۔
ربما یود الذین کفروا لو کانوا مسلمین ”کبھی کافر چاہیں کہ کاش مسلمان ہوتے”۔ مکہ اور قیصر وکسریٰ کی فتح پرابوجہل کا بیٹا، ابوسفیان، ہند اور مشرکینِ مکہ مسلمان ہوگئے ۔ جب دنیا میں پھر اسلامی اقتدار کا غلبہ ہوگا تو دنیا پر مظالم کے پہاڑ ڈھانے والے کافر کہیں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے ۔
ابراہیم و اسماعیل کے بعد رسول اللہۖ تک کوئی نبی نہیں آیا اسلئے کہ قریش فطری دین پر تھے۔ نصاریٰ کا عیسیٰ ومریم کو خدا کا بیٹا اور بیوی بنانا اور عقل پرست یہود کا مقابلے میں عزیرکو خدا کا بیٹا بناناایسی گمراہی تھی جس کو قریش کے فطری مسلمان بھی قبول نہیں کرسکتے تھے۔ عربوں میں جہالت کی وجہ سے شرک کا رحجان بھی تھا لیکن پرامن اور سیکولرتھے۔ کعبہ 360 بتوں سے بھرا ہواتھا۔ قریش سمجھتے تھے کہ امن اور تجارت ہو۔ حلف فضول بھی ظالموں کے خلاف امن کیلئے کیا تھا۔ جس پر نبیۖ بعد میں فخر کرتے تھے۔ ہمارے وزیرستان میں بھی بڑا امن تھا۔
وزیرستان پر بھی عربوں کی طرح کسی نے حکومت نہیں کی ۔ اور وزیرستان کے معاملات اخلاقی روایات، خاندانی اقدار اور باہمی مشاورت سے چلنے کی دنیا میں اپنی مثال آپ تھے؟۔جو آج بھی عوام کے DNA میں اسی طرح سے موجود ہیں۔
ہندو پنڈت ڈاکٹر منوج چوہان نے کہا کہ”ہم اللہ کو اشور کہتے ہیںجس کی نقل تصویر اور مورتی نہیںبن سکتی ہے”۔ہندو روحانی شخصیات کو بھگوان کہتے ہیں۔جیسے آدم کے سامنے بھی فرشتے ، یوسف علیہ السلام کے سامنے بھائی سجدہ ریز ہوئے۔
علامہ اقبال نے ”روح محمدۖ” کو مخاطب کرکے کہا:
شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے
وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے
ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد
آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے!
ہندو پیغمبروں اور روحانی افراد کو بھگوان سے سمجھتے ہیں۔ بابا گرونانک مشترکہ اثاثہ تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی نے کہا کہ
گنج بخش ، فیض عالم ، مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما
بنوامیہ کے دور میں حدیث خطبوں میں پڑھی جانے لگی کہ السطان ظل اللہ فی الارض من اہان اللہ فقد اہان اللہ ”بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ ہے جس نے بادشاہ کی توہین کی اس نے اللہ کی توہین کی”ابن تیمیہ کہتا تھا کہ جیسے میں منبر پر بیٹھا ہوں ویسا اللہ مجسم عرش پر بیٹھا ہے۔ شیعہ کے ہاں وہ تصویر جائز نہیں جس کی جسامت ہو۔ اللہ آسمانوں و زمین کا نور ہے جس کی مثال کوئی نہیں۔ اللہ نے نبی ۖ سے فرمایاکہ ” آپ نے نہیں پھینکا جب آپ نے پھینکا مگر اللہ نے پھینکا”۔ ”ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر عالمین کیلئے رحمت بناکر”۔” آپ مؤمنوں پر رؤف اور رحیم ہیں”۔ اگردنیا میں رحمن کی خلافت قائم ہوگی تو مخلوق خدا کافروں اور مؤمنوں سب پر رحم ہوگا اور سبھی اس سے خوش ہوں گے۔ نبیۖ کو دنیا کا مقام محمود مل جائے تو پھرسبھی نبیۖ کی انسانیت پر صد رحمت کی صدائیں بلند کریں گے۔ قل یااہل الکتٰب تعالوا الیٰ کلمة سوآئٍ بیننا و بینکم الا نعبد الا اللہ ولانشرک بہ شیئًا ولا یتخذ بعضنا بعضًا اربابٍا من دون اللہ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون ”کہہ دو کہ اے اہل کتاب! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریںاور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں اور ہم میں کوئی اپنے بعض میں سے بعض کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے۔ اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہو کہ گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں”۔
دیوبندی بریلوی کو اور اہل حدیث ان دونوں کو مشرک قرار دیتے ہیں لیکن ہر ایک کہتا ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتے۔ البتہ اپنے علماء کو حلال و حرام بنانے کا اختیار دیا ، یہ پتھر کے بتوں سے زیادہ خطرناک اسلئے ہیں کہ نفس اور بال بچے بھی رکھتے ہیں۔ حلالہ میں عزتوں کو پار لگادیتے ہیں بلکہ مدارس کو تجارت بنالیا تھا اب بینکوں کی نوکریاں بھی ہتھیالی ہیں۔ دیوبندی یہود کی طرح مقابلہ بازی کرتے ہیں۔ میلاد النبی ۖ کے جلوس کو بدعت لیکن حضرت عمر کے جلوس کو شیعہ کے مقابلے میں نکالتے ہیں۔ یہودی عقل پرست طبقہ تھا جو عیسائی راہبوں کے مقابلے میں کہتا تھا کہ جس عیسیٰ نے خود کو مظالم سے نہیں بچایا تو اس کو خدا کا بیٹا ماننے سے بہتر ہے کہ عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانیں جس کا گدھا بھی اللہ نے مارنے کے بعد زندہ کردیا تھا۔ یہ امت یہودو نصاریٰ کی طرح عقل وروحانیت سے عاری مذہبی تعصبات کا شکار ہے اور اس کی پیش گوئی رسول اللہ ۖ نے پہلے سے کی تھی۔
فرعون بھی خود کو رب کہتا تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے جہاں اقتدار حاصل کیا تو خلافت راشدہ کی جگہ فرعونیت کا راستہ اپنایا۔ کوئی عیار سلطان کو ظل اللہ اور کوئی عیار درویش کو مدظلہ العالی کہے تو اس کی مرضی لیکن دونوں میں صرف طاقت کا فرق ہے۔ انسانی حقوق کو پامال کرنے والے ظالم حکمرانوں اور جاہل علماء و مشائخ کو اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کے نور سے نواز دے۔
بنی اسرائیل حضرت اسحاق کی اولاد ہیں اور قریش حضرت اسماعیل کی اولاد ہیں۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو عالمین پر فضیلت بھی بخشی اور بداعمالی کے سبب ذلت ورسوائی بھی ان پر مسلط کی مگرابراہیم اور دونوں بیٹوں نے مشکلات میں زندگی گزاری ۔
درود میں محمد و آل محمد پر ابراہیم وآل ابراہیم کی دعا ہے جن کو نمرود کی آگ اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن کو بادشاہت کی طلب ہو تو وہ حضرت داؤد وسلیمان کی طرح کیلئے دعا مانگیں۔ کچھ لوگ تو فرعون وآل فرعون کی تمنا رکھتے ہوں تو بعید نہیں۔
وہ بنی اسرائیل جن پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے لعنت بھیجی گئی جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ آل ابر اہیم سے یہ بنی اسرائیل مراد نہیں ہوسکتے جن پر اللہ کاغضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔ بلکہ درود میں آل ابراہیم سے حضرت اسحا ق اور اسماعیل علیہما السلام مراد ہیں جو ابراہیم کے بیٹے تھے اور ان کے پاس بادشاہت نہیں تھی لیکن انہوں نے دورِ جاہلیت میں جاہل لوگوں کو دین فطرت کی تعلیم دی۔ نبیۖ کے اہل بیت آپ کی بیٹی کی اولاد تھی جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آل عمران سے تھے ۔حالانکہ حضرت مریم کی توسط سے یہ سلسلہ جڑا تھا ،اسی حضرت فاطمہ کے توسط سے اہل بیت کا سلسلہ نبیۖ سے جڑا ہے ۔
جاویداحمد غامدی نے اپنے حلقہ ارادت میں اتنا بارود بھردیا ہے کہ ایک نے پوچھا کہ نبیۖ کی آل کو ہم کیوں دعا دیں؟۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ سردارن جنت اور ان کی اولاد نے بڑی حد تک قربانیاں دیں اور یزید کے مران بن حکم کی اولاد اور پھر بنوعباس نے خلافت کے بھر پور مزے لئے ہیں۔ چشم بد دُور۔
اللہ نے فرمایا:”آفتاب ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز پڑھ۔اور صبح کا قرآن۔بیشک صبح کا قرآن زبردست مدلول ہوتا ہے”۔ (سورہ بنی اسرائیل آیت78)
شاہد گواہ اور مشہود جس کی گواہی دی جائے۔ دال نشاندہی کرنیوالا ، مدلول جس کی نشاندہی کی جائے۔ نبی ۖ شاہد اور قرآن مشہود۔ صبح کے وقت دماغ تازہ ہوتا ہے اسلئے قرآن کا مدعا سمجھ میں اچھی طرح سے آتا ہے۔ جبکہ دن بھر میں لوگوں کا دماغ تھک جاتا ہے اور نیند سے تھکاوت دور ہوجاتی ہے۔
اللہ نے فرمایا:” اور رات کی تہجد آپ کیلئے نفل ہے۔ہوسکتا ہے کہ اللہ تجھے مقام محمودتک پہنچا دے۔ اور کہو کہ اے میرے رب! مجھے سچائی کیساتھ داخل کردے اور سچائی کیساتھ نکال دے اور اپنی طرف سے غلبے کو میرے لئے مدد گار بنادے اور کہو کہ حق آگیا اور باطل گیا بیشک باطل ٹلنے کیلئے ہی تھا اور قرآن میں سے ہم وہ نازل کرتے ہیں جو مؤمنوں کیلئے شفا اور رحمت ہے اور ظالم نہیں بڑھتے مگر خسارہ میں۔اور جب ہم انسان پر نعمت کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اس کو تکلیف ہے تو پھر مایوس ہوجاتا ہے۔ کہہ دو کہ ہر شخص اپنی شکل پر کام کرتاہے اور اللہ اجانتا ہے کہ کون زیادہ ہدایت پر ہے”۔ (سورہ بنی اسرائیل :79سے84تک)
نعمت اور مایوسی میں بے اعتدالی سے بچنے کیلئے اللہ نے نماز میں سورہ فاتحہ کا سبق دیا کہ ” تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ہدایت دے ہمیں سیدھی راہ کی۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر نہ غضب ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے”۔
بینظیر بھٹو اور نوازشریف ننگے بابا سے اقتدار کی خاطر ڈنڈے کھاتے اور عمران خان نے پاک پتن کے مزار پر اپنی تشریف اٹھائی۔ یہود پر غضب ہوا، نصاریٰ گمراہ ہوگئے۔ نعمت میں انسان ناشکری سے ظالم بن سکتا ہے اور مصیبت میں مایوسی طاری ہوتی ہے اورمیانہ روی صراط مستقیم ہے لیکن جب تک اپنا تزکیہ نہ کریں تو نماز صرف ایک بدنی ورزش ہے۔
” کہہ دو کہ اگر تم رب کے خزانوں کے مالک بن گئے تو ان کو روک کر رکھتے خرچ ہونے کے ڈر سے اور انسان بڑا سیاہ دل ہے اور البتہ ہم نے موسیٰ کو 9 واضح آیات دیں۔ پھر بنی اسرائیل سے بھی پوچھ لو جب ان کے پاس آئے۔پس فرعون نے اسے کہا کہ اے موسیٰ مجھے لگتا ہے کہ تجھ پر جادو ہوا ہے۔ کہا کہ بیشک تجھے پتہ ہے کہ یہ اللہ نے نازل نہیں کیں مگر لوگوں کیلئے بصیرت افروزاور گمان کرتا ہوں اے فرعون تجھے تباہ۔ پس اس نے ارادہ کیا کہ ان کو زمین سے نکال دے تو ہم نے اس کو غرق کردیا اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو اسکے ساتھ۔ اور ہم نے بنی اسرائیل سے اسکے بعد کہا کہ رہو ! زمین میں جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو تمہیں بھی لپیٹ لائیں گے۔ اور ہم نے اس (قرآن) کو حق سے نازل کیا اور حق کیساتھ نازل ہوا۔اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر خوش خبری والااور ڈرانے والا۔ اور قرآن کو ہم نے فاصلوں سے بنادیا تاکہ مہلت پر لوگوں کو پڑھ کر سناؤ۔اور ہم نے اس کو خوب نازل کیا۔کہہ دو کہ تم ایمان لاؤ یا نہیں لاؤ ۔ بیشک جن کو پہلے سے علم دیا گیا ،جب ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو تھوڑیوں پر سجدہ میں گرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ، بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہوکر رہے گااور تھوڑی پر روتے ہوئے گرتے ہیں اور ان کی عاجزی زیادہ کردیتا ہے۔ کہہ دو کہ تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن ،اس کے بہت اچھے نام ہیںاور اپنی نماز کو زیادہ بلند آواز سے مت پڑھو اور نہ اس میں زیادہ آہستہ۔ اور اس کے درمیان کا راستہ کرو اور کہہ دو کہ ساری تعریفین اللہ کیلئے ہیں نہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ کوئی اس کے اقتدار میں کوئی شریک ہے اور نہ کمزوری کی وجہ سے اس کا کوئی مدد گار ہے اور اس کی بڑائی بیان کرتے رہو۔ بنی اسرائیل:100تا آخر۔
شب معراج میں رسول اللہ ۖنے تمام انبیاء کی امامت کی اور اللہ نے انسانوں پر اسلام کے غلبے کا خواب دکھایا۔ اس وژن کے خواب کو لوگوں کیلئے آزمائش بنادیا اور دوسرا قرآن میں شجر ملعونہ کے ذکر کو آزمائش کا ذریعہ بنادیااور ان کو خوف دلانے کے باوجود بھی سرکشی میں بڑھنے کی نشاندہی بھی کردی۔
جاویداحمد غامدی تصوف کے نام پر آنٹیاں لیکر بیٹھتا ہے تو خیر ہے مگر اسلام کے غلبے، معراج کی حقیقت اور مسلمانوں کے متفقہ معاملات سے انکار کرکے حلالہ کی لعنت میں ضعیف ترین روایت سے اپنا سارا بھانڈہ پھوڑ دیتا ہے۔ مستقبل کے عزم کو بھی خواب کہتے ہیں اور آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت بازیاب کیا ہے۔ سورہ معارج میں چڑھنے کی مقدار ایک دن کی 50 ہزار سال کے برابر کی سائنس نے بھی تصدیق کردی ہے۔ اگر جاویداحمد غامدی یہ مان لیتے ہیں کہ نماز میں شیعہ طرز عمل یا امام جعفر صادق کا طریقہ قرآن کے مطابق ہے اور حلالہ لی لعنت کو جاری کرنا کسی مجتہد اور حکمران کا حق نہیں تو یزیدیت کا سیلاب اس کی ساری محنت کو اٹھاکر اڑادے گا۔ چالاک پرندہ پھنستا نہیں مگر جب پھنستا ہے تو دونوں پیروں سے پھنس جاتا ہے۔
تصوف والوں کی یہ بات کہ سورہ اخلاص میں عوام کیلئے جو توحید ہے تو خواص کی توحید اور اخص الخواص کی توحید جدا ہے۔ جس کو غامدی متوازی دین اور کفر سمجھتا ہے۔ حالانکہ اعراب کا اسلام اور مؤمنوں کے ایمان میں قرآن نے فرق کیا۔ ابراہیم نے پرندوں کا مشاہدہ کیا اور فرشتوں کی مدد نہیں مانگی۔ اللہ نے خود فرمایا کہ ”اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈا ہوجا”۔ جاویدغامدی کی تحریک قرآن کے ایمانی جذبے کا انکار ہے لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کھل کر ان آیات کا انکار کرے۔ جو زمینی حقائق تھے لیکن اس کی آخری منزل یزیدی اسلام ہے لیکن اس کا قرآن سے کوئی جوڑ نہیں ہے۔ جس دن قرآن کی طرف علماء وطلبہ اور اولیاء کرام متوجہ ہوگئے تو لوگ اسلام کو بغیر کسی باطل اجتہاد کے بھی مان لیںگے۔ جاوید غامدی مہدی کو بدعت کہتا ہے لیکن مہدی کی شخصیت کوئی نیا دین نہیں ،البتہ غامدی نئے دین کی وہ بنیاد ڈال رہاہے جو ایک عرصہ سے معتزلہ کے دل ودماغ میں چھایا ہوا تھا لیکن معتزلہ عملیت پسند لوگ تھے۔ غامدی کا اجتہاد بھی اس کی خانقاہ کی طرح ایک نرا فراڈ ہے۔ مجھے امید ہے کہ مدارس کے علماء ومفتیان اپنا ذاتی بغض وعناد چھوڑ کر دین حق کی صحیح تعبیرکو قبول کریں گے ،اگر نہیں تو جس طرح عمران خان کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کیساتھ کیا گیا تو اس سے بڑھ کر پھر جاویدغامدی مدارس کے علماء وطلبہ کونقصان پہنچائے گا۔ باقی جوکچھ ہورہاہے۔مجھے یقین ہے کہ اللہ نے بہتری رکھی ہے۔
نماز میں بسم اللہ اور آہستہ آواز سے تلاوت وتسبیحات سے اگر خشوع وخضوع میں اضافہ ہو تو نمازیوں کی زندگی بدل سکتی ہے۔ نبیۖ دو سجدوں کے درمیان اللٰھم اغفر لی و ارحمنی وارزقنی دعا مانگتے تھے۔ظاہر ہے کہ لوگ سنتے ہوں گے اور اس جامع دعا سے ہماری دنیا اور آخرت میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ ہم جس سپیڈ سے جس طرح کی نماز اللہ کی بارگاہ میں قائم کرتے ہیں تو شاید ہی کسی کو حاضر ناظر جان کر اتنی بے رغبی کوئی کرتا ہو۔ اللہ الرحمن ہمیں ہدایت عطا فرمائے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اکتوبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ