پوسٹ تلاش کریں

آذان کی تعریف میں ایسی نظم کہی کہ مودی اور یوگی شرمندہ ہوگئے

آذان کی تعریف میں ایسی نظم کہی کہ مودی اور یوگی شرمندہ ہوگئے اخبار: نوشتہ دیوار

لتا حیاء: سنئے گا

یہ بھی تو ہیں آثار قیامت کے اے حیا !
جاہل اگرچہ ملک کے سردار ہو گئے
ابھی تلک تو یہی سنا تھا بڑی سیاست گندی ہے
لیکن اب ایسا لگتا ہے یہ بالکل ہی اندھی ہے
خوب بولتی ہے لیکن آنکھوں پر کالا چشمہ ہے
ایک ہاتھ میں لڈو ہے اور دوجے ہاتھ تمنچا ہے
اگر یہ مسلم عورت کے حق کی آواز اٹھاتی ہے
اور نجیب پہلو کی امی نظر نہیں کیوں آتی ہے
کتنی سازش کر لے انسان اس کی پلاننگ بہتر ہے
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر
آنکھیں اندھی ہو یا نہ ہو دل تو ان کا اندھا ہے
اسی لیے سب کو بھڑکانا ان کا گو رکھ دھندھا ہے
مسجد سے آتی آوازیں ان کو نہیں سہاتی ہیں
اس سے بھی اونچی آوازیں لیکن ان کو بھاتی ہیں
چیخ سنائی دیتی ہے کیا ان کو لٹتی بچی کی
اک کسان کے بچے کی سینک کی بیوہ بیوی کی
ان کے دل کی دھڑکن خود نفرت کا لاؤڈ سپیکر ہے
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر
اب جو ہم لوگ محسوس کرتے ہیں جو آپ نے کہا ہے
اذاں آڑھتی شبد کیرتین بھارت کی جاگیریں ہیں
صبح شام کے ورق پہ لکھی پاکیزہ تحریریں ہیں
یہی ایکتا اور محبت اپنی ہے پہچان مگر
ہندو مسلم سکھ عیسائی رہتے ہیں سب مل جل کر
اپنے گھر کی دیواریں جو ساؤنڈ پروف بنواتے ہیں
AC میں سونے والے جانے کیسے جگ جاتے ہیں
غنڈا گردی کرتے ہیں آوارہ لوفر اور جوکر
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر
گھر میں تو جو اپنی ماں کی سیوا نہ کر پاتے ہیں
باہر جا کر گائے ماں کی خاطر لہوبہاتے ہیں
معصوموں کا لہو بہا ئے وہ غنڈا کہلاتا ہے
کوئی سونو کو سمجھاوے سر کب مونڈ ا جاتا ہے
سب سے پہلے دی بلال نے اذاں اسی کو کہتے ہیں
جو رسول کی کرے گواہی بیاں اسی کو کہتے ہیں
جس کو مذہب سے نفرت وہ شیطان سے بھی بدتر ہے
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر
یہ ہے کچھ خود غرض لوگ جو اب چمچے کہلاتے ہیں
خبروں میں رہنے کی خاطر یہ کچھ بھی کر جاتے ہیں
ان کو جب کوئی نہ پوچھے ٹوئٹر پہ یہ آ جاتے ہیں
جو بھی نیتا بولے اس کی ہاں میں ہاں کر جاتے ہیں
جو کیول رب کو پوجے وہ اصل بھگت کہلاتا ہے
پر جو انساں کو پوجے وہ اند بگت کہلاتا ہے
دے دیتے نیتا ان کو اونچے عہدے پھر خوش ہو کر
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر
خواب دکھایا تھا اللہ نے کیسے ہمیں جگانا ہے
تمہیں کامیابی کی جانب کس طرح بلوانا ہے
صبح عبادت کرنے جانا کیا یہ غنڈا گردی ہے
اپنے رب کی طرف بلانا کیا یہ غنڈا گردی ہے
پشو پرندے جگ جائیں تب کوئی سونے جاتا ہے
نیند سے بہتر فجر نماز ہے یہ اسلام سکھاتا ہے
تم بھی جاؤ مندر میں کچھ پن کماؤ منہ دھو کر
اذاں یہی کہتی ہے سن لے کہ اللہ ہی ہے اکبر

خود بت پرست لوگ بت کو توڑ رہے ہیں حیرت کی بات ہے بت پرست بتوں کو توڑ رہے ہیں۔ اپنے آئیڈیل کو توڑ رہے ہیں تو اذان پہ پابندی لگانا تو دور کی بات ہے۔ اذان اور آرتی کی آواز سن کے ہمیں اچھا لگتا تھا ہماری نیند کھلتی تھی ، سکون ملتا تھا ۔جب پابندیوں کی بات آتی ہے تب میں نے ایک نظم کہی ہے۔ آپ لوگوں کی بات کرتی ہوں مجھ پر بہت سارے الزامات لگے۔ میں آج یہاں سے یہ اناؤنس کر رہی ہوں کہ جس ہندوستان میں ایک نیتا یہ کہتا ہے کہ میں صرف ہندو ہوں فخر ہے ہندو ہونے پہ میں عید نہیں مناتا وہاں ایک ہندوستانی یہ کہتی ہے کہ انشااللہ اگر میری حیات رہی تو میں ایک مسجد بنواؤں گی ۔ یقین جانئے بہ خدا میں بات آپ لوگوں کی محبتیں لینے کیلئے نہیں کہہ رہی یہ بات میرے دل سے نکلی ہے میں جو بھی کہتی ہوں دل سے کہتی ہوں ۔میں نے اپنا تعارف بھی جو کروایا تھا کہ

نام حیا ہے میرا لوگوں کی ہائے سے ڈرتی ہوں
ہیلو تو اچھا لگتا ہے پر بائے سے ڈرتی ہوں
حق گوئی سے خوف نہیں ہے اسی لیے سچ کہتی ہوں
پہلے چاہت سے ڈرتی تھی اب چائے سے ڈرتی ہوں
جو دل کہتا ہے کہتی ہوں تم اپنی اپنی سوچو
شعر و سخن پہ میں استادوں کی رائے سے ڈرتی ہوں
اور اب تو اس کا نام بھی لوں تو یہ طبیعت گھبراتی ہے
راستے میں بھی دکھ جائے تو میں گائے سے ڈرتی ہوں
اُف وہ شخص کتنا بولتا ہے اب اس سے خوف سا آنے لگا ہے
اگر فرعون کب کا مرچکا ہے تو پھر یہ سامنے کیسے کھڑا ہے
یہ سوچا تھا کہ سب اچھاہی ہوگا یہ اچھا ہے برا پھر کیا بلا ہے
وہ جس کے ہاتھ میں ہونا تھا کاسا مقدر سے سکندر ہو گیا ہے
ابھی دجال کا آنا ہے باقی ابھی کیوں ظلم اتنا بڑھ گیا ہے
اسے کب فکر گھر اور اہل گھر کی جو دنیا بھر میں ڈولا گھومتا ہے
کبھی جنگل میں جو ہوتا رہا وہ سب تو شہر میں اب ہو رہا ہے
میں جب سوچتی ہوں اس کو تو پھر حیا سے سر میرا جھکنے لگا ہے
اُف وہ شخص کتنا بولتا ہے اب اس سے خوف سا آنے لگا ہے

ایک نظم نفرتوں کے دور میں سناؤں گی لیکن اس سے قبل یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ ذمہ دار ہم لوگ بھی ہیں ہماری تباہی کے تین چار اشعارآپ تک سنا رہی ہوں کہ

خدا کی راہ پر چلتے تو یوں برباد نہ ہوتے
اگر فرقوں میں نہ بٹتے تو یوں برباد نہ ہوتے
خدا کی ایک رسی کو پکڑ کر ساتھ جو چلتے
تو شیطان راج نہ کرتے تو یوں برباد نہ ہوتے
ہمارے ایک ہی ماں باپ آدم اور حوا تھے
یہ دھرم و ذات نہ ہوتے تو یوں برباد نہ ہوتے
یہ دنیا چار دن کی ہے تو پھر کیوں قتل خون ریزی
فقط اتنا سمجھ لیتے تو یوں برباد نہ ہوتے
سبھی کا حق ہے دنیا پہ سبھی کی ہے حیا دنیا
اگر نیتا نہیں ہوتے تو یوں برباد نہ ہوتے

ابھی بھی جب میں نے یہ نظم کہی تھی لیکن جو ریپ ہیں وہ رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اب تو8مہینے کی بچی کو نہیں چھوڑا جاتا ہے 80 سال کی بزرگ مہلا(عورت) کو نہیں چھوڑا جاتا ہے۔ دلی میں جب ایک عورت مہلاآیوب کی ریپ روکو اندولن شروع کرتی ہے اور پی ایم سے ملنے کی کوشش کرتی ہے تو یوم خواتین کے دن اس پر لاٹھی برسائی جاتی ہے ۔ تب میں یہاں سے کہہ رہی ہوں کہ ہمیں بھی مل کر ساتھ دینا چاہیے صرف دلی سے نہیں ممبئی سے بھی آواز اٹھنی چاہیے جتنے بھی ادارے ہیں میں ان سے التجا کر رہی ہوں کہ یہ میری نظم صرف آپ کو سنانے کی خواہش نہیں ہے میں چاہتی ہوں کہ یہاں سے بھی آواز اٹھے سب لوگ جڑیں اور قانون بنانے پر مجبور کریں سرکار کو کہ کسی طرح سے ریپ رکیں اور اس کی سزا صرف پھانسی ہونا چاہیے اور کوئی اس کا دوسرا راستہ نہیں ہے۔ تو میں ایک بات کہنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

پوچھ رہی ہوں ہندوستاں کی طاقتور مہلاؤں سے
دولت ستہ اور سیاست کے اعلی آقاؤں سے
کب تک عورت کی عزت سڑکوں پر لوٹی جائے گی
ایک بچی گھر میں اپنے محفوظ نہیں رہ پائے گی
بھول گئے ہم ہندوستانی ہر تعلیم شرافت کی
سیکھ رہے ہیں مغرب کی ہم الٹی سیدھی اے بی سی
اب نا کوئی شرم نہیں رشتوں میں اور نہ مریا دا
بیٹی کو لوٹے والد اور پوتی کو لوٹے دادا
اور بہن پر بھائی کی نظروں کے چلتے وار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
یہ وہ دھرتی ہے جس میں عورت کو کہتے ہیں دیوی
آج مگر اس دیوی کی خودبھگتوں نے عزت لوٹی
جس بھارت میں گنگا ہے میا اور گائے ماتا ہے
آج وہاں ایک بیٹا خود اپنی ماں کو مرواتا ہے
گاؤں شہر ہو ،ہوٹل ہو مندر ہو یا سکول ہو
ہر جگہ بھدے فقرے کیا مال مست ہوکول ہو
اس سے بھی بڑھ کر بھدے الفاظ سنائی دیتے ہیں
بیٹے تک اپنی ماں کو ہائے جانو کہتے ہیں
یہ کیسی تہذیب شرافت کیسے ششٹہ چار ہیں
اس ساری بے شرمی کہ ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
اب کیول انجان نہیں اپنوں سے بھی ڈر لگتا ہے
چاچا، تا ؤ، ما ما، موسا، جیجا تک سے خطرہ ہے
عمر کوئی بھی ہو کیول بس عورت ہو نا کافی ہے
جس کو دیکھو نیت کھوٹی نظروں میں ناپاکی ہے
ہر رشتہ ایک داغ بنا ہے خون ہوا ہے اب پانی
یہ تو سب ہونا ہی تھا جب ساتھ نہیں دادی نانی
ٹوٹ رہے پریوار یہاں اب بچے تنہا رہتے ہیں
نوکر اور پڑوسی کی سب اوچھی حرکت سہتے ہیں
ہر جگہ صیاد کھڑے ہیں اور کلیاں لاچار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
فلمیں ہوں موبائل ہو یا کہ پھر انٹرنیٹ ہو
نان ویج میسج چلتے سب چاہیں ولگر چیٹ ہو
یہ کیسا مینر کلچر ایڈوانس ہوئی ہے ایجوکیشن
کم کپڑوں میں فخر کریں گالی دینا مانیں فیشن
فلموں سے لے کر خبروں تک صرف مصالحے بکتے ہیں
جسم جلے ایک عورت کا تب ان کے چولہے جلتے ہیں
عورت کو ایک چیز بنا بازار یہاں پر سجتے ہیں
ان کو دیکھ جواں ہوتے بچوں میں مجرم پلتے ہیں
سب دولت شہرت کی خاطر بکنے کو تیار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
ایسا لگتا ہے کہ اب یہ اپنا بھارت دیش نہیں
بس کیول شکشہ ملتی ہے پر اچھا سندیش نہیں
کب بچوں کو ایک بھی نیتک پاٹ پڑھایا جاتا ہے
بس کیسے آگے بڑھنا ہے یہ سمجھایا جاتا ہے
جہاں برائی ہیروئن ہو پاپ جہاں پر نائیک ہو
اس کو اتنی شہرت ملتی جو جتنا نالائق ہو
پاپ پنے کا فرق انہیں جب نہیں کوئی سمجھائے گا
خوف کہاں او پروالے سے پھر یہ انسا کھائے گا
جب ان کے آدرش بھی غنڈے ڈاکو سے کردار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
سنبھل سکو تو ابھی سنبھل لو اگر سنبھلنا آتا ہے
یاد مجھے اقبال صاحب کا شعر یہ اکثر آتا ہے
اب نہ سنبھلے تو ہندوستاں والوں تم مٹ جا ؤگے
دنیا کی تاریخ میں اپنا نام کہاں لکھوا ؤگے
اب بھی ہے کچھ وقت نہیں بدلا اب بھی سب کچھ بھائی
ہم چاہیں تو کر سکتے ہیں اس گھٹنا کی بھرپائی
سوچ بدل جائے اپنی قانون فٹافٹ مل جائے
اور سزا ایسی کہ جس کو دیکھ کے مجرم تھر ائے
کیا مجرم کی ماں بہنیں بھی لڑنے کو تیار ہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں
کب مجرم کی ماں نے یہ پوچھا ہے بیٹے سے جا کر
کوکھ پہ لعنت بھیجی ہے دنیا کے آگے کب جا کر
کب مجرم کی بہنا نے بھائی کو تھپڑ مارا ہے
اور بیٹے کے کرتوتوں کو ابا نے دھتکارا ہے
جب تک ان کے گھر والے نہ سبق انہیں سکھلائیں گے
سرعام جوتے مارے عریاں کر کے گھموائیں گے
کیوں عربی قانون یہاں پر نہیں چلایا جا سکتا
سات دنوں میں مجرم پھانسی پرلٹکایا جا سکتا
جب جنتا ہے راضی پھر کیوں قاضی جی بیزارہیں
اس ساری بے شرمی کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں

تبصرہ : نوشتۂ دیوار

محترمہ لتا حیا ہندو شاعرہ ہیں اورنسل، ملکوں و مذاہب کی بنیاد پر نفرتوں کے خلاف مودی سرکار کے اقتدار میں صف آراء ہیں۔ ہمیں مسلمان ہوکر تعصبات پھیلانے میں شرم نہیں آتی ہے۔آج ہماری ضرورت ہے کہ سیاسی بنیاد پر ایک ایسی فضا قائم کریں کہ اس خطے میں امن وامان قائم ہو اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستان نے پاکستان پر ناجائز حملہ کیا اور منہ کی کھائی ہے لیکن اس کو ڈھول بناکر ہم بجاتے رہیں گے تو آخر میں پاکستان کی بج جائے گی۔

ایک وقت وہ تھا کہ ہماری طرف سے کھلی مداخلت تھی اور جہادی تنظیموں کی طرف سے حملے ہوتے تھے اور آج یہ حال ہے کہ ان کو بہانہ چاہیے ہم پر حملہ کرنے کیلئے اور جب ہم نے کچھ کیا بھی نہیں تھا اور پھر ہم نے مذمت بھی کردی۔ پھر بھی انہوں نے ہم پر جنگ مسلط کردی تھی۔ جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ بلوچستان، پختونخواہ اور پنجاب میں کھلی مداخلتوں کے خلاف چیخ وپکار کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے مگر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ بالکل واضح ہے کہ کل ہم جو کچھ کرتے تھے آج وہ کررہے ہیں یا نہیں ؟ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم کررہے ہیں۔ مولانا سلمان ندوی کا بیان دیکھ لیں۔ ان کے پیشرو مولانا سید سلیمان ندوی پاکستان کے حامی اور مسلم لیگی ذہنیت سے تعلق رکھتے تھے اور جب اس کی یہ حالت ہے تو جمعیت علماء ہند اور دوسروں کی حالت کیا ہوگی؟۔ امریکہ نے ڈبل گیم بھی خود کھیلی اور موردالزام بھی پاکستان کو ٹھہرایا۔ اقوام متحدہ میں امریکہ و اسرائیل نے افغان طالبان کے خلاف جرمنی کی قرار داد کو مسترد کیا اور 116ممالک سمیت پاکستان نے حمایت کی اور چین، بھارت، روس اور ایران غیر جانبدار بن گئے۔ اگر ہم نے ایران ، چین ، بھارت ، افغانستان کے درمیان تجارت و سپلائی شروع کردی تو خوشحالی آئے گی۔ انشاء اللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

نکاح ثانی بھی جائز اولاد بھی حلال: امام ابو حنیفہ کا فتویٰ ، قرآن وسنت کے بھرپوردلائل
آذان کی تعریف میں ایسی نظم کہی کہ مودی اور یوگی شرمندہ ہوگئے
غیرت ، حیاء اور سورہ بلد