پوسٹ تلاش کریں

1500سو سالہ جشن ولادت مصطفی ۖ

1500سو سالہ جشن ولادت مصطفی ۖ اخبار: نوشتہ دیوار

(1447ہجری۔2025عیسوی)
پیدائش سے ہجرت تک53سال
ہجرت سے اب تک1447سال
1447+53=1500

رحمت للعالمینۖ کی آمد سے یہودونصاریٰ عیسٰی کی شخصیت سوزی و سازی پر نرم پڑگئے ۔ مفتی تقی عثمانی و مفتی منیب الرحمن سو دپر متفق مگر جشن ولادت پر نہیں؟۔ ڈیڑھ سو سالہ جشن دیو بند پر دیوبندی اکٹھے ۔ڈیڑھ ہزار سالہ جشن میلاد پر بریلوی منتشر؟۔ غسل ،وضو ، نماز کے فرائض حتی کہ قرآن پر اختلافات برداشت مگر مستحب دعا پر نہیں؟۔واہ !

ہو سود سے برباد تو بریشم کی طرح نرم
ہو فرقے کا فساد تو فولاد ہے مؤمن

علامہ تراب الحق قادری نے کہا”پوٹی کے بعد دبر سے پھول نما آنت کو دھویا ، دخول سے پہلے سکھایا نہیںتو روزہ ٹوٹ گیا۔ کھلا بیٹھنے اور سانس سے پانی معدہ تک پہنچے گا”۔ مفتی عزیز الرحمن کی مناپلی صابر شاہ ، عابد شاہ جیسے کردار کے مالک علماء اور پیر بن کر مسلکوں کا پرچار کریںگے تووہ اپنے مطلب کے فقہی مسائل بیان کریں گے۔ اسلام نے دنیا کو اپنی روشنی سے ایسا تبدیل کردیا کہ جیسے رات کا گھپ اندھیراسورج کی روشنی سے بدل جاتا ہے لیکن خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کی سرپرستی میں چھوٹی ذہنیت رکھنے والے مذہبی طبقات نے دن دیہاڑے اللہ کے دین کو اجنبیت کا شکار بنادیا۔یہود حلالہ کی لعنت میں مبتلا تھے اور عیسائی کے ہاں طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا جبکہ قریش دین ابراہیمی پر یہودونصاریٰ کی نسبت دین فطرت کے زیادہ قریب تھے اور جہالت و مفادپرستی کا شکار بھی۔

سیالکوٹ کے پنجابی مولانا عبیداللہ سندھی،جھنگ کے بلوچ خلیفہ غلام محمد سندھ ڈھرکی سکھر کے مرید۔ وزیرستان کا مظفرشاہ شہید خلیفہ غلام محمدکے مرید، مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید میرے استاذ و پیر بھائی۔خانپور ہمارا دل ہے جواسلام کی نشاة ثانیہ اور پاکستانیوں کیلئے حقیقی مرکزہے۔


خان پور میں فکری بیداری کا خاموش سفر
تحریر: ظفر اقبال جتوئی۔ نمائندہ نوشتہ دیوار: شاہ نواز تہیم۔

خان پور صرف دریا کنارے بسا ایک شہر نہیں، بلکہ تہذیب، روایت، اور فکری جمالیات کا ایک جیتا جاگتا منظرنامہ ہے۔ جو حالیہ دنوں ایک ایسی ادبی و فکری سرگرمی کا مرکز رہا جو عمومی اخباری رجحانات سے یکسر مختلف تھی۔ ہم بات کر رہے ہیں ”نوشتہ دیوار”کی، جو روایتی اخبار نہیں بلکہ یہ ماہنامہ شعور نامہ ہے، جو جلد10،شمارہ 8کی صورت میں خان پور کی فکری فضاؤں میں خوشبو بکھیر گیا۔یہ صرف خبریں دینے والا ایک پرچہ نہیں، بلکہ یہ با مقصد تحریری جہد کا تسلسل ہے۔ یہ ان موضوعات کو زبان دیتا ہے جنہیں دیگر اخبارات یا تو نظرانداز کر دیتے ہیں یا سرے سے ان کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے۔ یہ اخبار فکری افلاس، طبقاتی تضاد، وسیبی محرومی، اور ثقافتی تنہائی جیسے اہم مگر غیر مقبول موضوعات کو صفحہ قرطاس پر وہ درجہ دیتا ہے جس کے یہ بجا طور پر مستحق ہیں۔شمارہ نمبر8کی خان پور میں تقسیم ایک غیر روایتی اور شعوری عمل تھا۔ یہ نہ صرف ایک ماہنامہ کی ترسیل تھی، بلکہ فکری مکالمے کو نئے مقامات تک لے جانے کی ایک بیدار شعور کوشش بھی تھی۔ اس عمل میں مقامی تعلیمی اداروں، صحافتی تنظیموں، ادبی حلقوں، اور فلاحی اداروں کو شامل کیا گیا۔ مقصدتھا کہ پیغام ان ہاتھوں تک پہنچے جو صرف خبروں کے قاری نہیں بلکہ سوچنے، پرکھنے ، سوال اٹھانے والے اذہان رکھتے ہیں۔ نوشتہ دیوار کا یہ شمارہ اپنے مواد، طرزِ پیشکش اور موضوعاتی جرأت کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ محض سطحی رپورٹس یا سرخیوں پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ ہر موضوع کو اس کی اصل روح کیساتھ پیش کرتا ہے۔ اخبار میں شائع تحریریں مختصر ہونے کے باوجود گہرائی رکھتی ہیں، قارئین کو صرف اطلاع نہیں بلکہ ادراک فراہم کرتی ہیں۔یہ شمارہ قرآن کریم کی بہتر تشریح، وسیب کی ثقافت، مزاحمت کی علامت بنتے کرداروں ، روزمرہ کے تضادات کو ایسی زبان دیتا ہے جو براہِ راست قاری کے ضمیر سے ہمکلام ہوتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ”نوشتہ دیوار”کو محض اشاعت نہیں بلکہ ادبی تحریک بناتی ہے۔خان پور میں اس کی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس شہر میں اب بھی فکری پیاس باقی ہے اور لوگ ایسے مواد کی قدر کرتے ہیں جو عام دھارے سے ہٹ کر ہو۔ یہ خاموش بیداری کا ایسا عمل ہے جو شاید روز کی خبروں کی ہنگامہ خیزی میں دب جائے، مگر اپنی گہرائی اور اثر پذیری کے اعتبار سے طویل عرصے تک ذہنوں میں نقش رہتا ہے۔اس کی تقسیم یادگار واقعہ ہے۔ نیا قاری، نیا سوال اور نئی سوچ کا بیج بو دیا۔ اس کا دائرہ اخبار پڑھنے تک محدود نہیں بلکہ یہ گفتگو، مکالمے اور سوالات کا محرک بھی بنا۔”نوشتہ دیوار”نے ثابت کیا ہے کہ اگر صحافت کو محض کاروبار کے بجائے شعور کی خدمت بنا دیا جائے، تو یہ ایک ایسا ہتھیار بن سکتا ہے جو بیداری، فہم، اور تبدیلی کی راہ ہموار کرے۔ جلد20کا شمارہ نمبر8خان پور میں جس خاموشی سے آیا، اسی گہرائی سے دلوں میں اتر گیا، اور ایک غیر محسوس ادبی انقلاب کی بنیاد رکھ گیا۔


امریکی سیاستدان گومیز نے قرآن کو نذر آتش کیا اورخدا سے مدد مانگ لی!

ڈونلڈ ٹرمپ کی حامی سیاستدان ولیٹینا گومیز نے قرآن کو فائر گن سے نذر آتش کیااور کہا ہے کہ اسلام کا ٹیکساس سے خاتمہ کردوں گی۔ مسلمان ہماری تہذیب پر حملہ آور ہیں۔ یہ عیسائی ریاستوں پر قبضہ کرکے عیسائی عورتوں سے جبری جنسی زیادتی چاہتے ہیں ۔میں خدا سے مسلمانوں کے خلاف مدد مانگتی ہوں۔ صرف اسرائیل کا خدا برحق ہے ۔اسلام بالکل فراڈ ہے اور ٹیکساس میں مسلمانوں نے رہنا ہے تو قرآن سے اپنا تعلق ختم کرنا ہوگا۔ قرآن کو فائر گن سے جلاکر اس کی ویڈیو جاری کی اور تعصبات کو خوب ہوا دی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ ستمبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

تبرج حسن نساء کی نمائش ،عورتوں کی زینت حسن نساء اورگھر سے باہر سینوں پر اپنے دوپٹے اوڑھنے کا حکم ہے
شیعہ علامہ حیدر نقوی اور سنی جاوید غامدی میں فرق
1500سو سالہ جشن ولادت مصطفی ۖ