پوسٹ تلاش کریں

برہمن نول کشور اور قرآن کی عظیم خدمت

برہمن نول کشور اور قرآن کی عظیم خدمت اخبار: نوشتہ دیوار

قرآن کے نسخے برصغیربلکہ چین سے ترکی تک مسلمانوں کے گھر گھر میں پہنچانے کا کام کسی عالم دین نے نہیں کیا بلکہ ایک برہمن نے کیا تھا ،جسے ہندوستان میں منشی نول کشور کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اٹھارہویں صدی میں پرنٹنگ انقلاب کے دوران جب نول کشور نے لکھنو میں ہینڈ پریس کا آغاز کیا تو سب سے پہلے مختلف مذاہب کی مقدس کتابوں کی اشاعت کی تھی جن میں قرآن پاک کے نسخے بھی شامل تھے ۔ جس کے بعد نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے بڑے حصے میں قرآنی نسخوں کو گھر گھر پہنچایا جاسکا جو اس سے قبل نادر تھے یا پھر شہر کے امرا یا اشرافیہ کے ہاتھوں میں تھے مگر نول کشور کے ایک روپیہ آٹھ آنے کے قرآنی نسخوں نے ناظرہ کو آسان بنایا اور ساتھ ہی ترجمہ مہیا کرایا جو مسلمانوں کیلئے بڑا تحفہ تھا۔

منشی نول کشور نے پرنٹنگ کے کاروبار کیساتھ مذہبی کتابوں کااحترام کیا،ہر کسی کے مذہبی جذبات کا خیال اورکام میں معیار کو اہمیت دیتے ۔ قرآن کے نسخوں کی پرنٹنگ سے قبل اعلیٰ ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے، ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازمت دی،قرآن کی چھپائی میں شامل اسٹاف مسلمان ہوا کرتاتھا۔ کتابت والے کیلی گرافرس یعنی خطاط و خوش نویس کو سخت ہدایت تھی کہ بلا وضو کتابت نہیں کریں گے۔ ملازمین کو کام سے قبل وضو کی سخت ہدایت تھی، چھپائی سے قبل پریس صاف کیا جاتا اور فرش پر صاف چادریں بچھائی جاتیں، تاکہ کوئی کاغذ زمین پر نہ گرے، جہاں قرآن کی بائنڈنگ ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو جوتوں کیساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔اسلامی تصنیفات کے سلسلہ میں پاکیزگی و طہارت کا پورا خیا ل رکھا۔ شائع ہونے والی ادبی کتابوں کی فروخت کافی تھی ۔ ایک زمانے میں پاکستان سے جو وفد اجمیر شریف کے عرس پر آتاتو مطبع نول کشور کے کچھ حضرات ان کتابوں کے نمونے لے جاتے اور ان کو دکھاتے تھے اور پاکستان کے کتب فروش ان کتابوں کا آرڈر دیتے تھے ۔

منشی نول کشور3 جنوری 1836کومتھرامیں پیداہوئے، والد کانام پنڈت جمنا پرشاد تھااور علی گڑھ کے زمیندارتھے،نول کشورنے آگرہ کالج سے تعلیم حاصل کی، پھر اخبار سفیرآگرہ میں مضامین لکھے۔ مقبولیت ملی تو لاہور کے ہر سکھ رائے جی نے اپنے اخبار کوہ نور کیلئے طلب کرلیا ۔ 1853میں نول کشورکچھ کر دکھانے کے جذبہ سے لاہور پہنچے۔ ہرسکھ رائے جی کے اخبار اورپرنٹنگ پریس کی ملازمت کرلی۔ ہر سکھ رائے جی اس قدر متاثر ہوئے کہ چھاپہ خانے پرنٹنگ پریس کی تمام ذمہ داریاں انکے سپرد کر دیں ۔ رفتہ رفتہ منشی جی نے اس میدان کی باریکیوں کو بخوبی سمجھ لیا، آخر میں سکھ رائے جی سے اختلافات کے بعد آگرہ لوٹ آئے ۔

آگرہ میں سکون نہیں ملا ،کچھ کرنے کا جوش لکھنو لے گیا، جو غدر کے بعد سماجی و ثقافتی طور پر بکھرا ہوا تھا ۔ نول کشور کے پوتے کے پوتے لو بھارگو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جب دادا جی منشی نول کشورلاہور سے لکھنو آئے اور پیشہ طباعت سے وابستہ ہوگئے تو رکاب گنج لکھنومیں ایک چھوٹا موٹا چھاپہ خانہ مطبع نول کشور کے نام سے قائم کیا جس میں ہاتھ کا پریس استعمال ہوتا تھا پھر ترقی کرکے منشی جی کی پہچان ناشر کی حیثیت سے مستحکم ہوگئی ۔طباعت کا کام اس قدر بڑھا کہ پریس کی جگہ چھوٹی پڑگئی چنانچہ حضرت گنج میں بڑی جگہ پر چھاپہ خانہ کو توسیع دی۔ بعد میں یہ سڑک انہی سے منسوب ہوئی توجو اب منشی نول کشور روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ منشی جی نے ہفت روزہ اخبار جاری کیا جس کو بعدمیں سر سید احمد خان کے مشورہ سے روزنامہ کر دیا۔92برس کی عمر پانے والا یہ روزنامہ اودھ اخبار کے نام سے مشہور ہوا۔پریس نول کشور برصغیر کے سب سے بڑے پبلشنگ ہاوس میں سے تھا۔ 37سا ل میں اردو، فارسی ، سنسکرت ہندی کی4 ہزار سے زیادہ کتابیں شائع کیں۔ ہندو ،مسلمانوں اور سکھوں کی مقدس کتابیں شامل تھیں، نول کشور پریس کا ملک بھر میں جال بچھایا۔ اس میں 1200 سے زیادہ ملازم تھے جبکہ3 سو پریس مین 3سو ہینڈ مشین چلاتے۔ جرمنی سے کاغذ تیار کرنے کیلئے مشین منگائی تاکہ کاغذ سستا اور قلت کا شکار نہ ہو، انہیں ہندوستان کا ولیمس کیسٹن کہا گیا جس نے چودھویں صدی میں پرنٹنگ پریس سے دنیا کو رو برو کرایا ۔

نول کشور پریس لکھنو کا تھا مگر اس کی شاخیں الہ آباد، کانپور، آگرہ، دہلی، لاہور، پٹیالہ، اجمیر اور جبل پور وغیرہ میں تھیں ۔ اس کی شہرت ہندوستان کے باہر دوسرے ممالک میں بھی تھی۔ اچھی طباعت سے افغانستان ، ایران ، مصر ، لندن، ترکی، برما، عراق اور افریقی ممالک سے بھی آرڈر ملتے تھے ۔ منشی جی نے فارسی کتابوں کی اشاعت میں خاص دلچسپی لی چنانچہ تفسیر، حدیث اور فقہ کی مستند کتابوں کے فارسی تراجم کرائے۔ شاہنامہ فردوسی بڑے سائز میں تین حصوں میں شائع ہوا۔ اس کا اردو ، ہندی ترجمہ کرایا۔ پیرہن یوسفی منظوم کا اردو ترجمہ چھ حصوں میں ، جواہر الاسرار تین جلدوں میں ، کلیات شمس تبریز (مولانا روم کا کلام) دیوان شمس تبریز ، کلیات عارفی اور کلیات غالب وغیرہ منشی نول کشور کے مطبع سے شائع ہوئے۔منشی جی کے وارث لو بھارگو کہتے ہیں کہ” ہمارے والد راجہ رام کمار بھارگو بتاتے تھے کہ پریس میں اشرف علی نسخ نستعلیق کے بہترین کاتب تھے۔ طغری نویسی میں نور خا ں کا جواب نہیں تھا۔ وہ فن کے استاد تھے۔ احمد علی معکوس نویس تھے (الٹی تحریر جسے مرر امیج کہتے تھے )اور اپنے فن میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ مولوی سید تصدق حسین کنتوری اور مولوی سید مظفر حسین تصحیح کے کام پر مامور تھے ۔ منشی جی مذہبی معاملات میں حددرجہ احتیاط کرتے، اسلامی کتب کی طباعت میں کوئی غلطی نہ ہو اور مسلکی مسئلہ پیش نہ آئے ۔سنی کارکنان سے اہلسنت ، شیعہ ملازمین سے امامیہ کی کتابیں کافی احتیاط سے چھپواتے تھے۔سال 1895میں نول کشور کا انتقال ہوا تو بے اولاد تھے، چھوٹے بھائی سیوک رام کے لڑکے پراگ نارائن کو گود لیا۔ جو انکے وارث بنے۔ بقول لو بھارگو منشی پراگ نارائن کے انتقال کے بعد منشی بشن نارائن نے پریس کی ذمہ داری سنبھال لی۔ پریس نیز اخبار پوری توانائی کیساتھ جاری رہے لیکن اس میں منشی نول کشور اور منشی پراگ نارائن کے زمانے والی بات نہیں رہ گئی تھی چنانچہ 1944ء تک اودھ اخبار بند ہو گیا۔ منشی بشن نارائن کے انتقال کے بعد انکے بیٹوں یعنی ہمارے والد راجہ رام کمار بھارگو اور چچا تیج کمار بھارگو نے پریس سنبھالا لیکن دونوں بھائیوں میں زیادہ عرصہ تک نباہ نہ ہوسکا اور پریس نیز دیگر املاک دو حصوں میں تقسیم ہو گئیں جس سے تیسری پیڑھی میں پہنچ کر پریس پر زوال آگیا۔ یو ں سمجھئے کہ جس طرح تقسیم سے ملک کو نقصان ہوا ٹھیک اسی طرح اِس بٹوارے سے پریس کو نقصان پہنچا۔ منشی نول کشور کے نام سے مشہور چھاپہ خانہ کا نام تبدیل ہو ا۔ یہ راجہ رام کمار پریس اور تیج کمار پریس ہوگیا۔

دو نسلوں کے سفر کے بعد تیسری نسل تک پوری دنیا میں منشی نول کشور کے نام سے مشہور پریس کے دو ٹکڑے ہوئے ، جس کیساتھ ایک تاریخ دفن ہوگئی، لیکن حضرت گنج لکھنو میں واقع وہ سڑک اب بھی منشی نول کشور روڈ کے نام سے ہے۔نول کشور کی پبلیشر کی حیثیت سے جو تصویر پیش کی وہ ان کی خدمات کاایک باب ہے ۔ ان کی زندگی پر متعدد کتابیں ، ہزاروں مقالے لکھے جا چکے ہیں لیکن ان کی خدمات کا اعتراف اب بھی مکمل نہیں ہوا اور موجودہ حالات میں ان کی زندگی کا یہ پہلو اجاگر کرنا ضروری ہے جوکہ مذہبی رواداری کا پیغام اورایک دوسرے کے جذبات کی قدر کا سبق دیتا ہے ۔منصور الدین فریدی : نئی دہلی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

پاکستانی امام مسجد کی پادری پوتی کا کینیڈا میں انٹرویو : بہت ہی جاندار تجزیہ کیساتھ
شہریار رضا عابدی، حافظ عبد الخالق بھٹی اور سلفی سپاہی کو جواب
اگر اسلام میں تصوف نہیں تو نماز میں چوتڑ اٹھا کر سبحان ربی اعلیٰ کی کیا ضرورت ؟