پختون ، بلوچ،سندھی، کشمیری،پنجابی، سرائیکی،ہزارے وال اور مہاجر سبھی یاد رکھو !اللہ نے غلو سے منع کیاہے
اگست 2, 2025
پیر آف واناجنوبی وزیرستان سے22 اپریل 1948 کو پشاور میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ملاقات ہوئی اور پوچھا پیر صاحب آپ ایک آزاد ملک کے رہنے والے آزادی اور غلامی میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟۔ آپ نے فرمایا 1938 میں صوبہ سرحد کے انگریز گورنر سے ملاقات ہوئی وہ نہایت متکبرانہ انداز میں فرعون وقت کی طرح گفتگو کرتا تھا آج جب آپ سے ملاقات کے واسطے اندر آنے لگا تو صوبہ سرحد کا موجودہ انگریز گورنر کھڑا تھا مجھے دیکھتے ہی ٹوپی اتار کر سلام کیا اور دروازے سے چک اٹھائی۔ اس وقت انگریزوں کی حکمرانی تھی اور ہم غلام تھے آج ہم آزاد ہیں اور وہ ہمارا ملازم ہے یہ آزادی اور غلامی کا فرق ہے اور شاید یہی ہے حقیقی آزادی ۔(یوٹیوب :ان سنی باتیں Batain Ansuni :جواد رضا خان)
پاکستان کی تمام اقوام کو غلو سازی کے اُتار چڑھاؤ سے اعتدال پر آنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈاپور نے الزام عائد کیا ہے کہ دہشت گردی کی بنیاد ہمارے ہی ریاستی ادارے ہیں، پولیس دہشت گردوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتی ہے تو یہ لوگ چھڑالیتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ اس الزام کی صحیح تحقیق ہونی چاہیے اور الزام عائد کیا ہے کہ گنڈاپور خود طالبان کو بھتہ دے رہا ہے۔
یہ الزام تراشی کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔ گروہ بندی اور سیاسی جماعتوں سے لیکر لسانی جماعتوں اور فرقہ پرستوں تک یہ قوم الزام تراشیوں کی بحرانوں میں غرق ہے۔ اب تو معاملہ انتہا کو پہنچ گیا ہے حالانکہ جنرل قمر جاویدہ باجوہ کے دورمیں ایک صحافی نے کھلے عام کالے ویگو ڈالے اور کچھ طالبان پر ایک کروڑ تاوان کے مطالبے کا الزام لگادیا تھامگر کسی سیاسی ومذہبی جماعت نے اس پر آواز نہیں اٹھائی۔
قل یااہل الکتٰب لاتغلوا فی دینکم غیر الحق ولا تتبعوا اھواء قوم قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرًا و ضلوا عن سواء السبیل ۔ ترجمہ ” آپ فرماؤ ۔ ائے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو مت کرو اور ان لوگوں کی خواہشات پر مت چلو ،جو پہلے خود بھی گمراہ ہوچکے ہیں اور بہت سارے لوگوں کو بھی گمراہ کرچکے ہیں۔ اور سیدھی راہ بھٹک چکے ہیں۔ ( سورہ المائدہ ، آیت77)
مصیبت یہ ہے کہ ہر ایک غلو کا شکار ہے چاہے وہ سیاسی، مذہبی، جہادی ، سرکاری اور حکومتی مشن سے تعلق رکھتا ہو یا پھر قوم پرستی اور انفرادی معاملات سے تعلق رکھتا ہو۔ اللہ کی زمین میں خلافت کا تعلق ان ذمہ داریوں سے ہے جن میں انسان اپنی وسعت کے مطابق طاقت رکھتا ہے۔
ذمہ داریاں اور منصب مانگنے کے نہیں ہوتے مگر جب انسان کے متھے لگ جائیں تو اس کو احسن انداز سے پورا کرنا خلافت ارضی کا فریضہ ہے۔ دنیا میں ہر شخص اپنی اپنی وسعت کے مطابق زمین میں اللہ کا خلیفہ ہے۔ خواہشات کی تابعداری سے بچنا بھی خلافت ہے۔ حضرت آدم و حواء سے اللہ نے فرمایا کہ لاتقربا ھذہ الشجرة ”اس درخت کے قریب مت جاؤ”۔جب انسان اپنے نفس ہی کا مالک ہو تو اس کی ذمہ داری اور خلافت نفس تک محدود ہے۔ اس طرح بال بچوں اور جہاں تک وسعت پائے۔
فیلڈ مارشل، وزیراعظم ، چیف جسٹس، پارلیمنٹ، علمائ، صحافی ، مجاہدین اور سبھی حضرات کی ذمہ داریاں اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود ہیں اور تجاوز کرنا بالکل غلط ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم تجاوز نہیں کرتے بلکہ اعتدال پر چلتے ہیں تو یہ سچ بھی ہوسکتا ہے اور بہت بڑا مغالطہ بھی ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤجنہوں نے کفر کیا اور اپنے بھائیوں سے کہا جب وہ سفر پر نکلیں یا جہاد پر جائیں کہ اگر یہ ہمارے پاس ہوتے تو نہیں مرتے اور نہ قتل ہوتے ۔ تاکہ اللہ انکے دلوں میں ایک افسوس ڈالے۔اور اللہ ہی زندہ رکھتا ہے اور مارتا ہے ۔اور اللہ سب کاموں کو دیکھنے والا ہے۔ اور اگر تم اللہ راہ میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور رحمت بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ اور اگر تم مرگئے یا قتل کئے گئے تو تم سب کا اللہ کی طرف حشر ہوگا۔ پس اللہ کی رحمت کے سبب آپ ان کیلئے نرم ہوگئے۔ اور اگرآپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو ضرور یہ لوگ آپ کے ارد گرد سے بھاگ جاتے۔ پس ان کو معاف کردیں اور ان کیلئے بخشش مانگیں۔اور ان سے خاص بات میں مشورہ کریں۔ پھر جب عزم کرو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ بیشک اللہ توکل رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی بھی تم پر غالب نہیں آسکتا ہے۔ اور اگر وہ دھکا دے تو پھرکون ہے جو تمہاری اس کے بعد مدد کرسکے؟۔ اور مؤمنوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (آل عمران آیات156تا160)
ماکان لنبییٍ ان یغل و من یغلل یأت بما غل یوم القیامة ثم توفیٰ کل نفسٍ ما کسبت و ھم لایظلمون…. ”اور کسی نبی کے لائق نہیں کہ غلو کرے اور جو کوئی غلو کریگا تو قیامت کے دن اس غلو کوساتھ لائے گا ۔ پھر ہر کوئی پوراپالے گا جو اس نے کمایا ہے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ آیا وہ شخص جو اللہ کی رضا کا تابع ہے وہ اس کی طرح ہے جس پر اللہ کا غضب ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور برا ٹھکانہ ہے۔ اللہ کے ہاں لوگوں کے مختلف درجات ہیں۔ اور اللہ دیکھتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے جب ان میں سے ایک رسول بھیجاجو ان کی جانوں میں سے ہے۔ ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ کیا جب تمہیں ایک تکلیف پہنچی ،حالانکہ تم ان کو اس سے دگنی تکلیف پہنچا چکے ہو۔ تو تم کہتے ہو کہ یہ کہاں سے آئی۔ کہہ دو کہ یہ تمہاری اپنی جانوں کی طرف سے ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور کچھ تمہیں اسکی تکلیف پہنچی جب دونوں جماعتیں ٹکرائیں۔یہ سب اللہ کی اجازت سے ہوا۔تاکہ ایمان والوں کو اللہ ظاہر کردے اور تاکہ منافقوں کو ظاہر کردے۔ اور ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں لڑو یا دشمنوں کو دفع کرو۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ آج جنگ ہوگی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔ وہ اس وقت بہ نسبت ایمان کے کفر کے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں حالانکہ خود بیٹھے رہتے اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ کئے جاتے۔ کہدو ! اگر تم سچے ہو تو اپنی زبانوں سے موت کو ہٹاؤ اور تم مت سمجھو کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں ان کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خوش ہیں جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دیا ہے۔ اور ان کی طرف سے بھی خوش ہوتے ہیں جو ابھی تک انکے پاس ان کے پیچھے نہیں پہنچے ہیں۔ خبردار ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہیں۔ (آل عمران:161تا 170)
ان آیات میں غلو کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے۔ انبیاء کرام کی طرف اس کی نسبت اسلئے کی گئی ہے کہ کوئی طبقہ خود کو مستثنیٰ نہیں سمجھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قتل ہوا،حضرت ہارون علیہ السلام کو داڑھی سے کھینچا۔ نبیۖ نے حضرت امیرحمزہ کی شہادت پر سخت انتقام کا فرمایا تو اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا۔ بیوی سے ناراضگی کی مدت قرآن نے 4 ماہ رکھی ہے۔ نبیۖ حضرت زینب سے ناراض رہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ سفر میں تھے ،سیدہ صفیہ کی سواری کا اونٹ بیمار ہوااور سیدہ زینب کے پاس وافر سواری تھی۔ رسول اللہ ۖ نے سیدہ زینب سے فرمایاکہ صفیہ کی سواری کا اونٹ بیمار ہوگیا ، آپ اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹ سواری کیلئے دے دیں۔ تو سیدہ زینب نے جواب دیا کہ میں اس یہودی عورت کو اپنا اونٹ دوں؟ تو رسول اللہۖ نے سیدہ زنیب کے پاس اپنی آمد ورفت چھوڑ دی۔ ذی الحجہ اور محرم یہ دو مہینے یا تین مہینے آپۖ انکے پا س نہ آئے۔ سیدہ زینب فرماتی ہیں کہ میں پوری طرح آپ ۖسے ناامید ہوگئی اور اپنی چارپائی وہاں سے ہٹاکر رکھ دی۔ پھر سیدہ زینب نے فرمایا کہ اچانک ایک دن دوپہر کے وقت کھڑی اپنے آپ کو رسول اللہ ۖ کے سایہ مبارک میں پاتی ہوں۔یہ واقعہ ذی الحج کے سفر کا ہے۔( مسنداحمد ج6صفحہ231)
یہودی سخت جملہ اور مدد سے انکار ؟۔ نبیۖ کچھ عرصہ ناراض رہے۔ تحریک انصاف اور سیاسی وجہادی کارکن بھی اعتدال پر آجائیں اور علم وشعور کی شمعیں جلائیں۔ اپنے آپ کو 100% فیصد اعتدال پر سمجھنے کا دعویٰ یا گمان رکھنا ہی بہت بڑی گمراہی ہے اور اس کے مذہبی وسیاسی لوگ اور سرکاری حضرات کی اکثریت شکار ہے ۔ اگر پاکستان کے تمام لوگ اپنی اپنی بے اعتدالیوں کا اقرار اور توبہ کرکے راہ اعتدال پر نہیں آئے تو اس معاشرے کی تباہی وبربادی کے اوقات خدانخواستہ آن پہنچ گئے ہیں۔
تہمینہ شیخ ودیگر کے ویلاگ میں کیا خبریںہیں؟۔ فوج کے شہدائ، طالبان اور بلوچ قوم پرستوں کے احوال جس کو دیکھ مصائب وآلام کا شکارہے۔ عورتیں بیوہ، بچے یتیم اور انسانیت اجھڑ رہی ہے۔ بیٹا ماں باپ اور بیوی کو قتل ، ماں بچوں کو قتل کررہی ہے جو رپورٹ نہیں ہوتا تو وہ کیا ہوگا؟۔
نہ تو ریاست و حکومت اپنی ذمہ داری پوری کررہی ہے ، نہ ہی عوام کی حالت ٹھیک ہے۔ اس حالت میں امید کی شمع جلانا اور بنیادی کردار ادا کرنا فرض ہے۔ قرآنی آیات کا ترجمہ غلط ہوگا تو معاشرے میں اصلاح کا باعث کیسے بن سکتا ہے؟، قرآن کی رہنمائی مردہ امت کو زندہ کرسکتی ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ نبی کیلئے غلو یعنی بے اعتدالی مناسب نہیں اور جو بے اعتدالی کرے گا تو قیامت کے دن جو بے اعتدالی کی ہوگی تو اسکے ساتھ آئے گا۔ قرآن کا مقصد انبیاء کرام علیہم السلام کی بے اعتدالیوں کو اجاگر کرنا نہیں کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے ہدایت پر ہیں لیکن لوگوںکو خوش فہمیوں سے نکالنا ہے۔ بدر کے قیدیوں سے نبی اکرم ۖ نے اکثریت اور خاص طور پر حضرت ابوبکر کے مشورے پر فدیہ لینے کافیصلہ فرمایا تو اللہ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ ”نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہاتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔…..”۔ ماکان للنبیٍ ان یکون لہ اسری
علماء نے اس آیت کی عجیب و غریب قسم کی تفاسیر کی ہیں جن میں علامہ رسول سعیدی کی تبیان القرآن میں کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ آیات کے ترجمہ و حالات کی حقیقت سے تفاسیر بالکل واضح ہیں۔حضرت ابوبکر نے اپنے بیٹے کیلئے نہیں بلکہ رسول اللہۖ کے چچا عباس کیلئے فدیہ لیکر معاف کرنے کا مشورہ دیا اور نبیۖ کا ایک داماد بھی ان قیدیوں میں شامل تھا۔ تاکہ نبیۖ کو اقارب کی وجہ سے فطری رنج و غم نہیں پہنچے۔ لیکن اللہ کو معلوم تھا کہ یہ فطری محبت حد اعتدال سے ہٹ جائے تو معاشرے کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام نے دیکھا کہ بگڑا ہوا لاڈلہ بیٹا غرق ہورہاہے تو اللہ سے فریاد کی اور اللہ نے فرمایا کہ وہ چیز مت مانگو جس کا تجھے علم نہیں ہے اور حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے معافی مانگ لی۔
ایک طرف تو بدری صحابہ کے دلوں کو اللہ نے چمکادیاجو فتح کا جشن منانے کے بجائے رونے دھونے ، معافی تلافی میں لگ گئے اور دوسری طرف حضرت عمر و سعد نے قتل کا مشورہ دیا تھا جس سے اقلیت کی رائے کی عظمت بڑھ گئی۔ یعنی عمل تو اکثریت کے مشورے پر ہوا لیکن ٹھیک اقلیت کی رائے قرار پائی۔ یہی تعلیم وتربیت تھی ۔ مقصد قیدیوں کو قتل کرنا نہ تھا بلکہ اقارب کی جنگ میں رعایت پر تنبیہ تھی اور صحابہ نے اپنے لئے رعایت نہیں رکھی بلکہ نبیۖ کے اقارب کی رعایت رکھی تو اللہ نے یہ رعایت سے بھی ناپسند فرمائی۔ اور اس میں حکمت کی بھی زبردست تعلیم یہ تھی کہ جن کافروں کو فدیہ دیکر چھوڑ دیا تو ان کے دلوں میں بٹھا دیا کہ اگر آئندہ غلطی کروگے تو معافی نہیں ملے گی۔ صحابہ کی ڈانٹ سے اصل مقصد ان لوگوں کو خوف دلانا تھا۔
اس تزکیہ کا اثر یہ تھا کہ خلافت راشدہ میں نبیۖ اور اپنے اقارب کی رعایت نہیں تھی۔ حضرت ابوبکر، عمر ، عثمان اور علی کی خلافت اعتدال کے اعلیٰ ترین درجہ پر تھی۔ قرآن میں فتح مکہ سے پہلے اور بعد والوں کے درجات میں فرق ہے۔ حضرت علی کے بعد حادثے کے طور امام حسن نے منصب خلافت کا عہدہ سنبھال لیا مگر خلافت سے دستبردار ہوکر حضرت امیر معاویہ پر امت کا اتفاق کردیا تھا۔
اپنے نااہل بیٹوں اور دامادوں کو راستہ دینے کیلئے یزید کی حمایت کرنے والے انتہائی بے شرم اور بے غیرت قسم کے لوگ ہیں۔ شیعہ سے کہتا ہوں کہ امیر معاویہ پر اعتراض امام حسن و حسین پر اعتراض ہے جن کی رعایت و مصالحت سے اقتدار کررہے تھے لیکن یزید کی حمایت اور امام حسین کی مخالفت میں آسمان و زمین کی قلابیں ملانے پر جاوید احمد غامدی اور دوسرے بدشکلوں سے کہتا ہوں کہ اٹھو اپنا گندہ منہ ذرا دھو لو۔ آذان کی مخالفت کرنے والے ہندؤوں سے شاعرہ لتا حیا کہتی ہیں کہ ” تم بھی صبح اٹھو اور منہ دھولو”۔
رسول اللہۖ اور صحابہ کرام نے اسلئے قربانیاں نہیں دی تھیں کہ خلافت کو بنوامیہ وبنو عباس اپنی اپنی لونڈیاں ہی بنالیں، اگر بدر کی جنگ میںامیرحمزہ و علی نے حضرت عباس کی گردن اڑائی ہوتی تو حضرت علی کی اولاد کو اسلئے محروم اور ظلم وستم کا نشانہ نہیں بنایا جاتا کہ رسول اللہۖ کے چچازاد علی کی بہ نسبت چچا عباس کی اولاد خلافت کی زیادہ حقدار ہے۔ اگر یہ شریعت ہوتی تو پھر خلافت راشدہ کس کھاتے میں جائے گی؟۔ پھر حضرت عباس کی نسبت سے حضرت عمر بارش کیلئے دعامانگنے کے بجائے خلافت پر بٹھادیتے۔
حضرت علی سے زیادہ حضرت امیر معاویہ کی اہلیت پر سستی شہرت اور حمایت کمانے والے بے شرم جاوید غامدی کو پتہ ہونا چاہیے کہ امیر معاویہ کے باپ حضرت ابوسفیان نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر سے بھی زیادہ اہل قرار دیا تھا اسلئے مدعی سست گواہ چست کی ڈرامہ بازی غلط ہے۔ لوگ جاویداحمد غامدی کا فتنہ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ قرآن کی آخری دو سورتوں کے علاوہ قرآن کی بہت ساری سورتوں کا میں نے خود کلپ سنا ہے جو پھر مل نہیں سکا ہوسکتا ہے کہ ڈیلیٹ کردیا ہو کیونکہ میں نے بہت ڈھونڈلیا۔ جس میں وہ قرآن کی سورتوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہاں تک قرآن ہے اور باقی مضمون قرآن نہیں ہے ۔ آخری دوسورتیں بھی قرآن نہیں ہیں۔ ایک طرف احادیث صحیحہ کا بے عقلی سے انکار اور دوسری طرف من گھڑت آثار کو ثابت سمجھتا ہے۔
اللہ کے فضل وکرم سے مدارس کا نصاب بھی ہم نے غلط قرار دیا ہے اور طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ کرام نے تائید بھی کی ہے ۔ جس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ،قرآن اتنا واضح ہے کہ قرآن کی وضاحتوں کو نہیں سمجھنا کم عقلی ہے اور علماء کرام نے کوشش کی ہے کہ جس معاملے کو نہیں سمجھا تو اپنی طرف سے ڈنڈی نہیں ماری ہے لیکن جب بھی درست بات سامنے آئی ہے تو اس کی تائید کردی۔ بریلوی دیوبندی اہل حدیث جماعت اسلامی اور شیعہ میں بہت لوگ قرآن کے متن کی طرف رجوع کررہے ہیں اور اس کی وجہ سے ہم امت مسلمہ اور پوری دنیا کو بحران سے نکال سکتے ہیں اور یہی ہمارا اصل مشن بھی ہے جس کی سب نے تائید کی ہے۔
اپنی ذمہ داری کا فرض کو پورا کرنا خلافت ہے۔ ایک چڑیا کو پانی پلانے کیلئے ضرورت ہو گی تو فرشتہ نہیں اترے گا اور انسان کی پکڑہوگی۔جس کی جتنی بڑی ذمہ داری اتنا بڑا مواخذہ ہوگا۔سورہ البقرہ کی آخری آیت میں یہی ہے۔
محسود مجاہد کی ہندو بیوی کا واقعہ
پیر بغدادی پیر آف وانا نے آزادی کے بعد وانا جنوبی وزیرستان میںآزادی کا جھنڈا لہرایا اور ان کی قیادت میں قبائل کا لشکر کشمیر کے جہاد میں گیا، ایک محسود مجاہد سے اس کی ہندو بیوی بھی چھین لی ۔ میرے والد پیرمقیم شاہ نے بتایا کہ اس نے مجھ سے مدد مانگی تو اس کو پسٹل دیا کہ اس کو قتل کردو اور میرے پاس آجاؤ مگر بے غیرت نے نیناواتی میں جانور ذبح کئے حالانکہ کافی سارے سانڈھ جیسے اسکے بھائی تھے۔
وزیرستان کی عوام غیرت مند ہیں مگر بے غیرت بھی ہر جگہ ہوتے ہیں ۔ پیر صاحب کا ہندو لڑکی پر دل آیا ہوگا یا پھر سوچا ہوگا کہ نازک اندام لڑکی پر لکڑیاں، پانی اور مزدوری کے مشکلات پڑسکتے ہیں اسلئے چھین لی ہوگی اور مولوی نے فتویٰ دیا ہوگا کہ امیر جہاد کا زیادہ حق بنتا ہے …..ہاہاہا
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اگست 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ